خاتون کی آبروریزی پرسیاسی روٹی سینک رہا بایاں محاذخودسے ہی بے خبر
میم ضادفضلی
ابھی ابھی دارالحکومت دہلی میں خواتین کی آبرومحفوظ نہیں ہے۔گزشتہ ایک ماہ سے عورتوں کے تحفظ کے موضوع پراحتجاج کاطوفان اٹھاہواہے جس میں روزکوئی نہ کوئی آبروریزی کی نئی واردات غم وغصے کی لہرکواورتیزکردیتی ہے۔ دہلی میں ایک متاثرہ لڑکی کے حق میں شروع کی گئی اس تحریک کا آغازنہ صرف بائیں بازوکی طلبا تنظیموں کی تحریک پر ہوا بلکہ کئی ترقی پسندفکروں کے حامل کئی مقالہ نگاروں نے لکھ پڑھ کر اس کا کریڈٹ بھی لیا کہ بایاں بازوتنہاایسا مکتبہ فکرہے جہاں کسی بھی ظلم جوراورناانصافی کے خلاف مظاہرے اوراحتجاج کی قیادت کی بھرپورصلاحیت موجودہے۔ تحریکیں چھیڑنے کی یہ بات اپنی جگہ لیکن کیا خواتین کی بالادستی کی دہائی کمیونزم نظریات اوراشتراکیت نواز لوگ جودہلی میں دے رہے ہیں کیاان کے نظریات کی ترجمانی کرنے والے دور دراز ہندوستان میں آباد انقلابی ان کی بات سے کوئی اتفاق رکھتے ہیں؟ زمینی حقائق تویہی ہیں کہ کبھی مادیت پسندانہ نظام اورآمریت کے خلاف شروع ہونے والاانقلاب آج خودسیکڑوں قسم کے استحصال کی لامتناہی داستان بن کر رہ گیا ہے۔ جس میں صنف نازک کے جسم کا استحصال سب سے اہم ہے۔ کچھ واقعات کو جوڑ کر دیکھنے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نہ صرف نکسلی تحریک فری سیکس کے پھندے میں پھنستی جا رہی ہے، بلکہ قبائلی علاقوں میں لڑکیوں کے استحصال کے معاملوں میں بھی نکسلی اور ماؤنواز انتہاپسندشامل پائے جا رہے ہیں۔
واقعہ نومبر 2012 کا ہے، چھتیس گڑھ کے بیجا پور ضلع کی پولس نے مدیڑ تھانہ علاقہ میں 11 اور 12 سال کی دو ایسی نابالغ لڑکیوں کا معاملہ درج کیا، جن کے ساتھ نکسلیوں نے جنسی درندگی کاننگارقص کیاتھا۔ دونوں لڑکیوں نے نکسلی رکن کوڑیم گوجا، ناگیش اور شیواجی پر جسمانی استحصال کا الزام عائدکیا تھا۔ یہ کم سن بچیاں پولس کو اس وقت دستیاب ہوئیں جب ضلع پولس فورس اور مرکزی ریزرو پولس فورس (سی آر پی ایف) کی مشترکہ ٹیم مدیڑ علاقے میں گشت اورتفتیشی مہم کے لئے روانہ ہوئی تھی۔گشت کے دوران گاؤں سے متصل جنگل میں پولس ٹیم کویہ دونوں نابالغ لڑکیاں ملیں۔ پولس کے ذریعہ تفتیش کے دوران لڑکیوں نے بتایا کہ نکسلی کوڑیم گوجا اور اس کے ساتھی انہیں زبردستی اپنے ساتھ لے گئے تھے اور جنگل میں کوڑیم گوجا، ناگیش اور شیواجی نے جبرا ان کی آبرو کو تار تار کیاہے۔دونوں لڑکیوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ان کے جسمانی استحصال کا سلسلہ کافی عرصے سے چل رہا تھا۔ نکسلی انہیں گاؤں آ کر لے جاتے ہیں۔ ان سے کام کرواتے ہیں اور ڈرا دھمکا کران سے جنسی تعلقات بناتے ہیں۔ خاندان والوں کے منع کرنے پر انہیں جان سے مار ڈالنے یا گاؤں سے نکال دینے کی دھمکی دیتے ہیں۔ لڑکیوں نے بتایا کہ وہ اپنے گاؤں واپس نہیں جانا چاہتی ہیں اور وہ کبھی اسکول نہیں گئی ہیں، اب آشرم میں رہ کر پڑھنا چاہتی ہیں۔ ضلع کے پولیس سپریٹنڈنٹ پرشانت اگروال کہتے ہیں کہ لڑکیوں کی طرف سے اس کی اطلاع دینے کے بعد پولیس کی ٹیم نے انہیں قدرے محفوظ بیجا پور پہنچایا اور ان کی رپورٹ پر دو نومبر کو نکسلیوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ دونوں لڑکیوں کی طبی تفتیش میں ان کے جسمانی استحصال کی تصدیق ہوئی ہے۔ ضلع پولس اہلکار نے بتایا کہ پوچھ تاچھ کے دوران لڑکیوں نے اطلاع دی ہے کہ ان جیسی اور بھی کئی لڑکیاں ہیں جنہیں گاؤں سے اغواکرکے نکسلی اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور ان کا جسمانی استحصال کرتے ہیں۔ لڑکیوں کے والدین کی طرف سے اس کی مخالفت کرنے پر انہیں گاؤں سے باہر نکال دینے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ نکسلیوں نے دیہی باشندوں کو لڑکیوں کو پڑھانے سے منع کیا ہوا ہے۔ فی الحال پولس دونوں لڑکیوں کی بازآبادکاری اور تعلیم کیلئے مناسب انتظامات کر رہی ہے۔معصوم لڑکیوں کے جنسی استحصال کی یہ حقیقت اس وقت سامنے آئی جب پولس نے انہیں پکڑا۔ چھتیس گڑھ کے نکسلی علاقوں کی حقیقت یہ ہے کہ نکسل علاقوں میں قبائلیوں کی بیٹیاں نہیں پڑھ پا رہی ہیں۔ گھروں میں قید ان ننھی جانوں پر نکسلیوں کا قہرمسلسل جاری ہے۔ نکسلی نہ صرف ان کا جنسی استحصال کر رہے ہیں بلکہ ان لڑکیوں کا استعمال نکسلی علاقے میں تعینات سکیورٹی اہلکاروں کو پھنسانے کے لئے بھی کر رہے ہیں۔ مرکزی وزارت داخلہ کو موصول اطلاعات کے مطابق نکسل دہشت گرد12سے16سال کی لڑکیوں سکیورٹی اہلکاروں کو پھنسانے کیلئے تربیت دے رہے ہیں۔ وہیں نکسل لیڈر ان لڑکیوں کا جنسی استحصال بھی کر رہے ہیں۔ لڑکیوں کو نہیں بھیجنے والے خاندان کو جان سے مارنے کی دھمکی دی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نکسلی باری سے اپنی بھرتیوں میں لڑکوں کے علاوہ ’بال سنگم‘ میں لڑکیوں کو بھی مسلح تربیت دے رہے ہیں۔ وزارت داخلہ کے ذرائع کے مطابق گونڈی زبان میں برآمد کچھ کاغذات کے حوالے سے موصولہ معلومات سے یہ واضح ہوا ہے کہ باغیوں نے کچھ لڑکیوں کو خاص طور پر تربیت دی ہے تاکہ وقت پر وہ سکیورٹی اہلکاروں کو ان کے ہی جال میں پھنسا سکیں۔
غریب قبائلی لڑکیوں کے جنسی استحصال کی رپورٹیں پہلے جھارکھنڈ اور مغربی بنگال کی خاتون نکسل رہنماؤں نے دی تھیں۔ اب چھتیس گڑھ کے بیہڑ میں بھی ’سوئٹ پوائزن‘ کے نام سے کچھ لڑکیوں کی ٹیم تیار کی گئی ہے۔ سیاسی طور پر انتہائی حساس اس ایشو پر فی الحال کوئی بھی کھل کربولنے کو تیار نہیں ہے لیکن نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تمام رہنما اس کااعتراف کرتے ہیں کہ غریب لڑکیوں کے جسم کو نکسلی دہشت گرد طویل عرصے سے بھنبھور رہے ہیں۔ مقامی ضلع پنچایت اور گاؤں کی سطح پر جنسی استحصال کے واقعات کامتعددبارانکشاف ہو چکا ہے۔
فری سیکس میں پھنسی تحریک
