Sunday, May 22, 2011

اخلاقی زوال کے شکار ذرائع ابلاغ

سادہ الفاظ میں خبروں کے جمع کرنے، لکھنے اور ان کو نشر یا شائع کرنے کے نظام یا شعبے کا نام صحافت یا میڈیا ہے۔ ذرا وسیع معنوں میں وہ قرا ¿تی، سمعی اور بصری ذرائع جن کے ذریعے حادثات و واقعات، مسائل اور رجحانات و میلانات کے بارے میں معلومات اکٹھی کی جاتی ہیں` ان کی سند اور صداقت کے بارے میں تحقیق کی جاتی ہے اور پھر ان کو اخبارات و رسائل، ریڈیو، ٹی وی یا انٹرنیٹ پر نشر کیا جاتا ہے، میڈیا کی تعریف میں آتے ہیں۔ موجودہ دور میں نیوز میڈیا کا دائرہ اتنی وسعت حاصل کرچکا ہے کہ اطلاعات و معلومات اور آراءوافکار کو عوام تک پہنچانے کا یہ واحد ذمہ دار یا ٹھیکے دار بن گیا ہے۔ لفظ میڈیا کے رواجِ عام سے پہلے اس نظام کے لیے اردو میں صحافت اور انگریزی میں Journalism کی اصطلاح عام تھی جو فرانسیسی زبان کے Journal اور لاطینی زبان کے Diurnal سے ماخوذ تھی، جس کا مطلب روزنامہ ہے۔ قدیم روم میں
Acta Diuma The ہاتھ سے لکھے ہوئے خبری بلیٹن کو کہا جاتا تھا جو کسی اہم پبلک مقام پر رکھ یا پہنچا دیا جاتا تھا اور لوگ وہاں جمع ہوکر اسے پڑھتے اور اس دن کی تازہ خبر سے آگاہ ہوتے تھے۔ یہ گویا دنیا کا پہلا اخبار تھا۔ لیکن انگریزی زبان کا پہلا اخبار Daily Courant مانا جاتا ہے جو 1702ءسے 1735ءتک شائع ہوتا رہا۔ اقرائی ذرائع میں کبھی صرف کتابیں، رسالے اور اخبارات شامل تھے، فلم اور ڈرامے نے سمعی اور بصری پہلو کا اضافہ کیا اور اسے ایک نئی جہت بخشی۔ آج انٹرنیٹ کا جن بوتل سے نکل کر ان سب پر چھا گیا ہے، اس نے لوگوں کی توجہ جرائد و کتب سے ہٹادی ہے۔ گزشتہ ایک ڈیڑھ عشرے سے مطالعہ کے ذوق اور سرگرمی پر جو دھند گہری ہوئی جارہی ہے اسی بوتل کا دھواں ہے جس سے یہ جن نکلا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں انٹرنیٹ ایجاد ہوا اور اس کا سب سے پہلے اور سب سے زیادہ استعمال شروع ہوا وہاں تو کتاب خوانی کے رجحان میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ ہر ماہ ہی نہیں ہر ہفتے کسی نہ کسی موضوع پر کوئی کتاب چھپتی ہے اور Seller Best کا درجہ پاکر لاکھوں قارئین کے ہاتھوں میں اور مطالعہ کی میز پر پہنچ جاتی ہے، لیکن ہماری نگاہیں انٹرنیٹ سے ایسی خیرہ ہوئی ہیں کہ اس کے سوا کچھ اور سجھائی ہی نہیں دے رہا ہے۔ اخبارات اور رسائل کے بعد ریڈیو میڈیا کا حصہ بنا۔ اس سے حالات و حوادث سے آگہی اور تفریح کے امکانات میں اور وسعت آئی۔ ہمارے ہاں 1970 کے عشرے میں بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی کی آمد ہوئی۔ پھر رنگین ٹی وی نے آکر واقعات و شخصیات کو متحرک اور Live حالت میں ناظرین کے سامنے پیش کرنا شروع کیا تو اس کے اثرات کا دائرہ اور زیادہ پھیل گیا۔ اب واقعات محض خبروں کی صورت میں نہیں بلکہ اپنی اصلی صورت میں نگاہوں کے سامنے آنے لگے۔ اس وقت سمعی اور بصری ذرائع ابلاغ کی برادری میں ایک اور رکن یعنی موبائل فون کا اضافہ بھی ہوچکا ہے۔ میڈیا کا دائرہ ¿ کار یا ذمہ داری میڈیا کی ذمہ داریوں میں معروضی انداز میں خبر دینا، حالات سے باخبر رکھنا، واقعات کے پس منظر پر روشنی ڈالنا، حقائق کی تہہ تک پہنچنا، انسانی معلومات سے تھوڑا آگے جاکر اس کے شعور کو بیدار کرنا، ایک خاص نہج پر رائے سازی اور معاشرتی تقاضوں کے مطابق لوگوں کے رویوں اور رجحانات کی تعمیر ( Trend Setting) کرنا شامل ہیں۔ جدید دور کے میڈیا نے خبر دینے کے ساتھ خبر لینے کو بھی اپنے مقاصد میں شامل کرلیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میڈیا جہاں ہر طبقے، ہر گروہ اور ہر سیاسی پارٹی، مذہبی جماعت اور سماجی تنظیم کی سرگرمیوں کی معروضی انداز میں خبریں دیتا ہے وہاں وہ عوامی نمائندگی کرتے ہوئے ان جماعتوں اور تنظیموں اور گروہوں کی غلطیوں اور کوتاہیوں پر ان کا مواخذہ اور محاسبہ بھی کرتا ہے تاکہ ان کی کوئی پالیسی اور سرگرمی قومی مفاد اور سماجی بہبود کے منافی نہ ہو۔ میڈیا کی اسی اہمیت کے باعث اس کو جمہوری نظام کا اہم ترین ستون شمار کیا جاتا ہے۔ ان مقاصد کو سامنے رکھا جائے تو میڈیا کا کردار بڑا مقدس نظر آتا ہے۔ جس طرح ناولوں اور ڈراموں میں برائی اور اچھائی کی کشمکش میں برائی کو اس انداز میں پیش کیا جاتا تھا کہ پڑھنے والوں کے دل میں ہیرو سے عقیدت اور ہمدردی پیدا ہوجاتی تھی اور ولن شر و فساد کا نمائندہ بن کر سامنے آتا اور اس سے نفرت کے جذبات ابھرتے تھے۔ قارئین فطری طور پر ہیرو کی فتح اور ولن کی ذلت و رسوائی کی تمنا کرتے اور اس کے روپ میں مجسم باطل کو کیفر کردار تک پہنچا ہوا دیکھنا چاہتے تھے، عین اسی طرح میڈیا پر کرپٹ اور گھٹیا ذہنیت و اخلاق کے سیاستدانوں، بگاڑ اور فساد کی قوتوں اور معاشرے میں پھیلے ہوئے دیگر تخریبی عناصر کو بے نقاب کرکے ان کو انجام تک پہنچانے کی مہم خیر اور بھلائی کے غلبے کی مہم چلانے کی ذمہ داری ہے۔ قومی ذمہ داری کے اعتبار سے ملک و قوم کی اساسات سے ہم آہنگ اعتقادات، نظریات و افکار اور تعمیری رجحانات و میلانات کو فروغ دینا میڈیا کا اصل کام سمجھا جاتا ہے۔ جس طرح ایک استاد سے یہ توقع کرنا بعید ازامکان ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کو برائی کی تعلیم دے گا اور جرائم کا عادی بنائے گا اسی طرح میڈیا کے بارے میں یہ سوچنا انوکھی بات سمجھی جاتی تھی کہ وہ ان اخلاقی رویوں اور افکار و معتقدات کا پرچار کرے گا جو قومی مقاصد سے متصادم ہوں۔ جو معیارات و اصول اب قصہ ¿ پارینہ ہیں ایک وقت تھا، جب ایک مشن کے سوا میڈیا کا کوئی اور کردار تصور میں ہی نہیں آسکتا تھا۔ ہمارے ماضی قریب کی تاریخ میں سامراج سے آزادی کی جدوجہد کو ا ±س وقت کے پرنٹ میڈیا کا سب سے بڑا جہاد سمجھا جاتا تھا۔ مولانا ظفر علی خان، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد اور ایسی ہی دیگر شخصیات کا قلمی جہاد وہ وقیع کارنامہ تھا جس کے ذریعے انہوں نے تاریخ میں اپنا روشن کردار رقم کرایا اور قوم و ملت کے محبوب و محترم قرار پائے۔ ا ±س زمانے میں روزنامہ صحافت کا کچھ زیادہ چلن نہیں تھا۔ متعدد وقیع دینی اور علمی ماہنامے اپنی ایک پہچان رکھتے تھے۔ اکثر ماہنامے اپنے عالی قدر مدیروں کی رحلت کے بعد بند ہوگئے۔ فکری یکجہتی، اپنے خاص آدرش کے تحت ذہن سازی اور رائے اور فکر کی تشکیل سب کا مشترک مطمح نظر تھا۔ اپنے نظریے اور فکر کی پاسداری میں ا ±س دور کے مدیرانِ کرام نے بڑی قربانیاں دیتے، جیلیں کاٹتے اور بھاری جرمانے بھرتے تھے، مگر اس طرح کی ہر تلخی اور ترشی ان کے نشہ ¿ جدوجہد آزادی اور جنون مقاصد کو اور بڑھا دیتی تھی۔ وہ اپنے نظریی، اصول اور اپنے نصب العین پر کسی سودے بازی کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ وہ نہ بکتے تھے اور نہ جھکتے تھے۔ ان کے نزدیک قلم کی حرمت پر حرص و ہوس کی آنچ آنے دینا ماں بہن کی آبرو بیچنے کے مترادف تھا۔ ان کے الفاظ اتنی بڑی قیمت رکھتے تھے کہ کوئی ان کی قیمت لگانے کی ہمت ہی نہیں کرتا تھا۔ وہ فقر و فاقہ اور مشکلات و مصائب کی حالت میں بھی اپنے اصولوں سے غذا اور روشنی پاتے تھے۔ یہی ان کی قوت کا راز تھا۔ کردار کے کھرے پن کا اپنا ایک وزن اور اثر ہوتا ہے۔ مولانا محمد علی جوہرؒ سے بڑھ کر کون سامراج دشمن ہوسکتا تھا اور کس نے انگریز کو چیلنج کرنے کی اس سے بڑی جسارت کی ہوگی! لیکن یہی چیز ان کی اس عظمت کی دلیل تھی جس کے اعتراف میں انگریز وائسرائے صبح دم اپنے ناشتے کی میز پر سب سے پہلے ”کامریڈ“ دیکھنا پسند کرتا تھا۔ معیارِ زبان و بیان بھی روبہ زوال وقت گزرنے کے ساتھ ہر چیز کی قیمت و قامت گھٹنے لگی۔ صحافت یا مروجہ اصطلاح میں میڈیا کی اصولی آب و تاب بھی ایک گہن کی لپیٹ میں آگئی ہے۔ بیان کی لذت اور شائستگی اور زبان کی مہارت کے لحاظ سے بھی اب وہ معیار خواب و خیال ہوکر رہ گیا ہے جو صحافت کے ان اساطین نے قائم کیا تھا۔ ان میں سے اکثر اپنے وقت کے نامور ادیب اور شاعر تھے۔ بات صرف اردو ہی تک محدود نہیں ہی، مولانا ظفر علی خان اور مولانا محمد علی جوہر اور دوسرے کئی عظیم صحافیوں کو انگریزی زبان پر بھی کامل قدرت حاصل تھی۔ مشہور تھا کہ کئی انگریز مولانا محمد علی جوہر کی انگریزی پڑھ کر اپنی لغوی غلطیاں دور کرتے تھے۔ پھر اپنی تہذیبی جڑوں کے ساتھ ان کا رشتہ بہت گہرا تھا۔ سیرت و کردار کے لحاظ سے بڑے ا ±جلے تھے۔ آج ذرائع ابلاغ سے وابستہ خواتین و حضرات کے کردار میں وہ بلندی، اور مقاصد میں وہ رفعت غائب ہوگئی ہے جو ماضی میں صحافی کی پہچان تھی۔ اب ذہن اور قلم دونوں پر For Sale یعنی برائے فروخت کا لیبل لگا کر صحافی اپنے دفتروں میں بیٹھتے ہیں۔ میڈیا میں اب کالی بھیڑوں نے جگہ بنالی ہے۔ کردار کی بلندی میں آج کے صحافی مذکورہ بالا بزرگوں سے کوئی نسبت نہیں رکھتے۔ ان کی نظریاتی بینائی بہت کمزور ہے۔ اغراض کے بندوں اور ناتراشیدہ ذہنوں کے لشکر اس شعبے میں داخل ہوگئے ہیں۔ یہ ہمیشہ ہری گھاس پر نگاہ رکھتے ہیں۔ جدھر چارہ زیادہ ملتا ہے ا ±دھر چلے جاتے ہیں۔ میڈیا مراکز نے بھی صحافیوں کو خریدنے کی منڈیاں لگا رکھی ہیں۔ ایک خاتون یا حضرت صبح ایک چینل پر خبریں پڑھتے نظر آتے ہیں تو شام کو کسی دوسرے چینل پر جھلک دکھاتے ہیں۔ اینکر اور کالم نویس کبھی ایک چینل یا اخبار کے مالکان کے کلمے پڑھ رہے ہوتے ہیں، اور ذرا بھاو ¿ بڑھ جائے تو اسی زبان اور لہجے میں دوسری انتظامیہ کے قصیدے شروع کردیتے ہیں۔ کبھی ایک جماعت کے حامی ہوتے ہیں تو کبھی دوسری کے دسترخوان کی خوشہ چینی میں لگ جاتے ہیں۔ پی سائی ناتھ انگریزی اخبار Hindu کے دیہی امور کے ایڈیٹر ہیں اور عوامی مسائل اور مشکلات سے بحث کرتے ہیں۔ 30 جون کو نئی دہلی میں MassMedia پر اپنے ایک لیکچر میں انہوں نے ایسی باتیں کی ہیں جو میڈیا سے تعلق رکھنے والی ایک معتبر شخصیت کی طرف سے بڑی تلخ حقیقت کے بارے میں شہادت کا درجہ رکھتی ہیں: 1۔ میڈیا اب کوئی مقدس مشن نہیں، بلکہ یہ اب کارپوریٹ سیکٹر کا حصہ ہے۔ 2۔ میڈیا کا کاروبار کرنے والی کمپنیوں کے معیشت کے مختلف شعبوں میں زبردست مفادات ہیں۔ ان کی اولین ترجیح مفادات کی حفاظت ہے۔ 3۔ میڈیا کمپنیوں یا اداروں کے ایڈیٹر، رپورٹر، کالم نگار اور دیگر قلم کار ان کمپنیوں کے تنخواہ دار کارندے ہیں۔ ان کا اولین کام اپنے مالکان کے مفادات کا تحفظ ہے۔ 4۔ جھوٹ بولنا اور پھیلانا ان صحافیوں کی حالیہ ”صحافتی اخلاقیات“ کے تحت ایک پیشہ ورانہ مجبوری بن گئی ہے۔ پی سائی ناتھ نے اس کے لیے StructuralCompulsion to lie کی اصطلاح استعمال کی۔ 5۔ میڈیا کی کمپنیاں اور ادارے بڑی بڑی تجارتی کمپنیوں کے ساتھ ایک طرح سے مفادات کے ساجھی اور ساتھی ہیں۔ صحافی انہی کے مفاد میں اسٹور یاں گھڑتے اور سنسنی خیز انداز میں ان کو پھیلاتے ہیں تاکہ ٹی وی چینلوں کی ٹی پی آر بڑھے۔ 6۔ نقد رقوم کے عوض ( PaidNews) خبروں اور اسکینڈلز کی اشاعت میڈیا میں پھیلنے والی بہت بڑی لعنت ہے جس میں بڑے بڑے نامور رپورٹر، ٹی وی اینکر، تبصرہ نگار اور کالم نویس ملوث ہیں۔ ان کی تحریروں میں اب نہ معروضیت ہے اور نہ غیر جانبداری۔ وہ وہی لکھتے ہیں جس کا اشارہ ان کے مالکان کی طرف سے ہوتا ہے۔