Thursday, November 28, 2013

अल्पसंख्यकों को बिना ब्याज ऋण का तोहफा देगी बिहार सरकार

Updated on: Sat, 19 Oct 2013 03:09 PM (IST)

Bihar government
अल्पसंख्यकों को बिना ब्याज ऋण का तोहफा देगी बिहार सरकार
मुंबई, [ओमप्रकाश तिवारी]। बिहार सरकार ने अल्पसंख्यक वर्ग के छोटे उद्यमियों को बिना ब्याज ऋण देने की योजना तैयार कर ली है। सबकुछ ठीक रहा तो 400 करोड़ के वेंचर-कैपिटल फंड वाली यह योजना जल्दी ही राज्य में लागू हो जाएगी।
बिहार सरकार से जुड़े सूत्रों की मानें तो यह योजना अल्पसंख्यकों, विशेषकर मुस्लिमों के मजहबी सिद्धांत को ध्यान में रखकर तैयार की गई है। गौरतलब है कि यह वर्ग ब्याज से परहेज करता है। उधार दिए गए धन पर न तो ब्याज लेना पसंद करता है, न ब्याज अदा कर उधार लेना। इस मजहबी बंधन के कारण अक्सर यह वर्ग उन सरकारी योजनाओं का लाभ नहीं ले पाता, जो गरीबों में उद्यमिता का विकास करने के लिए तैयार की गई हैं। चूंकि वेंचर-कैपिटल प्रणाली के तहत 400 करोड़ रुपयों की लागत से तैयार इस योजना में बिना ब्याज के ऋण देने का प्रावधान होगा, इसलिए मुस्लिम वर्ग भी इस योजना का लाभ ले सकेंगे।
बताया जा रहा है कि मुख्यमंत्री नीतीश कुमार ने लगभग तैयार हो चुकी इस योजना का विवरण मुंबई में शनिवार को हुई बिहार राज्य औद्योगिक एवं निवेश सलाहकार समिति के सदस्यों को दिया है। उन्होंने इस योजना को और बेहतर बनाने के लिए उनसे सुझाव भी मांगे हैं। यदि कुछ सुझाव प्राप्त हुए तो उन्हें योजना में जोड़कर इसे जल्दी से जल्दी राज्य में लागू कर दिया जाएगा।
गुजरात सरकार करीब आठ साल पहले इससे मिलती-जुलती एक योजना 50 करोड़ रुपयों की राशि से शुरू की थी, लेकिन इस योजना का लाभ विशेषकर सूचना प्रोद्योगिकी क्षेत्र से जुड़े पढ़े-लिखे लोगों को ही मिल सका है। हालांकि गुजरात में इस योजना पर खर्च की जानेवाली राशि अब बढ़कर 500 करोड़ तक पहुंच गई है, जबकि बिहार में तैयार की गई योजना एक वर्ग विशेष को ध्यान में रखकर तैयार की गई है। बिहार सरकार इसे इंसाफ के साथ तरक्की का नारा देकर लागू करना चाहती है। इसका लाभ बिहार में रह रहे लोगों को तो मिलेगा। साथ ही ऐसे बिहारी या गैरबिहारी लोग भी इस योजना का लाभ उठा सकेंगे जो अभी बिहार से बाहर रह रहे हैं, लेकिन बिहार लौटकर लघु या सूक्ष्म उद्योग शुरू करना चाहते हैं।

Friday, November 22, 2013

RSS"S URDU CHANNEL AND MADRASA'S MASSAGE


آرایس ایس کے اردوچینل اورمدرسہ کاپیغام
سچ بول دوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میم ضادفضلی
