سچ بول دوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔میم ضاد فضلی
ابھی پیرس کا زخم تازہ ہی تھا کہ اور اس غیر کیلئے مورد الزام لوگوں کے خلاف دنیا بھرمیں بے گناہ مسلم نوجوانوں کی جائز وناجا ئز گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہی اور شک کی سوئی اسرائیل کی جانب گھوم ہی رہی تھی کہ کل امریکہ کے کیلفورنیا میں اسی قتل و قتال کی تا ریخ دہرا دی گئی اور اس معاملے میں بھی کئی قسم کی تشاویش کے گھوڑے دوڑائے جارہے ہیں۔ کسی طبقہ کا دعویٰ ہے کہ اس واقعہ ذمہ دار امریکہ کا گن کلچر ہے تو کسی کا کہنا ہے کہ یہ انتہا پسند مسلم تنظیموں کی کارستانی ہے۔میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک بار پھر کیلیفور نیا کی دہشت گر دانہ کا ر کردگی نے مسلمانوں کو شک کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے اور نہ جانے اس کی آنچ کس کس بے گناہوں تک پہنچے گی یہ کہنا مشکل ہے اور کن کن بے گناہوں کی گر دنوں کو اپنے پنجۂ استبداد میں جکڑے گی اس کی بھی نشاندہی مشکل ہے ۔البتہ یہ بات صد فیصد درست ہے کہ عمواسی شبہات کی وجہ سے اصل گنہ گاروں کی گردنیں آزاد رہا کرتی ہیں اور راست طور پربے گناہوں کو مشق ستم بنا دیا جاتا ہے۔ حالاں کہ مذ ہب اسلام کسی بھی قسم کی دہشت گردی،ارہاب وتشدد کی قطعی اجازت نہیں دیتا۔اسلام دینِ فطرت ہے،اسلام حق پسند،حق شناس اور عرفان و آگہی کا پیامبر ہے ،اسی کے لانے والے محمد ﷺابن عبداللہ کو اپنوں نے ہی نہیں،بلکہ غیروں نے بھی محسن انسانیت کے لقب سے سرفراز کیا ہے،اسلام اورپیغمبر ہدایت ؐ نے اپنے ماننے والوں کو اخوت و بھائی چارہ کا درس دیا ہے،جسمانی اعضاء یا کسی بھی ذرائع سے کسی بھی شخص کو تکلیف دینے کو حرام قرار دیا ہے، راستے کی ایذاؤں کے ازالہ کو صدقہ جاریہ قرار دے کر انسان کی مصروف زندگی کو سرا پا خیر اور ہمہ دم عبادت بنا دیا ہے،اسلام زبان پر لگام کسنے کا حکم دیتا ہے،پڑوسیوں کے حقوق بیان کرتا ہے،محتاجوں پر صدقات کا حکم دیتا ہے،بیماروں کی عیادت کا حکم دیتا ہے،لاچاروں کی مدد کا حکم دیتا ہے،ظلم کو حرام کرتا ہے،گالی گلوچ پر پابندی لگاتا ہے،بڑوں کی عزت اور چھوٹوں پر شفقت کا حکم دیتا ہے،بغیر قصور کسی کا قتل ساری انسانیت کا قتل شمار کرتا ہے،اور اسی طرح مرنے والے کی مدد کرکے بچا لینا ساری انسانیت کو بچا لینا شمار کرتا ہے اور اِن تمام احکام میں مسلم و غیر مسلم کا فرق نہیں کیا گیا۔اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کوصرف مسلمانوں کیلئے خاص نہیں کیا،بلکہ مذہب اسلام تقاضہ کرتا ہے کہ انسانیت کے ناطے دنیا کے سارے لوگوں سے ان کا رویہ مْخلصانہ اور ہمدردانہ ہونا چاہئے۔اللہ تعالیٰ نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو رسولِ رحمت بنا کر بھیجا اورللِنّاسِ بَشیراً وَّ نَذِیراً کہہ کر یہ ثابت کردیا کہ رسول کی یہ رحمت صرف مسلمانوں کیلئے نہیں بلکہ مِن جْملہ انسانوں کیلئے ہے، بغیر کسی امتیازاورفرق کے۔اسلام حقانیت پسند ہے اسلام کا معنٰی ہی امن و شانتی و چین و سکون ۔