Monday, November 29, 2010

اب کانگریس کوئی آئی کالی دولت کی یاد

یہ خبر یقینا ملک کے لیے باعث مسرت ہوگی کہ مرکزی حکومت ملک میں کالے خزانوں کا پتہ لگا کر اس کے مالکان کی گردن تک پہنچنے کاجرا ¿ت مندانہ عزم کیا ہے۔اپنے اس مشن کا اظہار کرتے ہوئے وزیر خزانہ پرنب ’دا‘ نے کہا ہے کہ حکومت کالی دولت کی تحقیقات کے لیے تیاری مکمل کرچکی ہے۔اس سلسلے میں ہم نے قومی اداروں سے تجاویز مانگی ہے ۔ وزیر خزانہ نے کم ازکم چار قومی اداروں سے کہا ہے کہ وہ ملک میں کالی دولت کے تخمینے اور اُن کی تفصیلات کا پتہ لگانے کے بارے میں اپنی آرا پیش کریں۔وزارت خزانہ کے ایک سینئر افسر نے بتایا ہے کہ این آئی پی ایف پی ، نیشنل اسٹیٹس ٹیکل انسٹی ٹیوٹ، نیشنل کاو ¿نسل فار ااپلائڈ اکانومکس ریسرچ اور این آئی ایف ایم جیسے بڑے اداروں کے آخر تک اپنے تجاویز سونپنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔افسر کا کہنا ہے کہ اس قسم کی تحقیقات اور چھان بین میں کم ازکم ایک سال کا وقت صرف ہوسکتا ہے۔ اس تحقیقاتی پروگرام میں سی بی ڈی ٹی ، سی بی ای سی اور ڈائریکٹوریٹ آف ایکسچینج اور دیگر اقتصادی معاملوں کے محکمے ہندوستانی ایکسپورٹروں کی تنظیم فیو کے افسران کی بھی مدد لی جائے گی۔اس سے قبل کہ اس پر کوئی تبصرہ کیا جائے کہ آخر حکومت کو برسوں سے ہونے والی فضیحت کے بعد آج اس سیاہ دولت کی یاد کیسے آگئی جس نے ہمارے ملک کے اقتصادی نظام کو تتر بتر کرکے رکھا ہوا ہے۔ہم مناسب یہ سمجھتے ہیں کہ پہلے اس کی وضاحت کردی جائے کہ’ بلیک منی‘ یا ’سیاہ دولت ‘ کا مطلب کیا ہے۔
سیاہ دولت اُسے کہتے ہیں جس کا صنعتی اداروں نے ٹیکس ادانہ کیا ہو اور محکمہ محصولات کی نگاہوں سے چھپاکر اُسے اپنے خزانہ خاص میں محفوظ کردیاگیاہو۔اِس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ کسی بھی کمپنی یا صنعت کار اور اسی طرح اُن تمام ہندوستانیوں کی وہ رقم جس کے ٹیکس کی ادائیگی اُ س نے سرکاری خزانے میں کردی ہے ، کالی دولت نہیں کہی جاسکتی۔عموماً حکومت مرکز یا ریاستوںکو وہاں کاروبار کررہے سرمایہ داروں و صنعت کاروں اور اسی طرح اُن تمام لوگوں کی مالیات کے متعلق معلومات رہتی ہے جس کا کاغذ صاف ستھرا اور ٹیکس کی ادائیگی پابندی سے کی جارہی ہو۔اس تفصیل سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اُن تمام ذرائع سے آنے والی پونجی اور آمدنی سیاہ دولت کی شرح میںڈالی جائے گی۔ جس کی آمدنی کے ذرائع واضح نہ ہو ں اور حکومت کی آنکھوں میں دھول جھونک کر کاروباری غیر قانونی طریقے سے اپنے خزانے میں اضافہ کررہا ہو۔