کسی قوم کاسیاسی استحصال کرنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ اس قوم کو ہمیشہ حالات اور مصائب سے دوچار رکھا جائے۔ یہ حقیقت توقطعی محتاج وضاحت نہیں ہے کہ فارغ البال اور خوشحال رہنے والی قوموں کا نہ کوئی سیاسی استحصال ممکن ہے اور نہ اس کی کسمپرسی کوایجنڈہ بناکر سیاسی دکانیں سجائی جاسکتی ہیں۔ اگر ہم ہندوستانی جمہوریت کے پس منظر میں مندرجہ بالا تھیوری پر سنجیدگی سے اور دیانت دارانہ غور کریں تو یہ بات روزروشن کی طرح واضح ہوسکتی ہے ۔کے سمجھانے کیلئے نہ کسی مثال کی ضرورت ہے اور نہ کوئی منطقی یا فلسفیانہ توضیحات کی ضرورت ہے۔ ہندوستانی سیاست کے بارے میں دنیا کے مبصرین کی تقریباً عام رائے یہی رہی ہے کہ یہاں مسلمانوں کو ٹارگٹ کرکے آزادی کے بعد بتدریج فرقہ وارانہ فسادات بھڑکانے کا مقصد صرف یہی تھا کہ کسی طرح اس لٹی پٹی اقلیت کے جذبات خریدے جائیں اوران کے معاشرے میں سیاسی ایجنڈا بنانے کا موضوع نام نہاد سیکولر جماعتوں کو حاصل رہے۔ چنانچہ ایک طویل عرصہ تک ملک بھر میں ہزار روں فرقہ وارانہ فسادات کرائے گئے۔ آپ آزاد ہندوستان کی تاریخ کا مطالعہ کریں تواندازہ ہوگا کہ 1964کے جمشید پور فسادات سے لے کر 2002کے گجرات فسادات تک ملک میں برپا کی جانے والی قتل وغارت گری میں سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کا ہوا۔ اگر ہم اپنی یادداشت کے مطابق آزادی کے چندسال بعد1963کے رانچی فسادات کو اسی فہرست میں شامل کرلیں توبات اوربھی زیادہ واضح ہوجائے گی، جس کے بارے میں کہا یہ جاتا ہے کہ مذکورہ فرقہ وارانہ فسادات سے قبل رانچی میں مسلمانوں کی قابل ذکر آبادی رہتی تھی۔ انگریزوں کے ذریعہ گرفتاری کا وارنٹ جاری کئے جانے کے بعد امام الہند مولانا ابوالکلام آزادؒ نے بھی رانچی میں محض اسی وجہ سے قیام فرمایاتھا کہ وہاں ان کے مریدین اور معتقدین کی بڑی تعداد قیام پذیر تھی۔ جنہوں نے آلام وابتلاء کے دور میں امام الہند کو اصرار کرکے رانچی میں قیام کرنے پر آمادہ کیاگیاتھا۔ انہوں نے رانچی کو اس لئے بھی ترجیح دی تھی کہ وہاں برادران وطن کے علاوہ مسلمانوں کی معتد بہ تعداد موجود تھی، مگر رانچی میں آزادی کے چندبرس بعدہی برپا کئے جانے والے فرقہ وارانہ فسادات نے ایسی خونچکاں داستاں رقم کردی کہ وہی رانچی مسلمانوں کیلئے ایک اجنبی شہر بن کر رہ گیا۔ آج رانچی میں مسلمانوں کی آبادی اتنی مختصر رہ گئی ہے کہ کوئی بھی فرقہ پرست پارٹی کا امیدوار بآسانی انتخاب جیت جاتا ہے۔نہ تواس کیلئے امیدوارکواقلیتی آبادی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور نہ انہیں اپنی جانب مائل کرنے کیلئے کسی پلاننگ یافلک بوس وعدوں کی۔