Sunday, May 1, 2011

قومی یہکجحتی میں صحافیوں کا کردار

کالم، کالم --- سید انجم شاہ
شعبہ صحافت قومی زندگی کا ایسا آئنیہ دار ہے جس میں ملک کے‌خدوخال اپنی تمام تر رنگینیوں ،دلچسپی اور‌کامیوں کے ساتھ روشن نظر آتے ہیں صحافی اسی معاشرے کا ایک حصہ ہے وہ ہر اچھی یا بری بات سے اسی طرح متاثر ہوتے ہیں جس طرح کے باقی افراد متاثر ہوتے ہیں فرق صرف یہ ہے کہ عام آدمی متاثر ہوتا ہے اور صحافی اپنے تاثرات کو ایک تصویر کی‌صورت پیش کرتا ہے دراصل صحافی باقی افراد کی نسبت زیادہ حساس ہوتا ہےاس لئے اسکے اظہار میں اسکا تاثرنکھر کر سامنے آتا ہے معاشرے میں جو کچھ شب وروز ہوتا ہے صحافی وہ نہ صرف دیکھتا ہے بلکہ اس سے نتائج بھی اخذ کرتا ہے اور اسکے اسباب پر بھی غور کرتا ہے یہی غود وفکر اسک رپورٹنگ یا اسکے کالم کی جان ہوتا ہے ورنہ مخص یہ بتا دینا کہ کیا واقعہ ظہور پذیر ہوا خبر نگاری تو ہو سکتی ہے صحافت نہیں
میرے نزدیک صحافت اس چیز کا نام ہے کہ معاشرے کے ایک ذمہ دارکی حثیت سے صحافی صرف خبر ہی نہ پہنچائے بلکہ اپنی ذہانت اور تربیت سے کام لے کر یہ فرض بھی ادا کرے کہ بحثیت قوم افراد ملت کو کیا طرز عمل اختیار کرنا چاہیئے صحافی غیر محسوس طریقے پر بڑی خو بی کے ساتھ قوم کی فکر ،سوچ اور عمل کی راہ کا تعین کر سکتا ہے اگر وہ صحافی قومنی صحافت کے قومی تقاضوں کو پورا نہیں کرتا تو وہ ہر گز قومی صحافی کہلوانے کا مستحق نہیں ہے
یہ تو ہو سکتا ہے کہ کسیصحافی کی دلچسپی کسی مخصوص‌گروہ،مخصوص جماعت یا مخصوص نکتہ نظر کے ساتھ ہو لیکن سچا ط وہ ہے ذاتی دلچسپی اور گروہ دلچسپیوں پر قومی اور ملکی مداف کو فوقیت دے اور ذاتی مفادات کو ملی ملی مفادات پر قربان کرنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہ کرے یہی وہ خصوصیت ہے جس سے قومی صحافت وجود میں آتی ہے ورنہ مخص گروہی خبر نامے وجود میں آتے ہیں یا اخبار نہیں
صحافت کا اولین فرض ہے کہ وہ ملی یکجہتی کو کسی طور پر نقصان نہ پہچنے دے ایک روشن ضمیر صحافی کا مقصد حیات ،اتحاد ملک و ملت ہوتا ہے وہ کوشش کرتا ہے کہ اپنے مضامین اداریوں اور کالم کے ذریعے افراد اور قوم میں ملکی مفاد پر ایک مرکز پر جمع کونے کی صلاحیت پیدا کرے
وہ صحافی جنکے اخبارات چھوٹی سے آبادی سے لے کر مرکزی شہروں تک یکساں دلچسپی کے ساتھ پڑے جاتے ہیں ان پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ علاقائیت کی فضا رکھتے ہوئے اپنے فرائض سر انجام دیتے ہیں وہ علاقائیت اخبارات کہلاتے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ پورے ملک میں پڑھے جانے والے اخبارات کی نسبت علاقائی اخبارات اپنے علاقے کی عوام کے قلب و ذہن پر زیادہ مضبوط گرفت رکھتے ہیں اس لئے وہ چھوٹے علاقے کے تمام مسائل سے پوری طرح واقفیت رکھتے ہیں وہ یہ جانتے ہیں کہ کسی معاملے میں عوامی سوچ کیا رخ اختیار کر سکتی ہے اور کون سی بات انہیں کس انداز میں متاثر کر سکتی ہے گویا وہ اپنے حلقی اثر کی نفسیات سے پوری طرح آگاہن ہوتے ہیں اسلئے ان کے اوپر یہ نازک ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے علاقے کی حد تک اپنے اداریوں ،خبروں اور کالمز کے‌ذریعے اپنے حلقہ اثر کو ایسی ذہنی تربیر دیں کہ انکی سوچ قومی رخ اختیار کرے اور وہ اس بات پر آمادہ ہوں کہ اگر قومی اور ملکی مفاد کےلئے اپنا سب کچھ نقصان بھی کرنا پڑے تو ایک جذبے اور خوش دلی کے ساتھ یہ کام کر گزریں یہ تربیت علاقائی صحافت بڑی سہولت کے ساتھ فراہم کر سکتی ہے اور اس طرح پورے ملک میں ملی یکجہتی کے چراغ روشن ہو سکتے ہیں اختلافی مسائل پر اختلافات کو مزید ہوا دینا ہو تو ایک شخص ہوا دینے کا کام کر سکتا ہے لیکن قابل تعظیم وہی صحافی ہے جو اس مرحلہ میں لوگوں کو نفرت تعصب اور برائی کی دلدل سے نکال کر ایسی شاہراہ پر لانے کا کارنامہ سرانجام دے جو قومی یکجہتی کی روشن راہ ہے وہی صحافی کہلانے کی مستحق ہیں جو کسی خبر میں مخص سنسنی پیھلا کر اخبار بیچنے کی بجائے ایسا انداز اختیار کریں کہ دیانت دار اور صداقت کے ساتھ خبر بھی لوگوں تک پہنچے اور انکی فکر کا رخ بھی مثبت ہو ایسا صحافی خواہ قومی صحافی ہو یا علاقائی صحافی کی انجمنیں ایسے لوگوں کا احتساب کریں جو درحقیقت صحافینہیں ہیں
مخص خیز خبریں گھڑ کے پیسے کمانے کےلئے صحافت کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں اور شریف شہریوں کی پگڑیاں اچھالنا شروع کر دیتے ہیں اور ان صحافیوں کو خبر بھی لکھنا نہیں آتی کسی دوست وکیل وغیرہ کا سہارہ لیتے ہیں ایسے لوگوں سے صحافت کو پاک کیا جانا ہے ورنہ ہم جانتے ہیں کہ اچھائی کی تبلیغ دیر میں رنگ لاتی ہے لیکن برائی اور سنسنی خیزی فوری اثر کرتی ہے اور اسقسم کی زرد صحافت وہ گل کھلاتی ہے جو قوم کےلئے باعث شرم ہوتا ہے
