Monday, November 29, 2010

ہم چپ ہیں خوابیدہ نہیں!

20اکتوبر 2010سے شروع ہونے والے بہار اسمبلی انتخابات کے پانچ مراحل خدا خدا کرکے پرامن اور خوشگوار ماحول میں اختتام پذیر ہوچکے ہیں، جبکہ چھٹا اور آخری مرحلہ چھٹھ تقاریب کے اختتام کے ساتھ ہی دستک دینے لگا ہے۔ریاست میں سرگرم سیاسی جماعتوں کے باوقار سربراہان آج پھلواری شریف طیرانگاہ سے اپنے اپنے مقررہ اہداف کے مطابق گرم پرواز ہوچکے ہیں۔ یقینا سیاسی معرکہ آرائی میں ہرلیڈر چاہے اُس کا تعلق حزب اختلاف سے ہو یا برسرِ اقتدار جماعت کے خیمے میں رہ کروہ حکومت کے ذریعے ملنے والے عیش وعشرت سے لطف اندوز ہوئے ہوں ، سبھی انتخابی حلقوں میں جاکر رائے دہندگان کو یہ باور کرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑینگے کہ ریاست کے اقتدار کی کرسی اُن کے توانا جسم کے مطابق بالکل فٹ بیٹھتی ہے۔ہرکوئی یہ دعویٰ کررہا ہے کہ بہار اسمبلی کی کرسی پر اُسے براجمان کردیا جائے اِس منصب پر فائز ہوتے ہی وہ ریاست کے تمام خشک چہروں پر ترقی کی چمک لانے میں سردھڑ کی بازی لگا دینگے۔برسرِ اقتدار این ڈی اے کے لیڈران یہ دعوے کررہے ہیں کہ تقریباً پندرہ برسوں تک غنڈہ ازم اور غیر سماجی عناصرکی مٹھیوں میںجکڑ کر تباہ ہوچکے بہار کو انہوں نے نئی توانائی بخشی ہے۔انہوں نے گذشتہ پانچ سالہ دورِ اقتدار میں ریاست میں مجرمانہ سرگرمیوں پر قدغن لگانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قانون وانتظام کی بالادستی کا ہمہمہ پوری ریاست میں گونجنے لگا ۔ کل جرائم پیشے قانون کو ٹھینگا دِکھاتے تھے آج وہی جرائم پیشہ عناصر قانون کے خوف سے منہ چھپائے پھر رہے ہیں۔وزیر اعلیٰ نتیش کمار اگر اپنی انتخابی تقاریر میں اِس قسم کے دعوے کررہے ہیں تو اِ س میں کہیں نہ کہیں اُس حقیقت کا اعتراف ضرور ہے جو انہوں نے بہار کو پٹری پر لانے کے لیے کیا ہے۔ ریاست میں طویل مدت تک حکومت کرنے والی دیگر جماعتوں کے لیڈران اُن کے اِس دعوے کو چاہے جھوٹ کا پلندہ کہیں، مگر عوام کی آنکھیں کھل چکی ہیں ۔ اُنہیں فریب میں رکھ کر کامیابی حاصل کرلینا اب کسی کے لیے بھی ممکن نہیں ہے’ سرخرو ہوتا ہے انساں ٹھوکریں کھانے کے بعد‘ کی مصداق ریاست کے تقریباً نوکروڑ باشندوں نے وہ منظر ضرور دیکھا ہے جب 8بجے شب کے بعد ریاست کے شہروں کی سڑکوں پر غیر سماجی عناصر کا دبدبہ قائم ہوجاتا تھا ۔ والدین اپنے نوجوان سپوتوں کو یہ تاکید کرتے تھے کہ سرِ شام گھر لوٹ آنا ،کہیں ایسا نہ ہو کہ قانون وانتظام کی ابتر حالت کے اِس دور م میں کوئی انہونی گھٹ جائے اور ہمارے بوڑھے اور کمزور کندھے کو تمہارا جنازہ اُٹھانا پڑے۔