تاریخ بتاتی ہے کہ ملک کی آزادی کے وقت یہ سیاہ دولت صرف صنعت کاروں کے پاس ہوا کرتی تھی مگر وطن عزیز میں جمہوریت نافذ ہوتے ہی اُس کے ذرائع اور سورسز میں اضافے ہونے لگے چنانچہ صنعت کاروںنے سیاہ دولت کی ذخیرہ اندوزی کی روایت تو پہلے سے قائم کرہی رکھی تھی قانون وانتظام کے نفاذ کے ساتھ سرکاری اہلکار اور افسران بھی ان کے گناہوں پر پردہ ڈالنے کے لیے رشوت کے طورپر اپنی جیبیں گرم کرتے رہے جس کا اندازہ لگانا ناممکن نہیں تو ایک مشکل امرضرور ہے۔ حکومت کو سیاہ دولت کا پتہ لگانے کے لیے اپنے اُن تمام افسران کے بینک بیلنس کے علاوہ ان کی عیش گاہوں میں پوشیدہ طور سے بنائے گئے تہہ خانے اور بستر کی چادر تک اٹھانی پڑ سکتی ہے تاکہ یہ پتہ لگایا جاسکے کہ ملک سے اپنی خدمات اور فرض کی ادائیگی پر وافر مقدار میں معاوضہ وصول کرنے والے یہ سرکاری ملازمین رشوت کو اضافی کمائی کا ذریعہ بناکر ملک کو نقصان پہنچانے اور خزانے کا دیوالیہ نکالنے کے ناپاک مشن میں کیسے شامل ہوگئے۔ظاہر سی بات ہے کہ ان حقائق تک پہنچنے کے لیے صرف برسر ملازمت سرکاری افسران اور موجودہ وقت کے صنعت کاروں کے درمیان ان کے مضبوط رشتوں کے علاوہ ماضی کی اُن دیمک خوردہ دستاویزوں کو بھی اُلٹنا پڑیگا جو سبکدوش ملازمین نے سیٹھوں ، ساہوکاروں سے رشوت وصول کر اپنے خزانے میں اضافہ کرتے رہے اور وقت پورا ہوتے ہی خاموشی سے کرسی سے اتر گئے۔ جب تک ہمارے تحقیقات کی ابتدا آزادی کے بعد مالیاتی محکموں میں تعینات اُن سرکاری افسروں سے نہیں کی جاتی جنہوں نے ماضی میں یہ روایت قائم کی تھی اور ان کی دیکھا دیکھی بعد میں اس کاروان میں شامل ہونے والے لوگ اُنہیں کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے جس تھالی میں کھائے اُسی میں چھید کرتے رہے کی مصداق اس وقت تک حکومت کے اِ س عزم کو ہم سعی لاحاصل تو کہہ سکتے ہیں ، کوئی نتیجہ بخش پروگرام نہیں کہہ سکتے۔چونکہ اس سیاہ دولت پر زیادہ تر اجارہ داری اُن لوگوں کی جنہیں ملک میں سرمایہ دار گھرانوں کے طور پر جانا جاتا ہے اور ان کے اشاروں پر ہی حکومت کے اقتصادی نظام میں تبدیلی اور تجدید کی جاتی ہے۔ یعنی جمہوریت میں حکومتیں اکثر وبیشتر سرمایہ دار گھرانوں کی رکھیل بن جاتی ہیں جہاں اُن سرمایہ داروں کے نقصان کی صورت میں کبھی کبھی ضابطے اور قانون کی دھجیاں اڑانے میں بھی ہمارے سیاسی لیڈروںکے ضمیر پر بوجھ محسوس نہیں ہوتا ۔
