دہلی جےسے بڑے شہروں مےں خوش قسمتی سے جسے عالمی شہروں کی صف مےں عنقرےب جگہ ملنے والی ہے عموماً اےک بات کا رونا روےا جاتاہے کہ ہمارا شہر تمام کوششوں کے باوجود غلاظت سے پاک ہونے مےں ہمےشہ ناکام رہتا ہے۔آخر اس کی وجہ کےا ہے؟اےک اندازے کے مطابق ےومےہ سو ملےن ٹن کچڑے ےا فضلے انسانی آبادی مےں جمع ہو جاتے ہےں،ےہ جائزہ 2005ءکا ہے۔ممکن ہے کہ مذکورہ تخمےنہ مےں مبالغہ بھی ہو مگر اس سے انکار ممکن نہےں ہے کہ شہر کی بےشتر آبادےاں تمام کوششوں اور اہتمام کے باوجود کوڑا کرکٹ کا ڈھےربنی رہتی ہےں۔
قابل غور ےہ ہے کہ شہر کو غلاظتوں کے انبار مےں ڈھکےلنے کا ذمہ دار کون ہے؟اور کس کی وجہ سے حکومت کی صفائی کی تمام کوششےں ناکام ثابت ہو جاتی ہےں۔ عام طور سے ذرائع ابلاغ اور ملک کے امرا و شرفا شہروں کی غلاظت اور گندگی کی تمام تر ذمہ دارےاں ملک کے غریب ومزدور طبقہ پر براہ راست ڈال دےتے ہےں۔حالانکہ حقےقت ےہ ہے کہ ان غرےبوں کی جےبوں مےں دن بھر کی مشقت کے بعد بمشکل ہی اتنے پےسے آپاتے ہےں جس سے ان کی دو وقت کی روٹی کا مسئلہ حل ہوتا ہے۔اےک مزدور کی ےومےہ آمدنی کمر توڑ گرانی کے اس دور مےں بھی ڈےڑھ سو دو سو روپے سے زےادہ نہےں ہوتی۔سوچئے جس شخص کی آمدنی پےٹ بھرنے کے لئے بھی ناکافی ہو وہ اپنے بچوں کو دن بھر مےں لےزواسنیکس جےسی دےگر خوردنی اشےا کی درجنوں پیکٹیںکہاں سے دے سکتا ہے۔ گندگی پھےلنے کی اہم وجہ شہروں مےں پلاسٹک پےکنگ مےں بکنے والی اشےا قرار دی جاتی ہےں۔ دہلی مےں کم از کم لےز اور دےگر پےکنگ مےں بکنے والی چےزوں کی روزانہ دس لاکھ پےکٹےں فروخت ہوتی ہےں۔شرفاءاور امراءکے بچے عموماً دن مےں دس سے بارہ پےکٹ ہڑپ جاتے ہےں۔ صبح و سوےرے آنکھ کھلتے ہی پاش کالونےوں مےں دودھ کی ہزاروں پےکٹےں پہنچتی ہےں۔ےہاں غرےبوں کی ےہ حالت ہے کہ ان کے ماﺅں کی چھاتےوں مےں بھی دودھ نہےں ہے، مہنگائی نے ان کے سےنے کا دودھ بھی چھےن لےا ہے۔جن ابھاگنو ںکو پےٹ بھرنے کےلئے خشک روٹی بھی بمشکل نصےب ہوتی ہو وہ اپنے بچو ںکا گلا دودھ سے تر کرنے کی سوچ بھی سکتے ہیں؟یقینانہیں۔ البتہ ان غرےبوں کا کام ےہ ہے کہ ان کے بچے صبح سوےرے اسکولوں کا رخ کرنے کی بجائے اپنی پشت پر پلاسٹک کی اےک بوری ڈال کر ان روساءکے محلوں کے آس پاس کا چکر لگاتے ہےں اور ان کی کھڑکےوں سے پھےنکی ہوئی پےکٹوں کو جمع کر کے شرفاءکی ذلالت کو اپنی بورےو ںمےں چھپالےتے ہےں۔ان کھڑکےوں کے نےچے انہےں پلاسٹک کی پالےتھن، پانی کی بوتلےں اور بچو ںکی مرغوب بازاری اشےائے خوردونوش کے پھےنکے ہوئے دونے و ڈبے مل جاتے ہیں،جنہیںوہ ےکجا کر کے واپس آجاتے ہےں۔ان جمع شدہ وےسٹےج کو بڑے کباڑی اونے پونے بھاﺅ مےں ان سے خرےد لےتے ہےں۔ کبھی پلاسٹک کی بوتلےں اےک روپے کلو تو پلاسٹک کی تھےلےاں دو روپے کلو اور دےگر کاغذ کے ڈبے و دونے اسی طرح روپے دو روپے کلو بےچ کر چند روپے اپنی جےب مےں پڑتے ہی ےہ غرےب آسمان کی جانب تشکرانہ نگاہ اٹھائے اپنے گھروں کو واپس لوٹ آتے ہےں۔انہےں ےقےن ہو جاتا ہے کہ آج ان چند روپوں سے اس کے گھر کے سرد چولہے گرم ہو جائےں گے اور خشک روٹی ان کی بھوک کی ضرورت بھی پوری کردے گی۔قابل ذکر ہے کہ اگر معاشرے مےں کوڑے اٹھانے والے غرےبوں کے ےہ بچے نہ ہوتے تو ان پاش کالونےوں کے مکےنوں کا کےا ہوتا؟ چمکتی دمکتی ان کی بستےاں غلاظت اور تعفن کی وجہ سے جہنم کا روپ دھار چکی ہوتی۔ےاد آتا ہے گزشتہ سال 15اگست کے موقع پر قم الحروف کناٹ پےلس کے اےک چوراہے پر کھڑا ہوا تھا،اسی اثنا مےں اےک سرخ رنگ کی انووا ENOVA))سنسناتی ہوئی سامنے آئی اور لال بتی کی وجہ سے وہےں ٹھہر گئی۔نصف سے زےادہ برہنہ دوشےزہ نے جو خود گاڑی چلا رہی تھی اپنے بےگ سے چند کےلے نکالے اور کھانے لگی، جےسے ہی لا ل بتی ہوئی اس نے چھلکے کو اسی جگہ ڈال دےا اور گاڑی اسٹارٹ کر کے آگے بڑھ گئی۔سگنل بند ہونے کے بعد پےدل آنے والا اےک مسافر سڑک پار کرتے ہوئے اس چھلکے کی زد مےں آگےا اور پےر پھسلتے ہی اسی جگہ ڈھےر ہو گےا۔ اس کی ناک مےں چوٹ آئی اور خون کے فوارے ابلنے لگے۔راہگےروں نے اسے اٹھا کر کنارے رکھ دےا۔ جب تک اسے اسپتال لے جانے کا انتظام ہوتا وہ بے ہوش ہو چکا تھا۔حالانکہ اس جگہ ٹرےفک پولس والے بھی کھڑے تھے مگر ان کی ذمہ دارےاں راہ گےروں کی مدد سے زےادہ جائز ناجائز چالان کاٹ کر پےسے بٹورنے کی ہوتی ہےں۔لہذا اس نے غرےب مسافر کی طرف کوئی توجہ نہےں دی۔ قصہ¿ مختصر ےہ کہ اےک وی آئی پی کی مذموم حرکت کی وجہ سے اےک آدمی کی جان کے لالے پڑگئے۔آپ بھی اس طرح کے منظر عموماً دےکھ سکتے ہےں، آپ دارالحکومت کی کسی اےسی شاہراہ پر کھڑے ہو جائےں جہاں سے شہر کے شرفاءلےڈران اور امراءکا گزر ہوتا ہے۔ آپ دےکھےں گے کہ فراٹے بھرتی ہوئی گاڑےوں سے پانی کی خالی بوتلےں کُرکُرے اور اسنےکس کی پےکٹےں سرعام پھےنک دی جاتی ہےں اور گاڑی اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہتی ہےں۔ذرا سوچئے ان کاروں اور عالی شان گاڑےوں کے مسافر کون ہےں؟کےا شہر کے مزدور، غرےب اور مفلوک الحال طبقے ےا وہ لوگ جوپوری دنےا مےں اپنی شرافت اور برتری کا ڈنکا پےٹتے ہےں۔حالانکہ سڑک پر جابجا پھےنکے ہوئے کےلوں کے چھلکے اور دےگر پھسلن والی چےزوں سے سرعام ہونے والے حادثات کا کوئی جائزہ حکومت کے پاس نہےں ہوگا اور نہ کوئی اےن جی او اس جانب توجہ دےتی ہے۔اگر سروے کےا جائے تو دہلی مےں سڑک حادثات کی اکثر وجوہات ےہی چےزےں ہےں جو شرفاءاپنی گاڑےوں سے گزرتے ہوئے سڑک پر ڈال دےتے ہےں۔ان دنوں شہر مےں بھنڈارے کا دور دورہ ہے، خود جہاں پہ ہم قےام پذےر ہےں اس کے قرب و جوار مےں تقرےباً دسےوں مقامات پر شری رام چندر کی توقےر اور حصول برکت کے لئے بھنڈارے ہو رہے ہےں۔ مگر بھنڈارے مےں کھانے کے لئے دئےے جانے والے دونے اور کاغذ کی پلےٹےں بےچ سڑک پر ڈالی جارہی ہےں، جس سے ماحول پراگندہ ہوتا ہے اور علاقہ تعفن کی وجہ سے بےمارےوں کا گڑھ بننے لگتا ہے۔اب ان سے کون پوچھے کہ اےک طرف تو آپ پنّےہ کمانے اور شری رام چندر جےسے اوتار کو خوش کرنے کے لئے غرےبوں مےں کھانے تقسےم کررہے ہےں اور دوسری طرف غلاظت پھےلا کر معاشرے کو بےمار کرنے کا انتظام کررہے ہےں، ےہ دنےا کے کس اوتار کی تعلےم ہے؟کےا شری رام چندر جی نے اپنے ماننے والوں کو اسی طرح گلےو ںاور سڑکوں پر کوڑے پھےلانے کی تعلےم دی ہے؟ ہرگز نہےں!انہو ںنے تو ہمےشہ اس بات کی تلقےن کی کہ ”سوچھےہ“رہو بےمارےوں سے دور رہو گے بلکہ ہندو دھرم کی کتابےں تو ےہاںتک کہتی ہےں کہ ”سوچھّتہ مےں بھگوان کا نواس ہے۔“مذہب اسلام نے بھی اپنے ماننے والوں کو طہارت کی تعلےم دی ہے بلکہ پےغمبر اسلام نے تو طہارت کے تعلق سے ےہاں تک فرمایا ہے کہ ”پاکی نصف اےمان ہے“(مسلم شرےف،برواےت ابو موسیٰ اشعری)قرآن پاک مےں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ” اللہ توبہ کرنے والوں اور پاکےزگی اختےار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔“ (البقرہ:آےت نمبر،222)
اب آپ ہی انصاف کےجئے کہ شہر مےں کوڑا کرکٹ پھےلانے کا اصل ذمہ دار کون ہے؟آپ نے مندرجہ بالا تفصےل سے ےقےنا ےہ سمجھ لےا ہوگا کہ ےہ پاش کالونےوں کے مکےن اور ملک مےں روزانہ صفائی کے تعلق سے بڑے بڑے جلسے جلوس مےں چےخنے چلانے والے ےہ خوبصورت لوگ اگر قول سے زےادہ عمل پر ےقےن رکھتے تو شاےد آج ہمارے شہر کی ےہ حالت نہ ہوتی اور ہمارے گھربےمارےوں کی آماجگاہ بھی نہ ہوتے۔اس مقام پر ےہ بات بھی افسوسناک ہے کہ کوڑے کرکٹ غرےبوں کے محلوں مےں عام طور سے زےادہ اس وجہ سے ہوتے ہےں کہ بلدےہ کی صفائی کا محکمہ خصوصاً ان علاقوں پر زےادہ توجہ دےتا ہے جہاں شہر کے امراءاور روساءسکونت پذےر ہےں، ان محلوں اور علاقوں مےں دن مےں کئی کئی بار صفائی کا اہتمام کےا جاتاہے، مگر غرےبوں کے محلے مےں اگر اےک گٹر کا ڈھکن کھل جائے ےا سےور لائن کہےں سے ٹوٹ جائے تو اس کی مرمت مےں کئی کئی مہےنے صرف ہو تے ہےں۔ بلکہ ےوں کہا جائے تو زےادہ مناسب ہے کہ کھلے ہوئے گٹر کے ڈھکنوں کو مہےنوں ےوں ہی چھوڑ دےا جاتا ہے اور اسے بند کرنے ےا اس کی مرمت کرنے کی طرف حکومت ےا متعلقہ شعبہ کے افسران کی توجہ نہےں ہوتی۔اگر روساءکی کالونےوں کی طرح حکومت ان غرےبوں کے محلوں کی صفائی اور دےکھ رےکھ کا وہی اہتمام کرے تو پورے اعتماد کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ یہ محلے بھی روساءکی کالونےوں سے زےادہ صاف شفاف اور پرسکون نظر آئےں گے، جہاں بےمارےاں بھی بمشکل اپنے ڈےرے جما سکےں گی۔
9312017945