اسلام اور دہشت گردی یہ متضاد المعانی ہیں، جیسے آگ اور پانی۔یعنی جہاں اسلام ہے وہاں دہشت گردی نہیں ہوتی اور جہاں دہشت گردی ہے وہاں اسلام نہیں ہوتا۔اگر حقیقت سے پردہ کْشائی کی جائے تو یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ اسلام دْشمنوں نے اللّہ کی رحمتوں کا راستہ مسلمانوں سے روکنا چاہا جس کیلئے انہوں نے مسلمانوں کو شرک و بدعت کی دعوت دی،طرح طرح کے ہتھکنڈے اپنائے، اسلام کو بدنام کرنے کی سازشیں کیں کچھ مفاد پرست اور ابن الوقت زرخرید مسلمانوں کے اعمال پیش کرکے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنا چاہا اورچند ابن الدینار و الدراھیم اور مفاد پرست مسلمانوں کو ایسے کام میں لگایاکہ وہ بے چارے یا تو دینِ اسلام سے باغی ہوگئے یا عمداً اپنے کارنا موں سے مذہب اسلام اور مسلمانوں کوذلیل ورسوا کرنے کا سامان بن گئے۔المیہ یہ ہے کہ یہمنظم سازش مغرب نے مرتب کی اوراپنے زرخرید گروہ کوساری دنیا میں متعدد شعبدہ بازیوں کے ذریعے اسلام اورمسلمانوں کو بدنام کرنے کی مذموم ڈیوٹی پر لگا دیا۔مگرقسم ہے کعبہ کے رب کی اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور مکمل امن کا متقاضی ہے اور اْسے سمجھنے کیلئے صرف اللّہ کا کلام اور رسولِ رحمت کے اقوال و افعال کافی ہیں۔حالاں کہ میں نام نہاد مسلم دانشوروں کے اس گمراہ کن نظریہ کا حامی نہیں ہوں ،اس لئے کہ مرور زمانہ اور تغیرات و انقلابات کے نتیجے میں نئے مسائل جنم لے سکتے ہیں ،جس کے بارے میں قرآ ن کریم میں خالق کائنات کاارشاد ہے کہ نو آمد تغیر اور مسائل میں اپنی عقل مت چلاؤ اس لئے کہ مسائل کے استنباط اور استخراج کیلئے قرآ ن و حدیث کے پختہ علم کی ضرورت ہے ،لہذاہل الذکر سے رجوع کیا کرو۔یہ بھی ایک ساز ش ہے کہ مغرب کی ریشہ دوانیوں کے نتیجے میں اہل اسلام کو گمراہ کن راہ پر ڈال د یا گیا اور اس طر ح اہل الذکر اور علماء سے ان کا رشتہ ہمیشہ کیلئے منقطع ہوگیا۔کچھ معا ملے میں اس قدر غلو سے کام لیا گیا کہ اپنے بزرگوں،آبا ء و اقربا اوراساتذہ کرام کے انتہائے ادب و احترام کو شرک قرار دیکر عامۃ المسلمین کو بے ادبی اوررذالت کی کھائی میں دھکیل دیا گیا۔آج حالات اگر مسلما نوں کے خلاف ہیں تو اس کیلئے مغربی استعمار ہی نہیں بلکہ ہمارے اندر موجود مخصوص طبقہ بھی ذمہ دار ہے،جس نے مذہب کی تفسیر وتفہیم کی اپنی منمانہ تعبیر کے ذریعے ارہاب وتشدد کی نئی راہیں کھول دیں۔اس کیلئے ہم مولانامودودی اور اسی طرح ان گروہوں کو نظر انداز نہیں کرسکتے جنہوں نے مسلمانوں کیلئے سیکولرزم کی تشریح میں ٹامک ٹوئیاں کیں اور ٹھوکریں کھا ئیں ۔ اسی سازش کے نتیجہ میں علم وفکرتحقیق واجتہاد کے اس اصول کوتار تار کردیا جوایک مجتہد کو شریعت کے سانچے میں باندھے رکھتا ہے۔آ ج اگرسیریا میں داعش ،عراق میں القاعدہ،لبنان میں حزب اللہ اورمصر میں اخوان المسلمون کی لہو ارزانی دہشت گردی ہے تو اپنے اپنے مفادات کیلئے اسی طرح سیریا اوریمن میں آسمانوں سے بارود برسانے کو بھی ہم دہشت گردی کی تعبیر سے جدا نہیں کرسکتے۔مغرب کے ذریعہ دہشت گردی کی وضع کردہ اصطلاح پر مادر علمی دار العلوم کے رسالہ میں بڑ نپی تلی بات کہی گئی ہے۔