علاقائی صحافی کا کام بہت نازک ہوتا ہے اس لئے کہ اسے حقائق کا اظہار بھی کرنا ہوتا ہے اور برائی کو برائی اور اچھائی کو اچھا کہنا ہوتا ہے اس کا ایک محدود حلقہ ہوتا ہے جہاں تمام لوگوں سے اس کے ذاتی رابطے اور تعلقات ہوتے ہیں انتظامیہ سے برارست اسکا رابطہ ہوتا ہے اسلئے خامیوں اور کوتاہیوں اور برائیوں کی نشاندہی اسکےلئے بہت مشکل کام ہوتا ہے اسکی حق گوئی و بے باکی کو خریدنے کی بھی کوشش کی جاتی ہے اسکی تذلیل کا بندوبست بھی کیا جاتا ہے اور خوفزدہ کرنے کی بھی کوشش کی جاتی ہےت لیکن ان سب طوفانوں سے علاقائی صحافی جرات ہمت کے ساتھ نبرد آزما ہوتا ہے اسلئے اسے محفلوں اجلاسوں اور سرکاری تقریبات میں یا تو باوقار مقام نہیں دیا جاتا یا پھر اس سے تیسرے درجے کے شہری کا سلوک کیا جاتا ہے بعض اوقات اسکی حق گوئی و بے باکی کی سزا کا بھی بندوبست کیا جاتا ہے اسکے خلاف جھوٹے مقدمات قائم کئے جاتے ہیں خریدے ہوئے گواہ پیش کئے جاتے ہیں بعض اوقات صحافی اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ایسے ہی کسی صحافی کے بارے میں قتیل شفائی لکھتے ہیں
ہو نہ ہو یہ کوئی سچھ بولنے والا ہے قتیل
جس کے ہاتھ میں قلم اور پائوں میں زنجیریں ہیں
حالانکہ سرکاری سطح پر ایسے حق گو اور بے باک صحافی کو باوقار مقام بھی ملنا چاہئے اور اس کا ہر طرح کا تحفظ بھی کیا جانا چاہیئے جو اپنے تمام فائدوں کو چھوڑ کر معاشرے سے رشوت ،کرپشن ،بے ایمانی،۔جعل سازی فریب ،مکاری ،چور بازی ،ذخیرہ اندوزی ،اقربا پروری اور اس قسم کی بے شمار برائیوں کے خلاف بند قائم کرنے میں‌مصروف رہتا ہے

صحافت اور فکری رہنمائی

اللہ تعالیٰ نے انسان کو حیوانی قالب میں تو پیدا کیا ہے، مگر ساتھ ہی اسے عقل و فہم اور فکر و شعور کی وہ صلاحیتیں بھی عطا فرمائی ہیں جو اسے تمام حیوانات سے ممتاز کرتی ہیں۔عقل و شعور کی یہ صلاحیت ہی انسان کا وہ اصلی شرف ہے جو اسے ایک کمزور جسم کے باوجود کرہ ارض کا حاکم بنادیتی ہے۔یہی شرف ہے جس کی مدد سے انسان نے پتھروں سے تمدن کو پیدا کیا ، بحر و بر کو مسخر کیا،بیماریوں کو شکست دی اور ہر دور میں پیدا ہونے والے اپنے مسائل کو حل کیا۔یہی عقل و فہم ہے جس کی بنیاد پر ہم ماضی سے سبق سیکھتے ہیں، حال کا تجزیہ کرتے ہیں اور مستقبل کا منصوبہ بناتے ہیں۔یہی فکری رہنمائی ہماری زندگی کی کامیابی کی ضامن ہے۔
ایک فرد کی طرح معاشرہ بھی اپنے مسائل کے حل کے لیے درست فکری رہنمائی کا طالب ہوتاہے۔ جو لوگ یہ فکری رہنمائی کریں وہ فلسفی، مفکر ، حکیم اور دانشور کہلاتے ہیں اور اجتماعی طور پر انہیں فکری قیادت (Intellectual Leadership) کہا جاتا ہے۔مثال کے طور پر علامہ اقبال برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک عظیم فکری قائد تھے۔ انہی کی رہنمائی کو اپناکر مسلمانوں نے پاکستان کے قیام کی تحریک چلائی اور ہندوستان سے جدا ہوکر اپنی الگ مملکت قائم کی۔
ایک فکری قائد وہ ہوتا ہے جو دیکھتا تو وہی ہے جو سب دیکھتے ہیں ، مگر بتاتا وہ ہے جو دوسرے نہیں بتاپاتے ہے۔وہ ایسا اپنے وسیع علم،گہرے مطالعے ،کشادہ ذہن، تیز نظر اور بے لاگ تجزیہ کرنے کی خداداد صلاحیت کی بنا پر کرپاتا ہے۔بدقسمتی سے ہمارے ملک پاکستان میں جہاں اور کئی شعبوں میں زوال آیا وہیں فکری رہنمائی کرنے والی قیادت اور اس کی رہنمائی کی سطح بھی ، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ،گرتی چلی جارہی ہے۔اس کے بہت سے اسباب ہیں۔مثلاً علمی جمو د، تعصب اور اختلاف رائے کو برداشت نہ کرنے کی روایت وغیرہ۔تاہم اس صورتحال کا ایک بہت اہم سبب یہ ہے کہ اب قوم کی فکری رہنمائی زیادہ تر وہ لوگ کررہے ہیں جو اصل میں صحافی ہیں۔صحافی بنیادی طور پر رپورٹر ہوتا ہے جس کی اصل دلچسپی حالات حاضرہ اور خبر میں ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ ہمیشہ حال میں جیتا اور فوری واقعات کا نوٹس لیتا ہے۔ اس کے تجزیے کا انحصار اپنے مطالعے سے زیادہ مختلف ذرائع سے سامنے آنے والی معلومات اورخبروں پر ہوتا ہے۔اس کے نتیجے میں وہ ایک دن کا مفکر تو بن سکتا ہے، مگر قوموں کی فکری رہنمائی کے لیے جس گہری نظرا ور بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے ،وہ اکثر ایک صحافی میں ناپید ہوتی ہے۔ ایک مفکر خبروں سے جنم لینے والے حال اور ماضی قریب میں نہیں جیتا بلکہ اس کا موضوع ماضی بعید اور مستقبل ہوتا ہے۔ وہ چیزوں کی معلومات سے زیادہ ان کی حقیقت اور نوعیت کو سمجھنے میں دلچسپی لیتا ہے۔زندگی اور معاشرہ کے اصول اورفرد اور اجتماعیت کی نفسیات کو سمجھنا اس کا اصل میدان ہوتے ہیں۔ظاہر ہے کہ یہ سب ایک عام صحافی کے بس کی بات نہیں ۔ وہ تو ماضی قریب میں جیتا ہے جبکہ ایک حکیم اور مفکر ماضی بعید کی عطا کردہ حکمت میں جیتا ہے جو اسے مستقبل میں جھانکنے کے قابل بنادیتی ہے۔ یہی ایک صحافی اورمفکر کا بنیادی فرق ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں صحافت کا ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے صحافی صرف اور صرف سیاست اور سیاستدانوں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ جبکہ دور جدید میں سیاست اجتماعی زندگی کا ایک ضمنی حصہ بن چکی ہے، مگر ہمارا صحافی اسی کو سب کچھ سمجھتا ہے۔ چونکہ سیاست کے میدان میں ہماری ناکامیاں غیر معمولی ہیں ، اس لیے وہ انھی ناکامیوں اور مایوسیوں کو قوم تک منتقل کرنے کا فریضہ سر انجام دیتا ہے۔ جوکسی قسم کی رہنمائی نہیں بلکہ سلو پوائزننگ (slow poisoning)کی ایک قسم ہے۔چنانچہ آپ اخبارات کے کالم نویسوں کو پڑھ لیجیے یا ٹی وی کے تبصرہ نگاروں کو سن لیجیے۔ وہ آپ کو قوم کے کانوں میں مایوسی کا زہر انڈیلتے ہوئے ہی نظر آئیں گے۔
