
فیصلہ سے پہلے خوداعتمادی ضروری ہے
کسیبھی ملک کی ترقی و تعمےر اور بقائے امن کے لئے اس کے حکمرانو ںکا باشعور،حاضر دماغ اور فےصلہ کن قوتوں کا حامل ہونا ضروری ہے۔تےزی سے بدلتی دنےا کے مکےنوں نے اب اپنے حکمرانو ںمےں دےگر خوبےوں کے ساتھ ساتھ مندرجہ بالا صفات کی تلاش بھی شروع کردی ہے۔ترقی دنےا کی سب سے اہم ترےن ضرورت ہے اور امن اس کے حصول کی کلےد۔امن کے بغےر ترقی کا تصور ممکن نہےں اور ترقی کے بغےر سربلندی و فراوانی اورکشادگی کوحاصل کرلینا اےک مشکل ترےن امر ہے۔دنےا جانتی ہے کہ امرےکہ کی بش حکومت نے ساری دنےا کو جنگ کی خطرناک تباہی مےں ڈال کر افراتفری مچا دی تھی۔بش نے اپنے دور اقتدار مےں دنےا پر جو جنگ تھوپی تھی اس کے اثرات سے خود امرےکی عوام دہل اٹھے، ان کی معےشتےں تباہ ہوئیں، بازار سردہونے لگے،مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی اور بڑی بڑی کمپنےاں دےوالےہ ہو گئیں۔جس کے نتےجہ مےں لاکھوں افراد بے روزگاری کے کرب سے دوچار ہوئے۔ بڑھتی ہوئی بے روزگاری نے معاشرے مےں اےسے اےسے جرائم کو جنم دےا جس سے امن کی دےوی کی روٹھ جاتی ہے اور معاشرہ اضطراب و بے چےنی کی کےفےت مےں مبتلا ہو جاتاہے۔ظاہر سی بات ہے کہ جب کسی انسان کو جائز طرےقوں سے پےٹ کی آگ بجھانے کے لئے کوئی چےز دستےاب نہ ہو سکے گی تو وہ چھےن کر اپنی بھوک مٹانے کی کوشش کرے گا۔اس وقت جن ترقی ےافتہ ممالک مےں ا س قسم کی صورتحال پائی جاتی ہے،اس کی اہم وجہ بے روزگاری کا ےہی عفرےت ہے جس نے انسان کو اپنی ضرورتےں دوسروں سے چھےن کر پوری کرنے پر مجبور کردےا ہے۔
قابل غور ےہ ہے کہ امرےکہ کی طرح ہمارا عظےم جمہوری ملک ہندوستان بھی ان دنوں انہی حالات کی چپےٹ مےں ہے جس سے اس وقت دنےا کے دےگر ممالک نبردآزما ہےں۔بڑھتے ہوئے جرائم نے عوام کے اطمےنان کو ہڑپ لےا ہے، ہر چہرے پر خوف اور سناٹوں کا راج ہے۔دن دہاڑے کسی کی عفت و عصمت پر ڈاکے ڈال دےنا، کھلے بازار مےں بندوق کی نوک پر دکانوں کی تجورےاں خالی کرالےنا، بےنک ملازمےن کو ےرغمال بنا کر کروڑوں روپے لوٹ لےنا، پھول جےسے بچوں کا اغواکر کے پھروتی کی شکل مےں موٹی موٹی رقم کے مطالبے کرنا اب عام بات بن گئی ہے۔ےہ جرائم آج ہمارے ملک مےں اےک گھن کی طرح پھےلتی جار ہے ہیں، جس سے دےہی آبادی سے زےادہ شہری زندگی دوچار ہو رہی ہے۔
