سابق وزیراعظم راجیو گاندھی نے کہا تھا کہ عام ہندوستانیوں کی فلاح اور ترقی کے لئے مرکز سے چلنے والی رقم متعلقہ ہدف تک پہنچتے پہنچتے 15 فیصد رہ جاتی ہے۔ یعنی سرکاری محکموں میں تعینات افسران ، سیاسی نمائندے اور ان کی چمچہ گیری میں سرگرم چھٹ بھیئے لیڈران کی جیبوں میں کسی بھی منصوبے کا کم از کم 85 فیصد حصہ نہایت چالاکی اور خاموشی سے چلا جاتا ہے۔ اپنے آنجہانی والد کی طرح تھوڑی ترمیم کے ساتھ گذشتہ پارلیمانی انتخاب کی ایک مہم کے دوران کانگریس کے جنرل سکریٹری راہل گاندھی نے ایک خطاب میں کہا تھا کہ مرکز سے منظور شدہ کسی بھی فنڈ کا 10 فیصد حصہ ہی استعمال ہوپاتا ہے۔ باقی تمام رقم ان منصوبوں کو زیر عمل لانے میں مصروف سرکاری اہلکار اور لیڈروں کے جہنم کی نذرہوجاتی ہے۔ ہم دونوں لیڈران کی اس بات سے یہ نتیجہ نکالنے میں بجا طور پر حق بجانب ہیں کہ ملک میں روز افزوںبدعنوانی اور رشوت خوروں کی بالادستی کا اعتراف خود ان قومی جماعتوں کے لیڈروں کو بھی ہے،لہذاملک میںجاری بدعنوانی سے انکار ناممکن ہے۔ اتفاق سے جن کے ہاتھوں میں اس وقت سو ا سو کروڑ آبادی پر مشتمل اس عظیم ملک کی باگ ڈور ہے اسی جماعت کے لوگ اس وقت بدعنوانیوںمیںپیش پیش ہیں۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ روزانہ مرکز سے ریاستوں تک اقتدار کی کرسیوں پر براجمان ناپاک ہستیوں کے گھنونے کارنامے بدعنوانیوں کی شکل میں منظر عام پر آرہے ہیں۔2جی انسپکٹرم میں مچائی جانے والی لوٹ کھسوٹ نے ملک کو جو اقتصادی نقصان پہنچایا ہے اس کا تدارک ہم تمام ہندوستانی مل کر بھی کئی برس تک پسینہ بہائےں تو نہیں کیاجا سکتا۔ تقریباً پونے دو لاکھ روپے کا یہ خسارہ اس ملک کو اٹھانا پڑرہا ہے جہاں کے تقریباً 14 فیصد باشندے نہایت تیزی سے آگے بڑھ رہی اقتصادی صورتحال کے اس دور میں بھی بھوکے سونے پر مجبور ہیں۔ کنیا کماری سے کشمیر تک اور بحر عرب سے آسام کی سنگلاخ پہاڑیوں کے درمیان شاید ہی کوئی ریاست ایسی ہو جہاں اقتدار میں موجود سیاسی جماعتوں کے رہنما اور دیگر ذمہ داران عوام کی فلاح و بہبود کے لئے مختص کی جانے والی رقوم کو اپنے باپ کی کمائی سمجھ کر دیار غیر کے بینکوںمیں محفوظ کرنے میں سرگرم نہ ہوں۔ ملک میں جاری بدعنوانی کی تاریخ کوئی نئی نہیں ہے بلکہ اس کی بنیاد اسی زمانے میںپڑ چکی تھی، جب ایمرجنسی کے فوراً بعد آنجہانی اندرا گاندھی بھرپور اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آئی تھیں اور کمزور اپوزیشن کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اس وقت کے متعدد وزراءنے اس قسم کی خرد برد کا چلن عام کیا تھا۔ اگر ہم ان ناموں کو معرض تحریر میں لائیں تو شائد ان سینکڑوں ہندوستانیوں کا جگر پھٹ جائے گا جو اپنے ان آنجہانی لیڈروں کو عقیدت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ ہم کسی کا نام نہ لیتے ہوئے محض سابق وزیراعظم کے اس بیان پر صحافتی تبصرہ کرنا زیادہ مناسب سمجھتے ہیں جس سے یہ بات بہ آسانی سمجھی جا سکتی ہے کہ بدعنوانی کی ابتدا آزاد ہندوستان میں کب ہوئی اور اس کے مو ¿سسین میں کن کن لوگوں کے ہاتھ شامل رہے ہوں گے۔ راجیو گاندھی کا یہ کہنا کہ عوام کی ترقیات اور ملک کی فلاح و بہبود کےلئے پاس کئے جانے والے منصوبوں کا محض 15 فیصد ہی اصل مقاصد میں استعمال ہوتا ہے، واضح طور پر اس حقیقت کی غمازی کر رہا ہے کہ بدعنوانی کی ابتدا آنجہانی وزیر اعظم کے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی ہو چکی تھی۔ 72 کے بعد ایمرجنسی کے ختم ہوتے ہی آنجہانی اندرا گاندھی کامیاب ہو کر اقتدار میں لوٹی تھیں اور اس کے بعد سن 1984 یعنی ان کی شہادت تک ملک کا اقتدار خود کانگریس کے ہاتھ میں ہی رہا۔ ظاہر سی بات ہے کہ کسی بھی منصوبوں کی منظوری اور اس کے نفاذ کی ذمہ داریاں برسراقتدار جماعتوں پر ہوتی ہے، ملک کا خزانہ بھی انہیں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے اور رقوم کا استعمال کرنے کا اختیار بھی برسراقتدار جماعت کے علاوہ کسی کو نہیں ہوتا۔پھر کیا وجہ ہے کہ اس زمانے میں ہونے والی بدعنوانیوں اور عوامی مفادات کےلئے زیر عمل لائی جانے والی رقم ناجائز طریقے سے غلط ہاتھوں میں جاتی رہی مگر اس پرکسی نے زبان کھولنے کی ہمت نہیںکی۔ اگر کوئی انگشت نمائی یاتنقید کی جرا ¿ت نہیں کر سکاتو اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ اس زمانے میں کانگریس پارٹی مکمل اکثریت کے ساتھ اقتدار پر قابض ہوتی تھی اور اس کے مقابلے میں حزب اختلاف نہایت لاغر اور کمزور ہوا کرتا تھا۔ آج ایک بار پھر اربوں روپے کے2 جی اسپکٹر م گھوٹالے ، محکمہ دفاع میں تعینات سینئر فوجی افسران کے ذریعہ حساس منصوبوں میں جاری لوٹ کھسوٹ، آدرش ہاﺅسنگ سوسائٹی میں سامنے آنے والی بدعنوانی دولت مشترکہ کھیلوں میں استعمال کی جانے والی رقوم کو دونوں ہاتھوں سے اپنی جیبوں میں ٹھونسنے والے واقعات اس بات کی شہادت دے رہے ہیں کہ کانگریس اب وہ جماعت نہیں رہی جس کی شفافیت اور وطن دوستی کی قسمیں سرعام کھائی جاتی تھیں۔ نا یہ جماعت اب آنجہانی جواہر لال نہرو اور بابائے قوم کے ان اصولوں پر قائم ہے جن کی آنکھوںمیں ایک ایسے ہندوستان کا خواب گردش کرتا تھا جہاں بدعنوانی، رشوت خوری اور گھوٹالوں کو دنیا کا سب سے بڑا گناہ تصور کیا جاتا تھا۔ پارلیمنٹ کی کارروائی کئی روز سے بند ہے اپوزیشن یہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ گنہ گار لوگوں سے صرف کرسیاں چھین کر معافی کا پروانہ نہ دیا جائے ،بلکہ انہیں ان کئے کئے کی سزا دی جائے۔اس راہ میں چاہے جو بھی ہو اپنا یا پرایا وہ ملک کا غدار ہے اور سوا سو کروڑ ہندوستانیوں کے مستقبل کا ازلی دشمن ،ایسے لوگوں کو بخشا نہیں جانا چاہئے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ مدھو کوڑا کو بدعنوانی کی سزا میں پابند سلاسل کیا جاتا ہے، چارہ گھوٹالے میں لالو جیل جاتے ہیں، مگر شہید فوجیوں کی بےواﺅں کا حق لوٹ لینے والا کانگریسی وزیراعلیٰ راج پاٹ سے علیٰحدہ کر کے آزاد کر دیا جاتا ہے۔اراضی گھپلوں میں ملوث یدورپا کو جیل بھیجنے کی وکالت کی جاتی ہے مگر اسپکٹرم گھوٹالے کے مجرم کا نہایت بے غیرتی سے دفاع کیا جاتا ہے۔ کیاکانگریس اپنے اس عمل سے سیکولرزم کی اس توضیح کو صحیح ثابت نہیں کر رہی ہے جس میں یہ کہا گیا ہے جمہوریت کا مطلب ہے ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘۔
Editorial Sangam On 23-11-2010
No comments :
Post a Comment