ان حالات میں یہ ضروری ہے کہ لوگ ایک صحافی اور مفکر کا فرق سمجھیں۔ اخبار کا اور اپنا پیٹ بھرنے والے کالم نویسوں اور سیاسی پروگراموں کے تبصرہ نگاروں کی گفتگو سے متاثر ہونے کے بجائے کسی حکیم اور دانشور کو تلاش کریں۔ یہ لوگ کم ہوتے ہیں ، لیکن ایک دو اچھے حکیم قوم کابیڑہ پار لگانے کے لیے بہت ہوتے ہیں۔خد اکا قانون ہے کہ کسی معاشرے سے ایسے لوگ ختم نہیں ہوتے۔ بات صرف ان سے رہنمائی لینے کی ہے اور یہ ہمارے کرنے کا کام ہے ، نہ کہ ان کے کرنے کا۔

زبان وادب کی تشکیل میں اردو صحافت کے کردار کا اعتراف کیوں نہیں؟

عارف عزیز
اردو صحافت، بنگلہ صحافت کے بعد ہندوستان کی قدیم ترین صحافت ہے،ہندی، مراٹھی، گجراتی یہانتک کہ ہن نیوں کی انگریزی صحافت کا اس کے بعد آغاز ہوا ، اردو کی اس صحافت نے ۹۱ ویں صدی کے عہد ساز رجحانات کے فروغ میں جو تاریخی کردار ادا کیا ، اس کا تو عام طور پر اعتراف کیا جاتا ہے لیکن زبان وادب کی تشکیل وترقی میں جو حصہ لیا اس کو فراموش کردیا گیا ہے، ۲۲۸۱ءمیں ”جام جہانما“ اردو کا پہلا مطبوعہ اخبار تھا جو کلکتہ سے شائع ہوا، اردو صحافت کے اس باقاعدہ آغاز سے پہلے صرف دہلی سے بارہ ایسے قلمی اخبارات سپرد ڈاک کئے جاتے تھے، جن کا مقصد انگریزوں کے اقتدار کے خلاف عوام میں بیداری لانا، عام لوگوں کو متحد کرنا اور ان کے دل میں قومی جذبات کو پروان چڑھانا تھا،مذکورہ اخباروں کے وقائع نگاروں میں ہندو مسلمان دونوں شامل تھے۔ اس لئے لارڈ آک لینڈ اور لارڈ کیننگ کو کہنا پڑا کہ” قلمی اخبارات نے عوام میں انگریزوں کے خلاف جذبات بھڑکاکر ۷۵۸۱ءکے انقلاب کی راہ ہموار کی ہے، “ ۷۵۸۱ءمیں گورنر جنرل کونسل کے رکن میکالے نے تو صحافت پر اپنے نوٹ میں یہانتک لکھ دیا تھا کہ ”عام لوگوں میں دیسی زبانوں کی مطبوعہ صحافت کا اتنا اثر نہیں، جتنا قلمی صحافت کا ہے، پیشہ ور وقائع نگاروں کے مرتب کئے ہوئے بے شمار اخبا ر ہندوستان میں نکلتے ہیں، ہر کچہری ، ہر دربار کے باہر وقائع نگار منڈلاتے رہتے ہیں، صرف دہلی سے ہر روز ۰۲۱ قلمی اخبار بذریعہ ڈاک باہر بھیجے جاتے ہیں“۔ مشہور محقق شانتی رنجن بھٹاچاریہ کے مطابق ۹۱ ویں صدی میں یعنی ۲۲۸۱ ءسے ۹۹۸۱ تک کم وبیش پانچ سو اخبار ورسائل ہندوستان کے کونے کونے سے منظر عام پر آئے۔
ظاہر ہے کہ مذکورہ اخبارات نے جہاں عوام میں سیاسی شعور کی تخم ریزی کرکے جذبہ ¿ حریت کو پروان چڑھایا، اپنے قارئین کو جدید فکر اور علوم سے آشنا کیا، وہیں اردو زبان وادب کی تشکیل میں غیر معمولی خدمت انجام دی بالخصوص فارسی آمیز مقفع ومسجع عبارت اور بوجھل الفاظ سے اردو زبان کا پیچھا چھڑا کر، عوامی زبان بنانے میں ایک اہم کردار نبھایا، جس کے نتیجہ میں اردو زبان برق رفتاری سے ایک ترقی یافتہ زبان کے سانچے میں ڈھلتی گئی، لیکن اردو صحافت کے اس کردار کو عام طور پر نظر انداز کیا گیا ، مورخ وناقد بھی اس سچائی کو قابل اعتنا نہیں سمجھتے کہ اردو اخبار ورسائل نے اپنی زبان کو بولی سے زبان تک کے سفر میں گرانقدر حصہ لیا ، اس میں سیکڑوں نہیں ہزاروں نئے الفاظ ومحاوروں کا اضافہ کیا اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے، اردو زبان وادب ، انگریزی یا دوسری عصری زبانوں کے الفاظ ومحاوروں سے آج مالامال ہے، تو یہ بھی اردو صحافت کی دین ہے، مثال کے طور پر پروفیسر، ٹیچر، انجینئر، ڈاکٹر، اسپیکر، پارلیمنٹ ، اسمبلی، سپریم کورٹ، ہائی کورٹ ، سیکولرازم، کمیونزم، سوشلزم، فرنٹ، روڈ، بائیکاٹ نوٹس وغیرہ وہ الفاظ ہیں جو آج اردو زبان کا جز لاینفک بن چکے ہیں ، اردو اخبارات میں ان الفاظ کو مسلسل اور من وعن استعمال کرکے زبان کے خزانے میں جو اضافہ کیا گیا وہ اظہر من الشمس ہے، حقیقت پسندی کا تقاضا ہے کہ اس کا اعتراف کیا جائے۔
اسی طرح یہ دعویٰ کرنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ اردو زبان کو عام فہم لیکن معیاری بنانے، اسے سنوارنے اور سجانے میں اردو صحافیوں کا قابل قدر حصہ ہے، ”خطوط غالب“ تو اردو نثر کو سلاست وبزلہ سنجی کا پیرہن عطا کرنے کی ایک انفرادی سعی تھی، جس کے محرکات کا جائزہ لیا جائے تو ممکن ہے کہ اس عہد کے اردو اخبارات کا پرتو اس میں نظر آجائے، بعد میں مولوی محمد باقر ، سرسید احمد خاں بہاری لال مشتاق، اور مولانا محمد حسین آزاد نے صحافت کے وسیلہ سے اپنے اور دوسروں کے نظریات کی اشاعت کرکے اردو زبان وادب اور تحقیق کے ساتھ ساتھ سیاست کی قندیلیں بھی روشن کیں، اسی طرح مولانا ابوالکلام آزاد کی خطابیہ صحافت ہو یا مولانا حسرت موہانی کی شگفتہ بیانی، مولانا ظفر علی خاں کی پرجوش تحریریں ہوں یا مولانا عبدالماجد دریابادی کے طنز میں بجھے ہوئے شذرات، انہوں نے صحافت کے وسیلہ سے اردو کے نثری خزانے میں بے پایاں اضافہ کیا ہے، اردو کے فکاہیہ وطنزیہ ادب کا جائزہ لیا جائے تو اس کا نوے فیصد حصہ صحافت کا عطیہ ملے گا، اگر اردو کے اخبارات و رسائل نہیں ہوتے تو کالم نگاری، انشائیہ نگاری، انٹرویو نگاری اور افسانہ نگاری کا وجود نہیں ہوتا کیونکہ ان کی اولیں اشاعت کا وسیلہ عام طور پر اخبار وجرائد ہوتے ہیں ، مذکورہ اصناف کتابی شکل میں کافی بعد میں شائع ہوتی ہیں ، اردو صحافت کا یہ بھی کارنامہ ہے کہ اس نے قصے کہانیاں، اور حکایتیں ، سفرنامے، موضوعاتی نظمیں، سیاسی مضامین، قانونی وپارلیمانی مباحث، اور طبی وسائنسی موضوعات کو اخبارات کے صفحات پر جگہ دی ہے۔ اگر ریسرچ اسکالر اردو صحافت کی ان خدمات کا جائزہ لیں تو کئی ضخیم جلدیں اس کے لئے ناکافی ہونگی اور تنقید وتحقیق کی بھی یہ اہم خدمت شمار ہوگی۔
اردو صحافیوں نے سیاسی وادبی تحریکات کو ہی پروان نہیں چڑھایا ، ادب کی مختلف اصناف کی ترقی میں بھی حصہ لیا، فکاہیہ اور طنزیہ کالموں کا ذکر گذر چکا ہے ، اس صنف کو صحافت نے جو اعتبار بخشا وہ لائق تحسین ہے، منشی سجاد حسین ، چودھری محمد علی ردولوی، حاجی لق لق، ملارموزی یا ان کے معاصرین طنزومزاح نگاروں سے اردو دنیا خاطر خواہ طور پر واقف نہیں ہوتی اگر اخبارات ورسائل میں ان کو مقام نہیں ملتا، آزادی کے بعد شوکت تھانوی، مجید لاہوری، فکر تونسوی، علامہ درپن، ابراہیم جلیس، علامہ مدہوش،تخلص بھوپالی، احمد جمال پاشا، مجتبیٰ حسین، یہ سبھی سکے صحافت کی ٹکسال کے ڈھالے ہوئے ہیں لیکن ہمارے بیشتر نقاد اردو صحافت کے اس کارنامے کا اعتراف کرنا کفر سمجھتے ہیں، اگرچہ ابتداءمیں صحافت کی اس خدمت کو سراہا گیا، مولوی محمد حسین آزاد پہلے ناقد ہیں جنہوں نے ”آب حیات“ میں لکھا کہ:
”سید میرانشاءاللہ خاں کے زمانے تک انشا پردازی اور ترقی اور وسعت زبانِ اردو، فقط شعراءکی زبان پر تھی، جن کی تصنیفات غزلیں اور قصیدے مدحیہ ہوتے تھے اور غرض، ان سے فقط اتنی تھی کہ امیر اور اہل دول سے انعام لے کر گزارہ کریں یا تفریح طبع یا یہ کہ ہم چشموں میں تحسین و آفریں کا فخر حاصل کریں، وہ بھی فقط نظم میں، نثر کے حال پر کسی کو اصلاً توجہ نہ تھی کیونکہ کارروائی مطالبِ ضروری کی سب فارسی میں ہوتی تھی، یعنی اردو نثر اردو صحافت کی ایجاد ہے۔“
زبان وادب کی تشکیل میں اردو صحافت کے کردار کے بارے میں مثالیں اور بھی ہیں لیکن ان سے اعتراض کرتے ہوئے یہاں رپورٹنگ کا حوالہ دینا کافی ہوگا اگر اردو کے اخبارات ورپورٹر نہ ہوں تو زبان وادب سے متعلق ساری سرگرمیاں ماند پڑجائیں، جلسے، مشاعرے اور مباحثے صرف ان لوگوں تک محدود رہیں جو ان میں حصہ لیتے یا سامع کی حیثیت سے شریک ہوتے ہیں، یہ اردو کے صحافی ہیں جو بیک وقت رپورٹر ومترجم کے فرائض انجام دیتے ہیں، انگریزی وہندی سے ترجمہ میں اپنی ذہنی کاوش کا مظاہرہ کرتے ہیں اور مضامین، مراسلے اور کارروائی میں زبان وبیان کی اصلاح کرکے انہیں اخبارات کی زینت بناتے ہیں۔
اردو صحافت نے زبان وادب کے فروغ کے ساتھ سیاسی وسماجی تحریکات کی ہی آبیاری نہیں کی، ادبی ولسانی معرکوں کو سرانجام دیکر اپنی زبان کا ہر نازک مرحلہ میں دفاع بھی کیا، خصوصیت سے اردو پر کسی سمت سے حملہ ہوا تو تمام اخبارات اور اس کے صحافیوں نے دل سوزی کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا اسی طرح اپنی زبان کے حقوق و مفادات کیلئے جدوجہد ہو یا علاقائی طور پر اردو کو دوسری زبان بنانے کے مطالبہ کے لئے آواز بلند کرنا، تمام اخبارات اس میں شریک وصمیم رہے، اردو اخبارات کی جغرافیائی حیثیت بھی کافی وسیع ہے، وہ شمال میں کلکتہ سے سری نگر تک اور دہلی سے ممبئی حیدرآباد اور بنگلور تک ہر بڑے شہر میں پھیلے ہوئے ہیں اور زبان پر اپنے اثرات ڈال رہے ہیں، ملک کی گیارہ اہم ریاستوں سے شائع ہونے والے یہ اخبارات ورسائل آج اردو دنیاکی ایک موثر طاقت ہیں، ان روزناموں یا ہفتہ روزہ اخباروں اور ماہناموں کی بڑی تعداد معیاری ہے اور خوب سے خوب تر کی تلاش کےلئے ان کی کدوکاوش جاری ہے، یہ اخبار ورسائل ہر قسم کے افکار اور سیاست کی نمائندگی کرتے ہیں، ان میں ہر مذہب اور علاقے کے ترجمان مل جائیں گے، یہانتک کہ سنگھ پریوار ، آریہ سماج، اسلام، جماعت اسلامی، جمعیة علمائ، اہل حدیث، سناتن دھرم، سکھ ازم، مسیحیت، ترقی پسندی، جدیدیت کے ہمنوا نیز ادب اسلامی کے علمبردار ان میں شامل ہیں۔ اس رنگا رنگی اور مختلف جہتوں کی نمائندگی کے اثرات و عوامل اردو زبان وادب پر بھی مرتب ہورہے ہیں۔

صحافت میں گُھس آنے والے کیسے کیسے اَیسے وَیسے لوگ

کیا دور آ گیا ہے کہ جنرل یحییٰ خاں کی ایک داشتہ کی بیٹی جسٹس طارق محمود کو جمہوری روایات کا سبق پڑھا اور سیاستدانوں کو تلقین کر رہی تھیں کہ وہ ریفرنس کے معاملہ پر اپنی دُکانداری نہ چمکائیں۔ جن لوگوں کی ساری زندگی اِس دعوے پر گزری ہو کہ وہ ہر حکمران کے بیڈ روم تک رسائی رکھتے ہیں اور جنہیں اصولاً ان بیڈ رومز میں بدلنے والی چادروں کا حساب یاد رکھنا چاہئے وہ جب سیاسی معاملات کا تجزیہ کرتے اور دانشوری بگھارتے ہیں تو اسے صحافت کی بدقسمتی کے سوا کیا کہا جائي… نام لینے کی ضرورت نہیں جنرل یحییٰ خان سے شہرت کی ابتداء کرکے بے نظیر بھٹو چونکہ مرد نہیں تھیں اس لئے اُن کے “نائب وزیراعظم” حامد ناصر چٹھہ کے گھر سے گزرتے ہوئے موجودہ حکمرانوں تک رسائی رکھنے والے کتنے ہی لوگوں کا صحافت سے کِتنا تعلق ہے اور کِسی کو شک ہو تو ہو اُنہیں خود اپنے بارے میں کوئی شک نہیں ہو سکتا کہ صحافت ان کا پیشہ نہیں، اپنے اصل پیشے کے تحفظ کی ایک ڈھال ہے۔
