مختصر یہ کہ ہرزمانہ میں مسلمانوں نے علم کی گرانقدر خدمات انجام دی ہیں اور سلاطین اور امراء بھی علمی فیاضی اور علماء وطلباء کی خدمت کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کو نجات اخروی کا ذریعہ سمجھتے تھے، سلاطین وامراء کی جانب سے علمأ وطلبأ کے لئے جائیدادیں وقف تھیں، ان کی آمدنی، ان کے خورد ونوش اور تعلیمی مصارف کے لئے کفیل تھی اور اس طرح ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم عام اور مفت ہوتی تھی اور علمأ اور طلبأ بھی اپنے اپنے متعلقین کے لئے کسب معاش سے مطمئن ہوکر فراغت وسکون خاطر کے ساتھ درس وتدریس میں مشغول رہتے تھے۔ نہ تو منتظمین مدارس کو چندوں کی اپیل کرنے کی ضرورت پیش آتی تھی، نہ ہی طلباء کودست نگر سمجھ کر طالب علمی کو عزت نفس کے خلاف سمجھا جاتا تھا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کے آنے سے پہلے تک یہی نظام تعلیم جاری تھا، دہلی، آگرہ، لاہور، ملتان، جونپور، لکھنو، خیر آباد ،پٹنہ، اجمیر، سورت، دکن، مدراس، بنگال اور گجرات وغیرہ کے بہت سے مقامات علم وفن کے مرکز تھے، صرف ایک صوبہ بنگال کے متعلق انگریز مصنف کبیری ہارڈی نے بیکس مولر کے حوالہ سے یہ کیفیت بیان کی ہے۔
”انگریزی عملداری سے قبل بنگال میں اسی ہزار مدارس تھے، اس طرح ہر چار سو آدمیوں پر ایک مدرسہ کا اوسط نکلتا ہے۔ اسی صوبہ بنگال میں سلاطین وامراء نے مدارس کے لئے جو جائیداد یں وقف کی تھیں، ان اوقاف کا مجموعی رقبہ مسٹر جیمز گرانٹ کے بیان کے مطابق بنگال کے چوتھائی رقبہ سے کم نہ تھا، اوقاف کے علاوہ سلاطین وامراء نقد وظائف کے ذریعہ سے بھی اہل علم کی اعانت کرتے تھے، مدارس اور درسگاہوں کا ملک میں پھیلاہوا یہ عظیم الشان سلسلہ کیونکر ٹوٹا اور یہ مدارس ومکاتب کیونکر تباہ کئے گئے؟ اس سوال کے جواب کے لئے بارہویں صدی ہجری اور اٹھارہویں صدی عیسوی کی ہندوستانی سیاسی تاریخ کا جاننا ضروری ہے۔
ہندوستانی سیاسی تاریخ
ایسٹ انڈیا کمپنی جو ابتداء میں صرف تجارتی اغراض ومقاصد لے کر ہندوستان میں داخل ہوئی تھی۔ ۱۷۵۷ء میں پلاسی کی مشہور جنگ نے اس کو ایک نئی اور زبردست طاقت میں تبدیل کردیا۔ یہ نئی طاقت جس زمانہ میں ظہور پذیر ہوئی، اس وقت بدقسمتی سے ہندوستان کی مرکزی طاقت پارہ پارہ ہوچکی تھی اور ملک میں طوائف الملوکی کا دور دورہ تھا، ہندوستان کی اسی سیاسی کمزوری سے ایسٹ انڈیا کمپنی نے خاطر خواہ فائدہ اٹھایا اور وہ آہستہ آہستہ اپنی دسیسہ کاریوں اور ریشہ دوانیوں سے ملک پر قابض ہوتی چلی گئی، تاآنکہ انیسویں صدی عیسوی کے اوائل تک پنجاب کے علاوہ پورے ہندوستان پر اپنا تسلط قائم کرلیا۔ پرانے قانون اور قدیم نظام تعلیم وتہذیب کو منسوخ کردیا، جن قدیم مصارف کے لئے سلاطین وامراء نے طویل مدت سے بڑے بڑے اوقاف مقرر کئے تھے (جن کی کچھ تفصیل اوراق گذشتہ میں گذر چکی ہے) کمپنی کی حکومت نے ان تمام اوقاف کو ۱۸۳۸ء میں ضبط کرلیا، وظائف حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی موقوف ہو چکے تھے، اس وقت تعلیم کا تمام تر دار ومدار ان ہی اوقاف پر تھا جو اس مقصد کے لئے مخصوص کئے گئے تھے، ڈبلیوڈبلیو ہنٹر نے جو بنگال میں ایک بڑے سول عہدے پر فائز تھا ۱۸۷۱ء میں ”ہمارے ہندوستانی مسلمان،، نامی کتاب لکھ کر اس سلسلہ کے تاریخی حقائق کو سرکاری کاغذات سے واشگاف کیا ہے، ہنٹر لکھتا ہے کہ:
”صوبہ بنگال پر جب ہم نے قبضہ کیا تو اس وقت کے قابل ترین افسر مال جیمز گرانٹ کا بیان ہے کہ اس وقت صوبہ کی آمدنی کا تخمیناً ایک چوتھائی حصہ جو معافیات کا تھا، حکومت کے ہاتھ میں نہیں تھا،،۔
۱۷۷۲ء وارن ہٹینگر نے اور ۱۷۹۲ء میں لارڈ کالونو اس نے ان معافیات کی واپسی کی مہم شروع کی مگر ناکامی رہی ،۱۸۱۵ء میں حکومت نے پھر اس معاملے کو زور سے اٹھایا مگر عمل کی جرأت نہ ہوسکی، آخر ۱۸۳۸ء میں آٹھ لاکھ (۸۰۰۰۰۰) پونڈ کے خرچ سے مقدمات چلا کر ان معافیات اوراوقاف پر حکومت نے قبضہ پالیا۔ صرف ان معافیات کی آمدنی سے حکومت کی آمدنی میں تین لاکھ پونڈ یعنی تقریباً ۴۵ لاکھ روپے کا اضافہ ہوگیا۔ اس کاروائی کا مسلمانوں کی علمی زندگی پر کیا اثر پڑا ،اس کی نسبت ہنٹر لکھتا ہے کہ:
”سینکڑوں پرانے خاندان تباہ ہوگئے اور مسلمانوں کا تعلیمی نظام جس کادار ومدار ان ہی معافیات پر تھا، تہ وبالاہوگیا، مسلمانوں کے تعلیمی ادارے ۱۸ سال کی مسلسل لوٹ کھسوٹ کے بعد یک قلم مٹ گئے،،۔
اندازہ کیجئے کہ جب ایک دور افتادہ صوبہ بنگال میں جس کوا س زمانہ کے لحاظ سے کوئی خاص تعلیمی فوقیت اور مرکزیت حاصل نہ تھی، تعلیمی اخراجات کے لئے پینتالیس لاکھ روپے سالانہ آمدنی کے اوقاف موجود تھے تو ہندوستان کے دوسرے صوبوں میں بالخصوص ان مقامات میں جن کو تعلیمی مرکزیت اور تفوق حاصل تھا، کس قدر اوقاف ہوں گے۔
اوقاف کی ضبطی نے مسلمانوں کے نظام تعلیم پر ایک ضرب کاری کا کام کیا، علمأ اور اساتذہ جواب تک ان ہی اوقاف کی آمدنی کی بدولت فکر معاش سے مطمئن اور بے فکر ہو کر درس وتدریس میں مصروف تھے، وہ منتشر اور پراگندہ ہوگئے، مدارس اور درس گاہوں پر سناٹا چھا گیا، چنانچہ برک اپنی اس یادداشت میں جوبرطانوی پارلیمنٹ میں پیش کی گئی تھی، لکھتا ہے:
”ان مقامات میں جہاں علم کا چرچا تھا اور جہاں دور دور سے طالب علم پڑھنے کے لئے آتے تھے، آج وہاں علم کا بازار ٹھنڈا پڑ گیا،،۔
