Tuesday, May 26, 2009

وعدوں سے فقط بات نہیں بننے والی

وعدوں سے فقط بات نہیں بننے والی
میم ضاد فضلی
عام انتخابات کے نتائج نے جہاں بی جے پی کے فلک بوس دعوﺅں اور قوم کی آنکھ مےں دھول جھونکنے والے بےانات کی حقےقت روشن کردی ہے وہےں چچا اڈوانی کے وزےر اعظم بننے کے خواب کو نہ صرف ےہ کہ چکنا چو رکردےا ہے بلکہ مستقبل مےں بھی ان کے لئے دہلی کی گدی نشےنی کے تمام دروازے بند کردئےے ہےں۔جب کہ کانگرےس کو اس کی امےدو ںاور دعوﺅں سے بڑھ کر قوم کی حماےت ملی ہے۔اتنی بڑی تعداد مےں ووٹروں کا تعاون اور ےوپی اے کے بےشتر لےڈران کو دہلی تک پہنچانااس بات کا واضح ثبوت ہے کہ لٹی پٹی ہندوستانی قوم کو اب ترقی چاہئے۔انہوں نے ےقےن کرلےا ہے کہ ترقی کے لئے ہمارے سنہرے بھارت کا پرامن اور فتنہ فسادات سے پاک ہونا ضروری ہے۔امن کے وجود کے بغےر ترقی کی کوئی بھی کرن وطن عزےز کی پشت پر اپنی روشنی نہےں ڈال سکتی۔موجودہ نتائج کے سلسلے میں سےاسی گلےارو ںمےں جتنی بھی ہلچل مچ رہی ہے اور انتخابات مےں ےوپی اے کی کامےابی پر سےاسی ماہرےن جتنے بھی تجزےے اور تبصرے پےش کررہے ہےں ان تمام کا لب لباب تقرےباً ےہی ہے کہ بی جے پی کو اس کے لےڈران کی آگ برسانے والی زبانو ںنے جلا یاہے۔ملک کے تقرےباً بےشتر حصوں مےں اس کی ناکامی کا اصل سبب نرےندر مودی، ورون گاندھی، آدتےہ ناتھ ےوگی، بی اےل شرما جےسے ننگ اسلاف کردارہیں۔بار بار ان نےتاﺅں کے زہرےلے بےانوں نے ملک کی بقا اور ترقی پر ڈنک مارنے کی جگہ خود اپنی پارٹی کے لئے ہی قبر کھودنے کا سامان فرہم کر دےاہے۔قصہ¿ مختصر ےہ کہ بی جے پی کو اس کی امن مخالف پالےسےاں، قوم کو تقسےم کرنے والی اسکےمےں اور ملک کو فرقہ وارانہ تشدد کی آگ مےں جھونک دےنے والی سوچوں نے پسپائی اور ہزےمت کا منہ دکھاےاہے۔بی جے پی کے پالےسی سازوں کی بدقسمتی ےہ ہے کہ انہوں نے بزعم خود ےہ ےقےن کرلےا ہے کہ وہ اگر مسلمانو ںکو گالےاں دےں گے،دےگر اقلےتوں پر فقرے کسےں گے اور اسی طرح ملک مےں نفرت کے تےر چلاتے رہےں گے تو اس سے ان کے من کی مراد پوری ہو جائے گی۔ممکن ہے ےہ ان کی مجبوری بھی ہو کہ ان کے ےہاں تےار کی جانے والی ہر پالےسی پر ناگپور کی مہر لگنی ضروری ہے۔جہاں سے قےامت کی صبح تک انہےں نفرت انگےز خےالات اور پےغامات کے علاوہ کوئی مثبت لائحہ عمل نہےں مل سکتا۔اب ےہ بی جے پی کو سوچنا ہے کہ اسے ترقی کے اس دور مےں بھی آر اےس اےس کی غلامی کا قلادہ اپنی گردن مےں ڈالے رکھنا ہے ےا سےاسی منظر نامے پر باقی رہنے کے لئے ملک کی ترقی اور خےر خواہی کے لئے منصوبے اور خاکے ترتےب دےنے ہےں۔