Tuesday, October 13, 2009

فسطےنی حکمراں کی نا عاقبت اندےشیل

دنےا کے تمام دانشور اور حکماءاس بات پر متفق ہےں کہ روئے زمےن پر روز مرہ برپا ہونے والی دہشت گردی اور انسانی معاشرے مےں پھےلی ہوئی بے چےنی،اضطراب اور افراتفری کی اہم وجہ عدل و انصاف کا فقدان ہے۔ جب معاشرے کے وہ لوگ جن کے ہاتھوں مےں منصفی کا قلم ہوتا ہے اگر وہی لوگ انصاف کرتے وقت جانبداری، اقربا پروری اور قومی و ملی پہچان کی بنےا دپرجرائم کو تولنے لگے تو ےقےن کرلےنا چاہئے کہ ناکردہ گناہ کی سزا بھگتنے والا اگرچہ وقت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے ہاتھوں مےں ہتھکڑےاں ڈال لے گا ،مگر اس کے اندر پکنے والا انتقام کا لاوازہرےلا اورمزید دھماکہ خےز ہوتا جائے گا۔ بالآخر اےک دن وہی لاوا جب پھٹے گا تو دنےا ےہ سب بھول کرکہ اس جرم کا ارتکاب کرنے والا کس قدر نا انصافےو ںکا شکار رہا ہے، آلام و شدائد کے کن جہنم سے اسے گزارا گےا ہے اور ےہ سب اےک ناکردہ گناہ کے سبب ہوا ہے۔لوگوں کی نگاہ اس جانب نہےں جاتی بلکہ براہ راست اپنی آنکھوں کے سامنے انجام دئےے جانے والے جرم کو دےکھ کر انسان بےساختہ ےہ کہتا ہے کہ اس کا انجام دےنے والا وحشی ہے، درندہ ہے،دہشت گرد ہے، بنی نوع انسانےت کا قاتل ہے اور یہ صحیح بھی ہے کہ اپنے انتقام کی آگ سرد کرنے کیلئے بے گناہوں کونشانہ بنانے کی اجازت قطعی نہیں دی جاسکتی۔مگرانصاف کا تقاضہ یہ کہ فیصلے لیتے وقت ان تمام پہلوو¾ںکومد نظر رکھناچاہئے تاکہ دنیا میںامن کا بول بالاہو۔
اس وقت مشرق وسطیٰ مےں بے گناہ انسانی آبادی مےں ظلم و بربرےت کی جو تارےخ رقم کی جارہی ہے،چاہے وہ جس کی جانب سے بھی انجام دئےے جارہے ہوں، ان تمام کا سرا کہےں نہ کہےں اسی نا انصافی سے جا ملتا ہے، جس کے پاداش مےں فسادات جنم لےتے ہےں،بدامنی کا اژدہاپھن پھےلائے انسان کی طرف بے تحاشہ دوڑ پڑتا ہے اور بس اےک آن مےں آبادی کی آبادی کو اپنا لقمہ بنا لےنے کی کوشش کرتا ہے۔اگرچہ مغربی سامراج نے مظالم کی واضح ےلغار کے باوجود آج تک اسے قبول کرنے سے گرےز کےا ہے کہ مشرق وسطیٰ© مےں بدامنی کی اہم وجہ اقوام متحدہ مےں لئے جانے والے وہ فےصلے ہےں ےا امرےکہ کے ذرےعہ جاری کئے جانے والے وہ قوانےن جن سے اسرائےل کے تمام مظالم کو جواز حاصل ہوتا ہے اور اس طرح اسرائےلی فوج کے لئے مزےد وحشےانہ کھےل کھےلنے کا عزم و حوصلہ انگےز ہوتا ہے۔امرےکی پشت پناہی اور اقوام متحدہ کی سردمہری کی وجہ سے ہی اسرائےلی فوج کے حوصلے اتنے قوی ہوجاتے ہےں کہ وہ بے انتہا مظالم کا طوفان کھڑا کرنے کے باوجود اطمےنان محسوس کرتی ہے اور اسے ےہ خوف قطعاً نہےں رہتا کہ اس کی ان ظالمانہ حرکتوں پر گرفت بھی ہو سکتی ہے۔دنےا کے سامنے اسے جواب دہ بھی ہونا پڑسکتا ہے ےا انصاف کا چابک اس کی پشت پر چلاےا جاسکتا ہے۔ےہی وجہ ہے کہ 27دسمبر 2008ءکوجب کہ نئے سال کی آمد آمد تھی غزہ کی آبادی پر اسرائےلی طےارو ںنے بموں کی اتنی بارش کردی کہ چند دن کے لئے پورا شہر دھواں کی نذرہو گےا ۔آنکھےں قرےب کھڑے ہوئے شخص کو بھی پہچاننے سے قاصر رہےں اور ےہ سلسلہ اےک دو دن نہےںکئی ہفتوں تک چلا۔مشرق وسطیٰ کے اخبارات نے اموات کی روزانہ کی اطلاعات ساری دنےا کو فراہم کےں۔فلسطےنی اخبار’ الشرق‘ کے مطابق مذکورہ اسرائےلی حملوں مےں تقرےباً ڈےڑھ ہزار افراد جاں بحق ہو ئے تھے، جن مےں 25فےصد تعداد ان خواتےن کی تھی ،جن پر ہاتھ اٹھانا انسانی مذاہب مےں گناہ تصور کےا جاتاہے۔