Thursday, November 28, 2013

अल्पसंख्यकों को बिना ब्याज ऋण का तोहफा देगी बिहार सरकार

Updated on: Sat, 19 Oct 2013 03:09 PM (IST)

Bihar government
अल्पसंख्यकों को बिना ब्याज ऋण का तोहफा देगी बिहार सरकार
मुंबई, [ओमप्रकाश तिवारी]। बिहार सरकार ने अल्पसंख्यक वर्ग के छोटे उद्यमियों को बिना ब्याज ऋण देने की योजना तैयार कर ली है। सबकुछ ठीक रहा तो 400 करोड़ के वेंचर-कैपिटल फंड वाली यह योजना जल्दी ही राज्य में लागू हो जाएगी।
बिहार सरकार से जुड़े सूत्रों की मानें तो यह योजना अल्पसंख्यकों, विशेषकर मुस्लिमों के मजहबी सिद्धांत को ध्यान में रखकर तैयार की गई है। गौरतलब है कि यह वर्ग ब्याज से परहेज करता है। उधार दिए गए धन पर न तो ब्याज लेना पसंद करता है, न ब्याज अदा कर उधार लेना। इस मजहबी बंधन के कारण अक्सर यह वर्ग उन सरकारी योजनाओं का लाभ नहीं ले पाता, जो गरीबों में उद्यमिता का विकास करने के लिए तैयार की गई हैं। चूंकि वेंचर-कैपिटल प्रणाली के तहत 400 करोड़ रुपयों की लागत से तैयार इस योजना में बिना ब्याज के ऋण देने का प्रावधान होगा, इसलिए मुस्लिम वर्ग भी इस योजना का लाभ ले सकेंगे।
बताया जा रहा है कि मुख्यमंत्री नीतीश कुमार ने लगभग तैयार हो चुकी इस योजना का विवरण मुंबई में शनिवार को हुई बिहार राज्य औद्योगिक एवं निवेश सलाहकार समिति के सदस्यों को दिया है। उन्होंने इस योजना को और बेहतर बनाने के लिए उनसे सुझाव भी मांगे हैं। यदि कुछ सुझाव प्राप्त हुए तो उन्हें योजना में जोड़कर इसे जल्दी से जल्दी राज्य में लागू कर दिया जाएगा।
गुजरात सरकार करीब आठ साल पहले इससे मिलती-जुलती एक योजना 50 करोड़ रुपयों की राशि से शुरू की थी, लेकिन इस योजना का लाभ विशेषकर सूचना प्रोद्योगिकी क्षेत्र से जुड़े पढ़े-लिखे लोगों को ही मिल सका है। हालांकि गुजरात में इस योजना पर खर्च की जानेवाली राशि अब बढ़कर 500 करोड़ तक पहुंच गई है, जबकि बिहार में तैयार की गई योजना एक वर्ग विशेष को ध्यान में रखकर तैयार की गई है। बिहार सरकार इसे इंसाफ के साथ तरक्की का नारा देकर लागू करना चाहती है। इसका लाभ बिहार में रह रहे लोगों को तो मिलेगा। साथ ही ऐसे बिहारी या गैरबिहारी लोग भी इस योजना का लाभ उठा सकेंगे जो अभी बिहार से बाहर रह रहे हैं, लेकिन बिहार लौटकर लघु या सूक्ष्म उद्योग शुरू करना चाहते हैं।

Friday, November 22, 2013

RSS"S URDU CHANNEL AND MADRASA'S MASSAGE


آرایس ایس کے اردوچینل اورمدرسہ کاپیغام
سچ بول دوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میم ضادفضلی
گزشتہ دنوں انٹرینٹ میڈیا کے ذریعہ یہ خبر آئی تھی کہ جلد ہی ملک کی بدنام زمانہ ہندو شدت پسند تنظیم آر ایس ایس ایک اردو چینل لانچ کرنے جارہی ہے ۔فیس بک پر اسی کے ساتھ یہ خبر بھی اپ لو ڈ کی گئی تھی کہ آر ایس ایس مسلم بچوں کی رہنمائی کیلئے صحیح اسلامی تعلیم فراہم کرنے کا نظم کرے گی۔ جس میں مذہب کی جانکاری کے ساتھ ساتھ حب الوطنی پر مشتمل مضامین خصوصی طور پر پڑھائے جائیں گے ۔ آر ایس ایس کا یہ منصوبہ کوئی نیا نہیں ہے ۔ آر ایس ایس کے سابق ترجمان گریش جویال نے راقم الحر و ف سے پانچ سال قبل ہی اس منصوبے پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہاتھاکہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ ایسے مدارس کا نظام قائم کرنے کی تیاری کررہی ہے ۔ ہمیں اس وقت بھی آر ایس ایس کا یہ منصوبہ برا نہیں لگا تھا اور آج بھی جب اس نے اردو چینل اور مذہبی تعلیم کے حوالے سے اقدامات کی بات کی ہے تو یہ سن کر کوئی حیرت نہیں ہوئی اور نہ اس منصوبے میں اعتراض کا کوئی پہلو نظر آیا جس سے کہ فرقہ پرست طاقتوں کو گالیاں بول کر قوم کو الو بنانے کی کوشش کی جائے ۔ ہم نے ہمیشہ یہ کام ان خیراتی تنظیموں کے آقاؤں کے حوالے کر رکھا ہے ۔ جن کی زندگی کا نصب العین یہ ہے کہ ’اپنا کام بنتا جہنم میں جائے جنتا ‘ دراصل ہماری ملی تنظیموں کے آقاؤں نے یہ باور کرلیا ہے کہ غریبوں کے نام پر سب کچھ جمع کیا جائے مگر اس کا ایک پائی بھی ادھر سے ادھر نہ ہونے پائے ۔ بلکہ سارا کا سارا اپنی مٹھی ہی میں قید رہے ۔ آرایس ایس کے خیمے سے مذکورہ خبر آنے کے بعد ملت فروشوں کی باسی کڑھی میں ایک بارپھرابال آگیا ہے ۔ خصوصاً مغربی اترپردیش کے سادہ لوح دیہی باشندوں اور ان پڑھ اور بھولے بھالے دیہاتیوں کو اس کام پر لگادیا گیا ہے کہ وہ شور شرابا کریں اور آر ایس ایس کیخلاف مردہ باد کے نعرے لگائیں اور گلی کوچوں میں یہ صدائیں عام کی جائیں کہ آر ایس ایس کے ذریعہ چلائی جانے والی تعلیمی مہم یا اردو چینل کا مقصد مسلمانوں کو رسوا اور ذلیل کرنا ہوگا لہذا آرایس ایس کے اس منصوبہ کو کسی طرح بھی کامیاب نہیں ہونے دیا جائے ۔ جس وقت میں یہ خبر پڑھ رہاتھا مجھے ہنسی آرہی تھی اور یہ سوال میرے ذہن وفکر میں کچوکے لگا رہا تھا کہ کیا صرف زندہ باد اور مردہ باد جیسے نعروں کے ذریعہ ہماری قوم کے ٹھیکدار آر ایس ایس کے چینل دیکھنے سے پورے سواد اعظم کو روک پائیں گے۔ کیا یہی مسئلہ کا حل ہے ، کیا صر ف فتاووں کے ذریعہ ملت کی زبوں حالی دور کی جاسکتی ہے ۔ یا ملت کو وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرانے کی وہ تدبیریں بروے کار لانے کی ضرورت ہے، جس سے ملت اسلامیہ باطل کی مذموم سازشوں کا شکار بننے سے بچ جائے۔ مجھے یادآتا ہے آج سے 37سال قبل مائیکل ہیٹن کی کتاب منظر عام پر آئی تھی۔اس کتاب کا موضوع وہ سو افراد تھے جنہوں نے تاریخ انسانی میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دیے تھے ، جن کی مثال پیش نہیں کی جاسکتی تھی۔ کتاب میں ساتویں او رآٹھویں نمبر پر سائلون اور جوہانس گٹن برگ تھا۔ سائی لون وہ چینی موجد ہے جس نے 1930میں کاغذ کا ایجاد کیا تھا۔ جب کہ چودہ ویں صدی میں جرمنی کا باشندہ گیٹن برگ چھاپا خانہ ایجاد کرنے میں کامیاب ہوا ۔اتفاق سے تاریخ ہندکی آنکھوں نے ایسے دوربھی دیکھے ہیں جب ملت سلامیہ کے قدم ترقی سے روکنے والی مغربی سازشوں کوکامیاب بنانے والے ہمارے عمائدین ایسے نازک دور میں بھی سادہ لوح مسلمانوں کواپنے فتاووں کے ذریعہ بڑی حدتک روکنے میں اہم کردارکیاہے۔اس وقت بھی مسلمانوں کویہی بتایاگیاانگریزوں کی زبان اوران کی ایجادات سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے ۔ ممکن ہے ان فتاووں کی حیثیت شرعی نہ ہوکرسیاسی ہوں جن کامقصدانگریزوں کیخلاف اپنی نفرت کااظہار ہو۔کیونکہ اس قسم کے فتاووں کی کوئی ایسی شرعی وجوہات نہیں ہے جنہیں محکمات یامحرمات کادرجہ حاصل ہو۔البتہ کسی بھی زبان کے سیکھنے سے قوم کومنع کرنااسی طرح جدیدایجادات سے استفادہ کیخلا ف آوازاٹھاناقوم کی تعمیروترقی کی راہوں میں گڑھے کھودنے جیساعمل ہے جسے قوم نے نہ کل پسند کیا تھا اورنہ آج کابیدارمعاشرہ اس کی حمایت کرنے کوتیارہے۔آپ آرایس ایس کے چینل سے قوم کومحفوظ رکھنے سے اسی صورت میں کامیاب ہوسکتے ہیں جب انہیں کوئی بہترمتبادل فراہم کرادیں۔یہی بات آرایس ایس کے تعلیمی اداروں کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے ۔آپ نے آرایس ایس کی سازشوں سے ملت کومحفوظ رکھنے کیلئے جونعرے بازی اوراحتجاج کاطریقہ اختیارکیا ہے ایسی حرکتوں کو جذباتی بلیک میلنگ توکہہ سکتے ہیں ملت اورمذہب سے ہمدردی کی بے تابی نہیں کہہ سکتے۔ ایسانہیں ہے کہ آپ لوگوں کے پاس آرایس ایس کی سازشوں کاعملی حل پیش کرنے کیلئے وسائل موجودنہیں ہیں۔آپ اگرچاہیں توایسے اسکولوں کے قیام کویقینی بناسکتے ہیں جہاں غریب بچوں کیلئے دینی اورعصری تعلیم کانظم بھی کرسکتے ہیں۔ایسابھی نہیں ہے کہ ملت کے ٹھیکیداروں نے معیاری اورمثالی اسکولوں کاقیام نہیں کیاہے۔ڈی پی ایس اورنیوہورائزن اسکول جیسے سیکڑوں تعلیمی اداروں کے سربراہ خودمسلم لیڈران یاسرمایہ دارحضرات ہیں۔المیہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے اسکولوں میں اتنی مہنگی فیس رکھی ہے جسے اداکرنا99فیصدمسلمانوں کے بس سے باہرہے۔مختصر یہ کہ تعلیم کی تجارت کاچلن بھی اعلیٰ طبقات کے ذریعہ ہی عام ہواہے۔آپ آرایس ایس کی تعلیم گاہوں سے غریب قوم کے نونہالوں کواس وقت تک روک پانے میں کامیاب نہیں ہوں گے جب تک آپ اسی معیاراوراسی کے مساوی سہولیات سے آراستہ تعلیمی ادارے کاقیام یقینی نہیں بناتے۔مگرمجھے یقین ہے کہ انسانی خریدوفروخت کے دکانداراورنام نہادرفاہی اداروں کے مالکان کواس مثبت تقاضے کوپور ا نہیں کر نا ہے ، ان کی نیت میں کھوٹ ہے ،انہیںیہ کبھی یہ پسند نہیں ہوسکتاکہ ان کے بچوں کی طرح غریب مسلمانوں کے جگرگوشے بھی اعلی تعلیم سے فیضیاب ہوں اوران کے برابربیٹھنے کی صلاحیت حاصل کرلیں۔ابھی چندماہ قبل ہی خط افلاس سے نیچے زندگی گذارنے والے کچھ لوگوں نے شکایت کی تھی کہ نیوہورائزن اورڈی پی ایس جیسے معیاری پرائیویٹ ادارے بی پی ایل خاندانوں کے بچوں کو عدالت عظمیٰ اورپارلیمنٹ کی ہدایات کے مطابق ریز رویشن کوتیارنہیں ہیں۔پھران سے یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے ان کے احتجاج اورمظاہروں کی اہم وجہ ملت اورمذہب سے انتہائی درجہ محبت ہے۔بلکہ ان کے اعمال خودگواہی دے رہے ہیں کہ ان کے نعروں کی حقیقت شعبدہ بازی اوراپنی دکان چمکانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ آرایس ایس نے مسلم بچوں کی اعلیٰ تعلیم کیساتھ معیا ر ی اورعمدہ رہائش کامنصوبہ تیارکیاہے۔اگریہی سہولیات ہمارے نام نہاد ملی قائدین بھی فراہم کرادیں توکوئی وجہ نہیں ہے کہ غریب مسلمانوں کے بچے آرایس ایس جیسی انسانیت دشمن مشینریزکی سازشوں کانوالہ بنیں۔مگرہمارے یہاکوئی ایماندارانہ اورعملی پروگرام کبھی رائج نہیں رہا۔ہم نے ہمیشہ سالوح غریب قوم کوورغلانے،ان کاجذباتی استحصال کرنے اورسڑکوں پراتارکرگاجرمولی کی طرح کٹوانے میں ہی ساری کامیابی اوربھلائی باورکررکھی ہے۔ 
ایسابھی نہیں ہے کہ اس عظیم منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ملت کے ہمدردسرمایہ داروں کے اندر ایثار کا جذبہ نہیں ہے۔اللہ کاشکرہے کہ امت مسلمہ کی ترقی کیلئے اس کی عطاکردہ دولت کودونوں ہاتھوں سے لٹانے والے بہی خواہوں کی تعدادہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں میں ہے۔ وہ اس قسم کے منصو بو ں کیلئے آوازدینے والوں کی آوازسے آوازملانے میں بھی پیش پیش رہتے ہیں۔مگراس کاکیاکیجئے گاکہ ان کے عطایاکواپنی تجوریوں میں محفوظ کردینے والوں نے ہمارے ملی سرمایہ داروں کواس قدرمایوس کردیاہے کہ ان کے حوصلے پست ہونے لگے ہیں۔کچھ اسی قسم کی بات جدیدذرائع ابلاغ اورصحافت کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے۔ہم تمام وسائل کے باوجوداپنی قوم کوغیروں کے ذریعہ پیش کی جانے والی پالیسیوں کامتبادل نہیں دیتے مگراس سے بازرہنے کیلئے انہیں سڑکوں پراتارکرکٹوانے میں ہی ساری ترقی کومضمرسمجھتے ہیں۔ ہم نے سطوربالامیں ہی اپنے اندیشے کااظہارکردیاہے کہ باطل خصوصاًاسلام مخالف طاغوت نے منصوبہ بند طریقے سے مسلمانوں کوترقی سے محروم رکھنے سازشیں مر تب کیں اورہم جدیدایجادات اورعصری تعلیم سے قوم کومحروم رکھنے کے فتوے دیکران سازشوں کی کامیابی یقینی بنادی۔
Mob.09911587378

