نورتنوں کے چنگل سے مسلمانوںکون نکالے
سچ بول دوں...............میم ضاد فضلی
قسط1
1952میںوطن عزیز کے پہلے عام انتخابات کے موقع پر ہندوستا ن کے اولین وزیر اعظم جواہر لال نہرو بار بار اس بات کا اظہار کر کے غمگین ہو جاتے تھے کہ یہاں با اختیار سرکاری اداروں میں مسلمانوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ معروف تاریخ نویس رام چندر گوہا کے مطابق 1947میں پاکستان کی شکل میں ایک متنازعہ ملک کے قیام کی وجہ سے 10لاکھ مسلمان یہاںسے ہجرت کر گئے تھے جن میں زیادہ تر تعداد اعلی تعلیم یافتہ، انجینئر ڈاکٹر اور فلاسفہ کی تھی ۔ پھربھی ملک کے مسلمانوںکی اکثرےت وطن چھوڑنے پر راضی نہ ہو ئی اور کسی بھی حال میں ایک متنازع اور نوخیز ملک کے قیام کو قبول کر نا گوارہ نہےں کیا ۔انہےں اپنے ملک میں رہ کر خشک روٹی کاحصول اورمحنت مزدوری کر کے اپنے بچوں کی پر ورش و پر داخت کر نا ہجرت سے زیادہ عزیز تھا ۔مختصر یہ کہ مسلمانوں کی جو تعداد پاکستان کوچ کر گئی تھی ا س سے بڑی تعداد نے سب کچھ گنوانا گوارہ کر لیا ،مگر اپنے دیش کی دھرتی چھوڑ نے پر ایک لمحہ کے لئے بھی راضی نہےں ہوئی۔خانما بربادننگے بھوکے انتہائی مسلمانوںنے اس دورمیںظاہری چمک دمک اورعیش عشرت سے آراستہ ،ترقی سے معموراورخوش حال زندگی پراپنے وطن کی سوندھی مٹی کھیتوں کھلیانوںکے گردوغبارکواپنے کلیجے میں اتارکرملک کے بالانشینوں کیلئے ترنوالہ کاانتظام کرناان کیلئے اپنی زندگی کے معیارکوبلندکرنے سے زیادہ عزیز اورروحانی تسکین کاباعث تھا۔ملک کے غریب مسلمانوں نے کل بھی آسودگی اور راحت سے لبریزپاکستان پراپنے وطن کی عسرت ویاس بھری زندگی کوترجیح دی تھی اور آج بھی غریب مسلمانوں کا یہ طبقہ محدود وسائل میں مست رہتے ہوئے اپنے وطن کی مٹی کوجنت کی حسین کیاری تصور کرتاہے۔مگران کے غربت وےاس کی دہائی دیکر حکومت سے اعزازو افتخاراورکرسیاںحاصل کرنے نام نہاد مسلم قائدین کل داد عیش دیتے تھے آج بھی ساری ترقی وسربلندی ان کے گھرکی باندی ہے۔ان ملت فروشوںمیںسے جواس پارچلے گئے وہ سب کے سب خوش حال ہیںاوراورجواس پار رہ کرغریب مسلمانوںکے حالت پرمگرمچھ کے آنسو بہانے کاپیشہ اختےار کرلیاوہ بھی دن دونی رات چوگنی طرقی جانب رواںدواںہیں۔اگرنہیںبدلی ہے غریب مسلمانوں کی حالت جس کااحساس جواہرلعل نہروکوبھی تھااورآج غیر مسلم سیکولرلیڈران کوبھی ہے۔ہم اس موقع پرخاص طورسے غیرمسلم لیڈراس لئے کہاکہ ان کے دروںسے پھینکاہوہی سہی کچھ نہ کچھ آج بھی مل ہی جاتاہے۔مگرہمارے غریب مسلمان بھائےوںکودینے کیلئے کل بھی ان کے پاس کچھ نہیںتھااورآج بھی ان کے درتک غریب مسلمانوں کی رسائی ناممکن ہے۔ان کی چوکھٹ سے اگر کسی کو مل سکتاہے توصرف ان ارد گرد جمع دربارےوںاور میرجعفروںکو۔انتہاتو یہ ہے کہ بھوک سے تڑپ تڑپ کر جان دینے والوں کی جانب دیکھنے کایہ ملت فروش لیڈران تصور بھی نہیںکرسکتے ۔ان کی گاڑیوںمیںلگے دبیزاوررنگین شیشے سے انہیںہرمسلمان خوش حال اورآسودہ نظرآتاہے۔ان کی گاڑیوں کے شیشے بس انتخابات کے موقعوں پرکھلتے ہیں۔