’’دہشت گردی آج کے دَور میں ایک ایسی اصطلاح بن چکی ہے جس سے ہر طبقہ کے انسانوں کے کان آشنا ہیں۔ یہ لفظ سنتے ہی ذہن میں ایک خوفناک تصور قائم ہوجاتا ہے۔ وہ تصور کسی دلفریب وخوش گوار وادی کا نہیں،کسی پارٹی یا عدالت کا نہیں بلکہ انسانی احترام وعظمت کی پامالی کا، انسانیت کے تقدس کو بالائے طاق رکھ کر انسانوں کے لہو سے تربتر دامنوں کا، سڑکوں پر بہتے اور منجمد خونوں کا، بم دھماکوں اور سفاکیت کے اعلیٰ مظہر عراق، افغانستان اور فلسطین میں بے گناہ، معصوم بچوں اور عورتوں کے ساتھ وحشت وبربریت، ظلم وستم اور ناجائز طور پر ان کے حقوق کی پامالی کا ایک وحشت بھرا دردناک تصور انسانی ذہن میں قائم ہوکر ذہن ودماغ کے تاروپود کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔دہشت گردی کی اس مسموم فضا میں صرف یہی نہیں بلکہ ظلم وجبر کے ایسے ایسے روح فرسا مناظر دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھے کہ سینے میں پتھرجیسے دل رکھنے والوں کی بھی چیخیں نکل گئیں۔ سینوں میں ہمدردی اورانسانیت کی محبت اوراس کے نام پر دھڑکنے والا دل رکھنے والے انسانوں کی سسکیاں احساس کے کانوں سے سنی جاسکتی ہیں۔دہشت گردی کی اصطلاح پر ہوئے واقعات میں جہاں انسانی ذہن خاک و خون میں تڑپتی لاشوں، کشت وخون، ظلم وبربریت اور تباہی و بربادی کے عریاں رقص میں ہلاکت و بربادی کے گھاٹ پر قربان ہوتے انسانوں کی جائداد، اموال اور مکانوں کی بربادی کاتصور قائم کرتے ہیں وہیں انسانی ذہن پر واقعات کی وہ بھیانک تصویر بھی ابھرآتی ہے جو مسلم وغیرمسلم ملکوں سے بہت سے مسلمانوں، خصوصاً لکھے پڑھے اور دین دار نوجوانوں کو گرفتار کرکے، اندرونِ افغانستان وعراق اور ’’گوانتاناموبے‘‘ کے بدنام زمانہ قید خانوں میں ڈال کر ان کے ساتھ جسمانی، جنسی، ذہنی اور فکری طور پر ایسی مجرمانہ حرکتیں کی گئیں اور اذیت رسانی اور توہین و تذلیل کے ایسے ایسے طریقے وضع کیے گئے جن سے حقوقِ انسانی کے نام پر ساری دنیا نے آنسو بہادیے اور جس نے سارے انسانی ضمیر کو ہلاکر رکھ دیا۔چاہے وہ افغانستان، عراق، لبنان اور فلسطین کے معصوموں کے خون سے ہولی کے واقعات ہوں یا اپنے ملک میں بمبئی فسادات اور گودھرا حادثہ کے واقعات ہوں، گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی اور ظلم و تشدد کی ایسی سنگین مثال جس نے اچھے اچھے ظالموں اور سفاکوں کو بھی رلادیا۔ حالیہ واقعات میں تاریخ نے وحشت وبربریت اور جبر وتشدد کا ایسا ننگا ناچ اپنے سینے پر رقم نہیں کیا ہوگا۔ ان سب کے پیچھے ہمیں ایک بڑا ہاتھ، وسائل سے بھرپور جبر و تشدد اور ظلم و ستم کا پیکر کسی بہت بڑے مقصد کے لیے کارفرما نظر آتا ہے۔
یہ ساری باتیں کھول کھول کر بتا رہی ہیں کہ مسلمانوں اہل دانش اہل علم کو جانبداری کی چادر اتار کر انسانیت کی فلاح کیلئے آ گے آ نا چاہئے اور مغرب کی مرتب کردہ اصلاح کو من و عن قبول کرنے وا لے ممالک سعودی عرب اور ایران کی دیانت داری کے ساتھ تنقید ومذ مت کی جانی چاہئے۔
