مجوزہ قانون سے شےر خواروں کا بھلا ہوگا ےا پولس کا ؟
مےم ضاد فضلی
اپنے ملک مےں عدلےہ قوم ووطن کی فلاح اور تحفظ کے حوالے سے کوئی حکم نافذ کرے اور اس سے پولس کو بھرپور فائدہ حاصل نہ ہو ممکن ہی نہےں ہے ۔ چونکہ عدالت کے ذرےعہ صادر کئے جانے والے احکامات کے نفاذ ےا اس پر عمل درآمد کرانے کی ذمہ داری مکمل طور پر پولس اور انتظامےہ کی ہوتی ہے۔ لہذا اس سے براہ راست پولس وانتظامےہ کا تعلق وابستہ ہوجاتا ہے ۔ ابھی دوروز قبل ہی، کمےشن برائے تحفظ حقوق اطفال نے تحفظ حقوق اطفال کے سلسلے مےں اےک نےا قانون پاس کےا ہے جس کے تحت بچوں کی پرورش و پرداخت ، اس کی ٹےکہ کاری اور تعلےمی امور کو ےقےنی بناےا جائے گا ۔ اپنے وطن عزےز کی بدقسمتی ےہ ہے کہ آزادی کے بعد سے اب تک ےہاں صرف نت نئے قوانےن اےجاد ہوتے رہے ہےں ، مگر جن فوائد کے حصول کے لئے نئے قانون وضع کئے گئے ےا سابقہ قوانےن مےں ترمےم عمل مےں آئی اس سے مذکورہ مقاصد حاصل ہوئے ےا نہےں ؟اس وقت ےہ سوال ہر شہری دماغ مےں اٹھ رہا ہے ، لےکن کہےں سے بھی اس کا جواب ملتا نظر نہےں آتا ۔ اےک سوال ےہ بھی ہے کہ اس قسم کے قانون وضع کرنے کی ضرورت آج ہی کےوں محسوس کی گئی ۔ کےا اس سے قبل وطن مےں پےدا ہونے والے بچوں کے حقوق نہےں بخشے گئے ےاان کی تعلےم ، صحت ، پرورش وپرداخت کے حقوق پہلے والدےن پر لازم نہےں تھے ؟ اس مجوزہ قانون سے چائلڈ کمےشن کون سا تاثر پےدا کرنا چاہ رہی ہے ےہ بھی اس وقت کا نہاےت ہی اہم سوال ہے ۔ اور ےہ کہ کےا اس قسم کے قوانےن پاس کرکے محکمہ تحفظ حقوق اطفال بچوں کے مستقبل کے سےچنا و سنوارنے مےں کامےاب ہو پائے گا ؟ ان سوالات کا مناسب حل ڈھونڈنے سے قبل ضروری ہے اس پوری خبر کو پڑھاجائے جس سے مذکورہ قانون سے متعلق معلومات فراہم کی گئےں ہے ۔ ہندی روزنامہ ہندوستان نے لکھا ہے کہ مرکزی کمےشن برائے تحفظ حقوق اطفال وخواتےن بچوں کی پرورش وپرداخت ،ٹےکہ کاری اور تعلےم سے متعلق قانون پاس کررہا ہے۔ جس کے تحت بچوں کے حقوق کی پامالی کی صورت مےںوالدےن پر ان کا قہر وغضب نازل ہوگا اور ان کی شدےد بز پرس ہوگی ۔ مجوزہ قانون مےں ماں کو درپےش مسائل کا بھی جائزہ لےا جائے گا ۔البتہ خبروں مےںاس قسم کا کوئی بھی تذکرہ نہےں ہے کہ اگر مالی پرےشانےوں کی وجہ سے ماں بچوں کو اس کی لازمی سہولےات فراہم نہےں کراپارہی ہوتو اس صورت مےں محکمہ اس کا کوئی تعاون کرے گا ےا نہےں ۔ اس مسئلہ پر سنجےدہ غور کرنے کے لئے ماہرےن کی اےک نشست گذشتہ پےر کے روز سے شروع کی گئی ہے، جس مےں ان تمام منصوبوں پر تبادلہ خےال کےا جائے گا ۔وزےر برائے ترقی خواتےن واطفال رےنوکا چودھری نے مندرجہ بالا نشست کا آغاز کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کے لئے اپنی پالےسےوں کو قانون بنالےنا تو آسان ہے مگر اس پر عمل کرانا مشکل ہے ۔ اس موقع پر رےنوکا چودھری نے پلاننگ کمےشن سے گےارہوےں منصوبہ کے تحت ترقی اطفال (آئی سی ڈ ی اےس ) کے تعلق سے بچوں کی پرورش وپرداخت پر خصوصی توجہ دےنے کی سفارش کی ہے ۔ اس مرحلے پر اتنا تو کہا ہی جاسکتا ہے کہ مذکورہ نکتوں پر توجہ دےنے اور والدےن کی باز پرس کرنے جےسے قوانےن ےا سفارشات سے اپنی سےاسی دکان کی چمک تو بڑ ھ سکتی ہے۔ مگر وطن عزےز کے ان 35فےصدی نونہالوں کا کچھ فائدہ ہونے والا نہےں جو اپنی ماﺅں کی غربت کی وجہ سے مناسب خوراک نہےں پاتے اور بھوک وفاقہ کشی سے نڈھال ہو کر بالاخر اےک دن دم توڑ دےتے ہےں ۔ غربت افلاس سے ٹوئے ہوئے ان شےرخواروں کے والدےن کی حالت کا اندازہ وہ کےا لگاسکتے ہےں ،جن کے بچے سونے کا چمچمہ منہ مےں دبائے دنےا مےں آتے ہےں ۔ رےنوکا جی بچوں کی فلاح وبہبود کا انحصاران کے والدےن کی اقتصادی صلاحےتوں پر ہوتا ہے ۔ آپ خود غور کرےں صرف2006مےں 18,90,000نوزائےدہ بچوں کی اموات ان کی ماﺅں کی گودوں کو سونی کرگئی تھےں۔ ےقےنا اس کی مکمل رپورٹ ملک کے تمام سفےد پوش قاتلوں کے پاس ہوگی، جو اس وقت پورے دےش کے سےاہ وسپےد کے مالک بنے ہوئے ہےں ۔ واضح کردوں کہ رپورٹ مےں ےہ بھی بتاےا گےا تھا کہ ہر 36وےں سکےنڈ مےں کم از کم اےک بچہ پےدا ہوتے ہی دم توڑ دےتا ہے ۔ اور ان مےں اکثرےت ان غرےب ماﺅں کی ہے جنہےں اپنے جگر گوشوں کی زندگی بچانے کے لئے چند کوڑی بھی دستےاب نہےں ہوتی ۔ اےسی صورت مےں بچوں کی تعلےم ، خوردونوش اور ٹےکہ کاری سے متعلق ان کے والدےن سے باز پرس کرنا اور اس پر سختی برتنے کے لئے کوئی قانون وضع کرنا محض پولس کی جےبےں گرم کرنے کا انتظام کرنا کہاجا سکتا ہے اور کچھ بھی نہےں تقرےبا ڈےر ھ سال قبل حکومت نے بچہ مزدوری کے خلاف قانون بناےا تھا اور اس پر سختی سے عمل کرانے کے لئے پولس کو متنبہ بھی کےا گےا تھا ۔ مگر اس سے کےا فائدہ ہوا جگ ظاہر ہے ۔ غرےب و بے بس ماﺅں کے جگر گوشوں کو مزدوری واستحصال اور ٹھےکےدارو مالکوں کی اذےتوں سے آزاد تو نہےں کےا جاسکا البتہ پولس و انتظامےہ کی ناجائز آمدنی کا اےک اور دروازہ کھل گےا ۔نتےجہ ےہ ہوا کہ ان تمام علاقوں مےں جہاں بچوں سے مزدوری کرائی جاتی ہے پولےس نے گلی گلی گھوم کر کارخانداروںاور ٹھےکےداروں کے ذرےعہ اپنا ہفتہ متعےن کرا لےا ،جہاں سے پچاسوں ہزار روپے ماہوار بآسانی ان کی جےبوں مےں پہنچ جاتا ہے ۔ اور ہماری نکمی انتظامےہ رشوت خوری کی بےماری مےں مبتلا ہو کر مزےد موتی ہوتی جارہی ہے ۔ اس وقت اگر بچوں کے حقوق کے تعلق سے والدےن کے خلاف کوئی قانون وضع کےا جارہا ہے تو انصاف کا تقاضہ ےہ ہے کہ ان امور پر خصوصی توجہ دی جائے کہ والدےن جن مجبورےوں کی وجہ سے اپنے لاڈلوں کو ان کے حقوق فراہم نہےں کراپارہے ہےں اس کی اصل وجہ کےا ہے ۔ اسی کے ساتھ ےہ نکتہ بھی محل نظر رہنا چاہئے کہ اس قانون سے غرےب والدےن پولس کے استحصال اور ان کی غےر قانونی زےادتےوں کا شکار نہ ہوں اور ان کے لئے ناجائز کمائی کی اےک اور راہ نہ کھلنے پائے ۔
No comments :
Post a Comment