سچ بول دوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میم ضاد فضلی
جمہوری نظام حکومت مےں ووٹو ںکی اہمےت کی وجہ سے سےاسی جماعتوںکی تمام ترتوجہ وہ عوامی مسائل ےا پہلو ہوا کرتے ہےںجس سے ووٹ بےنک مےں اضافہ ہو اور پروانہ وار رائے دہندگان کا رےوڑ ان کی طرف بھاگا چلاآئے۔یہاں عوامی فلاح و بہبود سے زےادہ ذاتی مفادات مرغوب و مقصود ہوتے ہےں۔قابل غور ہے کہ سےاسی مفادات کو ذہن مےں رکھ کر عمل مےں لائے جانے والی اسکےمےں اکثر و بےشترتنازعات کا شکار ہو جاتی ہےں۔جس کا بڑا نقصان ےہ ہوتا ہے کہ ان اسکےموں کے مثبت پہلو سے بھی وہ فوائد حاصل نہےں ہو پاتے جو کسی نہ کسی طرح مقصود ہوتے ہےں۔مگر سےاسی جماعتوں کو اپنے اپنے طو رپر کہےں عوام کو ورغلانے تو کہےں اپنے قرےب کرنے کا فائدہ ضرور مل جاتا ہے۔سچر سفارشات کے بعد ےوپی اے مےں ترتےب دئےے جانے والے سےنٹرل مدرسہ بورڈ کو بھی اسی تناظر مےں دےکھا جاسکتا ہے۔کانگرےس کےلئے روز اول سے مسلمانو ںکے مفادات سے زےادہ ان کے ووٹ زےادہ توجہ کا طالب رہے ہےں۔ اس سلسلے مےں کم و بےش دوسری جماعتوںکی کارکردگی بھی مسلمانوں کےساتھ بہت زےادہ مختلف نہےں رہی ہے۔انہےں بھی مسلمانو ںکے ووٹوں کی جب تک ضرورت رہی ان کے مفاد اور فلاح و ترقی کی باتےں ان کی زبانوںپر تی رہی، مگر جےسے ہی ان جماعتوں کوسےاسی مفاد حاصل ہو گےا، مسلمان ان کے لئے متاع بے حےثےت قرار دے دئےے گئے۔
مثال کے طو رپر آرجے ڈی سپرےمو لالو پرشاد کو ہی لے لےجئے، لالوجی اپنے سےاسی مفادات کے حصول کےلئے 15برسوں تک رےاست بہار مےں مسلمانو ںکی زبوں حالی پر دکھاوے کا ناٹک کر کے رجھاتے رہے، جس سے انہےں وہ تمام مقاصدتو حاصل ہوگئے۔ جس کےلئے انہو ںنے بہروپئے کا روپ اختےار کرلےا تھا۔15برس کے آرجے ڈی کے دور اقتدار مےں مسلمانوں کی غربت پر اشک بہانے والے ےہ لےڈر اور ان کے مصاحبےن مالا مال ہوتے رہے وہ زمےن سے آسمان کی بلندی سرکرنے مےں کامےاب ہو گئے مگر رےاست کے تقرےباً 27فےصد مسلمانوں کی حالت لمحہ بھر کے لئے بھی نہےں بدلی،وہ جہاں تھے اس سے بھی نےچے دھنستے رہے۔مگر کےا کےجئے گا کہ جمہوریت مےں سےاست اسی کا نام ہے۔ےہاں
لےڈرو ںکی تمام سرگرمےاں ان کے سےاسی مقاصد کے حصول کے لئے وقف رہتی ہےں نہ کہ عوام الناس کو ترقےات سے سرفراز کرنے کے لئے۔اگرلالویادوکو مسلمانو ںکی زبو ںحالی اور مظلومےت کا حقےقی احساس ہوتا اور مسلمانو ںکےلئے ان کے ذہن و فکر مےں کہےں ہمدردی کا جذبہ ہوتا تو وہ 1987ءمےںبہار مدرسہ بورڈ کے ذرےعہ ملحق کئے گئے 2987مدارس کو منظور کر کے کم از کم دس ہزار مسلمانو ں اور مدارس کے فضلا ءکو روزگارمہےا کراسکتے تھے۔ےہ تو اےک مثال ہے۔تقرےباً تمام سےاسی جماعتو ںکے سربراہان، لےڈران اور ان کی حکومتو ںکا مسلمانوں کے ساتھ ےہی سلوک رہا ہے۔ان کے ذرےعہ وجود مےں لائے جانے والے تمام منصوبے کا ماحصل سےاسی مفادات رہے ہےں۔انہےں اس سے کبھی بھی سرورکار نہےں رہا کہ مسلمانوں ےادےگر اقلےتوں کی خوشحالی درحقےقت کن اسکےموں اور منصوبوںمےں مضمر ہےں۔ان دنوں ےوپی اے پر بھی مسلمانوں کو آسمان کی سےر کرانے کا بھوت سوار ہو چکا ہے، جسے مسلمانوں کو ووٹ بےنک سے زےادہ کوئی اہمےت نہےںدےنی چاہئے۔