واضح رہے کہ حالےہ انتخابات کے نتائج نے ان تمام سےاسی جماعتوں پرجوتشدد کے راستے سے اقتدارپر قابض ہونے کی تمنارکھتی ہیںےہ ظاہر کردےا ہے کہ ملک مےں آپ کی نفرت اور متعصبانہ سوچو ںکو قبول کرنے والوں کی تعداد آٹے مےں نمک برابر ہے۔ملک کا بےشتر شہری ترقی کا خواہش مند ہے اور امن اس کی زندگی کا سب سے اہم خواب۔اگر آپ قوم کے سپنو ںکا ماحول اور اس کی آرزوﺅں کا ہندوستان فراہم کرسکتے ہےں تو اقتدار پر آپ کا حق ہے ورنہ تقسےم درتقسےم کی سوچوں سے عبارت سےاست کے ساتھ دہلی کے تخت کی جانب دےکھنا اس لومڑی کاتماشا قراردیاجائے گا جس نے انگور تک رسائی نہ ہونے کے بعد مجبوراً کہہ دےا تھا کہ انگور کھٹے ہےں۔حالانکہ بھارتےہ جنتا پارٹی کے سےنئر مسلم رہنما سےد شاہنواز نے اس بات کا اعتراف کےا ہے اور مےڈےا کے ذرےعہ انہو ںنے اپنے اعلیٰ کمان پر ےہ واضح کردےا ہے کہ اگر انہےں اپنے سےاسی مستقبل کو باقی اور پائےدار رکھنا ہے تو اقلےتو ںکو ساتھ لے کر چلنا پڑے گا، نفرت انگےز بےانات اور مذہبی تشدد سے اپنے آپ کو علےحدہ کرنا ہوگا۔مگر اپنی پارٹی کے مذکورہ لےڈر کی بات بی جے پی پالےسی سازوں کے ذہن و دماغ کو اپےل کرسکے گی ےہ کہنا مشکل امر ہے۔بہرحال مذہبی بغض و عناد کے ذریعہ اقتدار کا شےش محل تےار کرنے والی بی جے پی کا جنازہ اس کے شدت پسند لےڈرو ںکے کندھے پر آچکا ہے۔ اب کانگرےس کے لئے اپنے کھوئے ہوئے وقار اور عوام کے پامال شدہ اعتماد کو بحال کرنے کے لئے ان تمام منصوبوں اور لائحہ عمل کو وجود مےں لانا ناگزےر ہو گےا ہے جس کی بنےاد پر رائے دہندگان کا معتد بہ حصہ بھےڑ کے رےوڑ کی طرح اس کے تنبومےں جمع ہو گےا ہے۔کانگرےس کو اپنے منتشر ماضی سے سبق لےتے ہوئے حال کو سدھار کر مستقبل کے لئے اپنے قدم کو بارآور اور تابناک کرنے کی فکر کرنی ہوگی۔اب نہ ماضی کا ہندوستان رہا اور نہ ےہاں کے شہرےوں مےں دور جاہلےت کا وہ بھولا پن جس کی بنےاد پر سےاسی جماعتےں انہےں اپنی سازش کا شکار کرلےا کرتی تھےں۔رائے دہندگان جاگ چکے ہےں اور تعلےم نے ان کی آنکھےں بھی کھول دی ہےں۔اب وہ ہر فےصلے اور اقدامات سے پہلے اپنے راست و چپ کا بارےکی سے جائزہ لےتے ہےں ، گفتار کو کردار کی کسوٹی پر تولتے ہےں ،عملی طو رپر مستحکم، زندہ اورپابندعہدجماعتو ںکو اپنے ووٹوںاور حماےتوںکا مستحق گردانتے ہےں۔ اب شخصےت بھی رائے دہندگان کے لئے کسی توجہ اور عناےات کا مرکز نہےں رہ سکی ہےں۔لالو پرساد ےادو، رام ولاس پاسوان،ڈاکٹر شکےل احمد،شنکر سنگھ واگھےلا، رےتا بہوگنا جوشی اور مختار عباس نقوی جےسے سےاست کے تخت و تاج کی پسپائی اور بے بسی نے ےہ ثابت کردےا ہے کہ عملی طور پر ناکام لےڈرو ںکا قد چاہے جتنا بھی بلند ہو وہ عوام کی نگاہوں مےں خاک سے بھی زےادہ اہمےت نہےں رکھتے۔