ہم کہنا یہ چاہ رہے ہیں کہ فرقہ وارانہ فسادات کرانے کے پس پردہ جو مقاصد کارفرما تھے وہ صرف اورصرف یہی کہ کسی طرح خود کو سیکولر قرار دینے والی سیاسی جماعتوں کو مسلمانوں کا ووٹ حاصل کرنے کا بہانہ ملتا رہے،اس حقیقت میں بھی انکارکی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ ملک میں مسلمانوں کے قتل عام کی تمام وارداتوں میں براہ راست نقصان اسی مظلوم اقلیت کاہوا ہے ،مقتولین میں ان کی گردنوں کی تعدادزیادہ رہی املاک واسباب کی بربادی میں بیشترنقصان انہیں کاہوااورانہیں کوعقوبت خانوں میں بھی سب سے زیادہ ٹھونساگیا۔ جبکہ تسلسل کیساتھ فرقہ پرست عناصر اپنی طاقت کو مستحکم کرنے کے مقصد سے یہ کارستانیاں انجام دیتے رہے ،المیہ تویہ ہے کہ مسلمانوں کی مظلومیت کانعرہ دینے والی جماعتوں نے ان کے ساتھ روارکھی جانے والی ناانصافیوں کی دہائی دیکرمسلمانوں کے ووٹوں سے کرسیاں حاصل کیں اوراقتدارملتے ہی مظلوموں کوانصاف دلانے کے سارے عہدوپیمان چھوڑکرظالموں کی نازبرداری کوہی اپنااوڑھنابچھونابنالیا،قاتلوں کوبچانے کی مجرمانہ سازشیں رچی گئیں اوران مسلم کش فسادات میں اپنے فرض کوانگوٹھادکھانے والے پولس افسران کوترقیاں دی جاتی رہیں۔ہم بلاخوف تردیدیہ بات کہہ سکتے ہیں کہ 90کی دہائی سے قبل جہاں جہاں بھی فرقہ وارانہ فسادت کرائے گئے ان میں سے بیشتر ریاستوں میں کانگریس ہی برسراقتدار تھی جبکہ مرکزمیں بھی صرف اسی کے نام کاسکہ چلتاتھامگرصدافسوس کہ ہمیشہ خودکوسکولراقدارکاسب سے بڑاعلمبردار کہنے والی کانگریس پارٹی کے حکمرانوں نے مسلمانوں کے ساتھ فریب کے کاروبار ہی چلائے مسلمانوں کے ووٹوں نے انہیں اقتدارتک پہنچا اور ان غیظ وغضب کاشکار بھی سب سے زیادہ مسلمان ہی رہے،جس کاسلسلہ کسی نہ کسی بہانے سے آج بھی جاری ہے۔اور یہ کہنابھی غیرمناسب نہیں ہے کہ کانگریس آئندہ بھی اپنی دغاآمیزسیاست میں پیش پیش رہے گی۔اگرچہ مسلمانوں پرڈھائے جانے والے عتاب کی نوعیت بدل جائے ۔واضح رہے کہ90کی دہائی کے بعد جب ملک کی کچھ ریاستوں میں کانگریس کے برخلاف دوسری سیکولر جماعتیں اقتدار میں آئیں اور ان کے وزرائے اعلیٰ نے فسادات کے ادوار میں قائدانہ رول ادا کرنے والے لوگوں کے چہرے سے نقاب الٹنا شروع کردیا تو پھر فرقہ پرستوں کیلئے مذہبی فسادات بھڑکانے کا حوصلہ ٹوٹتا چلا گیا،مسلمانوں کو انصاف دلانے کیلئے پہل کرنے والی جماعتوں میں بھی کانگریس پارٹی کہیں نظرنہیںآتی ،البتہ اس کاکریڈٹ لینے کاکانگریس پارٹی نے کبھی کوئی موقع فروگذاشت نہیں کیا۔غیرکانگریس سیکولرحکومتوں کے اقدامات سے فرقہ پرستوں کو یہ خوف ستانے لگا کہ فرقہ وارانہ فسادات کی حقیقت کبھی نہ کبھی ضرور سامنے آئے گی اور اس طرح ان کی ناپاک کارکردگیاں دنیا کے سامنے عام ہوجائیں گی جو ان کے لئے بڑے شرم کی بات ہے۔ لہٰذامسلمانوں کو مسائل سے دوچار رکھنے کیلئے 2002کے گجرات فسادات کے بعدمسلم نوجوانوں کو دہشت گردانہ حملوں کے الزام میں گرفتار کرنے کی سازش تیار کرکے وسیع پیمانے پر اسے ملک میں پھیلا دیاگیا۔