مگر ان حوادثات زمانہ اور گردش ایام کے باوجود بھی ہندوستان میں کچھ ایسے سخت جان علمأ موجود تھے جن کا علمی فیضان کسی مالی اعانت وامداد کا چنداں محتاج نہ تھا۔ دہلی میں حضرت مولانا شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی رحمہ اللہ کا خاندان اور لکھنو میں ملا نظام الدین کا گھرانہ اور خیر آباد کا مشہور علمی خانوادہ سینکڑوں میں چند ممتاز مثالیں ہیں، ایسے حضرات ہرقسم کے حوادثات ومصائب کو برداشت کرکے اپنے کام میں مصروف اور علمی خدمت میں ہمہ تن لگے ہوئے تھے کہ ۱۸۵۷ء کی دار وگیر کا قیامت خیز ہنگامہ پیش آگیا۔ گنے چنے جو علماء باقی رہ گئے تھے، ان پر برطانوی گورنمنٹ نے بغاوت کا جرم عائد کردیا، ان میں سے بعض کو پھانسیاں دی گئی گئیں، بعض کالے پانی بھیج دیئے گئے اور کسی کو جلاوطن کردیا گیا، جو بچے ان میں سے اکثر ممالک اسلامیہ کی طرف ہجرت کر گئے۔ حضرت شاہ عبد الغنی صاحب دہلوی جو اس وقت ولی اللّہی مسند علم کے جانشین تھے، مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرکے چلے گئے، ۱۸۳۸ء میں اوقاف کی ضبطی نے جو قدیم مدارس کو نقصان عظیم پہنچایا تھا، انیس سال کے بعد ۱۸۵۷ء کے حادثہ نے اس کی تکمیل کردی، اب رہا سہا تعلیمی نظام بھی درہم برہم ہوگیا۔
قدیم مدارس اور مذہبی تعلیم کے ذرائع آمدنی اور اس کے متعلقہ لاکھوں روپیوں کے ان اوقاف کے تباہ اور برباد کرنے کے علاوہ (جن پر مذہبی تعلیم کا دار ومدار تھا) کمپنی کی حکومت کے ۱۸۱۳ء کے ایک قانون کے ذریعہ یورپ کے پادریوں کو ہندوستان میں عیسائیت کی تبلیغ واشاعت کے لئے مشن اسکول کھولنے کا موقع ہاتھ آگیا، پادریوں کی سرگرمیاں جاری تھیں، مشن اسکول کھولے جارہے تھے جن میں حصول تعلیم کے لئے سہولتیں مہیا کی جارہی تھیں، کمپنی کے حکام پشت پناہ تھے اور ہرقسم کی امداد واعانت بہم پہنچاتے تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ملازمتوں کا لالچ تھا۔ دوسری طرف کمپنی کی اسکیم یہ تھی کہ ہندوستان کے بسنے والوں، بالخصوص مسلمانوں کو مفلس بناکر اور ملازمتوں کے حصول کی ترغیب دلاکر مشن اسکولوں میں تعلیم پانے پر مجبور کردیا جاوے، جو اس وقت عیسائیت کی تبلیغ کے لئے سب سے بڑے ذریعے سمجھے جاتے تھے، اس راہ کی سب سے بڑی رکاوٹیں مسلمانوں کے علوم اور ان کا دینی شعور اور مذہبی شغف تھا۔
اس لئے ۱۸۳۵ء کا تعلیمی نظام مرتب کیا گیا جس کی روح اور مقصد لارڈمیکالے (جو کہ ۱۸۳۵ء کی تعلیمی کمیٹی کے صدر تھے) کے نزدیک یہ ہے وہ لکھتا ہے:
”ہمیں ایک ایسی جماعت بنانی چاہئے جو ہمارے اور ہماری رعایا کے درمیان مترجم کا کام دے سکے اور ایسی جماعت ہونی چاہئے جو خون اوررنگ کے اعتبار سے تو ہندوستانی ہو مگر مذاق، رائے، الفاظ اور سمجھ کے اعتبار سے انگریز ہو،،۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کمپنی کی یہ سکیم اور اس کا یہ نظام تعلیم مسلمانوں کی مذہبی زندگی، قومی روایات اور علوم وفنون کے لئے سخت تباہ کن اور مہلک ترین حربہ تھا، اسی دوران میں ۱۸۵۷ء کا ہنگامہ پیش آگیا، جس کی بے پناہ تباہ کاریوں ، ہولناکیوں نے دلوں کو ہیبت زدہ، دماغوں کو ماؤف اور روحوں کو پژمردہ اور پوری قوم کو مفلوج کردیا، حالت یہ ہوگئی تھی کہ مسلمانوں کو ذرائع معاش سے یکسر محروم کردیا گیا تھا، تعلیم سے بے رغبتی اور مذہب سے بیگانگی میں روز افزوں ترقی اور اضافہ ہورہا تھا اور یہ وقت قریب تھا کہ علمأ کی وہ نسل جو سابقہ درسگاہوں کی تعلیم یافتہ اور مذہبی شعور واحساس اپنے اندر رکھتی تھی، رفتہ رفتہ ختم ہوجائے، ایسے حالات تھے جن کی وجہ سے ملک کے ارباب علم وفضل نے یہ محسوس کیا کہ سیاسی زوال وانحطاط اور حکومت سے محرومی کے ساتھ اب مستقبل میں مسلمانوں کا علم ، مذہب اور قومی زندگی بھی سخت خطرہ میں ہے، ان کی دور بین نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ فاتح قوم کے اثرات اور اس کے خصائص مفتوح قوم کے دل ودماغ اور علم وفکر پر اثر انداز ہوکر اس کے ملی شعائر، قومی خصائص اور فکر وعمل کی صلاحیتوں کو مٹا کر رکھ دیں گے، جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ اسلامی روایات اور اسلامی طور وطریقہ سے نفرت کرنے لگے گی اور اس کے لئے صرف فاتح قوم کی نقالی اور کورانہ تقلید واتباع ہی سرمایہ افتخار واعزاز بن کر رہ جائے گی۔ اس وقت مذہبی تعلیم کے سوا اور کوئی چیز فائدہ مند اور کارگر نہ تھی، جس سے اس خطرہ کا سد باب ہو سکے۔ ایک یہی ایسی چیز تھی جس کے ذریعہ سے مسلمان اپنے مذہبی شعائر اور قومی خصائص کا تحفظ کرسکتے تھے اور مغلوب ومحکوم ہونے کے باوجود وہ بحیثیت مسلمان قوم کے زندہ رہ سکتے تھے، اسی لئے اس وقت علماء کرام اور مذہبی رہنماؤں نے گرد وپیش کے غیر مساعد حالات اور زمانہ کے دنیوی تقاضوں سے بے نیاز ہوکر فاتح قوم کے ارادوں اور سکیموں کے علی الرغم مسلمانوں کو اسلامی علوم وفنون کی تعلیم کی طرف زیادہ توجہ دلائی، جس کے ذریعہ ان میں آئندہ مذہبی شعور کو برقرار رکھا جاسکتا تھا اور اس کے لئے قدیم مذہبی مدارس کی نشأة ثانیہ کو ضروری سمجھا گیا اور اس مقصد کے حصول کے لئے مدارس عربیہ قائم کئے گئے۔
