مختصر یہ کہ ہرزمانہ میں مسلمانوں نے علم کی گرانقدر خدمات انجام دی ہیں اور سلاطین اور امراء بھی علمی فیاضی اور علماء وطلباء کی خدمت کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کو نجات اخروی کا ذریعہ سمجھتے تھے، سلاطین وامراء کی جانب سے علمأ وطلبأ کے لئے جائیدادیں وقف تھیں، ان کی آمدنی، ان کے خورد ونوش اور تعلیمی مصارف کے لئے کفیل تھی اور اس طرح ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم عام اور مفت ہوتی تھی اور علمأ اور طلبأ بھی اپنے اپنے متعلقین کے لئے کسب معاش سے مطمئن ہوکر فراغت وسکون خاطر کے ساتھ درس وتدریس میں مشغول رہتے تھے۔ نہ تو منتظمین مدارس کو چندوں کی اپیل کرنے کی ضرورت پیش آتی تھی، نہ ہی طلباء کودست نگر سمجھ کر طالب علمی کو عزت نفس کے خلاف سمجھا جاتا تھا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کے آنے سے پہلے تک یہی نظام تعلیم جاری تھا، دہلی، آگرہ، لاہور، ملتان، جونپور، لکھنو، خیر آباد ،پٹنہ، اجمیر، سورت، دکن، مدراس، بنگال اور گجرات وغیرہ کے بہت سے مقامات علم وفن کے مرکز تھے، صرف ایک صوبہ بنگال کے متعلق انگریز مصنف کبیری ہارڈی نے بیکس مولر کے حوالہ سے یہ کیفیت بیان کی ہے۔
”انگریزی عملداری سے قبل بنگال میں اسی ہزار مدارس تھے، اس طرح ہر چار سو آدمیوں پر ایک مدرسہ کا اوسط نکلتا ہے۔ اسی صوبہ بنگال میں سلاطین وامراء نے مدارس کے لئے جو جائیداد یں وقف کی تھیں، ان اوقاف کا مجموعی رقبہ مسٹر جیمز گرانٹ کے بیان کے مطابق بنگال کے چوتھائی رقبہ سے کم نہ تھا، اوقاف کے علاوہ سلاطین وامراء نقد وظائف کے ذریعہ سے بھی اہل علم کی اعانت کرتے تھے، مدارس اور درسگاہوں کا ملک میں پھیلاہوا یہ عظیم الشان سلسلہ کیونکر ٹوٹا اور یہ مدارس ومکاتب کیونکر تباہ کئے گئے؟ اس سوال کے جواب کے لئے بارہویں صدی ہجری اور اٹھارہویں صدی عیسوی کی ہندوستانی سیاسی تاریخ کا جاننا ضروری ہے۔
ہندوستانی سیاسی تاریخ
ایسٹ انڈیا کمپنی جو ابتداء میں صرف تجارتی اغراض ومقاصد لے کر ہندوستان میں داخل ہوئی تھی۔ ۱۷۵۷ء میں پلاسی کی مشہور جنگ نے اس کو ایک نئی اور زبردست طاقت میں تبدیل کردیا۔ یہ نئی طاقت جس زمانہ میں ظہور پذیر ہوئی، اس وقت بدقسمتی سے ہندوستان کی مرکزی طاقت پارہ پارہ ہوچکی تھی اور ملک میں طوائف الملوکی کا دور دورہ تھا، ہندوستان کی اسی سیاسی کمزوری سے ایسٹ انڈیا کمپنی نے خاطر خواہ فائدہ اٹھایا اور وہ آہستہ آہستہ اپنی دسیسہ کاریوں اور ریشہ دوانیوں سے ملک پر قابض ہوتی چلی گئی، تاآنکہ انیسویں صدی عیسوی کے اوائل تک پنجاب کے علاوہ پورے ہندوستان پر اپنا تسلط قائم کرلیا۔ پرانے قانون اور قدیم نظام تعلیم وتہذیب کو منسوخ کردیا، جن قدیم مصارف کے لئے سلاطین وامراء نے طویل مدت سے بڑے بڑے اوقاف مقرر کئے تھے (جن کی کچھ تفصیل اوراق گذشتہ میں گذر چکی ہے) کمپنی کی حکومت نے ان تمام اوقاف کو ۱۸۳۸ء میں ضبط کرلیا، وظائف حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی موقوف ہو چکے تھے، اس وقت تعلیم کا تمام تر دار ومدار ان ہی اوقاف پر تھا جو اس مقصد کے لئے مخصوص کئے گئے تھے، ڈبلیوڈبلیو ہنٹر نے جو بنگال میں ایک بڑے سول عہدے پر فائز تھا ۱۸۷۱ء میں ”ہمارے ہندوستانی مسلمان،، نامی کتاب لکھ کر اس سلسلہ کے تاریخی حقائق کو سرکاری کاغذات سے واشگاف کیا ہے، ہنٹر لکھتا ہے کہ:
”صوبہ بنگال پر جب ہم نے قبضہ کیا تو اس وقت کے قابل ترین افسر مال جیمز گرانٹ کا بیان ہے کہ اس وقت صوبہ کی آمدنی کا تخمیناً ایک چوتھائی حصہ جو معافیات کا تھا، حکومت کے ہاتھ میں نہیں تھا،،۔
۱۷۷۲ء وارن ہٹینگر نے اور ۱۷۹۲ء میں لارڈ کالونو اس نے ان معافیات کی واپسی کی مہم شروع کی مگر ناکامی رہی ،۱۸۱۵ء میں حکومت نے پھر اس معاملے کو زور سے اٹھایا مگر عمل کی جرأت نہ ہوسکی، آخر ۱۸۳۸ء میں آٹھ لاکھ (۸۰۰۰۰۰) پونڈ کے خرچ سے مقدمات چلا کر ان معافیات اوراوقاف پر حکومت نے قبضہ پالیا۔ صرف ان معافیات کی آمدنی سے حکومت کی آمدنی میں تین لاکھ پونڈ یعنی تقریباً ۴۵ لاکھ روپے کا اضافہ ہوگیا۔ اس کاروائی کا مسلمانوں کی علمی زندگی پر کیا اثر پڑا ،اس کی نسبت ہنٹر لکھتا ہے کہ:
”سینکڑوں پرانے خاندان تباہ ہوگئے اور مسلمانوں کا تعلیمی نظام جس کادار ومدار ان ہی معافیات پر تھا، تہ وبالاہوگیا، مسلمانوں کے تعلیمی ادارے ۱۸ سال کی مسلسل لوٹ کھسوٹ کے بعد یک قلم مٹ گئے،،۔
اندازہ کیجئے کہ جب ایک دور افتادہ صوبہ بنگال میں جس کوا س زمانہ کے لحاظ سے کوئی خاص تعلیمی فوقیت اور مرکزیت حاصل نہ تھی، تعلیمی اخراجات کے لئے پینتالیس لاکھ روپے سالانہ آمدنی کے اوقاف موجود تھے تو ہندوستان کے دوسرے صوبوں میں بالخصوص ان مقامات میں جن کو تعلیمی مرکزیت اور تفوق حاصل تھا، کس قدر اوقاف ہوں گے۔
اوقاف کی ضبطی نے مسلمانوں کے نظام تعلیم پر ایک ضرب کاری کا کام کیا، علمأ اور اساتذہ جواب تک ان ہی اوقاف کی آمدنی کی بدولت فکر معاش سے مطمئن اور بے فکر ہو کر درس وتدریس میں مصروف تھے، وہ منتشر اور پراگندہ ہوگئے، مدارس اور درس گاہوں پر سناٹا چھا گیا، چنانچہ برک اپنی اس یادداشت میں جوبرطانوی پارلیمنٹ میں پیش کی گئی تھی، لکھتا ہے:
”ان مقامات میں جہاں علم کا چرچا تھا اور جہاں دور دور سے طالب علم پڑھنے کے لئے آتے تھے، آج وہاں علم کا بازار ٹھنڈا پڑ گیا،،۔
مگر ان حوادثات زمانہ اور گردش ایام کے باوجود بھی ہندوستان میں کچھ ایسے سخت جان علمأ موجود تھے جن کا علمی فیضان کسی مالی اعانت وامداد کا چنداں محتاج نہ تھا۔ دہلی میں حضرت مولانا شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی رحمہ اللہ کا خاندان اور لکھنو میں ملا نظام الدین کا گھرانہ اور خیر آباد کا مشہور علمی خانوادہ سینکڑوں میں چند ممتاز مثالیں ہیں، ایسے حضرات ہرقسم کے حوادثات ومصائب کو برداشت کرکے اپنے کام میں مصروف اور علمی خدمت میں ہمہ تن لگے ہوئے تھے کہ ۱۸۵۷ء کی دار وگیر کا قیامت خیز ہنگامہ پیش آگیا۔ گنے چنے جو علماء باقی رہ گئے تھے، ان پر برطانوی گورنمنٹ نے بغاوت کا جرم عائد کردیا، ان میں سے بعض کو پھانسیاں دی گئی گئیں، بعض کالے پانی بھیج دیئے گئے اور کسی کو جلاوطن کردیا گیا، جو بچے ان میں سے اکثر ممالک اسلامیہ کی طرف ہجرت کر گئے۔ حضرت شاہ عبد الغنی صاحب دہلوی جو اس وقت ولی اللّہی مسند علم کے جانشین تھے، مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرکے چلے گئے، ۱۸۳۸ء میں اوقاف کی ضبطی نے جو قدیم مدارس کو نقصان عظیم پہنچایا تھا، انیس سال کے بعد ۱۸۵۷ء کے حادثہ نے اس کی تکمیل کردی، اب رہا سہا تعلیمی نظام بھی درہم برہم ہوگیا۔
قدیم مدارس اور مذہبی تعلیم کے ذرائع آمدنی اور اس کے متعلقہ لاکھوں روپیوں کے ان اوقاف کے تباہ اور برباد کرنے کے علاوہ (جن پر مذہبی تعلیم کا دار ومدار تھا) کمپنی کی حکومت کے ۱۸۱۳ء کے ایک قانون کے ذریعہ یورپ کے پادریوں کو ہندوستان میں عیسائیت کی تبلیغ واشاعت کے لئے مشن اسکول کھولنے کا موقع ہاتھ آگیا، پادریوں کی سرگرمیاں جاری تھیں، مشن اسکول کھولے جارہے تھے جن میں حصول تعلیم کے لئے سہولتیں مہیا کی جارہی تھیں، کمپنی کے حکام پشت پناہ تھے اور ہرقسم کی امداد واعانت بہم پہنچاتے تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ملازمتوں کا لالچ تھا۔ دوسری طرف کمپنی کی اسکیم یہ تھی کہ ہندوستان کے بسنے والوں، بالخصوص مسلمانوں کو مفلس بناکر اور ملازمتوں کے حصول کی ترغیب دلاکر مشن اسکولوں میں تعلیم پانے پر مجبور کردیا جاوے، جو اس وقت عیسائیت کی تبلیغ کے لئے سب سے بڑے ذریعے سمجھے جاتے تھے، اس راہ کی سب سے بڑی رکاوٹیں مسلمانوں کے علوم اور ان کا دینی شعور اور مذہبی شغف تھا۔
اس لئے ۱۸۳۵ء کا تعلیمی نظام مرتب کیا گیا جس کی روح اور مقصد لارڈمیکالے (جو کہ ۱۸۳۵ء کی تعلیمی کمیٹی کے صدر تھے) کے نزدیک یہ ہے وہ لکھتا ہے:
