کیا دور آ گیا ہے کہ جنرل یحییٰ خاں کی ایک داشتہ کی بیٹی جسٹس طارق محمود کو جمہوری روایات کا سبق پڑھا اور سیاستدانوں کو تلقین کر رہی تھیں کہ وہ ریفرنس کے معاملہ پر اپنی دُکانداری نہ چمکائیں۔ جن لوگوں کی ساری زندگی اِس دعوے پر گزری ہو کہ وہ ہر حکمران کے بیڈ روم تک رسائی رکھتے ہیں اور جنہیں اصولاً ان بیڈ رومز میں بدلنے والی چادروں کا حساب یاد رکھنا چاہئے وہ جب سیاسی معاملات کا تجزیہ کرتے اور دانشوری بگھارتے ہیں تو اسے صحافت کی بدقسمتی کے سوا کیا کہا جائي… نام لینے کی ضرورت نہیں جنرل یحییٰ خان سے شہرت کی ابتداء کرکے بے نظیر بھٹو چونکہ مرد نہیں تھیں اس لئے اُن کے “نائب وزیراعظم” حامد ناصر چٹھہ کے گھر سے گزرتے ہوئے موجودہ حکمرانوں تک رسائی رکھنے والے کتنے ہی لوگوں کا صحافت سے کِتنا تعلق ہے اور کِسی کو شک ہو تو ہو اُنہیں خود اپنے بارے میں کوئی شک نہیں ہو سکتا کہ صحافت ان کا پیشہ نہیں، اپنے اصل پیشے کے تحفظ کی ایک ڈھال ہے۔
سیاست، صحافت، عدالت فی الاصل ایک ہی سِکے کے رُخ ہیں لیکن جب صحافی یہ سمجھنے لگیں کہ وہ حکمرانوں یا سیاستدانوں کو ان کے پیشے کے گُر سمجھائیں گے تو اِسے بدقسمتی کے سوا کیا کہا جائے۔ پتہ نہیں کیوں کچھ اخبار نویسوں نے فرض کر لیا ہے کہ اُن کے نام کے ساتھ “معروف اور سینئر تجزیہ کار” کا خطاب آئے حالانکہ یہ نام نہاد تجزیہ کار ابھی مشکل سے شاید صحافت کی اَبجد بھی جانتے ہوں۔ ویسے بھی صحافی کون ہوتا ہے، تجزیہ کاری کرنے والا۔ وہ کسی معاملہ پر تبصرہ کر سکتا، اُس پر رائے دے سکتا یا اپنا نقطۂ نظر بیان کر سکتا ہے لیکن تبصرے، کالم، مضمون، اداریے، شذرے، مراسلے اور تجزیئے کو ایک ہی معنی پہنا دینا یہ کِس دنیا میں جائز ہے؟ داستان گوئی، شاعری، سفرنگاری، پروفیسری یا سیاست بھی کم عزت والے کام نہیں کہ ساتھ صحافت کا دُم چھلا بھی ضرور لگانا ہے۔
کِسی کی والدہ محترمہ کا کسی حکمران سے قریبی تعلق تھا تو کِسی کے والد صاحب نے کسی خاص حکمران کے لئے خاص خدمات انجام دیں لیکن خواہش اب سب کی یہ ہے کہ صحافی کہلائیں کہ صحافت کی آڑ میں ان کے دھندے بھی چُھپ جائیں گے اور وہ سوسائٹی کے خود ساختہ مصلح اور ریفارمر(Reformer) کا روپ بھی دھار لیں گے۔ پتہ نہیں اچھے اچھے اخبار نویسوں کو کیا ہو گیا ہے کہ سستی شہرت یعنی Cheap Publicity کے لئے اپنے پیشے کا تقدس بھی بھول گئے اور مختلف معاملات میں پارٹی بن رہے ہیں۔ صحافی کا کام کیا ہے؟… عوام کو Inform کرنا اور Entertain کرنا۔ اس کے سوا جو کچھ بھی ہے وہ سب ہو سکتا ہے صحافت نہیں۔ Entertainment کی حدود موجودہ دور میں کافی وسیع ہو چکی ہیں لیکن خبر اور تبصرے سے ہٹ کر Information کی کوئی تیسری قسم بھی ہو سکتی ہے کم از کم ہمارے علم میں نہیں،کوئی اخبار نویس یا صحافی کیا کسی بھی حالت میں کسی واقعہ یا Event کا بائیکاٹ کر سکتا ہے؟ اور آیا صحافتی اخلاقیات اسے اس بات کی اجازت دیتی ہیں؟ اِس پر بحث ہونا ضروری ہو گیا ہے۔