Thursday, September 19, 2013

اردو شاعری کے آغاز کا پس منظر Urdu Shayeri ke farogh ka pasmanzar

عرب اور ایران سے ہندوستان کے تجارتی تعلقات بہت قدیم زمانہ سے ہیں ۔عرب ایک ریگستانی ملک ہے چونکہ زراعت کے لیے اس میں پانی کے ذخیرے اورزندگی بسر کرنے کے لیے روزی کمانے کے امکانا ت بہت کم ہیں۔اس لیے عربوں نے تجارت کو اپنا اہم پیشہ بنایا۔ وہ جہازوں اور اونٹوں کے ذریعہ ناریل،کالی مرچ،لونگ،مشک،مسالے ،چاندی اور ہاتھی دانت کی مصنوعات وغیرہ ہندوستان سے یورپ،چین اور عرب کی منڈیوں میں پہنچاتے تھے اور کچا مال مثلاً نارنگی،انناس ،شہتوت اورسیب لاکر ہندوستان کی منڈیوں میں فروخت کیا کرتے تھے۔خلفاے راشدین کے بعد عرب میں توسیع پسندی کا جذبہ جڑ پکڑنے لگا تو محمد بن قاسم صوبۂ سندھ پرفتح حاصل کرلیتے ہیں مگر ملکِ شام کی مرکزی سلطنت کمزور ہوجاتی ہے اور یہ ہونہار سپہ سالار مرکز کے اشارے سے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے ۔​
مسلمان جب برِّ صغیر ہند و پاک میں داخل ہوئے تو عربی، فارسی اور ترکی بولتے آئے اور جب ان کا اقتدار قائم ہوا تو فارسی سرکاری زبان ٹھہری ۔تاریخ شاہد ہے کہ حاکم قومیں اپنی زبان اور اپنا کلچر ساتھ لاتی ہیںاور محکوم قومیں جن کی تہذیبی و تخلیقی قوتیں مُردہ ہوجاتی ہیں، اُس زبان اور کلچرسے اپنی زندگی میں نئے معنی پیدا کرکے نئے شعوراور احساس کو جنم دیتی ہیں۔محمد بن قاسم سے محمود غزنوی تک اور محمود غزنوی سے بابر کی فتح تک کازمانہ تقریباًآٹھ سوسال کو محیط ہے ۔ مسلمانوں کا کلچر ایک فاتح قوم کا کلچر تھا۔جس میں زندگی کی وسعتوں کو اپنے اندر سمیٹنے کی پوری قوت موجود تھی۔اس کلچر نے جب ہندوستان کے کلچر کو نئے انداز سکھائے اور یہاں کی بولیوں پراپنا اثر ڈالاتوان بولیوں میں سے ایک نئی بولی کاجنم ہوا جو وقت کے تہذیبی ،معاشرتی و لسانی تقاضوں کے سہارے مسلمانوں اور برِّ صغیر کے باشندوں کے درمیان مشترک اظہار و ابلاغ کا ذریعہ بن گئی۔فاتح و مفتوح کے امتزاج سے وجود میں آنے والی اس بولی کو کبھی لشکری تو کبھی ریختہ تو کبھی ہندی، ہندوی اور ہندوستانی دہلوی وغیرہ کا نام دیا گیااور آج اسی کو ’’اردو ‘‘ کہا جاتا ہے ۔​
محمد بن قاسم کے خاصے عرصے کے بعد محمود غزنوی کی مرکزی سلطنت سندھ اور پنجاب تک پھیل گئی ۔کہا جاتا ہے کہ دولت کی ہوس نے اسے اندھا بنا دیا تھا۔ شاید ان کے کردار کی یہ ایک کمزوری ہو مگر وہ بڑے دین دار ،دلدار اور فراخ دل بادشاہ تھے ۔انھوں نے ہندوستان سے تعلقات استوار کرنے کے لیے اپنی سرکاری مہرمیں سنسکرت کے الفاظ کندہ کرائے تھے۔ان کے عہد میں سنسکرت کی بہت سی کتابیں فارسی میں ترجمہ کی گئیں۔ان کے زمانے میں خواجہ مسعود سعدؔ سلمان (۴۳۸ھ -۵۱۵ھ/۱۰۴۶ئ-۱۱۲۱ئ)جیسا قادرالکلام شاعر پیدا ہوا جس نے عربی ،فارسی ،ترکی ،اور ہندوی(اردو)میں شاعری کی اور اپنے پیچھے تین دیوان چھوڑے جو تازی،پارسی اور ہندوی میں ہیں۔انھیں ہندوی کا پہلا شاعر ماناجاتا ہے جو کہ لاہور کے رہنے والے تھے۔جن کے بارے میں امیر خسروؔ نے ’’غرۃ الکمال‘‘ کے دیباچے میں تحریر کیا ہے کہ :​
’’پیش ازیںشاہانِ سخن کسے را سہ دیوان نبودہ مگر مراکہ خسرو ممالک کلامے۔مسعود سعد سلمان را اگر ہست اماآں سہ دیوان در عبارت عربی و فارسی و ہندی است و درپارسی مجرد کسے سخن را سہ قسم نکردہ جز من‘‘​
(تاریخِ ادبِ اردو:ڈاکٹر جمیل جالبی،ج :۱،ص:۲۳)​
امیرخسروؔ کی فارسی مثنوی ’’تغلق نامہ‘‘ میں ایک جملہ’’ہے ہے تیر مارا‘‘ ملتا ہے جو ہندوی زبان کے مخصوص آہنگ کو ظاہر کرتا ہے اور اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسعود سعد سلمان کی زبانِ ہندوی سے خسروؔ کون سی زبان مراد لیتے ہیں۔​
حافظ محمود شیرانی کے مطابق:’’ اردو کا قدیم نام ہندی یا ہندوی ہے‘‘(پنجاب میں اردوص۲۳)جس سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہونچتی ہے کہ مسعود سعد سلمان نے جس زبان(ہندوی) میں شاعر ی کی ہے وہ ’’اردو ‘‘ ہی ہے۔مسعود سعد سلمان کاہندوی دیوان ناپید ہوچکا ہے۔اگر یہ دست یاب ہوجاتا ہے تو لسانیات سے متعلق بیش تر مسائل خصوصاً اردو زبان کے ارتقائی مراحل کے بہت سارے گم شدہ ابواب روشن ہوجائیں ۔​
محمود غزنوی کے بعد جب غوری دورآیاتو سلطان شہاب الدین کی سلطنت کا رقبہ دہلی تک وسیع ہوگیا اوراس نے قطب الدین ایبکؔ کو دہلی کا صوبہ دار مقرر کیا ۔ہندو اور مسلم دونوں قوموں کے تہذیبی ،معاشرتی اور لسانی ملاپ سے جس نئی زبان نے جنم لیا تھااُس نَو مولود زبان کے شعرو ادب میں اس دور میں رفتہ رفتہ ترقی کی شروعات ہوئی ۔خلجی اور تغلق حکومتوں کے دور میں امیر خسروؔ ،ابوالحسن یمین الدین(۱۲۵۳ئ-۱۳۲۵ئ)کی بلندو بالا شخصیت اردو زبان و ادب کی ابتدائی تشکیل میں بڑی اہمیت رکھتی ہے ۔امیر خسرو ۹۹؍ تصانیف کے مصنف تھے اور بنیادی طور پر فارسی کے بہت بڑے شاعر اور عالم تھے ۔ان کے دوہے ،نظمیں ،انملیاں،مکرنیاں، پہیلیاں،اور لوریاں لسانی اعتبار سے کافی اہمیت کی حامل ہیں۔خسروؔ پہلے ماہرِلسانیات تسلیم کیے جاتے ہیں جنھوں نے ہندوستان کی زبانوںکو دو حصوں میں تقسیم کیا تھا۔ایک ہندی ،دوسری دہلوی ،جو دوآبہ کے علاقوں میں بولی جاتی تھی اور جس میں خسروؔ نے شعر کہے اور دوہے ،انملیاں، مکرنیاں ،پہیلیاں وغیرہ مدون کی ہیں ۔دراصل یہی زبان آگے چل کر ’’اردو‘‘کے نام سے معنون ہوئی۔آج خسروؔ کا جو کچھ بھی اردو کلام ملتا ہے وہ بعض محققین کے نزدیک مستند نہیں ہے، لیکن یہ بات بہر حال اپنی جگہ مسلم ہے کہ امیرخسروؔ نے اردو میں شاعری کی ہے۔چنانچہ ’’غرۃ الکمال ‘‘ کے دیباچے میں خود خسروؔ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ’’جزوے چند نظم ہندی نذرِ دوستان کردہ است‘‘۔خسروؔ سے پہلے ہندوی کے شاعر کی حیثیت سے مسعود سعد سلمان مشہور تھے۔اس لحاظ سے اردو شاعری کے بنیاد گزاروں میں مسعود سعد سلمان اور امیرخسروؔ خشتِ اوّل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔امیر خسروؔ کے کلام کو دیکھ کر اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اب یہ زبان قدیم اُپ بھرنش سے آگے نکل کر اپنی تشکیل کے اک نئے دور میں داخل ہوگئی ہے اور جس پر کھڑی بولی اور برج بھاشا دونوں اثر انداز ہوئی ہیں ۔​