چونکہ ان سرمایہ داروں کی کالی دولت چور دروازے سے خود سیاسی لیڈروں اورسرکاری افسروں کی خوابگاہوں تک پہنچتی رہتی ہے لہٰذا ان کا گناہ پکڑنے سے پہلے کوئی بھی سرکاری ملازم یہ سوبار سوچتا ہے کہ اگر ہم نے اُس سرمایہ دار کے گریبان میں ہاتھ ڈالا تو وہ پھوٹ جائے گا اور دنیا کو یہ چیخ چیخ کر بتادے گا کہ اُس نے سیاہ رات میں نوٹوں کی گرم تھیلی اُن کی عیش گاہوں تک مسلسل پہنچایا ہے لہٰذا افسر یا سیاسی لیڈران اِ س قسم کے اقدامات سے قبل سومرتبہ اپنے دائیں بائیں دیکھے گا اور بالآخر خود پکڑے جانے کا خوف ملک کے مفاد اور غریبوں کے فلاح کے اس عمل سے اُسے روک دے گا۔اس سمت میں یقینا وہی افسر ان اور سیاسی لیڈروں کی جرا ¿تِ رندانہ کامیاب ہوسکتی ہے جن کے دامن رشوت کی آلائش سے پاک ہو ں اور جنہوںنے سرمایہ داروںکا درباری بن کر چند کوڑی کے لیے خود کو کسی کا غلام بنانا پسند نہیں کیا ہو۔پرنب ’دا‘ نے اگر یہ ہمت کی ہے تو یہ یقینا اُس کی ستائش کی جانی چاہیے اور ہمارے ملک کے اُن سرفروش سیاسی خادموں اور سرکاری افسران کو حمایت میں کود جانا چاہیے ۔مگر چونکہ اکثرو بیشتر سیاسی جماعتوںمیں ایک ہی تھیلی کے بند سانس لیتے ہیں لہٰذا یہ کہنا مشکل ہے کہ پرنب دا کا یہ منصوبہ کامیابی سے ہمکنار ہوگا اور ملک کو لاکھوں کروڑ کا نقصان پہنچانے والے خوش پوش سرمایہ دار اور صنعت کار دھر لیے جائینگے۔ اُن سے سیاہ دولت چھین کر سرکاری خزانے میں جمع کرلی جائے گی۔جب تک ایسے بے داغ سیاسی قائدین کا تعاون اس منصوبے کو حاصل نہیں ہوگا اُس وقت تک اس قسم کے منصوبے کو خواب تو کہہ سکتے ہیں حقیقت قطعاً نہیں۔
Editorial,29-11-2010

ہم چپ ہیں خوابیدہ نہیں!

20اکتوبر 2010سے شروع ہونے والے بہار اسمبلی انتخابات کے پانچ مراحل خدا خدا کرکے پرامن اور خوشگوار ماحول میں اختتام پذیر ہوچکے ہیں، جبکہ چھٹا اور آخری مرحلہ چھٹھ تقاریب کے اختتام کے ساتھ ہی دستک دینے لگا ہے۔ریاست میں سرگرم سیاسی جماعتوں کے باوقار سربراہان آج پھلواری شریف طیرانگاہ سے اپنے اپنے مقررہ اہداف کے مطابق گرم پرواز ہوچکے ہیں۔ یقینا سیاسی معرکہ آرائی میں ہرلیڈر چاہے اُس کا تعلق حزب اختلاف سے ہو یا برسرِ اقتدار جماعت کے خیمے میں رہ کروہ حکومت کے ذریعے ملنے والے عیش وعشرت سے لطف اندوز ہوئے ہوں ، سبھی انتخابی حلقوں میں جاکر رائے دہندگان کو یہ باور کرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑینگے کہ ریاست کے اقتدار کی کرسی اُن کے توانا جسم کے مطابق بالکل فٹ بیٹھتی ہے۔ہرکوئی یہ دعویٰ کررہا ہے کہ بہار اسمبلی کی کرسی پر اُسے براجمان کردیا جائے اِس منصب پر فائز ہوتے ہی وہ ریاست کے تمام خشک چہروں پر ترقی کی چمک لانے میں سردھڑ کی بازی لگا دینگے۔برسرِ اقتدار این ڈی اے کے لیڈران یہ دعوے کررہے ہیں کہ تقریباً پندرہ برسوں تک غنڈہ ازم اور غیر سماجی عناصرکی مٹھیوں میںجکڑ کر تباہ ہوچکے بہار کو انہوں نے نئی توانائی بخشی ہے۔انہوں نے گذشتہ پانچ سالہ دورِ اقتدار میں ریاست میں مجرمانہ سرگرمیوں پر قدغن لگانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قانون وانتظام کی بالادستی کا ہمہمہ پوری ریاست میں گونجنے لگا ۔ کل جرائم پیشے قانون کو ٹھینگا دِکھاتے تھے آج وہی جرائم پیشہ عناصر قانون کے خوف سے منہ چھپائے پھر رہے ہیں۔وزیر اعلیٰ نتیش کمار اگر اپنی انتخابی تقاریر میں اِس قسم کے دعوے کررہے ہیں تو اِ س میں کہیں نہ کہیں اُس حقیقت کا اعتراف ضرور ہے جو انہوں نے بہار کو پٹری پر لانے کے لیے کیا ہے۔ ریاست میں طویل مدت تک حکومت کرنے والی دیگر جماعتوں کے لیڈران اُن کے اِس دعوے کو چاہے جھوٹ کا پلندہ کہیں، مگر عوام کی آنکھیں کھل چکی ہیں ۔ اُنہیں فریب میں رکھ کر کامیابی حاصل کرلینا اب کسی کے لیے بھی ممکن نہیں ہے’ سرخرو ہوتا ہے انساں ٹھوکریں کھانے کے بعد‘ کی مصداق ریاست کے تقریباً نوکروڑ باشندوں نے وہ منظر ضرور دیکھا ہے جب 8بجے شب کے بعد ریاست کے شہروں کی سڑکوں پر غیر سماجی عناصر کا دبدبہ قائم ہوجاتا تھا ۔ والدین اپنے نوجوان سپوتوں کو یہ تاکید کرتے تھے کہ سرِ شام گھر لوٹ آنا ،کہیں ایسا نہ ہو کہ قانون وانتظام کی ابتر حالت کے اِس دور م میں کوئی انہونی گھٹ جائے اور ہمارے بوڑھے اور کمزور کندھے کو تمہارا جنازہ اُٹھانا پڑے۔طویل مدت تک دیگر ریاستوں کے شہروں میں اپنا خون پسینہ ایک کرکے گھر میں انتظار کررہے اپنے بیوی بچوں کے خوردونوش کے لیے پونجی جمع کرکے گاو ¿ں لوٹنے والے یہ اَبھاگے مسافر کب کہاں لوٹ لیے جاتے اِ س کی کوئی ضمانت نہیںتھی۔بطورِ خاص ہم نے دارالحکومت عظیم آباد اور شمالی ہند کے صنعتی شہرمظفرپور کا وہ منظر دیکھا ہے جس کا تصور کرتے ہی کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے کہ کس طرح ٹولوں میں بٹ کر جرائم پیشہ عناصر سرِ شام ہی چوک چوراہوں پر آدھمکتے تھے اور پھر اُن کی نظروں سے کوئی بچ کر اپنی جان اور مال بچا لے جائے یہ کسی سخت جان یا قسمت کے دھنی کے بس کی بات ہی ہوسکتی تھی۔آج حقیقت یہ ہے کہ جرائم کا گراف نیچے آیا ہے ۔ دیر گئے شب میں بھی ہم پٹنہ کی سڑکوں پر ہم خود کو کسی نہ کسی حد تک محفوظ تصور کرتے ہیں۔ اِس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ریاست بہار میں قان وانتظام کی بالادستی قائم ہوئی ہے ۔آنکھوں دیکھی اِ س حقیقت کو جھٹلانا اُسی بہروپئے کا کام ہوسکتا ہے جو مختلف لبادے اور روپ میں لوگوں کے سامنے آکر اُنہیں طرح طرح کی کہانیا ں سنایا کرتا ہے ۔
