جنگل راج کہاں ہے دہلی میں یا بہار میں!
میم ضاد فضلی
سرزمین ہند تیز تر سیاست اور رنگارنگ انتخابی مہم کے لئے مقبول ہے۔ خاص کر بہار میں جب بھی انتخابات کا مرحلہ آتا ہے تو یہاں سیاسی جنگ شدت اختیار کرجاتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی رنگارنگ انتخابی مہم بھی زور پکڑتی ہے۔ جب سیاست داں ریاست بھر میں انتخابی مہم چلاتے ہیں تو ان کے درمیان ایک دوسرے کی پول کھولنے کی مہم بھی انتہا کو پہنچ جاتی ہے۔ چیف منسٹر بہار نتیش کمار کو عظیم سیکولر اتحاد کا مکھوٹا قرار دیتے ہوئے بی جے پی صدر امیت شاہ نے کہا ہے کہ اگر نتیش کمار کو دوبارہ اقتدار دیا گیا تو بہار میں ’’جنگل راج 2‘‘ شروع ہوگا۔یہ الگ بات ہے کہ کل ہی اپنے ٹیوٹر اکا ؤ نٹ پر نتیش کمار نے وزیر اعظم نریندر مودی اور پارٹی صدر امیت شاہ کی توجہ اس جانب مبذ ول کر ا تے ہو ئے کہا ہے جنگل راج کی کوئی مثا ل بہار میں موجود ہوتو ثبوت کے ساتھ بتائیے !ور نہ اخلا ق کے قاتلوں کی پشت پناہی کرنے والے لوگ جو دہلی میں ہندوستان کی قیادت کررہے ہیں ان کی کار کردگی جنگل راج جیسی ہے یا نہیں اس کی تفصیل دنیا کے سا منے ضرور آ نی چا ہئے۔
بہار کی ترقی کے حوالے سے لڑے جانے والے یہ انتخابات یوپی میں دادری قتل واقعہ کے بعد فرقہ وارانہ نوعیت کی مقابلہ آرائی میں تبدیل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔عام انتخابات میں 2014 میں حاصل ہونے والی ناقابل تسخیر کا میا بی کے و ز یر اعظم نریند ر مودی اور ان کی ٹیم نے شا ید یہ یقین کرلیا تھا کہ اب ہندوستا ن میں فرقہ پرستی کا سکہ رائج ہوگیاہے اور اب ملک کے رائے دہندگان کے سامنے ووٹ کیلئے اقتصادی سماجی یا مراعاتی ایشوزلے کر جانے کی ضرورت باقی نہیں رہ جائے گی۔مگر افسوس کیساتھ کہنا پڑتاہے کہ ہمارے بھگوابریگیڈ نے معروف ہندی کوی کبیرداس کی یہ’’ پنکتی ‘‘ یاد رکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ ’’بھوکے بھجن نہ ہوئے‘‘۔بی جے پی اس مینڈ یٹ کو سمجھنے میں بالکل نا کام رہی ،پا ر ٹی اعلیٰ کما ن کو یہ غلط فہمی پیدا ہوگئی تھی کہ ملک کے رائے دہندگان مودی کے ہندوتوا وا دی چہرے کو دیکھ کر لٹو ہو گئے تھے ،حالا ں کہ عوا نے مودی جی کے ان وعدو ں پر یقین کر لیاتھا جس میں وہ عام لوگوں سے کہا کر تے تھے کہ اقتد ا ر ہا تھ میں آ تے ہی 15دن کے اندر مہنگائی سے سبھی کو نجا ت دلا دیں گے اور سوئز بنکو ں میں جمع ٹیکس چوروں کے لاکھوں کروڑوں روپے ملک واپس لا کر ہر غریب کے اکاؤ نٹ میں 15لاکھ روپے جمع کرا د یں گے ،اس سے ملک میں دولت کی ایسی ریل پیل ہوجا ئے گی کہ لوگ پچھلے سارے دکھ بھول جائیں گے ۔مگرانتخابات کے محض چند ماہ کے اندر ہی عوام یہ محسوس کر نے لگے کہ انہیں بھگوا طاقتوں نے ٹھگ لیا ہے۔بعد ازاں تقریباً چار ماہ بعد ملک کی 10 ریاستوں میں 33 اسمبلی سیٹوں اور تین لوک سبھا سیٹوں کیلئے ہوئے ضمنی انتخابات کے نتائج سے نکلے اشارہ بی جے پی کے لئے اچھے نہیں رہ سکے ۔راجستھان کی چار اسمبلی سیٹوں پر ہوئے ضمنی انتخابات کا نتیجہ تو آنکھیں کھولنے والا تھا، قریب سو دن پہلے وہاں کے عوام نے تین چوتھائی اکثریت کے ساتھ بی جے پی کو ریاست کی طاقت سونپی تھی، لیکن ضمنی انتخابات کے نتائج میں چار میں سے تین نشستیں کانگریس کے کھاتے میں چلی گئیں ۔ ایسے میں یہ سوال اہم ہے کہ آخر چند ماہ میں ہی ایسا کیا ہوگیا کہ لوگوں کا بی جے پی سے بھروسہ ٹو ٹنے لگا!