سیاست، صحافت، عدالت فی الاصل ایک ہی سِکے کے رُخ ہیں لیکن جب صحافی یہ سمجھنے لگیں کہ وہ حکمرانوں یا سیاستدانوں کو ان کے پیشے کے گُر سمجھائیں گے تو اِسے بدقسمتی کے سوا کیا کہا جائے۔ پتہ نہیں کیوں کچھ اخبار نویسوں نے فرض کر لیا ہے کہ اُن کے نام کے ساتھ “معروف اور سینئر تجزیہ کار” کا خطاب آئے حالانکہ یہ نام نہاد تجزیہ کار ابھی مشکل سے شاید صحافت کی اَبجد بھی جانتے ہوں۔ ویسے بھی صحافی کون ہوتا ہے، تجزیہ کاری کرنے والا۔ وہ کسی معاملہ پر تبصرہ کر سکتا، اُس پر رائے دے سکتا یا اپنا نقطۂ نظر بیان کر سکتا ہے لیکن تبصرے، کالم، مضمون، اداریے، شذرے، مراسلے اور تجزیئے کو ایک ہی معنی پہنا دینا یہ کِس دنیا میں جائز ہے؟ داستان گوئی، شاعری، سفرنگاری، پروفیسری یا سیاست بھی کم عزت والے کام نہیں کہ ساتھ صحافت کا دُم چھلا بھی ضرور لگانا ہے۔
کِسی کی والدہ محترمہ کا کسی حکمران سے قریبی تعلق تھا تو کِسی کے والد صاحب نے کسی خاص حکمران کے لئے خاص خدمات انجام دیں لیکن خواہش اب سب کی یہ ہے کہ صحافی کہلائیں کہ صحافت کی آڑ میں ان کے دھندے بھی چُھپ جائیں گے اور وہ سوسائٹی کے خود ساختہ مصلح اور ریفارمر(Reformer) کا روپ بھی دھار لیں گے۔ پتہ نہیں اچھے اچھے اخبار نویسوں کو کیا ہو گیا ہے کہ سستی شہرت یعنی Cheap Publicity کے لئے اپنے پیشے کا تقدس بھی بھول گئے اور مختلف معاملات میں پارٹی بن رہے ہیں۔ صحافی کا کام کیا ہے؟… عوام کو Inform کرنا اور Entertain کرنا۔ اس کے سوا جو کچھ بھی ہے وہ سب ہو سکتا ہے صحافت نہیں۔ Entertainment کی حدود موجودہ دور میں کافی وسیع ہو چکی ہیں لیکن خبر اور تبصرے سے ہٹ کر Information کی کوئی تیسری قسم بھی ہو سکتی ہے کم از کم ہمارے علم میں نہیں،کوئی اخبار نویس یا صحافی کیا کسی بھی حالت میں کسی واقعہ یا Event کا بائیکاٹ کر سکتا ہے؟ اور آیا صحافتی اخلاقیات اسے اس بات کی اجازت دیتی ہیں؟ اِس پر بحث ہونا ضروری ہو گیا ہے۔
کِسی صحافی کی اِس سے زیادہ بے عزتی اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ کسی وزیراعلیٰ سے تحفظ کی درخواست کرے اور وزیراعلیٰ اُسے کہے کہ ان کے لئے ممکن نہیں کہ ہر صحافی کے ساتھ ایک ایک موبائل گاڑی لگا دیں۔ یہ درست ہے کہ صحافیوں کو ان کے فرائض کی ادائیگی کے دوران مشکلات کم از کم ہونی چاہئیں لیکن وہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ صحافت کا تو پیشہ ہی مشکلات اور اُن سے نبردآزما ہونے کا ہے لیکن اگر آپ کی خواہش محض حکمرانوں تک رسائی اور Nuisance انجوائے کرنا ہے، کوئی پتھر، زخم یا ڈنڈا لگنے پر بائیکاٹ کی دہائی دینا ہے تو معاف کیجئے گا آپ کو صحافت چھوڑ کر کوئی اور کام کر لینا چاہئے کہ دنیا میں صرف ان صحافیوں کے نام زندہ اور روشن ہیں جنہوں نے مسکراتے ہوئے ہر قسم کی مشکلات کا سامنا کیا۔ نہ کسی سے گلہ کیا، نہ زبان پر حرفِ شکایت لائے۔ ممکن ہے آپ کا نقطۂ نظر درست ہو آپ کو اپنے خیال پر ڈٹے رہنے کا حق ہے لیکن آپ نے یہ حق کہاں سے لے لیا کہ کچھ نام نہاد مولویوں کی طرح دوسرے کو اس کے آپ کے خیال میں “غلط” نقطۂ نظر سے “تائب” ہونے پرمجبور کریں۔ یہ بدتمیزی، بداخلاقی، بدتہذیبی، بدکلامی اور بداسلوبی کہاں سے آپ میں دَر آئی ہے کہ آپ کی تو شان ہی آپ کا Polite لیکن Firm ہونا ہي… دن رات جرنیلوں پر تنقید کرنے والوں کے اندر بھی پتہ نہیں کس طرح ویسے ہی ڈکٹیٹر گھس آتے ہیں کہ اپنی بات کو حرفِ آخر سمجھنے لگیں… ہمارا کام کسی کو “مسلمان کرنا” کسی کو “محبّ وطن بنانا” یا کسی کو “راہِ راست پر لانا” نہیں یہ ذمہ داری سیاستدانوں اور عدالتوں کی ہے۔ ہمیں ان کاموں میں محض اداروں اور عوام کی معاونت کرنا ہے اور حالات کچھ بھی ہوں اپنا کام کرتے جانا ہے۔ دائیں بائیں، آگے پیچھے دیکھنا، کسی ترغیب تحریص کو خاطر میں لانا، ستائش اور صلے کی پروا کرنا سب کچھ ہو سکتا ہے صحافت بالکل نہیں۔
کم نہیں طمعِ عبادت بھی تو حرصِ زر سے
فقر تو وہ ہے کہ جو دین نہ دنیا رکھے
کیا اب وقت نہیں آ گیا کہ صحافتی اداروں کے مالکان، ایڈیٹرز، سینئر صحافی اور کارکن صحافیوں کی تنظیمیں آپس میں مل بیٹھیں اور صحافت کے ساتھ ساتھ موجودہ حالات کے تقاضوں پر غور کریں، کوئی ضابطۂ اخلاق بنا لیں کہ یوں تو ہم ساری دنیا کو آگے لگائے ہوئے ہیں لیکن اِس دھما چوکڑی میں اپنے پیشے کی عزت میں کتنا اضافہ ہو رہا ہے اور ہم نے کن کن لوگوں کو صحافی کے لقب سے ملقوب کردیا اور لوگ، صحافیوں کو کن کن لفظوں سے یاد کرتے ہیں؟ اس پر اب بھی غور نہ کیا گیا تو عام لوگ جس طرح جرنیلوں اور ججوں کو مجموعی طور پر مطعون کر رہے ہیں، صحافیوں کے درمیان بھی کوئی تمیز نہیں کرے گا۔