کبھی کسی بڑے لیڈرکے ہاتھوںان مسلمانوںکاسوداکرلینے کی وجہ سے توکبھی خودان کے ووٹوں کے ذریعہ بلندی کی معراج پانے کیلئے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک کے غریب مسلمانوںکی جماعت تقسیم کی شدید مخالف تھی ،اس کے بر خلاف مٹھی بھر زمینداروں ،سیٹھوں،ساہو کارو ں اور سر کاری دفاتر میں اعلی عہدوں پر فائز بابو ﺅں نے ہی تقسیم کی صدا بلند کر نے والوں کی گنہگار آواز پر لبیک کہا اور یہاں سے چلے گئے ۔بعد کے پاکستانی حالات بتاتے ہےں کہ یہاں سے ہجرت کر نے والا اشراف کا طبقہ سر حد پار جا کر ہر طرح کی ترقی و سر بلندی اپنے نام کرلینے میںپوری طرح کامیاب رہا ۔اس کے بر عکس تقسیم وطن کے ان مبلغین کی پر فریب سازشوں کا شکار ہو کر وطن چھوڑ دینے والے غریب مسلمان اس پار جا کر لمحہ بھر کےلئے بھی خوش نہےں رہ سکے ، حتیٰ کہ آج بھی انہےں مہاجر کہہ کر ہزاروں گالیاں دی جاتی ہےں۔بلا خوف تردید یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان میں وہاںکے پشتینی باشندوںاور ہندوستان سے گئے زمینداروں کے کتوں کو جو وقعت ملی ہے اتنی بھی اس غریب طبقہ کو جوےرغمال بناکر سر حد پار کردیا گیا تھا نہےں مل سکی ۔اس کے بعد پاکستان کے اندر ایک اور تقسیم ہوئی اور بنگلہ دیش جیسی تعصب پرست نام نہاد جمہوریت کا قیام عمل میں آیا ۔اس وقت پاکستانی سر زمین پر مہاجر قرار دئے جانے والے ابھاگوں نے یہ سوچ کر بنگلہ دیش کا رخ کرلیاکہ شاید کاتب تقدیر یہاں ان پر مہربان ہو جائے اور جو گالیاں پاکستان میں ان کا مقدر بن چکی ہےں اس سے نجات مل جائے ۔مگر بنگلہ دیش جا کر بھی انہےں چین نہےں مل سکا ۔وہاں بھی مختلف کیمپوں میں انہےں مقید کر کے جبر و ظلم کا نشانہ بننے کےلئے چھوڑ دیا گیا۔ان کیمپوں میں زندگی گزار نے والے مہاجرین کی حالت پاکستان میں موجود مہاجرین سے ذرا بھی مختلف نہےں ہے ۔وہاں بھی ان سے پرامن اورباعزت زندگی جینے کا حق چھین لیا گیا ہے اور بنگلہ دیش میں بھی انہےں ایک معزز شہری کی حیثیت سے زندگی گزار نے کی اجازت نہےں ہے ۔نہ ان کی زندگیاں محفوظ ہےں نہ کیمپوں میں رہنے والی بہن بیٹیوں کی آبرو سلامت ۔مقام شرم ہے کہ ان غریب مہاجرین کی عزت و ناموس کو بنگلہ دیش و پاکستان کے اصل باشیوں نے اپنے اوپر حلال کر لیا ہے ۔اب یہ تو وہاں کے مولانا فتویٰ دیںگے کہ غریب اور مہاجر کی آبروﺅں پر ڈاکہ ڈالنا ان کی کتابوں میں جائز ہے یا نہےں ؟ہمارے ہندوستانی اسلام میں تو یہی پڑھایا جاتا ہے کہ ایک ذمی خاتون کی عصمت دری بھی ناقابل معافی جرم ہے ،جسے اسلامی حدود سے گزارے بغیر پاک نہےں کیا جاسکتا ۔سر دست ہماری اس مختصر سی معروضات کا مقصد یہ ہے کہ جن حالات سے پاکستان و بنگلہ دیش کے مہاجر ین گزر رہے ہےںاس سے ہندوستان میں بسنے والے غریب مسلمان ہزار درجہ بہتر اور پر سکون ہےں ۔ان تمام کے با وجود ایک بات تو یقینا کہی جا سکتی ہے کہ ہر طرح کی سہولیات او ر حالات کی سازگاری کے با وجود یہاں مسلمانوں کی معاشی حالت افسوس ناک حد تک خراب اور قابل رحم ہے ۔آج سے لگ بھگ 60برس پہلے مسلمانوںکی جوحالت تھی آج بھی جب ہمارادیش ترقی پذیرممالک کی صف میںنمایاںمقام پرکھڑاہے ان کی حالت میں ذرہ برابر بھی فرق نہیںآسکاہے۔ سچررپورٹ نے ہمارے سامنے ملک کے مسلمانوں کی جو حالت بیان کی ہے اس کے بعد تو بے ساختہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ بعض علاقوں میں یہاں کے مسلمانوں کی حالت ان تمام طبقات سے بھی زیادہ خراب ہے جنہےں ہم انتہائی پسماندہ یا مہا دلت کہتے ہےں ۔