مدارس عربیہ کی نشأة ثانیہ کا یہ کام ایسے ماحول اور دور میں شروع ہوا جبکہ قوم مسلم بحیثیت قوم مفلس ونادار اور حکومت متسلطہ کی دست نگر تھی اور وہ تمام اوقاف وغیرہ پہلے ہی ضبط کر لئے گئے تھے جن پر دینی تعلیم کی کفالت کا مدار تھا، اسی مفلسی اور ناداری سے متأثر ہوکر بعض ہمدردان قوم نے محض دنیوی خیر خواہی کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت متسلطہ کی زبان اور علوم وفنون کے پڑھنے کو ضروری سمجھا، تاکہ اس کے ذریعہ سے ملک میں منصب وعہدے بھی حاصل کئے جاسکیں اور اس سے معاشی ضروریات بھی پوری کی جاسکیں، اسی لئے انہوں نے اس مقصد کے لئے لارڈمیکالے کی تجویز کردہ تعلیمی سکیم کی ہمنوائی کرتے ہوئے ایسے سکولوں اور کالجوں کی طرف رخ کیا جن کی ڈگریوں اور سارٹیفیکیٹوں کے حصول پر ہی ملازمتوں اور عہدوں کے ملنے کا مدار تھا۔ مگر اس کس مپرسی، بے بسی اور بے سروسامانی کی حالت میں بعض اہل دل اللہ والوں کے قلوب میں مدارس دینیہ کے احیاء کا داعیہ پیدا ہوا اور ایک مرد حق آگاہ اور درویش کامل، عالم ربانی حجة الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی قدس سرہ نے ۱۸۶۷ء میں توکلاً علی اللہ دیوبند ضلع سہارنپور کی تاریخی مسجد چھتہ میں دارالعلوم کی بنیاد رکھ دی اور تعلیم وتبلیغ کا نبوی نظام پھر سے قائم کردیا۔
الحمد للہ !ایک مسجد میں شروع ہونے والا یہ دار العلوم بہت جلد دنیائے اسلام کی بہت بڑی دینی درسگاہ بن گئی اور دو ر دراز ممالک اور ہندوستان کے گوشہ گوشہ سے نہ صرف یہ کہ لوگ جوق درجوق علوم دینیہ اور فنون علمیہ کے حاصل کرنے کے لئے یہاں جمع ہونے لگے بلکہ ملک کے کونے کونے ، شہر شہر ، قریہ قریہ میں اس کی شاخیں قائم ہوگئیں اور شجرہ طوبی کی شاخوں کی طرح ہر طرف پھیل گئیں۔ اس دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل حضرات میں سے بہت سے حضرات آسمان علم پر مہر وماہ کی طرح چمکے، جیسے حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب، شیخ المحدثین حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری، حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمة واسعة وغیرہم۔
ان میں سے صرف حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی دینی خدمات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ پرانے قصبہ تھانہ بھون کی پرانی مسجد کے ایک گوشے میں بیٹھ کر اس زندہ دل درویش نے اصلاح امت کے لئے تعلیمی اور تبلیغی کتنا عظیم الشان کام کیا ہے۔ حضرت والا کی تقریباً نوسو (۹۰۰) تصنیفات وتالیفات، مواعظ اور ملفوظات کے اوراق کو اگر آپ کے ایام زندگی پر پھیلایا جائے تو اوراق کی تعداد ایام زندگی سے بڑھ جاتی ہے۔
ہندوستان میں ان دینی مدارس سے کیسے کیسے علماء حق پیدا ہوئے اور انہوں نے مذہب وملک کی کیا کیا گرانقدر خدمات انجام دیں، یہ ہمارے موضوع میں داخل نہیں، اس وقت صرف اتنی بات کا عرض کردینا ضروری سمجھا گیا کہ علماء حق نے یہ دینی مدارس ایسے وقت میں قائم کئے جس وقت ان مدارس کے نظام تعلیم وتبلیغ کو نہ کسی حکومت کی سرپرستی حاصل تھی اور نہ قومی خوانے کی پشت پناہی اور نہ ہی ملک کے لاکھوں روپیوں کی اوقاف کی آمدنی سے ان کو امداد حاصل ہوتی تھی، بلکہ یہ نظام بظاہر صرف ملک کے دینی شعور واحساس رکھنے والے اہل خیر کی مالی امداد وتعاون اور چندہ کے موجودہ طریقہ پر چل رہا تھا اور درحقیقت بے سروسامانی اور محض اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر اس نظام کی بنیاد تھی۔ غرضیکہ چندہ کے موجودہ مروج طریقہ کی بنیاد پر مدارس کاقیام کیا گیا اور ملک میں جابجا مدارس قائم کردیئے گئے، اس وقت سے یہ نیا نظام مدارس کے لئے جاری ہوگیا۔
علماء نے قوم کے سامنے دست سوال دراز کیا، مدارس کے لئے چندے مانگے، ہر طرح کے طعنے سنے، کئی قسم کے اعتراضات برداشت کئے مگر تعلیم مذہب کو ہاتھ سے نہ جانے دیا اور فاتح قوم انگریز کے منصوبے کو کامیاب نہ ہونے دیا۔ مدارس نے نہ صرف یہ کہ کمپنی کی تجویز کردہ لامذہب بنانے والی مذکورہ تباہ کن سکیم اور مہلک ترین حربہ کی زد سے علم ومذہب کو بچالیا اور عیسائیت کے تیز وتندطوفان اور بڑھتے ہوئے سیلاب عظیم کی لپیٹ سے ملک کو محفوظ کرلیا، بلکہ مسلمانوں کو بحیثیت قوم مسلم کے مٹنے اور ختم ہونے سے بھی بچالیا، ورنہ یہ نظام تعلیم اور مشن اسکول اور عیسائیت کی اشاعت کے لئے پادریوں کی سرگرمیاں جس کے پیچھے حکومت وقت کی بے پناہ قوت کام کررہی تھی، ہندوستان کے مسلمانوں کو اسی طرح اپنی لپیٹ میں لے لیتے اور ہندوستان کے مسلمانوں کا وہی حال ہوجاتا جس طرح اسپین کے مسلمانوں کا حال ہوچکا تھا کہ وہاں کی عیسائی حکومت کی بدولت وہاں کے تمام باشندے عیسائی ہو چکے تھے۔ (نعوذ باللہ منہ)
ان مدارس کا ملت ومذہب اور قوم مسلم کو اغیار کے حملوں سے بچالینا ہی کیا ایسا ناقابل معافی جرم عظیم ہے جس کی پاداش میں سب سے بڑی اسلامی سلطنت پاکستان کے بسنے والے بعض طبقے یہ کہتے نہیں تھکتے کہ تعلیم جدید کے اس دور میں دینی مدارس کا کیا فائدہ ہے، ان پر قوم کی دولت اور وقت کیوں ضائع کیا جارہا ہے؟ قوم کے ان ہمدردوں اور بہی خواہوں سے کیا یہ عرض کیا جاسکتا ہے کہ اگر ان مدارس کو قائم نہ کیا جاتا اور لارڈ میکالے کا مرتب کردہ نظام تعلیم اور عیسائیت کی تبلیغ کے لئے حکومت متسلطہ کی مساعی کے سامنے علماء حق بھی گھٹنے ٹیک دیتے اور بڑے بڑے منصوبوں، عہدوں اور تنخواہوں کے لالچ میں آکر انگریزی سکولوں اور کالجوں کا رخ کرلیتے تو کیا ۱۸۵۷ء کے بعد انگریزی دور کے تقریباً سوسالہ زمانہ میں مذہب کے تحفظ اور اس کے بقاء کی کوئی صورت باقی رہ گئی تھی۔
غور فرمایا جائے کہ جب مذہب ہی باقی نہ رہتا اور مسلمانوں کو بحیثیت قوم مسلم کے ختم کرکے عیسائیت اور لادینیت میں جذب کرلیا جاتا تو پھر پاکستان کے مطالبہ کرنے اور اس کی عمارت قائم کرنے کے لئے مسلم قومیت کا بنیادی نظریہ کہاں سے دستیاب ہوتا۔
