جمہوری نظام حکومت میں اقتدار کا فیصلہ عوام الناس کے ہاتھوں میں ہوتا ہے ۔کسی بھی سیاسی جماعت کے ہاتھ میں ملک یاریاست کی باگ ڈور تھما دینے کے بعد ایسا نہیں ہے کے عوام خواب خرگوش میں مبتلا ہو جاتے ہیں بلکہ انہوں نے اپنی آراءکے ذریعہ جس کے ہاتھ میںاقتدار سونپا ہے اس کی کاکردگی اور روز مرہ کی سرگرمیوں کا جائزہ بھی لیتے رہتے ہےں ۔ عوام حکومتوں کے قیام کے بعد مسلسل اس کے عمل کا محاسبہ بھی کرتے ہیں اور اس کےلئے کھلی آنکھو سے اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیا جاتا ہے۔لوگ برسر اقتدار رہنما کے ترقیاتی عمل اور منصوبوں کو دیکھ کر اندازہ لگاتے ہیں کہ کون ان کے کام ہے اور کس کا وجود ان کی ترقی کےلئے منفی اور نقصاندہ ہے۔ 1990میں کانگریس کی مدتوں سے آرہی اشراف نواز بے سمت طرز حکومت نے بہارکے باشندوں کو تلملا کر رکھ دیا تھا۔ کانگریس کے دور اقتدار میں اعلیٰ ذات کےلئے ہر طرف اور ہر محاذ پر مکمل آزادی تھی۔ ملازمت کے دروازے ان پر کھلے ہی نہیں تھے بلکہ انہیں کے لئے کھولے گئے تھے۔ اگر چہ برائے نام دیگر طبقات کو بھی ملازمتوںمیں شامل کر لیا جاتا تھا،مگر ان کی حیثیت چوتھے درجے کے ملازم سے زیادہ بمشکل ہی ہوتی تھی۔ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ریاست کے ان دبے کچلے پسماندہ اور انتہائی اذیت کی زندگی جی رہے دلتوں کی حالت زار بھی کانگریسی دور حکومت کی وہ تلخ سچائی ہے جس کا تصور کر تے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ بھاگلپور اور دربھنگہ کے (راجو) جیسے فرقہ وارانہ فسادات کے بعد دل برداشتہ بہاری مسلمانوں نے یقین کر لیاتھا کہ اب ان کے تحفظ اور بقا کےلئے ریاست میں کسی متبادل سیاسی جماعت کا قیام ناگزیر ہوگیا ہے۔ لالو یادو کی سیکولر شبیہ اور جے پرکاش نارائن کے اصولوں پر کاربند ان کی زندگی کو مسلمانوں کے علاوہ ان تمام ذات برادری کے لوگوں نے جو کسی نہ کسی سطح پر ریاست میں حاشیہ پر ڈالے جا چکے تھے، اقتدار کے لئے سب سے زیادہ مناسب اور موزوں خیال کیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ 90کی دہائی میں مکمل اکثریت سے اقتدار میں آنے والے لالو یادو نے پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ لالو یادو کو مسلمانوں کی حمایت کیا ملی گویا ان کے مقدر کا ستارہ اس بلندی کو چھو گیا جہاں تک پہنچنے کے لئے دنیا کی بڑی بری قد آور ہستیاں آرزو اور تمنائیں کرتی ہیں۔ شاید لالو یادو کو یہ غلط فہمی دامن گیر ہوگئی تھی کہ صرف مسلمانوں کے تحفظ کو یقینی بنا کر اور ریاست میں امن و امان کی بالادستی قائم کر کے وہ طویل مدت تک اقتدار پر قابض رہنے میں بلا کسی خوف کے کامیاب رہیں گے۔ مگر یہ پہلے ہی عرض کیا جا چکا ہے کہ جمہوری نظام عمل میں رائے دہندگان کسی لیڈر یا جماعت کے ہاتھ میں قیادت سونپنے کے بعد خاموش نہیں بیٹھ جاتے ،وہ مسلسل احتساب کی پوزیشن میں رہتے ہیں۔ ایم وائی کا نعرہ یقینا بہت دنوں تک کامیاب نہیں ہوسکتا تھا۔ اب پرسکون ریاست کو بے روزگاری سے نجات کی ضرورت تھی۔ سڑکوں کی خستہ حالی ہر راہ گیر کو موت کا خوف دلاتی رہتی تھی۔ اسی کے ساتھ بجلی اور روزگار کے مواقع جیسی دوسری چیزیں جو رفتہ رفتہ بہار سے اپنا بوریا بستر سمیٹ رہی تھیںاس نے یہاں کے عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا کہ آخر اس پسماندہ ریاست کے باشندے کب تک ملک کی دیگر ریاستوں کے مرہون منت رہیںگے۔ بے روزگار بہاری باشندے کب تک مہاراشٹر اور آسام میں گاجر مولی کی طرح کاٹے اور تراشے جاتے رہیں گے۔ طویل مدت تک دیگر ریاستوں میں اذیتوں اور ذلت کا نشانہ بننے والی بہاری قوم نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اب ضرورت ہے ایک ایسے سیاسی قائد کی جس کے دل کی ہر دھڑکن میںریاست کے ایک ایک باشندوں کا درد رچا بسا ہو۔ جو دنیا میں جنگل راج کے نام سے بدنام ریاست کی اس آن بان اور شان کو واپس لانے میں کامیاب ہو سکے جسے حکمرانوں کی غفلت اور مجرمانہ خاموشی نے گم کر دیاہے۔بہارکے باشندے اس پرامن اورترقی یافتہ ریاست کے قیام کےلئے بے چین اور بے قرار تھے جس کے تذکرے تاریخ کی کتابوںمیں مہاراجہ اشوک کے دور حکومت کے حوالے سے پڑھائے اور یاد کرائے جاتے ہیں۔ یقینا سمراٹ اشوک کا دارالسلطنت ہر اعتبار سے خوشحال اور تمام قسم کی ترقیات سے ہم آغوش رہا ہوگا جس کے تذکروں سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ عوام الناس نے یقین کر لیا تھا کہ لالو یادو باتوں کے دھنی ہیں انہیں قطعی اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے کہ ریاست کے 80 فیصد باشندے کن حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے شیر خوار وں کےلئے ماﺅں کے سینے میں دودھ اور نانخوار بچوں کےلئے روٹی کا کوئی نظم ہے یا نہیں۔انہیں تو یقین ہو گیا تھا کہ محض فرقہ وارانہ تشدد سے نجات دلا کر انہوں نے ریاست کے عوام کا ہر ووٹ پا لینے کا حق حاصل کر لیا ہے۔
تقریباً 20 برسوں تک ترقی سے محروم کئے جاچکے ریاست کے باشندوں نے بالآخر یہ فیصلہ کر لیا کہ ترقی کے لئے تبدیلی لازمی ہوگئی ہے اور لالو یادو کے متبادل کو اقتدار بخشے بغیر ہماری ریاست میں ترقی کا سورج طلوع نہیں ہوسکتا۔ بس اسی فکر کے تحت بی جے پی جیسی فرقہ پرست جماعت کا حلیف ہونے کے باوجود نتیش کمار پر ریاست کے باشندوں نے اعتماد کیا اور انہیں حکومت کا موقع فراہم کر دیا۔ آج جس طرح سے انہیں کامیابی نصیب ہوئی ہے۔ اس سے یہی سبق ملتا ہے کہ اب ریاست کے باشندوں کو ترقی چاہئے۔ روزگار کے مواقع چاہئےں، تاکہ دیگر ریاستوں کے مقابل فخریہ طور پر وہ کھڑے ہو کر یہ کہنے کے قابل ہو جائیں کہ وہ ایک ایسی ریاست کے باشندے ہیں جہاں کے عوام ترقیات اور فروغ کو انگوٹھا دکھانے والے کسی بھی لیڈر کو معاف نہیں کرتے۔اگر نتیش کمار ریاست کو ترقی کی لذت سے آشنا کرنے میں دلچسپی نہ لیتے تو آج کا نتیجہ یقینا ان کے حق میں دوبار اقتدار کی نوید لے کر نہیں آتا، بلکہ ذلت و پسپائی ہاتھ لگتی۔مسلمانوںکااین ڈی اے کی جانب میلان یہ صاف صاف بتارہاہے کہ اب ان کی حماےت بھی انہیںکے حق میں ہوگی جوان کی فلاح اورترقی کے متعلق سوچے۔ مگر اس کے لئے ملازمت اور مواقع کے دروازے وا کرنے کی ضرورت ہے۔ کانگریس کے بخشے ہوئے زخموں نے مسلمانوں کو اس کے قریب ہونے کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کر رکھی ہے یہی وجہ ہے کہ ہزار کوششوں کے باوجود اقتدار کا دروازہ بہار میں کانگریس پر بند ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ نتیش کمار پر مسلمانوں نے اعتماد کیا ہے اور آج کا نتیجہ یہ بتا رہا ہے کہ یہ قوم فیصلہ کن پوزیشن میں ہے۔ یہ جس طرف رخ موڑ لے اقتدار کی کرسی خود بخود ادھر کا رخ کر لیتی ہے۔
No comments :
Post a Comment