عارف عزیز
اردو صحافت، بنگلہ صحافت کے بعد ہندوستان کی قدیم ترین صحافت ہے،ہندی، مراٹھی، گجراتی یہانتک کہ ہن نیوں کی انگریزی صحافت کا اس کے بعد آغاز ہوا ، اردو کی اس صحافت نے ۹۱ ویں صدی کے عہد ساز رجحانات کے فروغ میں جو تاریخی کردار ادا کیا ، اس کا تو عام طور پر اعتراف کیا جاتا ہے لیکن زبان وادب کی تشکیل وترقی میں جو حصہ لیا اس کو فراموش کردیا گیا ہے، ۲۲۸۱ءمیں ”جام جہانما“ اردو کا پہلا مطبوعہ اخبار تھا جو کلکتہ سے شائع ہوا، اردو صحافت کے اس باقاعدہ آغاز سے پہلے صرف دہلی سے بارہ ایسے قلمی اخبارات سپرد ڈاک کئے جاتے تھے، جن کا مقصد انگریزوں کے اقتدار کے خلاف عوام میں بیداری لانا، عام لوگوں کو متحد کرنا اور ان کے دل میں قومی جذبات کو پروان چڑھانا تھا،مذکورہ اخباروں کے وقائع نگاروں میں ہندو مسلمان دونوں شامل تھے۔ اس لئے لارڈ آک لینڈ اور لارڈ کیننگ کو کہنا پڑا کہ” قلمی اخبارات نے عوام میں انگریزوں کے خلاف جذبات بھڑکاکر ۷۵۸۱ءکے انقلاب کی راہ ہموار کی ہے، “ ۷۵۸۱ءمیں گورنر جنرل کونسل کے رکن میکالے نے تو صحافت پر اپنے نوٹ میں یہانتک لکھ دیا تھا کہ ”عام لوگوں میں دیسی زبانوں کی مطبوعہ صحافت کا اتنا اثر نہیں، جتنا قلمی صحافت کا ہے، پیشہ ور وقائع نگاروں کے مرتب کئے ہوئے بے شمار اخبا ر ہندوستان میں نکلتے ہیں، ہر کچہری ، ہر دربار کے باہر وقائع نگار منڈلاتے رہتے ہیں، صرف دہلی سے ہر روز ۰۲۱ قلمی اخبار بذریعہ ڈاک باہر بھیجے جاتے ہیں“۔ مشہور محقق شانتی رنجن بھٹاچاریہ کے مطابق ۹۱ ویں صدی میں یعنی ۲۲۸۱ ءسے ۹۹۸۱ تک کم وبیش پانچ سو اخبار ورسائل ہندوستان کے کونے کونے سے منظر عام پر آئے۔
ظاہر ہے کہ مذکورہ اخبارات نے جہاں عوام میں سیاسی شعور کی تخم ریزی کرکے جذبہ ¿ حریت کو پروان چڑھایا، اپنے قارئین کو جدید فکر اور علوم سے آشنا کیا، وہیں اردو زبان وادب کی تشکیل میں غیر معمولی خدمت انجام دی بالخصوص فارسی آمیز مقفع ومسجع عبارت اور بوجھل الفاظ سے اردو زبان کا پیچھا چھڑا کر، عوامی زبان بنانے میں ایک اہم کردار نبھایا، جس کے نتیجہ میں اردو زبان برق رفتاری سے ایک ترقی یافتہ زبان کے سانچے میں ڈھلتی گئی، لیکن اردو صحافت کے اس کردار کو عام طور پر نظر انداز کیا گیا ، مورخ وناقد بھی اس سچائی کو قابل اعتنا نہیں سمجھتے کہ اردو اخبار ورسائل نے اپنی زبان کو بولی سے زبان تک کے سفر میں گرانقدر حصہ لیا ، اس میں سیکڑوں نہیں ہزاروں نئے الفاظ ومحاوروں کا اضافہ کیا اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے، اردو زبان وادب ، انگریزی یا دوسری عصری زبانوں کے الفاظ ومحاوروں سے آج مالامال ہے، تو یہ بھی اردو صحافت کی دین ہے، مثال کے طور پر پروفیسر، ٹیچر، انجینئر، ڈاکٹر، اسپیکر، پارلیمنٹ ، اسمبلی، سپریم کورٹ، ہائی کورٹ ، سیکولرازم، کمیونزم، سوشلزم، فرنٹ، روڈ، بائیکاٹ نوٹس وغیرہ وہ الفاظ ہیں جو آج اردو زبان کا جز لاینفک بن چکے ہیں ، اردو اخبارات میں ان الفاظ کو مسلسل اور من وعن استعمال کرکے زبان کے خزانے میں جو اضافہ کیا گیا وہ اظہر من الشمس ہے، حقیقت پسندی کا تقاضا ہے کہ اس کا اعتراف کیا جائے۔
