آزادی کے بعد ملک میں مسلمانوںکوسب سے زیادہ استحصال کا شکار بنایا گیا اور اُن کی ترقی و فروغ کی راہوں میں جوناقابل تسخیر رُکاوٹیں کھڑی کی گئیں اُسے ساری دنیا جانتی ہے۔ملک میں آزادی کے بعد جس جماعت کو سب سے زیادہ اقتدار سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا وہ کانگریس پارٹی ہے جس کے بانیوں میں مسلمانوں کی کئی قدآور ہستیاں شامل ہیں۔مسلمانوںنے جدو جہد آزادی میں وطن عزیز کو کامیاب وکامران کرنے کے لیے کانگریس پارٹی کا نہایت اتحاد وقوت سے ساتھ دیا تھا۔ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اگر کانگریس کی بنیاد میںمسلمانوں کا خونِ جگر شامل نہیں ہوتا تو شاید جواہر لال نہرو کے سرپر آزادی کے بعد وزارت عظمیٰ کا تاج ایک خواب ہی بن کر رہ جاتا۔بلکہ جدو جہد آزادی کے لیے قربانیاں دینے والے بابائے قوم مہاتما گاندھی کی عدم تشدد تحریک بھی اپنے اُس مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیںہوپاتی جس کے لیے موہن داس کرم چند گاندھی نے یورپ کی شاہانہ زندگی ترک کردی تھی ۔یہ کہنے میںکوئی خوف نہیںہونا چاہیے کہ موہن داس کرم چند گاندھی کو بابائے قوم کا منصب بھی مسلمانوں کی قربانیوں کے طفیل میںملا ہے۔ شہید اشفاق اللہ خان ،علی برادران، مولانا ابوالکلام آزاد ، مولانا حسرت موہانی اور اُن سرفروشوں کے آخری منصب بردار مولانا حسین احمد مدنی یہ ہمارے بزرگوں کی وہ طویل فہرست ہے جن کی قربانیوں کو فراموش کرکے کانگریس اپنا وجودبھی باقی نہیں رکھ سکتی۔یہ ہماری مختصر تاریخ ہے کہ ہم نے کانگریس پارٹی کی بقا اور ترقی کے لیے ہر محاذ پر آگے بڑھ کر قربانیاںدی ہیں مگر جب بھی ہماری طرف سے کوئی مناسب اور لازمی مطالبہ کانگریس کے سامنے رکھا گیا اُس نے نہ صرف یہ کہ نہایت بے دردی سے دھتکار دیا بلکہ حقارت کے ساتھ ہمارے مطالبوں کو پیروں تلے روندنے کی سازش کی گئی۔
یہ کہناغیر مناسب نہیںہوگا کہ کانگریس نے صرف وعدوں اور خوف کی نفسیات میںمبتلا کرکے کسی لومٹری کی طرح ہمارے مستقبل کو تباہ کیا۔اس کے برعکس اشراف کو ہر قسم کی آزادی اور سہولتیں فراہم کی گئیں۔ اگر اعلیٰ طبقات کو ہم ایک پلڑے میں رکھ کر اقلیتوں سے موازنہ کریں تو یہ اندازہ باآسانی لگاسکتے ہیں کہ ہمارے ووٹوں کے مقابلے میں اعلیٰ طبقات کی حیثیت آٹے میں نمک برابر بھی نہیں ہے، اِس کے باوجود کانگریس کے کشکول میں اُنہیں دینے کے لیے سب کچھ موجود ہے۔جبکہ مسلمانوں کے جائز حقوق بھی پورے کرنے کے لیے اِس جماعت نے کبھی سخاوت کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔المیہ تو یہ ہے کہ ہم سے ہماری وہ چیزیں بھی چھین لی گئیں جسے خود ہم نے اپنے ہاتھوں سے تعمیر کیا تھا۔نہ تو اُس کی ایک اینٹ میں کانگریس کا کوئی حصہ شامل ہے اور نہ کبھی اُس نے ان اداروںکی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لیے دیانتداری کا مظاہرہ کیا ہے۔