یہ مدارس اسلامیہ کیا اسی لئے بے ضرورت ہیں اور ان پر قوم کی دولت اور وقت کا خرچ کرنا قومی سرمایہ کاضیاع ہے کہ ان مدارس نے مسلم قومیت کا تحفظ کیا اور اس کو حکومت وقت کی پوری کوشش کے باوجود مٹنے نہیں دیا جس کے نتیجے میں دنیائے اسلام کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت پاکستان قوم مسلم کو خداوند قدوس کی طرف سے عطا کی گئی ہے، مگر ہم نے اس کی قدر نہیں کی اور اس میں اسلامی نظام جاری نہیں کیا، جس کی وجہ سے اس کا ایک بہت بڑا حصہ علیحدہ ہوگیا اور باقی حصہ بھی خطرہ میں ہے۔ جس قوم کو ان مدارس کی مساعی جمیلہ کی بدولت اتنی عظیم الشان حکومت حاصل ہوئی ہو او رجو مدارس حکومت کی بنیاد ”مذہب،، کے محافظ ہوں، کیا اسی قوم کا سرمایہ ان مدارس پر صرف کرنا بے فائدہ اور ضائع کرنا ہے؟ یاد رکھئے! جس طرح دینی مدارس سے مذہب اور اسلامی قومیت کی حفاظت ہوتی ہے، اسی طرح ملک کی حفاظت اور اس کے استحکام کا دار ومدار بھی ان ہی مدارس پر ہے اور جس طرح مطالبہ پاکستان کے لئے مسلم قومیت اور مذہب اسلام مستحکم اور مضبوط چٹان کی طرح ثابت ہوئے جوان سے ٹکرایا پاش پاش ہوگیا، اسی طرح آج بھی پاکستان کی بقاء اور استحکام کے لئے ان کو وہی حیثیت اور مقام حاصل ہے جس کا ستمبر ۶۵ء کی جنگ میں مشاہدہ بھی ہوچکا ہے اور اسلام اور مسلم قومیت کی بقاء اور حفاظت کی ضامن چونکہ یہی دینی تعلیم ہے جو مدارس دینیہ میں حاصل ہوتی ہے، اس لئے جتنی اہمیت اور ضرورت انگریزی دور میں دینی مدارس کے بقاء اور قیام کی تھی، اس سے بڑھ کر ان مدارس کی آج پاکستان میں ضرورت ہے۔ اس لئے کہ یہ مدارس جس طرح ملت اسلام اور دینی تعلیم کی حفاظت کے واسطے مضبوط قلعے ہیں، اسی طرح ملک پاکستان کو بھی اغیار کے حملوں سے بچانے کے مضبوط ومستحکم اڈے ہیں۔ ان مدارس سے غفلت برتنا اور ان کے وجود کو ہی بے کار سمجھنا اور حسب استطاعت ان کی ترقی میں حصہ نہ لینا ملت اسلام اور ملک پاکستان دونوں کی بنیاد سے بے پرواہی برتنے اور چشم پوشی کرنے کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ملت اسلام اور ملک پاکستان کے پاسبان ومحافظ، ان مدارس دینیہ کی امداد وحفاظت اور ان کے ساتھ تعاون کرنے کی توفیق عنایت فرمائیں، آمین۔ وما علینا الا البلاغ المبین وآخر دعونا ان الحمد للّٰہ رب العالمین۔
Thursday, October 20, 2011
میڈیا کا مذہبی استعمال
دور حاضر میں ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی کے باعث ہونیوالی معاشرتی تبدیلیوں نے میڈیا کی اہمیت کو مزید اجاگر کرنے میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔ معاشرے کے ہر طبقے کے لیے ضروری ہو چکا ہے کہ وہ اپنے پیغام اور نظریات سے آگاہی اور ان کے فروغ کے لیے ذرائع ابلاغ کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرے۔ یہ حقیقت ہے کہ آج کے دور میں صرف وہی اقوام اور نظریات عالمی منظر نامے پر حاوی نظر آتے ہیں کہ جو میڈیا کے میدان میں بھرپور صلاحیتوں کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔ میڈیا میں کم سرگرمی کا مظاہرہ کرنیوالے دینی ، سیاسی ، سماجی غرض ہر قسم کے طبقات کی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔ عالمی سطح پر اور خاص کر برصغیر میں دینی طبقے نے بھی ذرائع ابلاغ کو اپنے لیے مواقف بنانے پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ اسلام کی سچی تعلیمات اور قرآن و سنت کا بھرپور علم ہونے کے باوجود اس کے ابلاغ کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کی کوششیں نہیں کی گئیں جس کے باعث ملک میں سیکولر طبقہ حاوی نظر آتا ہے اور خاص کر میڈیا کے میدان میں تو اس کی کافی حد تک اجارہ داری قائم ہو چکی ہے۔ بلخصوص الیکٹرانک میڈیا کے حوالے سے انتہائی کم توجہ دی گئی ہے۔ اس مضمون کا مقصد عالمی سطح پر اور خاص کر مغربی ممالک میں الیکٹرانک میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کے دینی مقاصد کے لیے استعمال کو زیر بحث لانا ہے۔ مغربی دنیا میں ذرائع ابلاغ کے تمام قابل ذکر اور بڑے اداروں پر یہود ی مالکان یا تو قابض ہیں یا پھر اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے ان کی پالیسی پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی میڈیا ہی یہودی مذہب اور عیسائی مذہب کی جدید تشریحات کا ترجمان نظر آتا ہے۔ سیکولرازم کے سب سے بڑے دعویدار امریکہ میں میڈیا کو کس حد تک مذہبی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے سابق امریکی صدر جانس کی تقریر نویس خاتون صحافی گریس ہالسلز کی ” نئی صلیبی جنگ سے متعلق کتاب Forcing God's Hand سے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں۔ یہ کتاب دو ہزار ایک میں لکھی گئی۔ کتاب میں اس موضوع پر گفتگو کی گئی ہے کہ کس طرح امریکی کی اندرونی اور بیرونی پالیسیاں عیسائی بنیاد پرستوں اور دہشت گردوں کے زیر اثر بنتی ہیں۔ یہ طبقہ میڈیا کے میدان میں بھی بھرپور اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ کتاب کے اکتسابات مندرجہ ذیل ہیں۔
رائل اولس شیگن کے جیک وین امپی ہر ہفتے اپنی تقریر نشر کرتے ہیں اور نوے سے زیادہ چینل پر خطاب کرتے ہیں۔ ان میں ٹرینی براڈ کاسٹنگ مذہبی نیٹ ورک ، امریکہ کے ۳۴ ریڈیو سٹیشن اور ٹرانس ورلڈ ریڈیو ، جو دنیا بھر میں سنا جاتا ہے ، شامل ہے
