Monday, October 12, 2009

سینٹرل مدرسہ بورڈمسلمانوںکےلئے محض ایک دھوکہ

غےر ضروری شوشے چھوڑ کر اصل مسئلہ سے منہ موڑلےناسیاسی کھیل میںکامیاب داﺅکہلاتاہے۔ سےاسی جماعتوں کا مسلمانوں کے ساتھ کم از کم ایساہی کھیل آزادی کے بعدسے جاری ہے۔سچر رپورٹ نے مےں مسلمانو ںکی زبوں حالی کے حوالہ سے کچھ اےسے انکشافات کئے ہےں جس کا اس سے قبل ےقےن نہےں کےا جاسکتا تھا۔وطن عزےز کی آزادی مےں قائدانہ رول ادا کرنے والا ےہ طبقہ سےاسی بازےگروں کا کس طرح شکار ہوا اور اسے فنا کردےنے کی کےسی کےسی ناپاک سازشےں رچی گئےں ا س کا اندازہ سچر رپورٹ کو محض سرسری نظر پڑھ لےنے سے ہی ہوجاتاہے۔اب سوا ل ےہ پےدا ہوتا ہے کہ کےا ہماری حکومت مسلمانوں کےلئے کچھ کرنے اورسچرسفارشات کے نفاذکا مخلصانہ عزم رکھتی ہے ےا نہےں۔اگر اس سوال کے حل کےلئے ہم اخبارات کے صفحات مےں پھےلے ہوئے ان حکومتی اعلانات کا جائزہ لےں اور پھر ان اعلانات کوعملی طورپردیکھنے کی کوشش کریں تو بےساختہ ےہ کہنا پڑے گا کہ ےقےنا کانگرےس ےا اس جےسی دوسری تمام سےکولر جماعتےں جو بظاہر مسلمانو ںکی خےرخواہی کا ڈھنڈورا پےٹتے نہےں تھکتیں، ان کی تمام نقل و حرکت اورخوشنماوعدوںکا مقصد مسلمانوںکی خوشحالی نہےں بلکہ ان کے ووٹوں کے سہارے اقتدارحاصل کرنا ان کی تمام سرگرمےوں کا اہم مقصد ہے۔حکومت کی نےتوں اور اس کے عزائم کا جائزہ لےنے کیلئے کہ وہ ہمارے لئے مخلص ہےں ےا ان کی ہمدردی کا راگ اس منافق کی بانسری ہے جو سانپ کو پکڑنے کے لئے بل کے سامنے بجاتا رہتا ہے ےا اس شکاری کے فرےب آمےز چارہ کی طرح ہے جو رنگ برنگی چڑےوں کو قےد کرنے کے لئے جال کے نےچے ڈال دےتا ہے۔ہمیںان کے سابقہ منصوبوںاورعمل کابنظرغائرمطالعہ کرناہوگا۔وطن عزےز مےں آزادی کے بعد مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ بھی ہوتا رہا ہے۔ چاہے وہ ان کی زبوں حالی کا ماتم ہو ےا آسمان چھولےنے والے خوشنما وعدے اور اعلانات،انکی بس اتنی حقیقت ہے کہ ےہ صرف مسلمانوں کو ٹھگ لےنے کےلئے منظر عام پر آتے رہے ہےں۔البتہ سچائی یہ ہے کہ مسلمانوں کے چہرے پر خوشحالی کی چمک لانے کے لئے آج تک کسی بھی سےاسی جماعت نے مخلصانہ کوشش نہےں کی ہے بلکہ وطن عزےز کی سےاسی جماعت اس منڈی کی طرح ہے جہاں خرےدار اگر شعور اور ادراک سے خالی ہو تو اپنی متاع بےش قےمت کو کوڑےوں مےں بےچ کرلوٹ آتاہے اور مستقل کے پچھتاوا کے علاوہ اس کے پاس کچھ بھی نہےں بچتا ےا اس گاہک کی طرح ہے جسے سونا دکھا کر پےتل تھما دےا جاتا ہے اور ا سکے بدلے اس کی تجوری خالی کرالی جاتی ہے۔ پھر جب اس پر ےہ انکشاف ہوتا ہے کہ اس نے آج بازار سے سونا سمجھ کر جو چےز خرےدی ہے اس پر سونے کی اصلی قلعی تو ضرور ہے مگر قلعی کے نےچے جو شئے ہے وہ پےتل ہے۔ دس گرام کے اس پےتل کو بےچ کر اس سے وہ اےک وقت کی روٹی بھی حاصل نہےں کرسکتا۔ ہمارا المےہ ےہ ہے کہ آزادی کے بعد ےا تو ہمےں مخلص قےادت نہےں ملی ےا اپنی انا مےں اس قدر مست ہو گئے کہ ہم نے کسی کو بھی اپنے سے بڑا ماننے کا تصور بھی ذہن و فکر سے نکال دےا۔اس کانتےجہ ےہ ہوا کہ مسلمانو ںکے ہر محلے مےں انہےں کے کنبوں اور قبےلو ںسے اےسے افراد سےاسی چغہ مےں ملبوس ہو کر ان کے مقدر کا سودا کرنے کے لئے بازار پہنچ گئے جو بظاہر مسلمانو ںکی بات کرتے تھے مگر بباطن مسلمانوں کی تقدےر بےچ کر اپنی دنےا سنوارنا ان کاپےشہ تھا۔
