سچ بول دوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میم ضاد فضلی
کہا جاتا ہے کہ گاﺅ ںکے باشندے نہاےت معصوم اور بھولے بھالے ہوتے ہےںنہ انہےں کسی سے جنگ پسند ہوتی ہے اور نہ کسی سے بےر رکھنا ان کے دےہاتی معاشرے مےں قابل تحسےن تصور کےا جاتاہے۔مگر اس کے باوجود دےہی باشندے ان فنون اور کمالات سے بخوبی آگاہ ہوتے ہےں کہ کس طرح اپنے دشمن کو زےر کےا جائےگا ےا شکار کو اپنے بس مےں کرنے کےلئے کےا لائحہ عمل ناگزےر ہے۔ہم بچپن مےں اپنے گھروں مےں دےکھا کرتے تھے کہ باغ ےا کھےتو ںمےں دانے چگ رہی مرغےوں مےں سے کسی کو جب کبھی اس کے گوشت کی ضرورت ہوتی توچند روٹی کے ٹکڑے ےا چاول کے دانے ان مرغےوں کو دکھا کر بآسانی گھر مےں بلالےا لیتا اور پھر اسے قبضے مےں کر کے ذبح کرنے کے بعد پرتکلف سالن تےار کےا جاتا، جس کی خوشبو سے پورا محلہ معطر رہتا۔جس گھر مےں مرغ کے گوشت کا اہتمام ہوتا ہر راہ گزر کو اس کی خوشبو سے ہی پتہ چل جاتاکہ ےہاں ضرور کوئی نہ کوئی تقرےب ہے۔ ےہ الگ سی بات ہے کہ اس جانب کسی کی توجہ نہےں جاتی کہ اس تقرےب مےں پرتکلف دسترخوان کا اہتمام کرنے کےلئے اےک عدد مرغے کی گردن پر چھری چلائی گئی ہے اور اس نے تڑپ تڑپ کر جان دےنے کے بعد انسان کی لذت کام و دہن کا سامان بہم کےا ہے۔کانگرےس اس وقت مسلمانوںکے ساتھ جو کچھ کررہی ہے ،بالخصوص دہلی مےں مظلوم اقلےت کو دکھ پہنچانے کے جو عزائم اس نے تےار کئے ہےں، اس سے تو کم از کم ےہی پتہ چلتا ہے کہ بظاہر خود کو مسلمانوں کا مسےحا باور کرانے والی ےہ جماعت مسلمانو ںکی ازلی دشمن ہے۔اسے اس سے کچھ بھی لےنا دےنا نہےں ہے کہ وہ اےک مخصوص طبقہ کو اذےت دےنے کےلئے جن منصوبوں کو ترتےب دے رہی ہے وہ کبھی نہ کبھی خود اس کے ہی گلے کا پھندا بن جائے گا۔حالانکہ کانگرےس نے اےک مرتبہ خود دےکھا ہے کہ بابری مسجد کی شہادت اور ملک مےں وقفہ وقفہ سے روپذےر ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے بعد ےہ طبقہ اس سے دور ہو گےا تھا اور چاہ کر بھی کانگرےس مرکز تک پہنچنے مےں ناکام رہی تھی۔ ہم بھاگلپور کے فسادات کو کےسے بھول سکتے ہےں۔آزادی کے بعد رےاست بہار کا ےہ اےک اےسا منصوبہ بند فساد تھا جسے اس وقت کے ذرائع ابلاغ نے’ مسلم کشی ‘کا نام دےا تھا۔اسے اتفاق کہےں ےا منصوبہ بند سازش کہ مسلمان کاٹے جارہے تھے اور رےاست سے مرکز تک کانگرےسی سرکارےں بغلےں بجا رہی تھےں۔مگر اس سے کےا فرق پڑتا ہے، مسلمانو ںکو دھوکے مےں رکھنے کےلئے کانگرےس نے تو 1987مےں ہی بہارمےں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دے کر ان کی چندگردنیںاپنے لئے جائز کرلی تھی۔اردوکودوسری سرکاری زبان کادرجہ دیتے وقت کہایہ گیاتھاکہ اس سے مسلمانوںکوروزگارملے گا،مگرواقعات پرگہری نگاہ رکھنے والے مبصرین اگرباریکی سے بھاگلپور فسادات کاجائزہ لیں تواندازہ ہوگاکہ اردوکوسرکاری زبان کادرجہ دینااسی روٹی کے ٹکڑے کی طرح تھاجسے مرغی کوذبح کرنے کیلئے دیہاتی عورتیں اس کی جانب پھیکتی ہیں۔