اس کی وجہ ےہ ہے کہ ےہ مدارس خالص دےنی ادارے ہےں۔ ان کے قےام کا مقصد دنےا کی منفعت سے زےادہ آخرت کی سرخروئی اورمسلم معاشرے کی اسلامی تربےت رہی ہے۔تارےخ شاہد ہے کہ جن مدارس نے بھی اپنے اصلی مقاصد سے انحراف کی کوشش کی وہ مدارس نہےں رہے بلکہ ان کی مثال اس مظلوم طوطے جےسی ہو گئی جس کی چونچ کاٹ دی گئی تھی اور اس کے پر کی تمام سبز تےلےاں نوچ کر پھےنک دی گئی تھیں،پھر بھی اس طوطے کا سوداگر سربازار ےہ بتاتا پھر رہا تھا کہ مےں انسانوں کی بولی سمجھنے والا طوطا بےچ رہا ہوں۔ہم اس ضمن مےں جماعت اسلامی کے ان ادارو ںکا ذکر بھی کرسکتے ہےں جنہےں بانی¿ جماعت شےخ ابوالاعلیٰ مودودی ؒنے دےن کی بقا کی بنےاد قرار دےا تھا۔ ان کے پےشروﺅں نے بعد مےں ان اداروں کی حےثےت ےوں بگاڑی کہ ان کے کاموں کے ساتھ نام بھی بدلتے چلے گئے۔ہمےں ےاد آتا ہے دربھنگہ کا درسگاہ اسلامی،جسے اسلامی تعلےم کے لئے قدر کی نگاہوں سے دےکھا جاتا تھا مگر دنےا کی آمےزش نے اس سے وہ خصوصےت چھےن لی جو درسگاہ اسلامی کی خاص پہچان تھی۔بالآخر اےک دن اےساآیاکہ درسگاہ اسلامی کا نام بھی اس کے دروازے سے کھرچ دےا گےا اور اس کاانگریزی نام ”ےونےورسل اکےڈمی“ کنداں کردےا گےا۔
ہندوستان مےں مدارس کی اہمےت وضرورت کے حوالے سے مفکر اسلام ڈاکٹر علامہ اقبال ؒنے فرماےا تھا کہ ان مدارس کو ان کی حالت پر چھوڑ دو، اگر اس مےں تغےر و تبدےلی لا کر اس کی ہےئت و صورت بدل دی گئی تو اسلام کا ہندوستان مےں بھی وہی حشر ہوگا جو مےں ےوروپ و امرےکہ اور اسپےن مےں دےکھ آےا ہوں۔ےہ بات ہمےشہ ملحوظ نظر رہنی چاہئے کہ مدارس کے قےام کا مقصد دنےا بالکل بھی نہےں ہے ،بلکہ ان اداروں کی حےثےت اس پاسبان کی ہے جو پوری رعاےا کے سو جانے کے بعد اس کی رکھوالی مےں اپنی آنکھےں جلاتا رہتا ہے۔تجربات و مشاہدات اس بات کے شاہد ہےں کہ سرکاری اداروں مےں اسلامیات پڑھنے والے طلبہ نے قابلےت تو پےدا ضرور کرلی،غرور علم مےں انہو ںنے دفتر کے دفتر سےاہ کردئےے اور دنےا کے کلےجے پر اپنے علم کا سکّہ جمانے پر ان کے قلم کو داد عےش بھی ملی، مگر مساجد آباد کرنے والے ان اداروں سے شاےد ہی کبھی پےدا ہوئے۔کالج سے اسلامےات کا درس لےنے والے اپنے قلم کے زور پر منبع علم کہلانے مےں کامےاب ہو گئے مگر اسلام کی ڈوبتی کشتی کو پار لگانے والوں کی صف مےں وہ کہےں بھی نظر نہےں آئے۔جب کبھی اسلام اور حکومت کے درمےان کسی مذہبی معاملہ پر معرکہ آرائی کی نوبت آئی، سرکاری کالج کے اسلامی تربےت ےافتہ حکومت کے موقف کی تائےد کرنے والوں کی صف مےں پےش پےش رہے۔اس کے برعکس مدارس کے ےہی بورےا نشےں اپنی بے بضاعتی اور کسمپرسی کے باوجود پےٹ پر پتھر باندھ کر سربکف اسلام کی تعلےم کو سربلند رکھنے کے لئے مصائب سے نبردآزما رہے۔
ےہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ جہا ںجہاں بھی دےنی مدارس سرکار کے اثر و رسوخ مےں آئے وہا ںسے دےن خاموشی سے رخصت ہو گےا۔ان ادارو ںمےں نہ دےن کی کوئی رمق باقی رہی، نہ اسلام کی سربلندی کے لئے اپنی زندگی کھپانے والوں کی جماعت۔سچر کمےٹی والوں کو شاےد اس بات کا پتہ نہ ہو کہ ےہ چار فےصد بچے جو دےنی مدارس مےں قال اللہ اور قال الرسول کا درس لے رہے ہےں ےہ ہمارے معاشرے کی نگاہ مےں آسمان کے فرشتوں سے بھی زےادہ محترم اور مقدس ہےں۔ہم انہےںسرکار کی تحوےل مےں دے کر اپنے معاشرے کو دےن سے جدا کردےنے کا تصور بھی نہےں کرسکتے۔تجربات شاہد ہےں کہ جہاں جہاں بورڈ کے مدارس قائم ہےں،ان سے ملحق مدارس مےں علم اور دےن کا تصور ہمےشہ کے لئے رخصت ہو چکا ہے۔باصلاحےت اور اہل حاملےن علم نبوت کو ان اداروں مےں محض اس لئے مواقع نہےں مل سکے کہ ان کی مٹھےاں سبز نوٹوں سے خالی تھےں۔اس کے برعکس ان سرکاری اداروں مےں پےسوں کی بنےا دپر علم سے کوڑے سماج سے نکالے ہوئے ان افراد کا قبضہ ہو گےا، جنہےں دےن و اےمان ،کلمہ اور قرآن سے زےادہ متاع دنےا عزےز تھی۔اس وقت ہندوستان کی تقرےباً 8رےاستوں مےں سرکار کے زےر انتظام مدارس بورڈ کام کررہے ہےں مگر آپ خود مشاہدہ کرلےجئے ان مدارس مےں اہل اللہ اور دےن اسلام کی سربلندی کے لئے کُڑھنے اورتڑپنے والوں کی مسندےں آراستہ ہےں ےا اپنی دنےا سجانے والوں کی؟جن لوگو ںکو مدارس بورڈ کے مخالفےن پر ےہ اعتراض ہے کہ ان لوگو ںکے اختلاف کی وجہ مدارس کے چندے مےں خرد برد کا انکشاف ہوجانے کا خوف ہے، انہےں جان لےنا چاہئے کہ ےہ دےنی ادارے سرکاری مدارس کے خرد برد کے مقابلے مےں آٹے مےں نمک برابر بھی نہےں ہو سکتے۔اترپردےش سے بنگال تک کا سفر کرلےجئے۔ سےکڑوں بورڈ کے مدارس اےسے ہےں جہاں صدر مدرس سے لے کر اےک ادنیٰ ملازم تک وہی ہو سکتا ہے جو مدرسہ کی کمےٹی کے ذمہ دارو ں کا عزےز و اقارب ہو۔اس کے برعکس ان مدارس مےں جو سرکار کی مداخلت سے آزاد ہےں وہاں منصب کے لئے تو اقربا کو فوقےت ہو سکتی ہے مگر تعلےم کے لئے رشتہ دارےاں نہےں دےکھی جاتیں۔وہاں انہےں افراد کو مواقع ملتے ہےں جن کے اندر دےن کا پختہ علم اور پڑھانے کا عملی تجربہ ہو۔مگر سرکار کی تحوےل مےں جانے کے بعد پڑھانے والوں مےں صلاحےتےں نہےں دےکھی جائےں گی وہاں تو پےسو ںکی بنےاد پر جاہلوں کی کھےپ مدارس مےں داخل کردی جائےں گی۔لہذا حکومت کو مدارس کے سلسلے مےں کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے صلاح و مشورہ کے لئے مدارس کے ان بورےاں نشےنوں کو دعوت دےنی چاہئے جن کی زندگی کا مقصد دےن کی سربلندی ہے نہ کہ نام نہاد مسلم ممبران پارلےمنٹ کوجنہےں ےہ بھی معلوم نہےں کہ مدارس کے قےام کا مقصد کےا ہے؟
قابل غور ہے کہ جو کانگرےس مسلمانوں کاحق چھےن لےنے مےں ےقےن رکھتی ہووہ مسلمانو ںپر اپنے مفاد کے علاوہ کےا نوازش کرسکتی ہے؟اگر کپل سبل ےا کانگرےس کے دےگر لےڈران کے دلوں مےں مسلمانوںکے لئے حقےقی ہمدردی ہے تو انہےں وہ ادارے مسلمانوںکے حوالے کردےنے چاہئےں جو کانگرےس نے بدقسمتی سے مسلمانو ںسے چھےن لےا ہے۔ہم بات کررہے ہےں علی گڑھ مسلم ےونےورسٹی اور جامعہ ملےہ کے اقلےتی کردار کی۔ہمےں سوچنا ہوگا کہ جو کانگرےس ہماری بنی بنائی درسگاہ کو ظلماً چھےن لےتی ہو وہ ہمیں دے کر خوشی کےسے محسوس کرےگی۔ لہذا مدرسہ بورڈ کے پروپےگنڈے کو سےاسی منفعت کے حصول سے زےادہ کوئی نام نہےں دےا جاسکتا۔qq
موبائل: 09312017945
No comments :
Post a Comment