اسی طرح یہ دعویٰ کرنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ اردو زبان کو عام فہم لیکن معیاری بنانے، اسے سنوارنے اور سجانے میں اردو صحافیوں کا قابل قدر حصہ ہے، ”خطوط غالب“ تو اردو نثر کو سلاست وبزلہ سنجی کا پیرہن عطا کرنے کی ایک انفرادی سعی تھی، جس کے محرکات کا جائزہ لیا جائے تو ممکن ہے کہ اس عہد کے اردو اخبارات کا پرتو اس میں نظر آجائے، بعد میں مولوی محمد باقر ، سرسید احمد خاں بہاری لال مشتاق، اور مولانا محمد حسین آزاد نے صحافت کے وسیلہ سے اپنے اور دوسروں کے نظریات کی اشاعت کرکے اردو زبان وادب اور تحقیق کے ساتھ ساتھ سیاست کی قندیلیں بھی روشن کیں، اسی طرح مولانا ابوالکلام آزاد کی خطابیہ صحافت ہو یا مولانا حسرت موہانی کی شگفتہ بیانی، مولانا ظفر علی خاں کی پرجوش تحریریں ہوں یا مولانا عبدالماجد دریابادی کے طنز میں بجھے ہوئے شذرات، انہوں نے صحافت کے وسیلہ سے اردو کے نثری خزانے میں بے پایاں اضافہ کیا ہے، اردو کے فکاہیہ وطنزیہ ادب کا جائزہ لیا جائے تو اس کا نوے فیصد حصہ صحافت کا عطیہ ملے گا، اگر اردو کے اخبارات و رسائل نہیں ہوتے تو کالم نگاری، انشائیہ نگاری، انٹرویو نگاری اور افسانہ نگاری کا وجود نہیں ہوتا کیونکہ ان کی اولیں اشاعت کا وسیلہ عام طور پر اخبار وجرائد ہوتے ہیں ، مذکورہ اصناف کتابی شکل میں کافی بعد میں شائع ہوتی ہیں ، اردو صحافت کا یہ بھی کارنامہ ہے کہ اس نے قصے کہانیاں، اور حکایتیں ، سفرنامے، موضوعاتی نظمیں، سیاسی مضامین، قانونی وپارلیمانی مباحث، اور طبی وسائنسی موضوعات کو اخبارات کے صفحات پر جگہ دی ہے۔ اگر ریسرچ اسکالر اردو صحافت کی ان خدمات کا جائزہ لیں تو کئی ضخیم جلدیں اس کے لئے ناکافی ہونگی اور تنقید وتحقیق کی بھی یہ اہم خدمت شمار ہوگی۔
اردو صحافیوں نے سیاسی وادبی تحریکات کو ہی پروان نہیں چڑھایا ، ادب کی مختلف اصناف کی ترقی میں بھی حصہ لیا، فکاہیہ اور طنزیہ کالموں کا ذکر گذر چکا ہے ، اس صنف کو صحافت نے جو اعتبار بخشا وہ لائق تحسین ہے، منشی سجاد حسین ، چودھری محمد علی ردولوی، حاجی لق لق، ملارموزی یا ان کے معاصرین طنزومزاح نگاروں سے اردو دنیا خاطر خواہ طور پر واقف نہیں ہوتی اگر اخبارات ورسائل میں ان کو مقام نہیں ملتا، آزادی کے بعد شوکت تھانوی، مجید لاہوری، فکر تونسوی، علامہ درپن، ابراہیم جلیس، علامہ مدہوش،تخلص بھوپالی، احمد جمال پاشا، مجتبیٰ حسین، یہ سبھی سکے صحافت کی ٹکسال کے ڈھالے ہوئے ہیں لیکن ہمارے بیشتر نقاد اردو صحافت کے اس کارنامے کا اعتراف کرنا کفر سمجھتے ہیں، اگرچہ ابتداءمیں صحافت کی اس خدمت کو سراہا گیا، مولوی محمد حسین آزاد پہلے ناقد ہیں جنہوں نے ”آب حیات“ میں لکھا کہ:
