میم ضاد فضلی
گذشتہ چند مہینوں میں ملک کے حالات الگ ہی ڈگر پر چل رہے ہیں، جس کے باعث ہر درد مند دل رکھنے والے ہندو و مسلم کو فکر دامن گیر ہے، اس لیے کہ ان میں سے کوئی بھی وطن پرست اپنے آشیاں کو اپنی آنکھوں کے سامنے اجڑتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتا۔ ہر شہری ملک میں امن و امان کے ساتھ زندگی گزارنے کا آرزومند ہے لیکن کیا کیجیے مختلف النوع مسائل کھڑے کر اور گڑے مْردے اْکھاڑ کر بعض لوگوں نے ملک کی فضا کو آلودہ کر رکھا ہے۔ من جملہ ان مسائل کے ایک نیا ایشو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اقلیتی کردار معاملہ ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار سے متعلق مرکزی حکومت کے موقف نے یونیورسٹی سے وابستہ دانشوروں کے علاوہ مسلم طبقیکو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ مرکزی حکومت کے ذریعے اپنے نظریے اور ارادے کے اظہار پر ایک طرف سیاسی ، سماجی اور تعلیمی حلقوں میں بحث شروع ہو گئی ہے، دوسری طرف علیگ برادری نے بھی سخت ردِّعمل کا اظہار کیا ہے۔مودی حکومت کے ذریعے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو ختم کرنے کی کوشش کے خلاف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز، مسلم اور غیر مسلم لیڈروں نے بھی قانونی جنگ کا اعلان کر دیا ہے۔
سپریم کورٹ کی ایک بینچ نے یہ واضح کیا ہے کہ کسی تعلیمی ادارے کو مذہبی اقلیتی ادارہ قرار دینے کا اختیار صرف مرکزی حکومت کو ہے۔
عدالت عظمٰی کا یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب مرکزی حکومت کی جانب سے یہ واضح اشارہ مل رہا ہے کہ وہ مسلمانوں کے دو اہم اداروں، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی کردار کو ختم کرنے جا رہی ہے۔
آئین ہند کے مطابق مذہبی اقلیتی اداروں کے ضوابط اور ان کے انتظام کے سلسلے میں اقلیتوں کو بعض خصوصی اختیارات دیے گئے ہیں۔ ان اختیارات کے تحت ایسے اداروں کے فیصلوں میں حکومت کا دخل نہیں ہوتا۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ نے 20ویں صدی کے اوائل سے ملک کے تعلیمی شعبے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ ادارے اگرچہ مسلمانوں نے قائم کئے تھے لیکن وقت گزرنے کیساتھ یہ ادارے مرکزی یونیورسٹیز میں تبدیل ہو گئیں۔
یہاں یہ دعویٰ بھی کیا جاتا رہاہے کہ ان یونیورسٹیز کے اربوں روپے کے اخراجات کا بار حکومت کے سر ہے۔البتہ اسی ملک میں ہندومٹھوں اوراکثریتی طبقہ کے سیکڑوں تعلیمی ادارے بھی مکمل طور پر حکومت کے ذریعہ بخشے ہوئے عنایات کی مرہون منت ہوا کرتے ہیں مگراس میں مداخلت نہیں کی جاتی،بلکہ اسے ہر طرح کی آ زادی حاصل ہوتی ہے۔یہاں انصاف کے یہی دوہرے پیمانے ساری دنیاکو ہندوستان کی جمہوریت کے تعلق سے شکوک میں مبتلاء رکھتے ہیں۔اکثریتی طبقہ کے زیراختیار اداروں میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کی جاتی ،جب کہ مسلمانوں کیلئے ہرطرف مسائل ہی مسائل ہیں۔ظاہر سی بات ہے ان ریشہ دوانیوں میں مرکزی حکومت کہیں نہ کہیں ضرور شامل ہے۔
