Friday, June 24, 2011
تاجکستان کی مسلم دشمن حکومت پر نزع طاری
تقریباً75برسوں تک اللہ ،قرآن،مدارس اور مساجد پر نام نہاد روسی جمہوریت نوازوں کے ذریعہ پابندی عائد کئے جانے کے طویل عرصہ بعد ایک بار پھر مسولینی اور ہٹلر کے فرما بردار واطاعت گذار تاجکستان کے موجودہ ایمو مالی رخمون کے چیلے چپاٹوں اور خود صدر کی اسلام دشمن ذہنیت نے اسلام مخالف سابقہ تواریخ کا اطباع کرتے ہوئے تاجکستان میں مساجد کے دروازے وہاں کے نوجوان اور نو عمر مسلمانوں کے لئے بند کردینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اپنی اس غلیظ پالیسی کو جواز بخشنے کےلئے یہ بہانابنایاجارہاہے کہ عبادت گاہوں میں اپنے اپنے طور سے خالق و مسجود کو پکارنا اور یاد کرنا انسانوں کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کردیتے ہیں۔ رخمون کی انتظامیہ شاید یہ بھول گئی ہے کہ تاجکستان ان 15ممالک میں سے ایک ہے جسے ابھی چند برس قبل ہی روسی جبروت اور اشتراکیت سے پاک ہوکر ایک خدائے واحد کی آغوش رحمت آفریں میں زندگی اور نظام کو آگے بڑھانے کا موقع فراہم ہوا تھا۔ مسولینی کے بندوں کو شاید یہ بات یاد نہیںرہی کہ رو س سے آزاد ہونے کے بعد چیچنیا اور دیگر ممالک میں کس طرح مسلمانوں نے اسلام کو پھر اپنی زندگی کا راز اور کامیابی کا زینہ باور کرتے ہوئے کلیجے سے لگا لیا۔ایساتو قطعاً نہیں کہاجاسکتا کے روسی استبداد کے دور میں مسلمانوں نے اسلام کو خیر آباد کہہ دیا تھا بلکہ مسولینی فرعونیت اور حالات سے سمجھوتہ کرتے ہوئے انہوں نے مساجد کے تالوں پر تو صبر کرلیا مگر اسلام کےلئے اپنے دل کے دروازے کبھی بھی بند نہیں کئے ۔ معروف عالم دین و محقق مولانا علی میاں ندوی اپنی کتاب ماذا خسر العا لم بانحطاط المسلمین میں روس کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ وہاں کمیونسٹ حکومت کے قیام کے بعد جب مساجد پر بلڈوزر چلادئے گئے مدارس زمیں بوس کردئے گئے تو وہاں کی سرفروش مسلم ماﺅں نے اپنی جگر گوشوں اور معصوم بچوں کو گھروں میں ہی قرآن پڑھانے اور اسلامی تعلیمات سے جوڑنے کا چلن اپنا لیا ۔ چونکہ مذہب سے محبت عقیدت کی بنیاد پر ہوتی ہے اور عقیدت کا تعلق دل سے ہے۔ لہذا کمیونسٹ کی خوں آشام فوج نے مدارس کے نام ونشان توروسی قلمرومیںہمیشہ کےلئے مٹاڈالے،اسلام اورظاہری اسلامی تشخص کو مسلما نوں کی زندگی سے مٹادینے کی ایڑی چوٹی کازورلگادیااوروقتی طورپروہ اس میںکامیاب بھی رہے، مسجدیں اگرچہ ڈھا دیں مگر جس ایمان اور مذہب کا تعلق دل سے ہوتا ہے، اسے کھرچ کھرچ کر انسانی ذہن و قلوب سے صاف کرنے میں قطعی کامیابی حاصل نہیں کی۔ یہی وجہ رہی کہ تقریباً75برسوں کے بعد جب روس کا زوال شروع ہوا اور اس کے ظلم و جبر کے خاتمے کا قدرت نے فیصلہ کرلیا تو اسے ا ن تمام ممالک کو آزادی دینی پڑی جنہیں وہاں کی سرخ فوج نے بارود اور آگ کی طاقت کا استعمال کرکے سرنگو ںکرلیا تھا ۔دنیا جانتی ہے کہ جس بخاریٰ کو اپنی شیطانی طاقت کے ذریعہ روسی کمیونسٹوں نے اسلام سے نا آشنا کردینے کی ناپاک کوشش تھی کبھی وہ عظیم محدث محمدبن اسمعیل بخاری کا وطن ہوا کرتا تھا۔ معروف فقیہ اور اسلامک اسکالر ابواللیث سمر قندی،نیشا پور کے ابوالحسین امام مسلم ابن الحجاج،ترمذکے محدث کبیر امام ابوعیسی ابن محمد ابن سورہ ابن شدادترمذی کا تعلق بھی اسی دیار سے تھا ، مورخ اسلام علی میاں ندی لکھتے ہیں کہ سمر قند کی شایدکوئی گلی ایسی ہو جس میں کسی محدث یا عظیم المرتبت فقیہ نے جنم نہ لیا ہو ۔ فقہ حنفی کی معروف کتاب ہدایہ کے مصنف امام برہان الدین مرغینانی کا تعلق بھی اسی خطے سے رہا ہے۔ ہم کہنا یہ چاہ رہے ہیں کہ جہاں مذہب اسلام کی اتنی عظیم اور شہرت یافتہ ہستیاں جنم لیتی ہوں کیا ان علاقوں میں رہنے بسنے والے مسلمانوں کے سینوں سے مادی طاقتوں کے ذریعہ اسلام کو بے نام و نشان کردینے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے؟ وقت سب سے بڑا طمانچہ ہوتا ہے اگر تاجکستان کے صدر کو قدرت سے عقل کا تھوڑا بھی حصہ ملا ہوتا تو وہ غور کرسکتے تھے کہ جب روس کی ظالم و جابر سرخ فوج کی درندگی بھی اسلام کو مٹا نے میں کامیابی حاصل نہیں کرسکی تو رخمون کی مٹھی بھر طوطا دل فوج کیا خاک تاجکستان کے مسلمانوں کی زندگی سے اسلام کو فناءکرپائے گی؟ رخمون کو غور کرنا چاہئے کہ کس طرح اس نے کسی دیوانے کے خواب کے مترادف تاجکستان کی مساجدکے دروازے وہاں کے مسلم نوجوانوں اور بچوں کے لئے بند کردینے کا پلان بنالیا ہے۔ مذہب کا تعلق ظاہر سے نہیں بلکہ اندر سے ہوتا ہے۔ دنیا اسے ختم کردینے یا مٹادینے کے لاکھ جتن کرے مگر یہ کسی مادی طاقت کا اثر قبول نہیں کرتا۔بلکہ ا س کے برعکس اسے مٹا دینے کی جتنی کوشش کی جائے اسے اور بھی جلا ملتی ہے۔ حالانکہ رخمون انتظامیہ نے اپنے اس بد بختانہ فیصلے کو جواز بخشنے کےلئے یہ ضرور کہا ہے کہ ایسا صرف مسلمانوں کے خلاف کسی غصے کے اظہار کے لئے نہیں ہے بلکہ ہماری اس پالیسی کا مقصد عیسائی اور مسلم نوجوانوں میں پلنے والے بین مذہبی خلفشار و انتشار اور خانہ جنگی کے عذاب سے ملک کو نجات دلانے کے پاکیزہ مقصدسے کیاجارہاہے۔شاید 1992سے تاجکستان پر اپنی جابرانہ حکومت کے ذریعہ دست مشیت کو رخمون نے اتنا ناراض کردیا ہے کہ اب قدرت خدا وندی نے رخمون کے ہاتھ سے زمامِ حکومت چھین لینے کا فیصلہ کرلیا ہے اور یہ ساری واہیات رخمون کے ذریعہ اسی بد نصیب کی طرح انجام پارہی ہیں جسکی تباہی آتی ہے تو پہلے اس کی عقل سلب کرلی جاتی ہے۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ گیدڑ کی جب موت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ رخمون کے ناپاک دماغ میں پیدا ہونے والی مذکورہ پالیسی ا س کی اسی کم نصیبی کے طفیل ہے جس کے بعد کسی بھی سربراہ کا شرمندگی کے ساتھ اقتدار سے بے دخل کردیا جانا یقینی بن جایاجاکرتا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج مساجد اور عیسائی معابد پر نوجوانوں اور بچوں کے لئے تالے ڈالے جانے کی بھنک لگتے ہی رخمون حکومت کے خلاف وہاں کے عوام میں شدید اضطراب اور بے چینی پیدا ہوگئی ہے اور دنیا اس حقیقت سے واقف ہوگی کہ جب کسی فرما ںروایا سربراہ کے خلاف عوام کے غیظ و غضب کا لاوا پھوٹتا ہے تو پھر اس سربراہ یا فرما ں رواکی الٹی گنتی شروع ہوجاتی ہے جسے اقتدار چھوڑنے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک پاتی۔
Subscribe to:
Post Comments
(
Atom
)
No comments :
Post a Comment