”سید میرانشاءاللہ خاں کے زمانے تک انشا پردازی اور ترقی اور وسعت زبانِ اردو، فقط شعراءکی زبان پر تھی، جن کی تصنیفات غزلیں اور قصیدے مدحیہ ہوتے تھے اور غرض، ان سے فقط اتنی تھی کہ امیر اور اہل دول سے انعام لے کر گزارہ کریں یا تفریح طبع یا یہ کہ ہم چشموں میں تحسین و آفریں کا فخر حاصل کریں، وہ بھی فقط نظم میں، نثر کے حال پر کسی کو اصلاً توجہ نہ تھی کیونکہ کارروائی مطالبِ ضروری کی سب فارسی میں ہوتی تھی، یعنی اردو نثر اردو صحافت کی ایجاد ہے۔“
زبان وادب کی تشکیل میں اردو صحافت کے کردار کے بارے میں مثالیں اور بھی ہیں لیکن ان سے اعتراض کرتے ہوئے یہاں رپورٹنگ کا حوالہ دینا کافی ہوگا اگر اردو کے اخبارات ورپورٹر نہ ہوں تو زبان وادب سے متعلق ساری سرگرمیاں ماند پڑجائیں، جلسے، مشاعرے اور مباحثے صرف ان لوگوں تک محدود رہیں جو ان میں حصہ لیتے یا سامع کی حیثیت سے شریک ہوتے ہیں، یہ اردو کے صحافی ہیں جو بیک وقت رپورٹر ومترجم کے فرائض انجام دیتے ہیں، انگریزی وہندی سے ترجمہ میں اپنی ذہنی کاوش کا مظاہرہ کرتے ہیں اور مضامین، مراسلے اور کارروائی میں زبان وبیان کی اصلاح کرکے انہیں اخبارات کی زینت بناتے ہیں۔
اردو صحافت نے زبان وادب کے فروغ کے ساتھ سیاسی وسماجی تحریکات کی ہی آبیاری نہیں کی، ادبی ولسانی معرکوں کو سرانجام دیکر اپنی زبان کا ہر نازک مرحلہ میں دفاع بھی کیا، خصوصیت سے اردو پر کسی سمت سے حملہ ہوا تو تمام اخبارات اور اس کے صحافیوں نے دل سوزی کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا اسی طرح اپنی زبان کے حقوق و مفادات کیلئے جدوجہد ہو یا علاقائی طور پر اردو کو دوسری زبان بنانے کے مطالبہ کے لئے آواز بلند کرنا، تمام اخبارات اس میں شریک وصمیم رہے، اردو اخبارات کی جغرافیائی حیثیت بھی کافی وسیع ہے، وہ شمال میں کلکتہ سے سری نگر تک اور دہلی سے ممبئی حیدرآباد اور بنگلور تک ہر بڑے شہر میں پھیلے ہوئے ہیں اور زبان پر اپنے اثرات ڈال رہے ہیں، ملک کی گیارہ اہم ریاستوں سے شائع ہونے والے یہ اخبارات ورسائل آج اردو دنیاکی ایک موثر طاقت ہیں، ان روزناموں یا ہفتہ روزہ اخباروں اور ماہناموں کی بڑی تعداد معیاری ہے اور خوب سے خوب تر کی تلاش کےلئے ان کی کدوکاوش جاری ہے، یہ اخبار ورسائل ہر قسم کے افکار اور سیاست کی نمائندگی کرتے ہیں، ان میں ہر مذہب اور علاقے کے ترجمان مل جائیں گے، یہانتک کہ سنگھ پریوار ، آریہ سماج، اسلام، جماعت اسلامی، جمعیة علمائ، اہل حدیث، سناتن دھرم، سکھ ازم، مسیحیت، ترقی پسندی، جدیدیت کے ہمنوا نیز ادب اسلامی کے علمبردار ان میں شامل ہیں۔ اس رنگا رنگی اور مختلف جہتوں کی نمائندگی کے اثرات و عوامل اردو زبان وادب پر بھی مرتب ہورہے ہیں۔
No comments :
Post a Comment