چارلس ٹیلر جن کا تعلق ننگٹن بیچ ( کیلیفورنیا) سے ہے۔ اپنے نشرئیے میں ” بائبل کی پیشن گوئی آج کے لئے “ نامی پروگرام کرتے ہیں جو کہ سٹیلائیٹ کے ذریعے بیس سے زیادہ نشرگاہوں سے دنیا بھر میں دیکھا جاتا ہے۔
چک اسمتھ کا ریڈیو پروگرام سینکڑوں نشرگاہوں سے سنا جاتا ہے اور کالوری سیٹلائیٹ نیٹ ورک سے بھی نشر ہوتا ہے۔ کوسٹامیسا ( کیلیفورنیا) میں ان کا ” کالوری چینل “ ہے جس کے ۵۲ ہزار ارکان ہیں۔ امریکہ میں ان کے چھ سو سے زائد کالوری چینل ہیں اور بین الاقوامی طور پر ایک سو سے بھی زائد کالوری چینل ہیں۔
پال کراو ¿چ کا ٹرینٹی براڈ کاسٹنگ نیٹ ورک ہے جو یوم قیامت کے بارے میں پیش گوئیاں نشر کرتا ہے۔ یہ پورے امریکہ میں دیکھا جاتا ہے۔
کراو ¿چ کا لاس اینجلز میں ہفتے کی صبح کو اپنا ریڈیو پروگرام ہوتا ہے۔ جبکہ وہ کاو ¿نٹ ڈاو ¿ن نیوز جرنل بھی شائع کرتے ہیں۔
جیمز ڈالبسن ، کولوریڈو میں مذہبی پروگرام کے براڈ کاسٹر ہیں۔ وہ ایک تحریک کے بانی بھی ہیں ” خاندان پر توجہ “ کے بانی ہیں۔ اس کے ارکان بیس لاکھ سے زائد اور پورے ملک میں ۴۳ شاخیں ہیں۔ وہ ہر ہفتے دو کروڑ ۸ لاکھ افراد تک پیغام پہنچاتے ہیں۔
لیوس پلاو ¿ ایک مذہبی مبلغ ہیں۔ انہوں نے ۷۶ اقوام سے خطاب کرتے ہوئے ایک کروڑ بیس لاکھ سے گفتگو کی ہے۔۔ ان کا ہفتہ وار ٹی وی پروگرام ہے۔۔ وہ ہر روز تین ریڈیو پروگرام نشر کرتے ہیں جنہیں بائیس ملکوں میں سنا جاتا ہے۔
پیٹ رابرٹسن نے ورجینا بیچ میں کرسچن براڈ کاسٹنگ نیٹ ورک تعمیر کیا جس کی ہر سال نو کروڑ ستر لاکھ ڈالر آمدنی ہوتی ہے۔۔ اس کے منافع پر کوئی ٹیکس بھی نہیں۔۔
اپنے بی سی این میں انہوں نے فیملی چینل بنایا جو کہ امریکہ میں ساتواں سب سے بڑا نیٹ ورک ہے۔۔ وہ خود پروگرام بھی کرتا ہے۔ بعد میں اس نے اپنا فیملی چینل فاکس ٹیلی ویڑن کو ایک ارب نوے کروڑ میں بیچ دیا۔ مصنفہ کی تحقیق کے مطابق مذہبی سرگرمیاں زیادہ تر کرسچن کولیشن نامی تنظیم کے ذریعے ہوتی ہے اور اسے ملک کی سب سے بڑی سماجی تنظیم قرار دیا جا سکتا ہے جوکہ داخلہ و خارجہ پالیسی اور سیاست پر گہرا اثر و رسوخ رکھتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ امریکہ میں پانچ کروڑ سے زائد بنیاد پرست عیسائی موجود ہیں جو کہ دنیا کے جلد سے جلد خاتمے کے لیے سرگرم ہیں۔ یہی افراد یہودیوں کی بھرپور مدد کرتے ہیں۔ امریکی میڈیا میں یہودی سب سے زیادہ اثر ورسوخ رکھتے ہیں اور اس کی بھی مذہبی وجوہات ہیں۔ بائبل کی نئی تشریحات میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ حضرت عیسی کی دوبارہ آمد اور نجات کے لیئے ضروری ہے کہ یہودیوں کا ہیکل تعمیر ہو۔ انہی نظریات کا اثر ہے کہ عیسائی دنیا آج اسرائیل کی حمایتی نظر آتی ہے اور ایسا سیاسی نہیں بلکہ مذہبی بنیادوں پر کیا جا رہا ہے۔۔بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سیکولر ازم کے نام نہاد نعرے کے تحت مغربی ذرائع ابلاغ مذہب سے دوری کی کوششوں میں مصروف ہیں جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ بہت سے سکالرز اپنی تحقیق سے یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ سیکولرازم کہ جس کو مذہب بیزاری کا نام دیا جاتا ہے بذات خود ایک مذہب کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے باقاعدہ اصول و ضوابط ہیں کہ جن کی پیروی بلکل ایسے ہی کی جاتی ہے کہ جیسے مذہبی احکام و مسائل کی۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی معاشرے کے مذہبی رجحان کو بدلنے کے لیے ہمیشہ یہی ضروری نہیں ہوتا کہ کسی دوسرے مذہب کی تبلیغ کی جائے بلکہ بعض اوقات لوگوں کو ان کے عقائد اور نظریات سے دور کر دینے کے لیے بھی ذرائع ابلاغ کو استعمال کیا جاتا ہے۔ میں اس کی مثال برصغیر میں قائم مشنری تعلیمی اداروں سے دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ ہمارے ملک میں کرسچن مشنری تنظیموں کی جانب سے اعلی طبقے کے لیے بڑے ہی پرکشش انداز میں تعلیمی اداروں کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ وافر فنڈز اور بیرونی سرمائے کی بدولت یہ تعلیمی ادارے اپنے معیار کو بہتر بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے ہاں کی اشرافیہ اپنے ہونہار بچوں کو ان اداروں میں بھیجتے ہیں۔ اب اگر دیکھا جائے تو ان تعلیمی اداروں میں پڑھنے والوں میں سے بہت کم ہی عیسائیت کو قبول کرتے ہیں تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی اکثریت اسلامی تعلیمات سے مکمل طور پر ناآشنا ہو چکی ہوتی ہے۔ انتہائی چالاکی اور مہارت سے ان بچوں کے معصوم ذہنوں میں ایسا بیج بویا جاتا ہے کہ وہ زندگی کا باقی ماندہ حصہ مذہب سے دور ہی گزارتے ہیں۔ یہی لوگ بعد میں ملک کا عنان حکومت سنبھالتے ہیں اور سکولوں میں ہونیوالی نشوونما کے زیر اثر ہی ان کے ذہن دینی طبقے سے قربت پر کبھی بھی مائل ہی نہیں ہوتے۔ ٹھیک ایسے ہی بعض طاقتیں میڈیا کی طاقت کو مسلمانوں کے دلوں سے دینی روایات اور احکام و مسائل کی عزت اور اور محبت ختم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ یعنی ان کو عیسائی ، یہودی یا ہندو نہیں بنایا جا رہا لیکن ایسا مواد پیش کیا جا رہا ہے کہ مسلمان دین کی اصل روح سے بیگانہ ہو جائیں۔ دوسرا ایک بہت ہی اہم حربہ اسلامی قوانین ، تاریخ ، شخصیات ، تحریکوں وغیرہ کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلا نا ہے۔ انٹرنیٹ پر قرآن پاک کے غلط تراجم حتی کہ غلط متن تک موجود ہیں اور انتہائی منصوبہ بندی سے ان کو پھیلایا جا رہا ہے۔ اسلام مخالف میڈیا بھرپور طریقے سے لوگوں کے دلوں میں مذہب سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ پاکستان میں حدود بل کے خلاف میڈیا ٹرائل ، ناموس رسالت کے قانون اور اسلامی سزاو ¿ں وغیرہ کو اس انداز سے پیش کیا جاتا ہے کہ دینی جذبات رکھنے والا بندہ بھی ان سے متنفر ہو جائے۔ اس طرح معاشرے میں ایسا ماحول بنانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جیسے ہی ان قوانین کو ختم کرنے کے کوشش ہو تو زیادہ سخت ردعمل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ مغربی میڈیا نے حالیہ دنوں میں توہین آمیز مواد کی اشاعت کو بھی ایک مذہبی حربے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ نبی اکرم کی شان میں گستاخی کے واقعات میں میڈیا سے منسلک افراد کے واضح مذہبی جذبات کی عکاسی ہوتی ہے۔ مذہبی جماعتوں کو اور دنیا بھر میں سرگرم اسلامی تنظیموں کو انتہائی گھٹیا انداز میں پیش کیا جاتا ہے تاکہ لوگوں کے دل مذہب کے داعیوں سے دور ہو سکیں۔ ایک اہم حربہ یہ بھی ہے کہ ٹی وی شوز میں ایسے سکالرز کو پروموٹ کیا جاتا ہے کہ جو مرضی کے مطابق تشریحات کر سکتے ہوں۔ اس سے مختلف مقاصد حاصل ہوتے ہیں کہ ایک طرف تو مخلص دینی قیادت کو عوام کی نظروں سے ہٹا دیا جاتا ہے جبکہ دوسری جانب نام نہاد مذہبی سکالرز کے ذریعے دینی مسائل کی ایسی تشریح پیش کی جاتی ہے کہ جس سے مزید الجھنیں پیدا ہوتی ہیں اور معاشرے کا ایک بڑا طبقہ دین کو بوجھ سمجھ کر مذہبی روایات سے دور ہوتا جا تا ہے۔ پاکستان میں غیر مسلم قرار دئیے جانیوالے قادیانی میڈیا کے میدان میں انتہائی سرگرم دیکھائی دیتے ہیں اور ان کے سیٹلائیٹ چینلز ملک میں پرائیوٹ چینلز کی آمد سے بھی کئی سال پہلے سے ہی سرگرم ہیں۔ قادیانی چینلز الیکٹرانک میڈیا کو بھرپور طریقے سے مذہبی مقاصد کے لیے استعمال استعمال کرتے ہیں۔ بھارتی میڈیا بھی ہندو مذہب کی ترویج کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ڈراموں، فلموں اور مختلف پروگرامز میں مذہبی عنصر لازمی طور پر شامل کیا جاتا ہے۔ ہندو دیوی دیوتاو ¿ں کا تعارف ، پوجا ، مذہبی گیت ، مذہبی
روایات وغیرہ کی بھرپور طریقے سے عکاسی نظر آتی ہے۔ بھجن ، تلک ، گھنگرو ، پائل ، ساڑھیاں اور ایسی ہی بہت سی ہندو مت سے منسلک اشیائ میڈیا کی بدولت ہی آج ہمارے معاشرے کا بھی حصہ بنتی نظر آتی ہیں۔ مغربی اور ہندو میڈیا سے مقابلے کے لیے اسلامی حلقوں کو بھی اس میدان میں آگے آنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات کافی خوش آئند ہے کہ چاہے دیر سے ہی سہی لیکن اب دینی طبقے کو الیکٹرانک اور آن لائن میڈیا کی اہمیت کا اندازہ ہو چکا ہے اور اب اس سلسلے میں تگ و دو جاری ہے۔ کسی کو بھی اس قدرتی اصول سے اختلاف نہیں ہونا چاہیے کہ گنوائے ہوئے وقت کا ازالہ ممکن نہیں اور اب دینی طبقے کو الیکٹرانک میڈیا کے میدان میں اپنا پیغام پیش کرنے کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ محنت کی ضرورت ہو گی۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے کسی بہتے ہوئے دریا کا منہ موڑنا۔۔ بہرحال اگر نیت خالص ہو اور محنت کا جذبہ بھرپور ہو تو آج کے دور میں یہ کام ناممکن ہرگز نہیں ہے۔
دینی طبقہ کے میڈیا فیلڈ میں سرگرمی دیکھاتے ہی ملک میں بلکہ عالمی سطح پر بھی اک نئی بحث نے بھی جنم لیا ہے۔ اسلام اور اس کی تعلیمات سے تعصب رکھنے والے لوگ مختلف الزامات کے تحت دینی اور نظریات افراد کو میڈیا سے دور رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور ایسا تاثر دیا جا رہا ہے کہ اگر دینی علم رکھنے والے افراد کے ہاتھوں میں میڈیا ٹیکنالوجی آ گئی تو اس سے معاشرے میں کوئی بہت بڑا طوفان جنم لے سکتا ہے۔ فرقہ واریت ، گروہ بندی ، اشتعال انگیز مواد وغیرہ جیسے موضوعات کو لیکر دینی ذرائع ابلاغ کے قیام میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج برصغیر میں نیوز اور تفریحی چینل کی اجازت تو بہ آسانی مل جاتی ہے جبکہ دینی چینل کے لیے اجازت نامہ ملنا انتہائی مشکل کام ہے۔ حکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر امریکہ اور دیگر ممالک میں میڈیا کے اتنے بڑے پیمانے پر مذہبی استعمال سے کوئی مشکل پیدا نہیں ہوئی تو انشائ اللہ ہمارے ملک میں بھی ایسا کچھ نہیں ہوگا بلکہ مذہبی حلقوں کے میڈیا میں آنے سے بہت سی غلط فہمیوں کا خاتمہ ہوگا۔ الیکٹرانک میڈیا میں ناظرین کا حلقہ بہت وسیع ہوتا ہے اور ہر مقرر اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ اس کی گفتگو صرف ایک خاص طبقے تک نہیں پہنچ رہی بلکہ ہزاروں لاکھوں لوگ سن یا دیکھ سکتے ہیں۔ اس سے احساس ذمہ داری میں اضافہ ہوتا ہے۔ کوئی بھی عالم دین یا سکالر من گھڑت اور اشتعال انگیز بات کرنے کی ہمت نہیں کرتا کیونکہ فوری طور پر ردعمل آنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ اس لیے نہ صرف دینی جماعتوں کو چاہیے کہ میڈیا کے استعمال میں اضافہ کریں بلکہ حکومت کو بھی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ انشائ اللہ آئندہ مضمون میں ان نقاط پر بحث کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ جو دینی حلقوں کو میڈیا میں کامیابی دلا سکتے ہییں
رائل اولس شیگن کے جیک وین امپی ہر ہفتے اپنی تقریر نشر کرتے ہیں اور نوے سے زیادہ چینل پر خطاب کرتے ہیں۔ ان میں ٹرینی براڈ کاسٹنگ مذہبی نیٹ ورک ، امریکہ کے ۳۴ ریڈیو سٹیشن اور ٹرانس ورلڈ ریڈیو ، جو دنیا بھر میں سنا جاتا ہے ، شامل ہے