خسروؔ کی شاعری میں یہ انفرادیت ملتی ہے کہ انھوں نے ایک مصرع فارسی اور ایک مصرع اردو کا قلم بند کیا تو کہیں آدھا مصرع فارسی میں میں تو آدھا اردو میں …ذیل میںاس طرح کے کلام کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں ؎​
زحالِ مسکیں مکن تغافل دورائے نیناں بنائے بتیاں​
کہ تابِ ہجراں ندارم اے جاں نہ لیہوں کاہے لگائے چھتیاں​
شبانِ ہجراں دراز چوں زلف و روزِ وصلت چو عمر کوتاہ​
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں​
حضرت نظام الدین اولیا کی وفات پر خسرو نے جو شعر کہا وہ بھی اسی رنگ و آہنگ کا آئینہ دار ہے ​
گوری سووے سیج پہ اور مکھ پر ڈارے کیس​
چل خسرو گھر آپنے سانج بھئی چوندیس​
اردو شاعری کی جس روایت کو مسعود سعد سلمان اور امیرخسرو نے شروع کیا اس کو آگے بڑھانے میں چندمحققین کے خیال میں صوفیاے کرام کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔بل کہ بابائے اردو مولوی عبدالحق کے نزدیک تو اردو شاعری کا آغاز مذہبی شاعر سے ہی ہوا ہے جو کہ صوفیائے کرام کی رہینِ منت ہے۔​
اردو زبان و ادب کے نشوونما سے متعلق ماہرینِ لسانیات کے فراہم کردہ مواد ،اردو زبان کی اوّلین تخلیقات اور بزرگانِ دین کے ملفوظات کی روشنی میں یہ بات قطعیت کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اردو بان کے فروغ اوراس کے نشوونما میں صوفیاے کرام نے نمایاں کردار اداکیا ہے ۔یہ بے لوث اور مخلص لوگ بندگانِ خدا تک خدا کا پیغام پہنچانے کے لیے بے تاب تھے ۔وہ لوگوں کے دروازوں ہی پر نہیں ان کے دلوں پر بھی دستک دینا چاہتے تھے ۔ظاہر ہے اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنا پیغام عوام تک خود ان کی زبان میں پہنچائیں۔ چنانچہ صوفیاے کرام نے خواص کی ادبی زبان کے بجائے عوام میںرائج زبان کو اپنی پیغام رسانی کا وسیلۂ اظہار بنایا اور انہیں کی بولی میں تعلیم و تلقین فرمائی ۔صوفیاے کرام جس خطے میں جاتے وہاں کی زبان سیکھ کر اس خطہ کے لوگوں تک انہیں کی زبان میں اپنا پیغام پہنچاتے۔ اس طرح انہوں نے عوامی زبان کے دائرے کو وسیع کیا اور اپنی ضرورت کے مطابق نئے نئے الفاظ استعما ل کرکے اس زبان کے ذخیرۂ الفاظ میں قابلِ قدر اضافہ کیا ۔بابائے اردو مولوی عبدالحق صوفیائے کرام کو اردو کا محسن خیال کرتے ہیں ۔​
اردو زبان، اردو شاعری اوراردو نثر نگاری کو بنیاد فراہم کرنے والے اور اس کی اوّلین روایتوں کی تشکیل میں نمایا ں کردار اداکرنے والے صوفیاے کرام میںشیخ فریدالدین مسعود گنج شکر(۱۱۷۳ئ/۱۲۶۵ئ)،شیخ باجن(۱۳۸۸ئ/۱۵۰۶ئ)،شیخ حمید الدین ناگوری(۱۱۹۳ئ/۱۲۷۴ئ)، امیرخسرو(۱۲۵۳ئ-۱۳۲۵ئ)،شیخ شرف الدین بوعلی شاہ قلندر پانی پتی(م۱۳۲۳ئ)،شیخ شرف الدین یحییٰ منیری(م۱۳۸۰ئ)،شیخ عبدالقدوس گنگوہی (م۱۵۳۸ئ)وغیرہ کے اسماے گرامی نمایاں حیثیت رکھتے ہیں ۔ان میں زیادہ تر حضرت نظام الدین اولیا محبوبِ الٰہی رحمۃ اللہ علیہ کے مریدین،خلفا اور متوسلین ہیں ۔ان صوفیائے کرام نے اردو نثر کے ساتھ ساتھ اردو شاعری کے عروج و ارتقا میں اپنا خونِ جگر لگایا۔چنانچہ بابا فریدالدین مسعود گنج شکر کے کئی دوہے اور ریختے ملتے ہیں:مثلاً ​
سائیں سیوت گل گئی ماس نرھیا دیہہ​
تب لگ سائیں سیوساں جب لگ ہوسوں کیہہ​
راول دیول ہمے نہ جائیے​
پھاٹا پہنہ روکھا کھائیے​
ہم دروشنہ اہے ریت​
پانی لوریں اور مسیت​
(تاریخِ اردو ادب: ڈاکٹر جمیل جالبی، ج:۱،ص:۳۷)​
علاوہ ازیں دیگر صوفیائے کرام کے دوہے اور ریختے جو خالص ہندوی یعنی اردو میں ہیں ذیل میں ملاحظہ ہوں ؎​
بوعلی شاہ قلندر پانی پتی:​
ساھرے نہ مانیو پیو کہ نہیں تھانو​
کُنہہ نہ بوجھی بات اوی دھنی سہاگن نانو​
سجن سکارے جائیں گے اور نین مریں گے روئے​
بدھنا ایسی رین کر بھور کدھی نہ ہوئے​
شیخ شرف الدین یحییٰ منیری:​
کالا ہنسا نہ ملا بسے سمندر تیر​
پنکھ پسارے یکہ ہرے ارمل کرے سریر​
درد رہے نہ پیڑ​
شرف حرف مائل کہیں درد کچھ نہ بسائے​
گرد چھوئیں دربار کی سودرد دور ہوجائے​
شیخ عبدالقدوس گنگوہی:​
جگ بھایا چھوڑ کر ہوں تُج جوگن ہوں​
باج پیاری ہے سکھی ایکو جگ نہ لئیوں​
جے پیئو سیج تو نیند نہلیں پردیس تو یوں​
برہ برودھی کامنی نا سکھ یوں نہ یوں​
جدھر دیکھوں ہے سکھی دیکھوں اور نکوئے​
دیکھا بوجہہ بچار مَنہہ سبھی آپیں سوئے​
اردو شاعری کے ارتقا میں جہاں ایک طرف صوفیائے کرام نے کوششیں کیں تو وہیں دوسری طرف غیر مسلم سنتوں نامدیوؔ(۱۲۷۰ئ/۱۳۵۰ئ)،کبیرؔ داس (م۱۵۱۸ئ)اور گرونانکؔ(۱۴۶۹ئ/۱۵۳۸ئ) بھگتی تعلیمات کی اشاعت میں راجستھانی ،برج بھاشا اور پنجابی زبانوں کا استعما ل کررہے تھے ،جن پر عربی،فارسی ،ترکی اور سنسکرت کے الفاظ بھی نمایاں طور پر نظر آتے ہیں ۔ان سنتوں نے بھگتی تحریک کو عوام و خواص تک پہنچانے کے لیے شاعری کو وسیلۂ تبلیغ بنا تے ہوئے دوہے،راگ،راگنی وغیرہ قلم بند کیں ۔​
نام دیو بنیادی طور پر مراٹھی کاشاعر تھالیکن ’’گرو گرنتھ صاحب)) میں اس کا جو کلام ملتا ہے وہ ہندوی یعنی اردو کے آہنگ میں مکمل طور سے ڈھلا ہوا ہے ،دو شعر ملاحظہ ہوں ؎​
مائے نہ ہوتی باپ نہ ہوتا کرم نہ ہوتی کائیا​
ہم نہیں ہوتے تم نہیں ہوتے کون کہاں تے آئیا​
چند نہ ہوتا سور نہ ہوتا پانی پون ملایا​
شاست نہ ہوتا بید نہ ہوتا کرم کہاں تے آیا​