المیہ تو یہ ہے کہ ان ریاستوں میں مسلمانوں کی حالت زیادہ افسوسناک ہے جہاں کے نام نہاد سیکولر لیڈران مسلمانوں کی بد حالی کا رونا رونے میںدنیاکے تمام بہروپیوںکومات دےے ہوئے ہیں اور اپنی پرفریب چالبازیوں کے ذریعہ ہمیشہ مسلمانوں کے چہرے پر ترقی کے آثار دیکھنے کا جھوٹا خواب دیکھتے رہتے ہےں ۔ا س سلسلے میں ہم اتر پر دیش اور ریاست بہار کوبطورمثال پیش کر سکتے ہےں ۔ ملک کی یہ ایسی بڑی ریاستیں ہےں جہاں دیگر صوبوں کے مقابلے میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے ۔یو پی میں مسلمانوں کی تعداد 18سے 20فیصد کے درمیان ہے جب کہ بہار میں تقریباً ایک کروڑ سے زیادہ مسلمان آباد ہےں۔مگر مسلمانوں کی سب سے زیادہ خراب حالت انہیں دو نوںریاستوں میں ہے ۔یو پی میں مسلمانوں کی بدحالی پراپنی سیاسی منڈی چمکانے والے ملائم سنگھ یادو اور بینی پر شاد ور ما جیسے لیڈران سر خیوں میں رہے ہےں ۔ مسلمانوں کی ہمدردی کے موہوم ترانوں نے ہی ملائم سنگھ یادو کے لئے اس بڑی ریاست کا وزیر اعلی بننے کی راہ آسان کر دی تھی ۔مگر آج بھی وہاں مسلمانوں کی حالت زار کسی وضاحت کی محتاج نہےں ہے ۔ایسانہیںہے کہ ملایم سنگھ ےادومسلم ووٹوں کے سہارے کوئی دوچار برس ہی اتر پردیش کے وزیراعلیٰ رہے ہیں،کم وبیش11-12برس تک یوپی میںملایم سنگھ ےادوکی حکومت رہی ہے۔اگرملایم سنگھ چاہتے تومسلمانوںکو ان کی آبادی کے تناسب سے نمائندگی دیکراس بدحال قوم کے چہرے پرچمک لانے میںبھرپورتعاون دے سکتے تھے۔مگرحقیقت یہ ہے کہ اپنے طویل ترین سیاسی سفرمیں ملایم سنگھ نے اپنی پارٹی میں بھی مسلمانوںکوآبادی کے تناسب سے کبھی نمائندگی نہیں دی،چہ جائے کہ وہ سرکاری اداروںمیںاس پسما ندہ ترین ہندوستانی قوم کیلئے ملازمت کویقینی بناتے جس سے اس کی حالت کسی قدربہترہوسکتی تھی،دنیا جانتی ہے کہ تقریباً دو کروڑ مسلم آبادی والے اس صوبے کے سر کاری دفاتر میں مسلمانوں کی نمائندگی چار فیصد سے متجاوز نہےں ہے ۔خود کواقلیتوں کا سب سے بڑا مسیحا کہنے والے لا لو پر ساد یادو نے مسلمانوں کی حماےت اور تعاون سے تقریبا15برس تک بہار کے راج سنہاسن پر اپناقبضہ بنائے رکھا۔مگرمسلمانوںکواس طویل دور میںکیاملاناقابل تلافی وعدوںکاایک درازسلسلہ اور اس کے سواکچھ بھی نہیں۔لالو ےادو کی جماعت راشٹریہ جنتادل کم وبیش 15برس تک بہار کے سیاہ وسپید کی مالک رہی۔ اگرلالوےادو مسلمانوں کے سچے ہمدردہوتے توآج ریاست کے تمام بلاکوں وضلع دفاترمیںاردومترجم کی شکل میںسیکروں مسلم نوجوان روزگار حاصل کرچکے ہوتے۔پانچ برس تک بحیثیت وزیر ریل مرکزمیں اپنی خدمات انجام دیں۔اس دوران پورے ملک میں مسلمانوں کی بدحالی کادکھاوٹی رونارونے میںمگرمچھ کومات دیتے رہے۔دسیوںمقام پر اپنی تقریرمیںکہاکہ اب مدارس کے طلبہ بھی ریلوے بھرتی امتحانات میں حصہ لینے کے مجاز ہوںگے۔مگرعملی طور پر اسے اپنے محکمہ میں نافذکرنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔انہاتو یہ ہے مرکزی حکومت کی اس سفارش کوبھی اپنے پیروں تلے روند ڈالا جس میںکہاگیاتھاکہ ہر محکمہ میں مسلمانوںکی نمائندگی یقینی بنائی جائے۔انہوں ریلوے میں مسلمانوںکو ان کے تناسب سے نمائندگی دینے میںکبھی بھی ایمانداری کا مظاہرہ نہیں کیا۔