”ہمیں ایک ایسی جماعت بنانی چاہئے جو ہمارے اور ہماری رعایا کے درمیان مترجم کا کام دے سکے اور ایسی جماعت ہونی چاہئے جو خون اوررنگ کے اعتبار سے تو ہندوستانی ہو مگر مذاق، رائے، الفاظ اور سمجھ کے اعتبار سے انگریز ہو،،۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کمپنی کی یہ سکیم اور اس کا یہ نظام تعلیم مسلمانوں کی مذہبی زندگی، قومی روایات اور علوم وفنون کے لئے سخت تباہ کن اور مہلک ترین حربہ تھا، اسی دوران میں ۱۸۵۷ء کا ہنگامہ پیش آگیا، جس کی بے پناہ تباہ کاریوں ، ہولناکیوں نے دلوں کو ہیبت زدہ، دماغوں کو ماؤف اور روحوں کو پژمردہ اور پوری قوم کو مفلوج کردیا، حالت یہ ہوگئی تھی کہ مسلمانوں کو ذرائع معاش سے یکسر محروم کردیا گیا تھا، تعلیم سے بے رغبتی اور مذہب سے بیگانگی میں روز افزوں ترقی اور اضافہ ہورہا تھا اور یہ وقت قریب تھا کہ علمأ کی وہ نسل جو سابقہ درسگاہوں کی تعلیم یافتہ اور مذہبی شعور واحساس اپنے اندر رکھتی تھی، رفتہ رفتہ ختم ہوجائے، ایسے حالات تھے جن کی وجہ سے ملک کے ارباب علم وفضل نے یہ محسوس کیا کہ سیاسی زوال وانحطاط اور حکومت سے محرومی کے ساتھ اب مستقبل میں مسلمانوں کا علم ، مذہب اور قومی زندگی بھی سخت خطرہ میں ہے، ان کی دور بین نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ فاتح قوم کے اثرات اور اس کے خصائص مفتوح قوم کے دل ودماغ اور علم وفکر پر اثر انداز ہوکر اس کے ملی شعائر، قومی خصائص اور فکر وعمل کی صلاحیتوں کو مٹا کر رکھ دیں گے، جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ اسلامی روایات اور اسلامی طور وطریقہ سے نفرت کرنے لگے گی اور اس کے لئے صرف فاتح قوم کی نقالی اور کورانہ تقلید واتباع ہی سرمایہ افتخار واعزاز بن کر رہ جائے گی۔ اس وقت مذہبی تعلیم کے سوا اور کوئی چیز فائدہ مند اور کارگر نہ تھی، جس سے اس خطرہ کا سد باب ہو سکے۔ ایک یہی ایسی چیز تھی جس کے ذریعہ سے مسلمان اپنے مذہبی شعائر اور قومی خصائص کا تحفظ کرسکتے تھے اور مغلوب ومحکوم ہونے کے باوجود وہ بحیثیت مسلمان قوم کے زندہ رہ سکتے تھے، اسی لئے اس وقت علماء کرام اور مذہبی رہنماؤں نے گرد وپیش کے غیر مساعد حالات اور زمانہ کے دنیوی تقاضوں سے بے نیاز ہوکر فاتح قوم کے ارادوں اور سکیموں کے علی الرغم مسلمانوں کو اسلامی علوم وفنون کی تعلیم کی طرف زیادہ توجہ دلائی، جس کے ذریعہ ان میں آئندہ مذہبی شعور کو برقرار رکھا جاسکتا تھا اور اس کے لئے قدیم مذہبی مدارس کی نشأة ثانیہ کو ضروری سمجھا گیا اور اس مقصد کے حصول کے لئے مدارس عربیہ قائم کئے گئے۔
مدارس عربیہ کی نشأة ثانیہ کا یہ کام ایسے ماحول اور دور میں شروع ہوا جبکہ قوم مسلم بحیثیت قوم مفلس ونادار اور حکومت متسلطہ کی دست نگر تھی اور وہ تمام اوقاف وغیرہ پہلے ہی ضبط کر لئے گئے تھے جن پر دینی تعلیم کی کفالت کا مدار تھا، اسی مفلسی اور ناداری سے متأثر ہوکر بعض ہمدردان قوم نے محض دنیوی خیر خواہی کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت متسلطہ کی زبان اور علوم وفنون کے پڑھنے کو ضروری سمجھا، تاکہ اس کے ذریعہ سے ملک میں منصب وعہدے بھی حاصل کئے جاسکیں اور اس سے معاشی ضروریات بھی پوری کی جاسکیں، اسی لئے انہوں نے اس مقصد کے لئے لارڈمیکالے کی تجویز کردہ تعلیمی سکیم کی ہمنوائی کرتے ہوئے ایسے سکولوں اور کالجوں کی طرف رخ کیا جن کی ڈگریوں اور سارٹیفیکیٹوں کے حصول پر ہی ملازمتوں اور عہدوں کے ملنے کا مدار تھا۔ مگر اس کس مپرسی، بے بسی اور بے سروسامانی کی حالت میں بعض اہل دل اللہ والوں کے قلوب میں مدارس دینیہ کے احیاء کا داعیہ پیدا ہوا اور ایک مرد حق آگاہ اور درویش کامل، عالم ربانی حجة الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی قدس سرہ نے ۱۸۶۷ء میں توکلاً علی اللہ دیوبند ضلع سہارنپور کی تاریخی مسجد چھتہ میں دارالعلوم کی بنیاد رکھ دی اور تعلیم وتبلیغ کا نبوی نظام پھر سے قائم کردیا۔
الحمد للہ !ایک مسجد میں شروع ہونے والا یہ دار العلوم بہت جلد دنیائے اسلام کی بہت بڑی دینی درسگاہ بن گئی اور دو ر دراز ممالک اور ہندوستان کے گوشہ گوشہ سے نہ صرف یہ کہ لوگ جوق درجوق علوم دینیہ اور فنون علمیہ کے حاصل کرنے کے لئے یہاں جمع ہونے لگے بلکہ ملک کے کونے کونے ، شہر شہر ، قریہ قریہ میں اس کی شاخیں قائم ہوگئیں اور شجرہ طوبی کی شاخوں کی طرح ہر طرف پھیل گئیں۔ اس دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل حضرات میں سے بہت سے حضرات آسمان علم پر مہر وماہ کی طرح چمکے، جیسے حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب، شیخ المحدثین حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری، حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمة واسعة وغیرہم۔
ان میں سے صرف حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی دینی خدمات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ پرانے قصبہ تھانہ بھون کی پرانی مسجد کے ایک گوشے میں بیٹھ کر اس زندہ دل درویش نے اصلاح امت کے لئے تعلیمی اور تبلیغی کتنا عظیم الشان کام کیا ہے۔ حضرت والا کی تقریباً نوسو (۹۰۰) تصنیفات وتالیفات، مواعظ اور ملفوظات کے اوراق کو اگر آپ کے ایام زندگی پر پھیلایا جائے تو اوراق کی تعداد ایام زندگی سے بڑھ جاتی ہے۔
ہندوستان میں ان دینی مدارس سے کیسے کیسے علماء حق پیدا ہوئے اور انہوں نے مذہب وملک کی کیا کیا گرانقدر خدمات انجام دیں، یہ ہمارے موضوع میں داخل نہیں، اس وقت صرف اتنی بات کا عرض کردینا ضروری سمجھا گیا کہ علماء حق نے یہ دینی مدارس ایسے وقت میں قائم کئے جس وقت ان مدارس کے نظام تعلیم وتبلیغ کو نہ کسی حکومت کی سرپرستی حاصل تھی اور نہ قومی خوانے کی پشت پناہی اور نہ ہی ملک کے لاکھوں روپیوں کی اوقاف کی آمدنی سے ان کو امداد حاصل ہوتی تھی، بلکہ یہ نظام بظاہر صرف ملک کے دینی شعور واحساس رکھنے والے اہل خیر کی مالی امداد وتعاون اور چندہ کے موجودہ طریقہ پر چل رہا تھا اور درحقیقت بے سروسامانی اور محض اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر اس نظام کی بنیاد تھی۔ غرضیکہ چندہ کے موجودہ مروج طریقہ کی بنیاد پر مدارس کاقیام کیا گیا اور ملک میں جابجا مدارس قائم کردیئے گئے، اس وقت سے یہ نیا نظام مدارس کے لئے جاری ہوگیا۔
علماء نے قوم کے سامنے دست سوال دراز کیا، مدارس کے لئے چندے مانگے، ہر طرح کے طعنے سنے، کئی قسم کے اعتراضات برداشت کئے مگر تعلیم مذہب کو ہاتھ سے نہ جانے دیا اور فاتح قوم انگریز کے منصوبے کو کامیاب نہ ہونے دیا۔ مدارس نے نہ صرف یہ کہ کمپنی کی تجویز کردہ لامذہب بنانے والی مذکورہ تباہ کن سکیم اور مہلک ترین حربہ کی زد سے علم ومذہب کو بچالیا اور عیسائیت کے تیز وتندطوفان اور بڑھتے ہوئے سیلاب عظیم کی لپیٹ سے ملک کو محفوظ کرلیا، بلکہ مسلمانوں کو بحیثیت قوم مسلم کے مٹنے اور ختم ہونے سے بھی بچالیا، ورنہ یہ نظام تعلیم اور مشن اسکول اور عیسائیت کی اشاعت کے لئے پادریوں کی سرگرمیاں جس کے پیچھے حکومت وقت کی بے پناہ قوت کام کررہی تھی، ہندوستان کے مسلمانوں کو اسی طرح اپنی لپیٹ میں لے لیتے اور ہندوستان کے مسلمانوں کا وہی حال ہوجاتا جس طرح اسپین کے مسلمانوں کا حال ہوچکا تھا کہ وہاں کی عیسائی حکومت کی بدولت وہاں کے تمام باشندے عیسائی ہو چکے تھے۔ (نعوذ باللہ منہ)
ان مدارس کا ملت ومذہب اور قوم مسلم کو اغیار کے حملوں سے بچالینا ہی کیا ایسا ناقابل معافی جرم عظیم ہے جس کی پاداش میں سب سے بڑی اسلامی سلطنت پاکستان کے بسنے والے بعض طبقے یہ کہتے نہیں تھکتے کہ تعلیم جدید کے اس دور میں دینی مدارس کا کیا فائدہ ہے، ان پر قوم کی دولت اور وقت کیوں ضائع کیا جارہا ہے؟ قوم کے ان ہمدردوں اور بہی خواہوں سے کیا یہ عرض کیا جاسکتا ہے کہ اگر ان مدارس کو قائم نہ کیا جاتا اور لارڈ میکالے کا مرتب کردہ نظام تعلیم اور عیسائیت کی تبلیغ کے لئے حکومت متسلطہ کی مساعی کے سامنے علماء حق بھی گھٹنے ٹیک دیتے اور بڑے بڑے منصوبوں، عہدوں اور تنخواہوں کے لالچ میں آکر انگریزی سکولوں اور کالجوں کا رخ کرلیتے تو کیا ۱۸۵۷ء کے بعد انگریزی دور کے تقریباً سوسالہ زمانہ میں مذہب کے تحفظ اور اس کے بقاء کی کوئی صورت باقی رہ گئی تھی۔
غور فرمایا جائے کہ جب مذہب ہی باقی نہ رہتا اور مسلمانوں کو بحیثیت قوم مسلم کے ختم کرکے عیسائیت اور لادینیت میں جذب کرلیا جاتا تو پھر پاکستان کے مطالبہ کرنے اور اس کی عمارت قائم کرنے کے لئے مسلم قومیت کا بنیادی نظریہ کہاں سے دستیاب ہوتا۔
یہ مدارس اسلامیہ کیا اسی لئے بے ضرورت ہیں اور ان پر قوم کی دولت اور وقت کا خرچ کرنا قومی سرمایہ کاضیاع ہے کہ ان مدارس نے مسلم قومیت کا تحفظ کیا اور اس کو حکومت وقت کی پوری کوشش کے باوجود مٹنے نہیں دیا جس کے نتیجے میں دنیائے اسلام کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت پاکستان قوم مسلم کو خداوند قدوس کی طرف سے عطا کی گئی ہے، مگر ہم نے اس کی قدر نہیں کی اور اس میں اسلامی نظام جاری نہیں کیا، جس کی وجہ سے اس کا ایک بہت بڑا حصہ علیحدہ ہوگیا اور باقی حصہ بھی خطرہ میں ہے۔ جس قوم کو ان مدارس کی مساعی جمیلہ کی بدولت اتنی عظیم الشان حکومت حاصل ہوئی ہو او رجو مدارس حکومت کی بنیاد ”مذہب،، کے محافظ ہوں، کیا اسی قوم کا سرمایہ ان مدارس پر صرف کرنا بے فائدہ اور ضائع کرنا ہے؟ یاد رکھئے! جس طرح دینی مدارس سے مذہب اور اسلامی قومیت کی حفاظت ہوتی ہے، اسی طرح ملک کی حفاظت اور اس کے استحکام کا دار ومدار بھی ان ہی مدارس پر ہے اور جس طرح مطالبہ پاکستان کے لئے مسلم قومیت اور مذہب اسلام مستحکم اور مضبوط چٹان کی طرح ثابت ہوئے جوان سے ٹکرایا پاش پاش ہوگیا، اسی طرح آج بھی پاکستان کی بقاء اور استحکام کے لئے ان کو وہی حیثیت اور مقام حاصل ہے جس کا ستمبر ۶۵ء کی جنگ میں مشاہدہ بھی ہوچکا ہے اور اسلام اور مسلم قومیت کی بقاء اور حفاظت کی ضامن چونکہ یہی دینی تعلیم ہے جو مدارس دینیہ میں حاصل ہوتی ہے، اس لئے جتنی اہمیت اور ضرورت انگریزی دور میں دینی مدارس کے بقاء اور قیام کی تھی، اس سے بڑھ کر ان مدارس کی آج پاکستان میں ضرورت ہے۔ اس لئے کہ یہ مدارس جس طرح ملت اسلام اور دینی تعلیم کی حفاظت کے واسطے مضبوط قلعے ہیں، اسی طرح ملک پاکستان کو بھی اغیار کے حملوں سے بچانے کے مضبوط ومستحکم اڈے ہیں۔ ان مدارس سے غفلت برتنا اور ان کے وجود کو ہی بے کار سمجھنا اور حسب استطاعت ان کی ترقی میں حصہ نہ لینا ملت اسلام اور ملک پاکستان دونوں کی بنیاد سے بے پرواہی برتنے اور چشم پوشی کرنے کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ملت اسلام اور ملک پاکستان کے پاسبان ومحافظ، ان مدارس دینیہ کی امداد وحفاظت اور ان کے ساتھ تعاون کرنے کی توفیق عنایت فرمائیں، آمین۔ وما علینا الا البلاغ المبین وآخر دعونا ان الحمد للّٰہ رب العالمین۔