مگر حقےقت حال ےہ ہے کہ بھاگلپور فسادات کے بعد مسلمان جب اےک مرتبہ کانگرےس سے بدکے تو اےسا ہوا کہ رےاست سے اس کا نام و نشان تک مٹ گےا اور ساری ےقےن دہانےو ںکے باوجود ان کے ذہن و فکر سے اس الزام کو کھرچنا مشکل ہو گےا کہ بھاگلپور فسادات کی مجرم کانگرےس نہےں تھی۔ قسطوں کی موت نے اپنے دوست و دشمن کو پہچاننے کا رےاست کے مسلمانوں سلےقہ عطا کردےا ۔ اب روپ بدل کر سےکولرزم کاچاہے جتناہی پرکشش اور دبےز لبادہ کوئی اپنے اوپر چڑھا لے رےاست کے مسلمانو ںنے ےہ یقین کرلیا ہے کہ ہر چمکتی ہوئی چےز سونا نہےں ہوتی۔کانگرےس کے ذرےعہ بخشا ہوا زخم آج بھی شاےد انہےں ےاد ہے۔یہی وجہ ہے کہ پارلےمانی ،اسمبلی ،اےم اےل سی ےا بلدےاتی انتخابات مےں کانگرےسی امےدواروں کے بعض مرتبہ کھاتے بھی نہےں کھلتے۔
قصہ¿ مختصر ےہ کہ شاےد کسی شکاری کی طرح ہی اس بار دارالحکومت دہلی مےں کانگرےس نے اےک عدد راجےہ سبھا کی سےٹ پھےنک کر انہےں شکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ 29جولائی کی شام کو اعلیٰ کمان کی طرف سے اےسے اشارے ملے تھے کہ کانگرےس نے راجےہ سبھا کےلئے دہلی سے اےک اقلےتی امےدوار کو مےدان مےں اتارنے کا فےصلہ کےا ہے۔ابھی اس خبر کی تصدےق بھی نہےں ہو پائی تھی کہ گزشتہ جمعہ کے روز ڈنڈا بردار پولس نے دارالحکومت کی تقرےباً چار مسجدوں مےں مسلمانوںکو نماز پڑھنے سے روک دےا۔حالانکہ اس مےں سے اےک قطب مےنار کی تارےخی ’ مسجد‘ مےں وزےر داخلہ پی چدمبرم کی مداخلت کے بعد نماز جمعہ کی ادائےگی کی اجازت دے دی گئی تھی۔مگر وزےر داخلہ نے دوسرے ہی دن ےہ واضح کردےا کہ وہ ان قدےم مساجد مےں مسلمانو ںکو نمازپڑھنے کی اجازت نہےں دےں گے۔ہم اپنے وطن مےں جب جب نام نہاد سےکولرزم کی دہائی دےنے والی جماعتوں کے اس قسم کے کارنامے دےکھتے ہےں تو شک ہونے لگتا ہے کہ ان کا سےکولرچہرہ اصلی ہے ےا ہمےں ےرغمال بنانے کےلئے انہوںنے چہرے پر مکھوٹا ڈال رکھا ہے۔اب وزےر داخلہ سے ےہ کون پوچھے کہ جب آثار قدےمہ کے ذرےعہ قبضہ کی گئی مساجد مےں نماز کی ادائےگی کےلئے آپ کے پاس کوئی قانونی جواز نہےں ہے تو پھر آپ نے مسلمانوں کو 31جولائی کی جمعہ کو قطب مےنار کی تارےخی مسجد مےںنماز ادا کرنے کی اجازت کےسے دے دی؟ ےہاں ےہ سوال بھی ہوسکتا ہے کہ کےا قانون حکومت کی رکھےل ہے کہ اسے جب جہاں چاہے نافذ کرے اور جب کوئی سےاسی مفاد مطلوب ہو اس قانون کی دھجی بکھےر دے؟اس وقت ہمارے جمہوری ملک مےں جہاں اتفاق سے سےکولر اقدار کی حامل جماعتےں متحدہ سرکار چلا رہی ہےں ، مسلمانوں کے مساجد کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی بھی مسلمان کو ےہی سوچنے پر مجبور کرے گا کہ جسے آپ نے مسےحا سمجھ رکھا ہے وہ دراصل آپ کے وجود کا سب سے بڑا مخالف ہے اور اس کی صبح و شام کی سرگرمی بس ےہی رہتی ہے کہ کس طرح آپ کو تکلےف دی جائے اور پرامن ماحول مےں ترقی کی جانب سے بڑھنے سے روکا جاسکے۔