ماضی مےں سےاسی جماعتو ںنے اپنے انتخابی منشور کے ذرےعہ قوم کو ےرغمال بنانے اور ان کے جذبات و اعتماد کا خون کرنے کی جو رواےت عام کی تھی اب اسے بھول جانا چاہئے۔اب قومےں زندہ ہےں اور تمام سےاسی جماعتوں کے انتخابی منشور کی اےک اےک سطروں پر ان کی نگاہےں رہتی ہےں۔اگر کسی جماعت نے اپنے منشور کو انتخابی وعدوں کے کتابچہ کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی تو اسے اس کا اتنا سنگےن خمےازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے جس کے بعد کبھی بھی معرکہ¿ سےاست مےں دو دو ہاتھ کرنے کی طاقت و ہمت ان کے اندر نہےں رہ سکے گی۔کانگرےس نے اپنے انتخابی منشور مےں ملک و قوم کی ترقی اور فلاح کے حوالے سے جتنے بھی وعدے کئے ہےں بالخصوص سچر کمےٹی کی سفارشات کانفاذ،اقلےتو ںکی معاشی و تعلےمی بہتری کے لئے اقدامات وغیرہ۔ ےاد رکھناچاہئے کہ انتخابی منشور کی ان شقوں کو اےک اےک رائے دہندگان نے رٹ لےاہے اور دور اقتدار کے پانچ برسوں مےں وہ بار بار سےاسی جماعتوں کے وعدوں کوعمل کی کسوٹی پرپرکھتے بھی رہیںگے اور عملی طو رپر لاپرواہ اور فریبی پائے جانے کی صورت مےں ان کا انتقامی جذبہ مشتعل ہو جائے گا ۔ پھر رائے دہندگان ےہ نہےں دےکھیں گے، کہ گزشتہ بار جس جماعت پر انہو ںنے اپنی توانائےاں اور حماےتےں نچھاور کی تھےں اس کا امےدوار اس بار ناکام ہو کر اسے دوہری مصےبت مےں ڈال دے گا۔جذبہ¿ انتقام سے سرشار رائے دہندگان نقصان کا سودا تو کرلےتے ہےں مگر اپنے ووٹ دھوکے بازوں کی جھولی مےں کبھی نہےں ڈالتے۔اتفاق سے 60سالہ شدائد و آلام نے ہندوستانی مسلمانو ںکو بھی خوف کی اس نفسےات سے باہر لاکھڑا کےا ہے جس کے تحت اسے فرقہ پرست طاقتوں کا خوف دلا کر سےکولر جماعتےں رام کرتی تھےں۔ مسلسل احساس کمتری کا شکار بنا کر انہےں اپنا اسےر بنا لےنے والی پالےسےو ںکو مسلمانو ںنے اب دھتکارنا شروع کردےا ہے۔اب مسلمانوں کے مطالبات امےدےں اور ان اقدامات اور منصوبوں پر ٹکی ہےں ،جہاں سے ترقےات کے درےچے کھلتے ہےں،غربت زےر ہوتی ہے اور چہرے پر خوشحالی کے آثارنمایاں ہوتے ہےں۔لہذا کانگرےس کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئندہ کے لئے اپنی زمےن ہمواراور ثمر آور بنانے کی فکر ابھی سے شروع کردے۔اس کی عدل اور انصاف پر مبنی کوششےں اور اقدامات اقلےتو ںکی بھرپور حماےتوں کو ناگزےر کردےں گی۔ ورنہ بےس سالہ دورانتظارکے بعد جواعتماد بنا ہے وہ اگر اےک بار پھر انتخابی منشور کو بالائے طاق رکھ دےنے کی وجہ سے اگر سوالات کے گھےرے مےں آگیا تو شاےد پھر سےکولر جماعتو ںکا دوبارہ اقتدار مےں آنا محض اےک خواب رہ جائے گا۔