Friday, November 26, 2010

مسلسل پسپاہورہاہے نکسلی تشدد

سرخ دہشت گردی یا انسانیت کو مساوی حقوق دلانے کےلئے کی جانے والی جدوجہد میںمصروف تنظیم جسے عرف عام میں ماﺅنواز یا نکسلی کے نام سے جانا جاتا ہے،حالیہ دنوںمیںاس تنظیم کے ذریعہ انجام دئے جانے والے دہشت گردانہ واقعات چیخ چیخ کریہ بتارہے ہیںکہ اس تنظیم میںشامل بندوق برداروںکامشن وہ نہیں ہے جس کایہ لوگ برملا نعرہ لگارہے ہیں۔ اس تنظیم کے ذریعہ اٹھائے جانے والے تشدد آمیز حملے کسی بھی طور پر انسانیت کے لئے مفید قرار نہیں دئے جا سکتے۔ اگر تشدد کے راستے سے ملک کے ان حصوں میںترقی کاسورج نمودارہوجاتاجہاں سب سے زیادہ پسماندہ اور مفلوک الحال ہندوستانی رہتے بستے ہیں اور جن کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ سیاسی قائدین اور ہماری حکومتیں براہ راست ان کا استحصال کرتی ہیںتویقینا یہ کہاجاسکتاتھاکہ ماﺅنوازتوپ گولے مفیدمقاصدمیںکام آرہے ہیں۔ ان دوردرازکے جنگلوںاوروادیوںمیںآبادہندوستانیوںکی خوشحالی یا فلاح کے لئے مرکزی یا ریاستی سطح پرمنظور کئے جانے والے منصوبوں کوان تک پہنچنے نہیں دیا جاتا اور اوپر ہی اوپر سفید پوش بھیڑئے انہیں اپنی ہوس کا شکار بنا لیتے ہیںلہذاان کی حق تلفیوںکے خلاف ہرقسم کی جدوجہدجائزہے اورجب تک ان غریبوں اور دبے کچلے ہندوستانیوں کے حقوق کی بازیابی کے لئے جارحانہ اور پرتشدد راستے اختیار نہیں کئے جاتے اس وقت تک کسی بھی غریب کو ان کا وہ حصہ نہیں ملے گا جو حکومت نے اپنے منصوبوںمیں مقرر کر رکھا ہے مگرنکسلی شدت پسندوںکی بے رحم واداتیںکچھ اور ہی داستان سناتی ہیں۔اگرچہ اپنی خونریز سرگرمیوں اور دہشت گردانہ حملوں کو جواز بخشنے کے لئے سرخ تشدد پسندوں کی بندوق بردار فوج برملا یہ دعویٰ کرتی رہتی ہے کہ ان کا جھگڑا براہ راست حکومت سے ہے اور پولس انتظامیہ چونکہ انہیں کسی بھی قسم کی تخریبی کارروائیوں اور خوں آسام وارداتوں کو انجام دینے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والے ملک کی سلامتی پر تعینات ان تمام سپاہیوں سے ہے جنہیں وطن عزیز کو پرامن اور قانون و انتظام کی بالادستی قائم رکھنے کے فرض پر مقرر کیا گیا ہے۔ حالانکہ نکسلی شدد پسندوں کا یہ دعویٰ گذشتہ چند برسوں میں انجام دی جانے والی کارروائیوں کے بعد جن کا نشانہ براہ راست ملک کے نہتے عوام بنے ہیں بالکل بے بنیاد اور نامعقول سا لگتا ہے۔جب ہم نکسل شددپسندوں کے ذریعہ انجام دی جانے والی ان تمام وارداتوں پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ اندازہ ہوتاہے کہ سفاکیت اور خونریزی کا بازار گرم کرنے والے یہ انتہا پسند بزعم خویش چاہے ہزار دعوی کرےں کہ انہوں نے غریبوں کی فلاح اور دبے کچلوں کی حمایت میں مجبوراً اسلحہ اٹھایا ہے۔مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کے ہر حملے اور پرتشدد سرگرمیوں سے نقصان براہ راست غریبوں بدحالوں اور ان قابل رحم ہند و ستا نیوں کا ہی ہوتا ہے جن کی زندگی میں ترقی کی چمک دیکھنا اور خوشحال انسان کی طرح جینے کاحق فرہم کرنا شاید پل بھر کےلئے انسان نما ان تمام بھیڑیوں کو گوارہ نہیں ہے جو غریبوں کے نام پر معرکہ آرائی کرتے ہیں اور غریبوں کی فلاح کا راگ الاپ کر اپنی سیاسی دکانیں کھولے بیٹھے ہیں۔ ساری دنیا کھلی آنکھوں سے اس منظر کو دیکھ رہی ہے کہ کس طرح غریبوں اور پسماندہ طبقات کی بھلائی کی باتیں کرنے والے تمام لیڈران اور اسلحہ بردار فوجیں دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہیں۔ جب کہ جن غریبوں کی بدحالی پر یہ مظاہرے ،احتجاج بازاراورخوںریزیوں کے بازار لگائے جاتے ہیں۔ ان کی حالت زار میں کوئی تبدیلی کہیں بھی محسوس نہیں ہوتی۔ البتہ ان کی اذیت ناک حالت پر بندوق اٹھانے اور اسی طرح سیاسی چوپال لگانے والے ترقی کی معراج پا لیتے ہیں جو ان کا اپنی سرگرمیوں کے پس پردہ اصل مقصد ہوتا ہے۔ قابل غور ہے کہ اگر ہمارے نکسلی شدت پسند غریبوں کی بھلائی کے لئے خود کو ہلاکت و تباہی کی راہ پر ڈالے ہوئے ہیں تو ان سے یہ سوال کرنا یقینا حق بجا نب ہوگا کہ پھر آپ کی بندوقوں کا نشانہ سول پولس یا سرکاری اسکولوں کے وہ بچے کیوں بن رہے ہیں جن کے بارے میں آپ سبھی جانتے ہیں کہ یہ ان غریب خاندانوں کے چشم و چراغ ہیں جن کے ماں باپ کی مالی حالت اس قابل نہیں ہے کہ وہ اپنے نونہالوں کو بڑے شہروں کے مہنگے اور انتہائی جدید سہولیات سے آراستہ اسکولوں تک پہنچا سکےں۔ آپ کی گولیوںسے نکلنے والی آگ تو ان غریب گھروں میں ہی صف ماتم بچھاتی ہے جہاں کمانے والے کم جبکہ کھانے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ سول پولس اہلکار عموماً انہیں مجبور اور غریب طبقات سے آتے ہیں جن کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ وہ اپنے نوجوان بچوں کو صنعتی و تکنیکی تعلیم سے آراستہ کر کے بے تحاشہ سرمایہ حاصل کرنے کے قابل بنا سکیں۔ مجبوراً غریب خاندانوں کے یہ چشم و چراغ سول پولس میں ہی ملازمت حاصل کر کے اپنی اور اپنے کنبہ کی روزی روٹی کا انتظام کرتے ہیں۔ اگر ان کے آبا و اجداد اس قابل ہوتے کہ انہیں مہنگے اور مقابلہ جاتی تعلیم سے آراستہ کر پاتے تو یقینا وہ اپنے بچوں کو سول پولس کی ملازمت اختیار کرنے پر قطعی رضا مند نہیں ہوتے۔بعینہ یہی حالت ان تمام سرکاری اسکولوں کی بھی ہے جن کی عمارتیں عموماً سرخ دہشت گردی کی نذر ہوتی ہیں اور ان میں غریب خاندانوں کے ان گنت بچے تڑپ تڑپ کر جان دے دیتے ہیں۔ اگریہ تشددبندکرکے ان تمام دیہی باشندوںروزگارکیلئے بازار تک آنے کا راستہ دےدیاجائے توعین ممکن ہے کہ نکسلی ڈنڈابرداروںکایہ قدم غریبوںاورآدی باسی برادری کیلئے کامیابی اور ترقی کی ضمانت بن جائے۔نکسیوں کی مخالفت کرکے ووٹ ڈال کرنکسل متاثرہ علاقوںکے غریبوںنے اپنی اس سوچ کااظہاربھی کیاہے۔
Editorial 22-11-2010

عوام کے خوابوں کو تعبیر دینا اب نا گزیر

بہار ریاستی اسمبلی انتخابات میں ناقابل تسخیر کامیابی حاصل کر لینے کے بعد وزیراعلیٰ نتیش کمار کو ان کی پارٹی جنتا دل متحدہ نے لیجس لیٹیو کمیٹی کا لیڈر منتخب کر لیا ہے۔ ادھر بھارتیہ جنتا پارٹی کے اعلیٰ کمان نے مرکز سے پارٹی لیڈر کے انتخاب کے لئے تین سینئر لیڈروں کو آبزرور بنا کر دارالحکومت پٹنہ روانہ کیا تھا جہاں آج پارٹی کے ریاستی دفتر میں میٹنگ کے دوران اتفاق رائے سے نائب وزیراعلیٰ سشیل کمار مودی کو پارٹی لیجس لیٹیو اسمبلی کا لیڈر منتخب کر لیا گیا۔ اسی کے ساتھ وزیراعلیٰ نتیش کمار کل جمعہ کے روز ریاست کے تاریخی گاندھی میدان میں حلف اٹھا کر اپنی نئی کابینہ کے ساتھ ریاست کے فروغ اور ترقی کا نیا سفر شروع کریں گے۔ وزیراعلیٰ نتیش کمار کی قوم پسند سرگرمیوں اور ریاست کی ترقی کے لئے ان کے ذریعہ انجام دئے گئے منصوبوں کو دیکھ کر ہی عوام نے حاشیہ پر ڈالی جا چکی اس انتہائی پسماندہ ریاست کی باگڈور انہیں تھمایا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اکثریت سے کامیاب ہونے والے وزیراعلیٰ نتیش کمار کی ذمہ داریاں اب ریاست کی ترقی اور فلاح کے تئیں پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ جہاں انہیں اپنے سابقہ روایات کے مطابق قانون و انتظام کی صورتحال کو مزید فعال اور بہتر بنانے کے چیلنجز ،ہیں وہیں سرکاری اداروں میں بے رحم بھیڑیئے کی طرح رشوت کی ناجائز کمائی کے لئے منہ کھولے ہوئے افسروں پر لگام ڈالنے اور بدعنوانیوں میں گردنوں تک ڈوبے ہوئے حکومتی اہلکاروں سے دو دو ہاتھ کرنے ، ان کی نشاندہی کر کے انہیں قرار واقعی سزا دینے اور عوام کی گاڑھی کمائی کو رشوت کے طور پر اپنے خزانوںمیں جمع کر لینے والے انسانیت کے ناسوروں سے پوری قوم کو نجات دلانے کا تقاضہ بھی کچھ کم نہیں ہے۔ غور طلب ہے کہ کسی بھی ملک یا ریاست کی ترقی کا خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا جب تک وہاں امن اور تحفظ کو یقینی بنانے کی سمت میں قدم نہ اٹھاےے جائیں۔لاریب 2005 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد نتیش کمار نے ریاست کی فلاح اور ترقی کے لئے جتنے بھی کارنامے انجام دئے ہیں انہیں کم از کم بہار جیسے انتہائی پسماندہ صوبے کے لئے ایک نئی تاریخ کا آغاز ضرور کہا جائے گا۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ابھی ریاست کی صورتحال اس منزل کو نہیں پا سکی ہے جہاں آدمی یہ دعوے سے کہہ سکے کہ اب ہماری ریاست کی راتیں بھی پرامن ہےں اور دن میں بھی خوف و ہراس کی نفسیات سے ہمیں آزادی مل چکی ہے۔ ابھی ریاست میں قتل اور اغوا کی وارداتیں بالکل ختم نہیں ہوگئی ہیں اس میں کمی یقینا آئی ہے۔ مگر اس سے بھی زیادہ دور اندیشی لگن اور سرگرمی سے ریاست کے امن و تحفظ کے لئے وزیراعلیٰ کو اقدامات کرنے ہوں گے۔ تمام تر احتیاطی تدابیر بروئے کار لانے کے باوجود ماﺅنواز انتہا پسندوں اور نکسلی جنگجوﺅں سے ریاست کو نجات نہیں مل سکی ہے۔ عوامی حمایت نہ ملنے کے باوجود ان کے حوصلے ذرا بھی کمزور نہیں پڑے ہیں۔ آج ہی اورنگ آباد ضلع کے نبی نگر تھانہ علاقہ میں (این ٹی پی سی) نیشنل تھرمل پاور کارپوریشن کے ذریعہ زیر تعمیر پاور اسٹیشن بنانے کے استعمال میں شامل کئی جے سی بی اور دیگر گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا ہے۔ حالانکہ نبی نگر میں زیر تعمیر پاور اسٹیشن اپنی نوعیت کا منفرد اور انتہائی کارگر اسٹیشن کے طور پر تیار کئے جانے کا منصوبہ ہے۔ جس سے ریاست کو اتنی توانائی حاصل ہو سکتی ہے۔ جو اس ضرورت سے زیادہ ہوگی۔ مگر مذکورہ کام میں مشغول اہلکاروں کو تحفظ بخشے بغیر یہ تاریخی منصوبہ پایہ ¿ تکمیل کو قطعاً نہیں پہنچ سکتا۔ اطلاعات ہیں کہ ماﺅنوازوں نے نہ صرف یہ کہ تعمیر میں شامل گاڑیوں کو شدید نقصان پہنچایا بلکہ وہاں موجود ڈرائیوروں اور دیگر ورکروں کی نہایت بے رحمی سے پٹائی کی۔ ایسی صورت میں تحفظ کو یقینی بنائے بغیر کیسے کوئی مزدور سرکاری منصوبوں کی تکمیل میں اپنا ہاتھ بٹائے گا ۔ یہ ایسے چیلنجز ہیں جس کا مقابلہ کئے بغیر ریاست میں کسی بھی قسم کے ترقیاتی پروگراموں کو تعبیر بخشا جانا ناممکن ہے۔ ریاست کے عوام نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی ہے۔ اب نتیش کمار سمیت این ڈی اے میں شامل ان تمام لیڈروں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوام کے خوابوں اور آرزووں کی تکمیل کر کے یہ ثابت کریں کہ وہ قول و عمل کے تضاد کی سیاست نہیں کرتے۔ وہ وہی کہتے ہیں جتنا پورا کرنا ان کے بس کا روگ ہے۔ ترقی کے تمام امور پر قدم اٹھا دیا گیا ہے اور اب عوام نے اسے اپنی منزل تک پہنچا دینے کے لئے این ڈی اے کو خصوصاً وزیراعلیٰ نتیش کمار کو اپنی حمایت دی ہے۔انہیں ثابت کرنا ہوگا کہ عوام نے ان سے جو توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔انہیں پورا کرنے کا بھرپور جذبہ اور حوصلہ ان کے اند کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔
ؑEditorial 26-11-2010