پھر دہلی کے اسمبلی نتائج نے بھی بی جے پی کو عو ام کا درد سمجھنے کا سبق دیا ۔مگر ان سب کے با و جو د مودی مہم کے مداری صرف وا ہ وا ہی لو ٹنے میں مگن رہے اوردوسری جانب پا ر ٹی کی الٹی گنتی بھی شروع ہو گئی ۔اب بی جے پی نے بہار کیلئے ساری طاقت لگادی ہے ۔شاید یہ آ زاد ہندو ستا ن کی تا ریخ کا پہلا اسمبلی انتخاب ہے ،جس میں وزیر اعظم کے باوقار عہدہ پر فائز شخص ریلیوں کی لائن لگائے ہو ا ہے۔ بہار میں سال 2005ء کے بعد سے سخت ترین انتخابی مقابلے ہورہے ہیں۔ بہار کی 243 رکنی اسمبلی کیلئے پہلے مرحلے کا انتخاب گزشتہ 12اکتو بر 2015 کو اختتام پذ یر ہوا ہے،اگرچہ نتائج سے قبل کچھ بھی کہنا مشکل ہے کہ عوامی مینڈیٹ کس کے حق میں گیا ہے ،مگرمہنگائی سے بے حال عوام کو ’’بھوکے پیٹ بھجن‘‘ کرانے کی روش بتارہی ہے کہ نتائج کا فی بھیا نک ہوں گے۔سیکولر اتحاد بنانے والی پارٹیوں حکمراں جنتا دل (یو)، آر جے ڈی اور کانگریس کے قائدین کو مخالف پارٹی بی جے پی اور اتحادی جماعتوں کے ساتھ کانٹے کی ٹکر ہے۔ وزیراعظم کی حیثیت سے نریندر مودی کے لئے بہار انتخابات کڑی آزمائش کی گھڑی ہے ۔ سیکولر اتحاد کے قائدین جیسے آر جے ڈی صدر لالو پرساد یادو نے فرقہ پرستوں کے خلاف زبردست محاذ شروع کیا ہے۔ اگر دادری میں ایک بے قصور مسلم شخص کے قتل کا احساس رکھنے والے سیکولر رائے دہندوں نے نتیش کمار کے اتحاد کو ووٹ دیا تو یہ فیصلہ مرکز کی مودی حکومت کے لئے زبردست طمانچہ ہوگا۔ بہار کے سیکولر اتحاد کو مضبوط بنانے کا سہرا چیف منسٹر اور جے ڈی یو کے سینئر رہنما نتیش کمار کے سَر جائے گا۔ بہار میں نتیش کمار کی مقبولیت اور مرکز میں نریندر مودی کی ہچکولے کھاتی حکمرانی کے درمیان عوام کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آیا انہیں اپنی ریاست کو فرقہ پرستوں کے حوالے کرنا ہے یا ترقی کی سمت گامزن کرنا ہے۔ لوک سبھا انتخابات کے دوران بہار کے جن رائے دہندوں نے نریندر مودی کو ووٹ دیا تھا،وہ اب اسمبلی انتخابات میں چیف منسٹر نتیش کمار کی کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ دیں گے۔ بہار میں ترقی کی لہر کو نتیش کمار ماڈل سے مقبولیت مل رہی ہے۔ بی جے پی نے اپنے چیف منسٹر امیدوار کی حیثیت سے کسی لیڈر کو پیش نہیں کیا ہے تاہم بی جے پی امیدواروں میں سشیل کمار مودی اصل دعویدار ہیں۔مگر کل ہی بی جے پی کے ترجمان شہنواز حسین نے یہ کہہ کر کھلبلی مچادی ہے کہ بی جے پی کو اکثریت حا صل ہوتی ہے تو وز یر اعلیٰ سابق وزیر پریم کمار ہوں گے،اس بیان کے بعد سشیل کمار مودی کتنا ثابت قدم رہ سکیں گے یہ آ نے والا وقت ہی بتا ئے گا ۔