سرخ دہشت گردی یا انسانیت کو مساوی حقوق دلانے کےلئے کی جانے والی جدوجہد میںمصروف تنظیم جسے عرف عام میں ماﺅنواز یا نکسلی کے نام سے جانا جاتا ہے،حالیہ دنوںمیںاس تنظیم کے ذریعہ انجام دئے جانے والے دہشت گردانہ واقعات چیخ چیخ کریہ بتارہے ہیںکہ اس تنظیم میںشامل بندوق برداروںکامشن وہ نہیں ہے جس کایہ لوگ برملا نعرہ لگارہے ہیں۔ اس تنظیم کے ذریعہ اٹھائے جانے والے تشدد آمیز حملے کسی بھی طور پر انسانیت کے لئے مفید قرار نہیں دئے جا سکتے۔ اگر تشدد کے راستے سے ملک کے ان حصوں میںترقی کاسورج نمودارہوجاتاجہاں سب سے زیادہ پسماندہ اور مفلوک الحال ہندوستانی رہتے بستے ہیں اور جن کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ سیاسی قائدین اور ہماری حکومتیں براہ راست ان کا استحصال کرتی ہیںتویقینا یہ کہاجاسکتاتھاکہ ماﺅنوازتوپ گولے مفیدمقاصدمیںکام آرہے ہیں۔ ان دوردرازکے جنگلوںاوروادیوںمیںآبادہندوستانیوںکی خوشحالی یا فلاح کے لئے مرکزی یا ریاستی سطح پرمنظور کئے جانے والے منصوبوں کوان تک پہنچنے نہیں دیا جاتا اور اوپر ہی اوپر سفید پوش بھیڑئے انہیں اپنی ہوس کا شکار بنا لیتے ہیںلہذاان کی حق تلفیوںکے خلاف ہرقسم کی جدوجہدجائزہے اورجب تک ان غریبوں اور دبے کچلے ہندوستانیوں کے حقوق کی بازیابی کے لئے جارحانہ اور پرتشدد راستے اختیار نہیں کئے جاتے اس وقت تک کسی بھی غریب کو ان کا وہ حصہ نہیں ملے گا جو حکومت نے اپنے منصوبوںمیں مقرر کر رکھا ہے مگرنکسلی شدت پسندوںکی بے رحم واداتیںکچھ اور ہی داستان سناتی ہیں۔اگرچہ اپنی خونریز سرگرمیوں اور دہشت گردانہ حملوں کو جواز بخشنے کے لئے سرخ تشدد پسندوں کی بندوق بردار فوج برملا یہ دعویٰ کرتی رہتی ہے کہ ان کا جھگڑا براہ راست حکومت سے ہے اور پولس انتظامیہ چونکہ انہیں کسی بھی قسم کی تخریبی کارروائیوں اور خوں آسام وارداتوں کو انجام دینے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والے ملک کی سلامتی پر تعینات ان تمام سپاہیوں سے ہے جنہیں وطن عزیز کو پرامن اور قانون و انتظام کی بالادستی قائم رکھنے کے فرض پر مقرر کیا گیا ہے۔ حالانکہ نکسلی شدد پسندوں کا یہ دعویٰ گذشتہ چند برسوں میں انجام دی جانے والی کارروائیوں کے بعد جن کا نشانہ براہ راست ملک کے نہتے عوام بنے ہیں بالکل بے بنیاد اور نامعقول سا لگتا ہے۔جب ہم نکسل شددپسندوں کے ذریعہ انجام دی جانے والی ان تمام وارداتوں پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ اندازہ ہوتاہے کہ سفاکیت اور خونریزی کا بازار گرم کرنے والے یہ انتہا پسند بزعم خویش چاہے ہزار دعوی کرےں کہ انہوں نے غریبوں کی فلاح اور دبے کچلوں کی حمایت میں مجبوراً اسلحہ اٹھایا ہے۔مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کے ہر حملے اور پرتشدد سرگرمیوں سے نقصان براہ راست غریبوں بدحالوں اور ان قابل رحم ہند و ستا نیوں کا ہی ہوتا ہے جن کی زندگی میں ترقی کی چمک دیکھنا اور خوشحال انسان کی طرح جینے کاحق فرہم کرنا شاید پل بھر کےلئے انسان نما ان تمام بھیڑیوں کو گوارہ نہیں ہے جو غریبوں کے نام پر معرکہ آرائی کرتے ہیں اور غریبوں کی فلاح کا راگ الاپ کر اپنی سیاسی دکانیں کھولے بیٹھے ہیں۔ ساری دنیا کھلی آنکھوں سے اس منظر کو دیکھ رہی ہے کہ کس طرح غریبوں اور پسماندہ طبقات کی بھلائی کی باتیں کرنے والے تمام لیڈران اور اسلحہ بردار فوجیں دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہیں۔ جب کہ جن غریبوں کی بدحالی پر یہ مظاہرے ،احتجاج بازاراورخوںریزیوں کے بازار لگائے جاتے ہیں۔ ان کی حالت زار میں کوئی تبدیلی کہیں بھی محسوس نہیں ہوتی۔ البتہ ان کی اذیت ناک حالت پر بندوق اٹھانے اور اسی طرح سیاسی چوپال لگانے والے ترقی کی معراج پا لیتے ہیں جو ان کا اپنی سرگرمیوں کے پس پردہ اصل مقصد ہوتا ہے۔ قابل غور ہے کہ اگر ہمارے نکسلی شدت پسند غریبوں کی بھلائی کے لئے خود کو ہلاکت و تباہی کی راہ پر ڈالے ہوئے ہیں تو ان سے یہ سوال کرنا یقینا حق بجا نب ہوگا کہ پھر آپ کی بندوقوں کا نشانہ سول پولس یا سرکاری اسکولوں کے وہ بچے کیوں بن رہے ہیں جن کے بارے میں آپ سبھی جانتے ہیں کہ یہ ان غریب خاندانوں کے چشم و چراغ ہیں جن کے ماں باپ کی مالی حالت اس قابل نہیں ہے کہ وہ اپنے نونہالوں کو بڑے شہروں کے مہنگے اور انتہائی جدید سہولیات سے آراستہ اسکولوں تک پہنچا سکےں۔ آپ کی گولیوںسے نکلنے والی آگ تو ان غریب گھروں میں ہی صف ماتم بچھاتی ہے جہاں کمانے والے کم جبکہ کھانے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ سول پولس اہلکار عموماً انہیں مجبور اور غریب طبقات سے آتے ہیں جن کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ وہ اپنے نوجوان بچوں کو صنعتی و تکنیکی تعلیم سے آراستہ کر کے بے تحاشہ سرمایہ حاصل کرنے کے قابل بنا سکیں۔ مجبوراً غریب خاندانوں کے یہ چشم و چراغ سول پولس میں ہی ملازمت حاصل کر کے اپنی اور اپنے کنبہ کی روزی روٹی کا انتظام کرتے ہیں۔ اگر ان کے آبا و اجداد اس قابل ہوتے کہ انہیں مہنگے اور مقابلہ جاتی تعلیم سے آراستہ کر پاتے تو یقینا وہ اپنے بچوں کو سول پولس کی ملازمت اختیار کرنے پر قطعی رضا مند نہیں ہوتے۔بعینہ یہی حالت ان تمام سرکاری اسکولوں کی بھی ہے جن کی عمارتیں عموماً سرخ دہشت گردی کی نذر ہوتی ہیں اور ان میں غریب خاندانوں کے ان گنت بچے تڑپ تڑپ کر جان دے دیتے ہیں۔ اگریہ تشددبندکرکے ان تمام دیہی باشندوںروزگارکیلئے بازار تک آنے کا راستہ دےدیاجائے توعین ممکن ہے کہ نکسلی ڈنڈابرداروںکایہ قدم غریبوںاورآدی باسی برادری کیلئے کامیابی اور ترقی کی ضمانت بن جائے۔نکسیوں کی مخالفت کرکے ووٹ ڈال کرنکسل متاثرہ علاقوںکے غریبوںنے اپنی اس سوچ کااظہاربھی کیاہے۔
Editorial 22-11-2010
No comments :
Post a Comment