بھگتی تحریک کے سب سے بڑے اور مشہور ترین شاعر کبیرؔ ہیں جو بنارس کے رہنے والے اور ذات کے جولاہے تھے۔وہ توحید کے علم بردار تھے ،بت پرستی کی شدید مخالفت ان کا ایمان تھا ۔وہ کہتے تھے’’ جسے خدا مل گیا اسے سب کچھ مل گیا ‘‘۔اپنے انھیں خیالات کی تبلیغ کے لیے انھوں نے شاعری کا سہارا لیا ،اور اردو شاعری کو عروج بخشا۔انھوں نے صنفِ دوہا کو ہی زیادہ تر استعمال کیا یہی وجہ ہے کہ جب دوہا کا ذکر نکلتا ہے تو ذہن خوبخود کبیرؔ کی طرف چلا جاتا ہے ۔’’بیجک‘‘ اور ’’بانی‘‘ ان کے مجموعۂ کلام ہیں ،جن سے چند دوہے ذیل میں ملاحظہ ہوں ؎​
کل کرے سو آج کر ، اج کرے سو اب​
پل میں پرلے ہوئے گی پھیر کرے گا کب​
کال کرے سو آج کر ، آج ہے تیرے ہاتھ​
کال کال تو کیا کرے ، کال ہے کال کے ساتھ​
کبیرؔ سریر سرائے ہے کیا سوئے سکھ چین​
سوانس نگارا باج کا باجت ہے دن رین​
کبیرؔ نے عوامی زبان،لب ولہجے ،آہنگ اور ترنم کے ساتھ آسان اور سلیس اسلوب میں اپنے نظریات کو دوہوں میں قلم بند کیا ہے۔انھوں نے عوامی زبان کو اسی انداز میں استعمال کیاجیسی وہ بولی جارہی تھی ،فارسی،عربی اور ترکی کے بیش تر الفاظ بھی ان کے دوہوں میں ملتے ہیں۔​
علاوہ ازیں کبیرؔ ہی کے ایک پیروکار گرونانک ؔ نے بھی اردو شاعری کے فروغ میں اچھا خاصا حصہ لیا۔ڈاکٹر جمیل جالبی کے مطابق:​
’’گرونانک (۱۴۶۹ئ-۱۵۳۸ئ)اور ان کے جانشین بنیادی طور پر کبیرؔ ہی کے مسلک کے پیرو ہیں۔کبیرؔ کی فکر نے گرونانک کے فکر اور خیال کو جنم دیا جو رفتہ رفتہ ایک نئے مذہب کی شکل میں ڈھل گئے…گرونانک نے کبیرؔ کو اپنا پیشوا کہا ہے ۔۱۴۹۶ء میں گرونانک کی کبیر سے ملاقات بھی ہوئی تھی۔شیخ عبدالقدوس گنگوہی نے،جن کا سالِ وفات وہی ہے جو گرونانک کاہے،اپنے خطوط میں گرونانک کا ایک دوہا لکھا ہے:​
موبو پیاس نانک لہو پانی​
پیو سو رانڈ سہاگن نانوں‘‘​
(تاریخِ اردو ادب:ڈاکٹر جمیل جالبی،ج:۱، ص:۴۷)​
گرونانک کے کلام میں پنجابی کے ساتھ کھڑی بولی کے الفاظ بھی ملتے ہیں۔گرو گرنتھ صاحب میں عربی،فارسی الفاظ بھی بکثرت موجود ہیں اور اس میں اردو زبان کی جو شکل و صورت ملتی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے نظریات کی تبلیغ و اشاعت کے لیے اس زبان کا سہارا بھی لیا ہے۔گرو گرنتھ صاحب سے گرونانک کے اردو کلام کی مثالیں ذیل میں ملاحظہ ہوں :​
پیر پیکامبر (پیغامبر) اور سہید (شہید)​
سیکھ مسائک (شیخ مشائخ) کاجی (قاضی) ملّاں​
در درویس رسید (درویش رشید)​
برکت تن کو اگلی پڑھدے رھن دروٗد​
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ​
مِہر مسیت (مسجد) سدک (صدق مصلّا)​
ھک ھلال (حق حلال) کران (قرآن)​
سرم (شرم) سنت سیل روجہ (روزہ) ھوھو مسلمان​
کرنی کابا (کعبہ) سچ پیر کلما (کلمہ) کرم نواج (نماز)​
تسبیہہ (تسبیح) ساتس بھاوسی نانک رکھے لاج​
گرونانک کے کلام میں عربی ،فارسی الفاظ کو ہندوی سانچے اور تلفظ میں جس انداز سے استعمال کیا گیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کی زبان کی ساخت اور لب و لہجے پر اردو زبان کا گہرا اثر تھا۔آپ نے بھی دوہوں کے ذریعے اردو شاعری کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ۔​
اردو شاعری کے فروغ میں جہاں ایک طرف شمالی ہند کے مسلم صوفیائے کرا م اور غیر مسلم سنتوں نے حصہ لیا تو وہیں دوسری طرف جنوبی ہند میں بھی اردو شاعری رفتہ رفتہ پروان چڑھ رہی تھی ۔دراصل جب تغلق نے دیو گیر(دولت آباد) کو اپنا دارالخلافہ بنایا تو اس کے ساتھ کئی ہزار لوگوں نے نقل مکانی کرکے جنوبی ہند کو آباد کیا جن میں صوفیہ،علما،صلحا،ادبا،شعرا،اطباوغیرہ بھی شامل تھے ۔جنھوں نے اپنے خیالات کے اظہار کے لیے اپنی زبان کا استعمال تو کیا لیکن جنوبی ہند کے لوگوں سے میل ملاپ کے نتیجے میں دکنی اردو کا آغاز ہوا۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شمالی ہند کی بہ نسبت جنوب میں اردو شاعر نے بے پناہ ترقی کی ۔بہمنی اور عادل شاہی سلطنت کے بعد جب قطب شاہی سلطنت کا عروج و اقبال ہوا تو اس کے بادشاہوں نے شعر و ادب کی نہ صرف سرپرستی کی بل کہ وہ خود بھی دکنی اردو کے باکمال شعرا کہلائے، چنانچہ اردو کا پہلا صاحبِ دیوان شاعر قطب شاہی سلطنت کا ایک فرما ں روا محمد قلی قطب شاہ معانی (988ھ تا1020ھ/1580ء تا1611ئ)ہی کہلاتا ہے۔جنوبی ہند میں خواجہ بندہ نواز گیسو دراز،فخر دین نظامی،اشرف بیابانی،میراں جی شمس العشاق،قریشی،لطفی،مشتاق،وجہی،غواصی،ابن نشاطی،فائزؔ،نصرتیؔ،ولیؔ اور سراجؔ وغیرہ نے اردو شاعری کے ارتقامیں جو نقوش مرتب کیے ہیں وہ قابلِ دید ہیں ۔​
عرب و ایران اور ہندوستان کے تجارتی تعلق ،مسلم بادشاہوں کی آمد اور پھر ان کی حکومتوں کے قیام کے بعد یہاں کے مقامی باشندوں اور مسلمانوں کے مشترکہ میل ملاپ ،سماجی،معاشرتی اور لسانی تقاضوں کے سبب ایک نئی زبان کا وجود ہوا جسے ہندی،ہندوی،ہندوستانی،ریختہ،لشکری،کھڑی بولی کانام دیا گیا جوآگے چل کر اردو کہلائی ۔محمود غزنوی کے دور میں مسعود سلمان سے اردو شاعری کا آغاز ہوا جو امیرخسروؔ تک پہونچ کر کافی ترقی کرگئی۔خواجہ نظام الدین اولیا کے خلفا و مریدین ،مسلم صوفیائے کرام ،غیر مسلم سنتوں نام دیو،کبیر گرونانک جیسی بھگتی تحریک کے مبلغین ،شمال و جنوب کے شاعروں اور ادیبوںکی مشترکہ جدو جہد سے اردو شاعری نے اپنادائرہ بہت جلد وسیع کرلیا ۔اردو شاعری کے آغاز اور اس کے ارتقائی عمل میں مسلم و غیر مسلم دونوں نے برابر برابر حصہ لیا ۔اور مسعود سعد سلمان اور خسروؔ نے جس درخت کی تخم ریزی کی تھی اس کی آبیاری میں ان حضرات نے اپنا خونِ جگر لگا کر اسے پروان چڑھایا یہ انھیںحضرات کی کوششوں کا ثمرہ ہے کہ آج جہاں جہاں اردو بولی ،پڑھی اور سمجھی جاتی ہے وہاں وہاں اردو شاعری موجود ہے۔​

