Friday, December 4, 2015

دہشت گرد مسلمان نہیں ہوتے ......؟

سچ بول دوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔میم ضاد فضلی
ابھی پیرس کا زخم تازہ ہی تھا کہ اور اس غیر کیلئے مورد الزام لوگوں کے خلاف دنیا بھرمیں بے گناہ مسلم نوجوانوں کی جائز وناجا ئز گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہی اور شک کی سوئی اسرائیل کی جانب گھوم ہی رہی تھی کہ کل امریکہ کے کیلفورنیا میں اسی قتل و قتال کی تا ریخ دہرا دی گئی اور اس معاملے میں بھی کئی قسم کی تشاویش کے گھوڑے دوڑائے جارہے ہیں۔ کسی طبقہ کا دعویٰ ہے کہ اس واقعہ ذمہ دار امریکہ کا گن کلچر ہے تو کسی کا کہنا ہے کہ یہ انتہا پسند مسلم تنظیموں کی کارستانی ہے۔میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک بار پھر کیلیفور نیا کی دہشت گر دانہ کا ر کردگی نے مسلمانوں کو شک کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے اور نہ جانے اس کی آنچ کس کس بے گناہوں تک پہنچے گی یہ کہنا مشکل ہے اور کن کن بے گناہوں کی گر دنوں کو اپنے پنجۂ استبداد میں جکڑے گی اس کی بھی نشاندہی مشکل ہے ۔البتہ یہ بات صد فیصد درست ہے کہ عمواسی شبہات کی وجہ سے اصل گنہ گاروں کی گردنیں آزاد رہا کرتی ہیں اور راست طور پربے گناہوں کو مشق ستم بنا دیا جاتا ہے۔ حالاں کہ مذ ہب اسلام کسی بھی قسم کی دہشت گردی،ارہاب وتشدد کی قطعی اجازت نہیں دیتا۔اسلام دینِ فطرت ہے،اسلام حق پسند،حق شناس اور عرفان و آگہی کا پیامبر ہے ،اسی کے لانے والے محمد ﷺابن عبداللہ کو اپنوں نے ہی نہیں،بلکہ غیروں نے بھی محسن انسانیت کے لقب سے سرفراز کیا ہے،اسلام اورپیغمبر ہدایت ؐ نے اپنے ماننے والوں کو اخوت و بھائی چارہ کا درس دیا ہے،جسمانی اعضاء یا کسی بھی ذرائع سے کسی بھی شخص کو تکلیف دینے کو حرام قرار دیا ہے، راستے کی ایذاؤں کے ازالہ کو صدقہ جاریہ قرار دے کر انسان کی مصروف زندگی کو سرا پا خیر اور ہمہ دم عبادت بنا دیا ہے،اسلام زبان پر لگام کسنے کا حکم دیتا ہے،پڑوسیوں کے حقوق بیان کرتا ہے،محتاجوں پر صدقات کا حکم دیتا ہے،بیماروں کی عیادت کا حکم دیتا ہے،لاچاروں کی مدد کا حکم دیتا ہے،ظلم کو حرام کرتا ہے،گالی گلوچ پر پابندی لگاتا ہے،بڑوں کی عزت اور چھوٹوں پر شفقت کا حکم دیتا ہے،بغیر قصور کسی کا قتل ساری انسانیت کا قتل شمار کرتا ہے،اور اسی طرح مرنے والے کی مدد کرکے بچا لینا ساری انسانیت کو بچا لینا شمار کرتا ہے اور اِن تمام احکام میں مسلم و غیر مسلم کا فرق نہیں کیا گیا۔اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کوصرف مسلمانوں کیلئے خاص نہیں کیا،بلکہ مذہب اسلام تقاضہ کرتا ہے کہ انسانیت کے ناطے دنیا کے سارے لوگوں سے ان کا رویہ مْخلصانہ اور ہمدردانہ ہونا چاہئے۔اللہ تعالیٰ نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو رسولِ رحمت بنا کر بھیجا اورللِنّاسِ بَشیراً وَّ نَذِیراً کہہ کر یہ ثابت کردیا کہ رسول کی یہ رحمت صرف مسلمانوں کیلئے نہیں بلکہ مِن جْملہ انسانوں کیلئے ہے، بغیر کسی امتیازاورفرق کے۔اسلام حقانیت پسند ہے اسلام کا معنٰی ہی امن و شانتی و چین و سکون ۔اسلام اور دہشت گردی یہ متضاد المعانی ہیں، جیسے آگ اور پانی۔یعنی جہاں اسلام ہے وہاں دہشت گردی نہیں ہوتی اور جہاں دہشت گردی ہے وہاں اسلام نہیں ہوتا۔