تحریر۔۔۔۔۔میم ضادفضلی
اس سال2013میں تقریبا10ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں،جن میں سے تین چھوٹی ریاستوں میں انتخابات کاعمل اپنے نتائج کیساتھ مکمل ہوچکاہے،باقیماندہ ریاستوں میں بھی اوائل اکتوبر تک انتخابات کاعمل مکمل ہوناہے۔اس سال انجام پذیرہونے والے انتخابات کے نتائج جہاںآئندہ 2014 میں ہونے والے عام انتخابات میںیوپی اے،این ڈی اے اوردیگرغیراتحادی جماعتوں کامستقبل بھی طے کریں گے، وہیں کانگر یس کی غریب دشمن پالیسیوں کے نتیجے میں ٹوٹ چکے ملک کے 80فیصدباشندوںیعنی غریبوں اور مزدوروں کو کانگریس سے اپناحساب کتاب برابر کرنے کاموقع بھی فراہم کریں گے۔ بہرحال ہمیںآج ہندوستان کے اس طبقہ کے حوالے سے گفتگوکرنی ہے جسے نام نہادسیکولر جماعتیں اپنازرخریدغلام تصورکرتی ہیں اورانہیں اطمینان رہتاہے کہ ایک عددمخلص قائداوررہنماسے محروم مسلم طبقہ محض ایک فرقہ ورانہ فسادکے خوف سے ہی سہم جائے گااوربھیڑکے ریوڑکی طرح صف بستہ ہوکران کی جھولی میں اپنے ووٹ ڈالنے پرمجبورہوجائے گا،آزادی کے بعدملک بھرمیں لگ بھگ انہیں خطوط پرکانگریس بشمول دیگر سیکولر جما عتیں کاربندرہی ہیں۔زیرنظرمضمون میں کانگریس پارٹی کاجائزہ لیاجارہاہے دیگرسیاسی جماعتوں کی حیثیت علاقائی نوعیت کی ہیں،جبکہ کچھ سیاسی جماعتوں کے شعبدہ بازسربراہوں کے فریب کاگھڑاپھوٹ چکاہے اورانکی چال بازیوں کوخصوصامسلم رائے دہندگان نے متعددبارمواقع فراہم کرکے بحسن وخوبی سمجھ لیاہے۔کانگریس کادعویٰ ہیکہ اسکی حیثیت ایک قومی پارٹی کی ہے،لہذامناسب معلوم ہوتاہے کہ آج کی تحریرمیں صرف کانگریس پارٹی کی بات کی جائے،تاکہ قارئین کوہماری معروضات کے سمجھنے میں کسی قسم کاجھول محسوس نہ ہو اورمضمون کے گڈمڈ ہونے کااندیشہ بھی دامن گیرنہ ہو۔قارئین!ہم 47سے مسلسل دیکھتے آرہے ہیں کہ اقلیتوں کے تعلق سے کانگریس پارٹی نے ہمیشہ دوہراپیمانہ اختیارکیا ہے،مسلمانوں کی ترقی اورفلاح وبہبودکے معاملے میں کانگریس ہمیشہ قول وعمل کے تضاد کا شکاررہی ہے،چاہے وہ صوبائی یاریاستی ایوانوں میں اقلیتوں کومناسب نمائندگی دینے کامسئلہ ہویاسرکاری ادار و ں میں ان کیلئے روزگارکی فراہمی کا۔یہ لٹی پٹی قوم ہرمحاذپرنظراندازکی گئی اوراس کی گذارشوں اور مطالبو ں کو پا یے حقارت سے ٹھکرایاجاتارہا۔کانگریس پارٹی میں فرقہ پرست عناصرکاغلبہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے،کانگریس کوجہاں کوئی سیکولرلیڈرنہیں ملتاتوبی جے پی سے امپورٹ کرلیاجاتاہے ،مثال کے طورپرآپ شنکرسنگھ واگھیلاکی تاریخ پڑھ سکتے ہیں۔