مگریہ سچ ہے کہ اس سے بہار کے مودی کے حوصلے جواب دے رہے ہوں گے اورشاید آئندہ کچھ کہنے کیلئے ان کے پا س توانا ئی با قی نہ رہے؟ بی جے پی کی عوامی مقبولیت کے برعکس نتیش کمار کی مقبولیت دوگنی ہے۔ بہار میں بی جے پی کو ماضی کے بعض اہم قائدین کی مقبولیت کا سہارا لینا پڑے گا۔اسی دوران مودی جی نے بہار کے ایک عظیم سیاسی رہنما کواچک لینے میں کامیابی حاصل کی ہے، ایمرجنسی کے خلاف عوام کی آواز بن کر سامنے آ نے وا لے سیاسی رہنما جے پرکاش نارائن کے نام کو بی جے پی نے آخری اسلحہ کے طور پر اٹھالیا ہے۔مگربد قسمتی یہ ہے کہ وزیر اعظم مودی اور ان کے بھشماسر امیت شاہ کی ایک بھی ریلی میں آنجہا نی جے پر کا ش نا را ئن کے کنبہ کا کوئی بھی فرد کسی کو بھی نظر نہیں آ رہا ہے۔ بی جے پی نے جے پرکاش نارائن کو اپنا لیڈر کہا ہے اور 11 اکتوبر کو جے پی کی 113 ویں یوم پیدائش کو بڑے پیمانے پرپرشکوہ جشن کی شکل میں منا یا ۔بی جے پی جو ایمرجنسی دور کے بعد جن سنگھ کی کوکھ سے جنم لینے والی پارٹی ہے،جے پرکاش نارائن کی تحریک میں شامل دیگر اہم لیڈروں کے ناموں کا بھی سہارا لینے کی کوشش کررہی ،مگرٹھگی ہوئی ہندوستانی قوم کسی بھی حال میں بی جے پی پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں ہے ۔
فرقہ پرست نظریہ کو فروغ دینے والی پارٹی اگر جمہوریت بچاؤ مہم کو اپنا ہتھیار بنا رہی ہے تو یہ انتخابات کے نتائج کے بعد ہی معلوم ہوگا کہ اس کو کہاں پر کس حد تک نقصان پہنچا ہے۔ بہار میں یہ انتخابات ہندوستان کے سیاسی مستقبل کا رْخ موڑ سکتے ہیں۔ اگر بی جے پی کو 243 رکنی ایوان میں اکثریت حاصل کرنے میں ناکامی ہو ئی تو وہ اپنی حلیف پارٹیوں کی مدد سے حکومت سازی پر غور کرسکتی ہے۔ مگر اس کیلئے چیف منسٹر کے عہدہ کا سوال ہی پیدا ہوگا اور یہ بی جے پی مرکزی قیادت کے لئے دردِ سَر بن جائے گا کہ بہار میں چیف منسٹر کا عہدہ کس کے حوالے کیا جائے۔ حکمران پارٹی کے سیکولر اتحاد کو نقصان پہنچانے کیلئے ایک مسلم پارٹی کا کردار اگر سنگھ پریوار کے حق میں ہوگا تو پھر موقع پرستی اور ہندوتوا طاقتوں سے خفیہ ہاتھ ملانے کی بدترین مثال بھی قائم ہوگی۔ بہرحال بہار کے رائے دہندگا ن صرف صاف ستھری قیادت کو ترجیح دینے کا تہیہ کرلیں تو پھر انہیں آنے والے دنوں میں کوئی پریشانی نہیں ہوگی لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ کسی بھی پارٹی کے پاس صاف ستھرے کردار والے قائدین کی تعداد نہیں کے برابر ہے۔
09911587378
No comments :
Post a Comment