اگر حقیقت سے پردہ کْشائی کی جائے تو یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ اسلام دْشمنوں نے اللّہ کی رحمتوں کا راستہ مسلمانوں سے روکنا چاہا جس کیلئے انہوں نے مسلمانوں کو شرک و بدعت کی دعوت دی،طرح طرح کے ہتھکنڈے اپنائے، اسلام کو بدنام کرنے کی سازشیں کیں کچھ مفاد پرست اور ابن الوقت زرخرید مسلمانوں کے اعمال پیش کرکے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنا چاہا اورچند ابن الدینار و الدراھیم اور مفاد پرست مسلمانوں کو ایسے کام میں لگایاکہ وہ بے چارے یا تو دینِ اسلام سے باغی ہوگئے یا عمداً اپنے کارنا موں سے مذہب اسلام اور مسلمانوں کوذلیل ورسوا کرنے کا سامان بن گئے۔المیہ یہ ہے کہ یہمنظم سازش مغرب نے مرتب کی اوراپنے زرخرید گروہ کوساری دنیا میں متعدد شعبدہ بازیوں کے ذریعے اسلام اورمسلمانوں کو بدنام کرنے کی مذموم ڈیوٹی پر لگا دیا۔مگرقسم ہے کعبہ کے رب کی اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور مکمل امن کا متقاضی ہے اور اْسے سمجھنے کیلئے صرف اللّہ کا کلام اور رسولِ رحمت کے اقوال و افعال کافی ہیں۔حالاں کہ میں نام نہاد مسلم دانشوروں کے اس گمراہ کن نظریہ کا حامی نہیں ہوں ،اس لئے کہ مرور زمانہ اور تغیرات و انقلابات کے نتیجے میں نئے مسائل جنم لے سکتے ہیں ،جس کے بارے میں قرآ ن کریم میں خالق کائنات کاارشاد ہے کہ نو آمد تغیر اور مسائل میں اپنی عقل مت چلاؤ اس لئے کہ مسائل کے استنباط اور استخراج کیلئے قرآ ن و حدیث کے پختہ علم کی ضرورت ہے ،لہذاہل الذکر سے رجوع کیا کرو۔یہ بھی ایک ساز ش ہے کہ مغرب کی ریشہ دوانیوں کے نتیجے میں اہل اسلام کو گمراہ کن راہ پر ڈال د یا گیا اور اس طر ح اہل الذکر اور علماء سے ان کا رشتہ ہمیشہ کیلئے منقطع ہوگیا۔کچھ معا ملے میں اس قدر غلو سے کام لیا گیا کہ اپنے بزرگوں،آبا ء و اقربا اوراساتذہ کرام کے انتہائے ادب و احترام کو شرک قرار دیکر عامۃ المسلمین کو بے ادبی اوررذالت کی کھائی میں دھکیل دیا گیا۔آج حالات اگر مسلما نوں کے خلاف ہیں تو اس کیلئے مغربی استعمار ہی نہیں بلکہ ہمارے اندر موجود مخصوص طبقہ بھی ذمہ دار ہے،جس نے مذہب کی تفسیر وتفہیم کی اپنی منمانہ تعبیر کے ذریعے ارہاب وتشدد کی نئی راہیں کھول دیں۔اس کیلئے ہم مولانامودودی اور اسی طرح ان گروہوں کو نظر انداز نہیں کرسکتے جنہوں نے مسلمانوں کیلئے سیکولرزم کی تشریح میں ٹامک ٹوئیاں کیں اور ٹھوکریں کھا ئیں ۔ اسی سازش کے نتیجہ میں علم وفکرتحقیق واجتہاد کے اس اصول کوتار تار کردیا جوایک مجتہد کو شریعت کے سانچے میں باندھے رکھتا ہے۔آ ج اگرسیریا میں داعش ،عراق میں القاعدہ،لبنان میں حزب اللہ اورمصر میں اخوان المسلمون کی لہو ارزانی دہشت گردی ہے تو اپنے اپنے مفادات کیلئے اسی طرح سیریا اوریمن میں آسمانوں سے بارود برسانے کو بھی ہم دہشت گردی کی تعبیر سے جدا نہیں کرسکتے۔مغرب کے ذریعہ دہشت گردی کی وضع کردہ اصطلاح پر مادر علمی دار العلوم کے رسالہ میں بڑ نپی تلی بات کہی گئی ہے۔
’’دہشت گردی آج کے دَور میں ایک ایسی اصطلاح بن چکی ہے جس سے ہر طبقہ کے انسانوں کے کان آشنا ہیں۔ یہ لفظ سنتے ہی ذہن میں ایک خوفناک تصور قائم ہوجاتا ہے۔ وہ تصور کسی دلفریب وخوش گوار وادی کا نہیں،کسی پارٹی یا عدالت کا نہیں بلکہ انسانی احترام وعظمت کی پامالی کا، انسانیت کے تقدس کو بالائے طاق رکھ کر انسانوں کے لہو سے تربتر دامنوں کا، سڑکوں پر بہتے اور منجمد خونوں کا، بم دھماکوں اور سفاکیت کے اعلیٰ مظہر عراق، افغانستان اور فلسطین میں بے گناہ، معصوم بچوں اور عورتوں کے ساتھ وحشت وبربریت، ظلم وستم اور ناجائز طور پر ان کے حقوق کی پامالی کا ایک وحشت بھرا دردناک تصور انسانی ذہن میں قائم ہوکر ذہن ودماغ کے تاروپود کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔دہشت گردی کی اس مسموم فضا میں صرف یہی نہیں بلکہ ظلم وجبر کے ایسے ایسے روح فرسا مناظر دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھے کہ سینے میں پتھرجیسے دل رکھنے والوں کی بھی چیخیں نکل گئیں۔ سینوں میں ہمدردی اورانسانیت کی محبت اوراس کے نام پر دھڑکنے والا دل رکھنے والے انسانوں کی سسکیاں احساس کے کانوں سے سنی جاسکتی ہیں۔دہشت گردی کی اصطلاح پر ہوئے واقعات میں جہاں انسانی ذہن خاک و خون میں تڑپتی لاشوں، کشت وخون، ظلم وبربریت اور تباہی و بربادی کے عریاں رقص میں ہلاکت و بربادی کے گھاٹ پر قربان ہوتے انسانوں کی جائداد، اموال اور مکانوں کی بربادی کاتصور قائم کرتے ہیں وہیں انسانی ذہن پر واقعات کی وہ بھیانک تصویر بھی ابھرآتی ہے جو مسلم وغیرمسلم ملکوں سے بہت سے مسلمانوں، خصوصاً لکھے پڑھے اور دین دار نوجوانوں کو گرفتار کرکے، اندرونِ افغانستان وعراق اور ’’گوانتاناموبے‘‘ کے بدنام زمانہ قید خانوں میں ڈال کر ان کے ساتھ جسمانی، جنسی، ذہنی اور فکری طور پر ایسی مجرمانہ حرکتیں کی گئیں اور اذیت رسانی اور توہین و تذلیل کے ایسے ایسے طریقے وضع کیے گئے جن سے حقوقِ انسانی کے نام پر ساری دنیا نے آنسو بہادیے اور جس نے سارے انسانی ضمیر کو ہلاکر رکھ دیا۔چاہے وہ افغانستان، عراق، لبنان اور فلسطین کے معصوموں کے خون سے ہولی کے واقعات ہوں یا اپنے ملک میں بمبئی فسادات اور گودھرا حادثہ کے واقعات ہوں، گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی اور ظلم و تشدد کی ایسی سنگین مثال جس نے اچھے اچھے ظالموں اور سفاکوں کو بھی رلادیا۔ حالیہ واقعات میں تاریخ نے وحشت وبربریت اور جبر وتشدد کا ایسا ننگا ناچ اپنے سینے پر رقم نہیں کیا ہوگا۔ ان سب کے پیچھے ہمیں ایک بڑا ہاتھ، وسائل سے بھرپور جبر و تشدد اور ظلم و ستم کا پیکر کسی بہت بڑے مقصد کے لیے کارفرما نظر آتا ہے۔
یہ ساری باتیں کھول کھول کر بتا رہی ہیں کہ مسلمانوں اہل دانش اہل علم کو جانبداری کی چادر اتار کر انسانیت کی فلاح کیلئے آ گے آ نا چاہئے اور مغرب کی مرتب کردہ اصلاح کو من و عن قبول کرنے وا لے ممالک سعودی عرب اور ایران کی دیانت داری کے ساتھ تنقید ومذ مت کی جانی چاہئے۔

Friday, November 6, 2015

Wednesday, October 14, 2015

جنگل راج کہاں ہے دہلی میں یا بہار میں

جنگل راج کہاں ہے دہلی میں یا بہار میں! میم ضاد فضلی سرزمین ہند تیز تر سیاست اور رنگارنگ انتخابی مہم کے لئے مقبول ہے۔ خاص کر بہار میں جب بھی انتخابات کا مرحلہ آتا ہے تو یہاں سیاسی جنگ شدت اختیار کرجاتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی رنگارنگ انتخابی مہم بھی زور پکڑتی ہے۔ جب سیاست داں ریاست بھر میں انتخابی مہم چلاتے ہیں تو ان کے درمیان ایک دوسرے کی پول کھولنے کی مہم بھی انتہا کو پہنچ جاتی ہے۔ چیف منسٹر بہار نتیش کمار کو عظیم سیکولر اتحاد کا مکھوٹا قرار دیتے ہوئے بی جے پی صدر امیت شاہ نے کہا ہے کہ اگر نتیش کمار کو دوبارہ اقتدار دیا گیا تو بہار میں ’’جنگل راج 2‘‘ شروع ہوگا۔