مجھے یادآتاہے 30جنو ری 1948کاوہ بھیانک واقعہ جس کے نتیجے میں بابائے قوم مہاتماگاندھی کوموت کی نیندسلادیاگیااورجس دہشت گردی نے چشم زدن میں پورے ملک کو یتیم کردیاتھا، میں بتانایہ چاہ رہاہوں کہ اگرایک طرف بابائے قوم مہاتماگاندھی کوقتل کرنے کیلئے آرایس ایس کی ناپاک ذہنیت لائحہ عمل مرتب کررہی تھی تودوسری جانب خودکانگریس میں شامل کچھ انسانیت دشمن عنا صراس منصوبہ کوپایہ تکمیل تک پہنچانے میں حائل رکاوٹیں دورکرنے کافریضہ اداکررہے تھے۔ بالاٰخر مہا تما گا ند ھی قتل کردئے گئے،اس کے بعدبھی کانگریس میں شامل فرقہ پرست عناصرکی نفرت کی آگ سرد نہیں ہوئی، جواہر لال نہروسے وابستہ کانگریسی گاندھی کے قاتلوں کو عبرتنا ک سزادلانے کی تگ ودومیں لگے تھے توکانگریس میں ہی شامل دوسراطبقہ قاتلوں کوبچانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا تھا ۔یہ تورہی ایڈین نیشنل کانگریس میں فرقہ پرست عناصرکے غلبہ کی باتیں۔اب آئیے سرسری طورپرکانگریس پارٹی کے دعوائے مساوات اورکانگریس کاہاتھ عام آدمی کے ساتھ جیسے نعروں کی حقیقت کاپتہ لگائیں کہ اس نعرے میں کچھ سچائی بھی ہے یایہ غریبوں کوجذباتی طورسے بلیک میل کرنے کااجارہ داروں اورسرمایہ کاروں کامنصوبہ بندفریب ہے۔اس سلسلے میں مناسب معلوم ہوتاہے کہ سب سے پہلے کانگریس کی تشکیل اوروجودکے ابتدائی حالات کوجاناجائے ،تاکہ کانگریس کے عام آدمی کی پارٹی ہونے کی حقیقت بآسانی سمجھ میںآجائے۔قارئین!کانگریس کی تشکیل 1885میں انگریزی داں ہندوستانیوں کے کلب کے طورپرہوئی تھی۔کلب کی رکنیت اعلی تعلیم یافتہ رئیسوں زمینداروں اورانگریزی حکومت میں شامل سینئرافسروں تک ہی محدودتھی۔اس دعویٰ کواحمقانہ تاویل ہی کہاجائے گاکہ کانگریس پارٹی میں امیروغریب اوراعلیٰ وادنیٰ کوبلاامتیازمقام حاصل تھا۔کلب والے ماحول میں غریبوں کی شمولیت کی باتیں اپنے آپ میں خودہی ایک مذاق ہے۔یہ تصورسے بھی بالاترہے کہ جس تنظیم کی تشکیل رؤسائے وقت کی تفریح طبع کیلئے ہوئی ہو۔وہاں غریبوں مزدوروں کوکھڑاہونے کی اجازت رہی ہوگی؟جبکہ تاریخی صداقت یہ ہے کہ اس وقت جاگیردارنہ اورزمیندارانہ ماحول میں کمزوروں،بے بسو ں اور مفلوک الحال انسانوں کو پالتو جا نو رو ں سے بھی ہیچ سمجھاجاتاتھا۔یہاں ہمارے پاس ان حقائق کاتاریخی ثبوت پیش کرنے کی گنجائش نہیں ہے،ہم توصرف اس پہلوپرروشنی ڈالناضروری سمجھتے ہیں جوہماری آج کی تحریر کا مقصدہے۔میں نے عرض کیاہے کہ کانگریس کاقیام امرائے ہندکی تفریح طبع کیلئے ایک کلب کی شکل میں ہوا تھا، کلب کے ماحول میں غریبوں کے داخلے کے دعوے کوتاریخ کے ساتھ عصمت دری کے علاوہ اورکہابھی کیا جاسکتاہے۔اگرقسمت سے کسی ایک آدھ کواس کلب میں شرکت کا زریں موقع مل گیاہوتویہ ممکن ہے،مگرمجموعی طورسے اس جماعت پرغلبہ امرائے ہندکاہی رہاہے۔ امیروں کوغریبوں مزدوروں سے ہمیشہ نفرت رہی ہے ، ہمیشہ دھنوانوں نے غریبوں کی ہڈیوں کاسرمہ بناکراپنی آنکھوں کوزینت بخشی ہے۔