ہندوستان کے مسلمان بالخصوص شمالی ہندوستان کے مسلمان تعلیم اور معیشت میں دلتوں کی ہی طرح کافی پیچھے ہیں۔ حکومت نے دلتوں قبائل اور پسماندہ ہندوؤں کو اوپر لانے کے لیے تعلیمی اداروں اور ملازمتوں میں تقریبا 50 فیصد کوٹے دے رکھا ہے۔
اس کے بر عکس مسلمانوں کو تعلیمی اور معاشی پسماندگی سے نکالنے کے لیے حکومت نے اس طرح کی کوئی اسکیم یا ترغیبی پروگرام شروع نہیں کیا۔ یہی نہیں ہندوؤں کو ریزرویشن دینے کی پالیسی سے پہلے ہی پسماندگی کا شکار مسلمانوں کو تعلیم اور معیشت میں مزید پیچھے دھکیل دیا گیا۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ یونیورسٹی ملک کی دو واحد ایسی یونیورسٹیز ہیں جنھیں اقلیتی تعلیمی ادارہ تسلیم کیا گیا تھا اور جہاں مختلف کورسز میں مسلمانوں کو 50 فیصد کوٹے کا نظام رائج ہے۔
اگرچہ ان دونوں اداروں پر مسلمانوں کے نام نہاد اعلیٰ ذات کے متمول طبقے کا غلبہ رہا ہے، لیکن اس کے باوجود ہزاروں غریب اور پسماندہ مسلمان ان دونوں یونیورسٹیز کے کورسز خاص طور سے میڈیکل، انجینئرنگ، قانون، منیجمنٹ اور دوسرے پیشہ ورانہ کورسز سے فیضیاب ہوتے رہے ہیں۔
ملک میں سرکاری اور نجی ملکیت کی تقریبا ساڑھے سات سو یونیورسٹیز واقع ہیں اور ان یونیورسٹیز میں اوسطاً 95 فیصد طلبہ ہندو ہوتے ہیں۔ پورے ہندوستان میں صرف علی گڑھ اور جامعہ ملیّہ یونیورسٹیز ایسی ہیں جہاں مسلم طلبہ کی تعداد 40 فیصد سے زیادہ ہے۔
یہ دونوں یونیورسٹیز ملک کی مذہبی منافرت کی سیاست کا محور رہی ہیں۔ یہ کئی عشروں سے سخت گیر ہندو تنظیموں کے راڈار پر ہیں۔ اب جبکہ مرکز میں بی جے پی کی حکومت ہے، اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ وہ ان یونیورسٹیز کا اقلیتی کردار ختم کر رہی ہے۔قانونی اعتبار سے بھی یہ ایک جائز فیصلہ ہوگا۔ کیونکہ مذہبی اقلیتی ادارہ چلانے کی ذمہ داری ریاست کی نہیں ہو سکتی، لیکن مبصرین اس فیصلے کو ریاست کی ذمہ داری سے زیادہ حکمراں جماعت کی ہندو نظریاتی سوچ سے منسوب کر رہے ہیں۔
مسلمانوں کو ان دونوں یونیورسٹیز کی سیاست سے باہر آنا ہوگا۔ جمہوریت پسند دانشوروں اور مسلمانوں میں یہ تصور عام ہے کاہندوستان کا ایک طبقہ مسلمانوں کو دوئم درجے کا شہری اور غریب بنائے رکھنے کے لیے انھیں تعلیم سے محروم رکھنا چاہتا ہے۔
ملک کے 16 کروڑ مسلمانوں کو اس حقیقت کا سامنا کرنا ہوگا کہ ان کی تعلیم کا حل بیکار کی جذباتی سیا ست میں نہیں ہے۔ انھیں اپنے سیاسی رہنماؤں سے یہ پو چھنا ہوگا کہ ان کے شہر، قصبے، خطے اور ان کی آبادیوں میں حکومت اچھے اسکول، کالجز اور یونیورسٹیز کیوں نہیں کھولتی ؟
مسلمانوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کی بقا صرف جدید تعلیم پر منحصر ہے۔ انھیں مدرسوں کی بہت زیادہ ضرورت نہیں ہے ،بلکہ جدید یونیوورسٹیز چاہئیں۔انہیں مراعات کے لیے نہیں تعلیمی برابری کے لیے جد وجہد کرنی ہوگی۔انھیں اس شرمناک حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ تاریخ کی اس منزل پر بھارت کے مسلمان تعلیم کی اسی دہلیز پر کھڑے ہیں جہاں سر سید احمد خان نیسوا سو برس پہلے انھیں چھوڑا تھا۔
Back to Conversion Tool
Sunday, January 17, 2016
اقلیتی تعلیم گاہوں پرکالی نظر
Subscribe to:
Posts
(
Atom
)