ایران کے صدارتی انتخاب میں شکست کھانے والے امیدوار میر حسین موسوی نے حکومت پر انتخابی دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے ملک کے مقتدر ادارے سے نتائج کو منسوخ کرنے کی درخواست کی ہے ۔حسین موسوی نے اپنے الزامات شوریٰ نگہبان اور کچھ علماء کے نام خط میں بیان کیے ہیں۔انہوں نے الزام لگایا ہے کہ پولنگ ایجنٹ کو کارڈ بروقت نہیں ملے اسلئے وہ پولنگ سٹیشنوں پر نہیں پہنچ سکے۔ انکے جلسے بہت بڑے بڑے ہوئے تھے لیکن وہ ہار گئے۔ محمود احمدی نژاد نے اپنی انتخابی مہم میں سرکاری وسائل استعمال کیے ۔خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حسین موسوی کو ٹیلی ویژن پر احمدی نژاد کے برابر وقت نہیں ملا بعض جگہوں پر انکے حامیوں کو ہراساں کیا گیا۔ تاہم ابھی تک انکی طرف سے کوئی ایسا ثبوت سامنے نہیں آیا جس سے بے قاعدگی یا دھاندلی کو با آسانی ثابت کیا جا سکے۔ان صدارتی انتخاب میںحسین موسوی کو 33فی صد ووٹ پڑے ہیں اور احمد نژاد کو 62فی صد۔ اتنے بڑے فرق کے لیے یا تو کوئی بہت بڑی بے قاعدگی ہونا ضروری ہے جس طرح کے الزامات انہوں نے لگائے ہیں اس سے ووٹوں میں اتنا بڑا فرق نہیں ڈالا جا سکتا۔ جہاں تک ہزار ہا لوگوں کے سڑکوں پر آ جانے کو سوال ہے تو اس کیلئے ایران کی تقسیم شدہ سیاست کو سمجھنا پڑیگا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ایران میں شہر کے لوگوں کی اکثریت حسین موسوی کیساتھ ہے جبکہ کم آمدنی اور دیہاتی لوگوں کی اکثریت احمدی نژاد کے حامی ہے ۔
موجودہ صورتحال میں زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ اگر بحران یوں ہی بڑھتا رہا تو ایران کا سیاسی نظام غیر مستحکم ہو جائیگا۔ دوسرا خطرہ یہ ہے کہ احمد ی نژاد کے حامی جو زیادہ تر مذہبی اور قدامت پسند لوگ ہیں وہ بھی سڑکوں پر آ گئے تو تصادم اور خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ایرانی حکام نے غیر ملکی ذرائع ابلاغ کی طرف سے احتجاج اور غیر قانونی جلسوں کی کوریج پر سخت پابندیاں لگا دی ہیں۔ایران کی شوریٰ کے ترجمان نے کہا ہے کہ جن علاقوں میں ہارنے والے امیدواروں نے دھاندلی کا الزام لگایا ہے وہاں دوبارہ ووٹوں کی گنتی کی جائیگی۔تاہم شوریٰ کے ترجمان نے قومی ٹیلی ویژن کو بتایا ہے کہ شوریٰ انتخاب کا کالعدم نہیں کریگی جیسا کہ اصلاح پسند امیدوار مطالبہ کر رہے ہیں۔ایران میں ہونیوالے حالیہ انتخاب اور وہاں کے سیاسی نظام کے جائزے سے اندرونی اور بیرونی صورتحال کے اعتبار سے کئی حیران کن حقائق سامنے آتے ہیں۔
انتخاب کے نتائج کیخلاف ہونیوالے مظاہروں میں عوامی شرکت اس بات کا تو ثبوت ہے کہ وہاں تبدیلی کے خواہاں لوگوں کی بڑی تعداد موجود ہے تا ہم اگر چند بنیادی حقائق کو ذہن میں رکھا جائے تو صورتحال کا صحیح جائزہ سامنے آتا ہے۔تاریخی طور پر دیکھا جائے تو ایران کے امیر طبقے جنہیں مقامی اصطلاح میں ثروت مند طبقہ کہا جاتا ہے وہ دنیا بھر کے دوسرے معاشروں کی طرح صرف اپنی سہولت کے بارے میں فکر مند ہیں۔ایران میں بادشاہت کے زمانے سے لے کر اور اب تک انکی غرض صرف یہ رہی ہے کہ انکے کاروبار اور نفع کے راستے میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو۔ انقلاب کے دوران اور بعد میں جب اس طبقے نے دیکھا کہ انقلابیوں کیساتھ رہنے میں فائدہ ہے تو ان لوگوں نے بظاہر اسلامی شعار اپنا لیے حجاب اوڑھ لیا یا داڑھی رکھ لی۔