یقینااُن تمام لیڈران کا ضمیر اُنہیں کچوکے لگاتا ہوگا جب وہ ریاست کی اُن سڑکوں سے گذرتے ہوں گے جن کی ناہمواریاں کل نالوں اور گڈھوں کو مات دیتی تھیں تو اُن کا دل کہیں نہ کہیں اُنہیں ضرور ملامت کرتا ہوگا کہ کیوں سچائی چھپاکر گنہ گار بن رہے ہو۔اِس مرحلے پر شاید یہ سوال آسکتا ہے کہ ریاست میں جرائم کا ارتکاب اب بھی جاری ہے ۔ ابھی حال ہی میں پٹنہ کے وی آئی پی علاقے میں ایک انسپکٹر کو کسی نامعلوم جرائم پیشہ نے گولیوں کا نشانہ بنایا ہے پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ جرائم پر قابو پالیا گیا ہے۔ہم نے یہ قطعاً نہیں کہا کہ ریاست سے جرم اور غنڈہ گردی کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ یہ تو اُس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ ریاست میں بھکمری، غریبی اور خستہ حالی پر سیاست کرنے والے اپنی روٹیاں سینکتے رہیں گے۔مگر حقیقت یہ ہے کہ جرائم میں کمی آئی ہے ۔ آج ریاست میں واضح طور پر تبدیلی محسوس کی جارہی ہے۔یہی وہ چیز ہے جس نے کچھ نہ کرنے والوں کو آج پریشان کررکھا ہے اور طرح طرح کی شعبدہ بازیاں دِکھاکر ریاست کے باشندوں کو فریب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔اب حالات آئینے کی طرح واضح ہوچکے ہیں ،قوم بیدار ہوچکی ہے اور اُس نے پراسرار چپی سادھ رکھی ہے ۔ وہ نہ کسی کی حمایت میں نعرے بازی میں اپنا وقت ضائع کرنا پسند کررہے ہیں اور نہ کسی کو دِھتکار کر یہ واضح کرنے کے حق میں ہیں کہ سیاسی بہروپیوں کو قبل از وقت حقیقت کا پتہ لگ جائے اور وہ حالات کے مطابق بربریت کا ننگا ناچ ناچنے پر اُتارو ہوجائیں۔

سدرشن کی گناہ چھپانے کی ناکام کوشش

عین اس وقت جب مہاراجہ اشوک کی سرزمین شمال مشرقی ہند کے باشندے چھٹھ کے مقدس تیوہار کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ ہر فرد تہوار کو اچھے ڈھنگ اور پرمسرت ماحول میں منانے کی غرض سے بازاروںمیں خریداریاں کررہا تھا ، ہر چہرہ نہایت شادماں اور کھلا کھلا نظر آرہا تھا۔ مگر خوف کی پرچھائیاں ہزار کوششوں کے باوجود ان تمام افراد کے چہروں سے جھلک ہی جاتی تھی،جو امن کو اپنی ترقی اور سربلندی کے کے لیے زندگی کی سب سے اہم ضرور ت تصور کرتے ہیں ۔ بار بار نگاہیں آسمان کی طرف اٹھتی اور بے ساختہ خریداریوں میں مصرف برادران وطن کی زبان پر دُعائیں نکلتی تھیں کہ کسی طرح چھٹھ کا یہ عظیم الشان تہوار پرامن ماحول میں گذر جائے اوراکوئی انہونی ہماری خوشیوں کو ڈس لینے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ ابھی ریاست اترپردیش،بہار اورجھارکھنڈکے امن دوست باشندے یہ دُعائیں کرہی رہے تھے کہ اُدھر اندور میں جمعرات کے روز ملک کی ہندو شدت پسند تنظیم آرایس ایس کے سابق سربراہ کے ، ایس سدرشن نے ٹھہرے ہوئے پانی میں کنکر مار کرپرامن ہندوستان میں کھلبلی اور افر تفری کی صورتحال پیدا کردی ۔ انہوں نے کانگریس پارٹی کی قومی سربراہ مسز سونیا گاندھی پر بہتان تراشیوں کا سابقہ ریکارڈ توڑتے ہوئے کہا کہ محترمہ سی آئی اے کی ایجنٹ ہیں۔ دیدہ دلیری اور بے غیرتی کی انتہا کرتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہا کہ آنجہانی وزیر اعظم اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کی قاتل بھی مسز سونیا ہی ہیں۔ جس وقت سدرشن کی زبان سے ملک کے امن کو انگوٹھا دکھانے والے مذکورہ تشدد انگیز بیان ٹی وی پر نشر کیے جارہے تھے، ہمارے ذہن میں کہیں دو ریہ سوال گونج رہا تھا کہ یہ کیسا قاتل ہے جو اُس چور کی طرح سینہ زوری کرکے اپنے گناہ کو چھپانے کی ناکام کوشش کررہا ہے جس کے کالے کارنامے دنیا کے سامنے چرھتے ہوئے سورج کی طرح واضح ہوچکے ہیں۔ بابائے قوم مہاتما گاندھی کی قاتل تنظیم کا یہ سابق سربراہ نہایت ڈھٹائی سے اپنے گناہ پر پردہ ڈالنے کے لیے ایسا سفید جھوٹ بول رہا تھا جسے سن کر جھوٹ بھی شرمارہا ہوگا۔ہمیں یاد آرہا تھا آج سے تقریباً 65سال قبل کاوہ واقعہ جب 30جنوری 1948کو با بائے قوم مہاتما گاندھی کو شہید کردینے والے گنہگار عوام کے سامنے آکر نہایت ڈھٹائی سے یہ کہہ رہے تھے کہ بابائے قوم کے سینے میں ان کی گولیا پیوست نہیں ہوئی ہیں ۔ مگر دنیا کے تمام افراد نے ان قاتلوں کی باتوں کو سفید جھوٹ قرار دیا تھا، جن کی نگاہوں کے سامنے موہن داس کرم چند گاندھی کی پوری زندگی آئینہ کی طرح موجو دتھی ،جنہوں نے بابائے قوم کے عدم تشدد کی تحریک کو وطن عزیز کی آزادی سے ہم آغوش ہوتے دیکھا تھا۔ انہیں یقین ہوگیا تھا کہ اِس عظیم انسان کے قاتل وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو انگریزوں کی جوتیا چاٹنے کو دنیا میں ترقی اور سربلندی کی معراج سمجھتے ہیں ۔ دنیا نے اس دلیل کے ساتھ بابائے قوم کے قاتلوں کو خاموش ہوجانے کا حکم دیا تھا کہ تمہارے ہی خیمے کا سربراہ قید وبند کی صعوبت سے نجات پانے کے لیے انگریزوں کی غلامی قبول کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہا ہے ۔ تمہارے اولین قائدویر ساورکر کو پس دریائے شور قید سے محض اِس لیے نجات عطا کی گئی تھی کہ وہ ساحل بنگال پراترکر پورے ہندوستا ن میں انگریزوں کی حمایت اور جدو جہد آزادی کے متوالوں کے خلاف تحریکیں چھیڑیں، جن سے ان کے انگریز آقاو ¿ں نے پورٹ بلیئر کی سیلولر جیل سے آزادی کا پروانہ دیتے ہوئے سو بار یہ عہد لیایا تھا کہ وہ ہندوستان لوٹ کرملک کے چپے چپے میں انگریز آقاو ¿ں کی سربلندی کے نغمے سنائے گا۔ وہ ان لوگوں کو سرعام شرمندہ اور رُسو اکرنے کی مکروہ سازشیں رچے گا، جو انگریز کی غلامی میں سانس لینے کو اپنے لیے سب سے بڑی توہین سمجھتے ہیں۔ ہاں! ہمیں کہہ لینے دیجئے کہ انہیں ویر ساور کر کی گود کے پروردہ ناتھو رام گوڈسے کی بندوق سے نکلنے والی آگ نے باپو کے کلیجے کو جلا ڈالا تھا ۔ جن کے سینے میں ایک ترقی یافتہ اور پرامن ہندوستان کا خواب روزانہ پلتا اور جوان ہوتا تھا۔ ایسے فرد کو یقینا ایسے لوگوں کی گولیا ہی نشانہ بناسکتی تھیں جو انگریزوں کی غلامی والے ہندوستان اپنے لیے جنت تصور کرتے ہوں۔
