پہلے آئینہ میں منہ دیکھ لیجئے
میم ضادفضلی
جنگیں بھی عام طور پر معنوی جنگوں کی طرح تیغ و سنان کے ساتھ ساتھ اخلاقیات، وعدہ خلافی اور جھوٹ کی ملمع سازیوں سے عبارت ہوتی ہیں۔ اگر اس اصول کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کی حرکات و سکنات کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ یقین کرنا پڑتا ہے کہ اخلاقیات، سچائی اور وعدہ وفائی جیسی خوبےوں کا تقریبا یہاں وجودنہیں ہے۔ ایک سیاسی رہنما دوسرے پر کیچڑ اچھالتے ہوئے اس تصور سے بھی بے فکر ہوجاتا ہے کہ وہ دوسروں کے پھٹے میں ٹانگ اڑانے سے پہلے لمحہ بھر کے لئے اپنے گریبان میں بھی جھانک لے، تاکہ کچھ بھی کہنے سے قبل ان کے پاس اپنے بچاو¿ کا سامان دستیاب ہو۔ مگر اس کا کیا کیجئے گا کہ سیاسی رقابت میں آدمی ظاہری طور پر ہی اندھا نہیں ہوتا ،بلکہ انسانیت کی حدود کو پامال کرتے ہوئے عقل سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غیر مناسب نہیں ہوگا کہ سیاسی جنگ میں پنجہ آزمائی سے قبل ایک لیڈر کو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے انسانیت کا چولا اتاردینا ضروری ہے۔ حتی کہ اسے اخلاقیات سے دشمنی کرنی پڑتی ہے، مروت و مودت کو ذہن و فکر سے کھرچ کھرچ کر ہمیشہ کے لئے مٹادینا ہوتا ہے ورنہ وہ ایک کامیاب نیتا یا قومی رہنما کی صف میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔ موجودہ انتخابی دنگل میں بی جے پی کے سینئر لیڈران اپنے حریف پر جس قسم کی بہتان بازیاں اور بے ہودہ الزامات کے ڈونگرے برسار ہے ہیں، اس سے کم از کم یہی محسوس ہوتا ہے کہ مذکورہ جماعت کے سیاسی شعبدہ بازوں نے ہر جھوٹ کو خم ٹھونک کر برسرعام ہانکنے کی قسم کھارکھی ہے۔ کسی کا دعوی ہے کہ یوپی اے سرکار دہشت گردی پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے اور پورا ملک دہشت کی زد پر ہے۔ لہٰذا عوام یوپی اے بالخصوص کانگریس کو سیاسی نقشہ سے حرف غلط کی طرح مٹا ڈالےں اور شتر بے مہار کی طرح اپنے ووٹ بی جے پی کی جھولی میں ڈال دیں۔حالانکہ ملک میں ناانصافی اورمنصوبہ بندطریقے سے دہشت گردی کا جو سلسلہ این ڈی اے کے دور حکومت میں شروع ہوا تھا وہ یوپی اے کے زمانہ میں آنجہانی ہیمنت کرکرے کی تحقیقات کے بعد ہی رکنے میں آیا۔جبکہ انہیں حقائق کوسامنے لانے کی پاداش میںفرقہ پرست گلیاروں سے ان پرکیچڑ بھی اچھالے گئے تھے۔ اگر اس وقت ماہرین اس امر پر انگشت نمائی کر رہے ہیں اور کہیں نہ کہیں ان کا قلم فرقہ پرست طاقتوں کو مشکوک قرار دینے میں اپنی سیاہی خرچ کر رہا ہے توغلط نہیں ہے، واقعات بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ مالیگاو¿ں دھماکوں میں شامل چہروں کے بے نقاب ہوتے ہی دہشت گردانہ حملوں کا سلسلہ تقریباً خاموش ہوگیا۔ اب اگر ان حقائق کے بعد بھی بی جے پی دوسروں پر کیچڑ اچھالتی ہے تو اسے ڈھٹائی کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے۔ بھگوابریگیڈ اس وقت ملک میں جس طرح سے سیکولر جماعتوں پر الزام تراشیوں اور بہتانوں کا سلسلہ دراز کئے ہوئے ہے اسے دیکھ کر کہنا پڑتا ہے کہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔ اس مرحلہ پر بی جے پی سے یہ سوال بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ دہشت گردانہ حملوں کے مقابلے بھوک اور فاقہ کشی کی وجہ سے ملک میں زیادہ موتیں ہورہی ہیں۔ پریشان حال کسان زندگی سے مایوس ہوکر موت کو گلے لگا رہے ہیں۔ آخر وہ ان کی بھلائی کے لئے کوئی مثبت پروگرام سامنے کیوں نہیں لاتی۔ دوسری جانب مشرقی ہند کی ریاست مغربی بنگال میں برسراقتدار سی پی ایم کے لیڈران کی زبانوں سے اس وقت کانگریس کے تعلق سے جس قسم کی باتیں سنائی دے رہی ہیں۔ اس سے یقین ہوتا ہے کہ شاید سی پی ایم نے بھی عوام کو بے وقوف بنا کر منصب و اقتدار تک پہنچنے کے لئے اپنی اخلاقیات اور انسانیت کو طاق پر رکھ دیا ہے اوراپنی بقاکیلئے فرقہ پرستوں کی ڈگرکواپناناان کی مجبوری بن چکی ہے۔ گزشتہ 25اپریل کو نئی دہلی میں سی پی ایم پولت بیورو کے اہم رکن سیتارام یچوری نے راہل گاندھی کے ایک بیان پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ راہل گاندھی اب اسی زبان کا استعمال کرنے لگے ہیں جو زبان آج سے تقریباً 23-22 برس قبل ان کے والد آنجہانی راجیو گاندھی نے استعمال کی تھی۔ واضح رہے کہ راہل گاندھی نے کولکاتہ میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ مغربی بنگال کا یہ تاریخی شہر ریاستی حکومت کی کج فہمیوں اور ترقی مخالف سوچوں کی وجہ سے عہد پارینہ کا ایک حصہ بنتا جارہا ہے۔ انہوں نے بنگال کی قابل رحم صورت حال پر روشنی ڈالتے ہوئے عوام کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی تھی ،جو سی پی ایم لیڈروں کے لئے ناگوار خاطر ثابت ہوئی اور انہوں نے اس کے جواب میں اس ناکام بلی کی طرح بہکناشروع کردیا جس کے بارے میں مشہور ہے کہ ”کھسیانی بلی کھمبا نوچے“۔ حقیقت یہ ہے کہ بنگال کی تباہ حالی پر انگشت نمائی کرکے راہل گاندھی نے کوئی برا بھی نہیں کیا تھا۔ بلکہ وہ عین ان سچائیوں کا پردہ فاش کر رہے تھے جو ساری دنیا کی نگاہوں میں روز روشن سے زیادہ واضح ہوچکی ہیں۔ مغربی بنگال میں تقریباً 35برسوں سے سی پی ایم برسراقتدار ہے اور اس دوران اس نے ریاست کے باشندوں کو طبقاتی حدود میں بانٹنے کی جو شرم ناک کوشش کی ہے اسے دنیا جان چکی ہے۔ راجیندر سچر کمیٹی رپورٹ کے ذریعہ یہ بات اب گھر گھر تک پہنچ چکی ہے کہ کس طرح بنگال کی مارکسوادی کمیونسٹ نے ریاست کو طبقاتی حدود میں بانٹ کر کمزور کرنے کی حماقت کی ہے۔ انگریزی سامراج کے ہندوستان سے رخصت ہوتے وقت ملک کی سب سے مضبوط اور خوشحال ریاست آج تباہی کے اس دہانے پر پہنچ چکی ہے ،جہاں آدمی کی فی کس یومیہ آمدنی محض 40روپے پر سمٹ کر رہ گئی ہے۔ یہ کیسی غریبوں کی ہمدرد اور مسیحا سرکار ہے جس نے ریاست کے تقریباً 80فیصد کارخانوں کی چمنیاں سرد کر دی، جس سے ہزاروں مزدوروں کے گھر کے چولہے روشن ہوتے تھے۔ آج آپ مغربی بنگال کی سرحد میں قدم رکھیں تو آسنسول سے دارالحکومت کلکتہ تک ریلوے شاہراہ کے دونوں جانب سینکڑوں کارخانے دیکھ سکتے ہیں جن کی چمنیاں زمانے سے خاموش ہیں اور ان کے کل پرزے زنگ آلود ہوکر بے نام ونشان ہورہے ہیں۔ جب کہ ان میں کام کر رہے ہزاروں مزدور کشکول گدائی اٹھائے دردر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ بیشتر نے پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے نقل مکانی کرکے ملک کی دیگر ریاستوں میں اپنے آپ کو آباد کر لیا ہے۔ اسی کے ساتھ مذہب بیزار اور خود کو انسانیت نواز باور کرانے والی سی پی ایم کے انصاف اور عدل کا کچا چٹھا حالیہ سچر رپورٹ نے کھول کر رکھ دیا ہے۔ جس جماعت پر مغربی بنگال کے 30فیصد مسلمانوں نے بھرپور اعتماد کرتے ہوئے پوری حمایت اور قوت نچھاور کر دی تھی، اس کے ساتھ اس نے کیا سلوک کیا وہ اب کسی کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں ہے۔ رپورٹ میں درج مغربی بنگال کے مسلمانوں کی دردناک صورت حال کا مطالعہ کیجئے اور سی پی ایم کی انسانیت دشمن سوچوں کا ماتم کیجئے۔ آج بھی دیگر ریاستوں کے مقابلے یہاں کامسلمان سب سے پیچھے کر دیا گیا ہے۔ حالات یہ ہےں کہ مسلمانوں کو منصوبہ بند سازش کے تحت قومی دھارے سے الگ تھلگ کردینے کی ناپاک کوشش جاری ہے۔ جسے انسانیت کے نام پر بدنما داغ کے علاوہ کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ غور کیجئے جس ریاست میں مسلمانوں کی آبادی30فیصد ہے وہاں سرکاری ملازمتوںمیں ان کا حصہ 4فیصد سے بھی کم ہے۔ دیگر شعبہ حیات میں بھی ان کے ساتھ حکومت کے ذریعہ ایسا ہی سلوک روا رکھا گیا ہے۔ نندی گرام کے مسلمانوں کو مغربی بنگال کی سفاک پولس کے ذریعہ تہہ تیغ کرنے اور ماو¿ں بہنوں کی آبرو کو سی پی ایم کیڈروں کے ذریعہ سر عام نوچنے اور بھنبھوڑنے کی خونچکا داستان کو دنیا کیسے بھول سکتی ہے۔ اس کے باوجود اگر سی پی ایم یہ توقع رکھتی ہے کہ اس کے تمام فیصلے انصاف پر مبنی اور عوام کے مفاد میں ہیں تو اسے سچائی کی عصمت دری کے علاوہ کچھ بھی نہیں کہا
09868093558
No comments :
Post a Comment