ابھی پیرس کا زخم تازہ ہی تھا کہ اور اس غیر کیلئے مورد الزام لوگوں کے خلاف دنیا بھرمیں بے گناہ مسلم نوجوانوں کی جائز وناجا ئز گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہی اور شک کی سوئی اسرائیل کی جانب گھوم ہی رہی تھی کہ کل امریکہ کے کیلفورنیا میں اسی قتل و قتال کی تا ریخ دہرا دی گئی اور اس معاملے میں بھی کئی قسم کی تشاویش کے گھوڑے دوڑائے جارہے ہیں۔ کسی طبقہ کا دعویٰ ہے کہ اس واقعہ ذمہ دار امریکہ کا گن کلچر ہے تو کسی کا کہنا ہے کہ یہ انتہا پسند مسلم تنظیموں کی کارستانی ہے۔میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک بار پھر کیلیفور نیا کی دہشت گر دانہ کا ر کردگی نے مسلمانوں کو شک کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے اور نہ جانے اس کی آنچ کس کس بے گناہوں تک پہنچے گی یہ کہنا مشکل ہے اور کن کن بے گناہوں کی گر دنوں کو اپنے پنجۂ استبداد میں جکڑے گی اس کی بھی نشاندہی مشکل ہے ۔البتہ یہ بات صد فیصد درست ہے کہ عمواسی شبہات کی وجہ سے اصل گنہ گاروں کی گردنیں آزاد رہا کرتی ہیں اور راست طور پربے گناہوں کو مشق ستم بنا دیا جاتا ہے۔ حالاں کہ مذ ہب اسلام کسی بھی قسم کی دہشت گردی،ارہاب وتشدد کی قطعی اجازت نہیں دیتا۔اسلام دینِ فطرت ہے،اسلام حق پسند،حق شناس اور عرفان و آگہی کا پیامبر ہے ،اسی کے لانے والے محمد ﷺابن عبداللہ کو اپنوں نے ہی نہیں،بلکہ غیروں نے بھی محسن انسانیت کے لقب سے سرفراز کیا ہے،اسلام اورپیغمبر ہدایت ؐ نے اپنے ماننے والوں کو اخوت و بھائی چارہ کا درس دیا ہے،جسمانی اعضاء یا کسی بھی ذرائع سے کسی بھی شخص کو تکلیف دینے کو حرام قرار دیا ہے، راستے کی ایذاؤں کے ازالہ کو صدقہ جاریہ قرار دے کر انسان کی مصروف زندگی کو سرا پا خیر اور ہمہ دم عبادت بنا دیا ہے،اسلام زبان پر لگام کسنے کا حکم دیتا ہے،پڑوسیوں کے حقوق بیان کرتا ہے،محتاجوں پر صدقات کا حکم دیتا ہے،بیماروں کی عیادت کا حکم دیتا ہے،لاچاروں کی مدد کا حکم دیتا ہے،ظلم کو حرام کرتا ہے،گالی گلوچ پر پابندی لگاتا ہے،بڑوں کی عزت اور چھوٹوں پر شفقت کا حکم دیتا ہے،بغیر قصور کسی کا قتل ساری انسانیت کا قتل شمار کرتا ہے،اور اسی طرح مرنے والے کی مدد کرکے بچا لینا ساری انسانیت کو بچا لینا شمار کرتا ہے اور اِن تمام احکام میں مسلم و غیر مسلم کا فرق نہیں کیا گیا۔اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کوصرف مسلمانوں کیلئے خاص نہیں کیا،بلکہ مذہب اسلام تقاضہ کرتا ہے کہ انسانیت کے ناطے دنیا کے سارے لوگوں سے ان کا رویہ مْخلصانہ اور ہمدردانہ ہونا چاہئے۔اللہ تعالیٰ نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو رسولِ رحمت بنا کر بھیجا اورللِنّاسِ بَشیراً وَّ نَذِیراً کہہ کر یہ ثابت کردیا کہ رسول کی یہ رحمت صرف مسلمانوں کیلئے نہیں بلکہ مِن جْملہ انسانوں کیلئے ہے، بغیر کسی امتیازاورفرق کے۔اسلام حقانیت پسند ہے اسلام کا معنٰی ہی امن و شانتی و چین و سکون ۔اسلام اور دہشت گردی یہ متضاد المعانی ہیں، جیسے آگ اور پانی۔