Saturday, January 28, 2012

جب بھی ملتاہے کوئی زخم نیادیتاہے

کانگرےس لےنے سے زیادہ دےنے میں ےقےن رکھتی ہے۔ سےکولرزم کی بنیاد پر جدوجہدآزادی میں انگریزوںکے دانت کھٹے کردےنے والی اس جماعت میں فرقہ پرست عناصر کا ہمیشہ سے ہی بول بالا رہا ہے۔ اب اس غلط فہمی میں مت رہئے گا کہ دےنے کے معاملے میں کانگرےس کی سخاوت حاتم طائی کی قبر پر لات مارنے جےسی ہے لہٰذاکانگریس پرآنکھ موندکربھروسہ کرلیاجائے اور بھیڑ و ںکے ریوڑکی طرح حالیہ اسمبلی انتخابات میںسارے مسلمان کانگریس کواپنامسیحامانتے ہوئے سارے ووٹ اس کی جھولی میںڈال دیں۔ یہ سچ ہے کہ کانگریس جسے نوازنا چاہتی ہے اسے اوج ثریا تک پہنچادےنا اس کے بائےں ہاتھ کا کھےل ہے۔ آپ نے دےکھا ہوگا کہ کس طرح ملک کی انتہائی قلےل آبادی والے طبقہ کے ایک فرد کو آن واحد میں کانگرےس نے وزارت عظمی کی کرسی دے کرساری دنیا میں خودکے سےکولر اور جمہوری ہونے کے دعوے کو صحیح ثابت کردکھا یا۔ ےہ الگ سی بات ہے کہ سکھ اور ہندو مذہب میں بین بین کا فرق ہے جس کی بنیاد پر اقلےت کی لکےر کھےنچی جاسکتی ہے مگر ےہ توقطعا نہےں کہا جاسکتا کہ سکھ مذہب کسی بھی طور پر ہندو مذہب سے بہت زیادہ مختلف ہے۔ دےنے کے نام پر کانگرےس کے پاس اس کے علاوہ بھی کچھ ہے مگر اس کا نشانہ براہ راست مسلمان ہےں۔چنانچہ باربارہمارے کانگرےسی رہنماءاورنام نہاد مسلم لےڈران جلسہ گاہوںمیں چیخ چیخ کر مسلمانو ںکو ےہ تلقےن کرتے رہتے ہےں کہ عصری تعلےم کی ضروریا ت پوری کرنے کےلئے ہمیں اپنے ادارے کھولنے چاہئےں۔ مگر جب انہی کانگرےسی لےڈروں سے ےہ سوال کیاجاتاہے کہ کسی بھی ادارہ کے قیام سے پہلے اس کے الحاق اور رجسٹریشن کا مسئلہ سب سے زیادہ پرےشانیاں کھڑا کرتا ہے۔ آپ ےہ ےقےن دلادےں کہ مسلمان اپنی سوکھی روکھی روٹی میں سے تھوڑا بہت بچا کر تعلےمی ادارے کے قیام کےلئے مادی وسائل بہم کرنے کو تیار ہےں، رجسٹریشن اورالحاق کی ذمہ داریاں مسلمان ہونے کی حیثےت سے آپ لے لیجئے۔ اگرکانگرےس پارٹی میںشامل مسلم لیڈروںسے اس قسم کا سوال کیاجائے تو فوراً ہی بغلےں جھانکنے لگتے ہےں اور اس وقت بخوبی ےہ احساس ہونے لگتا ہے کہ مسلم لےڈروںکا پارٹی میں کیا معیار ہے اورکتنا اعتبار۔ان کی ناکامی واضح لفظوںمیںبتارہی ہوتی ہے کہ ہمارے مسلم کانگریسی لیڈران کی حیثیت صرف ایک بھونپوکی ہے جسے بجانے والاکوئی اورہے ۔البتہ ہرایک مسلم کانگریسی لیڈراپنی دنیاسجانے سنوارنے اورذاتی مفادات کے حصول میںاتنامگن رہتاہے کہ اسے لمحہ بھرکیلئے بھی یہ خیال نہیںرہتاکہ جن غریبوںکے جذبات سے کھیل کروہ اپنی دنےابنارہے ہیں،اس قوم کوکانگریس پارٹی سے تباہی وبربادی کے علاوہ کبھی کچھ نہیںملاہے۔ اگریہی مظلوم طبقہ کل ان سے اپنے ساتھ کانگریس حکومتوںکے ذیعہ رو ارکھی جانے والی ستم آرائیوںکا سوال کردے تویہ انہیںیہ کیاجواب دیںگے۔ قابل غورہے کہ کانگرےس پارٹی میں شامل مسلم لےڈران قوم کے نام پر اپنے ذاتی منفعت کے حصول میں ہمیشہ پےش پےش رہے ہےں۔ کانگرےس میںشامل لےڈران کی طرح دوسری جماعتوں میںشامل رہنماﺅں کی فہرست اس معاملے میں نہاےت ہی مختصرہے۔ ثبوت کیلئے ہم ڈی پی ایس جیسے اداروںکو دےکھ سکتے ہےں۔ قوم چولہے بھاڑ میں جائے مگر ہمارے مسلم لےڈروں کو پورے ملک میں اپنا ادارہ قائم کرنے کی سند تو مل گئی۔اس کے برعکس اگرکوئی اےسے ادارے کے قیام کا فےصلہ کیاجائے جس کی حےثےت اجتماعی ہو تو پھر دےکھئے کےسے مرکز میں بیٹھی ہماری کانگرےس پارٹی آپ کے سامنے مسائل کے انبار کھڑے کرتی ہے۔ حالانکہ ملک کی دےگر اقلےتوںکے ساتھ ےہی معاملہ بالکل جداگانہ ہے اس کےلئے آپ ریاست جھارکھنڈ کا جائزہ لے لیجئے۔ دوردراز دےہاتوںمیں قائم کرشچین بھائیوں کے اپنے عصری ادارے اوران میں تعلےم کی ہلچل آپ کوےہ گواہی دے رہی ہوگی کہ کانگرےس پارٹی میں بھےد بھاﺅ کا اجگر کتنا طاقتور اورمضبوط ہے۔ملک کے مسلمانوں کو دےنے کےلئے اگرکانگرےس کے پاس کچھ ہے تو وہ 1947 سے آج تک ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کی ایک طوےل فہرست ہے۔ مےرٹھ، ہاشم پورہ، مرادآباد ،ملےانہ اور بھاگلپور وغیرہ میں زندہ دفنا دی گئیں لاشوںکی باقیات ، جو چیخ چیخ کرےہ بتا رہی ہےں کہ کانگرےس مسلمانوںکودےنے کے معاملے میں کتنی سخی اور دریادل واقع ہوئی ہے۔ بابری مسجد کا دروازہ کھولے جانے سے اس کی شہادت تک کاواقعہ کانگرےس کی دادودہش کی داستان سناتاہے۔ آنجہانی راجیوگاندھی نے دروازہ کھولنے کی اجازت دی اورکانگرےس کے مضبوط ترین سنگھ نواز لےڈر نرسمہا راﺅ نے اسے زمےں بوس کردےنے کی راہ میں حائل رکاوٹیں دورکردےں۔آج بھی کانگرےس کی روش سے ےہ اندازہ لگانا مشکل نہےں ہے کہ اس نے اپنی بھول نہیں سدھاری ہے اور نہ دےنے کے طور طرےقے مثبت کرلئے ہیں۔سابقہ پالیسیوںکے برخلاف اب وہ سنجیدگی اورایمانداری کے ساتھ مسلمانوںکے ساتھ مسلسل روا رکھی جانے والی جانبدارانہ پالےسی سے نکل کر دیانت داری کے سفر پر چل پڑی ہے۔ آپ رشدی کی ہند آمد پر لگائی جانے والی روک سے اس غلط فہمی میں نہ رہےں کہ کانگرےس نے رشدی کے آنے کا باب بند کرکے خود کو سےکولر ہونےکی سند پےش کردی ہے، بلکہ کانگرےس نے رشدی کو ہند کے سفر سے روک کر پھر ایک با رمسلمانوں کوفرےب دےنے کی پالےسی پر سختی سے عمل کیاہے۔ کانگرےس ےہ چاہ رہی تھی کہ مےڈیا میں رشدی کی آمد کا ماحول گرم رہے اورخاموشی سے مسلم نوجوانوںکو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا جائے۔ اسی شوروغل کے دوران جب مےڈیا کی ساری توجہ سلمان رشدی پرٹکی ہوئی تھی، دربھنگہ ضلع کے دومسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کرلیاگیا۔ عےن اسی وقت راہل گاندھی نے اپنی مسلم دشمنی کا وافر ثبوت دےتے ہوئے ایک دیانتدار اور مخلص کانگرےسی کارکن کاجسے خود راہل کا دست راست کہا جاتا تھا ٹکٹ کاٹ کر نہ جانے کس پالےسی کے تحت لالوپرشاد کے سمدھی کو دے دیاگیا۔ مگرےہ خبرےں محض رشدی کے ہو ہنگامے کی وجہ سے موضوع بحث نہ بن سکیں۔ سکندرآباد سے کانگرےس کا امیدوار بنائے جانے والے نظام ملک کو پارٹی کا مضبوط لےڈر تصور کیاجاتاہے اورسکندرآباد میں مسلم ووٹوںکا فےصد بھی غےرمعمولی ہے۔ ےہ حالات بتار ہے تھے کہ کانگرےس نے نظام ملک کو ٹکٹ دے کر نےک نیتی کا مظاہرہ کیاہے۔ مگر وہ کہتے ہےں ناکہ چورچوری سے جائے ہےرا پھےری سے نہ جائے۔ بس وہی ہےرا پھےری ےہاں کی گئی اور برسوںسے پارٹی کےلئے کام کرنے والے فعال اور زمےنی لےڈر نظام ملک کوانگوٹھا دکھا دیاگیا۔ ےہ سارے حالات بتارہے ہےں کہ کانگرےس کے پاس دےنے کےلئے کچھ بھی نہےں ہے صرف وہ مسلمانوںسے لیناجانتی ہے۔ کبھی فرقہ وارانہ فسادات کے بہانے مسلمانوںکا لہو تو کبھی ناجائزگرفتاریوں کے ذرےعہ ان کے جذبات اور امن پرشب خون مارنا،بس کانگرےس کی جھولی میںآپ کےلئے اتنا ہی ہے۔ورنہ جتےندر یادو کسی شےر کا نام نہےں جو جےت کر پوری ےوپی میں کانگرےس کی ڈوبتی نیا پار لگا دے گا۔ حالات بتارہے ہےں کہ جتیندر یادو کی شکست ےقےنی ہے۔ مگر کانگرےس کو اس پرچنداں غور نہےں کرنا ہے ،کانگرےس کا منشا ےہی ہے کہ کسی طرح بھی مسلمان سراٹھانے کے قابل نہ رہےں اورنہ ان کا کوئی لےڈر بلندی کی معراج حاصل کرسکے۔
ہے زمانے سے الگ میرامسیحا سنبل
جب بھی ملتاہے کوئی زخم نیادیتاہے
نوٹ:مضمون نگارہفت روزہ متھلاپوسٹ کے ایڈیٹر ہیں
Mob:09911587378

No comments :

Post a Comment