فرض شناسی سے جانبداری تک

صحافت کے شعبے کو ہر دور میں مقدس شعبہ گردانہ گیا ہے۔ صحافی یا رپورٹر ایک مبلغ اور پیغام بر کیطرح ہوتا ہے جو کسی واقعہ کو اپنی مشاہدے کی قوت سے بغور دیکھتا اور پرکھتا ہے اور پھر اسے دوسروں تک منتقل کرتا ہے۔ رپورٹر حقیقت میں اس واقعہ کے حوالے سے ایک امین اور امانت دار شخص کی مانند ہوتا ہے جس نے بغیر کسی کمی بیشی کے اس واقعے کی رپورٹنگ کرنا ہوتی ہے۔ صحافت اور انسانی تاریخ کا چولی دامن کا ساتھ کا ہے، حضرت آدم کی زمین پر آمد اور ہابیل و قابیل کے واقعے سے لیکر آج تک انسانی تاریخ میں اس روئے زمین پر جتنے واقعات رونما ہوئے ہیں وہ امین اور غیر جانبدار رپورٹروں کے ذریعے ہم تک پہنچے ہیں انسانی تاریخ میں ممکن ہے ان واقعات کی تفصیلات کو دوسری نسلوں تک منتقل کرنے والوں کو مختلف ناموں اور عہدوں سے مخاطب کیا گيا ہو، لیکن اپنے کام کی نوعیت کے حوالے سے صحافت اور اس میں کوئی فرق نہیں تھا۔
انسانی تاریخ میں عمومی طور پر واقعات کو نقل کرنے والے کو "راوی" کیا گيا ہے۔ انسانی تاریخ انہی راویوں کی روایات اور رپورٹنگ سے نسل در نسل منتقل ہوئی ہے ان واقعات کو بعض صحافیوں نے سینہ بہ سینہ منتقل کیا، بعض نے پتھروں، جانوروں کی کھالوں اور درختوں کے پتوں یا مختلف دھاتوں پر لکھ کر دوسروں تک منتقل کیا ہے۔ اسلامی اور انسانی تاریخ میں جس واقعے کو غیر جانبدارانہ طور پر منتقل کیا گيا اس کے مثبت اثرات مرتب ہوئے اور جن لوگوں پر ان واقعات کی رپورٹنگ یا واقعات کے اثرات مرتب ہوئے اور جن لوگوں نے ان واقعات کی رپورٹنگ یا واقعات کے حوالے سے جانبداری کی تو تاریخ کو اسکے نتائج بھگتنے پڑے۔ واقعات کی تحریف ہو یا آسمانی حوالے سے جانبداری کی، تو تاریخ کو اسکے نتائج بھگتنے پڑے۔ واقعات کی تحریف ہو یا آسمانی کتابوں میں تحریف یہ سب جانبدارانہ صحافت کا نتیجہ ہے، اسلام میں بھی جو بڑے بڑے واقعات، سانحات اور انحرافات سامنے آئے ہیں وہ بھی غلط رپورٹنگ اور جانبدارانہ صحافت کا شاخسانہ ہیں۔
آج کے دور میں بھی صحافت کے شعبے میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بھی تاریخ کا حصّہ بن رہا ہے۔
آج کا صحافی یا نامہ نگار یہ نہ سمجھے کہ آج جو کچھ وہ رپورٹنگ کر رہا ہے وہ صرف آج کے دن یا دور سے متعلق ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ تاریخ کا حصّہ بنتا جا رہا ہے اور محققین جب مستقبل میں اس واقعہ کی تحقیق و جستجو کریں گے تو بالآخر ایسے نامہ نگار یا صحافی کے بارے میں اچھی رائے قائم نہیں کریں گے جس نے جانبدارانہ انداز اپناتے ہوئے حقائق کو صحیح طریقے سے پیش نہیں کیا تھا۔ انسانی تاریخ کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس طرح کی رپورٹنگ کرنے والوں کو چاہے اسے راوی کیا جائے، مورخ کا نام دیا جائے یا آج کے دور میں نامہ نگار یا تجزيہ کار کہا جائے بادشاہوں، حکومتوں اور موثر طبقوں کے خوف یا لالچ کی بناء پر حقائق کو مسخ کرتے رہے ہیں اور یہ قبیح سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
کسی زمانے میں ایک بادشاہ، آمر یا موثر حکومتی حلقہ نامہ نگاروں اور تجزيہ کاروں اور کالم نگاروں کو اسٹک اینڈ کیرٹ ( خوف اور لالچ ) کے حربے سے اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتا تھا، تاہم اب جہاں یہ سلسلہ جاری ہے وہاں عالمی سطح پر ایک غاصب صیہونی لابی بھی ہے جو ہر عالمی مسئلے کو اپنے فلٹر سے گزار کر اپنے مفاد کے مطابق سامنے لاتی ہے بعض اوقات تو اس کی اصل حقیقت کو بھی اس طرح مسخ کر دیا جاتا ہے کہ حقائق لاکھ جتن کرنے کے باوجود سامنے نہیں آپاتے۔
موجودہ دور میں اگر اسکی چند مثالیں دی جائیں تو اس میں ہولوکاسٹ کے معاملے سے لیکر گیارہ ستمبر کا واقعہ، عراق میں عام تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اسلام فوبیا کا نام با آسانی لیا جا سکتا ہے، بات یہ صرف مذکورہ مسائل تک محدود نہیں بلکہ مختلف ممالک کے اندر بھی بعض مسائل کو حد سے زيادہ اہمیت دے کر اور بعض پر مکمل سنسر عائد کر کے اپنے مفادات حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ دیگر ممالک میں ہونے والے واقعات کو چھوڑ کر اگر صرف پاکستان کی مثال بھی سامنے لائي جائے تو انسان حیران رہ جاتا ہے کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر ایسے عناصر کا قبضہ ہے کہ انہوں نے پوری پاکستانی قوم کو اپنے پروپیگنڈوں میں جکڑا ہوا ہے۔
یہ میڈیا نہ صرف حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتا ہے بلکہ واقعات ہر اسطرح خاموشی اختیار کر لیتا ہے جیسے یہ واقعہ انجام ہی نہیں پایا ہے۔ عالمی صیہونی میڈیا کے بارے میں تو یہ کہا جاتا ہے کہ اگر ان کا متعلقہ آدمی کسی مخالف ملک میں غسل خانے کے اندر صابن سے پھسل کو زخمی ہو جائے تو وہ بریکنگ نیوز بن کر اور عالمی انسانی مسئلہ بن کر دنیا بھر کی نیوز ایجنسیوں اور ٹی وی چینلوں کا موضوع بن جاتا ہے، اس کے مقابلے میں فلسطین میں صیہونی قید میں موجود کم سن بچے اور عورتیں اسرائیلی فوجیوں کے جنسی اور غیر انسانی تشدد کے نتیجے میں جاں بحق بھی ہو جائیں تو اسکی معمولی سے خبر بھی باہر نہیں آتی، پاکستان میں بھی تقریبا" یہی صورت حال ہے۔ گدھا گاڑی کی ٹانگے سے ٹکر کی خبر یا پانچ بچوں کی مان آشنا کے ساتھ فرار ہو گئی والی خبر تو ٹی وی چینلوں اور اخبارات میں کئی کالموں اور زیلی اور شہ سرخیوں میں دی جاتی ہے لیکن عالم اسلام میں ہونے والے بڑے سے بڑے واقعے کو اندر کے صفحے یا آخری خبر کے طور پر بھی شائع نہيں کیا جاتا۔