یعنی جہاں اسلام ہے وہاں دہشت گردی نہیں ہوتی اور جہاں دہشت گردی ہے وہاں اسلام نہیں ہوتا۔اگر حقیقت سے پردہ کْشائی کی جائے تو یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ اسلام دْشمنوں نے اللّہ کی رحمتوں کا راستہ مسلمانوں سے روکنا چاہا جس کیلئے انہوں نے مسلمانوں کو شرک و بدعت کی دعوت دی،طرح طرح کے ہتھکنڈے اپنائے، اسلام کو بدنام کرنے کی سازشیں کیں کچھ مفاد پرست اور ابن الوقت زرخرید مسلمانوں کے اعمال پیش کرکے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنا چاہا اورچند ابن الدینار و الدراھیم اور مفاد پرست مسلمانوں کو ایسے کام میں لگایاکہ وہ بے چارے یا تو دینِ اسلام سے باغی ہوگئے یا عمداً اپنے کارنا موں سے مذہب اسلام اور مسلمانوں کوذلیل ورسوا کرنے کا سامان بن گئے۔المیہ یہ ہے کہ یہمنظم سازش مغرب نے مرتب کی اوراپنے زرخرید گروہ کوساری دنیا میں متعدد شعبدہ بازیوں کے ذریعے اسلام اورمسلمانوں کو بدنام کرنے کی مذموم ڈیوٹی پر لگا دیا۔مگرقسم ہے کعبہ کے رب کی اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور مکمل امن کا متقاضی ہے اور اْسے سمجھنے کیلئے صرف اللّہ کا کلام اور رسولِ رحمت کے اقوال و افعال کافی ہیں۔حالاں کہ میں نام نہاد مسلم دانشوروں کے اس گمراہ کن نظریہ کا حامی نہیں ہوں ،اس لئے کہ مرور زمانہ اور تغیرات و انقلابات کے نتیجے میں نئے مسائل جنم لے سکتے ہیں ،جس کے بارے میں قرآ ن کریم میں خالق کائنات کاارشاد ہے کہ نو آمد تغیر اور مسائل میں اپنی عقل مت چلاؤ اس لئے کہ مسائل کے استنباط اور استخراج کیلئے قرآ ن و حدیث کے پختہ علم کی ضرورت ہے ،لہذاہل الذکر سے رجوع کیا کرو۔یہ بھی ایک ساز ش ہے کہ مغرب کی ریشہ دوانیوں کے نتیجے میں اہل اسلام کو گمراہ کن راہ پر ڈال د یا گیا اور اس طر ح اہل الذکر اور علماء سے ان کا رشتہ ہمیشہ کیلئے منقطع ہوگیا۔کچھ معا ملے میں اس قدر غلو سے کام لیا گیا کہ اپنے بزرگوں،آبا ء و اقربا اوراساتذہ کرام کے انتہائے ادب و احترام کو شرک قرار دیکر عامۃ المسلمین کو بے ادبی اوررذالت کی کھائی میں دھکیل دیا گیا۔آج حالات اگر مسلما نوں کے خلاف ہیں تو اس کیلئے مغربی استعمار ہی نہیں بلکہ ہمارے اندر موجود مخصوص طبقہ بھی ذمہ دار ہے،جس نے مذہب کی تفسیر وتفہیم کی اپنی منمانہ تعبیر کے ذریعے ارہاب وتشدد کی نئی راہیں کھول دیں۔اس کیلئے ہم مولانامودودی اور اسی طرح ان گروہوں کو نظر انداز نہیں کرسکتے جنہوں نے مسلمانوں کیلئے سیکولرزم کی تشریح میں ٹامک ٹوئیاں کیں اور ٹھوکریں کھا ئیں ۔ اسی سازش کے نتیجہ میں علم وفکرتحقیق واجتہاد کے اس اصول کوتار تار کردیا جوایک مجتہد کو شریعت کے سانچے میں باندھے رکھتا ہے۔آ ج اگرسیریا میں داعش ،عراق میں القاعدہ،لبنان میں حزب اللہ اورمصر میں اخوان المسلمون کی لہو ارزانی دہشت گردی ہے تو اپنے اپنے مفادات کیلئے اسی طرح سیریا اوریمن میں آسمانوں سے بارود برسانے کو بھی ہم دہشت گردی کی تعبیر سے جدا نہیں کرسکتے۔مغرب کے ذریعہ دہشت گردی کی وضع کردہ اصطلاح پر مادر علمی دار العلوم کے رسالہ میں بڑ نپی تلی بات کہی گئی ہے۔