اس حکمت عملی کے تحت یہ طبقہ اسلامی انقلاب کے تیس برسوں میں ایرانی سیاست میں کسی نہ کسی طرح فعال رہا ہے۔ دوسرے ملکوں میں خاص کر مغربی معاشروں میں یہ سرمایہ دار طبقہ عام طور پر عملی سیاست سے دور رہتا ہے یہ طبقہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے بیک وقت بظاہر متضاد سیاسی گروپوں کو استعمال کرتا رہتا ہے۔ لیکن ایرانی معاشرے میں اس قسم کے طبقے کے افراد کا عملی سیاست میں سامنے آ کر کھلے عام شرکت کرنا نئی بات ہے۔غالباً اسکی وجہ یہ ہے کہ اسلامی انقلاب تیس برس کے دوران بھی ایرانی معاشرے سے وہ طبقاتی اثرات مکمل طور پر ختم نہیں کر سکا جو ایران کے بادشاہی نظام نے کئی صدیوں میں مرتب کیے تھے۔ 1979کے اسلامی انقلاب کے بعد، ایران کے پسماندہ طبقوں کو پہلی مرتبہ قائدانہ کردار ادا کرنے کا موقع ملا مگر شروع شروع میں اسلامی انقلاب کے اندر بھی اس کیخلاف ثروت مند طبقے نے مزاحمت کی۔ مثلاً جب ابو الحسن بنی صدر ایران کے پہلے صدر منتخب ہوئے تو انہوں نے اس وقت کے ایک غریب خاندان سے تعلق رکھنے والے سکول ٹیچر" محمد علی رجائی" کو اپنی حکومت کے وزیر اعظم کے طور پر قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
جب اسلامی جمہوریہ ایران کے پہلے صدر ملک سے بھاگ گئے تو محمد علی رجائی انکی جگہ صدر منتخب ہوئے مگر انتخاب کے دو ہفتوں کے بعد ہی وہ اور ان کے وزیر اعظم اگست1981 میں ایک بم دھماکے میں قتل کر دئیے گئے۔ اس طرح امام خمینی کی زندگی میں ہی پسماندہ طبقے کے لوگوں کو اعلیٰ قیادت حاصل کرنے کا جو موقع ملا تھا وہ اس دھماکے کیساتھ ہی پھر سے خواب بن گیا۔ صدر رجائی کے بعد آنیوالے تین صدور جنہوں نے مجموعی طور پر 24برس تک حکومت کی ان سب کا تعلق براہ راست یا بالواسطہ طور پر ایران کے امیر طبقہ سے تھا۔ ایرانی عوام نے اگست 2005میں امیر طبقے کے ایک اہم رکن، ہاشمی رفسنجانی پر ترجیح دیتے ہوئے ایک غریب کاریگر کے بیٹے محمود احمدی نژاد کو اپنا چھٹا صدر منتخب کیا۔جب احمد ی نژاد صدر بنے تو انہوں نے تیل کی برآمد سے حاصل ہونے والی دولت کو عوام میں برابری سے تقسیم کرنے کا نعرہ دیا اور صدر بننے کے بعد اس پر عمل در آمد شروع کر دیا۔ ہاشمی رفسنجانی کے آٹھ برسوں کے دور صدارت میں جتنی بھی اقتصادی ترقی ہوئی اس کا فائدہ سرمایہ داروں کے چند مخصوص گروپوں کو پہنچا اس طرح ایران کی دولت چند لوگوں میں مرتکز ہوتی رہی۔ ان چند گروپوں میں کچھ علماء بھی ہیں جنکی نمائندگی رفسنجانی کرتے رہے ۔
یہ علماء اپنی دو مدتی صدارت کے اختتام پر جب وہ انتخاب نہ لڑ سکے تو ہاشمی رفسنجانی نے اپنی ہی طرح کہ ایک امیر عالم،لیکن قدرے غیر معروف امیدوار، سید محمد خاتمی کو منتخب کروایا۔خاتمی کا تعلق بھی روایتی طور پر اعلیٰ طبقے سے ہے۔ انکے دور میں سیاسی اصلاحات کیلئے پیش رفت تو ہوئی مگر اقتصادی طور پر عدم مساوات کو دور کرنے کا کوئی قابل ذکر کام نہ ہوا۔
اسلامی انقلاب کے بعد ایران کے سرمایہ دار اور اسکے حامی طبقے نے اپنے آپکو سیاسی طاقت سے محروم سمجھنا شروع کر دیا۔حالیہ انتخابی مہم کے دوران احمدی نژاد کیخلاف جو نعرے لگے ان میں سے ایک مقبول نعرہ یہ تھا 'یک ہفتہ،دو ہفتہ، محمود حمام نہ رفتہ"یعنی ایک ہفتہ یا دو ہفتہ سے محمود نے غسل نہیںکیا ہے۔ ایران کے امیر طبقے نے کافی سوچ بچار کے بعد حسن موسوی کو اپنا نمائندہ بنایا ۔ حسین موسوی کی ذاتی شہرت ایک شریف شخص کی ہے لیکن روایتی طور پروہ بھی شمالی تہران کے ثروت مند طبقے کے رکن ہیں۔ اس طبقے کی امید تھی کہ بارہ جون کے انتخاب میں موسوی کی فتح سے وہ اپنی کھوئی ہوئی سیاسی قوت دوبارہ حاصل کر لیں گے مگر ایسا نہ ہوا۔ محمود احمد ی نژاد کا دوبارہ چار سال کیلئے صدر بن جانا اس ثروت مند (Elite)طبقے کیلئے کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں ۔ اس طبقے کی سیاسی محرومی صرف احمد نژاد کے صدر منتخب ہونے کی وجہ سے ہی نہیں ہے۔ ایران میں پارلیمانی انتخاب جغرافیائی حلقوں کی صور ت میں نہیں بلکہ متناسب نمائندگی کے نظام کے تحت ہوتے ہیں۔ اس لئے تہران کے متمول علاقے کے لوگ اس بڑے شہر کے تقریباً بیس اراکین پارلیمان میں سے کسی ایک کو بھی کامیاب نہ کرا سکے۔ احمدی نژاد کے انتخاب کے بعدایران کا امیر طبقہ اپنے آپکو ایران کے سیاسی نظام سے خارج تصور کر رہا ہے۔اب یہ طبقہ اپنی پوری طاقت اور امریکہ کی حمایت کے باوجود احمدی نژاد کو شکست نہ دے سکا۔تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یہ طبقہ اب ہر حال میں اصول و ضوابط کو توڑ کر سیاسی نظام میں اپنا تحفظ چاہتا ہے۔
ایرانی صدارتی انتخاب میں اس امر کا تجزیہ بھی ضروری ہے کہ امریکی اور مغربی میڈیا نے موسوی کی حمایت کیوں کی۔ یہ بات بڑی توجہ طلب ہے کہ کیا امریکی میڈیا نے ایرانی انتخابات پر اتنی توجہ کیوں دی۔امریکہ نے 1950میں ایران کی منتخب حکومت کو جس طرح انقلاب کے ذریعے ہٹا کر شاہ ایران رضا شاہ پہلوی کی صورت میں ایک ڈکٹیٹر کو حکمران بنوایا وہ ایرانی عوام کو اب تک یاد ہے، لیکن جب امام خمینی نے ایک عظیم انقلاب کے ذریعے شاہ ایران کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا تو اس خطے میں امریکہ کو شدید پریشانی لاحق ہو ئی۔ اس دن سے لیکر اب تک امریکہ اور اسکے مغربی حلیفوں کی کوشش رہی ہے کہ وہ کسی بھی ہتھکنڈے سے دوبارہ ایران پر اپنا تسلط قائم کر سکیں۔ خارجہ امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ نے ایران کے سوا اس خطے میں قریباً قریباً ہر جگہ اپنے پنچے گاڑھ لیے ہیں ۔امریکہ کی کوشش ہے کہ وہ جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کی معدنی دولت اور کسپئین کے توانائی کے ذخائر پر جلد از جلد دسترس حاصل کر لے کیونکہ اگر امریکہ نے اس حکمت عملی میں دیر کہ تو ممکن ہے مستقبل قریب میں چین امریکہ کو ایسا نہ کرنے دے۔ فی الوقت امریکہ نے افغانستان پر قبضہ کر کے اس خطے میں اپنی حیثیت کو کافی مضبوط کر لیا ہے۔ پاکستان اور ترکی بھی امریکی پالیسیوں کے ہمنوا ہیں۔ وسط ایشیائی ممالک پر بھی بہت حد تک امریکہ نے جزوی کنٹرول کر لیا ہے۔
کسپئین کے علاقے Caspian sea میں توانائی کے سب سے زیادہ ذخائر ہیں ایک اندازے کیمطابق اس علاقے میں تیل کے ذخائر ڈیڑھ سو سال تک دنیا کی ضرورت پوری کر سکتے ہیں۔ ان ذخائر پر قبضے کیلئے امریکہ نے جو حکمت عملی اختیار کی ہے اسکے تحت اس علاقے کے ہمسایہ ممالک میں سے صرف ایران ایسا ملک ہے جو امریکہ کے ان جارحانہ عزائم کیلئے رکاوٹ بنا ہوا ہے،احمدی نژاد کے ہوتے ہوئے امریکہ اپنے ان عزائم کی تکمیل نہیں کر سکتا۔ بعض اخبارات میں شائع ہونیوالی ایک دستاویز کیمطابق امریکی CIAنے ایرانی انتخاب پر اثر انداز ہونے کیلئے چار سو ملین ڈالر صرف کیے ہیں تا کہ اس انتخاب کے ذریعے ایران میں" رنگین انقلاب" لایا جا سکے۔ ان حقائق کے پس منظر میں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ امام خمینی نے ایران میں جس انقلاب کی بنیاد رکھی اسے احمدی نژاد آگے لے جانا چاہتے ہیں لیکن دوسرے بڑے سیاسی قائدین اور ایران کا اہل ثروت طبقہ امریکی اور مغربی انداز کی زندگی چھوڑنے کوتیار نہیں۔امریکہ کے اس متمول اور صاحب ثروت طبقے پر امریکی انٹیلی جنس ایجنسیاں تواتر سے کام کر رہی ہیں یہ ان ہی کی محنت کا ثمر ہے کہ ایران کے حالیہ صدارتی انتخاب کو میڈیا کے ذریعے متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔
No comments :
Post a Comment