حال ہی میں غزہ پٹی کے محصور فلسطینیوں کے لئے ایشیائی کاروان امدادی سامان اور سماجی کارکنوں سمیت نئی دہلی سے روانہ ہوا اور پاکستان کے شہر لاہور سے ہوتا ہوا ایران اور پھر ترکی، مصر، شام اور لبنان سے ہوتا ہوا مصر کی بندرگاہ العریش سے غزہ پہنچا، لیکن باوجود تمام کوششوں کے اس خبر کو پاکستانی میڈیا نے اہمیت نہیں دی۔ اگر اس میں صرف ہندوستانی افراد شامل ہوتے تو شاید کوئی بہانہ بنایا جا سکتا کہ چونکہ اسکا ہندوستان سے تعلق ہے، لہذا پاکستانی میڈیا حکومت ہندوستان کے حق میں کچھ نہیں کہتا، لیکن صورتحال اسکے برعکس تھی اگرچہ اسکا آغاز ہندوستان سے تھا لیکن پاکستان، جاپان، آذربائیجان سمیت درجنوں دوسرے ایشیائی ممالک کے افراد شامل تھے۔
پاکستانی میڈیا کے پاس بہترین موقع تھا جب ہندوستانی حکومت نے اسے واہگہ بارڈر سے پاکستان داخل ہونے سے روک دیا تھا۔ پاکستان کا شتر بے مہار میڈیا ہندوستان کے غیر جانبدارانہ پالیسیوں کو ہدف تنقید بنا کر اور اسکی طرف سے اسرائيل کے حوالے سے نرم گوشے کو اساس بنا کر اسکی عالمی حیثیت کو خراب کر سکتا تھا، لیکن ہمارے میڈیا کو سیاستدانوں کی گالم گلوچ اور لچر اور بے ہودہ پروگرام پیش کرنے سے فرصت ہو تو وہ کسی ڈھنگ کی خبر یا پروگرام کی طرف متوجہ ہو، یہ کاروان جب لاہور میں تھا اور وہاں سے ایران کی طرف روانہ ہو رہا تھا تو اس وقت بھی کئی معروف پاکستانی سیٹلائیٹ چینلوں سے اس حوالے سے رابطہ کیا، لیکن کوئی ریسپانس نہیں ملا، اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ جب اس کاروان کے آٹھ افراد کو العریف بندرگاہ سے غزہ جاتے ہوئے اسرائيلی طیاروں اور اسرائيلی جنگي کشتیوں نے اپنے گھیرے میں لے لیا تو اس وقت بھی میں نے ذاتی طور پر بعض ٹی وی چینلوں کو اس کشتی میں موجود اس کاروان کے ایک سماجی کارکن کا ڈائریکٹ موبائيل نمبر دیا، لیکن سوائے ایران کے " اردو ریڈیو تہران" اور انگریزي چینل پریس ٹی وی نے خطرات میں گھرے ان افراد سے براہ راست گفتگو نہیں کی۔
فلسطین کے مسئلے کی اہمیت اور غزہ میں محصور عوام کی مدد کا مسئلہ ہو تو اپنی جگہ پیشہ ورانہ حوالے سے بھی اس طرح کے حساس تاریخی موقع پر براہ راست پروگرام یا انٹرویو صحافی، ٹی وی چینل اور ٹی وی اینکر کے لئے ایک اعزاز سے کم نہیں ہوتے، ہم سی این این، بی بی سی اور اے بی سی و غیرہ جیسے ٹی وی چینلوں سے کیا گلہ کریں، ہمارے اردو چینل نے اس عالمی ایشو کو جس طرح سنسر کیا اسے دنیا کے مظلوم اقوام بالخصوص فلسطینی کاز سے تعلق رکھنے والے اور غزہ کے محصور عوام کے لئے ہمدردی رکھنے والے کبھی فراموش نہیں کر سکیں گے۔
یہ تصویر کا ایک رخ ہے، عالمی ٹی وی چینل من جملہ پاکستانی ٹی وی چینل ایک طرف تو عالم اسلام کے بارے میں حقائق کو صحیح طریقے سے منتقل نہیں کرتے، دوسری طرف اسلام کے خلاف ہونے والے اقدامات کو بڑھا چڑھا کر پیش کر کے دین مبین اسلام کے پاک و پاکیزہ اور نرم و پر کشش چہرے کو متشدد، جنگجو اور دور جہالت کا ترجمان بنا کر مسخ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ کیا پاکستان موجودہ دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دینے میں پاکستانی میڈیا کے کردار کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟ سیاسی عدم استحکام اور افراتفری کو رواج دینے میں کیا پاکستانی میڈیا اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے سکتا ہے؟
غیر اخلاقی غیر مذہبی اور پاکستانی تہذیب و ثقافت کے خلاف اقدار کو پہلے ڈراموں اور فلموں میں تو پیش کیا ہی جاتا تھا کیا آج کے ٹاک شو حتٰی سیاسی مناظروں میں جس طرح کی بازاری زبان اور رویہ دکھایا جاتا ہے اس سے ہماری آئندہ نسلیں کیا سیکھیں گی؟
پاکستان میں کبھی کرپشن، کبھی مذہبی انتہا پسندی اور کبھی بیرونی مداخلت کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا ہے یہ سب بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہیں لیکن اس قوم کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے ذمہ دار افراد میں بقول شاعر مشرق " احسان زياں جاتا رہا "

हिन्दी से दूर होते हिन्दी के अखबार-१