اس قسم کے ناگفتہ بہ حالات نے ملک کو ترقی سے آشنا کرانے ہر شہری کے چہرے پر خوشحالی کی شعاعیں پہنچانے کے خواب کو اےک سنگےن مسئلہ بنا دےا ہے۔اےسا نہےں ہے کہ اسے دور کرنے کی بات کسی کے ذہن و دماغ مےں نہےں ہے۔ملک کا ہر لےڈر ، ہر سربراہ اور رہنما بس ےہی کہتا ہے کہ اس کی سےاسی سرگرمےو ںکا واحد مقصد ملک کو امن کی دولت سے مالا مال کرنا، وطن عزےز کے اےک اےک گھر تک ترقی کے سورج کی روشنی پہنچانا اس کے دل کا ارمان ہے۔مگر سوال ےہ ہے کہ کےا صرف دلوں مےں حسےن خواب سجالےنے سے ملک کے حالات سدھر جائےں گے؟ کےا صرف ذرائع ابلاغ کے ذرےعہ اپنے دل مےں پل رہے منصوبوں کو منظر عام پر لے آنے سے وطن کا ہر شہری ترقی سے مستفےض ہو جائے گا؟اس وقت ملک ہی نہےں بلکہ بےن الاقوامی سطح پر ےہ سوال دنےا کے تمام ممالک کے باشندوں کی زبان پر آنے لگا ہے۔اب انتخابات کے دوران رائے دہندگان اپنی قےادت اور سربراہی کے موزوں شخص کو اس زاوےے سے بھی دےکھنے لگے ہےں کہ وہ جس کے ہاتھ مےں اپنی قےادت و سرداری تھما رہا ہے اس کے اندر معاشرے مےں پھےل رہے جرائم کو فنا کردےنے کی طاقت و قوت ہے بھی ےا نہےں۔ مغربی بنگال، آسام اور آندھرا پردےش جےسی رےاستوں مےں عوام نے اپنی قےادت کے لئے کانگرےس کا انتخاب اسی لئے کےا ہے کہ وہ مدتو ںسے نکسلی دہشت گردوںاور ماﺅنواز حملہ آوروں کے ذرےعہ بخشے گئے زخموں سے چور ہو چکے تھے،ان کی کھےتےاں برباد ہو چکی تھیں، ان کے آشےانے تباہ ہو رہے تھے، ان کے عزےز و اقربا پر بے درےغ مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے تھے۔انہو ںنے برسوں رےاستی حکومتوں کی طرف اپنے تحفظ اور بقا کے لئے بھےک کی کٹوری بڑھائی تھی مگر انہےں وہا ںسے نامرادی اور دھتکار دےنے کے سوا کوئی اےسی چےز ہاتھ نہےں لگی جس سے انہےں ان کے مسائل سے آزادی مل جاتی۔لہذا ےوپی اے کو سوچنا ہوگا کہ اسے اپنے ملک کے تمام حصے اور اس کے باشندوںکی ترقی کے ساتھ ساتھ اس کے تحفظ اور بقا کے لئے کیسی قربانےاں دےنی ہےں۔اگر عوام کو ملک مےں اپنی جڑےں مضبوط کرچکے علاحدگی پسند طبقات ،ماﺅنواز جنگجو اور انتہا پسند نکسلےوں کے چنگل سے آزادی دلانے کی کوشش نہ کی گئی تو ماےوس عوام بہت دنوں تک کانگرےس کا بوجھ اپنے ناتواں کندھوں پر نہےں ڈھو سکےں گے۔آج ماﺅنواز ہی نہےں بلکہ مذہبی شدت پسندی بھی ملک کے بے گناہ شہرےوں کے تحفظ پر ڈاکے ڈال رہی ہےں۔فرقہ پرست طاقتےں امن و امان کو تہہ و بالا کردےنے کی صبح و شام اسکےمےں تےار کررہی ہےں۔ان پر لگام کسنا ماﺅنوازوں کے تشدد پر نکےل ڈالنا،نکسلےوں کی طاقت کو نےست و نابود کر کے عوام کو ان کے مظالم سے رستگاری دلانا بھی ےوپی اے کی ذمہ دارےوں مےں شامل ہے۔ غورطلب بات ےہ ہے کہ ان تشدد پسند جنگجو طاقتوں کے وجود کے ساتھ ملک کا تحفظ کبھی بھی پائےدار قرار نہےں دےا جاسکتا ،مگر ان کے تشدد کا خاتمہ کرکے ملک کو اےک سےکولر حکومت اور انسانےت نواز ماحول فراہم کرنے کی راہوں مےں اتنی رکاوٹےں حائل ہےں کہ بڑے سے دل گردے کاکام ہے۔ اسے دور کرنے کے لئے صرف دلی تمنائےں اور آرزوئےں کبھی کارآمد ثابت نہےں ہو سکتیں۔مذہبی جنون کا قلع قمع کرنے، نکسلی دہشت گردوں کے پر کترنے اور ماﺅنوازوں کے ظلم و جبروت کا صفاےا کرنے کے لئے قائدےن کا باشعور ہونے کے ساتھ ساتھ معتدل اور مضبوط قوت ارادی کا حامل ہونا بھی ضروری ہے۔اتنا ہی نہےں بلکہ ملک کی سسکتی بلکتی انسانےت کوان خوں آشام وحشےوں کے چنگل سے بچانے کے لئے فےصلہ کن کرداروں سے متصف قےادت کا وجود بھی نہاےت ضروری ہے۔مذکورہ بالا شدت پرداز طاقتوں سے مقابلہ کے لئے زور آزمائی کا فےصلہ بھی مناسب نہےں ہوگا بلکہ اس کے لئے اس تےز طرار دماغ کے استعمال کی ضرورت ہے جو اپنی فراست و بصےرت سے اےسا لائحہ عمل تےار کرے جو امن مخالف طاقتوں کو آسانی سے زےرکرسکیں ۔ماضی قرےب مےں امرےکہ کے نو منتخب صدر بارک حسےن اوبامہ نے اپنے منصوبوں اور تجاوےز کے ذرےعہ دنےا کے قائدےن کو ےہ سبق دےنے کی کوشش کی ہے کہ تشدد مٹانے کے لئے مصالحت اور گفت و شنےد پر مشتمل پروگرام ہی ہمےں امن و سکون سے سرفراز کرسکتے ہےں۔مگر اس راہ مےں حائل کیل کانٹوں کو اکھاڑنے کے لئے کبھی کبھی طاقت کے استعمال سے بھی گرےز نہےں کےا جاسکتاجےسا کہ مدتوں سے اےل ٹی ٹی ای کی دہشت گردی سے جل رہے سری لنکا مےں راج پکشے حکومت نے اپنی مضبوط قوت ارادی کے ذرےعہ اےل ٹی ٹی ای دہشت گرد تنظےم کا خاتمہ کر کے بتاےا ہے۔
ہمارے ملک کا المےہ ےہ ہے کہ ہر شدت پسند تنظےم کو کسی نہ کسی سےاسی محاذ سے حماےت اور تعاون ملتا رہتا ہے۔چنانچہ کروناندھی کا اےل ٹی ٹی ای کی گوشمالی پر چراغ پا ہونا، ماﺅنوازوں کے خلاف طاقت کے استعمال پر باےاں محاذ جماعتوںکی ناراضگی ہمےں اسی حقےقت کا پتہ دےتی ہےں کہ ان شدت پسند طاقتوں کو کچلنے کے لئے مضبوط قوت ارادی کے ساتھ فہم و فراست اور صلح پسند فکروں پر مشتمل سےاسی قےادت کی ضرورت ہے اور سواسوکروڑ عوام موجودہ حکومت سے اسی قسم کی توقعات رکھتے ہےںکہ وہ طاقت و مصالحت دونوںطرح کے منصوبوں کے ذرےعہ ملک کے عوام کو تحفظ و سلامتی اور ترقی سے آہنگ معاشرہ دےنے کی کوشش کرے گی۔qqq
موبائل:9868093558
No comments :
Post a Comment