یہ الگ بات ہے کہ کل ہی اپنے ٹیوٹر اکا ؤ نٹ پر نتیش کمار نے وزیر اعظم نریندر مودی اور پارٹی صدر امیت شاہ کی توجہ اس جانب مبذ ول کر ا تے ہو ئے کہا ہے جنگل راج کی کوئی مثا ل بہار میں موجود ہوتو ثبوت کے ساتھ بتائیے !ور نہ اخلا ق کے قاتلوں کی پشت پناہی کرنے والے لوگ جو دہلی میں ہندوستان کی قیادت کررہے ہیں ان کی کار کردگی جنگل راج جیسی ہے یا نہیں اس کی تفصیل دنیا کے سا منے ضرور آ نی چا ہئے۔ بہار کی ترقی کے حوالے سے لڑے جانے والے یہ انتخابات یوپی میں دادری قتل واقعہ کے بعد فرقہ وارانہ نوعیت کی مقابلہ آرائی میں تبدیل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔عام انتخابات میں 2014 میں حاصل ہونے والی ناقابل تسخیر کا میا بی کے و ز یر اعظم نریند ر مودی اور ان کی ٹیم نے شا ید یہ یقین کرلیا تھا کہ اب ہندوستا ن میں فرقہ پرستی کا سکہ رائج ہوگیاہے اور اب ملک کے رائے دہندگان کے سامنے ووٹ کیلئے اقتصادی سماجی یا مراعاتی ایشوزلے کر جانے کی ضرورت باقی نہیں رہ جائے گی۔مگر افسوس کیساتھ کہنا پڑتاہے کہ ہمارے بھگوابریگیڈ نے معروف ہندی کوی کبیرداس کی یہ’’ پنکتی ‘‘ یاد رکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ ’’بھوکے بھجن نہ ہوئے‘‘۔بی جے پی اس مینڈ یٹ کو سمجھنے میں بالکل نا کام رہی ،پا ر ٹی اعلیٰ کما ن کو یہ غلط فہمی پیدا ہوگئی تھی کہ ملک کے رائے دہندگان مودی کے ہندوتوا وا دی چہرے کو دیکھ کر لٹو ہو گئے تھے ،حالا ں کہ عوا نے مودی جی کے ان وعدو ں پر یقین کر لیاتھا جس میں وہ عام لوگوں سے کہا کر تے تھے کہ اقتد ا ر ہا تھ میں آ تے ہی 15دن کے اندر مہنگائی سے سبھی کو نجا ت دلا دیں گے اور سوئز بنکو ں میں جمع ٹیکس چوروں کے لاکھوں کروڑوں روپے ملک واپس لا کر ہر غریب کے اکاؤ نٹ میں 15لاکھ روپے جمع کرا د یں گے ،اس سے ملک میں دولت کی ایسی ریل پیل ہوجا ئے گی کہ لوگ پچھلے سارے دکھ بھول جائیں گے ۔مگرانتخابات کے محض چند ماہ کے اندر ہی عوام یہ محسوس کر نے لگے کہ انہیں بھگوا طاقتوں نے ٹھگ لیا ہے۔بعد ازاں تقریباً چار ماہ بعد ملک کی 10 ریاستوں میں 33 اسمبلی سیٹوں اور تین لوک سبھا سیٹوں کیلئے ہوئے ضمنی انتخابات کے نتائج سے نکلے اشارہ بی جے پی کے لئے اچھے نہیں رہ سکے ۔راجستھان کی چار اسمبلی سیٹوں پر ہوئے ضمنی انتخابات کا نتیجہ تو آنکھیں کھولنے والا تھا، قریب سو دن پہلے وہاں کے عوام نے تین چوتھائی اکثریت کے ساتھ بی جے پی کو ریاست کی طاقت سونپی تھی، لیکن ضمنی انتخابات کے نتائج میں چار میں سے تین نشستیں کانگریس کے کھاتے میں چلی گئیں ۔ ایسے میں یہ سوال اہم ہے کہ آخر چند ماہ میں ہی ایسا کیا ہوگیا کہ لوگوں کا بی جے پی سے بھروسہ ٹو ٹنے لگا! پھر دہلی کے اسمبلی نتائج نے بھی بی جے پی کو عو ام کا درد سمجھنے کا سبق دیا ۔مگر ان سب کے با و جو د مودی مہم کے مداری صرف وا ہ وا ہی لو ٹنے میں مگن رہے اوردوسری جانب پا ر ٹی کی الٹی گنتی بھی شروع ہو گئی ۔اب بی جے پی نے بہار کیلئے ساری طاقت لگادی ہے ۔شاید یہ آ زاد ہندو ستا ن کی تا ریخ کا پہلا اسمبلی انتخاب ہے ،جس میں وزیر اعظم کے باوقار عہدہ پر فائز شخص ریلیوں کی لائن لگائے ہو ا ہے۔ بہار میں سال 2005ء کے بعد سے سخت ترین انتخابی مقابلے ہورہے ہیں۔ بہار کی 243 رکنی اسمبلی کیلئے پہلے مرحلے کا انتخاب گزشتہ 12اکتو بر 2015 کو اختتام پذ یر ہوا ہے،اگرچہ نتائج سے قبل کچھ بھی کہنا مشکل ہے کہ عوامی مینڈیٹ کس کے حق میں گیا ہے ،مگرمہنگائی سے بے حال عوام کو ’’بھوکے پیٹ بھجن‘‘ کرانے کی روش بتارہی ہے کہ نتائج کا فی بھیا نک ہوں گے۔