Tuesday, April 9, 2013

قاتل ہی فاتحہ خواں ہیں ہمارے مزارپر


تحریر۔۔۔۔۔میم ضادفضلی

اس سال2013میں تقریبا10ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں،جن میں سے تین چھوٹی ریاستوں میں انتخابات کاعمل اپنے نتائج کیساتھ مکمل ہوچکاہے،باقیماندہ ریاستوں میں بھی اوائل اکتوبر تک انتخابات کاعمل مکمل ہوناہے۔اس سال انجام پذیرہونے والے انتخابات کے نتائج جہاںآئندہ 2014 میں ہونے والے عام انتخابات میںیوپی اے،این ڈی اے اوردیگرغیراتحادی جماعتوں کامستقبل بھی طے کریں گے، وہیں کانگر یس کی غریب دشمن پالیسیوں کے نتیجے میں ٹوٹ چکے ملک کے 80فیصدباشندوںیعنی غریبوں اور مزدوروں کو کانگریس سے اپناحساب کتاب برابر کرنے کاموقع بھی فراہم کریں گے۔ بہرحال ہمیںآج ہندوستان کے اس طبقہ کے حوالے سے گفتگوکرنی ہے جسے نام نہادسیکولر جماعتیں اپنازرخریدغلام تصورکرتی ہیں اورانہیں اطمینان رہتاہے کہ ایک عددمخلص قائداوررہنماسے محروم مسلم طبقہ محض ایک فرقہ ورانہ فسادکے خوف سے ہی سہم جائے گااوربھیڑکے ریوڑکی طرح صف بستہ ہوکران کی جھولی میں اپنے ووٹ ڈالنے پرمجبورہوجائے گا،آزادی کے بعدملک بھرمیں لگ بھگ انہیں خطوط پرکانگریس بشمول دیگر سیکولر جما عتیں کاربندرہی ہیں۔زیرنظرمضمون میں کانگریس پارٹی کاجائزہ لیاجارہاہے دیگرسیاسی جماعتوں کی حیثیت علاقائی نوعیت کی ہیں،جبکہ کچھ سیاسی جماعتوں کے شعبدہ بازسربراہوں کے فریب کاگھڑاپھوٹ چکاہے اورانکی چال بازیوں کوخصوصامسلم رائے دہندگان نے متعددبارمواقع فراہم کرکے بحسن وخوبی سمجھ لیاہے۔کانگریس کادعویٰ ہیکہ اسکی حیثیت ایک قومی پارٹی کی ہے،لہذامناسب معلوم ہوتاہے کہ آج کی تحریرمیں صرف کانگریس پارٹی کی بات کی جائے،تاکہ قارئین کوہماری معروضات کے سمجھنے میں کسی قسم کاجھول محسوس نہ ہو اورمضمون کے گڈمڈ ہونے کااندیشہ بھی دامن گیرنہ ہو۔قارئین!ہم 47سے مسلسل دیکھتے آرہے ہیں کہ اقلیتوں کے تعلق سے کانگریس پارٹی نے ہمیشہ دوہراپیمانہ اختیارکیا ہے،مسلمانوں کی ترقی اورفلاح وبہبودکے معاملے میں کانگریس ہمیشہ قول وعمل کے تضاد کا شکاررہی ہے،چاہے وہ صوبائی یاریاستی ایوانوں میں اقلیتوں کومناسب نمائندگی دینے کامسئلہ ہویاسرکاری ادار و ں میں ان کیلئے روزگارکی فراہمی کا۔یہ لٹی پٹی قوم ہرمحاذپرنظراندازکی گئی اوراس کی گذارشوں اور مطالبو ں کو پا یے حقارت سے ٹھکرایاجاتارہا۔کانگریس پارٹی میں فرقہ پرست عناصرکاغلبہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے،کانگریس کوجہاں کوئی سیکولرلیڈرنہیں ملتاتوبی جے پی سے امپورٹ کرلیاجاتاہے ،مثال کے طورپرآپ شنکرسنگھ واگھیلاکی تاریخ پڑھ سکتے ہیں۔مجھے یادآتاہے 30جنو ری 1948کاوہ بھیانک واقعہ جس کے نتیجے میں بابائے قوم مہاتماگاندھی کوموت کی نیندسلادیاگیااورجس دہشت گردی نے چشم زدن میں پورے ملک کو یتیم کردیاتھا، میں بتانایہ چاہ رہاہوں کہ اگرایک طرف بابائے قوم مہاتماگاندھی کوقتل کرنے کیلئے آرایس ایس کی ناپاک ذہنیت لائحہ عمل مرتب کررہی تھی تودوسری جانب خودکانگریس میں شامل کچھ انسانیت دشمن عنا صراس منصوبہ کوپایہ تکمیل تک پہنچانے میں حائل رکاوٹیں دورکرنے کافریضہ اداکررہے تھے۔ بالاٰخر مہا تما گا ند ھی قتل کردئے گئے،اس کے بعدبھی کانگریس میں شامل فرقہ پرست عناصرکی نفرت کی آگ سرد نہیں ہوئی، جواہر لال نہروسے وابستہ کانگریسی گاندھی کے قاتلوں کو عبرتنا ک سزادلانے کی تگ ودومیں لگے تھے توکانگریس میں ہی شامل دوسراطبقہ قاتلوں کوبچانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا تھا ۔یہ تورہی ایڈین نیشنل کانگریس میں فرقہ پرست عناصرکے غلبہ کی باتیں۔اب آئیے سرسری طورپرکانگریس پارٹی کے دعوائے مساوات اورکانگریس کاہاتھ عام آدمی کے ساتھ جیسے نعروں کی حقیقت کاپتہ لگائیں کہ اس نعرے میں کچھ سچائی بھی ہے یایہ غریبوں کوجذباتی طورسے بلیک میل کرنے کااجارہ داروں اورسرمایہ کاروں کامنصوبہ بندفریب ہے۔اس سلسلے میں مناسب معلوم ہوتاہے کہ سب سے پہلے کانگریس کی تشکیل اوروجودکے ابتدائی حالات کوجاناجائے ،تاکہ کانگریس کے عام آدمی کی پارٹی ہونے کی حقیقت بآسانی سمجھ میںآجائے۔قارئین!کانگریس کی تشکیل 1885میں انگریزی داں ہندوستانیوں کے کلب کے طورپرہوئی تھی۔کلب کی رکنیت اعلی تعلیم یافتہ رئیسوں زمینداروں اورانگریزی حکومت میں شامل سینئرافسروں تک ہی محدودتھی۔اس دعویٰ کواحمقانہ تاویل ہی کہاجائے گاکہ کانگریس پارٹی میں امیروغریب اوراعلیٰ وادنیٰ کوبلاامتیازمقام حاصل تھا۔کلب والے ماحول میں غریبوں کی شمولیت کی باتیں اپنے آپ میں خودہی ایک مذاق ہے۔یہ تصورسے بھی بالاترہے کہ جس تنظیم کی تشکیل رؤسائے وقت کی تفریح طبع کیلئے ہوئی ہو۔وہاں غریبوں مزدوروں کوکھڑاہونے کی اجازت رہی ہوگی؟جبکہ تاریخی صداقت یہ ہے کہ اس وقت جاگیردارنہ اورزمیندارانہ ماحول میں کمزوروں،بے بسو ں اور مفلوک الحال انسانوں کو پالتو جا نو رو ں سے بھی ہیچ سمجھاجاتاتھا۔یہاں ہمارے پاس ان حقائق کاتاریخی ثبوت پیش کرنے کی گنجائش نہیں ہے،ہم توصرف اس پہلوپرروشنی ڈالناضروری سمجھتے ہیں جوہماری آج کی تحریر کا مقصدہے۔میں نے عرض کیاہے کہ کانگریس کاقیام امرائے ہندکی تفریح طبع کیلئے ایک کلب کی شکل میں ہوا تھا، کلب کے ماحول میں غریبوں کے داخلے کے دعوے کوتاریخ کے ساتھ عصمت دری کے علاوہ اورکہابھی کیا جاسکتاہے۔اگرقسمت سے کسی ایک آدھ کواس کلب میں شرکت کا زریں موقع مل گیاہوتویہ ممکن ہے،مگرمجموعی طورسے اس جماعت پرغلبہ امرائے ہندکاہی رہاہے۔ امیروں کوغریبوں مزدوروں سے ہمیشہ نفرت رہی ہے ، ہمیشہ دھنوانوں نے غریبوں کی ہڈیوں کاسرمہ بناکراپنی آنکھوں کوزینت بخشی ہے۔