’’دہشت گردی آج کے دَور میں ایک ایسی اصطلاح بن چکی ہے جس سے ہر طبقہ کے انسانوں کے کان آشنا ہیں۔ یہ لفظ سنتے ہی ذہن میں ایک خوفناک تصور قائم ہوجاتا ہے۔ وہ تصور کسی دلفریب وخوش گوار وادی کا نہیں،کسی پارٹی یا عدالت کا نہیں بلکہ انسانی احترام وعظمت کی پامالی کا، انسانیت کے تقدس کو بالائے طاق رکھ کر انسانوں کے لہو سے تربتر دامنوں کا، سڑکوں پر بہتے اور منجمد خونوں کا، بم دھماکوں اور سفاکیت کے اعلیٰ مظہر عراق، افغانستان اور فلسطین میں بے گناہ، معصوم بچوں اور عورتوں کے ساتھ وحشت وبربریت، ظلم وستم اور ناجائز طور پر ان کے حقوق کی پامالی کا ایک وحشت بھرا دردناک تصور انسانی ذہن میں قائم ہوکر ذہن ودماغ کے تاروپود کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔دہشت گردی کی اس مسموم فضا میں صرف یہی نہیں بلکہ ظلم وجبر کے ایسے ایسے روح فرسا مناظر دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھے کہ سینے میں پتھرجیسے دل رکھنے والوں کی بھی چیخیں نکل گئیں۔ سینوں میں ہمدردی اورانسانیت کی محبت اوراس کے نام پر دھڑکنے والا دل رکھنے والے انسانوں کی سسکیاں احساس کے کانوں سے سنی جاسکتی ہیں۔دہشت گردی کی اصطلاح پر ہوئے واقعات میں جہاں انسانی ذہن خاک و خون میں تڑپتی لاشوں، کشت وخون، ظلم وبربریت اور تباہی و بربادی کے عریاں رقص میں ہلاکت و بربادی کے گھاٹ پر قربان ہوتے انسانوں کی جائداد، اموال اور مکانوں کی بربادی کاتصور قائم کرتے ہیں وہیں انسانی ذہن پر واقعات کی وہ بھیانک تصویر بھی ابھرآتی ہے جو مسلم وغیرمسلم ملکوں سے بہت سے مسلمانوں، خصوصاً لکھے پڑھے اور دین دار نوجوانوں کو گرفتار کرکے، اندرونِ افغانستان وعراق اور ’’گوانتاناموبے‘‘ کے بدنام زمانہ قید خانوں میں ڈال کر ان کے ساتھ جسمانی، جنسی، ذہنی اور فکری طور پر ایسی مجرمانہ حرکتیں کی گئیں اور اذیت رسانی اور توہین و تذلیل کے ایسے ایسے طریقے وضع کیے گئے جن سے حقوقِ انسانی کے نام پر ساری دنیا نے آنسو بہادیے اور جس نے سارے انسانی ضمیر کو ہلاکر رکھ دیا۔چاہے وہ افغانستان، عراق، لبنان اور فلسطین کے معصوموں کے خون سے ہولی کے واقعات ہوں یا اپنے ملک میں بمبئی فسادات اور گودھرا حادثہ کے واقعات ہوں، گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی اور ظلم و تشدد کی ایسی سنگین مثال جس نے اچھے اچھے ظالموں اور سفاکوں کو بھی رلادیا۔ حالیہ واقعات میں تاریخ نے وحشت وبربریت اور جبر وتشدد کا ایسا ننگا ناچ اپنے سینے پر رقم نہیں کیا ہوگا۔ ان سب کے پیچھے ہمیں ایک بڑا ہاتھ، وسائل سے بھرپور جبر و تشدد اور ظلم و ستم کا پیکر کسی بہت بڑے مقصد کے لیے کارفرما نظر آتا ہے۔
یہ ساری باتیں کھول کھول کر بتا رہی ہیں کہ مسلمانوں اہل دانش اہل علم کو جانبداری کی چادر اتار کر انسانیت کی فلاح کیلئے آ گے آ نا چاہئے اور مغرب کی مرتب کردہ اصلاح کو من و عن قبول کرنے وا لے ممالک سعودی عرب اور ایران کی دیانت داری کے ساتھ تنقید ومذ مت کی جانی چاہئے۔