Thursday, May 12, 2011

دنیا کی بد امنی کی اہم وجہ مزدوروں کے دل کی آہ !

سچ بول دوں
میم ضاد فضلی
09576659393
قسط ۱
آج ساری دنیا بد عنوانی ، رشوت ستانی کے علاوہ جس انتشار اور بد عملی کی وجہ سے جہنم کا نمونہ بن چکی ہے، اس کے مختلف اسباب بیان کئے جاتے ہےں ۔ مگر نہ جانے کیوں ہمارے مبصرین اور ماہرین ماحولیات و سیاسیات بد امنی اور انتشار پر خامہ فرسائی کر تے ہوئے اس دیانت اور ایمانداری کا مظاہرہ نہےں کر تے جس کی وجہ سے اصل مرض کی نشاندہی ہماری نظروں سے او جھل ہو جاتی ہے اور اس کے صحیح علاج کی جانب ہماری توجہ نہیںجاتی ۔یہی وجہ ہے کہ ہمارا قلم الفاظ کے زیرو بم سے کھیلتے ہوئے قارئین کو چٹخارے کا سامان تو فراہم کر تا ہے، ٹھہرے ہوئے پانی پر کنکڑ مارنے کے بعد اٹھنے والی جنبش کی طرح قاری کے قلب میں سگبگاہٹ تو ضرور ہو تی ہے، مگر اس مسئلے کا حقیقی حل جوں کا توں مسئلہ بنا رہتا ہے ۔نہ تو ہماری تحریروں سے صحیح بیماری کی تشخیص ہو تی ہے اور نہ اس کے علاج کی دیانتدارانہ نشاندہی۔ہمیں یہ کہنے میں ذرہ برابر بھی ہچکچاہٹ نہےں ہو نی چاہئے کہ آج معاشرے میں پھیلی ہوئی سراسیمگی ، بے اطمینانی ، انتشار و افتراق اور قتل و غارت کے شب و روز رو نما ہو نے والے واقعات جس بیماری کی وجہ سے جنم لیتے ہےں اس پر قلم اٹھانے سے بلا استثنا ئے زبان وبیان ہمارے میڈیا میں شامل اکثر قلم کارگھبراتے ہیں۔ چوں کہ ان کی پر شکوہ زندگی کے سامان کا انحصاروہ سر مایہ داروں ساہو کاروں ، سیاستدانو ں اور منصب حکومت پر فائز لیڈروں کی چاپلوسی ،چمچہ گیری اور ان کی قدم بوسی کو باور کر چکے ہےں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے قلم اور تحریروں سے معاشرے کی بد امنی کی اہم بیماری کی جانب اشارہ یا رہنمائی کی کوئی مہک نہےںاٹھتی، اس کے بر خلاف ہم ہندوستان کی افرا تفری کا ذمہ دار عالمی صورت حال کو قرار دیتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہےں ۔اسی طرح پاکستان والا اپنے ملک میں جاری قتل و خون کی ارزانی کودیگر ممالک کی ایجنسیوں پر تھوپ کر اپنے ملک کے نہتھے اور مظلوم باشندوں کے دلوں میں اٹھنے والی آگ کو سرد کر نے کی ناکام کوشش کر تا ہے بعینہ یہی صورت حال اس وقت ساری دنیاکی ہے۔المیہ یہ کہ اس وقت دنیا کے تمام ممالک کے اندر پائی جانے والی بے قراری ، بے چینی اور اضطراب کی جو اصل وجہ ہے ا س پر پردہ ڈالنے کی مجرمانہ کوشش کی جار ہی ہے اور اس پروپیگنڈہ میں جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جانے والا ہمارا میڈیا پیش پیش ہے ۔اس جرم کا ارتکاب کر نے والوں میں انگریزی ، ہندی اور اردو کے ساتھ ان تمام زبانوں کے صحافیوں کا کارواں شامل ہے ۔ جس نے ذخیرہ اندوزی اور مادی منفعت کے بدلے اپنے قلم اور فکر کو گروی رکھ دیا ہے ۔ ہم کہہ سکتے ہےں کہ آج ہمارا قلم سیاسی چکلے کا وہ ایجنٹ بن چکا ہے جس کا کام صرف ارباب حکومت کی ثنا خوانی میں اپنی توانائی صرف کرنارہ گیاہے۔اس کی کوشش ہوتی ہیکہ بھول کر بھی ان تسامحات اور سیاسی منصوبوں پر جس سے غریبوں کا نقصان ہو تا ہو زبان کھولنے یا قلم چلانے کی غلطی نہ کی جائے۔
ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اس کے اصل ذمہ دار صحافتی شعبہ میں اپنا جسم گھلا رہے ملازمین سے زیادہ اس سیکٹر پر قابض مالکان ہےں۔ اگر ان کے یہاں ملازمت کر نے والا کوئی قلم بر گوش صحافی انگلی اٹھانے یا زبان کھولنے کی جرا_؟ت کر تا ہے تو اس پیشے سے جڑے ہمارے مالکان اسے نوکری سے بر خاست کر دیتے ہےں یا ان کی تحریروں کو آگ کے حوالے کردیا جاتاہے ۔یہ وہ تلخ حقیقت ہے جس کا اعتراف اس پیشے سے جڑا کوئی مالک تو پل بھر کے لئے نہےں کرے گا جس نے حکومت کے تلوے چاٹنے کو ہی اپنی کامیابی کی اساس باور کر لیا ہے ۔ اس سچائی کا اعتراف اس سیکٹر میں سر گرم وہ احباب کر سکتے ہےں جن کی حیثیت اخبارات و رسائل میں ایک ملازم کی ہے اور جنہیں سچائیوں سے انحراف اور چشم پوشی ماں کی گالی جیسی لگتی ہے ۔آپ کسی بھی اخبا ر کے ایسے فرد کو جس کی حیثیت قلمکار یا نامہ نویس کی ہو تخلیہ میں لے جائیں اور اس کے کلیجے پر ہاتھ رکھ کر حلفیہ پوچھےں کہ کیا آج تمہیں سچ لکھنے ، بولنے اور اسے ظاہر کر نے کی اجازت ہے ؟ وہ یقینا آپ کو جس درد و کرب سے آشنا کرائے گا اسے سن کر بس یہی کہہ سکتے ہےں کہ اب اس معزز پیشے کی حیثیت اس پیشے ور طوائف کی ہو گئی ہے جسے چند پیسے کے لئے اپنا تن من دھن سب کچھ عیاش گاہک اور خریدار کے حوالے کر نا پڑ تا ہے ۔میں نے مذکورہ تفصیل میں صحافتی ادارے کو سیاست کا ایجنٹ رعایت میں کہا ہے ورنہ عرف عام میں تو اس قسم کا کاروبار چلانے والوں کو بھڑوا کہا جاتا ہے۔ اس کی مثال میں ہم ریاست بہار کے بیشتر اردو اخبار کو بجا طور پر پیش کر سکتے ہےں جنہےں آج روئے زمین پر نتیش کمار کے علاوہ کوئی خدا بھی نظر نہےں آتا ۔جن کا ایمان انہےں لمحہ بھر کے لئے بھی یہ احساس نہےں دلاتا کہ سچائی سے آنکھیں موند کر عوام کو گمراہ کر نا ایسی غداری ہے جس کی سزا دنیا میں بھی مل سکتی ہے اور آخرت بھی تباہ ہو جائے گی ۔
ہاں تو ہم یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ آج ہمارے ملک کے علاوہ ساری دنیا میں پھیلی ہوئی اضطراب و بے قراری کی اصل وجہ کیا ہے؟ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ آج عدل او ر انصاف کے وہ تمام اوصاف ہمارا ساتھ چھوڑ چکے ہےں جس کے وجود سے ہر فرد کو اطمینان اور قلبی سکون کا احساس ہو تا ہے ۔ غور کیجئے!کیا کسی مل، فیکٹری ، کارخانہ یا ادارے میں کام کر نے والے مزدوروں کا پسینہ چھوٹے بغیر ان کا قیمتی لہو جلے بنا آپ کا کاروبار چل سکتا ہے ؟ہرگزنہیںمگراجرت دیتے وقت مالکان کو یہ کیوںیادنہیں رہتاکہ وہ اپنے محنت کش مزدورکوجودے رہے ہیںاس سے زیادہ کی بسکٹ مالکان کے کتے کھایاکرتے ہیں۔ یعنی آپ کی عیاشی اور شاہ خرچی کے لئے خون پسینہ ایک کر نے والوں کو کتے کی طرح چند نوالے پھینک کر یہ باور کر لیا جائے کہ آپ نے اس کی پوری پوری مزدوری دیدی ہے اور آپ نے اپنے مزدوروںاورملازموںکے ساتھ انصاف کیاہے،یہ کون سی شرافت اور انسانیت ہے اورکوڑی برابرمزدوردینے کی دنیاکاکون ساقانون وکالت کرتاہے ۔ یہ خود انصاف کے منھ پر طمانچہ ہے ۔ علامہ اقبال نے شاید انہےں حالات کا مشاہدہ کر تے ہوئے اپنے قلم سے چنگاری پھینکنے کی کوشش کی تھی ۔
سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم
بخیلی ہے یہ رزاقی نہےں ہے
خصوصاً ہمارے صحافتی اداروں میں مالکان اپنے سگریٹوں میں جتنا دھونک دیتے ہےں ، چائے اور پان میں جو کچھ تھوک دیتے ہےں اس کا سووا حصہ بھی اپنے ان ملازمین اور مزدوروں پر صرف کرنے کی زحمت نہےں کر تے جن کی قربانیوں ،ایثار اور انتھک جاں فشانی سے ان کا کاروبار چلتا ہے ۔
اس سلسلے کی اگلی کڑی ملاحظہ فرمائیں آئندہ ۔

No comments :

Post a Comment