سیکولر اتحاد بنانے والی پارٹیوں حکمراں جنتا دل (یو)، آر جے ڈی اور کانگریس کے قائدین کو مخالف پارٹی بی جے پی اور اتحادی جماعتوں کے ساتھ کانٹے کی ٹکر ہے۔ وزیراعظم کی حیثیت سے نریندر مودی کے لئے بہار انتخابات کڑی آزمائش کی گھڑی ہے ۔ سیکولر اتحاد کے قائدین جیسے آر جے ڈی صدر لالو پرساد یادو نے فرقہ پرستوں کے خلاف زبردست محاذ شروع کیا ہے۔ اگر دادری میں ایک بے قصور مسلم شخص کے قتل کا احساس رکھنے والے سیکولر رائے دہندوں نے نتیش کمار کے اتحاد کو ووٹ دیا تو یہ فیصلہ مرکز کی مودی حکومت کے لئے زبردست طمانچہ ہوگا۔ بہار کے سیکولر اتحاد کو مضبوط بنانے کا سہرا چیف منسٹر اور جے ڈی یو کے سینئر رہنما نتیش کمار کے سَر جائے گا۔ بہار میں نتیش کمار کی مقبولیت اور مرکز میں نریندر مودی کی ہچکولے کھاتی حکمرانی کے درمیان عوام کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آیا انہیں اپنی ریاست کو فرقہ پرستوں کے حوالے کرنا ہے یا ترقی کی سمت گامزن کرنا ہے۔ لوک سبھا انتخابات کے دوران بہار کے جن رائے دہندوں نے نریندر مودی کو ووٹ دیا تھا،وہ اب اسمبلی انتخابات میں چیف منسٹر نتیش کمار کی کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ دیں گے۔ بہار میں ترقی کی لہر کو نتیش کمار ماڈل سے مقبولیت مل رہی ہے۔ بی جے پی نے اپنے چیف منسٹر امیدوار کی حیثیت سے کسی لیڈر کو پیش نہیں کیا ہے تاہم بی جے پی امیدواروں میں سشیل کمار مودی اصل دعویدار ہیں۔مگر کل ہی بی جے پی کے ترجمان شہنواز حسین نے یہ کہہ کر کھلبلی مچادی ہے کہ بی جے پی کو اکثریت حا صل ہوتی ہے تو وز یر اعلیٰ سابق وزیر پریم کمار ہوں گے،اس بیان کے بعد سشیل کمار مودی کتنا ثابت قدم رہ سکیں گے یہ آ نے والا وقت ہی بتا ئے گا ۔مگریہ سچ ہے کہ اس سے بہار کے مودی کے حوصلے جواب دے رہے ہوں گے اورشاید آئندہ کچھ کہنے کیلئے ان کے پا س توانا ئی با قی نہ رہے؟ بی جے پی کی عوامی مقبولیت کے برعکس نتیش کمار کی مقبولیت دوگنی ہے۔ بہار میں بی جے پی کو ماضی کے بعض اہم قائدین کی مقبولیت کا سہارا لینا پڑے گا۔اسی دوران مودی جی نے بہار کے ایک عظیم سیاسی رہنما کواچک لینے میں کامیابی حاصل کی ہے، ایمرجنسی کے خلاف عوام کی آواز بن کر سامنے آ نے وا لے سیاسی رہنما جے پرکاش نارائن کے نام کو بی جے پی نے آخری اسلحہ کے طور پر اٹھالیا ہے۔مگربد قسمتی یہ ہے کہ وزیر اعظم مودی اور ان کے بھشماسر امیت شاہ کی ایک بھی ریلی میں آنجہا نی جے پر کا ش نا را ئن کے کنبہ کا کوئی بھی فرد کسی کو بھی نظر نہیں آ رہا ہے۔ بی جے پی نے جے پرکاش نارائن کو اپنا لیڈر کہا ہے اور 11 اکتوبر کو جے پی کی 113 ویں یوم پیدائش کو بڑے پیمانے پرپرشکوہ جشن کی شکل میں منا یا ۔بی جے پی جو ایمرجنسی دور کے بعد جن سنگھ کی کوکھ سے جنم لینے والی پارٹی ہے،جے پرکاش نارائن کی تحریک میں شامل دیگر اہم لیڈروں کے ناموں کا بھی سہارا لینے کی کوشش کررہی ،مگرٹھگی ہوئی ہندوستانی قوم کسی بھی حال میں بی جے پی پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ فرقہ پرست نظریہ کو فروغ دینے والی پارٹی اگر جمہوریت بچاؤ مہم کو اپنا ہتھیار بنا رہی ہے تو یہ انتخابات کے نتائج کے بعد ہی معلوم ہوگا کہ اس کو کہاں پر کس حد تک نقصان پہنچا ہے۔ بہار میں یہ انتخابات ہندوستان کے سیاسی مستقبل کا رْخ موڑ سکتے ہیں۔ اگر بی جے پی کو 243 رکنی ایوان میں اکثریت حاصل کرنے میں ناکامی ہو ئی تو وہ اپنی حلیف پارٹیوں کی مدد سے حکومت سازی پر غور کرسکتی ہے۔ مگر اس کیلئے چیف منسٹر کے عہدہ کا سوال ہی پیدا ہوگا اور یہ بی جے پی مرکزی قیادت کے لئے دردِ سَر بن جائے گا کہ بہار میں چیف منسٹر کا عہدہ کس کے حوالے کیا جائے۔ حکمران پارٹی کے سیکولر اتحاد کو نقصان پہنچانے کیلئے ایک مسلم پارٹی کا کردار اگر سنگھ پریوار کے حق میں ہوگا تو پھر موقع پرستی اور ہندوتوا طاقتوں سے خفیہ ہاتھ ملانے کی بدترین مثال بھی قائم ہوگی۔ بہرحال بہار کے رائے دہندگا ن صرف صاف ستھری قیادت کو ترجیح دینے کا تہیہ کرلیں تو پھر انہیں آنے والے دنوں میں کوئی پریشانی نہیں ہوگی لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ کسی بھی پارٹی کے پاس صاف ستھرے کردار والے قائدین کی تعداد نہیں کے برابر ہے۔ 09911587378

Wednesday, September 16, 2015

بہارکی ترقیکا کریڈٹ نتیش کو، مگر لالو کا ساتھ بڑاچیلنج


بہارکی ترقی کا کریڈٹ نتیش کو، مگر لالو کا ساتھ بڑاچیلنج

میم ضادفضلی
نئی دہلی :بہار اسمبلی الیکشن سے پہلے ووٹر کی نبض ٹٹوٹٹولنے کیلئے جنتا دل (یونائیٹڈ) کی جانب سے کرائے گئے داخلی سروے کے نتائج پارٹی کو پریشان کر سکتے ہیں۔ تاہم ایک دیگرسروے جواے بی پی نیلسن کے نام سے منظرعام پرآیاہے ،اس میں بتایاگیاہے کہ بی جے پی اوردیگرفسطائی قوتوں کی فتنہ انگیزیوں کے باوجودنتیش کمارکاجادوبرقرارہے۔
ادرھرجے ڈی یو کے داخلی سروے میں شامل زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ بہار میں تبدیلی اور ترقی دکھائی دے رہی ہے اس سے چشم پوشی کرنے والادیانت اورسچائی کادشمن ہی ہوسکتاہے اور ریاست کی اس ترقی وہمہ جہت تبدیلی کاکریڈٹنتیش کمار کو دیاگیاہے،تاہم چونکہ یہ سروے برسرقتداروزیراعلیٰ کی جماعت کے لوگوں نے ہی کیاہے،اس لئے اپنے سینئرلیڈرکی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانے کے اندیشہ سے انکارنہیں کیاجاسکتا۔اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ بہارنے موجودہ وزیراعلیٰ نتیش کمارکی قیادت میں قابل ذکرترقی کی ہے،مجرمانہ واقعات کی وارداتوں میں بھی کمی آئی ہے اوربڑی حدتک بدعنوانی کیخلاف اقدامات کے معاملے میں بہارکی نتیش حکومت نے پورے ملک کوآئینہ دکھایاہے۔اس کااعتراف بدعنوانی کیخلاف ملک گیرتحریک کارگاندھی نوازبزرگ اناہزارے بھی کیاہے۔البتہ اس سے بھی انکارممکن نہیں ہے کہ ریاست کے ترقیاتی منصوبوں کوعملی جامہ پہنانے کیلئے مرکزکی سابق یوپی اے حکومت نے فنڈدینے میں کسی موقع پرعدم دلچسپی کامظاہرہ کیاہوایسی مثالیں کافی کم ہیں۔مگرمرکزمیں این ڈی اے کی واپسی اورنریندرمودی کے وزیراعظم بننے کے بعدمتعددترقیاتی منصوبے تشن�ۂ تکمیل رہ گئے اوروہ صرف اس وجہ سے کہ سیاسی تنازع کی وجہ سے مودی حکومت نے فنڈمہیاکرانے میں بہارکے ساتھ معاندانہ رویہ اختیارکیاہے۔وزیراعلیٰ نتیش کمارنے مظفرپورریلی سے قبل پٹنہ میں نریندرمودی کے اسٹیج پرہی مرکزی اسکیموں کی تکمیل میں سیاسی دشمنی نکالنے اوربہارکے ساتھ ناانصافی کی شکایت بھی کی تھی۔اسی اجلاس میں نریندرمودی نے اپنی تقریرمیں اس بات کااعتراف کیاتھاکہ بعض اوقات سیاسی مخاصمت کے نتیجے میں ترقی اورعوامی مفادات کے اہم منصوبے ناکارہ ہوجاتے ہیں۔جمہوری نظام حکومت میںیہ ایک تلخ سچائی ہے،جس سے انکارنہیں کیاجاسکتا۔وزیراعظم کانتیش کمارکے سامنے یہ اعتراف بھی اسی جانب اشارہ کررہاہے کہ ریاست کی ترقی میں نتیش کمارکی قربانی کوسبھی لوگ قبول کرتے ہیں۔ حالاں کہ اس سروے میںیہ بات بھی بتائی گئی ہے کہ نتیش کمارکے لالوسے ہاتھ ملانے پرنقصان کااندیشہ ہے۔حالانکہ بہارکی سیاست کاگہرامطالعہ رکھنے والے ماہرین کاخیال ہے کہ بہارمیں چونکہ ذات کافیکٹرہمیشہ نمایاں رہاہے اوریہی وجہ ہے کہ عام انتخابات کے بعدجب بہاراسمبلی کیلئے لگ بھگ ایک درجن سیٹوں پرانتخابات کرائے گئے توجیتنے کے لئے بی جے پی کے بڑے لیڈروں کوخون تھوکناپڑاتھااورمسلم یادوکے علاوہ نتیش کمارکے مہادلت حامیوں نے فارورڈبلاک کوکھلاپیغام دیدیاتھاکہ بہارمیں ذات فیکٹرکی جڑیں کافی گہری ہیں اوراس کاراست فائدہ اس جماعت یااتحادکومل سکتاہے جدھراقلیت اوریادووں کاجھکاؤہوگا، لیکن جے ڈی یوکااندرونی سروے بتاتاہے کہ پارٹی کی اکثریت دوبارہ نتیش کمارکو سی ایم کے طور پر منتخب کرنے کیلئے تیار نہیں ہے،اگریہ صحیح ہے تویہی کہاجاسکتاہے کہ یہ موقف پارٹی میں موجودان عناصرکاہوسکتاہے جن دل میں ابھی فرقہ پرستی کی دہک رہی ہے۔۔ ذرائع کے مطابق سروے کے اس نتیجے سے پارٹی اعلی کمان پریشان ہیں۔حالاں کہ اس موضوع سینئرلیڈراورجے ڈی یوایم ایل سی وجے کمارمشرانے نمائندہ سے گفتگوکے دوران بتایاکہ یہ ساری باتیں صرف بھرم پھیلانے والی ہیں اوراس کافائدہ براہ راست فرقہ پرست عناصرکوہوگالہذااس قسم کی سروے رپورٹ پربہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے،جالہ سے جے ڈی یوکے موجودہ رکن اسمبلی اورپارٹی کے ودھان سبھاامیدوارجیسے لیڈران کی عظیم اتحادمیں کافی تعدادہے جن کابیک گراؤنڈسیکولررہاہے اورمرکزی حکومت میں ان کے دادااوروجے کمارمشراکے والدآنجہانی للت نارائن مشراکی سیکولرفکرسے ساری دنیاواقف ہے۔لہذاسیکولرنوازوں کاتال میل بی جے پی کیلئے ناقابل برداشت بنتاجارہاہے اور سروے رپورٹ انہیں لوگوں کی آراء پرمحیط لگتی ہے جو’‘’مکھ میں رام رام بغل میں چھڑا‘‘والی کہاوت کی نمائندگی کرتے رہے ہیں۔
بتایا جا رہا ہے کہ سروے میں شامل یوتھ اور خواتین میں سے زیادہ تر نے نتیش کو پھر سے وزیر اعلی نہ بنانے پر زور دیا ہے۔یہ یوتھ کس فکرکے حامل ہوسکتے ہیں اس کوسمجھنے کیلئے ابھی دوروزقبل دہلی یونیورسٹی کی طلبایونین کے انتخابات میں بھگوابریگیڈکی کامیابی جائزہ لیاجاسکتاہے،جس سے یہ پتہ چلتاہے کہ اعلیٰ تعلیم کے باوجوداشرافیہ کانوجوان طبقہ فرقہ پرستی کے زہرسے کس قدرسیاہ بناہواہے۔سروے میں کہاگیاہے کہ 80 فیصد لوگوں نے کہا کہ گزشتہ 10 سالوں میں ان کی ترقی اور تبدیلی نے نتیش کمارکیلئے ان کے دلوں میں کافی جگہ بنائی ہے۔ تقریبا 70 فیصد لوگونے کہا کہ ہمیں ترقی اور تبدیلی سے فائدہ ہوا ہے۔علاوہ ازیں قریب 70 فیصد نے تبدیلی کا کریڈٹ نتیش کمار کو دیاہے۔

Monday, June 22, 2015

बिहार चुनाव से पहले भाजपा में घमासान, अब सीपी ठाकुर ने ठोकी सीएम पद की दावेदारी

बिहार चुनाव से पहले भाजपा में घमासान, अब सीपी ठाकुर ने ठोकी सीएम पद की दावेदारी  
      पटना: बिहार विधानसभा चुनाव से पहले एनडीए के सीएम प्रत्याशी के नाम की घोषणा को लेकर लगातार विपक्षी दलों के हमलों की मार ङोल रही भाजपा की मुश्किलें कम नहीं हो रही है. एनडीए के घटक दल रालोसपा ने जहां केंद्रीय मंत्री उपेंद्र कुशवाहा को सीएम पद का प्रत्याशी बनाएं जाने की मांग पहले की कर चुकी है. वहीं, राज्यसभा सांसद सीपी ठाकुर ने भी सोमवार को कहा है कि अगर पार्टी चाहे वह मुख्यमंत्री पद की रेस में है.