Thursday, October 20, 2011
میڈیا کا مذہبی استعمال
دور حاضر میں ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی کے باعث ہونیوالی معاشرتی تبدیلیوں نے میڈیا کی اہمیت کو مزید اجاگر کرنے میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔ معاشرے کے ہر طبقے کے لیے ضروری ہو چکا ہے کہ وہ اپنے پیغام اور نظریات سے آگاہی اور ان کے فروغ کے لیے ذرائع ابلاغ کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرے۔ یہ حقیقت ہے کہ آج کے دور میں صرف وہی اقوام اور نظریات عالمی منظر نامے پر حاوی نظر آتے ہیں کہ جو میڈیا کے میدان میں بھرپور صلاحیتوں کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔ میڈیا میں کم سرگرمی کا مظاہرہ کرنیوالے دینی ، سیاسی ، سماجی غرض ہر قسم کے طبقات کی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔ عالمی سطح پر اور خاص کر برصغیر میں دینی طبقے نے بھی ذرائع ابلاغ کو اپنے لیے مواقف بنانے پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ اسلام کی سچی تعلیمات اور قرآن و سنت کا بھرپور علم ہونے کے باوجود اس کے ابلاغ کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کی کوششیں نہیں کی گئیں جس کے باعث ملک میں سیکولر طبقہ حاوی نظر آتا ہے اور خاص کر میڈیا کے میدان میں تو اس کی کافی حد تک اجارہ داری قائم ہو چکی ہے۔ بلخصوص الیکٹرانک میڈیا کے حوالے سے انتہائی کم توجہ دی گئی ہے۔ اس مضمون کا مقصد عالمی سطح پر اور خاص کر مغربی ممالک میں الیکٹرانک میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کے دینی مقاصد کے لیے استعمال کو زیر بحث لانا ہے۔ مغربی دنیا میں ذرائع ابلاغ کے تمام قابل ذکر اور بڑے اداروں پر یہود ی مالکان یا تو قابض ہیں یا پھر اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے ان کی پالیسی پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی میڈیا ہی یہودی مذہب اور عیسائی مذہب کی جدید تشریحات کا ترجمان نظر آتا ہے۔ سیکولرازم کے سب سے بڑے دعویدار امریکہ میں میڈیا کو کس حد تک مذہبی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے سابق امریکی صدر جانس کی تقریر نویس خاتون صحافی گریس ہالسلز کی ” نئی صلیبی جنگ سے متعلق کتاب Forcing God's Hand سے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں۔ یہ کتاب دو ہزار ایک میں لکھی گئی۔ کتاب میں اس موضوع پر گفتگو کی گئی ہے کہ کس طرح امریکی کی اندرونی اور بیرونی پالیسیاں عیسائی بنیاد پرستوں اور دہشت گردوں کے زیر اثر بنتی ہیں۔ یہ طبقہ میڈیا کے میدان میں بھی بھرپور اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ کتاب کے اکتسابات مندرجہ ذیل ہیں۔
رائل اولس شیگن کے جیک وین امپی ہر ہفتے اپنی تقریر نشر کرتے ہیں اور نوے سے زیادہ چینل پر خطاب کرتے ہیں۔ ان میں ٹرینی براڈ کاسٹنگ مذہبی نیٹ ورک ، امریکہ کے ۳۴ ریڈیو سٹیشن اور ٹرانس ورلڈ ریڈیو ، جو دنیا بھر میں سنا جاتا ہے ، شامل ہے
چارلس ٹیلر جن کا تعلق ننگٹن بیچ ( کیلیفورنیا) سے ہے۔ اپنے نشرئیے میں ” بائبل کی پیشن گوئی آج کے لئے “ نامی پروگرام کرتے ہیں جو کہ سٹیلائیٹ کے ذریعے بیس سے زیادہ نشرگاہوں سے دنیا بھر میں دیکھا جاتا ہے۔
چک اسمتھ کا ریڈیو پروگرام سینکڑوں نشرگاہوں سے سنا جاتا ہے اور کالوری سیٹلائیٹ نیٹ ورک سے بھی نشر ہوتا ہے۔ کوسٹامیسا ( کیلیفورنیا) میں ان کا ” کالوری چینل “ ہے جس کے ۵۲ ہزار ارکان ہیں۔ امریکہ میں ان کے چھ سو سے زائد کالوری چینل ہیں اور بین الاقوامی طور پر ایک سو سے بھی زائد کالوری چینل ہیں۔
پال کراو ¿چ کا ٹرینٹی براڈ کاسٹنگ نیٹ ورک ہے جو یوم قیامت کے بارے میں پیش گوئیاں نشر کرتا ہے۔ یہ پورے امریکہ میں دیکھا جاتا ہے۔
کراو ¿چ کا لاس اینجلز میں ہفتے کی صبح کو اپنا ریڈیو پروگرام ہوتا ہے۔ جبکہ وہ کاو ¿نٹ ڈاو ¿ن نیوز جرنل بھی شائع کرتے ہیں۔
جیمز ڈالبسن ، کولوریڈو میں مذہبی پروگرام کے براڈ کاسٹر ہیں۔ وہ ایک تحریک کے بانی بھی ہیں ” خاندان پر توجہ “ کے بانی ہیں۔ اس کے ارکان بیس لاکھ سے زائد اور پورے ملک میں ۴۳ شاخیں ہیں۔ وہ ہر ہفتے دو کروڑ ۸ لاکھ افراد تک پیغام پہنچاتے ہیں۔
لیوس پلاو ¿ ایک مذہبی مبلغ ہیں۔ انہوں نے ۷۶ اقوام سے خطاب کرتے ہوئے ایک کروڑ بیس لاکھ سے گفتگو کی ہے۔۔ ان کا ہفتہ وار ٹی وی پروگرام ہے۔۔ وہ ہر روز تین ریڈیو پروگرام نشر کرتے ہیں جنہیں بائیس ملکوں میں سنا جاتا ہے۔
پیٹ رابرٹسن نے ورجینا بیچ میں کرسچن براڈ کاسٹنگ نیٹ ورک تعمیر کیا جس کی ہر سال نو کروڑ ستر لاکھ ڈالر آمدنی ہوتی ہے۔۔ اس کے منافع پر کوئی ٹیکس بھی نہیں۔۔
اپنے بی سی این میں انہوں نے فیملی چینل بنایا جو کہ امریکہ میں ساتواں سب سے بڑا نیٹ ورک ہے۔۔ وہ خود پروگرام بھی کرتا ہے۔ بعد میں اس نے اپنا فیملی چینل فاکس ٹیلی ویڑن کو ایک ارب نوے کروڑ میں بیچ دیا۔ مصنفہ کی تحقیق کے مطابق مذہبی سرگرمیاں زیادہ تر کرسچن کولیشن نامی تنظیم کے ذریعے ہوتی ہے اور اسے ملک کی سب سے بڑی سماجی تنظیم قرار دیا جا سکتا ہے جوکہ داخلہ و خارجہ پالیسی اور سیاست پر گہرا اثر و رسوخ رکھتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ امریکہ میں پانچ کروڑ سے زائد بنیاد پرست عیسائی موجود ہیں جو کہ دنیا کے جلد سے جلد خاتمے کے لیے سرگرم ہیں۔ یہی افراد یہودیوں کی بھرپور مدد کرتے ہیں۔ امریکی میڈیا میں یہودی سب سے زیادہ اثر ورسوخ رکھتے ہیں اور اس کی بھی مذہبی وجوہات ہیں۔ بائبل کی نئی تشریحات میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ حضرت عیسی کی دوبارہ آمد اور نجات کے لیئے ضروری ہے کہ یہودیوں کا ہیکل تعمیر ہو۔ انہی نظریات کا اثر ہے کہ عیسائی دنیا آج اسرائیل کی حمایتی نظر آتی ہے اور ایسا سیاسی نہیں بلکہ مذہبی بنیادوں پر کیا جا رہا ہے۔۔بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سیکولر ازم کے نام نہاد نعرے کے تحت مغربی ذرائع ابلاغ مذہب سے دوری کی کوششوں میں مصروف ہیں جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ بہت سے سکالرز اپنی تحقیق سے یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ سیکولرازم کہ جس کو مذہب بیزاری کا نام دیا جاتا ہے بذات خود ایک مذہب کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے باقاعدہ اصول و ضوابط ہیں کہ جن کی پیروی بلکل ایسے ہی کی جاتی ہے کہ جیسے مذہبی احکام و مسائل کی۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی معاشرے کے مذہبی رجحان کو بدلنے کے لیے ہمیشہ یہی ضروری نہیں ہوتا کہ کسی دوسرے مذہب کی تبلیغ کی جائے بلکہ بعض اوقات لوگوں کو ان کے عقائد اور نظریات سے دور کر دینے کے لیے بھی ذرائع ابلاغ کو استعمال کیا جاتا ہے۔ میں اس کی مثال برصغیر میں قائم مشنری تعلیمی اداروں سے دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ ہمارے ملک میں کرسچن مشنری تنظیموں کی جانب سے اعلی طبقے کے لیے بڑے ہی پرکشش انداز میں تعلیمی اداروں کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ وافر فنڈز اور بیرونی سرمائے کی بدولت یہ تعلیمی ادارے اپنے معیار کو بہتر بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے ہاں کی اشرافیہ اپنے ہونہار بچوں کو ان اداروں میں بھیجتے ہیں۔ اب اگر دیکھا جائے تو ان تعلیمی اداروں میں پڑھنے والوں میں سے بہت کم ہی عیسائیت کو قبول کرتے ہیں تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی اکثریت اسلامی تعلیمات سے مکمل طور پر ناآشنا ہو چکی ہوتی ہے۔ انتہائی چالاکی اور مہارت سے ان بچوں کے معصوم ذہنوں میں ایسا بیج بویا جاتا ہے کہ وہ زندگی کا باقی ماندہ حصہ مذہب سے دور ہی گزارتے ہیں۔ یہی لوگ بعد میں ملک کا عنان حکومت سنبھالتے ہیں اور سکولوں میں ہونیوالی نشوونما کے زیر اثر ہی ان کے ذہن دینی طبقے سے قربت پر کبھی بھی مائل ہی نہیں ہوتے۔ ٹھیک ایسے ہی بعض طاقتیں میڈیا کی طاقت کو مسلمانوں کے دلوں سے دینی روایات اور احکام و مسائل کی عزت اور اور محبت ختم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ یعنی ان کو عیسائی ، یہودی یا ہندو نہیں بنایا جا رہا لیکن ایسا مواد پیش کیا جا رہا ہے کہ مسلمان دین کی اصل روح سے بیگانہ ہو جائیں۔ دوسرا ایک بہت ہی اہم حربہ اسلامی قوانین ، تاریخ ، شخصیات ، تحریکوں وغیرہ کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلا نا ہے۔ انٹرنیٹ پر قرآن پاک کے غلط تراجم حتی کہ غلط متن تک موجود ہیں اور انتہائی منصوبہ بندی سے ان کو پھیلایا جا رہا ہے۔ اسلام مخالف میڈیا بھرپور طریقے سے لوگوں کے دلوں میں مذہب سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ پاکستان میں حدود بل کے خلاف میڈیا ٹرائل ، ناموس رسالت کے قانون اور اسلامی سزاو ¿ں وغیرہ کو اس انداز سے پیش کیا جاتا ہے کہ دینی جذبات رکھنے والا بندہ بھی ان سے متنفر ہو جائے۔ اس طرح معاشرے میں ایسا ماحول بنانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جیسے ہی ان قوانین کو ختم کرنے کے کوشش ہو تو زیادہ سخت ردعمل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ مغربی میڈیا نے حالیہ دنوں میں توہین آمیز مواد کی اشاعت کو بھی ایک مذہبی حربے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ نبی اکرم کی شان میں گستاخی کے واقعات میں میڈیا سے منسلک افراد کے واضح مذہبی جذبات کی عکاسی ہوتی ہے۔ مذہبی جماعتوں کو اور دنیا بھر میں سرگرم اسلامی تنظیموں کو انتہائی گھٹیا انداز میں پیش کیا جاتا ہے تاکہ لوگوں کے دل مذہب کے داعیوں سے دور ہو سکیں۔ ایک اہم حربہ یہ بھی ہے کہ ٹی وی شوز میں ایسے سکالرز کو پروموٹ کیا جاتا ہے کہ جو مرضی کے مطابق تشریحات کر سکتے ہوں۔ اس سے مختلف مقاصد حاصل ہوتے ہیں کہ ایک طرف تو مخلص دینی قیادت کو عوام کی نظروں سے ہٹا دیا جاتا ہے جبکہ دوسری جانب نام نہاد مذہبی سکالرز کے ذریعے دینی مسائل کی ایسی تشریح پیش کی جاتی ہے کہ جس سے مزید الجھنیں پیدا ہوتی ہیں اور معاشرے کا ایک بڑا طبقہ دین کو بوجھ سمجھ کر مذہبی روایات سے دور ہوتا جا تا ہے۔ پاکستان میں غیر مسلم قرار دئیے جانیوالے قادیانی میڈیا کے میدان میں انتہائی سرگرم دیکھائی دیتے ہیں اور ان کے سیٹلائیٹ چینلز ملک میں پرائیوٹ چینلز کی آمد سے بھی کئی سال پہلے سے ہی سرگرم ہیں۔ قادیانی چینلز الیکٹرانک میڈیا کو بھرپور طریقے سے مذہبی مقاصد کے لیے استعمال استعمال کرتے ہیں۔ بھارتی میڈیا بھی ہندو مذہب کی ترویج کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ڈراموں، فلموں اور مختلف پروگرامز میں مذہبی عنصر لازمی طور پر شامل کیا جاتا ہے۔ ہندو دیوی دیوتاو ¿ں کا تعارف ، پوجا ، مذہبی گیت ، مذہبی
روایات وغیرہ کی بھرپور طریقے سے عکاسی نظر آتی ہے۔ بھجن ، تلک ، گھنگرو ، پائل ، ساڑھیاں اور ایسی ہی بہت سی ہندو مت سے منسلک اشیائ میڈیا کی بدولت ہی آج ہمارے معاشرے کا بھی حصہ بنتی نظر آتی ہیں۔ مغربی اور ہندو میڈیا سے مقابلے کے لیے اسلامی حلقوں کو بھی اس میدان میں آگے آنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات کافی خوش آئند ہے کہ چاہے دیر سے ہی سہی لیکن اب دینی طبقے کو الیکٹرانک اور آن لائن میڈیا کی اہمیت کا اندازہ ہو چکا ہے اور اب اس سلسلے میں تگ و دو جاری ہے۔ کسی کو بھی اس قدرتی اصول سے اختلاف نہیں ہونا چاہیے کہ گنوائے ہوئے وقت کا ازالہ ممکن نہیں اور اب دینی طبقے کو الیکٹرانک میڈیا کے میدان میں اپنا پیغام پیش کرنے کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ محنت کی ضرورت ہو گی۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے کسی بہتے ہوئے دریا کا منہ موڑنا۔۔ بہرحال اگر نیت خالص ہو اور محنت کا جذبہ بھرپور ہو تو آج کے دور میں یہ کام ناممکن ہرگز نہیں ہے۔
دینی طبقہ کے میڈیا فیلڈ میں سرگرمی دیکھاتے ہی ملک میں بلکہ عالمی سطح پر بھی اک نئی بحث نے بھی جنم لیا ہے۔ اسلام اور اس کی تعلیمات سے تعصب رکھنے والے لوگ مختلف الزامات کے تحت دینی اور نظریات افراد کو میڈیا سے دور رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور ایسا تاثر دیا جا رہا ہے کہ اگر دینی علم رکھنے والے افراد کے ہاتھوں میں میڈیا ٹیکنالوجی آ گئی تو اس سے معاشرے میں کوئی بہت بڑا طوفان جنم لے سکتا ہے۔ فرقہ واریت ، گروہ بندی ، اشتعال انگیز مواد وغیرہ جیسے موضوعات کو لیکر دینی ذرائع ابلاغ کے قیام میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج برصغیر میں نیوز اور تفریحی چینل کی اجازت تو بہ آسانی مل جاتی ہے جبکہ دینی چینل کے لیے اجازت نامہ ملنا انتہائی مشکل کام ہے۔ حکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر امریکہ اور دیگر ممالک میں میڈیا کے اتنے بڑے پیمانے پر مذہبی استعمال سے کوئی مشکل پیدا نہیں ہوئی تو انشائ اللہ ہمارے ملک میں بھی ایسا کچھ نہیں ہوگا بلکہ مذہبی حلقوں کے میڈیا میں آنے سے بہت سی غلط فہمیوں کا خاتمہ ہوگا۔ الیکٹرانک میڈیا میں ناظرین کا حلقہ بہت وسیع ہوتا ہے اور ہر مقرر اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ اس کی گفتگو صرف ایک خاص طبقے تک نہیں پہنچ رہی بلکہ ہزاروں لاکھوں لوگ سن یا دیکھ سکتے ہیں۔ اس سے احساس ذمہ داری میں اضافہ ہوتا ہے۔ کوئی بھی عالم دین یا سکالر من گھڑت اور اشتعال انگیز بات کرنے کی ہمت نہیں کرتا کیونکہ فوری طور پر ردعمل آنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ اس لیے نہ صرف دینی جماعتوں کو چاہیے کہ میڈیا کے استعمال میں اضافہ کریں بلکہ حکومت کو بھی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ انشائ اللہ آئندہ مضمون میں ان نقاط پر بحث کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ جو دینی حلقوں کو میڈیا میں کامیابی دلا سکتے ہییں
رائل اولس شیگن کے جیک وین امپی ہر ہفتے اپنی تقریر نشر کرتے ہیں اور نوے سے زیادہ چینل پر خطاب کرتے ہیں۔ ان میں ٹرینی براڈ کاسٹنگ مذہبی نیٹ ورک ، امریکہ کے ۳۴ ریڈیو سٹیشن اور ٹرانس ورلڈ ریڈیو ، جو دنیا بھر میں سنا جاتا ہے ، شامل ہے
چارلس ٹیلر جن کا تعلق ننگٹن بیچ ( کیلیفورنیا) سے ہے۔ اپنے نشرئیے میں ” بائبل کی پیشن گوئی آج کے لئے “ نامی پروگرام کرتے ہیں جو کہ سٹیلائیٹ کے ذریعے بیس سے زیادہ نشرگاہوں سے دنیا بھر میں دیکھا جاتا ہے۔
چک اسمتھ کا ریڈیو پروگرام سینکڑوں نشرگاہوں سے سنا جاتا ہے اور کالوری سیٹلائیٹ نیٹ ورک سے بھی نشر ہوتا ہے۔ کوسٹامیسا ( کیلیفورنیا) میں ان کا ” کالوری چینل “ ہے جس کے ۵۲ ہزار ارکان ہیں۔ امریکہ میں ان کے چھ سو سے زائد کالوری چینل ہیں اور بین الاقوامی طور پر ایک سو سے بھی زائد کالوری چینل ہیں۔
پال کراو ¿چ کا ٹرینٹی براڈ کاسٹنگ نیٹ ورک ہے جو یوم قیامت کے بارے میں پیش گوئیاں نشر کرتا ہے۔ یہ پورے امریکہ میں دیکھا جاتا ہے۔
کراو ¿چ کا لاس اینجلز میں ہفتے کی صبح کو اپنا ریڈیو پروگرام ہوتا ہے۔ جبکہ وہ کاو ¿نٹ ڈاو ¿ن نیوز جرنل بھی شائع کرتے ہیں۔
جیمز ڈالبسن ، کولوریڈو میں مذہبی پروگرام کے براڈ کاسٹر ہیں۔ وہ ایک تحریک کے بانی بھی ہیں ” خاندان پر توجہ “ کے بانی ہیں۔ اس کے ارکان بیس لاکھ سے زائد اور پورے ملک میں ۴۳ شاخیں ہیں۔ وہ ہر ہفتے دو کروڑ ۸ لاکھ افراد تک پیغام پہنچاتے ہیں۔
لیوس پلاو ¿ ایک مذہبی مبلغ ہیں۔ انہوں نے ۷۶ اقوام سے خطاب کرتے ہوئے ایک کروڑ بیس لاکھ سے گفتگو کی ہے۔۔ ان کا ہفتہ وار ٹی وی پروگرام ہے۔۔ وہ ہر روز تین ریڈیو پروگرام نشر کرتے ہیں جنہیں بائیس ملکوں میں سنا جاتا ہے۔
پیٹ رابرٹسن نے ورجینا بیچ میں کرسچن براڈ کاسٹنگ نیٹ ورک تعمیر کیا جس کی ہر سال نو کروڑ ستر لاکھ ڈالر آمدنی ہوتی ہے۔۔ اس کے منافع پر کوئی ٹیکس بھی نہیں۔۔
اپنے بی سی این میں انہوں نے فیملی چینل بنایا جو کہ امریکہ میں ساتواں سب سے بڑا نیٹ ورک ہے۔۔ وہ خود پروگرام بھی کرتا ہے۔ بعد میں اس نے اپنا فیملی چینل فاکس ٹیلی ویڑن کو ایک ارب نوے کروڑ میں بیچ دیا۔ مصنفہ کی تحقیق کے مطابق مذہبی سرگرمیاں زیادہ تر کرسچن کولیشن نامی تنظیم کے ذریعے ہوتی ہے اور اسے ملک کی سب سے بڑی سماجی تنظیم قرار دیا جا سکتا ہے جوکہ داخلہ و خارجہ پالیسی اور سیاست پر گہرا اثر و رسوخ رکھتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ امریکہ میں پانچ کروڑ سے زائد بنیاد پرست عیسائی موجود ہیں جو کہ دنیا کے جلد سے جلد خاتمے کے لیے سرگرم ہیں۔ یہی افراد یہودیوں کی بھرپور مدد کرتے ہیں۔ امریکی میڈیا میں یہودی سب سے زیادہ اثر ورسوخ رکھتے ہیں اور اس کی بھی مذہبی وجوہات ہیں۔ بائبل کی نئی تشریحات میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ حضرت عیسی کی دوبارہ آمد اور نجات کے لیئے ضروری ہے کہ یہودیوں کا ہیکل تعمیر ہو۔ انہی نظریات کا اثر ہے کہ عیسائی دنیا آج اسرائیل کی حمایتی نظر آتی ہے اور ایسا سیاسی نہیں بلکہ مذہبی بنیادوں پر کیا جا رہا ہے۔۔بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سیکولر ازم کے نام نہاد نعرے کے تحت مغربی ذرائع ابلاغ مذہب سے دوری کی کوششوں میں مصروف ہیں جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ بہت سے سکالرز اپنی تحقیق سے یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ سیکولرازم کہ جس کو مذہب بیزاری کا نام دیا جاتا ہے بذات خود ایک مذہب کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے باقاعدہ اصول و ضوابط ہیں کہ جن کی پیروی بلکل ایسے ہی کی جاتی ہے کہ جیسے مذہبی احکام و مسائل کی۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی معاشرے کے مذہبی رجحان کو بدلنے کے لیے ہمیشہ یہی ضروری نہیں ہوتا کہ کسی دوسرے مذہب کی تبلیغ کی جائے بلکہ بعض اوقات لوگوں کو ان کے عقائد اور نظریات سے دور کر دینے کے لیے بھی ذرائع ابلاغ کو استعمال کیا جاتا ہے۔ میں اس کی مثال برصغیر میں قائم مشنری تعلیمی اداروں سے دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ ہمارے ملک میں کرسچن مشنری تنظیموں کی جانب سے اعلی طبقے کے لیے بڑے ہی پرکشش انداز میں تعلیمی اداروں کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ وافر فنڈز اور بیرونی سرمائے کی بدولت یہ تعلیمی ادارے اپنے معیار کو بہتر بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے ہاں کی اشرافیہ اپنے ہونہار بچوں کو ان اداروں میں بھیجتے ہیں۔ اب اگر دیکھا جائے تو ان تعلیمی اداروں میں پڑھنے والوں میں سے بہت کم ہی عیسائیت کو قبول کرتے ہیں تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی اکثریت اسلامی تعلیمات سے مکمل طور پر ناآشنا ہو چکی ہوتی ہے۔ انتہائی چالاکی اور مہارت سے ان بچوں کے معصوم ذہنوں میں ایسا بیج بویا جاتا ہے کہ وہ زندگی کا باقی ماندہ حصہ مذہب سے دور ہی گزارتے ہیں۔ یہی لوگ بعد میں ملک کا عنان حکومت سنبھالتے ہیں اور سکولوں میں ہونیوالی نشوونما کے زیر اثر ہی ان کے ذہن دینی طبقے سے قربت پر کبھی بھی مائل ہی نہیں ہوتے۔ ٹھیک ایسے ہی بعض طاقتیں میڈیا کی طاقت کو مسلمانوں کے دلوں سے دینی روایات اور احکام و مسائل کی عزت اور اور محبت ختم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ یعنی ان کو عیسائی ، یہودی یا ہندو نہیں بنایا جا رہا لیکن ایسا مواد پیش کیا جا رہا ہے کہ مسلمان دین کی اصل روح سے بیگانہ ہو جائیں۔ دوسرا ایک بہت ہی اہم حربہ اسلامی قوانین ، تاریخ ، شخصیات ، تحریکوں وغیرہ کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلا نا ہے۔ انٹرنیٹ پر قرآن پاک کے غلط تراجم حتی کہ غلط متن تک موجود ہیں اور انتہائی منصوبہ بندی سے ان کو پھیلایا جا رہا ہے۔ اسلام مخالف میڈیا بھرپور طریقے سے لوگوں کے دلوں میں مذہب سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ پاکستان میں حدود بل کے خلاف میڈیا ٹرائل ، ناموس رسالت کے قانون اور اسلامی سزاو ¿ں وغیرہ کو اس انداز سے پیش کیا جاتا ہے کہ دینی جذبات رکھنے والا بندہ بھی ان سے متنفر ہو جائے۔ اس طرح معاشرے میں ایسا ماحول بنانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جیسے ہی ان قوانین کو ختم کرنے کے کوشش ہو تو زیادہ سخت ردعمل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ مغربی میڈیا نے حالیہ دنوں میں توہین آمیز مواد کی اشاعت کو بھی ایک مذہبی حربے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ نبی اکرم کی شان میں گستاخی کے واقعات میں میڈیا سے منسلک افراد کے واضح مذہبی جذبات کی عکاسی ہوتی ہے۔ مذہبی جماعتوں کو اور دنیا بھر میں سرگرم اسلامی تنظیموں کو انتہائی گھٹیا انداز میں پیش کیا جاتا ہے تاکہ لوگوں کے دل مذہب کے داعیوں سے دور ہو سکیں۔ ایک اہم حربہ یہ بھی ہے کہ ٹی وی شوز میں ایسے سکالرز کو پروموٹ کیا جاتا ہے کہ جو مرضی کے مطابق تشریحات کر سکتے ہوں۔ اس سے مختلف مقاصد حاصل ہوتے ہیں کہ ایک طرف تو مخلص دینی قیادت کو عوام کی نظروں سے ہٹا دیا جاتا ہے جبکہ دوسری جانب نام نہاد مذہبی سکالرز کے ذریعے دینی مسائل کی ایسی تشریح پیش کی جاتی ہے کہ جس سے مزید الجھنیں پیدا ہوتی ہیں اور معاشرے کا ایک بڑا طبقہ دین کو بوجھ سمجھ کر مذہبی روایات سے دور ہوتا جا تا ہے۔ پاکستان میں غیر مسلم قرار دئیے جانیوالے قادیانی میڈیا کے میدان میں انتہائی سرگرم دیکھائی دیتے ہیں اور ان کے سیٹلائیٹ چینلز ملک میں پرائیوٹ چینلز کی آمد سے بھی کئی سال پہلے سے ہی سرگرم ہیں۔ قادیانی چینلز الیکٹرانک میڈیا کو بھرپور طریقے سے مذہبی مقاصد کے لیے استعمال استعمال کرتے ہیں۔ بھارتی میڈیا بھی ہندو مذہب کی ترویج کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ڈراموں، فلموں اور مختلف پروگرامز میں مذہبی عنصر لازمی طور پر شامل کیا جاتا ہے۔ ہندو دیوی دیوتاو ¿ں کا تعارف ، پوجا ، مذہبی گیت ، مذہبی
روایات وغیرہ کی بھرپور طریقے سے عکاسی نظر آتی ہے۔ بھجن ، تلک ، گھنگرو ، پائل ، ساڑھیاں اور ایسی ہی بہت سی ہندو مت سے منسلک اشیائ میڈیا کی بدولت ہی آج ہمارے معاشرے کا بھی حصہ بنتی نظر آتی ہیں۔ مغربی اور ہندو میڈیا سے مقابلے کے لیے اسلامی حلقوں کو بھی اس میدان میں آگے آنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات کافی خوش آئند ہے کہ چاہے دیر سے ہی سہی لیکن اب دینی طبقے کو الیکٹرانک اور آن لائن میڈیا کی اہمیت کا اندازہ ہو چکا ہے اور اب اس سلسلے میں تگ و دو جاری ہے۔ کسی کو بھی اس قدرتی اصول سے اختلاف نہیں ہونا چاہیے کہ گنوائے ہوئے وقت کا ازالہ ممکن نہیں اور اب دینی طبقے کو الیکٹرانک میڈیا کے میدان میں اپنا پیغام پیش کرنے کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ محنت کی ضرورت ہو گی۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے کسی بہتے ہوئے دریا کا منہ موڑنا۔۔ بہرحال اگر نیت خالص ہو اور محنت کا جذبہ بھرپور ہو تو آج کے دور میں یہ کام ناممکن ہرگز نہیں ہے۔
دینی طبقہ کے میڈیا فیلڈ میں سرگرمی دیکھاتے ہی ملک میں بلکہ عالمی سطح پر بھی اک نئی بحث نے بھی جنم لیا ہے۔ اسلام اور اس کی تعلیمات سے تعصب رکھنے والے لوگ مختلف الزامات کے تحت دینی اور نظریات افراد کو میڈیا سے دور رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور ایسا تاثر دیا جا رہا ہے کہ اگر دینی علم رکھنے والے افراد کے ہاتھوں میں میڈیا ٹیکنالوجی آ گئی تو اس سے معاشرے میں کوئی بہت بڑا طوفان جنم لے سکتا ہے۔ فرقہ واریت ، گروہ بندی ، اشتعال انگیز مواد وغیرہ جیسے موضوعات کو لیکر دینی ذرائع ابلاغ کے قیام میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج برصغیر میں نیوز اور تفریحی چینل کی اجازت تو بہ آسانی مل جاتی ہے جبکہ دینی چینل کے لیے اجازت نامہ ملنا انتہائی مشکل کام ہے۔ حکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر امریکہ اور دیگر ممالک میں میڈیا کے اتنے بڑے پیمانے پر مذہبی استعمال سے کوئی مشکل پیدا نہیں ہوئی تو انشائ اللہ ہمارے ملک میں بھی ایسا کچھ نہیں ہوگا بلکہ مذہبی حلقوں کے میڈیا میں آنے سے بہت سی غلط فہمیوں کا خاتمہ ہوگا۔ الیکٹرانک میڈیا میں ناظرین کا حلقہ بہت وسیع ہوتا ہے اور ہر مقرر اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ اس کی گفتگو صرف ایک خاص طبقے تک نہیں پہنچ رہی بلکہ ہزاروں لاکھوں لوگ سن یا دیکھ سکتے ہیں۔ اس سے احساس ذمہ داری میں اضافہ ہوتا ہے۔ کوئی بھی عالم دین یا سکالر من گھڑت اور اشتعال انگیز بات کرنے کی ہمت نہیں کرتا کیونکہ فوری طور پر ردعمل آنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ اس لیے نہ صرف دینی جماعتوں کو چاہیے کہ میڈیا کے استعمال میں اضافہ کریں بلکہ حکومت کو بھی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ انشائ اللہ آئندہ مضمون میں ان نقاط پر بحث کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ جو دینی حلقوں کو میڈیا میں کامیابی دلا سکتے ہییں
Friday, June 24, 2011
تاجکستان کی مسلم دشمن حکومت پر نزع طاری
تقریباً75برسوں تک اللہ ،قرآن،مدارس اور مساجد پر نام نہاد روسی جمہوریت نوازوں کے ذریعہ پابندی عائد کئے جانے کے طویل عرصہ بعد ایک بار پھر مسولینی اور ہٹلر کے فرما بردار واطاعت گذار تاجکستان کے موجودہ ایمو مالی رخمون کے چیلے چپاٹوں اور خود صدر کی اسلام دشمن ذہنیت نے اسلام مخالف سابقہ تواریخ کا اطباع کرتے ہوئے تاجکستان میں مساجد کے دروازے وہاں کے نوجوان اور نو عمر مسلمانوں کے لئے بند کردینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اپنی اس غلیظ پالیسی کو جواز بخشنے کےلئے یہ بہانابنایاجارہاہے کہ عبادت گاہوں میں اپنے اپنے طور سے خالق و مسجود کو پکارنا اور یاد کرنا انسانوں کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کردیتے ہیں۔ رخمون کی انتظامیہ شاید یہ بھول گئی ہے کہ تاجکستان ان 15ممالک میں سے ایک ہے جسے ابھی چند برس قبل ہی روسی جبروت اور اشتراکیت سے پاک ہوکر ایک خدائے واحد کی آغوش رحمت آفریں میں زندگی اور نظام کو آگے بڑھانے کا موقع فراہم ہوا تھا۔ مسولینی کے بندوں کو شاید یہ بات یاد نہیںرہی کہ رو س سے آزاد ہونے کے بعد چیچنیا اور دیگر ممالک میں کس طرح مسلمانوں نے اسلام کو پھر اپنی زندگی کا راز اور کامیابی کا زینہ باور کرتے ہوئے کلیجے سے لگا لیا۔ایساتو قطعاً نہیں کہاجاسکتا کے روسی استبداد کے دور میں مسلمانوں نے اسلام کو خیر آباد کہہ دیا تھا بلکہ مسولینی فرعونیت اور حالات سے سمجھوتہ کرتے ہوئے انہوں نے مساجد کے تالوں پر تو صبر کرلیا مگر اسلام کےلئے اپنے دل کے دروازے کبھی بھی بند نہیں کئے ۔ معروف عالم دین و محقق مولانا علی میاں ندوی اپنی کتاب ماذا خسر العا لم بانحطاط المسلمین میں روس کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ وہاں کمیونسٹ حکومت کے قیام کے بعد جب مساجد پر بلڈوزر چلادئے گئے مدارس زمیں بوس کردئے گئے تو وہاں کی سرفروش مسلم ماﺅں نے اپنی جگر گوشوں اور معصوم بچوں کو گھروں میں ہی قرآن پڑھانے اور اسلامی تعلیمات سے جوڑنے کا چلن اپنا لیا ۔ چونکہ مذہب سے محبت عقیدت کی بنیاد پر ہوتی ہے اور عقیدت کا تعلق دل سے ہے۔ لہذا کمیونسٹ کی خوں آشام فوج نے مدارس کے نام ونشان توروسی قلمرومیںہمیشہ کےلئے مٹاڈالے،اسلام اورظاہری اسلامی تشخص کو مسلما نوں کی زندگی سے مٹادینے کی ایڑی چوٹی کازورلگادیااوروقتی طورپروہ اس میںکامیاب بھی رہے، مسجدیں اگرچہ ڈھا دیں مگر جس ایمان اور مذہب کا تعلق دل سے ہوتا ہے، اسے کھرچ کھرچ کر انسانی ذہن و قلوب سے صاف کرنے میں قطعی کامیابی حاصل نہیں کی۔ یہی وجہ رہی کہ تقریباً75برسوں کے بعد جب روس کا زوال شروع ہوا اور اس کے ظلم و جبر کے خاتمے کا قدرت نے فیصلہ کرلیا تو اسے ا ن تمام ممالک کو آزادی دینی پڑی جنہیں وہاں کی سرخ فوج نے بارود اور آگ کی طاقت کا استعمال کرکے سرنگو ںکرلیا تھا ۔دنیا جانتی ہے کہ جس بخاریٰ کو اپنی شیطانی طاقت کے ذریعہ روسی کمیونسٹوں نے اسلام سے نا آشنا کردینے کی ناپاک کوشش تھی کبھی وہ عظیم محدث محمدبن اسمعیل بخاری کا وطن ہوا کرتا تھا۔ معروف فقیہ اور اسلامک اسکالر ابواللیث سمر قندی،نیشا پور کے ابوالحسین امام مسلم ابن الحجاج،ترمذکے محدث کبیر امام ابوعیسی ابن محمد ابن سورہ ابن شدادترمذی کا تعلق بھی اسی دیار سے تھا ، مورخ اسلام علی میاں ندی لکھتے ہیں کہ سمر قند کی شایدکوئی گلی ایسی ہو جس میں کسی محدث یا عظیم المرتبت فقیہ نے جنم نہ لیا ہو ۔ فقہ حنفی کی معروف کتاب ہدایہ کے مصنف امام برہان الدین مرغینانی کا تعلق بھی اسی خطے سے رہا ہے۔ ہم کہنا یہ چاہ رہے ہیں کہ جہاں مذہب اسلام کی اتنی عظیم اور شہرت یافتہ ہستیاں جنم لیتی ہوں کیا ان علاقوں میں رہنے بسنے والے مسلمانوں کے سینوں سے مادی طاقتوں کے ذریعہ اسلام کو بے نام و نشان کردینے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے؟ وقت سب سے بڑا طمانچہ ہوتا ہے اگر تاجکستان کے صدر کو قدرت سے عقل کا تھوڑا بھی حصہ ملا ہوتا تو وہ غور کرسکتے تھے کہ جب روس کی ظالم و جابر سرخ فوج کی درندگی بھی اسلام کو مٹا نے میں کامیابی حاصل نہیں کرسکی تو رخمون کی مٹھی بھر طوطا دل فوج کیا خاک تاجکستان کے مسلمانوں کی زندگی سے اسلام کو فناءکرپائے گی؟ رخمون کو غور کرنا چاہئے کہ کس طرح اس نے کسی دیوانے کے خواب کے مترادف تاجکستان کی مساجدکے دروازے وہاں کے مسلم نوجوانوں اور بچوں کے لئے بند کردینے کا پلان بنالیا ہے۔ مذہب کا تعلق ظاہر سے نہیں بلکہ اندر سے ہوتا ہے۔ دنیا اسے ختم کردینے یا مٹادینے کے لاکھ جتن کرے مگر یہ کسی مادی طاقت کا اثر قبول نہیں کرتا۔بلکہ ا س کے برعکس اسے مٹا دینے کی جتنی کوشش کی جائے اسے اور بھی جلا ملتی ہے۔ حالانکہ رخمون انتظامیہ نے اپنے اس بد بختانہ فیصلے کو جواز بخشنے کےلئے یہ ضرور کہا ہے کہ ایسا صرف مسلمانوں کے خلاف کسی غصے کے اظہار کے لئے نہیں ہے بلکہ ہماری اس پالیسی کا مقصد عیسائی اور مسلم نوجوانوں میں پلنے والے بین مذہبی خلفشار و انتشار اور خانہ جنگی کے عذاب سے ملک کو نجات دلانے کے پاکیزہ مقصدسے کیاجارہاہے۔شاید 1992سے تاجکستان پر اپنی جابرانہ حکومت کے ذریعہ دست مشیت کو رخمون نے اتنا ناراض کردیا ہے کہ اب قدرت خدا وندی نے رخمون کے ہاتھ سے زمامِ حکومت چھین لینے کا فیصلہ کرلیا ہے اور یہ ساری واہیات رخمون کے ذریعہ اسی بد نصیب کی طرح انجام پارہی ہیں جسکی تباہی آتی ہے تو پہلے اس کی عقل سلب کرلی جاتی ہے۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ گیدڑ کی جب موت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ رخمون کے ناپاک دماغ میں پیدا ہونے والی مذکورہ پالیسی ا س کی اسی کم نصیبی کے طفیل ہے جس کے بعد کسی بھی سربراہ کا شرمندگی کے ساتھ اقتدار سے بے دخل کردیا جانا یقینی بن جایاجاکرتا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج مساجد اور عیسائی معابد پر نوجوانوں اور بچوں کے لئے تالے ڈالے جانے کی بھنک لگتے ہی رخمون حکومت کے خلاف وہاں کے عوام میں شدید اضطراب اور بے چینی پیدا ہوگئی ہے اور دنیا اس حقیقت سے واقف ہوگی کہ جب کسی فرما ںروایا سربراہ کے خلاف عوام کے غیظ و غضب کا لاوا پھوٹتا ہے تو پھر اس سربراہ یا فرما ں رواکی الٹی گنتی شروع ہوجاتی ہے جسے اقتدار چھوڑنے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک پاتی۔
कब तक देंगे गरीबी हटाओ का नारा
चुनावों में नारों की हमेशा भूिमका रही है। पर नारों में अगर कुछ नयापन न हो तो लोगों पर इसका असर कम होता है। देश के िहंदी हाटॆलैंड में तो नारों की भूिमका हमेशा रही है। कई बार तो नारों ने देश की राजनीित की तसवीर ही बदल दी। पर नारों में नयापन था इसिलए राजनीित की तसवीर बदली। मसलन एक नारा १९७७ में लगा---जब कट रहे थे कामदेव तुम कहां था रामदेव-----। उस दौरान ही कई नारे और आए। १९८० में एक नारा लगा--यह देखो जनता का खेल १४ रुपए कड़ुआ तेल---। इस नारे ने काफी हद िबहार और यूपी में गैर कांगरेसी सरकारों को उखाड़ फेंका। एक बार िफर कांगरेस सता में आ गई। जब १९८९ मंे एक बार िफर देश में गैर कांगरेसवाद की लहर आयी तो कई नए नारे आए। इन नारों के मुखय केंदर थे पूवॆ पीएम वीपी िसंह। पूरे देश में नारा लगा--- राजा नहीं फकीर है भारत की तकदीर है----। उस समय मैं इलाहाबाद िवशविवदालय में बीए का सटूडेंट था। वीपी िसंह की दौरे की शुरूआत इलाहाबाद से से हुई थी और मैं अनुगरह नारायण िसंह(िफलहाल इलाहाबाद उतरी से कांगरेसी िवधायक)और मोहन िसंह(िफलहाल देविरया से सपा के सांसद) के कािफले में नारे लगाते हुए रेलवे सटेशन तक गया था। छातरों का िवशाल हुजूम वीपी िसंह के सवागत में उमड़ा था। यहीं से िफर देश में गैर कांगरेसवाद का एक और युग शुरू हुआ जो आज तक खतम नहीं हुआ। पर इसमें भी नारों का भारी रोल था। कई नारे सामने आए और कांगरेस के पांव उखड़ते गए। जब देश में मंडलवाद का दौर आया तो लालू यादव ने नारा िदया--भूरा बाल साफ करो-----। इसके बाद उनहोंने इसमें आगे संशोधन करते हुए एक और नारा िदया-- भूिमहार को साफ करो,पंिडत को हाफ करो,लाला तो साला है,राजपूत को माफ करो-----। इस नारे ने भी िबहार में राजनीित की िदशा बदल दी। कांगरेस का जो बुरा हाल हुआ वो सारे देश ने देखा। इस दौरान बातों और नारों के सहारे राजनीित करने वाली पारटी भाजपा ने भी जम कर नारों का इसतेमाल िकया। इनके नारों ने भी लोगों को परभािवत िकया। नारे थे--ए पारटी िवद िडफरेंस---।---आप हमें वोट दीिजए,हम आपको देंगे राम,रोटी और इंसाफ। इसका मतलब भी समझाया गया। राम का मतलब भय से मुिकत। रोटी का मतलब आभावों से मुिकत। इंसाफ का मतलब भेदभाव से मुिकत। इन नारों ने भाजपा की तरफ जनता का झुकाव बढ़ाया।अगले दो महीनें में एक बार िफर कांगरेस गरीबी हटाओ के नारे के साथ चुनाव मैदान में उतरने की तैयारी में है। उनके सटार कैंपेनर होंगे राहुल गांधी। अपरैल-मई में होने वाले चुनावों में कांगरेस इस सटार कैंपेनर और गरीबी हटाओं के नारे के साथ चुनाव मैदान में उतरेगी। पर अहम सवाल यह है िक गरीबी हटाओ का नारा इस देश में कांगरेस िकतनी बार देगी? बीते साठ सालों में पचास साल सता तो कांगरेस के हाथ में ही रही। पचास साल में कांगरेस ने गरीबी नहीं हटाया तो अब कया हटाएगी? यह नारा थोथा है। इससे शायद ही जनता परभािवत हो। अब उदाहरण लीिजए। िजस लोकसभा हलके से राहुल गांधी जीत कर आते है वहां गरीबी हटाओ के नारे को िकतना अमल में लाया गया? उनकी माता सोिनया गांधी के लोकसभा हलके राय बरेली में िकतनी गरीबी हट गई? अमेठी राहुल गांधी से पहले इनके िपता राजीव गांधी का चुनावी हलका था। राजीव गांधी से पहले राहुल के चाचा संजय गांधी यहां से चुनाव लड़ते थे। जबिक राय बरेली से सोिनया गांधी से पहले इंिदरा गांधी चुनाव लड़ती थी। ये दोनो इलाके देश के िपछड़े इलाकों में से एक है। इन दोनों इलाके के लोग माइगरेंट मजदूर के तौर पर िदलली,चंडीगढ़,लुिधयाना,अहमदाबाद,कोलकाता,मुंबई जैसे शहरों में िमल जाएंगे। अब सीधा सवाल उठता है िक आिखर जब कांगरेस पारटी के मुिखया अपने चुनावी हलकों की गरीबी नहीं हटा सके तो पूरे देश की गरीबी कैसे हटाएंगे? हाल ही में अखबारों में एक िदलचसप फोटो छपा। इस फोटो में राहुल गांधी के साथ इंगलैंड के िवदेश सिचव भी थे। दोनों ने दिलत मिहला के घर रात गुजारी और उसकी दयनीय िसथित को देखा,समझा और महसूस िकया। इस तसवीर को छापी गई और अखबारों में कांगरेस के युवराज को जोरदार शाबाशी िमली। इस तसवीर का दूसरा पहलू भी है। राहुल गांधी ने इससे कई मैसेज देने की कोिशश की। एक मैसेज तो यह था िक उनहोंने पहली बार वो काम िकया है जो उनके िपता राजीव गांधी और दादी इंिदरा गांधी ने नहीं िकया। राजीव गांधी और इंिदरा गांधी ने कभी िकसी दिलत के घर रात नहीं गुजारी। उनके दरद को नहीं समझा। कम से कम इस मामले में वो अपने िपता और दादी से अलग है। पर इससे जनता के बीच एक मैसेज और गया जो शायद इस देश की मीिडया जनता को देना नहीं चाहती। कयोंिक इससे युवराज की गिरमा को चोट पहुंच सकती है। िजस गरीब-गुरबा के घर राहुल गांधी ने पूरी रात गुजारी उसकी इस गरीबी के िलए िजममेवार कौन है?