
Tuesday, May 5, 2009
مجوزہ قانون سے شےر خواروں کا بھلا ہوگا ےا پولس کا ؟
مےم ضاد فضلی
اپنے ملک مےں عدلےہ قوم ووطن کی فلاح اور تحفظ کے حوالے سے کوئی حکم نافذ کرے اور اس سے پولس کو بھرپور فائدہ حاصل نہ ہو ممکن ہی نہےں ہے ۔ چونکہ عدالت کے ذرےعہ صادر کئے جانے والے احکامات کے نفاذ ےا اس پر عمل درآمد کرانے کی ذمہ داری مکمل طور پر پولس اور انتظامےہ کی ہوتی ہے۔ لہذا اس سے براہ راست پولس وانتظامےہ کا تعلق وابستہ ہوجاتا ہے ۔ ابھی دوروز قبل ہی، کمےشن برائے تحفظ حقوق اطفال نے تحفظ حقوق اطفال کے سلسلے مےں اےک نےا قانون پاس کےا ہے جس کے تحت بچوں کی پرورش و پرداخت ، اس کی ٹےکہ کاری اور تعلےمی امور کو ےقےنی بناےا جائے گا ۔ اپنے وطن عزےز کی بدقسمتی ےہ ہے کہ آزادی کے بعد سے اب تک ےہاں صرف نت نئے قوانےن اےجاد ہوتے رہے ہےں ، مگر جن فوائد کے حصول کے لئے نئے قانون وضع کئے گئے ےا سابقہ قوانےن مےں ترمےم عمل مےں آئی اس سے مذکورہ مقاصد حاصل ہوئے ےا نہےں ؟اس وقت ےہ سوال ہر شہری دماغ مےں اٹھ رہا ہے ، لےکن کہےں سے بھی اس کا جواب ملتا نظر نہےں آتا ۔ اےک سوال ےہ بھی ہے کہ اس قسم کے قانون وضع کرنے کی ضرورت آج ہی کےوں محسوس کی گئی ۔ کےا اس سے قبل وطن مےں پےدا ہونے والے بچوں کے حقوق نہےں بخشے گئے ےاان کی تعلےم ، صحت ، پرورش وپرداخت کے حقوق پہلے والدےن پر لازم نہےں تھے ؟ اس مجوزہ قانون سے چائلڈ کمےشن کون سا تاثر پےدا کرنا چاہ رہی ہے ےہ بھی اس وقت کا نہاےت ہی اہم سوال ہے ۔ اور ےہ کہ کےا اس قسم کے قوانےن پاس کرکے محکمہ تحفظ حقوق اطفال بچوں کے مستقبل کے سےچنا و سنوارنے مےں کامےاب ہو پائے گا ؟ ان سوالات کا مناسب حل ڈھونڈنے سے قبل ضروری ہے اس پوری خبر کو پڑھاجائے جس سے مذکورہ قانون سے متعلق معلومات فراہم کی گئےں ہے ۔ ہندی روزنامہ ہندوستان نے لکھا ہے کہ مرکزی کمےشن برائے تحفظ حقوق اطفال وخواتےن بچوں کی پرورش وپرداخت ،ٹےکہ کاری اور تعلےم سے متعلق قانون پاس کررہا ہے۔ جس کے تحت بچوں کے حقوق کی پامالی کی صورت مےںوالدےن پر ان کا قہر وغضب نازل ہوگا اور ان کی شدےد بز پرس ہوگی ۔ مجوزہ قانون مےں ماں کو درپےش مسائل کا بھی جائزہ لےا جائے گا ۔البتہ خبروں مےںاس قسم کا کوئی بھی تذکرہ نہےں ہے کہ اگر مالی پرےشانےوں کی وجہ سے ماں بچوں کو اس کی لازمی سہولےات فراہم نہےں کراپارہی ہوتو اس صورت مےں محکمہ اس کا کوئی تعاون کرے گا ےا نہےں ۔ اس مسئلہ پر سنجےدہ غور کرنے کے لئے ماہرےن کی اےک نشست گذشتہ پےر کے روز سے شروع کی گئی ہے، جس مےں ان تمام منصوبوں پر تبادلہ خےال کےا جائے گا ۔وزےر برائے ترقی خواتےن واطفال رےنوکا چودھری نے مندرجہ بالا نشست کا آغاز کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کے لئے اپنی پالےسےوں کو قانون بنالےنا تو آسان ہے مگر اس پر عمل کرانا مشکل ہے ۔ اس موقع پر رےنوکا چودھری نے پلاننگ کمےشن سے گےارہوےں منصوبہ کے تحت ترقی اطفال (آئی سی ڈ ی اےس ) کے تعلق سے بچوں کی پرورش وپرداخت پر خصوصی توجہ دےنے کی سفارش کی ہے ۔ اس مرحلے پر اتنا تو کہا ہی جاسکتا ہے کہ مذکورہ نکتوں پر توجہ دےنے اور والدےن کی باز پرس کرنے جےسے قوانےن ےا سفارشات سے اپنی سےاسی دکان کی چمک تو بڑ ھ سکتی ہے۔ مگر وطن عزےز کے ان 35فےصدی نونہالوں کا کچھ فائدہ ہونے والا نہےں جو اپنی ماﺅں کی غربت کی وجہ سے مناسب خوراک نہےں پاتے اور بھوک وفاقہ کشی سے نڈھال ہو کر بالاخر اےک دن دم توڑ دےتے ہےں ۔ غربت افلاس سے ٹوئے ہوئے ان شےرخواروں کے والدےن کی حالت کا اندازہ وہ کےا لگاسکتے ہےں ،جن کے بچے سونے کا چمچمہ منہ مےں دبائے دنےا مےں آتے ہےں ۔ رےنوکا جی بچوں کی فلاح وبہبود کا انحصاران کے والدےن کی اقتصادی صلاحےتوں پر ہوتا ہے ۔ آپ خود غور کرےں صرف2006مےں 18,90,000نوزائےدہ بچوں کی اموات ان کی ماﺅں کی گودوں کو سونی کرگئی تھےں۔ ےقےنا اس کی مکمل رپورٹ ملک کے تمام سفےد پوش قاتلوں کے پاس ہوگی، جو اس وقت پورے دےش کے سےاہ وسپےد کے مالک بنے ہوئے ہےں ۔ واضح کردوں کہ رپورٹ مےں ےہ بھی بتاےا گےا تھا کہ ہر 36وےں سکےنڈ مےں کم از کم اےک بچہ پےدا ہوتے ہی دم توڑ دےتا ہے ۔ اور ان مےں اکثرےت ان غرےب ماﺅں کی ہے جنہےں اپنے جگر گوشوں کی زندگی بچانے کے لئے چند کوڑی بھی دستےاب نہےں ہوتی ۔ اےسی صورت مےں بچوں کی تعلےم ، خوردونوش اور ٹےکہ کاری سے متعلق ان کے والدےن سے باز پرس کرنا اور اس پر سختی برتنے کے لئے کوئی قانون وضع کرنا محض پولس کی جےبےں گرم کرنے کا انتظام کرنا کہاجا سکتا ہے اور کچھ بھی نہےں تقرےبا ڈےر ھ سال قبل حکومت نے بچہ مزدوری کے خلاف قانون بناےا تھا اور اس پر سختی سے عمل کرانے کے لئے پولس کو متنبہ بھی کےا گےا تھا ۔ مگر اس سے کےا فائدہ ہوا جگ ظاہر ہے ۔ غرےب و بے بس ماﺅں کے جگر گوشوں کو مزدوری واستحصال اور ٹھےکےدارو مالکوں کی اذےتوں سے آزاد تو نہےں کےا جاسکا البتہ پولس و انتظامےہ کی ناجائز آمدنی کا اےک اور دروازہ کھل گےا ۔نتےجہ ےہ ہوا کہ ان تمام علاقوں مےں جہاں بچوں سے مزدوری کرائی جاتی ہے پولےس نے گلی گلی گھوم کر کارخانداروںاور ٹھےکےداروں کے ذرےعہ اپنا ہفتہ متعےن کرا لےا ،جہاں سے پچاسوں ہزار روپے ماہوار بآسانی ان کی جےبوں مےں پہنچ جاتا ہے ۔ اور ہماری نکمی انتظامےہ رشوت خوری کی بےماری مےں مبتلا ہو کر مزےد موتی ہوتی جارہی ہے ۔ اس وقت اگر بچوں کے حقوق کے تعلق سے والدےن کے خلاف کوئی قانون وضع کےا جارہا ہے تو انصاف کا تقاضہ ےہ ہے کہ ان امور پر خصوصی توجہ دی جائے کہ والدےن جن مجبورےوں کی وجہ سے اپنے لاڈلوں کو ان کے حقوق فراہم نہےں کراپارہے ہےں اس کی اصل وجہ کےا ہے ۔ اسی کے ساتھ ےہ نکتہ بھی محل نظر رہنا چاہئے کہ اس قانون سے غرےب والدےن پولس کے استحصال اور ان کی غےر قانونی زےادتےوں کا شکار نہ ہوں اور ان کے لئے ناجائز کمائی کی اےک اور راہ نہ کھلنے پائے ۔