उल्लेखनीय है कि एनडीए के सीएम प्रत्याशी के नाम की घोषणा किए जाने की मांग करते हुए राजद-जदयू लगातार भाजपा पर निशाना साधते रहे है. वहीं, एनडीए में शामिल मुख्य सहयोगी दल रालोसपा ने कल पार्टी प्रमुख व केंद्रीय मंत्री उपेंद्र कुशवाहा को सीएम प्रत्याशी बनाने की मांग कर एनडीए की मुश्किलें बढ़ा दी है. अभी यह मामला शांत भी नहीं हुआ कि भाजपा के वरिष्ठ नेता व राज्यसभा सांसद सीपी ठाकुर ने इस मामले में बड़ा बयान देते हुए भाजपा की परेशानियों को और बढ़ा दिया है. बिहार में भाजपा की चुनावी रणनीति पर बात करते हुए सीपी ठाकुर ने कहा, अगर पार्टी चाहे तो मैं अपने बिहार के मुख्यमंत्री पद की जिम्मेदारी उठाने के लिए तैयार हूं और मैं सीएम पद की रेस में हूं.
सीएम प्रत्याशी के नाम पर भाजपा में मतभेद: उपेंद्र कुशवाहा
 मुख्यमंत्री के चेहरे को लेकर एनडीए में जारी घमासान को आगे बढ़ाते हुए रालोसपा प्रमुख उपेंद्र कुशवाहा ने आज दिल्ली पहुंचकर कहा कि भाजपा में सीएम पद को लेकर मतभेद है, जबकि रालोसपा एकजुट है. उन्होंने कहा कि भाजपा नेता अलग-अलग दावे कर रहे हैं, इसी स्थिति को देखते हुए रालोसपा ने उन्हें सीए पद का उम्मीदवार चुन कर एक रास्ता दिखाया है.
सीएम प्रत्याशी पर लोजपा व हम की राय
भाजपा के अन्य सहयोगियों दल लोजपा के प्रमुख व केंद्रीय मंत्नी रामविलास पासवान और पूर्व मुख्यमंत्री जीतन राम मांझी के हिन्दुस्तानी अवाम मोर्चा ने पहले ही घोषणा की है कि वह गठबंधन की ओर से मुख्यमंत्री के उम्मीदवार के रु प में भाजपा के किसी भी नाम का समर्थन करेंगे. इन्होंने कहा है कि भाजपा को मुख्यमंत्री पद का उम्मीदवार चुनने का अधिकार है क्योंकि वह गठबंधन में सबसे बड़ी पार्टी है.
सीएम पद की दावेदारी पर सुशील मोदी के बोल
भाजपा के वरिष्ट नेता व पूर्व उपमुख्यमंत्री सुशील मोदी ने खुद को सीएम उम्मीदवार बताए जाने को लेकर कटु आलोचना की है. उन्होंने कहा कि भाजपा बिहार में विधानसभा चुनाव प्रधानमंत्री नरेंद्र मोदी के नेतृत्व और उनके ही नाम पर लड़ेगी. हालांकि, उन्होंने यह भी कहा कि पार्टी की ओर से सीएम उम्मीदवार का नाम चुनाव से पहले ही किया जाना चाहिए.
किचकिच की शुरुआत
भाजपा में सीएम पद की दावेदारी की शुरुआत तब हुई जब बीते दिनों बिहार चुनाव प्रभारी अनंत कुमार ने कहा, भाजपा बिहार में भी प्रधानमंत्री नरेंद्र मोदी के चेहरे के भरोसे चुनाव लड़ेगी. लेकिन उसी दिन शाम ढलते-ढलते सुशील मोदी ने कुमार के बयान का खंडन कर दिया था. सुशील मोदी ने कहा था कि बिहार में मुख्यमंत्री भाजपा से ही होगा, लेकिन सीएम कौन होगा या चुनाव में किसका चेहरा सामने होगा इस पर कोई आधिकारिक मुहर नहीं लगी है.