इस देश में बीते पचास सालों में शासन िकसने िकया?अब पचास साल बाद इस गरीब दिलत मिहला की याद कांगरेस को कयों आयी? कया यह चुनावी सटंट नहीं है?िजस मुसिलम,दिलत और पंिडत समीकरण पर कांगरेस ने पचास सालों तक राज िकया उसमें से एक दिलत बेचारों का हाल अभी भी कयों बेहाल है?िफर िजस दिलत मिहला के घर राहुल गांधी गए,वो कोई आम दिलत मिहला नहीं थी। वो तो उस लोकसभा हलके से संबंध रखती थी िजसकी बागडोर कांगरेस के तीन युवराज,संजय गांधी,राजीव गांधी और राहुल गांधी ने संभाली। कहीं एेसा तो नहीं िक मायावती नामक दिलत मिहला के सता में आने के बाद अमेठी की इस दिलत मिहला की िकसमत खुल गई?कांगरेस के युवराज उसके घर पधारे।िजस दिलत मिहला िशवकुमारी कोरी के घर राहुल गांधी गए उसका घर अमेठी लोकसभा हलके के िसमरा गांव में है। कोरी के अनुसार तीस से चालीस रुपये िदहाड़ी वो कमाती है और इसी से अपना घर चलाती है। जब युवराज पहुंचे तो शायद उसके घर खाने के िलए कुछ भी नहीं था। उनके साथ इंगलैंड के िवदेश सिचव डेिवड िमिलबैंड ने भी इस दुिखयारी की दीनदशा देखी। पर सवाल उठता है िक इस गरीब दिलत मिहला की इस हालत के िजमेवार कौन है?कम से कम मायावती को तो इसके िलए िजममेवार नहीं ठहरा सकते? अनय दिलत मिहलाओं की गरीबी की िजममेवार मायावती नहीं हो सकती? शायद इस दिलत मिहला की खराब हालत के िलए डेिवड िमिलबैंड भी िजममेवार न हो िजनके पुरखों ने इस देश को दो सौ साल गुलाम रखा? यह सचचाई है िक सिदयों से ये शोषण के िशकार हुए और इसके िलए िजमेवार हम सब है। इनकी खराब हालत के िलए वे युवराज भी िजममेवार है िजनके पिरवार ने ही इस देश पर पचास सालों तक राज िकया। पचास साल तक उनका वोट तो लेते रहे पर उनकी दीन-हीन हालत को सुधारने के िलए कोई कदम नहीं उठाया।राहुल गांधी िनिशचत तौर पर आगामी लोकसभा चुनाव में सटार कैंपेनर होंगे। पर िपछले पांच साल भी तो वे सटार कैंपेनर रहे है। यूपी में िवधानसभा चुनावों से पहले उनहोंने जोरदार रोड शो िकया। पर पिरणाम वही आए। कांगरेस बुरी तरह से हारी। गुजरात िवधानसभा चुनावों से पहले वहां भी रोड शो िकया। वहां भी बुरी तरह से हारे। यािन की कांगरेस के युवराज अभी जनता की पसंद नहीं बने है। बेशक उनहोंने िवदरभ की कलावती का दरद समझा,बुंदेलखंड के िकसानों के साथ दुख-दरद बांटा,िशवकुमारी के घर रात िबताया। समय अब बात करने या नारा देना का नहीं,काम करने का है। िकतने साल तक आप देश की जनता को बेवकूफ बनाएंगे। खोखले नारे देने से कया होगा?लोगों को अब काम चािहए।कांगरेस के बलाक,िजला औऱ परदेश अधयछों के सममेलन में गरीबी हटाओं के नारे से तो देश में गरीबी नहीं हटेगी। नई िदलली में नारा देने से दूर-दराज के गांवों में तो लोगों का भला नहीं होगा। सोिनया गांधी कम से कम अपने परितिनिधयों से यह तो पूछ ही सकती थी िक देश के कई िहससों में नकसली आंदोलन के बढ़ते परभाव का कारण कया है? कम से कम िबहार,झारखंड और छतीसगढ़ के कांगरेस नेताओं को तो इसकी जानकारी है ही। अगर पचास सालों में गरीब हट गई होती तो नकसिलयों का परभाव इतना नहीं बढ़ता। आज १५० से जयादा िजले इनके परभाव में है। आज िसथित यह है िक सोिनया गांधी की ससुराल इलाहाबाद भी नकसली परभाव में आ चुका है। बात साफ है िक अगर गरीबी पहले हट गई होती तो यह िसथित ही नहीं आती। अब एक बार िफर गरीबी हटाओ के नारे के साथ देश को कयों बेवकूफ बना रहे है?
Saturday, June 4, 2011
तरकीब भरी रामदेव लीला
अन्ना के अनशन में जितनी नैतिक आभा दिखती थी, रामदेव के अनशन पर बैठने के पहले ही उतनी ही बेशर्म महत्त्वाकांक्षा दिखने लगी है. अन्ना की पूंजी उनका त्याग और सादी जीवन शैली थी, रामदेव की पूंजी सचमुच ग्यारह सौ करोड़ रुपए से ज्यादा की कूती जाती है. रामदेव ने जिस तरह अन्ना के समांतर और खिलाफ उभरने की तरकीब की है, उसके चलते उनकी तुलना अन्ना के साथ फिलहाल की जाती रहेगी. लोकपाल आंदोलन में एक नैतिक आह्वान था, मगर रामदेव के अनशन में शुरू से तरकीब दिख रही है.
अन्ना बैठे थे जंतर मंतर के लोकतांत्रिक खुलेपन में. रामदेव सुविधा और ऐश्वर्य के इंतजाम में बंद महामंडप में बैठ रहे हैं. इतना बड़ा, भव्य और सुंदर पंडाल शायद किसी आमरण अनशन में कभी नहीं देखा गया हो. पंखे, कूलर, एयरकंडीशन आराम कक्षों, क्लोज सर्किट कैमरे से लैस मंडप. निश्चित ही यह फाइव स्टार अनशन है. यह अनशन, योग शिविर, रामलीला, आज मेरे यार की शादी है, इत्यादि के बीच का कोई मुकाम है. यह धन, प्रबंधन और अनशन का दुर्लभ योग है. इसीलिए यह नैतिकता और आंदोलन का वियोग भी है. वैसे भी रामदेव की दास्तान तेजी से उभरे व्यक्ति की है, जिसके व्यवसाय ने कम समय में बड़ी मुनाफा दर हासिल की हो और जिसकी जबरदस्त राजनीतिक महत्त्वाकांक्षा भी हो.
अन्ना ने जब अनशन शुरू किया तो उनके पास खुद की कोई संगठित भीड़ नहीं थी. साधारण उपस्थिति धीरे-धीरे स्वयंस्फूर्त लामबंदी में बदल गई. मगर रामदेव अपने अकूत पैसे और संगठन के बल का प्रदर्शन कर रहे हैं. लाई गई भीड़ कितनी भी ज्यादा हो, वह कभी भी थोड़ी सी आई गई भीड़ तक का मुकाबला नहीं कर सकती. रामदेव की संस्थाओं, उद्योगों के कर्मचारियों, भारत स्वाभिमान नाम के अर्ध-राजनीतिक दल, योग शिविरों में आने वाले लोगों की तादाद और भाजपा और आरएसएस की लामबंद की हुई जनता का कुल जमा योग इस अनशन में जुड़ सकता है. हालांकि यह भीड़ भी दिखाने के लिए काफी हो जाएगी. मगर इसके स्वयंस्फूर्त रूप से फैलने की ताकत कम हो गई है. रामदेव के शिविरों में पैसा चुकाकर शामिल होने वाले सभी इस आंदोलन में आ जाएंगे, ऐसा नहीं सोचा जा सकता. इसलिए सरकार के मंत्रियों के रामदेव के लिए पलक-पांवड़े बिछा देने के पीछे की घबराहट या दांव को बूझा जाना बाकी है.
लगता यही है कि भ्रष्टाचार के खिलाफ ‘जनतर-मनतर के जनतंतर’ से निकली प्रक्रिया को कमजोर करने की नीयत से शुरू हो रही है दिल्ली के मैदान में रामदेव लीला. लीला के मुख्य पात्र और निर्माता दोनों रामदेव हैं. मगर कहानी, पटकथा और निर्देशन है आरएसएस का. आरएसएस के नायक सदा देश की बृहत्तर पटकथा में खलनायक साबित हुए हैं.
रामदेव के कांग्रेस की झोली में गिरने का कयास लगाया जा रहा है. यह हुआ भी तो पर्दे के पीछे होगा और बाद में पता चलेगा. नाटक की पटकथा भले रामदेव ने आरएसएस को दे दी हो, मगर निर्माता के रूप में उनके आर्थिक हित भी होंगे ही. कोई संयोग नहीं कि रामदेव के अनशन के ऐलान के होते ही सरकार ने सबसे पहले अपने आला आयकर अफसरों को बातचीत के लिए भेजा. इसलिए अनशन शुरू तो होगा. आरएसएस के खुलेआम करीबी रामदेव कांग्रेस से अदावत और मोहब्बत की नफासत को अपनी सियासत से कहां तक जोड़ पाते हैं, यह देखने वाली बात होगी. रामदेव ने यह कहकर कि देश के ऊंचे पदों पर बैठे लोगों के खिलाफ नहीं बोलना चाहिए, कुछ देर के लिए कांग्रेस को तसल्ली दी ही. मगर निर्माता और निर्देशक के बीच मतभेद के ज्यादा देर तक चलने के आसार नहीं हैं. राज्यों में गले तक भ्रष्टाचार में डूबी भाजपा केंद्र में विपक्ष की राजनीति तक नहीं कर पा रही है. उसे रामदेव जैसा सहारा चाहिए, जिसके सहारे वह दिल्ली पर फिर दावा कर सके. रामदेव को ‘अपनी’ सरकार में योग और आध्यात्म के धंधे के और चमकने की आशा रहेगी ही. यह जरूर है कि कांग्रेस ने सौदेबाजी के लिए आतुर रामदेव के मन के लड्डूओं की झांकी सरेआम निकलवा दी.
कांग्रेस के आओ समिति-समिति खेलें के खेल से आहत अन्ना की हालत यह है कि वे रामदेव की चाल की आलोचना शब्दों के बीच की खाली जगह में ही कर पा रहे हैं. उनके एक तरफ कांग्रेस तो दूसरी तरफ रामदेव हैं. अन्ना के पहले रामदेव अगर अनशन पर बैठे होते तो उनके खुद के अनुयायियों और भाजपा की लामबंदी के बावजूद आंदोलन की स्वयंस्फूर्तता पैदा नहीं हो पाती. रामदेव एक और सियासी खेमे के बेहद दमदार भोंपू बनकर रह जाते. मगर डेढ़ माह पहले लोकपाल विधेयक के लिए हुए अनशन से तस्वीर बदल चुकी है.
अन्ना बैठे थे जंतर मंतर के लोकतांत्रिक खुलेपन में. रामदेव सुविधा और ऐश्वर्य के इंतजाम में बंद महामंडप में बैठ रहे हैं. इतना बड़ा, भव्य और सुंदर पंडाल शायद किसी आमरण अनशन में कभी नहीं देखा गया हो. पंखे, कूलर, एयरकंडीशन आराम कक्षों, क्लोज सर्किट कैमरे से लैस मंडप. निश्चित ही यह फाइव स्टार अनशन है. यह अनशन, योग शिविर, रामलीला, आज मेरे यार की शादी है, इत्यादि के बीच का कोई मुकाम है. यह धन, प्रबंधन और अनशन का दुर्लभ योग है. इसीलिए यह नैतिकता और आंदोलन का वियोग भी है. वैसे भी रामदेव की दास्तान तेजी से उभरे व्यक्ति की है, जिसके व्यवसाय ने कम समय में बड़ी मुनाफा दर हासिल की हो और जिसकी जबरदस्त राजनीतिक महत्त्वाकांक्षा भी हो.
