عین اس وقت جب مہاراجہ اشوک کی سرزمین شمال مشرقی ہند کے باشندے چھٹھ کے مقدس تیوہار کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ ہر فرد تہوار کو اچھے ڈھنگ اور پرمسرت ماحول میں منانے کی غرض سے بازاروںمیں خریداریاں کررہا تھا ، ہر چہرہ نہایت شادماں اور کھلا کھلا نظر آرہا تھا۔ مگر خوف کی پرچھائیاں ہزار کوششوں کے باوجود ان تمام افراد کے چہروں سے جھلک ہی جاتی تھی،جو امن کو اپنی ترقی اور سربلندی کے کے لیے زندگی کی سب سے اہم ضرور ت تصور کرتے ہیں ۔ بار بار نگاہیں آسمان کی طرف اٹھتی اور بے ساختہ خریداریوں میں مصرف برادران وطن کی زبان پر دُعائیں نکلتی تھیں کہ کسی طرح چھٹھ کا یہ عظیم الشان تہوار پرامن ماحول میں گذر جائے اوراکوئی انہونی ہماری خوشیوں کو ڈس لینے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ ابھی ریاست اترپردیش،بہار اورجھارکھنڈکے امن دوست باشندے یہ دُعائیں کرہی رہے تھے کہ اُدھر اندور میں جمعرات کے روز ملک کی ہندو شدت پسند تنظیم آرایس ایس کے سابق سربراہ کے ، ایس سدرشن نے ٹھہرے ہوئے پانی میں کنکر مار کرپرامن ہندوستان میں کھلبلی اور افر تفری کی صورتحال پیدا کردی ۔ انہوں نے کانگریس پارٹی کی قومی سربراہ مسز سونیا گاندھی پر بہتان تراشیوں کا سابقہ ریکارڈ توڑتے ہوئے کہا کہ محترمہ سی آئی اے کی ایجنٹ ہیں۔ دیدہ دلیری اور بے غیرتی کی انتہا کرتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہا کہ آنجہانی وزیر اعظم اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کی قاتل بھی مسز سونیا ہی ہیں۔ جس وقت سدرشن کی زبان سے ملک کے امن کو انگوٹھا دکھانے والے مذکورہ تشدد انگیز بیان ٹی وی پر نشر کیے جارہے تھے، ہمارے ذہن میں کہیں دو ریہ سوال گونج رہا تھا کہ یہ کیسا قاتل ہے جو اُس چور کی طرح سینہ زوری کرکے اپنے گناہ کو چھپانے کی ناکام کوشش کررہا ہے جس کے کالے کارنامے دنیا کے سامنے چرھتے ہوئے سورج کی طرح واضح ہوچکے ہیں۔ بابائے قوم مہاتما گاندھی کی قاتل تنظیم کا یہ سابق سربراہ نہایت ڈھٹائی سے اپنے گناہ پر پردہ ڈالنے کے لیے ایسا سفید جھوٹ بول رہا تھا جسے سن کر جھوٹ بھی شرمارہا ہوگا۔ہمیں یاد آرہا تھا آج سے تقریباً 65سال قبل کاوہ واقعہ جب 30جنوری 1948کو با بائے قوم مہاتما گاندھی کو شہید کردینے والے گنہگار عوام کے سامنے آکر نہایت ڈھٹائی سے یہ کہہ رہے تھے کہ بابائے قوم کے سینے میں ان کی گولیا پیوست نہیں ہوئی ہیں ۔ مگر دنیا کے تمام افراد نے ان قاتلوں کی باتوں کو سفید جھوٹ قرار دیا تھا، جن کی نگاہوں کے سامنے موہن داس کرم چند گاندھی کی پوری زندگی آئینہ کی طرح موجو دتھی ،جنہوں نے بابائے قوم کے عدم تشدد کی تحریک کو وطن عزیز کی آزادی سے ہم آغوش ہوتے دیکھا تھا۔ انہیں یقین ہوگیا تھا کہ اِس عظیم انسان کے قاتل وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو انگریزوں کی جوتیا چاٹنے کو دنیا میں ترقی اور سربلندی کی معراج سمجھتے ہیں ۔ دنیا نے اس دلیل کے ساتھ بابائے قوم کے قاتلوں کو خاموش ہوجانے کا حکم دیا تھا کہ تمہارے ہی خیمے کا سربراہ قید وبند کی صعوبت سے نجات پانے کے لیے انگریزوں کی غلامی قبول کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہا ہے ۔ تمہارے اولین قائدویر ساورکر کو پس دریائے شور قید سے محض اِس لیے نجات عطا کی گئی تھی کہ وہ ساحل بنگال پراترکر پورے ہندوستا ن میں انگریزوں کی حمایت اور جدو جہد آزادی کے متوالوں کے خلاف تحریکیں چھیڑیں، جن سے ان کے انگریز آقاو ¿ں نے پورٹ بلیئر کی سیلولر جیل سے آزادی کا پروانہ دیتے ہوئے سو بار یہ عہد لیایا تھا کہ وہ ہندوستان لوٹ کرملک کے چپے چپے میں انگریز آقاو ¿ں کی سربلندی کے نغمے سنائے گا۔ وہ ان لوگوں کو سرعام شرمندہ اور رُسو اکرنے کی مکروہ سازشیں رچے گا، جو انگریز کی غلامی میں سانس لینے کو اپنے لیے سب سے بڑی توہین سمجھتے ہیں۔ ہاں! ہمیں کہہ لینے دیجئے کہ انہیں ویر ساور کر کی گود کے پروردہ ناتھو رام گوڈسے کی بندوق سے نکلنے والی آگ نے باپو کے کلیجے کو جلا ڈالا تھا ۔ جن کے سینے میں ایک ترقی یافتہ اور پرامن ہندوستان کا خواب روزانہ پلتا اور جوان ہوتا تھا۔ ایسے فرد کو یقینا ایسے لوگوں کی گولیا ہی نشانہ بناسکتی تھیں جو انگریزوں کی غلامی والے ہندوستان اپنے لیے جنت تصور کرتے ہوں۔
آج ٹھیک اُسی خیمے کا ایک ماﺅف ذہن کھوسڈسربراہ اگر وطن کی آزادی میں قائدانہ رول اداکرنے والی سیاسی جماعت کانگریس کی قومی سربراہ پر یہ کہہ کر اُنگلیاں اُٹھانے کی مجرمانہ جرا ¿ت کررہا ہے تو ہمیں بے چین نہیں ہونا چاہیے، بلکہ ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ اِ ن کے بابائے آدم نے اِ نہیں یہی تعلیم دی ہے کہ خود کو بے قصو ر ثابت کرنے کے لیے سارے زمانے کو قاتل گرداننے میں قطعاً گریز نہ کیاکرو۔دنیا تمہاری طرف کبھی بھی انگلی اٹھانے میں کامیاب نہیں ہوگی۔ کے ایس سدرشن کا یہ بیان یقینا اُسی گناہ کو چھپانے کی ایک چال ہے جس میں آر ایس ایس کی کئی گنہ گار گردنیں پھنس چکی ہیں۔مکہ مسجد میں خون کی تاریخ رقم کرنے والوں نے الزام چندبے گناہ مسلم نوجوانوں پر رکھ کر یہ تصور کرلیا تھا کہ دنیا کی کوئی بھی طاقت انہیں کیفرکردار تک پہنچانے میں کامیا ب نہیںہوسکے گی۔ شاید انہیں یقین نہیں رہا ہوگا کہ مظلو،موں کی آہ عرشِ خداوندی کو ہلا دیتی ہے۔ بقول سعدی ’مظلوم کی آہ سمند ر میں آگ لگادیتی ہے۔‘ یقینا بے گناہ مسلم نوجوانوں کے آنسو عذاب کی شکل میں آرایس ایس پر برسنے لگے اورمسلسل دوچاربرسوںسے ملک میںانجام دئے جانے والی دہشت گردانہ کارروائےوںمیںیکے بعد دیگرے ان کے کئی قدآورکہے جانے والے لیڈروںکے اصلی چہرے دنیاکے سامنے آچکے ہیںمالے دھماکہ کی ملزمہ سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر اوراس کاماسٹرمائنڈرام جی سمیت آرایس ایس کی تربیت میںجوان ہونے والے متعدد فوجی اہلکاروںکی کالی کرتوت کاکچاچٹھابے نقاب ہوچکاہے۔ ابھی تفتیشی ایجنسیاں چند گردنوں تک ہی پہنچی تھیں کہ سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی کے مزار پر خون کی ہولی کھیلنے والوں کی گردنیں بھی ہاتھوں میں آگئیں اور ایسا محسوس کیا جانے لگا کہ اِن کی زبانوں سے کچھ ایسے چونکادینے والے حقائق سامنے آجائیں گے جس سے دنیا والوں پر اِندور میں بیٹھ کر پورے ملک کو تباہ کرنے والوں کے حیوانیت کوشرمسارکردینے والے ناپاک منصوبوںکاپردہ فاش ہو جائے گا۔ شاید سدرشن کو اپنی گردن کے اِرد گرد بھی قانون کی رسی کستی ہوئی محسوس ہوئی ہوگی۔ اِ سی خوف کو دُور کرنے اور تفتیشی ایجنسیوں کا ذہن منتشر کرنے کے لیے انہوں نے ایسا بیان دیا ہے جسے گمراہ کن کہنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔
No comments :
Post a Comment