فروری، 2009 میں کسانوں کی خود کشی کیلئے شہ سرخیوں میں رہنے والے ودربھ کے گڑھ چرولی ضلع میں نکسلیوں نے ایک خوفناک حملہ کیا تھا۔ 15 پولس اہلکاروں کو نکسلیوں نے بے رحمی سے تڑپا تڑپا کر مارا تھا اور خود صحیح سلامت بھاگنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ بعد میں پولس نے جنگلوں کی گہرائی سے خاک چھاننے کے بعد نکسلیوں کا کچھ سامان ہی برآمد کیا تھا۔ بھاگتے وقت نکسلی کثیر مقدار میں اپنا لٹریچر اور دوسرا سامان چھوڑ گئے تھے۔ اس سے نکسلیوں سے متعلق کچھ سنسنی خیز انکشاف ہوئے ہیں۔ جو کاغذات وہاں سے برآمد ہوئے تھے اس میں کچھ کاغذات ایسے بھی تھے جو نکسلیوں کے سرفہرست لیڈران کی طرف سے تنظیم میں بڑھ رہے فری سیکس کے ماحول کو صاف صاف بیان کر رہے تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ نکسلی تنظیم کے اندر بھی اس آزاد جنسی درندگی پرتشویش پائی جاتی ہے۔
سیکس پاور کی دواؤں کاچلن عام
2011 میں بھی بہار اور جھارکھنڈ میں کئی خاتون نکسلیوں نے یہ تسلیم کیا کہ ان کے ساتھ کئی مرد نکسلیوں نے جسمانی تعلقات بنائے۔ جھارکھنڈ پولس نے نکسلی علاقوں سے مانع حمل سمیت سیکس پاور بڑھانے والی گولیاں،کنڈوم وغیرہ بھاری مقدار میں برآمد کئے تھے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ نکسلی پالیسی ساز اپنی لڑائی کوعوامی تحریک کی شکل دینا چاہتے ہیں۔ لیکن اس کیلئے تنظیم میں 40 فیصد خواتین کا ہونا ضروری ہے۔ اس مقصدکے تحت بڑی تعداد میں خواتین کو شامل کیا گیا تھا،انہیں ٹریننگ بھی دی گئی۔ کئی حملوں میں خواتین کا اہم کردار رہا۔ ایسا نہیں ہے کہ نکسل تحریک سے وابستہ زیادہ ترلوگ اس سے ناواقف ہیں۔ نکسلی لیڈر اس بات سے فکر مند ہیں جس کی تصدیق گڑھ چرولی واقعہ کے بعد برآمدکاغذات سے ہوتی ہے لیکن یہ حقیقت بھی سامنے آ رہی ہے کہ نکسل تحریک سے وابستہ ہونے والی خواتین اب پچھتا رہی ہیں،انہیں شدت سے یہ احساس ستانے لگاہے کہ نکسل رہنماؤں نے ان کے اعتمادکاخون کیاہے ۔ نکسلی رہنماؤں نے اس حیوانیت کاسخت نوٹس لیتے ہوئے مرد نکسلیوں کو خواتین سے دوری بنائے رکھنے کی ہدایت دی ہے۔تنظیم کے پالیسی سازوں نے نئے قوانین وضع کئے ہیں جنہیں نہیں ماننے پر سزا دینے کی تجاویزموجود ہیں۔
40 فیصد خواتین کو شامل کرنے کا منصوبہ ہنوزخواب
اس بات کے امکان سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ نکسل باغیوں میں ایڈس کی صورتحال سنگین ہو رہی ہے۔ زیادہ تر نکسل لیڈر جانتے ہیں کہ سیکس اورجنسی بے راہ روی کاشکارہوکر تنظیم کے رکن خود کو کمزور کر رہے ہیں۔ ایچ آئی وی کا شکار ہو رہے ہیں۔ جنگل میں بھاگتے چھپتے جانچ اور علاج کوئی آسان کام نہیں ہے۔ جب یہ تلخ سچائیاں باہر جائیں گی تو تنظیم میں 40 فی صد خواتین کو شامل کرنے کا مقصد کبھی پورا نہیں ہو گا اور لڑائی کبھی عوامی تحریک کی شکل نہیں لے سکے گی۔ دسمبر 2006 میں بھی یہ خبر آئی تھی کہ ودربھ کے گڑھ چرولی ضلع میں ہی جب نکسلی کیمپ پر پولس نے چھاپہ مارا تو وہاں سے کنڈوم، سیکس پاوربڑھانے والی دوائیں اور فحش فلم کی سی ڈیز وغیرہ بڑی مقدار برآمدہوئی تھیں۔
