سچ بول دوں..........میم ضاد فضلی

دنیا میں بے گناہ انسانوں کا قتل عام کسی بھی دردمنددل انسان کے لئے کبھی بھی قابل قبول نہیں رہا ہے اس کے برعکس انسانی زندگی سے محبت وعقیدت رکھنے والے انسانیت نوازوں نے ہمیشہ ایسے ظالمین پر لعنت وملامت اور مذمت بھیجی ہے۔انسانی نسلوں کے قتل عام کو چاہے اس کے پس پردہ کوئی بھی مقصد کارفرمارہا ہو انسانی دنیا میں کبھی پسند نہیں کیا گیا۔چنانچہ ہٹلر کے ذریعہ جرمنی اور خطہ ارض پر آباد دیگر علاقوں میں یہودیوں کے قتل عام کو بھی کبھی پذیرائی نہیں ملی۔خود ہٹلر کے حلقہ سے وابستہ لوگوں نے بھی ہٹلر کے اس عمل پر اس کی سرزنش کی ہے اور انسانی ہمدردی کے ناطے یہودیوں کے قتل عام کوقابل مذمت عمل قراردیا ہے۔ اگر تاریخ عالم کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ خود ہمارے وطن عزیز ہندوستان میں قتل وغارت گری کا بازار گرم کرنے والے انگریزوں کی فرعونیت کے خلاف بہت سارے انسانیت دوست انگریزوں نے محاذ آرائی کی ،ظلم وجبر کے خلاف اپنے قلم کا استعمال کیا اور ایسی غیر جانب دارانہ تاریخیں مرتب کیں جس سے انگریزی سامراج کے مظالم کی داستان صفحہ قرطاس پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوگئی۔ ہم کہنا یہ چاہ رہے ہیں کہ ظلم بہر حال ظلم ہے ،بے گناہ انسانوں کا قتل انسانی سماج کے دامن پر ایک مکروہ داغ ہے،عفت مآب خواتین کی آبروریزی کو انسانی معاشرے نے ہمیشہ قابل ملامت گردانا ہے۔ یہ الگ سی بات ہے کہ کچھ طبقہ اپنے ذاتی منفعت اور کسی قسم کی رشتہ داری نبھانے کے لئے اپنوں کے ذریعہ روا رکھی جانے والی غارت گری کی حمایت کرتا ہو،مگر یہ قطعی نہیں ہوسکتا کہ حمایت کرنے والے کا پورا معاشرہ اس ظالم کے ساتھ ہوگا جس نے بے گناہ انسانوں کے قتل عام کو اپنے سامراج کی بقا اور آمریت کے دوام کے لئے جائز گردان لیا ہو۔ ہم اس وقت شام میں گذشتہ 19ماہ سے جاری بشارالاسد کی انسانیت کے خلاف دہشت گردی کو اپنے اسی تمہید کی روشنی میں واضح کرنا چاہتے ہیں۔ مارچ2011سے بشارالاسد کی فرعونی حکومت کے خلاف جدوجہد کرنے والے اور اپنی سرزمین پر اسلامی جمہوریت کے قیام کے لئے آواز بلند کرنے والے سیریاکے عوام پر اسد کی ظالم فوج کے ذریعہ قتل وغارت گری کے بازار کو کوئی بھی انسانیت دوست معاشرہ تحسین کی نگاہوں سے نہیں دیکھ سکتا۔ الا یہ کہ اگر کسی نے مسلکی عصبیت کی عینک چڑھا رکھی ہو تو اس کی بات نہیں کی جاسکتی۔ کیونکہ اس کی عصبیت زدہ عینک میں ظالم کا ظلم نظر نہیں آئے گا،البتہ انسانیت کا قتل عام مسلک دوستی کی بنیاد پر اسے جائز نظر آسکتا ہے۔