ظالم ابن ظالم کی دہشت گردی کوشاباشی کیوں(قسط2)
میم ضادفضلی
شام مسلسل جل رہا ہے۔اسد کی دہشت گرد فوج نہتے شہریوں ،کمزور بوڑھوں،سن رسیدہ ماؤں، شیرخوار بچوں، مدارس میں اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے زانوئے تلمذ تہہ کئے مہمانان رسولﷺ اور کتاب وسنت کی درسگاہیں آراستہ کئے بوریا نشین علماء کرام،بندوقوں میزائلوں، بموں اور کلاشنگ کوف کی زد پر ہیں۔مساجد میں سربہ سجود مسلمان،تلاوت میں مصرو متقین، بازاروں میں قوت لایموت کیلئے تپتی دوپہر میں پسینہ کی جگہ اپنا خون جلارہے آبلہ پا مزدور،گھروں میں گرم عبادت عفت مآب خواتین بھی بے تحاشہ بشارالاسد کی دہشت گرد فوج کے ذریعہ بلند کی جانے والی آگ کی لپٹوں میں جھلس رہی ہیں اور ان کا لاشہ راکھ میں تبدیل ہورہا ہے۔ حمص سے حلب تک ،دمشق سے لاذقیہ تک،صف ماتم بچھا دی گئی ہے۔عوام اور بشارالاسد کے قصاب خاندان کی یہ جنگ تقریباً20ماہ پرانی ہوچکی ہے۔ مگر اس طویل مدت میں شام کے بے گناہ اور جمہوریت پسند عوام کو سکون کی ایک نیند میسر نہیں ہوسکی۔ ان کی زندگی کا لمحہ لمحہ موت کے دہانے پر کھڑا ہے۔ پتہ نہیں کدھر سے اسدی فوج کے دہشت گرد اور نام نہاد مجاہد جماعت حزب اللہ کے خونخوار کس سمت سے آئیں اور پوری آبادی کو قبرستان میں تبدیل کرکے چلتا بنیں یہ کوئی نہیں جانتا۔ ہم نے پہلی قسط میں بھی یہ وضاحت کی تھی اور دلیل کے طو رپر 1971سے شام میں جاری حالات وواقعات سے پردا اٹھاکر اپنے موقف کو مدلل کرنے کی کوشش کی تھی کہ شام میں اس وقت لڑی جانے والی جنگ مسلکی فکر سے عبارت ہے۔10فیصد نے90فیصد کو کچل کر سرزمین شام کی سیاہ وسفید کا مالک بن جانے کی ناعاقبت اندیشانہ پالیسی کے تحت نہتے باشندوں پر جبری جنگ تھوپ رکھی ہے۔
مگر انتہائی شاطرانہ طریقے سے ان ممالک میں جہاں غیر علوی مسلمان معتدبہ تعداد میں رہائش پذیر ہیں کچھ دستار فروش بے ضمیروں کی ٹیم منظم طریقے سے یہ پروپیگنڈہ کررہی ہے کہ شام کو مغربی استعمار نے جنگ میں جھونک رکھا ہے، اس کے اسلحے جمہوریت اور عوامی حکومت کی راہوں میں مزاحمت پر اڑے عوام کے ہاتھوں میں ہیں۔یہ الزام بھی عائد کیا جارہا ہے کہ بڑی تعداد میں پڑوسی ممالک کے غیر علوی شدت پسندطاقتیں شام کی فوج کے خلاف باغیوں کو تقویت دے رہی ہیں۔دیگر ممالک میں یہ پروپیگنڈے بھی عام طور سے ذرائع ابلاغ کی توسط سے پھیلائے جا رہے ہیں کہ شام کو کمزور کرکے اسرائیل کو طاقت ور کرنے کی مغربی سازشیں شام میں حکومت کے خلاف بغاوت کو ہوا دے رہی ہیں۔ حالانکہ خود اسد خاندان کی تاریخ پر غائرانہ نگاہ ڈالیں اور عصبیت کی عینک اتار کر دیانت دارانہ جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ خود بشار الاسد کے قصاب باپ حافظ الاسد نے اسرائیل کی درپردہ حمایت کے نتیجے میں ہی شام کے اقتدار پر قابض ہونے کا خواب پورا کیاتھا۔ 70کی دہائی سے قبل جس وقت شام اسرائیل سے برسرپیکار تھا اسی وقت حافظ الاسد کو لالچ دے کر فوج کو پسپائی پر مجبور ہونے کی سازش ترتیب دی گئی اور اس کے نتیجے میں اسرائیل کی سرحد سے متصل گولان پہاڑی کے بیشتر حصے انعامات کے طورپر یہودی حکومت کے سپرد کردےئے گئے۔ دنیا کے مسلمانوں کو یہ پیغام دینے کی مذموم کو شش کی گئی کہ کمزور اور پسپا ہونے کی وجہ سے شام کی فوج اسرائیلی معرکہ آرائی میں پیچھے ہونے پر مجبور ہوئی ہے۔ حالانکہ اس کے پس پردہ منصوبہ بند سازش کام کررہی تھی۔ ایک ایسی سازش جس کے نتیجے میں حافظ الاسد کے خاندان کو شام جیسے اسلامی تاریخ کے اہم ملک کی ابدی حکومت ملنے والی تھی۔ ایک ایسی حکومت جس کا سلسلہ نسل درنسل منتقل ہونا تھا، اس کیلئے یہ بھی ضروری تھا کہ ان تمام طبقات اور طاقتوں کو پوری طرح کچل دیا جائے جس کے ذریعہ مستقبل میں کبھی حق اور انصاف کے لئے آواز بلند کرنے کا شک وشبہ بھی ہو۔اس سازش کی قیادت اگر چہ مغرب کے ہاتھوں میں تھی مگر مارکسی گود میں پلنے کی وجہ سے اس وقت کے سپر پاور روس کی سرپرستی بھی حافظ الاسد کو حاصل ہوگئی۔ پھر تاریخ کی آنکھوں نے دیکھا اور بدستور دیکھ رہی ہے کہ حافظ الاسد کے اقتدار سنبھالنے کے دن سے آج تک مسلسل شامی قوم اس قصاب خاندان کے ہاتھوں میں ذبح ہورہی ہے۔اسد کی حکمرانی اس کی شخصی آمریت اور اکثریت پر علوی فرقہ کا اقلیتی تسلط تھا جسے عالمی ضمیر نے بھی تقریباً نصف صدی سے بے گناہ عوام کے قتل عام کی اجازت دے رکھی ہے۔ایک بار ہم پھر دوہرا لیں کہ حافظ الاسد کو ملنے والا اقتدار گولان کے علاقے سے شام کی ابدی محرومی کی شرط پر حاصل ہوا تھا۔اسرائیل سے اس نے اپنی شکست اور افواج کی پسپائی کا خود ساختہ اعلان کرنے والے اس وقت کے شامی وزیردفاع حافظ الاسد کا یہ فیصلہ اس کی ذات اور خاندان کیلئے شاہانہ زندگی کی ضمانت پرترتیب دیاگیا فیصلہ تھا۔ اس کے بعد تقریباً42برسوں سے وہی شام باپ بیٹے کی آمریت میں سلگ رہا ہے۔باپ نے تین مارچ1971کو اقتدار سنبھالنے کے بعد عوام کو طرح طرح کے عذاب اور تشدد کا نشانہ بنایاتھا۔اس کے پس پشت حافظ الاسد کی یہ مذموم پالیسی کام کررہی تھی کہ شام کی اکثریت سنی قوم اتنی کمزور اور بے آواز ہوجائے کہ کبھی بھی اسد خاندان کی دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھانے کی جرأت نہ کرسکے۔چنانچہ اس ناپاک منصوبے کے تحت 27جون1980سے شام میں سنیو ں کے خلاف قتل وغارت گری کا بازار گرم کیاگیا جس کی ابتداء شام کے معروف شہر تدمر سے ہوا۔10مارچ 1980کوجسر الشغورکے مقام پر،12اپریل 1980کو حماۃ میں،11اگست 1980کی صبح عین عیدالفطر کے دن تاریخی شہر حلب کے محلہ المشارفہ میں سنیوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی اور خوفناک تعداد میں ان کے جوانوں،بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو تہہ تیغ کردیاگیا۔چنانچہ کئی مستشرقین نے بھی حافظ الاسد کی دہشت گردی کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ1980کے دور میں حافظ الاسد کے ہاتھوں تقریباً40ہزار سنیوں کا قتل عام کردیاگیا۔آےئے ایک اور تاریخی دہشت گردی سے آپ کو واقف کراتے ہیں۔2فروری1982میں شام کے شہر حماۃ کو ایک بڑے قتل عام کا تحفہ دیاگیا اور نہتے سنی عوام کے تقریباً30ہزار نفوس کو محض 20دن کے اندر موت کی نیند سلادیاگیا۔کیا ان خونریزیوں کے باوجودہمارے سنی ضمیر فروش مولوی جو ہندوستان میں 1951سے مسلسل مظلوم مسلمانوں کے لہو کا سودا کررہے ہیں اور اس کے طفیل حکومت سے اعزازات وانعامات کی بارشیں ہورہی ہیں۔ کیا ہمارے ان بے ضمیر قائدوں کو شرم آئے گی کہ وہ سب کچھ بھول کر اور جاہ پرستی ومال ودولت کی لالچ سے اوپر اٹھ کر شام کے مظلوم سنیوں کے لئے انصاف کی آواز بلند کریں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ روہنگیا کے مظلوم مسلمان ہمارے ملی دکانداروں کو مظلوم نظر آتے ہیں مگر گزشتہ20ماہ سے شام میں گاجر مولی کی طرح کاٹے اور تراشے جارہے مظلوم سنی کا درد انہیں بے چین نہیں کرتا۔یہ ایک راز ہے جس سے پردا اٹھانا ہوگا اور ان حقائق تک ہمیں پہنچنا ہوگا جس پتہ چلے کہ امت مرحومہ کی قیادت اس وقت ایسے منافقوں، ظالموں اور جابروں کے ہاتھوں میں ہے جو کھنکھناتے سکے دیکھ کر کتے کی طرح دم ہلانے کو ترقی اوراعزاز کا سامان سمجھے ہوئے ہیں۔ 9911587378