ایک خاتون پرجھپٹتے ہیں چار پانچ نکسلی درندے
تقریبا پانچ سال قبل ایک اور خبر آئی تھی، اندرا عرف پشپکلا نام کی ایک نکسلی خاتون نے پولس کے سامنے خود سپردگی کی تھی۔ خود سپردگی کے بعد اس نے پولس کو بتایا کہ اس کے ڈپٹی کمانڈر نے کئی باراس کی عصمت دری کی۔خاتون نے یہ بھی بتایا کہ تنظیم میں ہر خاتون کم سے کم چار پانچ نکسلیوں کی ہوس کی بھوک مٹانے یذمے داری نبھانے پرمجبور ہے۔ اس سے کئی خاتون شدید جنسی بیماریوں سے متاثر ہوچکی ہیں۔ 24 سالہ سونو نامی دوسری نکسل خاتون نے پولس کے سامنے خودسپردگی کی اس نے بھی کچھ اسی قسم کے درد کااظہارکیاتھا ۔ اس نے پولس کو بتایا کہ کم عمری ہی میں وہ نکسلی تحریک میں شامل ہو گئی تھی۔ اس وقت اسے اس بات کا قطعی اندازہ نہیں تھا کہ یہاں اس کے اپنے ہی اس کی آبرو تار تار کریں گے۔ اسے ایک نکسلی کمانڈر سے پیار ہوگیا،اس سے شادی کی۔ لیکناس کے برے دن تب شروع ہوئے جب اس کا نکسلی شوہر پولس مڈبھیڑ میں مارا گیا۔ اس کے بعد دوسرے ساتھیوں کی صرف نگاہوں تک نظر آنے والی جنسی ہوس حقیقت میں سامنے آ گئی۔ کئی نکسلیوں نے اس کے ساتھ اپنے ہوس کی بھوک مٹائی۔بالآخر سونو کو وہاں سے بھاگنا پڑااوراس نے اپنی سرگذشت سے پولس کو واقف کیا۔ سونو نے بھی پولس کو یہی بتایا تھا کہ تنظیم کی ہر عورت تین چار نکسلیوں کی کی ہوس کا شکار ہوتی ہے۔
موت کا زندہ شکار
چندبرس قبل پولس نے سوشیلا نام کی ایک نکسل سپاہی کوگرفتارکیا تھا۔ جب اسے گرفتار کیا گیا تو وہ شدید جنسی بیماری سفلس سے متاثر تھی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ نکسلی تنظیم میں شامل ہر خاتون کی ایسی ہی درد بھری کہانی ہے۔ ان کے ذہن ودماغ میں تنظیم میں آنے کا پچھتاوا ہے۔ توکیا ان کیلئے حالات سانپ چھچھندر کی طرح ہیں۔اگروہ خود سپردگی کرتی ہیں تو باقی عمر جیل میں گزرنے کا خطرہ ہے اور تنظیم میں بغاوت کی تو اس کی سزا جیل سے مزید خوفناک ہوگی۔ گڑھ چرولی کے واقعہ میں پولس اہلکاروں کو تڑپا تڑپا کر بے رحمی سے مارنے والی نکسل کمانڈر بھلے ہی عورت تھی لیکن نہ جانے کتنی خواتین ہوس کا شکار ہو کر تنظیم میں ہر دن خود تڑپ تڑپ کر زندہ موت کا نوالہ بن رہی ہیں۔
محبت کی سزا نس بندی
نکسل متاثرہ چھتیس گڑھ میں جنگلوں کی خاک چھان رہے نکسلیوں کو محبت کی بھی سزا دی جاتی ہے۔ نکسلی یہاں محبت تو کر سکتے ہیں، لیکن اپنا گھر نہیں بسا سکتے۔کانکیر ضلع میں محبت کرنے والے نکسلی کمانڈروں کے مطابق شادی سے پہلے ہی ان کی زبردستی نس بندی کر دی جاتی ہے یعنی ہوس کی بھوک مٹانے کی توکھلی چھوٹ ہے مگرشادی کی اجازت نہیں۔ گزشتہ دنوں چھتیس گڑھ کے کانکیر ضلع میں سینئر پولس افسران کے سامنے خود سپردگی کرنے والے نکسلیوں نے نکسل رہنماؤں کے ذریعہ خواتین کے جنسی استحصال کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ محبت کرنے والے نکسلی ارکان سابق بستر ڈویژن کمیٹی کے رکن سنیل کمار متلام، اس کی بیوی اور کور کمیٹی کا کمانڈر جینی عرف جینتی، پرتاپور علاقے کے پبلک ملیشیا کمانڈر رام داس، اس کی بیوی پانی ڈوبیر (کوئلی بیڑا) ایل اوایس کی ڈپٹی کمانڈر سوشیلا، سیتا پور (کوئلی بیڑا) ایل اوایس کمانڈر جئے لال، اس کی بیوی سیتا پور ایل اوایس کی رکن آسمانی عرف سنائے اور راوگھاٹ میں سرگرم پلاٹون نمبر 25 کی رکن سامو منڈاوی نے اپنی آپ بیتی سنائی۔ انہوں نے بتایا کہ جنگل میں ان کے ساتھ آندھرا پردیش کے نکسلی لیڈرحیاسوز سلوک تو کرتے ہی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ انہیں محبت کرنے کی سزا بھی دی جاتی ہے۔ سنیل (31 سال) نے بتایا کہ تین نکسلیوں نے اپنی بیوی کے ساتھ محبت کی تھی اور تینوں مردوں کی شادی سے پہلے ہی نس بندی کر دی گئی۔جب وہ 17 سال کا تھا تب نکسلی اس کے گاؤں پہنچے اور اسے اپنے ساتھ لے کر چلے گئے۔ نکسلیوں نے سشیل کو تربیت دی اور وہ سرگرم نکسلی رکن بن گیا۔ اس دوران وہ کئی وارداتوں میں شامل رہا جس میں کئی پولس اہلکار شہید بھی ہوئے۔ سنیل نے بتایا کہ جب وہ نکسلی رکن کے طور پر کام کر رہا تھا تب اسے چیتناناٹیہ منڈل کی کمانڈر جینی عرف جینتی کروٹی کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ جینی سے اس کی جان پہچان ہوئی اور بعد میں یہ جان پہچان محبت میں بدل گئی۔ جب سنیل اور جینی نے شادی کرکے اپنا گھر بسانا چاہا تو نکسلی رہنماؤں نے اس کی محبت کو قبول کر لیا، لیکن اسے گھر بسانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ نکسلی رہنماؤں نے کہا کہ جب سنیل نس بندی کرا لے گا تبھی اسے جینی کے ساتھ شادی کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ جینی کو حاصل کرنے کے لئے سنیل نے ایسا ہی کیا۔ یہی صورت حال رام داس اور جئے لال کی بھی ہے۔ انہیں بھی محبت کرنے کی اجازت تو دی گئی لیکن جب شادی کی باری آئی تو ان کی نس بندی کر دی گئی۔ سنیل نے بتایا کہ یہی سلوک ان تمام نکسلیوں کے ساتھ ہوتا ہے جو جنگل میں کسی خاتون نکسلی سے محبت کرنے کی جسارت کرتاہے اور وہ اس سے شادی کرنا چاہتا ہے۔سنیل نے بتایا کہ نکسلی رہنماؤں کا خیال ہے کہ ایک بار شادی ہو گئی اور بال بچے ہوئے تو نکسلی رکن اپنے بچے کی بہترپرورش وپرداخت کیلئے گھر لوٹ سکتے ہیں ،جس سے ان کی تحریک خطرے میں پڑ جائے گی۔ اس سے بچنے کے لئے وہ پہلے مردوں کی نس بندی کر دیتے ہیں۔ مردوں کی ہی نس بندی کرنے کی وجوہات کے متعلق پوچھنے پر سنیل نے بتایا کہ خواتین کے مقابلے میں مردوں کی نس بندی آسان ہوتی ہے۔ کانکیر کے پولیس اہلکار راہل بھگت کا کہنا ہے کہ پولس کو اس بات کی اطلاع مسلسل مل رہی تھی کہ جنگل میں مرد نکسلیوں کی زبردستی نس بندی کر دی جاتی ہے۔ اگر نکسلی رکن عام زندگی جینے اور بچے کے لیے نس بندی کرنا چاہتے ہیں تو پولس ان کی پوری مدد کرے گی اور اپنے خرچ پر ان کا آپریشن کروائیگی۔
No comments :
Post a Comment