آج مسلمانوں کی تباہی وبربادی اورپسماندگی کاجورونارویاجارہاہے اورمسلمانوں کی ترقی کیلئے بڑے شہروں کے فائیواسٹارہوٹلوں میں نام نہاد ملی رہنماؤں کے ذریعہ جومجلسیںآراستہ کی جارہی ہیں اس کی حقیقت بس اتنی ہے کہ یہ ساری مٹنگیں خودکانگریس یاکسی نہ کسی سیکولرجماعت کی عنایتوں کے طفیل منعقد ہوتی ہیں۔اس میں شرکت کرنے والے عناصرکرایے پربلائے گئے ہوتے ہیں اورمیٹنگوں کے کنوینروہ لوگ ہوتے ہیں جوکئی پشتوں سے مسلم اقلیتوں کیلئے دیے جانے والے فنڈکواپناموروثی مال سمجھے بیٹھے ہیں۔اگرآپ سروے کریں تو اندازہ ہوگاکہ ہندوستان کے 30کروڑمسلمانوں کی فلاح وبہبودکیلئے دی جانے والی خطیررقم مصیبت زدہ ،بے بس اورانتہائی مفلوک الحال غریبوں کی ترقی اوربھلائی میں استعمال ہونے کی بجائے چندجاہ پرست صاحب جبہ ودستارکی جیبوں میں چلی جاتی ہے۔ مختصریہ کہ ملک کی مسلم اقلیتوں کے 98فیصدآبادی کی پسماندگی دورکرنے کیلئے دی جانے والی مرکزکی رقم پرصرف ان 2فیصدسفیدپوش مسلم نماایمان فروشوں کی اجارہ داری ہے جن کے آباء واجدادکل غلامی کے عبرتناک دورمیں بھی انگریزی آقاؤں کی مہربانیوں سے لطف اندوزہورہے تھے اورآزادی کے بعدملک میں سوراج کے قیام کے بعدبھی اقلیتوں کی فلاح وترقی سے متعلق تمام اسکیمیں اوررقوم انہیں کی مٹھیوں میں قیدہیں۔بعدکے ادوارمیں چنددوسرے مسلم خاندانوں کو بھی لٹیروں کے اس قافلہ میں شامل ہونے کاموقع ملا،مگران کی تعدادآٹے میں نمک برابرہے۔ اگرآپ عقیدت اوراندھی اردادت مندی کی عینک اتار کر حا لات کاجائزہ لیں تواندازہ ہوگاکہ ملک بھرمیں جن خاندانوں کے چشم وچراغ آج ہندوستان کے مسلما نوں کی بے سروسامانی اورپسماندگی کارونارورہے ہیں انہیں اوران کے اجدادکوشاہانہ اورپرتعیش زندگی ہمیشہ حاصل رہی ہے۔یعنی حالات کی ستم ظریفی کارخ کبھی ان کے گھرکی جانب نہیں ہوا۔تقسیم وطن کی قیامت خیزی میں بھی وہ مامون ومحفوظ رہے اور47سے لے کرآج تک ملک بھرمیں برپاکئے جانے والے فرقہ ورانہ فسادات میں بھی مسلمانوں کایہ طبقہ اپنی تمام عیش وعشرت کیساتھ حکومت کی پناہ میں بے خوف ومامون رہااورمسلمانوں پرٹوٹنے والی ہرقیامت کے بعدمنصوبہ بندطریقے سے انہیں مظلو مو ں کی لاشوں پر سیاست کرنے کاموقع فراہم کیاگیا۔ یہ ساراکھیل نام نہادسیکولرجماعت یعنی کانگریس کے ذریعہ کئی دہائی سے کھیلاجارہاہے۔کانگریس پارٹی میں شامل مسلم لیڈروں کوسب کچھ دیکھتے ہوئے خاموش رہنے کی ہدایت ہے۔یعنی انہیں اس سے قطعی مطلب نہیں ہوناچاہئے کہ ان کی پارٹی میں موجود فرقہ پرست عناصر کیا کررہے ہیں۔اگرانہیں شاہانہ ٹھاٹ باٹ اورعیش وعشرت سے مالامال زندگی کی ضمانت چاہئے تووہ بس خاموش رہیں اورتما م فرقہ ورانہ فسادات کے بعد ایک ایجنٹ کی طرح پارٹی کی کالی شکل پرملع سازی کاکرتب د کھاتے ہوئے مسلمانوں کوالوبناتے رہیں۔اگرکسی نے فرقہ پرستوں کی جانب انگلی اٹھانے کی جرأت کی تواسے عبدالرحمن انتولے کی طرح پارٹی سے ہمیشہ کیلئے فارغ کردیاجاتاہے۔عبدالرحمن انتولے کو سادھوی پرگیہ کی دہشت گردی کے انکشافات کے بعدزبان کھولنے کی سزافوراً دیدی گئی تھی۔
قارئین !میں نے اوپرعرض کیاہے کہ ملک کی اقلیتوں کی فلاح وبہبودکیلئے مرتب کردہ تمام اسکیموں پر پورے ہندوستان سے جمع کرکے کانگریس نے محض چندمسلم خاندانوں کامکمل تسلط قائم کردیاہے، تاکہ ملک بھرکے مسلما نوں کی بہتری کیلئے کسی بھی قسم کے اقدامات کی عملی کوشش نہ کرنی پڑے،بلکہ انہیں چندخاندانوں کوبہرہ مند کر کے پورے ملک کے مسلمانوں کی واہ واہی بٹورلی جائے۔اگرکانگریس پارٹی اپنے قول وعمل میں تضادکاشکارنہ ہوتی توان کے خاندانوں کے چشم وچراغ کے آگے ایسے مسلم لیڈروں کی تلاش بھی کی جاتی جوخاندانی اعتبا ر سے چاندی کاکٹورامنہہ میں لیکرپیدانہ ہوئے ہوں،بلکہ انہوں نے اپنی قوم کودرپیش مصائب وآلام کابذات خودسامناکیاہواورقوم کی بھلائی وخیرخواہی کے نیک جذبہ نے انہیں عملی طورپرسرگرم ہونے کیلئے بے چین وبے قرارکررکھاہو۔مگرملت اسلامیہ ہندکاالمیہ یہ ہے کہ یہاں مسلمانوں کی اکثریت ہمیشہ غربت وافلاس کا سا ما ن رہی ہے۔بادشاہوں اورنوابوں کے دورمیں بھی مٹھی بھرزمین داروں نے غریب ہندوستانی مسلما نو ں کا لہو اپنے لئے حلال کررکھاتھااورآزادی کے بعددونوں طرف انہیں مٹھی بھرخاندانوں کے ہاتھوں میں کروڑوں مسلما نو ں کی تقدیرتھمادی گئی۔تقسیم شدہ ہندوستان کے دونوں جانب دیکھ لیں اگراس کنبہ کے کچھ فردہندوستانی سیاست میں سرگرم رہے تواسی خاندان کے کچھ شعبدہ بازوں نے سرحدپارجاکرسیاسی دکانیںآراستہ کرلیں اور دنیاکی تما م ترقیات کوصرف اپنے لئے فرض کرکے بیٹھ گئے۔ہم کوشش کریں گے کہ ان حقائق کومدلل طریقے سے آپ کے سامنے رکھ سکیں جس سے بات ہندوستان کے بھولے بھالے مسلمانوں کی سمجھ میںآجائے کہ کس طرح وہ اس وقت کانگریسی دلالوں کے چنگل پھنسے ہیں اورکس کس طرح انہیں خریدااوربیچاجارہاہے۔ہم اپنی مقدور بھر کوشش یہ بھی رہے گی کہ چھان بین کرکے ان خاندانوں کے چہروں کوبھی بے نقاب کیاجائے جنہوں نے مسلمانوں کی فلاح سے متعلق منصوبوں کوسرکاری ٹھیکہ کے طورپرحاصل کررکھاہے۔

Sunday, January 13, 2013

پہلے اپنے گھرکی خبرلیجے!