سچ بول دوں
پہلے آئینہ میں منہ دیکھ لیجئے
میم ضادفضلی
جنگیں بھی عام طور پر معنوی جنگوں کی طرح تیغ و سنان کے ساتھ ساتھ اخلاقیات، وعدہ خلافی اور جھوٹ کی ملمع سازیوں سے عبارت ہوتی ہیں۔ اگر اس اصول کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کی حرکات و سکنات کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ یقین کرنا پڑتا ہے کہ اخلاقیات، سچائی اور وعدہ وفائی جیسی خوبےوں کا تقریبا یہاں وجودنہیں ہے۔ ایک سیاسی رہنما دوسرے پر کیچڑ اچھالتے ہوئے اس تصور سے بھی بے فکر ہوجاتا ہے کہ وہ دوسروں کے پھٹے میں ٹانگ اڑانے سے پہلے لمحہ بھر کے لئے اپنے گریبان میں بھی جھانک لے، تاکہ کچھ بھی کہنے سے قبل ان کے پاس اپنے بچاو¿ کا سامان دستیاب ہو۔ مگر اس کا کیا کیجئے گا کہ سیاسی رقابت میں آدمی ظاہری طور پر ہی اندھا نہیں ہوتا ،بلکہ انسانیت کی حدود کو پامال کرتے ہوئے عقل سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غیر مناسب نہیں ہوگا کہ سیاسی جنگ میں پنجہ آزمائی سے قبل ایک لیڈر کو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے انسانیت کا چولا اتاردینا ضروری ہے۔ حتی کہ اسے اخلاقیات سے دشمنی کرنی پڑتی ہے، مروت و مودت کو ذہن و فکر سے کھرچ کھرچ کر ہمیشہ کے لئے مٹادینا ہوتا ہے ورنہ وہ ایک کامیاب نیتا یا قومی رہنما کی صف میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔ موجودہ انتخابی دنگل میں بی جے پی کے سینئر لیڈران اپنے حریف پر جس قسم کی بہتان بازیاں اور بے ہودہ الزامات کے ڈونگرے برسار ہے ہیں، اس سے کم از کم یہی محسوس ہوتا ہے کہ مذکورہ جماعت کے سیاسی شعبدہ بازوں نے ہر جھوٹ کو خم ٹھونک کر برسرعام ہانکنے کی قسم کھارکھی ہے۔ کسی کا دعوی ہے کہ یوپی اے سرکار دہشت گردی پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے اور پورا ملک دہشت کی زد پر ہے۔ لہٰذا عوام یوپی اے بالخصوص کانگریس کو سیاسی نقشہ سے حرف غلط کی طرح مٹا ڈالےں اور شتر بے مہار کی طرح اپنے ووٹ بی جے پی کی جھولی میں ڈال دیں۔حالانکہ ملک میں ناانصافی اورمنصوبہ بندطریقے سے دہشت گردی کا جو سلسلہ این ڈی اے کے دور حکومت میں شروع ہوا تھا وہ یوپی اے کے زمانہ میں آنجہانی ہیمنت کرکرے کی تحقیقات کے بعد ہی رکنے میں آیا۔جبکہ انہیں حقائق کوسامنے لانے کی پاداش میںفرقہ پرست گلیاروں سے ان پرکیچڑ بھی اچھالے گئے تھے۔ اگر اس وقت ماہرین اس امر پر انگشت نمائی کر رہے ہیں اور کہیں نہ کہیں ان کا قلم فرقہ پرست طاقتوں کو مشکوک قرار دینے میں اپنی سیاہی خرچ کر رہا ہے توغلط نہیں ہے، واقعات بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ مالیگاو¿ں دھماکوں میں شامل چہروں کے بے نقاب ہوتے ہی دہشت گردانہ حملوں کا سلسلہ تقریباً خاموش ہوگیا۔ اب اگر ان حقائق کے بعد بھی بی جے پی دوسروں پر کیچڑ اچھالتی ہے تو اسے ڈھٹائی کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے۔ بھگوابریگیڈ اس وقت ملک میں جس طرح سے سیکولر جماعتوں پر الزام تراشیوں اور بہتانوں کا سلسلہ دراز کئے ہوئے ہے اسے دیکھ کر کہنا پڑتا ہے کہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔ اس مرحلہ پر بی جے پی سے یہ سوال بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ دہشت گردانہ حملوں کے مقابلے بھوک اور فاقہ کشی کی وجہ سے ملک میں زیادہ موتیں ہورہی ہیں۔ پریشان حال کسان زندگی سے مایوس ہوکر موت کو گلے لگا رہے ہیں۔ آخر وہ ان کی بھلائی کے لئے کوئی مثبت پروگرام سامنے کیوں نہیں لاتی۔ دوسری جانب مشرقی ہند کی ریاست مغربی بنگال میں برسراقتدار سی پی ایم کے لیڈران کی زبانوں سے اس وقت کانگریس کے تعلق سے جس قسم کی باتیں سنائی دے رہی ہیں۔ اس سے یقین ہوتا ہے کہ شاید سی پی ایم نے بھی عوام کو بے وقوف بنا کر منصب و اقتدار تک پہنچنے کے لئے اپنی اخلاقیات اور انسانیت کو طاق پر رکھ دیا ہے اوراپنی بقاکیلئے فرقہ پرستوں کی ڈگرکواپناناان کی مجبوری بن چکی ہے۔ گزشتہ 25اپریل کو نئی دہلی میں سی پی ایم پولت بیورو کے اہم رکن سیتارام یچوری نے راہل گاندھی کے ایک بیان پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ راہل گاندھی اب اسی زبان کا استعمال کرنے لگے ہیں جو زبان آج سے تقریباً 23-22 برس قبل ان کے والد آنجہانی راجیو گاندھی نے استعمال کی تھی۔ واضح رہے کہ راہل گاندھی نے کولکاتہ میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ مغربی بنگال کا یہ تاریخی شہر ریاستی حکومت کی کج فہمیوں اور ترقی مخالف سوچوں کی وجہ سے عہد پارینہ کا ایک حصہ بنتا جارہا ہے۔ انہوں نے بنگال کی قابل رحم صورت حال پر روشنی ڈالتے ہوئے عوام کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی تھی ،جو سی پی ایم لیڈروں کے لئے ناگوار خاطر ثابت ہوئی اور انہوں نے اس کے جواب میں اس ناکام بلی کی طرح بہکناشروع کردیا جس کے بارے میں مشہور ہے کہ ”کھسیانی بلی کھمبا نوچے“۔ حقیقت یہ ہے کہ بنگال کی تباہ حالی پر انگشت نمائی کرکے راہل گاندھی نے کوئی برا بھی نہیں کیا تھا۔ بلکہ وہ عین ان سچائیوں کا پردہ فاش کر رہے تھے جو ساری دنیا کی نگاہوں میں روز روشن سے زیادہ واضح ہوچکی ہیں۔ مغربی بنگال میں تقریباً 35برسوں سے سی پی ایم برسراقتدار ہے اور اس دوران اس نے ریاست کے باشندوں کو طبقاتی حدود میں بانٹنے کی جو شرم ناک کوشش کی ہے اسے دنیا جان چکی ہے۔ راجیندر سچر کمیٹی رپورٹ کے ذریعہ یہ بات اب گھر گھر تک پہنچ چکی ہے کہ کس طرح بنگال کی مارکسوادی کمیونسٹ نے ریاست کو طبقاتی حدود میں بانٹ کر کمزور کرنے کی حماقت کی ہے۔ انگریزی سامراج کے ہندوستان سے رخصت ہوتے وقت ملک کی سب سے مضبوط اور خوشحال ریاست آج تباہی کے اس دہانے پر پہنچ چکی ہے ،جہاں آدمی کی فی کس یومیہ آمدنی محض 40روپے پر سمٹ کر رہ گئی ہے۔ یہ کیسی غریبوں کی ہمدرد اور مسیحا سرکار ہے جس نے ریاست کے تقریباً 80فیصد کارخانوں کی چمنیاں سرد کر دی، جس سے ہزاروں مزدوروں کے گھر کے چولہے روشن ہوتے تھے۔ آج آپ مغربی بنگال کی سرحد میں قدم رکھیں تو آسنسول سے دارالحکومت کلکتہ تک ریلوے شاہراہ کے دونوں جانب سینکڑوں کارخانے دیکھ سکتے ہیں جن کی چمنیاں زمانے سے خاموش ہیں اور ان کے کل پرزے زنگ آلود ہوکر بے نام ونشان ہورہے ہیں۔ جب کہ ان میں کام کر رہے ہزاروں مزدور کشکول گدائی اٹھائے دردر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ بیشتر نے پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے نقل مکانی کرکے ملک کی دیگر ریاستوں میں اپنے آپ کو آباد کر لیا ہے۔ اسی کے ساتھ مذہب بیزار اور خود کو انسانیت نواز باور کرانے والی سی پی ایم کے انصاف اور عدل کا کچا چٹھا حالیہ سچر رپورٹ نے کھول کر رکھ دیا ہے۔ جس جماعت پر مغربی بنگال کے 30فیصد مسلمانوں نے بھرپور اعتماد کرتے ہوئے پوری حمایت اور قوت نچھاور کر دی تھی، اس کے ساتھ اس نے کیا سلوک کیا وہ اب کسی کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں ہے۔ رپورٹ میں درج مغربی بنگال کے مسلمانوں کی دردناک صورت حال کا مطالعہ کیجئے اور سی پی ایم کی انسانیت دشمن سوچوں کا ماتم کیجئے۔ آج بھی دیگر ریاستوں کے مقابلے یہاں کامسلمان سب سے پیچھے کر دیا گیا ہے۔ حالات یہ ہےں کہ مسلمانوں کو منصوبہ بند سازش کے تحت قومی دھارے سے الگ تھلگ کردینے کی ناپاک کوشش جاری ہے۔ جسے انسانیت کے نام پر بدنما داغ کے علاوہ کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ غور کیجئے جس ریاست میں مسلمانوں کی آبادی30فیصد ہے وہاں سرکاری ملازمتوںمیں ان کا حصہ 4فیصد سے بھی کم ہے۔ دیگر شعبہ حیات میں بھی ان کے ساتھ حکومت کے ذریعہ ایسا ہی سلوک روا رکھا گیا ہے۔ نندی گرام کے مسلمانوں کو مغربی بنگال کی سفاک پولس کے ذریعہ تہہ تیغ کرنے اور ماو¿ں بہنوں کی آبرو کو سی پی ایم کیڈروں کے ذریعہ سر عام نوچنے اور بھنبھوڑنے کی خونچکا داستان کو دنیا کیسے بھول سکتی ہے۔ اس کے باوجود اگر سی پی ایم یہ توقع رکھتی ہے کہ اس کے تمام فیصلے انصاف پر مبنی اور عوام کے مفاد میں ہیں تو اسے سچائی کی عصمت دری کے علاوہ کچھ بھی نہیں کہا
09868093558