ہمارے ملک کی سرکارےں ہمارے لئے مخلص تھی ےا انہو ںنے ہمارا استحصال کر کے اپنا سےاسی قد بلند کرنے کا مذموم کھےل کھےلا تھا۔اسے جاننے کے لئے ہمےں ان تمام منصوبوں کا بغور مطالعہ کرنا پڑے گا، جن کا تعلق مسلمانو ںکی خوشحالی اور ان کی ترقی سے ہے۔اگر ان منصوبوں کو عملی جامہ پہناےا گےا ہے اور مسلمان ان سرکاری منصوبوں سے براہ راست نفع حاصل کر رہے ہےں تو بلا تردد ےہ بات کہی جائے گی کہ سرکار کا مقصد مسلمانو ںکی خوشحالی اور ان کی ترقی ہے اور اگر ان منصوبوں کی حےثےت صرف کاغذی خانہ پری اور سبز باغ دکھانا رہا ہے تو ےہ بلاخوف تردیدیہ کہاجا ئے گاکہ اس منصوبے کے ذرےعہ ہمےں بے وقوف بنانے ےا مزےد ابتر کردےنے کا پروگرام بناےا گےا ہے اور جس جماعت کی طرف سے ےہ دھوکہ کی ٹٹی کھڑی کی گئی ہے اسے مسلمانوںکی دشمن اور اس طرح کے ترقی کی مخالف قرار دےنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہےں کہا جاسکتا۔غورکےجئے!آزادی کے بعد اگرچہ مسلمانوں کی حالت بھی بہت اچھی نہےں رہ گئی تھی مگر ہمارے ملک کا دلت طبقہ تو اور بھی زےادہ تباہ حال اور قابل رحم زندگی گزار رہا تھا۔پھر کےا وجہ ہے کہ آج تقرےباً تمام سرکاری دفاتر مےں انہےں مواقع مےسر ہو گئے۔ان کی تعلےمی حالت بھی بہتر ہونے لگی۔مگر مسلمانو ںکی حالت جو اس زمانہ میں پسماندہ طبقات کی بنسبت قدرے بہتر تھی وہ اور بھی بدترہوتی گئی۔سرکاری دفاتر مےں ملازمت کے دروازے ان کے لئے بند کردئےے گئے اور تعلےمی مےدان مےں اتنی دشوارےاں ان کی راہوں مےں کھڑی کردی گئےں کہ کوشش کے باوجود ان کا حوصلہ جواب دے گےااوروہ ان رکاوٹوںکودور نہیںکرسکے۔ےہ کون سا انصاف ہے کہ ملک کے جس طبقہ مےں تعلےم کی شرح چار فےصد سے بھی کم ہے اسے اوپر لانے کے لئے محض اعلانات اور پےغامات تک محدود کردےا گےا اور جس طبقہ کی تعلےمی حالت مسلمانو ں سے بہتر تھی اسے مزےد سہولےات سے نوازا گےاتاکہ ان کی ترقی دن دونی رات چوگنی ہوتی رہے۔کانگرےس مسلمانو ںکے لئے مخلص ہے ےا محض اس منافق کی طرح جو سب کچھ ٹھگ لےنا چاہتا ہے اس کا اندازہ لگانے کے لئے آپ ملک کی اعلیٰ ےونےورسٹےوں کا دورہ کر لےں وہاں کے مسلم طلبہ کو اقلےت کے نام پر ےا ان کی فلاح و بہبود کے لئے کےا کچھ دےا جاتاہے،ےہ جان کر آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ کانگرےس مسلمانوں کے لئے کبھی بھی مخلص نہےں رہی ہے اور مسلمانوں کی بھلائی کانگرےس نے کبھی پسند بھی نہےں کی ہے۔دلت طبقہ جن کی تعلےمی شرح مسلمانو ںسے بہتر ہے، انہےں پندرہ سے 25ہزار کے درمےان وظےفے ملتے ہےں،جب کہ مسلم طبقہ جن کی تعلےمی شرح انتہائی افسوسناک ہے ، انہےں دےا جانے والا اسکالر شپ پانچ سو سے زائد نہےں ہوتا۔ےہی وجہ ہے کہ آج پسماندہ طبقات کے بےشتر طلبہ مہنگی گاڑےوں مےں ےونےورسٹی آتے ہےں جب کہ مسلم بچے پےٹ بھر کھانا بھی اس وظےفے سے حاصل نہےںکرسکتے۔