کِسی صحافی کی اِس سے زیادہ بے عزتی اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ کسی وزیراعلیٰ سے تحفظ کی درخواست کرے اور وزیراعلیٰ اُسے کہے کہ ان کے لئے ممکن نہیں کہ ہر صحافی کے ساتھ ایک ایک موبائل گاڑی لگا دیں۔ یہ درست ہے کہ صحافیوں کو ان کے فرائض کی ادائیگی کے دوران مشکلات کم از کم ہونی چاہئیں لیکن وہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ صحافت کا تو پیشہ ہی مشکلات اور اُن سے نبردآزما ہونے کا ہے لیکن اگر آپ کی خواہش محض حکمرانوں تک رسائی اور Nuisance انجوائے کرنا ہے، کوئی پتھر، زخم یا ڈنڈا لگنے پر بائیکاٹ کی دہائی دینا ہے تو معاف کیجئے گا آپ کو صحافت چھوڑ کر کوئی اور کام کر لینا چاہئے کہ دنیا میں صرف ان صحافیوں کے نام زندہ اور روشن ہیں جنہوں نے مسکراتے ہوئے ہر قسم کی مشکلات کا سامنا کیا۔ نہ کسی سے گلہ کیا، نہ زبان پر حرفِ شکایت لائے۔ ممکن ہے آپ کا نقطۂ نظر درست ہو آپ کو اپنے خیال پر ڈٹے رہنے کا حق ہے لیکن آپ نے یہ حق کہاں سے لے لیا کہ کچھ نام نہاد مولویوں کی طرح دوسرے کو اس کے آپ کے خیال میں “غلط” نقطۂ نظر سے “تائب” ہونے پرمجبور کریں۔ یہ بدتمیزی، بداخلاقی، بدتہذیبی، بدکلامی اور بداسلوبی کہاں سے آپ میں دَر آئی ہے کہ آپ کی تو شان ہی آپ کا Polite لیکن Firm ہونا ہي… دن رات جرنیلوں پر تنقید کرنے والوں کے اندر بھی پتہ نہیں کس طرح ویسے ہی ڈکٹیٹر گھس آتے ہیں کہ اپنی بات کو حرفِ آخر سمجھنے لگیں… ہمارا کام کسی کو “مسلمان کرنا” کسی کو “محبّ وطن بنانا” یا کسی کو “راہِ راست پر لانا” نہیں یہ ذمہ داری سیاستدانوں اور عدالتوں کی ہے۔ ہمیں ان کاموں میں محض اداروں اور عوام کی معاونت کرنا ہے اور حالات کچھ بھی ہوں اپنا کام کرتے جانا ہے۔ دائیں بائیں، آگے پیچھے دیکھنا، کسی ترغیب تحریص کو خاطر میں لانا، ستائش اور صلے کی پروا کرنا سب کچھ ہو سکتا ہے صحافت بالکل نہیں۔
کم نہیں طمعِ عبادت بھی تو حرصِ زر سے
فقر تو وہ ہے کہ جو دین نہ دنیا رکھے
کیا اب وقت نہیں آ گیا کہ صحافتی اداروں کے مالکان، ایڈیٹرز، سینئر صحافی اور کارکن صحافیوں کی تنظیمیں آپس میں مل بیٹھیں اور صحافت کے ساتھ ساتھ موجودہ حالات کے تقاضوں پر غور کریں، کوئی ضابطۂ اخلاق بنا لیں کہ یوں تو ہم ساری دنیا کو آگے لگائے ہوئے ہیں لیکن اِس دھما چوکڑی میں اپنے پیشے کی عزت میں کتنا اضافہ ہو رہا ہے اور ہم نے کن کن لوگوں کو صحافی کے لقب سے ملقوب کردیا اور لوگ، صحافیوں کو کن کن لفظوں سے یاد کرتے ہیں؟ اس پر اب بھی غور نہ کیا گیا تو عام لوگ جس طرح جرنیلوں اور ججوں کو مجموعی طور پر مطعون کر رہے ہیں، صحافیوں کے درمیان بھی کوئی تمیز نہیں کرے گا۔
No comments :
Post a Comment