چارلس ٹیلر جن کا تعلق ننگٹن بیچ ( کیلیفورنیا) سے ہے۔ اپنے نشرئیے میں ” بائبل کی پیشن گوئی آج کے لئے “ نامی پروگرام کرتے ہیں جو کہ سٹیلائیٹ کے ذریعے بیس سے زیادہ نشرگاہوں سے دنیا بھر میں دیکھا جاتا ہے۔
چک اسمتھ کا ریڈیو پروگرام سینکڑوں نشرگاہوں سے سنا جاتا ہے اور کالوری سیٹلائیٹ نیٹ ورک سے بھی نشر ہوتا ہے۔ کوسٹامیسا ( کیلیفورنیا) میں ان کا ” کالوری چینل “ ہے جس کے ۵۲ ہزار ارکان ہیں۔ امریکہ میں ان کے چھ سو سے زائد کالوری چینل ہیں اور بین الاقوامی طور پر ایک سو سے بھی زائد کالوری چینل ہیں۔
پال کراو ¿چ کا ٹرینٹی براڈ کاسٹنگ نیٹ ورک ہے جو یوم قیامت کے بارے میں پیش گوئیاں نشر کرتا ہے۔ یہ پورے امریکہ میں دیکھا جاتا ہے۔
کراو ¿چ کا لاس اینجلز میں ہفتے کی صبح کو اپنا ریڈیو پروگرام ہوتا ہے۔ جبکہ وہ کاو ¿نٹ ڈاو ¿ن نیوز جرنل بھی شائع کرتے ہیں۔
جیمز ڈالبسن ، کولوریڈو میں مذہبی پروگرام کے براڈ کاسٹر ہیں۔ وہ ایک تحریک کے بانی بھی ہیں ” خاندان پر توجہ “ کے بانی ہیں۔ اس کے ارکان بیس لاکھ سے زائد اور پورے ملک میں ۴۳ شاخیں ہیں۔ وہ ہر ہفتے دو کروڑ ۸ لاکھ افراد تک پیغام پہنچاتے ہیں۔
لیوس پلاو ¿ ایک مذہبی مبلغ ہیں۔ انہوں نے ۷۶ اقوام سے خطاب کرتے ہوئے ایک کروڑ بیس لاکھ سے گفتگو کی ہے۔۔ ان کا ہفتہ وار ٹی وی پروگرام ہے۔۔ وہ ہر روز تین ریڈیو پروگرام نشر کرتے ہیں جنہیں بائیس ملکوں میں سنا جاتا ہے۔
پیٹ رابرٹسن نے ورجینا بیچ میں کرسچن براڈ کاسٹنگ نیٹ ورک تعمیر کیا جس کی ہر سال نو کروڑ ستر لاکھ ڈالر آمدنی ہوتی ہے۔۔ اس کے منافع پر کوئی ٹیکس بھی نہیں۔۔
اپنے بی سی این میں انہوں نے فیملی چینل بنایا جو کہ امریکہ میں ساتواں سب سے بڑا نیٹ ورک ہے۔۔ وہ خود پروگرام بھی کرتا ہے۔ بعد میں اس نے اپنا فیملی چینل فاکس ٹیلی ویڑن کو ایک ارب نوے کروڑ میں بیچ دیا۔ مصنفہ کی تحقیق کے مطابق مذہبی سرگرمیاں زیادہ تر کرسچن کولیشن نامی تنظیم کے ذریعے ہوتی ہے اور اسے ملک کی سب سے بڑی سماجی تنظیم قرار دیا جا سکتا ہے جوکہ داخلہ و خارجہ پالیسی اور سیاست پر گہرا اثر و رسوخ رکھتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ امریکہ میں پانچ کروڑ سے زائد بنیاد پرست عیسائی موجود ہیں جو کہ دنیا کے جلد سے جلد خاتمے کے لیے سرگرم ہیں۔ یہی افراد یہودیوں کی بھرپور مدد کرتے ہیں۔ امریکی میڈیا میں یہودی سب سے زیادہ اثر ورسوخ رکھتے ہیں اور اس کی بھی مذہبی وجوہات ہیں۔ بائبل کی نئی تشریحات میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ حضرت عیسی کی دوبارہ آمد اور نجات کے لیئے ضروری ہے کہ یہودیوں کا ہیکل تعمیر ہو۔ انہی نظریات کا اثر ہے کہ عیسائی دنیا آج اسرائیل کی حمایتی نظر آتی ہے اور ایسا سیاسی نہیں بلکہ مذہبی بنیادوں پر کیا جا رہا ہے۔۔بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سیکولر ازم کے نام نہاد نعرے کے تحت مغربی ذرائع ابلاغ مذہب سے دوری کی کوششوں میں مصروف ہیں جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ بہت سے سکالرز اپنی تحقیق سے یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ سیکولرازم کہ جس کو مذہب بیزاری کا نام دیا جاتا ہے بذات خود ایک مذہب کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے باقاعدہ اصول و ضوابط ہیں کہ جن کی پیروی بلکل ایسے ہی کی جاتی ہے کہ جیسے مذہبی احکام و مسائل کی۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی معاشرے کے مذہبی رجحان کو بدلنے کے لیے ہمیشہ یہی ضروری نہیں ہوتا کہ کسی دوسرے مذہب کی تبلیغ کی جائے بلکہ بعض اوقات لوگوں کو ان کے عقائد اور نظریات سے دور کر دینے کے لیے بھی ذرائع ابلاغ کو استعمال کیا جاتا ہے۔ میں اس کی مثال برصغیر میں قائم مشنری تعلیمی اداروں سے دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ ہمارے ملک میں کرسچن مشنری تنظیموں کی جانب سے اعلی طبقے کے لیے بڑے ہی پرکشش انداز میں تعلیمی اداروں کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ وافر فنڈز اور بیرونی سرمائے کی بدولت یہ تعلیمی ادارے اپنے معیار کو بہتر بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے ہاں کی اشرافیہ اپنے ہونہار بچوں کو ان اداروں میں بھیجتے ہیں۔ اب اگر دیکھا جائے تو ان تعلیمی اداروں میں پڑھنے والوں میں سے بہت کم ہی عیسائیت کو قبول کرتے ہیں تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی اکثریت اسلامی تعلیمات سے مکمل طور پر ناآشنا ہو چکی ہوتی ہے۔ انتہائی چالاکی اور مہارت سے ان بچوں کے معصوم ذہنوں میں ایسا بیج بویا جاتا ہے کہ وہ زندگی کا باقی ماندہ حصہ مذہب سے دور ہی گزارتے ہیں۔ یہی لوگ بعد میں ملک کا عنان حکومت سنبھالتے ہیں اور سکولوں میں ہونیوالی نشوونما کے زیر اثر ہی ان کے ذہن دینی طبقے سے قربت پر کبھی بھی مائل ہی نہیں ہوتے۔ ٹھیک ایسے ہی بعض طاقتیں میڈیا کی طاقت کو مسلمانوں کے دلوں سے دینی روایات اور احکام و مسائل کی عزت اور اور محبت ختم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ یعنی ان کو عیسائی ، یہودی یا ہندو نہیں بنایا جا رہا لیکن ایسا مواد پیش کیا جا رہا ہے کہ مسلمان دین کی اصل روح سے بیگانہ ہو جائیں۔ دوسرا ایک بہت ہی اہم حربہ اسلامی قوانین ، تاریخ ، شخصیات ، تحریکوں وغیرہ کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلا نا ہے۔ انٹرنیٹ پر قرآن پاک کے غلط تراجم حتی کہ غلط متن تک موجود ہیں اور انتہائی منصوبہ بندی سے ان کو پھیلایا جا رہا ہے۔ اسلام مخالف میڈیا بھرپور طریقے سے لوگوں کے دلوں میں مذہب سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ پاکستان میں حدود بل کے خلاف میڈیا ٹرائل ، ناموس رسالت کے قانون اور اسلامی سزاو ¿ں وغیرہ کو اس انداز سے پیش کیا جاتا ہے کہ دینی جذبات رکھنے والا بندہ بھی ان سے متنفر ہو جائے۔ اس طرح معاشرے میں ایسا ماحول بنانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جیسے ہی ان قوانین کو ختم کرنے کے کوشش ہو تو زیادہ سخت ردعمل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ مغربی میڈیا نے حالیہ دنوں میں توہین آمیز مواد کی اشاعت کو بھی ایک مذہبی حربے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ نبی اکرم کی شان میں گستاخی کے واقعات میں میڈیا سے منسلک افراد کے واضح مذہبی جذبات کی عکاسی ہوتی ہے۔ مذہبی جماعتوں کو اور دنیا بھر میں سرگرم اسلامی تنظیموں کو انتہائی گھٹیا انداز میں پیش کیا جاتا ہے تاکہ لوگوں کے دل مذہب کے داعیوں سے دور ہو سکیں۔ ایک اہم حربہ یہ بھی ہے کہ ٹی وی شوز میں ایسے سکالرز کو پروموٹ کیا جاتا ہے کہ جو مرضی کے مطابق تشریحات کر سکتے ہوں۔ اس سے مختلف مقاصد حاصل ہوتے ہیں کہ ایک طرف تو مخلص دینی قیادت کو عوام کی نظروں سے ہٹا دیا جاتا ہے جبکہ دوسری جانب نام نہاد مذہبی سکالرز کے ذریعے دینی مسائل کی ایسی تشریح پیش کی جاتی ہے کہ جس سے مزید الجھنیں پیدا ہوتی ہیں اور معاشرے کا ایک بڑا طبقہ دین کو بوجھ سمجھ کر مذہبی روایات سے دور ہوتا جا تا ہے۔ پاکستان میں غیر مسلم قرار دئیے جانیوالے قادیانی میڈیا کے میدان میں انتہائی سرگرم دیکھائی دیتے ہیں اور ان کے سیٹلائیٹ چینلز ملک میں پرائیوٹ چینلز کی آمد سے بھی کئی سال پہلے سے ہی سرگرم ہیں۔ قادیانی چینلز الیکٹرانک میڈیا کو بھرپور طریقے سے مذہبی مقاصد کے لیے استعمال استعمال کرتے ہیں۔ بھارتی میڈیا بھی ہندو مذہب کی ترویج کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ڈراموں، فلموں اور مختلف پروگرامز میں مذہبی عنصر لازمی طور پر شامل کیا جاتا ہے۔ ہندو دیوی دیوتاو ¿ں کا تعارف ، پوجا ، مذہبی گیت ، مذہبی
روایات وغیرہ کی بھرپور طریقے سے عکاسی نظر آتی ہے۔ بھجن ، تلک ، گھنگرو ، پائل ، ساڑھیاں اور ایسی ہی بہت سی ہندو مت سے منسلک اشیائ میڈیا کی بدولت ہی آج ہمارے معاشرے کا بھی حصہ بنتی نظر آتی ہیں۔ مغربی اور ہندو میڈیا سے مقابلے کے لیے اسلامی حلقوں کو بھی اس میدان میں آگے آنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات کافی خوش آئند ہے کہ چاہے دیر سے ہی سہی لیکن اب دینی طبقے کو الیکٹرانک اور آن لائن میڈیا کی اہمیت کا اندازہ ہو چکا ہے اور اب اس سلسلے میں تگ و دو جاری ہے۔ کسی کو بھی اس قدرتی اصول سے اختلاف نہیں ہونا چاہیے کہ گنوائے ہوئے وقت کا ازالہ ممکن نہیں اور اب دینی طبقے کو الیکٹرانک میڈیا کے میدان میں اپنا پیغام پیش کرنے کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ محنت کی ضرورت ہو گی۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے کسی بہتے ہوئے دریا کا منہ موڑنا۔۔ بہرحال اگر نیت خالص ہو اور محنت کا جذبہ بھرپور ہو تو آج کے دور میں یہ کام ناممکن ہرگز نہیں ہے۔
دینی طبقہ کے میڈیا فیلڈ میں سرگرمی دیکھاتے ہی ملک میں بلکہ عالمی سطح پر بھی اک نئی بحث نے بھی جنم لیا ہے۔ اسلام اور اس کی تعلیمات سے تعصب رکھنے والے لوگ مختلف الزامات کے تحت دینی اور نظریات افراد کو میڈیا سے دور رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور ایسا تاثر دیا جا رہا ہے کہ اگر دینی علم رکھنے والے افراد کے ہاتھوں میں میڈیا ٹیکنالوجی آ گئی تو اس سے معاشرے میں کوئی بہت بڑا طوفان جنم لے سکتا ہے۔ فرقہ واریت ، گروہ بندی ، اشتعال انگیز مواد وغیرہ جیسے موضوعات کو لیکر دینی ذرائع ابلاغ کے قیام میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج برصغیر میں نیوز اور تفریحی چینل کی اجازت تو بہ آسانی مل جاتی ہے جبکہ دینی چینل کے لیے اجازت نامہ ملنا انتہائی مشکل کام ہے۔ حکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر امریکہ اور دیگر ممالک میں میڈیا کے اتنے بڑے پیمانے پر مذہبی استعمال سے کوئی مشکل پیدا نہیں ہوئی تو انشائ اللہ ہمارے ملک میں بھی ایسا کچھ نہیں ہوگا بلکہ مذہبی حلقوں کے میڈیا میں آنے سے بہت سی غلط فہمیوں کا خاتمہ ہوگا۔ الیکٹرانک میڈیا میں ناظرین کا حلقہ بہت وسیع ہوتا ہے اور ہر مقرر اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ اس کی گفتگو صرف ایک خاص طبقے تک نہیں پہنچ رہی بلکہ ہزاروں لاکھوں لوگ سن یا دیکھ سکتے ہیں۔ اس سے احساس ذمہ داری میں اضافہ ہوتا ہے۔ کوئی بھی عالم دین یا سکالر من گھڑت اور اشتعال انگیز بات کرنے کی ہمت نہیں کرتا کیونکہ فوری طور پر ردعمل آنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ اس لیے نہ صرف دینی جماعتوں کو چاہیے کہ میڈیا کے استعمال میں اضافہ کریں بلکہ حکومت کو بھی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ انشائ اللہ آئندہ مضمون میں ان نقاط پر بحث کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ جو دینی حلقوں کو میڈیا میں کامیابی دلا سکتے ہییں
Subscribe to:
Posts
(
Atom
)