آج مسلمانوں کی تباہی وبربادی اورپسماندگی کاجورونارویاجارہاہے اورمسلمانوں کی ترقی کیلئے بڑے شہروں کے فائیواسٹارہوٹلوں میں نام نہاد ملی رہنماؤں کے ذریعہ جومجلسیںآراستہ کی جارہی ہیں اس کی حقیقت بس اتنی ہے کہ یہ ساری مٹنگیں خودکانگریس یاکسی نہ کسی سیکولرجماعت کی عنایتوں کے طفیل منعقد ہوتی ہیں۔اس میں شرکت کرنے والے عناصرکرایے پربلائے گئے ہوتے ہیں اورمیٹنگوں کے کنوینروہ لوگ ہوتے ہیں جوکئی پشتوں سے مسلم اقلیتوں کیلئے دیے جانے والے فنڈکواپناموروثی مال سمجھے بیٹھے ہیں۔اگرآپ سروے کریں تو اندازہ ہوگاکہ ہندوستان کے 30کروڑمسلمانوں کی فلاح وبہبودکیلئے دی جانے والی خطیررقم مصیبت زدہ ،بے بس اورانتہائی مفلوک الحال غریبوں کی ترقی اوربھلائی میں استعمال ہونے کی بجائے چندجاہ پرست صاحب جبہ ودستارکی جیبوں میں چلی جاتی ہے۔ مختصریہ کہ ملک کی مسلم اقلیتوں کے 98فیصدآبادی کی پسماندگی دورکرنے کیلئے دی جانے والی مرکزکی رقم پرصرف ان 2فیصدسفیدپوش مسلم نماایمان فروشوں کی اجارہ داری ہے جن کے آباء واجدادکل غلامی کے عبرتناک دورمیں بھی انگریزی آقاؤں کی مہربانیوں سے لطف اندوزہورہے تھے اورآزادی کے بعدملک میں سوراج کے قیام کے بعدبھی اقلیتوں کی فلاح وترقی سے متعلق تمام اسکیمیں اوررقوم انہیں کی مٹھیوں میں قیدہیں۔بعدکے ادوارمیں چنددوسرے مسلم خاندانوں کو بھی لٹیروں کے اس قافلہ میں شامل ہونے کاموقع ملا،مگران کی تعدادآٹے میں نمک برابرہے۔ اگرآپ عقیدت اوراندھی اردادت مندی کی عینک اتار کر حا لات کاجائزہ لیں تواندازہ ہوگاکہ ملک بھرمیں جن خاندانوں کے چشم وچراغ آج ہندوستان کے مسلما نوں کی بے سروسامانی اورپسماندگی کارونارورہے ہیں انہیں اوران کے اجدادکوشاہانہ اورپرتعیش زندگی ہمیشہ حاصل رہی ہے۔یعنی حالات کی ستم ظریفی کارخ کبھی ان کے گھرکی جانب نہیں ہوا۔تقسیم وطن کی قیامت خیزی میں بھی وہ مامون ومحفوظ رہے اور47سے لے کرآج تک ملک بھرمیں برپاکئے جانے والے فرقہ ورانہ فسادات میں بھی مسلمانوں کایہ طبقہ اپنی تمام عیش وعشرت کیساتھ حکومت کی پناہ میں بے خوف ومامون رہااورمسلمانوں پرٹوٹنے والی ہرقیامت کے بعدمنصوبہ بندطریقے سے انہیں مظلو مو ں کی لاشوں پر سیاست کرنے کاموقع فراہم کیاگیا۔ یہ ساراکھیل نام نہادسیکولرجماعت یعنی کانگریس کے ذریعہ کئی دہائی سے کھیلاجارہاہے۔کانگریس پارٹی میں شامل مسلم لیڈروں کوسب کچھ دیکھتے ہوئے خاموش رہنے کی ہدایت ہے۔