آج ٹھیک اُسی خیمے کا ایک ماﺅف ذہن کھوسڈسربراہ اگر وطن کی آزادی میں قائدانہ رول اداکرنے والی سیاسی جماعت کانگریس کی قومی سربراہ پر یہ کہہ کر اُنگلیاں اُٹھانے کی مجرمانہ جرا ¿ت کررہا ہے تو ہمیں بے چین نہیں ہونا چاہیے، بلکہ ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ اِ ن کے بابائے آدم نے اِ نہیں یہی تعلیم دی ہے کہ خود کو بے قصو ر ثابت کرنے کے لیے سارے زمانے کو قاتل گرداننے میں قطعاً گریز نہ کیاکرو۔دنیا تمہاری طرف کبھی بھی انگلی اٹھانے میں کامیاب نہیں ہوگی۔ کے ایس سدرشن کا یہ بیان یقینا اُسی گناہ کو چھپانے کی ایک چال ہے جس میں آر ایس ایس کی کئی گنہ گار گردنیں پھنس چکی ہیں۔مکہ مسجد میں خون کی تاریخ رقم کرنے والوں نے الزام چندبے گناہ مسلم نوجوانوں پر رکھ کر یہ تصور کرلیا تھا کہ دنیا کی کوئی بھی طاقت انہیں کیفرکردار تک پہنچانے میں کامیا ب نہیںہوسکے گی۔ شاید انہیں یقین نہیں رہا ہوگا کہ مظلو،موں کی آہ عرشِ خداوندی کو ہلا دیتی ہے۔ بقول سعدی ’مظلوم کی آہ سمند ر میں آگ لگادیتی ہے۔‘ یقینا بے گناہ مسلم نوجوانوں کے آنسو عذاب کی شکل میں آرایس ایس پر برسنے لگے اورمسلسل دوچاربرسوںسے ملک میںانجام دئے جانے والی دہشت گردانہ کارروائےوںمیںیکے بعد دیگرے ان کے کئی قدآورکہے جانے والے لیڈروںکے اصلی چہرے دنیاکے سامنے آچکے ہیںمالے دھماکہ کی ملزمہ سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر اوراس کاماسٹرمائنڈرام جی سمیت آرایس ایس کی تربیت میںجوان ہونے والے متعدد فوجی اہلکاروںکی کالی کرتوت کاکچاچٹھابے نقاب ہوچکاہے۔ ابھی تفتیشی ایجنسیاں چند گردنوں تک ہی پہنچی تھیں کہ سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی کے مزار پر خون کی ہولی کھیلنے والوں کی گردنیں بھی ہاتھوں میں آگئیں اور ایسا محسوس کیا جانے لگا کہ اِن کی زبانوں سے کچھ ایسے چونکادینے والے حقائق سامنے آجائیں گے جس سے دنیا والوں پر اِندور میں بیٹھ کر پورے ملک کو تباہ کرنے والوں کے حیوانیت کوشرمسارکردینے والے ناپاک منصوبوںکاپردہ فاش ہو جائے گا۔ شاید سدرشن کو اپنی گردن کے اِرد گرد بھی قانون کی رسی کستی ہوئی محسوس ہوئی ہوگی۔ اِ سی خوف کو دُور کرنے اور تفتیشی ایجنسیوں کا ذہن منتشر کرنے کے لیے انہوں نے ایسا بیان دیا ہے جسے گمراہ کن کہنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