یہ خبر یقینا ملک کے لیے باعث مسرت ہوگی کہ مرکزی حکومت ملک میں کالے خزانوں کا پتہ لگا کر اس کے مالکان کی گردن تک پہنچنے کاجرا ¿ت مندانہ عزم کیا ہے۔اپنے اس مشن کا اظہار کرتے ہوئے وزیر خزانہ پرنب ’دا‘ نے کہا ہے کہ حکومت کالی دولت کی تحقیقات کے لیے تیاری مکمل کرچکی ہے۔اس سلسلے میں ہم نے قومی اداروں سے تجاویز مانگی ہے ۔ وزیر خزانہ نے کم ازکم چار قومی اداروں سے کہا ہے کہ وہ ملک میں کالی دولت کے تخمینے اور اُن کی تفصیلات کا پتہ لگانے کے بارے میں اپنی آرا پیش کریں۔وزارت خزانہ کے ایک سینئر افسر نے بتایا ہے کہ این آئی پی ایف پی ، نیشنل اسٹیٹس ٹیکل انسٹی ٹیوٹ، نیشنل کاو ¿نسل فار ااپلائڈ اکانومکس ریسرچ اور این آئی ایف ایم جیسے بڑے اداروں کے آخر تک اپنے تجاویز سونپنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔افسر کا کہنا ہے کہ اس قسم کی تحقیقات اور چھان بین میں کم ازکم ایک سال کا وقت صرف ہوسکتا ہے۔ اس تحقیقاتی پروگرام میں سی بی ڈی ٹی ، سی بی ای سی اور ڈائریکٹوریٹ آف ایکسچینج اور دیگر اقتصادی معاملوں کے محکمے ہندوستانی ایکسپورٹروں کی تنظیم فیو کے افسران کی بھی مدد لی جائے گی۔اس سے قبل کہ اس پر کوئی تبصرہ کیا جائے کہ آخر حکومت کو برسوں سے ہونے والی فضیحت کے بعد آج اس سیاہ دولت کی یاد کیسے آگئی جس نے ہمارے ملک کے اقتصادی نظام کو تتر بتر کرکے رکھا ہوا ہے۔ہم مناسب یہ سمجھتے ہیں کہ پہلے اس کی وضاحت کردی جائے کہ’ بلیک منی‘ یا ’سیاہ دولت ‘ کا مطلب کیا ہے۔
سیاہ دولت اُسے کہتے ہیں جس کا صنعتی اداروں نے ٹیکس ادانہ کیا ہو اور محکمہ محصولات کی نگاہوں سے چھپاکر اُسے اپنے خزانہ خاص میں محفوظ کردیاگیاہو۔اِس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ کسی بھی کمپنی یا صنعت کار اور اسی طرح اُن تمام ہندوستانیوں کی وہ رقم جس کے ٹیکس کی ادائیگی اُ س نے سرکاری خزانے میں کردی ہے ، کالی دولت نہیں کہی جاسکتی۔عموماً حکومت مرکز یا ریاستوںکو وہاں کاروبار کررہے سرمایہ داروں و صنعت کاروں اور اسی طرح اُن تمام لوگوں کی مالیات کے متعلق معلومات رہتی ہے جس کا کاغذ صاف ستھرا اور ٹیکس کی ادائیگی پابندی سے کی جارہی ہو۔اس تفصیل سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اُن تمام ذرائع سے آنے والی پونجی اور آمدنی سیاہ دولت کی شرح میںڈالی جائے گی۔ جس کی آمدنی کے ذرائع واضح نہ ہو ں اور حکومت کی آنکھوں میں دھول جھونک کر کاروباری غیر قانونی طریقے سے اپنے خزانے میں اضافہ کررہا ہو۔تاریخ بتاتی ہے کہ ملک کی آزادی کے وقت یہ سیاہ دولت صرف صنعت کاروں کے پاس ہوا کرتی تھی مگر وطن عزیز میں جمہوریت نافذ ہوتے ہی اُس کے ذرائع اور سورسز میں اضافے ہونے لگے چنانچہ صنعت کاروںنے سیاہ دولت کی ذخیرہ اندوزی کی روایت تو پہلے سے قائم کرہی رکھی تھی قانون وانتظام کے نفاذ کے ساتھ سرکاری اہلکار اور افسران بھی ان کے گناہوں پر پردہ ڈالنے کے لیے رشوت کے طورپر اپنی جیبیں گرم کرتے رہے جس کا اندازہ لگانا ناممکن نہیں تو ایک مشکل امرضرور ہے۔ حکومت کو سیاہ دولت کا پتہ لگانے کے لیے اپنے اُن تمام افسران کے بینک بیلنس کے علاوہ ان کی عیش گاہوں میں پوشیدہ طور سے بنائے گئے تہہ خانے اور بستر کی چادر تک اٹھانی پڑ سکتی ہے تاکہ یہ پتہ لگایا جاسکے کہ ملک سے اپنی خدمات اور فرض کی ادائیگی پر وافر مقدار میں معاوضہ وصول کرنے والے یہ سرکاری ملازمین رشوت کو اضافی کمائی کا ذریعہ بناکر ملک کو نقصان پہنچانے اور خزانے کا دیوالیہ نکالنے کے ناپاک مشن میں کیسے شامل ہوگئے۔