خاتون کی آبروریزی پرسیاسی روٹی سینک رہا بایاں محاذخودسے ہی بے خبر
میم ضادفضلی
ابھی ابھی دارالحکومت دہلی میں خواتین کی آبرومحفوظ نہیں ہے۔گزشتہ ایک ماہ سے عورتوں کے تحفظ کے موضوع پراحتجاج کاطوفان اٹھاہواہے جس میں روزکوئی نہ کوئی آبروریزی کی نئی واردات غم وغصے کی لہرکواورتیزکردیتی ہے۔ دہلی میں ایک متاثرہ لڑکی کے حق میں شروع کی گئی اس تحریک کا آغازنہ صرف بائیں بازوکی طلبا تنظیموں کی تحریک پر ہوا بلکہ کئی ترقی پسندفکروں کے حامل کئی مقالہ نگاروں نے لکھ پڑھ کر اس کا کریڈٹ بھی لیا کہ بایاں بازوتنہاایسا مکتبہ فکرہے جہاں کسی بھی ظلم جوراورناانصافی کے خلاف مظاہرے اوراحتجاج کی قیادت کی بھرپورصلاحیت موجودہے۔ تحریکیں چھیڑنے کی یہ بات اپنی جگہ لیکن کیا خواتین کی بالادستی کی دہائی کمیونزم نظریات اوراشتراکیت نواز لوگ جودہلی میں دے رہے ہیں کیاان کے نظریات کی ترجمانی کرنے والے دور دراز ہندوستان میں آباد انقلابی ان کی بات سے کوئی اتفاق رکھتے ہیں؟ زمینی حقائق تویہی ہیں کہ کبھی مادیت پسندانہ نظام اورآمریت کے خلاف شروع ہونے والاانقلاب آج خودسیکڑوں قسم کے استحصال کی لامتناہی داستان بن کر رہ گیا ہے۔ جس میں صنف نازک کے جسم کا استحصال سب سے اہم ہے۔ کچھ واقعات کو جوڑ کر دیکھنے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نہ صرف نکسلی تحریک فری سیکس کے پھندے میں پھنستی جا رہی ہے، بلکہ قبائلی علاقوں میں لڑکیوں کے استحصال کے معاملوں میں بھی نکسلی اور ماؤنواز انتہاپسندشامل پائے جا رہے ہیں۔
واقعہ نومبر 2012 کا ہے، چھتیس گڑھ کے بیجا پور ضلع کی پولس نے مدیڑ تھانہ علاقہ میں 11 اور 12 سال کی دو ایسی نابالغ لڑکیوں کا معاملہ درج کیا، جن کے ساتھ نکسلیوں نے جنسی درندگی کاننگارقص کیاتھا۔ دونوں لڑکیوں نے نکسلی رکن کوڑیم گوجا، ناگیش اور شیواجی پر جسمانی استحصال کا الزام عائدکیا تھا۔ یہ کم سن بچیاں پولس کو اس وقت دستیاب ہوئیں جب ضلع پولس فورس اور مرکزی ریزرو پولس فورس (سی آر پی ایف) کی مشترکہ ٹیم مدیڑ علاقے میں گشت اورتفتیشی مہم کے لئے روانہ ہوئی تھی۔گشت کے دوران گاؤں سے متصل جنگل میں پولس ٹیم کویہ دونوں نابالغ لڑکیاں ملیں۔ پولس کے ذریعہ تفتیش  کے دوران لڑکیوں نے بتایا کہ نکسلی کوڑیم گوجا اور اس کے ساتھی انہیں زبردستی اپنے ساتھ لے گئے تھے اور جنگل میں کوڑیم گوجا، ناگیش اور شیواجی نے جبرا ان کی آبرو کو تار تار کیاہے۔دونوں لڑکیوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ان کے جسمانی استحصال کا سلسلہ کافی عرصے سے چل رہا تھا۔ نکسلی انہیں گاؤں آ کر لے جاتے ہیں۔ ان سے کام کرواتے ہیں اور ڈرا دھمکا کران سے جنسی تعلقات بناتے ہیں۔ خاندان والوں کے منع کرنے پر انہیں جان سے مار ڈالنے یا گاؤں سے نکال دینے کی دھمکی دیتے ہیں۔ لڑکیوں نے بتایا کہ وہ اپنے گاؤں واپس نہیں جانا چاہتی ہیں اور وہ کبھی اسکول نہیں گئی ہیں، اب آشرم میں رہ کر پڑھنا چاہتی ہیں۔ ضلع کے پولیس سپریٹنڈنٹ پرشانت اگروال کہتے ہیں کہ لڑکیوں کی طرف سے اس کی اطلاع دینے کے بعد پولیس کی ٹیم نے انہیں قدرے محفوظ بیجا پور پہنچایا اور ان کی رپورٹ پر دو نومبر کو نکسلیوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ دونوں لڑکیوں کی طبی تفتیش میں ان کے جسمانی استحصال کی تصدیق ہوئی ہے۔ ضلع پولس اہلکار نے بتایا کہ پوچھ تاچھ کے دوران لڑکیوں نے اطلاع دی ہے کہ ان جیسی اور بھی کئی لڑکیاں ہیں جنہیں گاؤں سے اغواکرکے نکسلی اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور ان کا جسمانی استحصال کرتے ہیں۔ لڑکیوں کے والدین کی طرف سے اس کی مخالفت کرنے پر انہیں گاؤں سے باہر نکال دینے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ نکسلیوں نے دیہی باشندوں کو لڑکیوں کو پڑھانے سے منع کیا ہوا ہے۔ فی الحال پولس دونوں لڑکیوں کی بازآبادکاری اور تعلیم کیلئے مناسب انتظامات کر رہی ہے۔معصوم لڑکیوں کے جنسی استحصال کی یہ حقیقت اس وقت سامنے آئی جب پولس نے انہیں پکڑا۔ چھتیس گڑھ کے نکسلی علاقوں کی حقیقت یہ ہے کہ نکسل علاقوں میں قبائلیوں کی بیٹیاں نہیں پڑھ پا رہی ہیں۔ گھروں میں قید ان ننھی جانوں پر نکسلیوں کا قہرمسلسل جاری ہے۔ نکسلی نہ صرف ان کا جنسی استحصال کر رہے ہیں بلکہ ان لڑکیوں کا استعمال نکسلی علاقے میں تعینات سکیورٹی اہلکاروں کو پھنسانے کے لئے بھی کر رہے ہیں۔ مرکزی وزارت داخلہ کو موصول اطلاعات کے مطابق نکسل دہشت گرد12سے16سال کی لڑکیوں سکیورٹی اہلکاروں کو پھنسانے کیلئے تربیت دے رہے ہیں۔ وہیں نکسل لیڈر ان لڑکیوں کا جنسی استحصال بھی کر رہے ہیں۔ لڑکیوں کو نہیں بھیجنے والے خاندان کو جان سے مارنے کی دھمکی دی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نکسلی باری سے اپنی بھرتیوں میں لڑکوں کے علاوہ ’بال سنگم‘ میں لڑکیوں کو بھی مسلح تربیت دے رہے ہیں۔ وزارت داخلہ کے ذرائع کے مطابق گونڈی زبان میں برآمد کچھ کاغذات کے حوالے سے موصولہ معلومات سے یہ واضح ہوا ہے کہ باغیوں نے کچھ لڑکیوں کو خاص طور پر تربیت دی ہے تاکہ وقت پر وہ سکیورٹی اہلکاروں کو ان کے ہی جال میں پھنسا سکیں۔
غریب قبائلی لڑکیوں کے جنسی استحصال کی رپورٹیں پہلے جھارکھنڈ اور مغربی بنگال کی خاتون نکسل رہنماؤں نے دی تھیں۔ اب چھتیس گڑھ کے بیہڑ میں بھی ’سوئٹ پوائزن‘ کے نام سے کچھ لڑکیوں کی ٹیم تیار کی گئی ہے۔ سیاسی طور پر انتہائی حساس اس ایشو پر فی الحال کوئی بھی کھل کربولنے کو تیار نہیں ہے لیکن نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تمام رہنما اس کااعتراف کرتے ہیں کہ غریب لڑکیوں کے جسم کو نکسلی دہشت گرد طویل عرصے سے بھنبھور رہے ہیں۔ مقامی ضلع پنچایت اور گاؤں کی سطح پر جنسی استحصال کے واقعات کامتعددبارانکشاف ہو چکا ہے۔
فری سیکس میں پھنسی تحریک
فروری، 2009 میں کسانوں کی خود کشی کیلئے شہ سرخیوں میں رہنے والے ودربھ کے گڑھ چرولی ضلع میں نکسلیوں نے ایک خوفناک حملہ کیا تھا۔ 15 پولس اہلکاروں کو نکسلیوں نے بے رحمی سے تڑپا تڑپا کر مارا تھا اور خود صحیح سلامت بھاگنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ بعد میں پولس نے جنگلوں کی گہرائی سے خاک چھاننے کے بعد نکسلیوں کا کچھ سامان ہی برآمد کیا تھا۔ بھاگتے وقت نکسلی کثیر مقدار میں اپنا لٹریچر اور دوسرا سامان چھوڑ گئے تھے۔ اس سے نکسلیوں سے متعلق کچھ سنسنی خیز انکشاف ہوئے ہیں۔ جو کاغذات وہاں سے برآمد ہوئے تھے اس میں کچھ کاغذات ایسے بھی تھے جو نکسلیوں کے سرفہرست لیڈران کی طرف سے تنظیم میں بڑھ رہے فری سیکس کے ماحول کو صاف صاف بیان کر رہے تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ نکسلی تنظیم کے اندر بھی اس آزاد جنسی درندگی پرتشویش پائی جاتی ہے۔
سیکس پاور کی دواؤں کاچلن عام