کانگرےس پارٹی نے مسلمانو ںکو اےک بار پھر ےرغمال بنانے کے لئے سےنٹرل مدرسہ بورڈ کے قےام کا شوشہ چھوڑا ہے، جو روز اول سے ہی تنازعات کا شکار ہے۔قطع نظر اس سے کہ مذکورہ بورڈ کے قےام سے مسلمانو ںکا فائدہ ہوگا ےا نقصان۔اتنا تو پوچھا ہی جا سکتا ہے کہ آپ نے ہمارے ان کالجوں کے لئے تو راستے بند کررکھے ہےں، جنہےں ہم نے اپنی زمےنوں پر اپنے پےسوں سے کھڑا کےا ہے اور منظوری کے لئے آپ کی توجہ کا انتظار ہے۔ملک کے اےک کونے سے دوسرے کونے تک تقرےباً بارہ سو اےسے مجوزہ کالج موجود ہےں جنہےں مسلم تنظےموں ےا شخصےات نے مسلم بچوں کی خےر خواہی اور بھلائی کےلئے قائم کےا ہے۔مگر حکومت کی جانب سے منظوری نہ ملنے کی وجہ سے اےسے تمام کالج مےں زےر تعلےم طلبہ کا مستقبل تارےک ہو رہا ہے۔اگر اس فہرست مےں اقلےتو ںکے اپنے پےسوں سے تعمےر ان اسکولوں کو بھی شامل کرلےا جائے جنہےں مسلم بچوں کے لئے مسلمانوں نے خود قائم کےا ہے مگر حکومت اسے منظوری دےنے پر آمادہ نہےں ہے تو ےہ تعداد کئی ہزار مےں ہوگی۔مدرسہ بورڈ کا سز باغ دکھانے والی حکومت کو ےہ سوچنا چاہئے کہ کےوں نہ ان تمام اداروں کو منظوری دیدی جائے جنہےں اقلےتی تنظےموں نے صرف اقلےتی طلبہ کے مستقبل کو سنوارنے کےلئے تےار کےا ہے،تاکہ مسلم بچوں کا مستقبل تارےک ہونے سے بچ جائے۔مگر حقےقت حال ےہ ہے کہ بورڈ کے قےام کی منشا مسلمانوں کی تباہ حالی پر ترس کھانا قطعاً نہےں ہے بلکہ اس کے ذرےعہ مدارس کے فضلا مےں اس نظرےے کا عام کردےنا ہے جو ہماری حکومت کو مغربی سامراج سے دےا گےا ہے۔اسرائےلی دوستی میں ساری دنےا سے آگے موجودہ ہندوستانی حکومت کی منشا ےہ ہے کہ اےسے مدارس ترتےب دے دئےے جائےں جہاں سے تےار ہونے والے ائمہ کو داڑھی سے دشمنی ہو ، غیراسلامی طرززنگی مرغوب ہواور ہر اس فکر کو عام کرنا ان کی زندگی کا مقصد بن جائے جو مغربی اقدار کی شان بڑھاتی ہو اور حکومت کی خوشنودی جس سے حاصل ہوتی ہو، چہ جائےکہ اس سے اسلام کی شبےہ بگڑ جائے اور معاشرہ اسلامی تہذےب سے نا آشنا ہو جائے۔جن صاحبان کو ےہ شکوہ ہے کہ مدارس بورڈ پر اعتراض کرنے والوں نے حکومت کے اس منشور کو نہےں پڑھا ہے جو مدرسہ کی تجدےد کاری کے تعلق سے حکومت نے ترتےب دی ہے تو انہےں جان لےنا چاہئے کہ دنےا کے کسی بھی منشور مےں اس آئےڈےل اور نظرےہ کو واضح نہےں کےا جاتا جو منشور کا اصل مقصد ہوتے ہےں بلکہ منشور مےں اےسی شقےں داخل کردی جاتی ہےں جو بذات خود مطلوبہ نظرےے کو تقوےت پہنچاتی ہوں۔ لہذا مدارس بور ڈ کا قےام سرکاری نظرےہ کو مدارس مےں داخل کرنے کا منصوبہ ہے نہ کہ مسلمانوں کی پسماندگی کو دور کرنے کا۔