اس وقت مجموعی طور پر دنیا میں جہاں کہیں سے بھی بشارالاسد کی فرعونیت اور شام میں انسانیت کے قتل عام کو تحسین کی نگاہوں سے دیکھا جارہا ہے تو اس کے پس پردہ بس یہی پالیسی کام کررہی ہے وہاں انسانی ہمدردی کے ناطے کوئی آواز بلند نہیں کی جاتی، بلکہ مسلکی رشتے کی بنیاد پر ظالم کی حمایت کا شور غوغا اسے ضرور کہا جائے گا۔ ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ اس وقت بڑی چالاکی سے کچھ انسانیت دشمن طاقتوں نے مسلم سماج پر اپنے ظلم وبربریت کو پوشیدہ رکھنے کے لئے اپنے ہر شیطانی عمل میں یہودی اور مغرب کا ہوّا کھڑا کرکے آگے بڑھنے کا راستہ ڈھونڈ نکالا ہے تاکہ مسلم معاشرے کی ساری توجہ اسرائیل اور مغرب پر مرکوز رہے اور یہ آسانی سے بے گناہ انسانوں کے قتل عام کے مکروہ کارنامے کو انجام دیتے ہوئے تاریخ انسانی کی تمام فرعونیت کو پیچھے چھوڑتے رہیں۔مگر انسانیت کے ان دشمنوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بہت دنوں تک اپنے ظلم اورقتل وغارت گری کو پوشیدہ نہیں رکھا جاسکتا ہے چاہے آپ اسے چھپانے کے لئے دنیا کے جتنے بہانے اور حربے نکال لائیں مگر ظلم تو ظلم ہے ایک نہ ایک دن سامنے آکر رہتا ہے۔ بشارالاسد اس وقت جو کچھ کررہا ہے اسے کسی فرماں رواکے خلاف اپنے قوم کے بغاوت کو کچلنے کا عمل قرار دینا حقائق کو چھپانے والی مکاری قرار پائے گا۔ جسے منافقین انسانیت نے ہر زمانے میں بخوبی انجام دیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے علوی حکومت کے ابتدائے آفرینش سے ہی شام مسلکی جنگ کی آگ میں تپ رہا ہے۔ بشارالاسد سے قبل حافظ الاسد کے خلاف بھی عوام نے علم بغاوت بلند کیا تھا،وہاں یہ فکر کام کررہی تھی کہ کسی طرح یہ مٹھی بھر علوی جن کا نہ کوئی دین ہے نہ دھرم اور جنہیں روسی کمیونسٹوں کو اپنا خدا بنانے میں کبھی کوئی عار محسوس نہیں ہوئی۔ ایسا حاکم جس کا ایمان وعقیدہ خدا بے زاری پر مشتمل ہے وہ کیسے اس سرزمین کی آبیاری اور تحفظ کے لئے مناسب ثابت ہوسکتا ہے جس سرزمین کے لئے پیغمبر اسلام نے برکت کی دعا کی تھی۔ جہاں امام ابن تیمیہ نے اپنی درسگاہیں آراستہ کی تھیں، جہاں قاضی القضاۃ ابوحازم نے انصاف کا پرچم بلند کیا تھا۔جس کی پاک سرزمین میں عبیدہ ابن جراح ،خالد ابن ولیداورصلاح الدین ایوبی جیسے پاسبان دین وملت آسودہ خواب ہیں۔ ایسی سرزمین کا تحفظ کسی کمیونسٹ نواز حکمراں کے ذریعہ قطعی ممکن نہیں ہے۔چنانچہ دین وملت سے محبت کرنے والے رجا ل اللہ نے 1982میں ہی بغاوت کی تحریک چھیڑ دی تھی اور حافظ الاسد کی غیر افلاکی، غیر انسانی اور خدا بیزار حکومت کے خلاف جمہوریت اسلام کے قیام کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے کا تہیہ کرلیا تھا۔ چانچہ حقوق انسانی کی عالمی تنظیموں نے حافظ الاسد کے ذریعہ برپا کئے گئے قتل عام کا ریکارڈ محفوظ رکھا ہوا ہے ۔ حافظ الاسد نے اپنی غیر انسانی آمریت کے خلاف آواز بلند کرنے والے تقریباً 30سے 40ہزار بے گناہ مسلمانوں کو تہہ تیغ کردیا تھا۔ حافظ الاسد کے ذریعہ شہید کئے جانے والوں میں اگر ایک طرف جواں عمر جیالے تھے تو وہ شیر خوار بچے بھی شامل تھے جنہوں نے ابھی دنیا میں آنکھیں کھولی تھیں اور جن سے کسی نا انصافی یا گناہ کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا۔ آج ایک طویل مدت کے بعد اسی فرعون کا بیٹا بشارالاسد انسانی لاشوں سے شام کی مقدس سرزمین کو مسلسل لالہ زار کررہا ہے،جس کا انکشاف کسی اپنے نے نہیں بلکہ ان غیروں نے بھی کیا ہے جنہیں بظاہر مسلمانوں کا دشمن کہا جاتا ہے مگر انسانی ہمدردی تو ظالم سے ظالم بھی کبھی نہ کبھی بے قرار کرتی ہی ہے ۔چنانچہ حقوق انسانی کی مغربی تنظیموں نے ابھی گذشتہ اگست2012میں ایک رپورٹ پیش کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مارچ2011سے اپنے عوام پر گولہ باری کرکے بشارالاسد کی کمیونسٹ نواز فوج نے تقریباً 36ہزار بے گناہوں کو موت کی نیند سلادیا ہے۔ یعنی یومیہ 165بے گناہوں کا قتل عام کیا جارہا ہے ۔ چونکہ بشارالاسد جس مٹی سے اٹھا ہے اس کی تاریخ ظلم وبربریت اور قتل وغارت گری کی خمیر سے نکلی ہے ۔لہٰذا انسانی جانوں کی ارزانی پر نہ اس کی غیرت کبھی بیدار ہوسکتی ہے نہ اس کا نفس کبھی اسے ملامت کرسکتا ہے۔کمیونسٹ کے بابائے آدم میں ہٹلر مسولینی یا روس کے بڑے بڑے رہنماؤں نے مسلمانوں کے قتل عام کی جو تاریخ رقم کی ہے اس کے تصور سے بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ایسی فکر سے جنم سے لینے والا کوئی رہنما بھلا انسانیت کیلئے ہمدرد کیسے ہوسکتا ہے اور اس کو بچے بوڑھوں اور معاشرے کے کمزور طبقات پر رحم کیسے آئے گا جس کے اجداد نے اسے انسانیت سکھائی ہی نہیں۔ چنانچہ حقوق انسانی کی عالمی تنظیمیں بتاتی ہیں کہ تقریباً 19ماہ سے زائد عرصہ سے جاری خانہ جنگی کے دوران اسد کی فوج نے لگ بھگ 3500شیر خوار بچوں کو شہید کردیا ہے ۔ آج صورتحال یہ ہے کہ یکم اگست 2012تک ایک لاکھ سے زائد شامی شہری اپنا وطن چھوڑ کر قرب وجوار کے ممالک میں پناہ لے چکے ہیں۔ جب کہ 2لاکھ 35ہزار لوگوں نے پناہ مانگنے والوں کی فہرست میں اپنا رجسٹرڈ کرالیا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ ہندوستان جیسے انسانیت دوست ملک میں بھی ایک طبقہ بڑی بے غیرتی اور ہٹ دھرمی کے ساتھ کمیونسٹ نواز بشارالاسد کی خون ریزیوں کو جائز گردان رہا ہے اور اس کے خلاف زبان کھولنے یا قلم ا ٹھانے والے جرأت مندوں کو ملامت اور تنقیدوں کا نشانہ بنارہا ہے اوراس ناپاک مشن میں غیروں کے علاوہ خود اہل سنت کے چند دستار فروش مولوی بھی شامل ہیں جنہوں نے صرف تہران کے ایک سفر کے لئے ایران کو اپنا خدا مان رکھا ہے۔ ان کی نگاہوں میں اسرائیل کی بربریت ظلم ہے، مگر بشارالاسد کی فرعونیت عین اسلام نظر آتی ہے۔ انسانیت سے محبت کرنے والا کوئی بھی معاشرہ نہ اسرائیل کی تائید کرسکتا ہے اور نہ بشارالاسد کی فرعونیت کو جائز قرار دے سکتا ہے، مگر اس وقت انتہائی چالاکی سے بشارالاسد کے ظلم وبربریت کو دنیا کی نگاہوں سے پوشیدہ رکھنے کے لئے کچھ ضمیر فروشوں نے یہودی سرکشی کے خلاف تحریک کا نام دے کر طوفان اٹھا رکھا ہے۔ قابل غور ہے کہ ابھی عید کی خوشیاں چہروں پرہویدا تھیں کہ عین خوشیوں کے اس موقع پر اسلامی تاریخ کے مقدس ترین دمشق پر عید قرباں کے تیسرے دن بشارالاسد کی ظالم فوج نے آسمان سے بارود کی بارش کردی جس میں تقریباً 200سے زائد مکانات زمین بوس ہوگئے ، تصور کیا جاسکتا ہے کہ ان مکانوں کے مکین کی تعداد کیا رہی ہوگی اور ان کا انجام کیا ہوا ہوگا۔مگر انسانیت سے ہمدردی کا نعرہ لگانے والے دستار فروشوں نے اسد کی فرعونیت کے خلاف کوئی آواز بلند نہیں کی ۔اس کے برعکس اس کے پڑوس میں آباد ایک ایسے ملک کی دعوتیں اڑاتے رہے جہاں مسلک کی بنیاد پر حد فاصل کھینچ دی گئی ہے اور جہاں مسلمانوں کے ایک سواداعظم کو عیدالاضحی کی نماز بھی نہیں پڑھنے دی گئی۔ مجبوراً انہیں عین تہوار کے دن خود کو اپنے گھروں میں قید کرکے خدا کے حضور سجدے کرنے پڑے۔ اب تک تو صرف عیدالفطر کی نماز پر پابندی تھی مگر اب وہاں دنیا کے مسلمانوں کی 96فیصد آبادی کے لئے بقرعید کی نماز اور قربانی پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔ مگر اسی ملک کے ایک سفر کے لئے اور تہران کے عالی شان ہوٹلوں میں داد عیش دینے کے لئے کچھ بے ضمیر مولوی نما نمائندوں نے اس کی انسانیت نوازی کے فسانے کا دنیا میں شور مچا رکھا ہے۔ اگر اسی بقر عید یا قربانی پر کسی غیر اسلامی ملک میں پابندی عائد کی جاتی تو اس وقت ان مولویوں کا رد عمل کیا ہوتا یہ محتاج وضاحت نہیں ہے۔ مگر انہیں تو صرف مفت کی بھیڑ اکٹھا کرکے اپنا الو سیدھا کرنا ہے نہ کل یہ انسانیت کے لئے مخلص تھے نہ آج ملت کے ہمدرد ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اب غیور مسلمان جرأت کریں اور شام میں جاری بشارالاسد کے ظلم وبربریت کے خلاف کم از کم مذمتی کلمات سے ہی سہی اپنے مشن کا آغاز کریں،اپنی دعاؤں اور خدا کے حضور عجز ونیاز پیش کرکے شام کے لئے امن کی التجا کریں۔ شاید اللہ کو ہماری یہی ادا پسند آجائے اور شام کے مظلوموں کی آزادی کی راہ رب کریم آسان کردے۔
09911587378
No comments :
Post a Comment