کچھ ےہی تعداد ان معصوم بچوں کی بھی تھی جن کے ہاتھوں مےں کھلونے ہوتے ہےں اور ہر ہاتھ محبت سے انہےں اٹھالےنے مےں اعزاز محسوس کرتا ہے۔مگر اسرائےلی بربرےت کا نہ تھمنے والاطوفان تمام انسانی اقدار اور اخلاقی حدود کو پےروں تلے روندتے ہوئے جاری رہا۔فلک بوس عمارتےں زمےں بوس ہو گئےں، ہزاروں باشندگان غزہ سرچھپانے کے لئے دوگز چھت سے بھی محروم ہو گئے۔اےسا نہےں ہے کہ اس دوران عالمی برادری نے اسرائےل کی مذمت نہ کی ہو ےا اسے فوری جنگ بندی کی ہداےت نہ دی ہو، اقوام متحدہ بھی منہ بھرائی کے لئے اسرائےل سے درخواست کرتا رہا ۔ مگر اسرائےلی حکمرانو ںکو ظلم و بربرےت کی وہ تارےخ رقم کرنی تھی جس سے ہٹلر کی روحےں بھی شرما جائےں۔ لہذا ساری دنےا بھونکتی رہی، انسانےت اس پر ملامت بھےجتی رہی مگر اسرائےل پر کسی کا بھی اثر نہےں ہوا۔انجام کار غزہ تباہ کردےا گےا اور اس کے جواز کے لئے اسرائےلی وزرا کی طرف سے بس اتنا کہا گےا کہ حماس کے روز روز کے راکٹ حملوں کا بس ےہی اےک علاج ہے۔غزہ کے اسپتال انسانی لاشوں اور زخمےوں سے پٹ گئے، بے شمارنہتھے شہری خاک و خون مےں غلطاں اپنے رب سے جا ملے۔امرےکہ سمےت دنےا کے اکثر و بےشتر ممالک نے فوری جنگ بندی کی تمام کوششےں کی مگر سبھی اکارت گئےں۔خدا خدا کر کے اسرائےل نے اپنے بربرےت کے اژدھے کو خموشی کا لبادہ اوڑھا کر واپس بلالےا۔ مگر عالمی برادری نے اقوام متحدہ پر دباﺅ ڈالنا شروع کردےا کہ اسرائےل کو جنگی مجرم قرار دےتے ہوئے اس کے خلاف مقدمہ چلاےا جائے اور اسے قرار واقعی سزا دی جائے۔عالمی دباﺅ کے پےش نظر تفتےشی کمےٹی بھی تشکےل دی گئی، اس کی رپورٹ بھی آئی ، جس نے اسرائےل کو جنگی مجرم قرار دے دےا ۔مگر مغرب نوازی اور امرےکہ کی پشت پناہی کی وجہ سے دنےا کی مضبوط عدالت اس کے خلاف کوئی بھی فےصلہ لےنے سے قاصر رہی۔آج پھر وہی اسرائےل بے حےائی کی حد کرتے ہوئے اقوام متحدہ کو ےہ بتانے کی کوشش کررہا ہے کہ جنگی مجرم ہمارے ساتھ حماس کو بھی قرار دےا جائے حالانکہ حماس کا دفاعی حملہ فوج پر تھا ےا اسرائےلی بے گناہ عوام پر ےہ منظر ساری دنےا نے دےکھا ہے۔دنےا نے دےکھا ہے کہ اسرائےلی فوج بھےڑےوں کے روپ مےں کس طرح انسانی آبادی پر بموں کی بارش کررہی تھےں اور نہتھے بے گناہ عوام ،بچے ،بوڑھے اور خواتےن ان کے بارود کا نشانہ بن رہے تھے۔جس کی آگ آج بھی سرد نہےں ہو سکی ہے۔ ان بموں سے زخمی سےکڑوں فلسطےنی ےا تو ہمےشہ کے لئے مفلوج ہو چکے ہےں ےا اےسے زخمی ہےں کہ آج تک انہےں شفا نصےب ہو سکی ہے۔المےہ تو ےہ ہے کہ جنوبی افرےقہ کے جسٹس رچرڈ گولڈ اسٹون کی نمائندگی والی ٹےم کے ذرےعہ تےار کی گئی حالےہ رپورٹ مےں اسرائےل کی پشت پناہی کرتے ہوئے حماس اور اسرائےل دونوں کو مشترکہ طو رپر جنگی مجرم قرار دےا گےا ہے۔حماس نے مذکورہ رپورٹ کو مسترد تو کردےا ہے مگر محمود عباس جےسے اسرائیل نواز کو ےہ قطعاً گوارہ نہےں ہے کہ وہ کسی مقام پر بھی حماس کو گوارہ کرسکے۔لہذا نہوں نے مصر مےں ہونے والے معاہدے کو ےہ الزام رکھتے ہوئے خارج کردےا ہے کہ حماس تنازعہ کو ہوا دےنا چاہتا ہے۔اس مقام پربھی محمود عباس کو اپنی جماعت کی بالادسری کی فکرنے قوم کی خیرسے بے نیاز کردیااورغلط فیصلے کی بڑھ رہے ہیں۔حالانکہ آج بھی دنےا انصاف کی راہ سے اقربا پروری ےا جانب داری کو کنارے کردے تو ممکن ہے کہ صحےح فےصلے اسرائےل اور فلسطےن کے لئے امن کا نےا باب کھول سکےں ۔