غور کےجئے!سلطنت عثمانےہ کے دور کی تارےخی مسجد جسے دنےا’ جامع قرطبہ‘ کے نام سے جانتی ہے اور سقوط سلطنت عثمانےہ کے بعد اسپےن نے جس پر قبضہ کر کے مسلمانو ں کو اس مےں نماز پڑھنے کا حق چھےن لےا تھا،ابھی چند برس پہلے فرانسسی حکومت نے اس مسجد کو مسلمانو ںکے حوالے کردےا ہے اور اب وہاں نماز پڑھنے کی عام آزادی مل گئی ہے۔ حالانکہ آج اسپےن مےں مسلمانو ںکی تعداد آٹے مےں نمک سے زےادہ نہےں ہے، جب کہ عظےم ہندوستان مےں مسلمانوں کی تعداد ملک کی دوسری بڑی اقلےت قرار دی جاتی ہے، پھر ےہ سب کےوں ہو رہا ہے؟ غور کےجئے !چےن کی کمےونسٹ حکومت نے شنگھائی مےں مسجد کی تعمےر کےلئے نہ صرف ےہ کہ اجازت دی ،بلکہ اےک طوےل قطعہ¿ آراضی بھی الاٹ کےا۔اسی طرح کچھ دنوں پہلے برطانےہ سے اس طرح کی خبرےں آئی تھیں کہ ڈےزبری کی اےک مسجد کو حکومت نے غےر معمولی گرانٹ دےنے کا فےصلہ کےا ہے۔ ہم ےہاں اپنے جمہوری ملک کے فرمانراﺅں سے اپنی مسجدوں کے لئے گرانٹ کی بھےک بھی نہےں مانگ رہے ہےں اور نہ ہمےں اےسی امےد ہے کہ اس ملک میںمسلمانوں کو اپنی عبادت گاہوں کی تعمےر کے لئے حکومتےں زمےن دستےاب کرائےں گی ،مگر کم از کم اتنا تو ہونا ہی چاہئے کہ آپ ان مساجد مےں پےشانی رگڑنے سے ہمےں مت روکئے جسے ہمارے اجداد نے خالص اللہ کی عبادت کےلئے تعمےر کےا تھا۔ہم جانتے ہےں کہ آپ کے جذبات اور ضمےر مےں ہمارے مغل شہنشاہوں جےسی وسعت بھی نہےں ہے، جن کے اےوانوں سے مسجد اور مندر سمےت تمام مذاہب کے عبادت خانو ںکے لئے گرانٹ طے ہوتے تھے، انہےں بڑی بڑی زمےنےں الاٹ کی جاتی تھےںاور بسا اوقات مسلم فرمانروااپنی ملکےت خاص سے مندر کی تعمےر کے لئے رقم دےتا تھا۔اس کے برعکس اس بار کانگرےسی حکومت مےں جس قسم کے فےصلے صادر ہورہے ہےں وہ اسی جانب اشارے کرتے ہےں کہ مسلمانو ںکے سامنے چند نوالے پھےنک کر ان سے کھانے کا بھی حق چھےن لےناشاید جائز کرلےا گےا ہے ےا ےہ وہ منصوبہ ہے جسے فرقہ پرستوں نے اپنی کمےن گاہوں مےں بےٹھ کر مرتب کےا ہے اور اسے پاےہ¿ تکمےل تک پہنچانے کی ذمہ داری کانگرےس کے سپرد کردی ہے۔ےہی وجہ ہے کہ مدارس کو گرانٹ دےنے کا لالچ دے کر اوکھلا انکاﺅنٹر جےسے واقعات منظر عام پر لائے جاتے ہےں اور اقلےتی امےدوار کو ٹکٹ دے کر ان کی مساجد پر بلڈوزر چلانے کا پروگرام بنا لےاجاتا ہے۔اگر ےہ حقےقت ہے تو مسلمانوں کو از سر نو ان سےاسی جماعتو ںکا جائزہ لےنا ہوگا اور دوست بن کر دشمن کا کردار نبھانے والی فکرو ںکو اپنے ووٹو ںکے درےعہ کچل دےنے کا عزم پےہم کرنا ہوگا۔جمہوری نظام مےں عوام کے پاس ووٹ ہی اےک اےسی طاقت رہ جاتی ہے جس کے ذرےعہ وہ اپنے اوپر ہونے والے مظالم کا انتقام لےتے ہےں، اور باطل طاقتوں کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کر کے انہےں پسپا کردےتے ہےں۔ساتھ ہی کانگریس کو ہمارا متفقہ پیغام بھی جاناچاہئے کہ مسلمان اپنی مساجد کی قیمت چکاکر ایوان کی نشست کبھی بھی گورا نہیں کریگا۔
موبائل:09868093558
No comments :
Post a Comment