حالانکہ این ڈی اے کے دورحکومت میں مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن لال کرشن اڈوانی نے دینی مدارس کا سروے کراکریہ اعتراف کیاتھاکہ دہشت گردانہ سرگرمیوں سے دینی مدارس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔یہ اس قسم کی غیر انسانی سازشوں سے بالکل پاک ہے اور اپنے مذہب کی ترویج واشاعت کیلئے خدمات انجام دے رہے ہیں۔دینی مدارس اور غریب مسلمانوں کی گرفتاریوں سے عام لوگوں میں اتنی بوکھلاہٹ اور بے قراری پیدا نہیں ہوتی تھی جس سے یہ سمجھا جاسکے کہ مسلمان اپنے غریب طبقہ کے ساتھ بروئے کار لائے جارہے اس ظالمانہ حرکت کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں اور یہ نام نہاد سیکولر جماعتوں کیلئے الیکشن میں اقلیتوں کو ٹھگنے کا بہترین مدعا بن سکتا ہے ، دہشت گری کے الزامات میں دینی مدارس کے طلبہ یااساتذہ کی اسپیشل سیل اورخفیہ ایجنسیوں کے ذریعہ انجام دی جانے والی گرفتاریوں کے نتیجے میں نام نہاد سیکولرجماعتوں کے کو،ان کے ابن الوقت مسلم لیڈروں اورکانگریس سے وابستہ مسلم نمائندوں اورملی دکانوں کے مالکان کومایوسی ہی ہاتھ لگی۔لہذا بعد کے ادوار میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کا الزام لگاکر مسلمانوں کے متوسط اور اعلیٰ گھرانوں کے نوجوانوں کو ٹارگیٹ کیا جانے لگا۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی خوف نہیں ہے کہ جب تک غریب مدارس کے طلبہ واساتذہ یا انتہائی پسماندہ حد تک تباہ ہوچکا غریب مسلمان ایجنسیوں کے عتاب کا نشانہ بن رہے تھے اس وقت تک نہ توہمارے مسلم سیاسی لیڈران اس موضوع کوسنجیدگی سے لے رہے تھے اور نہ انہیں اس میں کوئی سیاسی فائدہ نظر آرہاتھا۔ مگر اعلیٰ طبقات کے نوجوانوں پر خفیہ ایجنسیوں کا پنجۂ استبداد پڑتے ہی انہیں سمجھ میں آگیا کہ اب ان کاررائیوں کے خلاف مستعد اور پرعزم ہوکر آواز بلند کرنے کا وقت آگیا ہے جس سے سیاسی فائدے بھی حاصل ہوں گے اور واہ واہی لوٹنے کا بھی بھرپور موقع ملے گا۔ یہی وجہ ہے کہ آج مسلم نوجوانوں کی ہرناجائز گرفتاریوں کے بعد پورے ملک میں محاذ آرائی ہوتی ہے اور اسی بہانے کچھ لوگوں کو اپنا سیاسی الوسیدھا کرنے کا بھر پورموقع ملتا ہے،جبکہ مظلوں کوان کی شورانگیزیوں سے کبھی کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ور نہ کوئی وجہ نہیں تھی کہ سیکولرزم کا مکھوٹا چڑھا کر مسلمانوں کا قتل عام کرنے کا مشن لے کرکام کرنے والی سیاسی جماعتوں کے خلاف ہمارے یہ بڑے لوگ کھل کر میدان میں نہ اترتے اور ملت کے ایک ایک فرد کو یہ باور کرانے کی کوشش نہ کرتے کہ یہ سیکولر نہیں ہیں جنہیں آپ نے اپنا سمجھ کر اقتدار سونپنے کا فیصلہ کرلیا ہے بلکہ یہ آستین کے سانپ ہیں ان سے ہوشیار رہئے۔
MOBILE: 09911587378
No comments :
Post a Comment