محسن قوم سرسید احمد خان کے خون سے تعمیر علی گڈھ مسلم یونیورسیٹی وطن کی آزادی کے ساتھ ہی ہم سے چھین لی گئی۔سابق وزیر اعظم آنجہانی اندرا گاندھی نے اقلیتی کردار عطا کرنے کا سبز باغ دکھا کر ہمارے ووٹوں پر کامیابی کا سہرا گلے میں ڈالتی رہیں۔مگر ہمیں کیا ملا؟ ہماری وفا داری کے صلہ میں اپنے ہاتھوں سے تعمیر کیے گئے تعلیمی ادارے کواقلیتی کردارکے حق سے ہمیشہ کے لیے محرومی۔گذشتہ چند برسوں سے کانگریس کی کالی نظر جامعہ ملیہ اسلامیہ پرلگی ہوئی ہے۔اوبی سی کوٹا نافذ کرنے کے لیے جامعہ انتظامیہ پر مسلسل دباو ¿ ڈالا جاتا رہا ہے۔جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے ہاتھوں سے قائم کیا گیا یہ عظیم الشان تعلیمی ادارہ ہاں نا کی کشمکش میں اپنا وجود باقی رکھنے کی جنگ لڑ رہا ہے۔ ایک مرتبہ پھر کانگریس نے ہمارے اُسی زخم کو کھرچنے کی کوشش کی ہے، جس کی ٹیسیں شاید ہماری کئی نسلیں یاد رکھیں گی۔اطلاعات یہ ہیں کہ مرکزی وزیر برائے فروغ انسانی وسائل کپل سبل نے اعلان کیا ہے کہ جامعہ میں آئندہ تین برسوں کے لیے اوبی سی کوٹا کے نفاذ کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے۔ اِس بیان پر کوئی تبصرہ کرنے سے پہلے کپل سبل سے یہ سوال پوچھنے کا حق ہر مسلمان رکھتا ہے کہ جب آپ نے او بی سی کوٹا کے عدم نفاذ کاحکم دے دیا ہے تو کیا آپ نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ جامعہ کی وہ گرانٹ اُسے واپس لوٹا دی جائے گی،جو مسلسل کئی برس سے مذکورہ وزارت کے پاس اس شرط کے ساتھ روک رکھی گئی ہے کہ جامعہ پہلے اوبی سی کوٹا نافذ کرے پھر گرانٹ کے حصول کا مطالبہ رکھے۔اب سوال یہ ہے کہ کوٹا کے عدم نفاذ کا حکم تو آپ نے خود دیا ہے، لہٰذا گرانٹ کی ادائیگی کااعلان بھی ساتھ ہی ہونا چاہیے۔حق تو یہ تھا کہ تعلیمی میدان میںمنصوبہ بند طریقے سے پچھاڑ دی گئی اقلیت کے ساتھ انصاف کیا جاتا اور ان کا اپنا تعمیرکیا ہوا ادارہ بلا چون وچرا حوالے کردیا جاتا۔یعنی جامعہ کو اقلیتی کردار دے کر کانگریس یہ ثابت کرسکتی تھی کہ اُس کا سیکولرزم مساوات کے اُسی اصول پر قائم ہے جس کے زبانی دعوے کرکے پارٹی نے ہمیشہ مسلمانوں کے ووٹ حاصل کیے ہیں۔مگر اس کے برخلاف اقلیتی کردار کی بحالی کا تذکرہ نہ کرکے اوبی سی کوٹا کے نفاذ کو چند برس کیلئے ٹال دینا کیا اُسی منافقانہ پالیسی کا حصہ نہیں ہے ، جس کے تحت آزادی کے بعد سے مسلسل کانگریس پارٹی مسلمانوں کو انگوٹھا دکھارہی ہے۔
Editorial 27-11-2010
No comments :
Post a Comment