گزشتہ دنوں انٹرینٹ میڈیا کے ذریعہ یہ خبر آئی تھی کہ جلد ہی ملک کی بدنام زمانہ ہندو شدت پسند تنظیم آر ایس ایس ایک اردو چینل لانچ کرنے جارہی ہے ۔فیس بک پر اسی کے ساتھ یہ خبر بھی اپ لو ڈ کی گئی تھی کہ آر ایس ایس مسلم بچوں کی رہنمائی کیلئے صحیح اسلامی تعلیم فراہم کرنے کا نظم کرے گی۔ جس میں مذہب کی جانکاری کے ساتھ ساتھ حب الوطنی پر مشتمل مضامین خصوصی طور پر پڑھائے جائیں گے ۔ آر ایس ایس کا یہ منصوبہ کوئی نیا نہیں ہے ۔ آر ایس ایس کے سابق ترجمان گریش جویال نے راقم الحر و ف سے پانچ سال قبل ہی اس منصوبے پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہاتھاکہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ ایسے مدارس کا نظام قائم کرنے کی تیاری کررہی ہے ۔ ہمیں اس وقت بھی آر ایس ایس کا یہ منصوبہ برا نہیں لگا تھا اور آج بھی جب اس نے اردو چینل اور مذہبی تعلیم کے حوالے سے اقدامات کی بات کی ہے تو یہ سن کر کوئی حیرت نہیں ہوئی اور نہ اس منصوبے میں اعتراض کا کوئی پہلو نظر آیا جس سے کہ فرقہ پرست طاقتوں کو گالیاں بول کر قوم کو الو بنانے کی کوشش کی جائے ۔ ہم نے ہمیشہ یہ کام ان خیراتی تنظیموں کے آقاؤں کے حوالے کر رکھا ہے ۔ جن کی زندگی کا نصب العین یہ ہے کہ ’اپنا کام بنتا جہنم میں جائے جنتا ‘ دراصل ہماری ملی تنظیموں کے آقاؤں نے یہ باور کرلیا ہے کہ غریبوں کے نام پر سب کچھ جمع کیا جائے مگر اس کا ایک پائی بھی ادھر سے ادھر نہ ہونے پائے ۔ بلکہ سارا کا سارا اپنی مٹھی ہی میں قید رہے ۔ آرایس ایس کے خیمے سے مذکورہ خبر آنے کے بعد ملت فروشوں کی باسی کڑھی میں ایک بارپھرابال آگیا ہے ۔ خصوصاً مغربی اترپردیش کے سادہ لوح دیہی باشندوں اور ان پڑھ اور بھولے بھالے دیہاتیوں کو اس کام پر لگادیا گیا ہے کہ وہ شور شرابا کریں اور آر ایس ایس کیخلاف مردہ باد کے نعرے لگائیں اور گلی کوچوں میں یہ صدائیں عام کی جائیں کہ آر ایس ایس کے ذریعہ چلائی جانے والی تعلیمی مہم یا اردو چینل کا مقصد مسلمانوں کو رسوا اور ذلیل کرنا ہوگا لہذا آرایس ایس کے اس منصوبہ کو کسی طرح بھی کامیاب نہیں ہونے دیا جائے ۔ جس وقت میں یہ خبر پڑھ رہاتھا مجھے ہنسی آرہی تھی اور یہ سوال میرے ذہن وفکر میں کچوکے لگا رہا تھا کہ کیا صرف زندہ باد اور مردہ باد جیسے نعروں کے ذریعہ ہماری قوم کے ٹھیکدار آر ایس ایس کے چینل دیکھنے سے پورے سواد اعظم کو روک پائیں گے۔ کیا یہی مسئلہ کا حل ہے ، کیا صر ف فتاووں کے ذریعہ ملت کی زبوں حالی دور کی جاسکتی ہے ۔ یا ملت کو وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرانے کی وہ تدبیریں بروے کار لانے کی ضرورت ہے، جس سے ملت اسلامیہ باطل کی مذموم سازشوں کا شکار بننے سے بچ جائے۔ مجھے یادآتا ہے آج سے 37سال قبل مائیکل ہیٹن کی کتاب منظر عام پر آئی تھی۔اس کتاب کا موضوع وہ سو افراد تھے جنہوں نے تاریخ انسانی میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دیے تھے ، جن کی مثال پیش نہیں کی جاسکتی تھی۔ کتاب میں ساتویں او رآٹھویں نمبر پر سائلون اور جوہانس گٹن برگ تھا۔ سائی لون وہ چینی موجد ہے جس نے 1930میں کاغذ کا ایجاد کیا تھا۔ جب کہ چودہ ویں صدی میں جرمنی کا باشندہ گیٹن برگ چھاپا خانہ ایجاد کرنے میں کامیاب ہوا ۔اتفاق سے تاریخ ہندکی آنکھوں نے ایسے دوربھی دیکھے ہیں جب ملت سلامیہ کے قدم ترقی سے روکنے والی مغربی سازشوں کوکامیاب بنانے والے ہمارے عمائدین ایسے نازک دور میں بھی سادہ لوح مسلمانوں کواپنے فتاووں کے ذریعہ بڑی حدتک روکنے میں اہم کردارکیاہے۔اس وقت بھی مسلمانوں کویہی بتایاگیاانگریزوں کی زبان اوران کی ایجادات سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے ۔ ممکن ہے ان فتاووں کی حیثیت شرعی نہ ہوکرسیاسی ہوں جن کامقصدانگریزوں کیخلاف اپنی نفرت کااظہار ہو۔کیونکہ اس قسم کے فتاووں کی کوئی ایسی شرعی وجوہات نہیں ہے جنہیں محکمات یامحرمات کادرجہ حاصل ہو۔البتہ کسی بھی زبان کے سیکھنے سے قوم کومنع کرنااسی طرح جدیدایجادات سے استفادہ کیخلا ف آوازاٹھاناقوم کی تعمیروترقی کی راہوں میں گڑھے کھودنے جیساعمل ہے جسے قوم نے نہ کل پسند کیا تھا اورنہ آج کابیدارمعاشرہ اس کی حمایت کرنے کوتیارہے۔آپ آرایس ایس کے چینل سے قوم کومحفوظ رکھنے سے اسی صورت میں کامیاب ہوسکتے ہیں جب انہیں کوئی بہترمتبادل فراہم کرادیں۔یہی بات آرایس ایس کے تعلیمی اداروں کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے ۔آپ نے آرایس ایس کی سازشوں سے ملت کومحفوظ رکھنے کیلئے جونعرے بازی اوراحتجاج کاطریقہ اختیارکیا ہے ایسی حرکتوں کو جذباتی بلیک میلنگ توکہہ سکتے ہیں ملت اورمذہب سے ہمدردی کی بے تابی نہیں کہہ سکتے۔ ایسانہیں ہے کہ آپ لوگوں کے پاس آرایس ایس کی سازشوں کاعملی حل پیش کرنے کیلئے وسائل موجودنہیں ہیں۔آپ اگرچاہیں توایسے اسکولوں کے قیام کویقینی بناسکتے ہیں جہاں غریب بچوں کیلئے دینی اورعصری تعلیم کانظم بھی کرسکتے ہیں۔ایسابھی نہیں ہے کہ ملت کے ٹھیکیداروں نے معیاری اورمثالی اسکولوں کاقیام نہیں کیاہے۔ڈی پی ایس اورنیوہورائزن اسکول جیسے سیکڑوں تعلیمی اداروں کے سربراہ خودمسلم لیڈران یاسرمایہ دارحضرات ہیں۔المیہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے اسکولوں میں اتنی مہنگی فیس رکھی ہے جسے اداکرنا99فیصدمسلمانوں کے بس سے باہرہے۔مختصر یہ کہ تعلیم کی تجارت کاچلن بھی اعلیٰ طبقات کے ذریعہ ہی عام ہواہے۔آپ آرایس ایس کی تعلیم گاہوں سے غریب قوم کے نونہالوں کواس وقت تک روک پانے میں کامیاب نہیں ہوں گے جب تک آپ اسی معیاراوراسی کے مساوی سہولیات سے آراستہ تعلیمی ادارے کاقیام یقینی نہیں بناتے۔