2011 میں بھی بہار اور جھارکھنڈ میں کئی خاتون نکسلیوں نے یہ تسلیم کیا کہ ان کے ساتھ کئی مرد نکسلیوں نے جسمانی تعلقات بنائے۔ جھارکھنڈ پولس نے نکسلی علاقوں سے مانع حمل سمیت سیکس پاور بڑھانے والی گولیاں،کنڈوم وغیرہ بھاری مقدار میں برآمد کئے تھے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ نکسلی پالیسی ساز اپنی لڑائی کوعوامی تحریک کی شکل دینا چاہتے ہیں۔ لیکن اس کیلئے تنظیم میں 40 فیصد خواتین کا ہونا ضروری ہے۔ اس مقصدکے تحت بڑی تعداد میں خواتین کو شامل کیا گیا تھا،انہیں ٹریننگ بھی دی گئی۔ کئی حملوں میں خواتین کا اہم کردار رہا۔ ایسا نہیں ہے کہ نکسل تحریک سے وابستہ زیادہ ترلوگ اس سے ناواقف ہیں۔ نکسلی لیڈر اس بات سے فکر مند ہیں جس کی تصدیق گڑھ چرولی واقعہ کے بعد برآمدکاغذات سے ہوتی ہے لیکن یہ حقیقت بھی سامنے آ رہی ہے کہ نکسل تحریک سے وابستہ ہونے والی خواتین اب پچھتا رہی ہیں،انہیں شدت سے یہ احساس ستانے لگاہے کہ نکسل رہنماؤں نے ان کے اعتمادکاخون کیاہے ۔ نکسلی رہنماؤں نے اس حیوانیت کاسخت نوٹس لیتے ہوئے مرد نکسلیوں کو خواتین سے دوری بنائے رکھنے کی ہدایت دی ہے۔تنظیم کے پالیسی سازوں نے نئے قوانین وضع کئے ہیں جنہیں نہیں ماننے پر سزا دینے کی تجاویزموجود ہیں۔
40 فیصد خواتین کو شامل کرنے کا منصوبہ ہنوزخواب
اس بات کے امکان سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ نکسل باغیوں میں ایڈس کی صورتحال سنگین ہو رہی ہے۔ زیادہ تر نکسل لیڈر جانتے ہیں کہ سیکس اورجنسی بے راہ روی کاشکارہوکر تنظیم کے رکن خود کو کمزور کر رہے ہیں۔ ایچ آئی وی کا شکار ہو رہے ہیں۔ جنگل میں بھاگتے چھپتے جانچ اور علاج کوئی آسان کام نہیں ہے۔ جب یہ تلخ سچائیاں باہر جائیں گی تو تنظیم میں 40 فی صد خواتین کو شامل کرنے کا مقصد کبھی پورا نہیں ہو گا اور لڑائی کبھی عوامی تحریک کی شکل نہیں لے سکے گی۔ دسمبر 2006 میں بھی یہ خبر آئی تھی کہ ودربھ کے گڑھ چرولی ضلع میں ہی جب نکسلی کیمپ پر پولس نے چھاپہ مارا تو وہاں سے کنڈوم، سیکس پاوربڑھانے والی دوائیں اور فحش فلم کی سی ڈیز وغیرہ بڑی مقدار برآمدہوئی تھیں۔
ایک خاتون پرجھپٹتے ہیں چار پانچ نکسلی درندے
تقریبا پانچ سال قبل ایک اور خبر آئی تھی، اندرا عرف پشپکلا نام کی ایک نکسلی خاتون نے پولس کے سامنے خود سپردگی کی تھی۔ خود سپردگی کے بعد اس نے پولس کو بتایا کہ اس کے ڈپٹی کمانڈر نے کئی باراس کی عصمت دری کی۔خاتون نے یہ بھی بتایا کہ تنظیم میں ہر خاتون کم سے کم چار پانچ نکسلیوں کی ہوس کی بھوک مٹانے یذمے داری نبھانے پرمجبور ہے۔ اس سے کئی خاتون شدید جنسی بیماریوں سے متاثر ہوچکی ہیں۔ 24 سالہ سونو نامی دوسری نکسل خاتون نے پولس کے سامنے خودسپردگی کی اس نے بھی کچھ اسی قسم کے درد کااظہارکیاتھا ۔ اس نے پولس کو بتایا کہ کم عمری ہی میں وہ نکسلی تحریک میں شامل ہو گئی تھی۔ اس وقت اسے اس بات کا قطعی اندازہ نہیں تھا کہ یہاں اس کے اپنے ہی اس کی آبرو تار تار کریں گے۔ اسے ایک نکسلی کمانڈر سے پیار ہوگیا،اس سے شادی کی۔ لیکناس کے برے دن تب شروع ہوئے جب اس کا نکسلی شوہر پولس مڈبھیڑ میں مارا گیا۔ اس کے بعد دوسرے ساتھیوں کی صرف نگاہوں تک نظر آنے والی جنسی ہوس حقیقت میں سامنے آ گئی۔ کئی نکسلیوں نے اس کے ساتھ اپنے ہوس کی بھوک مٹائی۔بالآخر سونو کو وہاں سے بھاگنا پڑااوراس نے اپنی سرگذشت سے پولس کو واقف کیا۔ سونو نے بھی پولس کو یہی بتایا تھا کہ تنظیم کی ہر عورت تین چار نکسلیوں کی کی ہوس کا شکار ہوتی ہے۔
موت کا زندہ شکار
چندبرس قبل پولس نے سوشیلا نام کی ایک نکسل سپاہی کوگرفتارکیا تھا۔ جب اسے گرفتار کیا گیا تو وہ شدید جنسی بیماری سفلس سے متاثر تھی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ نکسلی تنظیم میں شامل ہر خاتون کی ایسی ہی درد بھری کہانی ہے۔ ان کے ذہن ودماغ میں تنظیم میں آنے کا پچھتاوا ہے۔ توکیا ان کیلئے حالات سانپ چھچھندر کی طرح ہیں۔اگروہ خود سپردگی کرتی ہیں تو باقی عمر جیل میں گزرنے کا خطرہ ہے اور تنظیم میں بغاوت کی تو اس کی سزا جیل سے مزید خوفناک ہوگی۔ گڑھ چرولی کے واقعہ میں پولس اہلکاروں کو تڑپا تڑپا کر بے رحمی سے مارنے والی نکسل کمانڈر بھلے ہی عورت تھی لیکن نہ جانے کتنی خواتین ہوس کا شکار ہو کر تنظیم میں ہر دن خود تڑپ تڑپ کر زندہ موت کا نوالہ بن رہی ہیں۔
محبت کی سزا نس بندی
نکسل متاثرہ چھتیس گڑھ میں جنگلوں کی خاک چھان رہے نکسلیوں کو محبت کی بھی سزا دی جاتی ہے۔ نکسلی یہاں محبت تو کر سکتے ہیں، لیکن اپنا گھر نہیں بسا سکتے۔کانکیر ضلع میں محبت کرنے والے نکسلی کمانڈروں کے مطابق شادی سے پہلے ہی ان کی زبردستی نس بندی کر دی جاتی ہے یعنی ہوس کی بھوک مٹانے کی توکھلی چھوٹ ہے مگرشادی کی اجازت نہیں۔ گزشتہ دنوں چھتیس گڑھ کے کانکیر ضلع میں سینئر پولس افسران کے سامنے خود سپردگی کرنے والے نکسلیوں نے نکسل رہنماؤں کے ذریعہ خواتین کے جنسی استحصال کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ محبت کرنے والے نکسلی ارکان سابق بستر ڈویژن کمیٹی کے رکن سنیل کمار متلام، اس کی بیوی اور کور کمیٹی کا کمانڈر جینی عرف جینتی، پرتاپور علاقے کے پبلک ملیشیا کمانڈر رام داس، اس کی بیوی پانی ڈوبیر (کوئلی بیڑا) ایل اوایس کی ڈپٹی کمانڈر سوشیلا، سیتا پور (کوئلی بیڑا) ایل اوایس کمانڈر جئے لال، اس کی بیوی سیتا پور ایل اوایس کی رکن آسمانی عرف سنائے اور راوگھاٹ میں سرگرم پلاٹون نمبر 25 کی رکن سامو منڈاوی نے اپنی آپ بیتی سنائی۔ انہوں نے بتایا کہ جنگل میں ان کے ساتھ آندھرا پردیش کے نکسلی لیڈرحیاسوز سلوک تو کرتے ہی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ انہیں محبت کرنے کی سزا بھی دی جاتی ہے۔ سنیل (31 سال) نے بتایا کہ تین نکسلیوں نے اپنی بیوی کے ساتھ محبت کی تھی اور تینوں مردوں کی شادی سے پہلے ہی نس بندی کر دی گئی۔جب وہ 17 سال کا تھا تب نکسلی اس کے گاؤں پہنچے اور اسے اپنے ساتھ لے کر چلے گئے۔ نکسلیوں نے سشیل کو تربیت دی اور وہ سرگرم نکسلی رکن بن گیا۔ اس دوران وہ کئی وارداتوں میں شامل رہا جس میں کئی پولس اہلکار شہید بھی ہوئے۔ سنیل نے بتایا کہ جب وہ نکسلی رکن کے طور پر کام کر رہا تھا تب اسے چیتناناٹیہ منڈل کی کمانڈر جینی عرف جینتی کروٹی کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ جینی سے اس کی جان پہچان ہوئی اور بعد میں یہ جان پہچان محبت میں بدل گئی۔ جب سنیل اور جینی نے شادی کرکے اپنا گھر بسانا چاہا تو نکسلی رہنماؤں نے اس کی محبت کو قبول کر لیا، لیکن اسے گھر بسانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ نکسلی رہنماؤں نے کہا کہ جب سنیل نس بندی کرا لے گا تبھی اسے جینی کے ساتھ شادی کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ جینی کو حاصل کرنے کے لئے سنیل نے ایسا ہی کیا۔ یہی صورت حال رام داس اور جئے لال کی بھی ہے۔ انہیں بھی محبت کرنے کی اجازت تو دی گئی لیکن جب شادی کی باری آئی تو ان کی نس بندی کر دی گئی۔ سنیل نے بتایا کہ یہی سلوک ان تمام نکسلیوں کے ساتھ ہوتا ہے جو جنگل میں کسی خاتون نکسلی سے محبت کرنے کی جسارت کرتاہے اور وہ اس سے شادی کرنا چاہتا ہے۔سنیل نے بتایا کہ نکسلی رہنماؤں کا خیال ہے کہ ایک بار شادی ہو گئی اور بال بچے ہوئے تو نکسلی رکن اپنے بچے کی بہترپرورش وپرداخت کیلئے گھر لوٹ سکتے ہیں ،جس سے ان کی تحریک خطرے میں پڑ جائے گی۔ اس سے بچنے کے لئے وہ پہلے مردوں کی نس بندی کر دیتے ہیں۔ مردوں کی ہی نس بندی کرنے کی وجوہات کے متعلق پوچھنے پر سنیل نے بتایا کہ خواتین کے مقابلے میں مردوں کی نس بندی آسان ہوتی ہے۔ کانکیر کے پولیس اہلکار راہل بھگت کا کہنا ہے کہ پولس کو اس بات کی اطلاع مسلسل مل رہی تھی کہ جنگل میں مرد نکسلیوں کی زبردستی نس بندی کر دی جاتی ہے۔ اگر نکسلی رکن عام زندگی جینے اور بچے کے لیے نس بندی کرنا چاہتے ہیں تو پولس ان کی پوری مدد کرے گی اور اپنے خرچ پر ان کا آپریشن کروائیگی۔