शीर्षक पढ़कर आप चैंक गए होंगे। चैंकिये नहीं, यह हकीकत है। मैं भी तब चैंका था जब लगभग एक दर्जन समाचार पत्रों का लगभग छह महीने तक अध्ययन करता रहा। हिन्दी अखबारों की हिन्दी का मटियामेट इन छह महीनों में नहीं हुआ बल्कि इसकी शुरूआत तो लगभग डेढ़ दशक पहले ही शुरू हो गयी थी। जिस तरह एक मध्यमवर्गीय परिवार के लिये हिन्दी पाठशाला में पढ़ने वाला बच्चा हर तरह से कमजोर होता है और पब्लिक स्कूल में पढ़ने वाला बच्चा चाहे कितना ही कमजोर क्यों न हो, वह कुशाग्र बुद्धि का ही कहलायेगा, ऐसी मान्यता है, सच्चाई नहीं। लगभग यही स्थिति हिन्दी के अखबारों का है। यह सच है कि हिन्दी के अखबारों का अपना प्रभाव है। उनकी अपनी ताकत है और यही नहीं हिन्दी के अखबार ही समाज के मार्गदर्शक भी रहे हैं। स्वाधीनता संग्राम की बात करें अथवा नये भारत के गढ़ने की, हिन्दी के अखबारोें की भूमिका ही महत्वपूर्ण रही है। भारत गांवों का देश कहलाता है और हिन्दी के अखबार इनकी आवाज बने हुए हैं। बदलते समय में भी हिन्दी के अखबार प्रभावशाली बने हुए है। बाजार की सबसे बड़ी ताकत भी हिन्दी के अखबार हैं और बाजार की सबसे बड़ी कमजोरी भी हिन्दी के अखबार हैं। इन सबके बावजूद हिन्दी के अखबार कहीं न कहीं अपने आपको कमजोर महसूस करते हैं और अंग्रेजी से नकलीपन करने से बाज नहीं आते हैं। ये नकलीपन कैसा है और इसके पीछे क्या तर्क दिये जा रहे हैं, इस मानसिकता को समझना होगा। इस बात को समझने के लिये हमें अस्सी के दौर में जाना होगा। यह वह दौर था जब हिन्दी का अर्थ हिन्दी ही हुआ करता था। खबरों में अंग्रेजी के शब्दों के उपयोग की मनाही थी। पढ़ने वाले भी सुधि पाठक हुआ करते थे। समय बदला और चीजें बदलने लगीं। सबसे पहले कचहरी अथवा अदालत के स्थान पर कोर्ट का उपयोग किया जाने लगा। इसके बाद जिलाध्यक्ष एवं जिलाधीश के स्थान पर कलेक्टर और आयुक्त के स्थान पर कमिश्नर लिखा जाने लगा। हिन्दी के पाठक इस बात को पचा नहीं पाये और विरोध होने लगा तब बताया गया कि समय बदलने के साथ साथ अब हिन्दी अंग्रेजी का मिलाप होने लगा है और वही शब्द अंग्रेजी के उपयोग में आएंगे जो बोलचाल के होंगे। तर्क यह था एक रिक्शावाला कोर्ट तो समझ जाता है किन्तु कचहरी अथवा अदालत उसके समझ से परे है। जिलाध्यक्ष शब्द को लेकर यह तर्क दिया गया कि विभिन्न राजनीतिक दलों के जिलों के अध्यक्षों को जिलाध्यक्ष कहा जाता है और जिलाधीश अथवा जिलाध्यक्ष मे भ्रम होता है इसलिये कलेक्टर लिखा जाएगा ताकि यह बात साफ रहे कि कलेक्टर अर्थात जिलाध्यक्ष है जो एक शासकीय अधिकारी है न कि किसी पार्टी का जिलाध्यक्ष। आयुक्त को कमिश्नर लिखे जाने पर कोई पक्का तर्क नहीं मिल पाया तो कहा गया कि रेलपांत का हिन्दी लौहपथ गामिनी है और सिगरेट को श्वेत धूम्रपान दंडिका कहा जाता है जो कि आम बोलचाल में लिखना संभव नहीं है। इसी के साथ शुरू हुआ हिन्दी में अंग्रेजी का घालमेल। इसके बाद हिन्दी अखबारों को लगने लगा कि हिन्दी पत्रकारिता में खोजी पुट नहीं है और अनुवाद की परम्परा चल पड़ी। बड़े अंंग्रेजी अखबारों से हिन्दी में खबरें अनुवाद कर प्रकाशित की जाने लगी। इसके पीछे बड़ी, गंभीर, खोजी और न जाने ऐसे कितने तर्क देकर एक बार फिर अंग्रेजी पत्र-पत्रिकाओं का गुणगान किया जाने लगा। 90 के आते आते तो लगभग हर अखबार यह करने लगा था। खासतौर पर क्षेत्रीय हिन्दी अखबार। मुझे लगता है कि इसके पीछे यह भावना भी काम कर रही थी कि देखिये हमारे पास श्रेष्ठ अनुवादक हैं जो अंग्रेजी की खबरों का अनुवाद कर आप तक पहुंचा रहे हैं। हालांकि यह दौर अनुवाद का दौर था किन्तु इसकी विशेषता यह थी कि इसमें अंग्रेजी का शब्दानुवाद नहीं किया जाता था बल्कि भावानुवाद किया जाता था। इससे अंग्रेजी में लिखी गयी खबर की आत्मा भी नहीं मरती थी और हिन्दीभाषी पाठकों को खबर का स्वाद भी मिल जाता था। ऐसा भी नहीं है कि इसका फायदा हिन्दी के पाठकांें को नहीं हुआ। फायदा हुआ किन्तु श्रेष्ठिवर्ग साबित हुआ अंग्रेजी जानने वाले और अंग्रेजी के अखबार विद्वान। अनचाहे में हिन्दी अखबार स्वयं को दूसरे दर्जे का मानने लगे और हिन्दी में काम करने वाले पत्रकार स्वयं में हीनभावना के शिकार होने लगे। प्रबंधन भी उन पत्रकारों को विशेष तवज्जो देने लगा जो अंग्रेजी के प्रति मोह रखते थे और एक तरह से स्वयं को अंग्रेजीपरस्त बताने में माहिर थे।
(लेखक स्वतंत्र पत्रकार एवं मीडिया अध्येता हैं। वर्ष 1981 में पत्रकारिता का आरंभ देशबन्धु से जहां वर्ष 1994 तक बने रहे। छत्तीसगढ़ की राजधानी रायपुर से प्रकाशित हिन्दी दैनिक समवेत शिखर मंे सहायक संपादक 1996 तक। इसके बाद स्वतंत्र पत्रकार के रूप में कार्य। वर्ष 2005-06 में मध्यप्रदेश शासन के वन्या प्रकाशन में बच्चों की मासिक पत्रिका समझ झरोखा में मानसेवी संपादक, यहीं देश के पहले जनजातीय समुदाय पर एकाग्र पाक्षिक आलेख सेवा वन्या संदर्भ का संयोजन। माखनलाल पत्रकारिता एवं जनसंचार विश्वविद्यालय, महात्मा गांधी अन्तर्राष्ट्रीय हिन्दी पत्रकारिता विवि वर्धा के साथ ही अनेक स्थानों पर लगातार अतिथि व्याख्यान। पत्रकारिता में साक्षात्कार विधा पर साक्षात्कार शीर्षक से पहली किताब मध्यप्रदेश हिन्दी ग्रंथ अकादमी द्वारा वर्ष 1995 में पहला संस्करण एवं 2006 में द्वितीय संस्करण। माखनलाल पत्रकारिता एवं जनसंचार विश्वविद्यालय से हिन्दी पत्रकारिता शोध परियोजना के अन्तर्गत फेलोशिप और बाद मेे पुस्तकाकार में प्रकाशन। फिलवक्त मीडिया की मासिक पत्रिका समागम के प्रकाशक एवं संपादक )