طویل مدت تک دیگر ریاستوں کے شہروں میں اپنا خون پسینہ ایک کرکے گھر میں انتظار کررہے اپنے بیوی بچوں کے خوردونوش کے لیے پونجی جمع کرکے گاو ¿ں لوٹنے والے یہ اَبھاگے مسافر کب کہاں لوٹ لیے جاتے اِ س کی کوئی ضمانت نہیںتھی۔بطورِ خاص ہم نے دارالحکومت عظیم آباد اور شمالی ہند کے صنعتی شہرمظفرپور کا وہ منظر دیکھا ہے جس کا تصور کرتے ہی کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے کہ کس طرح ٹولوں میں بٹ کر جرائم پیشہ عناصر سرِ شام ہی چوک چوراہوں پر آدھمکتے تھے اور پھر اُن کی نظروں سے کوئی بچ کر اپنی جان اور مال بچا لے جائے یہ کسی سخت جان یا قسمت کے دھنی کے بس کی بات ہی ہوسکتی تھی۔آج حقیقت یہ ہے کہ جرائم کا گراف نیچے آیا ہے ۔ دیر گئے شب میں بھی ہم پٹنہ کی سڑکوں پر ہم خود کو کسی نہ کسی حد تک محفوظ تصور کرتے ہیں۔ اِس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ریاست بہار میں قان وانتظام کی بالادستی قائم ہوئی ہے ۔آنکھوں دیکھی اِ س حقیقت کو جھٹلانا اُسی بہروپئے کا کام ہوسکتا ہے جو مختلف لبادے اور روپ میں لوگوں کے سامنے آکر اُنہیں طرح طرح کی کہانیا ں سنایا کرتا ہے ۔
یقینااُن تمام لیڈران کا ضمیر اُنہیں کچوکے لگاتا ہوگا جب وہ ریاست کی اُن سڑکوں سے گذرتے ہوں گے جن کی ناہمواریاں کل نالوں اور گڈھوں کو مات دیتی تھیں تو اُن کا دل کہیں نہ کہیں اُنہیں ضرور ملامت کرتا ہوگا کہ کیوں سچائی چھپاکر گنہ گار بن رہے ہو۔اِس مرحلے پر شاید یہ سوال آسکتا ہے کہ ریاست میں جرائم کا ارتکاب اب بھی جاری ہے ۔ ابھی حال ہی میں پٹنہ کے وی آئی پی علاقے میں ایک انسپکٹر کو کسی نامعلوم جرائم پیشہ نے گولیوں کا نشانہ بنایا ہے پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ جرائم پر قابو پالیا گیا ہے۔ہم نے یہ قطعاً نہیں کہا کہ ریاست سے جرم اور غنڈہ گردی کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ یہ تو اُس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ ریاست میں بھکمری، غریبی اور خستہ حالی پر سیاست کرنے والے اپنی روٹیاں سینکتے رہیں گے۔مگر حقیقت یہ ہے کہ جرائم میں کمی آئی ہے ۔ آج ریاست میں واضح طور پر تبدیلی محسوس کی جارہی ہے۔یہی وہ چیز ہے جس نے کچھ نہ کرنے والوں کو آج پریشان کررکھا ہے اور طرح طرح کی شعبدہ بازیاں دِکھاکر ریاست کے باشندوں کو فریب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔اب حالات آئینے کی طرح واضح ہوچکے ہیں ،قوم بیدار ہوچکی ہے اور اُس نے پراسرار چپی سادھ رکھی ہے ۔ وہ نہ کسی کی حمایت میں نعرے بازی میں اپنا وقت ضائع کرنا پسند کررہے ہیں اور نہ کسی کو دِھتکار کر یہ واضح کرنے کے حق میں ہیں کہ سیاسی بہروپیوں کو قبل از وقت حقیقت کا پتہ لگ جائے اور وہ حالات کے مطابق بربریت کا ننگا ناچ ناچنے پر اُتارو ہوجائیں۔

No comments :

Post a Comment