Wednesday, May 27, 2009

ہم کب تک اپنی قبر آپ کھودیں گے؟

ہم کب تک اپنی قبر آپ کھودیں گے؟
میم ضاد فضلی
آزادی کو تقریباً62سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس درمیان وطن عزیز نے فرقہ وارانہ فسادات اور ایک دوسرے کو زیر کردینے کے اس قدر تاسف ناک واقعات دیکھے ہیں جسے کسی بھی جمہوری نظامِ حکومت کے لیے مناسب اور جائز قرار نہیں دیا جا سکتا ۔زمام حکومت نے کارفرما عناصر کی جانب داری اور عصبیت سے معمور طرزعمل نے متعدد مقامات پر ملک کو رسوا کرنے کا کارنامہ انجام دیا ہے۔ کہیں سوچی سمجھی سازش کے تحت مسلم اقلیت کو ذلت وپستی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈال دینے کی کوشش کی گئی تو کہیں انہیں غربت ویاس میں زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا۔جمہوری منظرنامہ کا قابل غور سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوا اور ملک کی ایک بڑی اقلیت کو اس قدر پستی میں ڈال دینے کی کوششیں بار آور کیسے ہوئیں۔ اسی کے ساتھ ان عواقب و احوال کو بھی جاننا بے حد ضروری ہے۔ جس سے ایک زندہ قوم کی آنکھیں کھولتی ہے اور مستقبل میں سبک گام ترقی کی جانب دوڑ پڑنے میں مدد ملتی ہے۔ اس سلسلہ کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوںکا سب سے پہلے اس جانب توجہ کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ جہاں پہنچنے کے بعد اس کے لیے اپنی منزل آپ تلاش لینے کی راہیں آسان ہوتی ہےں۔مختصر یہ کہ مسلمانوں کو مختلف تمام پارٹیوں نے تقسیم کرکے بے وزن کردینے کی مذموم کوشش کی گئی ۔ مسلم دشمن عناصر کو اپنے اس مقصد کی تکمیل کے لیے ایسے افراد دستیاب ہو گئے جنہیں عہدہ ومنصب کے بدلے پوری ملت کو برباد کر دینا گوارہ تھا۔ منافقین کا یہ طبقہ جو پوری طرح اسلام دشمن طاقتوں کا تربیت یافتہ تھا۔ اس نے مسلمانوں کو بآسانی یرغمال بنانے لینے میں اپنی پوری توانائی صرف کر دی اوراس طرح اسے وہ کامیابی ہو گئی جو ان کے آقاﺅں کی ہدایات پر ضروری تھی۔ نتیجہ کار مسلمان اتنے خانوں میں تقسیم ہو گئے کہ ان کی بہتر تعداد کے باوجود سیاسی جماعتوں کے لیے ان کی حیثیت کسی توجہ کے قابل نہیں رہ سکی۔ پارلیمنٹ میں مسلم نمائندگی کے فقدان نے اسلام دشمن عناصر کو ہر وہ کام کرنے اور ہمارے کے خلاف سازشیں تیار کرنے کا پورا موقع فراہم کیا جو پارلیمنٹ میں ہمارے وجود ساتھ ان کے لیے کبھی بھی ممکن نہیں ہو سکتا تھا۔ دنیا جانتی ہے کہ تمام قوم کے ترقیاتی منصوبے اور پروگرام پارلیمنٹ یا ایوان میں ہی ترتیب دیے جاتے ہیں۔ اگر اسی خاص مقام پر ہمارا وجود نہیں رہا تو پھر ہمیں مٹا دینے میں سرگرم طاقتیں کیا کیا گل کھلائیں گی اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ اسلام دشمن طاقتوں کی سازش نہایت پرانی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ وہ اس قدر مضبوط ہو چکی ہے کہ اب اس سے بچ پانا آسان نہیں ہے۔ ہمارا آپسی اختلافات اور خاندان وطبقاتی جنگ ان کی آنکھوں میںآچکا ہے، انہوں نے محسوس کر لیا کہ مسلمانوں کو آپس میں دست وگریباں رکھنا اتنا ہی آسان ہے جتنا کسی جیب کترے کے لیے غافل کی جیب خالی کرنا، انہیں آپس میںٹکرا دو، یہ آپسی جنگوں میں اتنے ماہر ہےں کہ ایک بار محاذ آرا ہونے کے بعد انہیں اس وقت تک ہوش نہیں ہوتا جب تک کہ ان کی کئی کئی نسلیں تباہ نہ ہو جائیں۔پارلیمنٹ میںہماری نمائندگی میں آج تک ہزار کوششوں کے باجوود اضافہ نہ ہونے کی اہم وجہ یہی ہے ۔حقیقت یہی ہے کہ آج ہم ملک کی تقریباً 100سیٹوں پر اتنی تعداد میں ہیں کہ اگر ہم نے اتحاد سے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کر لیا تو کم از کم 80سے 90ممبران پارلیمنٹ کو ایوان میں بھیجنا ہمارے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل ہو سکتا ہے۔مگر برا ہو ناعاقبت اندیشی کا اور حرص وہوس میں غرق کالے لوگوں کا جنہوں نے کسی فلم کے ویلن کی طرح یہ طے کر لیا کہ اپنی دنیا آباد ہوتی رہے چاہیں اس کے بدلے میں اسے پوری ملت کو تباہ کر دینا پڑے۔وہ اس کے لیے ہمیشہ مستعد اور سرگرم رہتے ہیں کہ کسی طرح ان کا بھلا ہو اور ملت تباہی کے اس دہانے تک پہنچ جائے جہاں سے نجات کی ساری راہیں اس کے لیے ختم ہو جاتی ہوں۔ جائزہ کے طور پر صرف اتر پردیش کو ذہن میں رکھیں اور غور کریں کہ ملک کی اس بڑی ریاست میں میں لگ بھگ 20 پارلیمانی حلقے ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کی تعداد 25سے 50فیصد کے درمیان ہے۔ مگر افسوس ہے کہ ہماری قوم عام انتخابات کے زمانہ میں فرقہ پرست طاقتوں کی سازشوں کا شکار ہو کر اپنے ووٹوں کو برباد کر لیتی ہے اور اس طرح دشمنوں کو بآسانی کامیابی مل جاتی ہیں۔گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں ریاست کی 12سیٹوں پر مسلم امیدوار دوسرے نمبر تھے اور ان کے بالمقابل وہ لوگ کامیاب ہو ئے جنہیں پارلیمنٹ میں پہنچ کر مسلمانوں کی تباہی کے منصوبے ترتیب دینے ہیں۔ مذکورہ حلقوں میں دوسرے نمبر پر رہنے والے مسلم امیدوار کی ہزیمت کا فاصلہ کہیں کہیں محض 5ہزار کے اندر ہے۔کچھ ایسے امیدوار بھی ہماری کج فہمیوں کی وجہ سے دوسرے نمبر پ رہے جنہیں 20ہزار ووٹ مزید مل گئے ہو تے تو پارلیمنٹ میں ان کے لیے کرسی مخصوص کر دی گئی ہوتی۔ پوری ریاست میں صرف گیارہ مسلم امیدواروں کو کامیابی مل سکی۔اگر اسی پیمانے پر ملک کا جائزہ لیا جائے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیںہوگا کہ ہماری مردہ قوم اگر آپسی مفاد کو بھلا کر اس سلسلہ میں متحد ہو جائے تو پارلیمنٹ میں ہماری نمائندگی میں خاطر خواہ اضافہ کو دنیا کی کوئی بھی طاقت نہیں روک سکتی۔ اگر ہم نے اپنے ووٹوں کا متحدہ استعمال کرکے اپنے نمائندوں کو پارلیمنٹ تک پہنچانے میں کامیابی حاصل کر لی تو پھر کسی سچر کمیٹی یا مشرا کمیشن کی رپورٹوں والی شرمندگی کا سامنا کرنے کی کوئی ضرورت نہیںرہے گی۔یہ اسی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے جب ہم ملک کے دیگر طبقات کی طرح اس پہلو پر سنجیدگی سے غور کرکے اپنے ووٹوں کا صحیح استعمال کر لیا تو یقین جانئے کہ پھر آنے والے دنوں میں ہمیں اپنی ترقی اور فلاح کے لیے کسی جماعت کے پاس کشکول گدائی لے کرذلت پر مجبور ہونے سے بچ سکیں گے۔