یعنی انہیں اس سے قطعی مطلب نہیں ہوناچاہئے کہ ان کی پارٹی میں موجود فرقہ پرست عناصر کیا کررہے ہیں۔اگرانہیں شاہانہ ٹھاٹ باٹ اورعیش وعشرت سے مالامال زندگی کی ضمانت چاہئے تووہ بس خاموش رہیں اورتما م فرقہ ورانہ فسادات کے بعد ایک ایجنٹ کی طرح پارٹی کی کالی شکل پرملع سازی کاکرتب د کھاتے ہوئے مسلمانوں کوالوبناتے رہیں۔اگرکسی نے فرقہ پرستوں کی جانب انگلی اٹھانے کی جرأت کی تواسے عبدالرحمن انتولے کی طرح پارٹی سے ہمیشہ کیلئے فارغ کردیاجاتاہے۔عبدالرحمن انتولے کو سادھوی پرگیہ کی دہشت گردی کے انکشافات کے بعدزبان کھولنے کی سزافوراً دیدی گئی تھی۔
قارئین !میں نے اوپرعرض کیاہے کہ ملک کی اقلیتوں کی فلاح وبہبودکیلئے مرتب کردہ تمام اسکیموں پر پورے ہندوستان سے جمع کرکے کانگریس نے محض چندمسلم خاندانوں کامکمل تسلط قائم کردیاہے، تاکہ ملک بھرکے مسلما نوں کی بہتری کیلئے کسی بھی قسم کے اقدامات کی عملی کوشش نہ کرنی پڑے،بلکہ انہیں چندخاندانوں کوبہرہ مند کر کے پورے ملک کے مسلمانوں کی واہ واہی بٹورلی جائے۔اگرکانگریس پارٹی اپنے قول وعمل میں تضادکاشکارنہ ہوتی توان کے خاندانوں کے چشم وچراغ کے آگے ایسے مسلم لیڈروں کی تلاش بھی کی جاتی جوخاندانی اعتبا ر سے چاندی کاکٹورامنہہ میں لیکرپیدانہ ہوئے ہوں،بلکہ انہوں نے اپنی قوم کودرپیش مصائب وآلام کابذات خودسامناکیاہواورقوم کی بھلائی وخیرخواہی کے نیک جذبہ نے انہیں عملی طورپرسرگرم ہونے کیلئے بے چین وبے قرارکررکھاہو۔مگرملت اسلامیہ ہندکاالمیہ یہ ہے کہ یہاں مسلمانوں کی اکثریت ہمیشہ غربت وافلاس کا سا ما ن رہی ہے۔بادشاہوں اورنوابوں کے دورمیں بھی مٹھی بھرزمین داروں نے غریب ہندوستانی مسلما نو ں کا لہو اپنے لئے حلال کررکھاتھااورآزادی کے بعددونوں طرف انہیں مٹھی بھرخاندانوں کے ہاتھوں میں کروڑوں مسلما نو ں کی تقدیرتھمادی گئی۔تقسیم شدہ ہندوستان کے دونوں جانب دیکھ لیں اگراس کنبہ کے کچھ فردہندوستانی سیاست میں سرگرم رہے تواسی خاندان کے کچھ شعبدہ بازوں نے سرحدپارجاکرسیاسی دکانیںآراستہ کرلیں اور دنیاکی تما م ترقیات کوصرف اپنے لئے فرض کرکے بیٹھ گئے۔ہم کوشش کریں گے کہ ان حقائق کومدلل طریقے سے آپ کے سامنے رکھ سکیں جس سے بات ہندوستان کے بھولے بھالے مسلمانوں کی سمجھ میںآجائے کہ کس طرح وہ اس وقت کانگریسی دلالوں کے چنگل پھنسے ہیں اورکس کس طرح انہیں خریدااوربیچاجارہاہے۔ہم اپنی مقدور بھر کوشش یہ بھی رہے گی کہ چھان بین کرکے ان خاندانوں کے چہروں کوبھی بے نقاب کیاجائے جنہوں نے مسلمانوں کی فلاح سے متعلق منصوبوں کوسرکاری ٹھیکہ کے طورپرحاصل کررکھاہے۔