مگرمجھے یقین ہے کہ انسانی خریدوفروخت کے دکانداراورنام نہادرفاہی اداروں کے مالکان کواس مثبت تقاضے کوپور ا نہیں کر نا ہے ، ان کی نیت میں کھوٹ ہے ،انہیںیہ کبھی یہ پسند نہیں ہوسکتاکہ ان کے بچوں کی طرح غریب مسلمانوں کے جگرگوشے بھی اعلی تعلیم سے فیضیاب ہوں اوران کے برابربیٹھنے کی صلاحیت حاصل کرلیں۔ابھی چندماہ قبل ہی خط افلاس سے نیچے زندگی گذارنے والے کچھ لوگوں نے شکایت کی تھی کہ نیوہورائزن اورڈی پی ایس جیسے معیاری پرائیویٹ ادارے بی پی ایل خاندانوں کے بچوں کو عدالت عظمیٰ اورپارلیمنٹ کی ہدایات کے مطابق ریز رویشن کوتیارنہیں ہیں۔پھران سے یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے ان کے احتجاج اورمظاہروں کی اہم وجہ ملت اورمذہب سے انتہائی درجہ محبت ہے۔بلکہ ان کے اعمال خودگواہی دے رہے ہیں کہ ان کے نعروں کی حقیقت شعبدہ بازی اوراپنی دکان چمکانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ آرایس ایس نے مسلم بچوں کی اعلیٰ تعلیم کیساتھ معیا ر ی اورعمدہ رہائش کامنصوبہ تیارکیاہے۔اگریہی سہولیات ہمارے نام نہاد ملی قائدین بھی فراہم کرادیں توکوئی وجہ نہیں ہے کہ غریب مسلمانوں کے بچے آرایس ایس جیسی انسانیت دشمن مشینریزکی سازشوں کانوالہ بنیں۔مگرہمارے یہاکوئی ایماندارانہ اورعملی پروگرام کبھی رائج نہیں رہا۔ہم نے ہمیشہ سالوح غریب قوم کوورغلانے،ان کاجذباتی استحصال کرنے اورسڑکوں پراتارکرگاجرمولی کی طرح کٹوانے میں ہی ساری کامیابی اوربھلائی باورکررکھی ہے۔ 
ایسابھی نہیں ہے کہ اس عظیم منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ملت کے ہمدردسرمایہ داروں کے اندر ایثار کا جذبہ نہیں ہے۔اللہ کاشکرہے کہ امت مسلمہ کی ترقی کیلئے اس کی عطاکردہ دولت کودونوں ہاتھوں سے لٹانے والے بہی خواہوں کی تعدادہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں میں ہے۔ وہ اس قسم کے منصو بو ں کیلئے آوازدینے والوں کی آوازسے آوازملانے میں بھی پیش پیش رہتے ہیں۔مگراس کاکیاکیجئے گاکہ ان کے عطایاکواپنی تجوریوں میں محفوظ کردینے والوں نے ہمارے ملی سرمایہ داروں کواس قدرمایوس کردیاہے کہ ان کے حوصلے پست ہونے لگے ہیں۔کچھ اسی قسم کی بات جدیدذرائع ابلاغ اورصحافت کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے۔ہم تمام وسائل کے باوجوداپنی قوم کوغیروں کے ذریعہ پیش کی جانے والی پالیسیوں کامتبادل نہیں دیتے مگراس سے بازرہنے کیلئے انہیں سڑکوں پراتارکرکٹوانے میں ہی ساری ترقی کومضمرسمجھتے ہیں۔ ہم نے سطوربالامیں ہی اپنے اندیشے کااظہارکردیاہے کہ باطل خصوصاًاسلام مخالف طاغوت نے منصوبہ بند طریقے سے مسلمانوں کوترقی سے محروم رکھنے سازشیں مر تب کیں اورہم جدیدایجادات اورعصری تعلیم سے قوم کومحروم رکھنے کے فتوے دیکران سازشوں کی کامیابی یقینی بنادی۔
Mob.09911587378