ظاہر سی بات ہے کہ ان حقائق تک پہنچنے کے لیے صرف برسر ملازمت سرکاری افسران اور موجودہ وقت کے صنعت کاروں کے درمیان ان کے مضبوط رشتوں کے علاوہ ماضی کی اُن دیمک خوردہ دستاویزوں کو بھی اُلٹنا پڑیگا جو سبکدوش ملازمین نے سیٹھوں ، ساہوکاروں سے رشوت وصول کر اپنے خزانے میں اضافہ کرتے رہے اور وقت پورا ہوتے ہی خاموشی سے کرسی سے اتر گئے۔ جب تک ہمارے تحقیقات کی ابتدا آزادی کے بعد مالیاتی محکموں میں تعینات اُن سرکاری افسروں سے نہیں کی جاتی جنہوں نے ماضی میں یہ روایت قائم کی تھی اور ان کی دیکھا دیکھی بعد میں اس کاروان میں شامل ہونے والے لوگ اُنہیں کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے جس تھالی میں کھائے اُسی میں چھید کرتے رہے کی مصداق اس وقت تک حکومت کے اِ س عزم کو ہم سعی لاحاصل تو کہہ سکتے ہیں ، کوئی نتیجہ بخش پروگرام نہیں کہہ سکتے۔چونکہ اس سیاہ دولت پر زیادہ تر اجارہ داری اُن لوگوں کی جنہیں ملک میں سرمایہ دار گھرانوں کے طور پر جانا جاتا ہے اور ان کے اشاروں پر ہی حکومت کے اقتصادی نظام میں تبدیلی اور تجدید کی جاتی ہے۔ یعنی جمہوریت میں حکومتیں اکثر وبیشتر سرمایہ دار گھرانوں کی رکھیل بن جاتی ہیں جہاں اُن سرمایہ داروں کے نقصان کی صورت میں کبھی کبھی ضابطے اور قانون کی دھجیاں اڑانے میں بھی ہمارے سیاسی لیڈروںکے ضمیر پر بوجھ محسوس نہیں ہوتا ۔
چونکہ ان سرمایہ داروں کی کالی دولت چور دروازے سے خود سیاسی لیڈروں اورسرکاری افسروں کی خوابگاہوں تک پہنچتی رہتی ہے لہٰذا ان کا گناہ پکڑنے سے پہلے کوئی بھی سرکاری ملازم یہ سوبار سوچتا ہے کہ اگر ہم نے اُس سرمایہ دار کے گریبان میں ہاتھ ڈالا تو وہ پھوٹ جائے گا اور دنیا کو یہ چیخ چیخ کر بتادے گا کہ اُس نے سیاہ رات میں نوٹوں کی گرم تھیلی اُن کی عیش گاہوں تک مسلسل پہنچایا ہے لہٰذا افسر یا سیاسی لیڈران اِ س قسم کے اقدامات سے قبل سومرتبہ اپنے دائیں بائیں دیکھے گا اور بالآخر خود پکڑے جانے کا خوف ملک کے مفاد اور غریبوں کے فلاح کے اس عمل سے اُسے روک دے گا۔اس سمت میں یقینا وہی افسر ان اور سیاسی لیڈروں کی جرا ¿تِ رندانہ کامیاب ہوسکتی ہے جن کے دامن رشوت کی آلائش سے پاک ہو ں اور جنہوںنے سرمایہ داروںکا درباری بن کر چند کوڑی کے لیے خود کو کسی کا غلام بنانا پسند نہیں کیا ہو۔پرنب ’دا‘ نے اگر یہ ہمت کی ہے تو یہ یقینا اُس کی ستائش کی جانی چاہیے اور ہمارے ملک کے اُن سرفروش سیاسی خادموں اور سرکاری افسران کو حمایت میں کود جانا چاہیے ۔مگر چونکہ اکثرو بیشتر سیاسی جماعتوںمیں ایک ہی تھیلی کے بند سانس لیتے ہیں لہٰذا یہ کہنا مشکل ہے کہ پرنب دا کا یہ منصوبہ کامیابی سے ہمکنار ہوگا اور ملک کو لاکھوں کروڑ کا نقصان پہنچانے والے خوش پوش سرمایہ دار اور صنعت کار دھر لیے جائینگے۔ اُن سے سیاہ دولت چھین کر سرکاری خزانے میں جمع کرلی جائے گی۔جب تک ایسے بے داغ سیاسی قائدین کا تعاون اس منصوبے کو حاصل نہیں ہوگا اُس وقت تک اس قسم کے منصوبے کو خواب تو کہہ سکتے ہیں حقیقت قطعاً نہیں۔
Editorial,29-11-2010
No comments :
Post a Comment