अन्ना ने जब अनशन शुरू किया तो उनके पास खुद की कोई संगठित भीड़ नहीं थी. साधारण उपस्थिति धीरे-धीरे स्वयंस्फूर्त लामबंदी में बदल गई. मगर रामदेव अपने अकूत पैसे और संगठन के बल का प्रदर्शन कर रहे हैं. लाई गई भीड़ कितनी भी ज्यादा हो, वह कभी भी थोड़ी सी आई गई भीड़ तक का मुकाबला नहीं कर सकती. रामदेव की संस्थाओं, उद्योगों के कर्मचारियों, भारत स्वाभिमान नाम के अर्ध-राजनीतिक दल, योग शिविरों में आने वाले लोगों की तादाद और भाजपा और आरएसएस की लामबंद की हुई जनता का कुल जमा योग इस अनशन में जुड़ सकता है. हालांकि यह भीड़ भी दिखाने के लिए काफी हो जाएगी. मगर इसके स्वयंस्फूर्त रूप से फैलने की ताकत कम हो गई है. रामदेव के शिविरों में पैसा चुकाकर शामिल होने वाले सभी इस आंदोलन में आ जाएंगे, ऐसा नहीं सोचा जा सकता. इसलिए सरकार के मंत्रियों के रामदेव के लिए पलक-पांवड़े बिछा देने के पीछे की घबराहट या दांव को बूझा जाना बाकी है.
लगता यही है कि भ्रष्टाचार के खिलाफ ‘जनतर-मनतर के जनतंतर’ से निकली प्रक्रिया को कमजोर करने की नीयत से शुरू हो रही है दिल्ली के मैदान में रामदेव लीला. लीला के मुख्य पात्र और निर्माता दोनों रामदेव हैं. मगर कहानी, पटकथा और निर्देशन है आरएसएस का. आरएसएस के नायक सदा देश की बृहत्तर पटकथा में खलनायक साबित हुए हैं.
रामदेव के कांग्रेस की झोली में गिरने का कयास लगाया जा रहा है. यह हुआ भी तो पर्दे के पीछे होगा और बाद में पता चलेगा. नाटक की पटकथा भले रामदेव ने आरएसएस को दे दी हो, मगर निर्माता के रूप में उनके आर्थिक हित भी होंगे ही. कोई संयोग नहीं कि रामदेव के अनशन के ऐलान के होते ही सरकार ने सबसे पहले अपने आला आयकर अफसरों को बातचीत के लिए भेजा. इसलिए अनशन शुरू तो होगा. आरएसएस के खुलेआम करीबी रामदेव कांग्रेस से अदावत और मोहब्बत की नफासत को अपनी सियासत से कहां तक जोड़ पाते हैं, यह देखने वाली बात होगी. रामदेव ने यह कहकर कि देश के ऊंचे पदों पर बैठे लोगों के खिलाफ नहीं बोलना चाहिए, कुछ देर के लिए कांग्रेस को तसल्ली दी ही. मगर निर्माता और निर्देशक के बीच मतभेद के ज्यादा देर तक चलने के आसार नहीं हैं. राज्यों में गले तक भ्रष्टाचार में डूबी भाजपा केंद्र में विपक्ष की राजनीति तक नहीं कर पा रही है. उसे रामदेव जैसा सहारा चाहिए, जिसके सहारे वह दिल्ली पर फिर दावा कर सके. रामदेव को ‘अपनी’ सरकार में योग और आध्यात्म के धंधे के और चमकने की आशा रहेगी ही. यह जरूर है कि कांग्रेस ने सौदेबाजी के लिए आतुर रामदेव के मन के लड्डूओं की झांकी सरेआम निकलवा दी.
कांग्रेस के आओ समिति-समिति खेलें के खेल से आहत अन्ना की हालत यह है कि वे रामदेव की चाल की आलोचना शब्दों के बीच की खाली जगह में ही कर पा रहे हैं. उनके एक तरफ कांग्रेस तो दूसरी तरफ रामदेव हैं. अन्ना के पहले रामदेव अगर अनशन पर बैठे होते तो उनके खुद के अनुयायियों और भाजपा की लामबंदी के बावजूद आंदोलन की स्वयंस्फूर्तता पैदा नहीं हो पाती. रामदेव एक और सियासी खेमे के बेहद दमदार भोंपू बनकर रह जाते. मगर डेढ़ माह पहले लोकपाल विधेयक के लिए हुए अनशन से तस्वीर बदल चुकी है.
तेवर खोती उर्दू मीडिया
mumbai से‘इंकलाब’, दिल्ली से ‘हिन्दुस्तान एक्सप्रैस ’ व ‘मिलाप’, कनाटर्क से ‘दावत’ और पटना से ‘कौमी तन्जीम’ सहित अन्य उर्दू पत्र इस कोशिश में लगे हैं कि उर्दू पत्रकारिता को एक मुकाम दिया जाए। लेकिन बाजार और अन्य समस्याओं के जकड़न से यह निकल नहीं पा रहा है। भारतीय मीडिया में हिन्दी व अंग्रेजी की तरह उर्दू समाचार पत्रों का हस्तक्षेप नहीं दिखता है। वह तेवर नहीं दिखता जो हिन्दी या अंगे्रजी के पत्रों में दिखता है। आधुनिक मीडिया से कंधा मिला कर चलने में अभी भी यह लड़खड़ा रहा है।
देखा जाये तो उर्दू पत्रकारों की स्थिति बद से बदतर है तो महिला पत्रकार नहीं के बराबर हैं। यह इस बात से अंदाजा लगाया जा सकता है कि बिहार से प्रकाशित एक दर्जन से ज्यादा उर्दू अखबरों में एक भी महिला श्रमजीवी पत्रकार नहीं है। पटना से प्रकाशित एक बड़ा उर्दू अखबार अपने पत्रकारों को पांच हजार से बीस हजार रूपये महीना तनख्वाह देता है जबकि मंझोल और छोट उर्दू अखबारों में शोषण जारी है। वहाँ पत्रकारों को तनख्वाह सरकारी दफ्तरों में कार्यरत आदेशपाल से भी कम मिलता है। वहीं अखबारों पर आरोप है कि वे विज्ञापनों के लिए निकल रही हैं। एक आध उर्दू पत्र दिख जाते हैं बाकि की फाइलें बनती है। एक ओर वर्षों से बिहार सहित देष भर में बडे/मंझोले/छोटे उर्दू अखबार उर्दू भाषी जनता के लिए अपनी परंपरागत तरीके से अखबार निकाल रहे हैं तो वहीं दूसरी ओर उर्दू अखबरों के प्रकाशन क्षेत्र में कारपोरेट जगत घुसपैठ कर उनकी नींद उड़ा रही है। सहारा ग्रुप तो पहले ही आ चुका है अब इस क्षेत्र में हिन्दी के बड़े अखबार घराने कूदने की पूरी तैयारी की चुकें हैं। ऐसे में पांरम्परिक उर्दू अखबारों के समक्ष चुनौतियों का दौर शुरू होने जा रहा है।
इसमें कोई शक नहीं कि देश में उर्दू पत्रकारिता का एक महत्वपूर्ण स्थान रहा है। आजादी के आंदोलन से लेकर भारत के नवनिर्माण में उर्दू के पत्रकारों और उर्दू पत्रकारिता ने अपना योगदान देकर एक बड़ा मुकाम बनाया है। लेकिन, हकीकत यह है कि मीडिया के झंझावाद ने लोकतंत्र के चैथे खम्भे को मजबूत बनाने में उर्दू के पत्रकारों और उर्दू पत्रकारिता के योगदान को आज दरकिनार कर दिया गया है। उर्दू पत्र व पत्रकार अपने बजूद के लिए आज हर मुकाम पर संघर्ष कर रहे हैं। इसके लिए किसी ने उर्दू पत्रकारिता की हालत बंदर के हाथ में नारियल जैसी बताया, तो किसी ने उर्दू पत्रकारिता को आज अपने मूल उद्देश्यों से हटकर चलते हुए। उर्दू पत्रकारिता की बदहाल दषा और दिशा पर कई पत्रकारों से बातचीत हुई। कई सवालों को खंगाला गया। उर्दू दैनिक ‘कौमी तन्जीम’ पटना के संपादक एस.एम. अजमल फरीद सच को स्वीरकते हुए कहते है, सच है कि वर्तमान समय में उर्दू अखबारात अंग्रेजी और हिन्दी समाचार पत्रों की तुलना में उतनी गति हासिल नहीं कर पा रहे हैं जितना कि इसका स्वर्णिम इतिहास रहा है। चाहे वो आधुनिक तकनीक अपनाने, विषय वस्तु विषेशज्ञ पत्रकारों की टीम तैयार करने या आज खुद को बिल्कुल नये रूप में ढालने की बात हो। इनका दायरा थोड़ा सीमित है। उर्दू भाषा जिसकी महत्ता और उच्चारण की मधुरता को स्वीकार तो सब कोई करता है लेकिन इसके विकास के लिए सामूहिक प्रयास नहीं किए जा रहे हैं और इसको एक विषेश वर्ग से जोड़कर देखा जाने लगा है। श्री फरीद कहते हैं कि इन सब के बावजूद एक सीमित संसाधन में उर्दू अखबारात पाठक वर्ग तक बेहतर अखबार पहुंचाने का प्रयत्न कर रहे हैं और अच्छी संख्या में उर्दू अखबारात पाबंदी से प्रकाशित हो रहे हैं। उर्दू अखबारात की प्रसार संख्या और पाठकों की संख्या में भी अप्रत्याशित वृद्धि हो रही है। उर्दू अखबारात का महत्व अंग्रेजी या हिन्दी समाचार पत्रों की तुलना में इस मायने में अब भी बरकरार है कि सकारात्मक पत्रकारिता उर्दू अखबारों का मूल उद्देश्य है जहां अंग्रेजी और हिन्दी समाचार पत्रों में पश्चिमी संस्कृति पूरी तरह हावी नजर आती है। खबरों से लेकर तस्वीरों की प्रस्तुति में जिस तरह का खेल अंग्रेजी और हिन्दी अखबारों में खेला जा रहा है। इससे उर्दू अखबारात अब भी बहुत हद तक सुरक्षित हैं। समाचार या लेख की प्रस्तुति में भी इस बात का पूरा ध्यान रखा जाता है कि भारतीय परंपरा और गंगा-यमुनी संस्कृति का ही समावेश हो। पाठक वर्ग का ध्यान रखते हुए भले ही अल्पसंख्यकों के साथ नाइंसाफी या जुल्म की खबरों को थोड़ी प्राथमिकता मिलती है लेकिन इसमें सांप्रदायिक सौहार्द बना रहे यह अब भी उर्दू अखबारों का बड़ा लक्ष्य होता है।
श्री फरीद जोर देकर कहते है कि हाल के वर्षों में कारपोरेट घरानों का आकर्षण भी उर्दू अखबारों की ओर बढ़ा है और अब कारपोरेट घराने भी उर्दू अखबार निकाल रहे हैं, जिससे इस बात की आषंका बढ़ गई है कि भारतीय संस्कृति और परम्पराओं को बरकरार रखते हुए अबतक उर्दू पत्रकारिता जो एक स्वस्थ समाज की कल्पना के साथ आगे बढ़ रही थी वो बाधित हो सकती है, क्योंकि कारपोरेट घरानों के उर्दू अखबार भी पश्चिमी संस्कृति से प्रभावित नजर आते हैं और अपने पाठकवर्ग के विचारों की अनदेखी करते हुए उनपर एक नयी संस्कृति थोपने का प्रयास किया जा रहा है। वहीं उर्दू के वरिष्ठ पत्रकार ख़ुर्शीद हाशमी कहते है कि मुझे उर्दू पत्रकारिता की दशा और दिशा दोनों गड़बड़ नजर आती है। मेरी नजर में उर्दू पत्रकारिता की हालत आज वैसी ही है जैसी बंदर के हाथ में नारियल की होती है। बंदर नारियल के साथ कब तक खेलेगा, कब उसे पानी में उछाल देगा या कब उसे किसी के सिर पर दे मारेगा, कहना मुश्किल है।
यह स्थिति इसलिए है कि उर्दू पत्रकारिता मुख्यतः आज भी निजी हाथों में हैं। उर्दू पत्रकारिता के भाग्य विधाता वह लोग बने बैठे हैं, जो न उर्दू जानते हैं और न पत्रकारिता का ज्ञान रखते हैं। यह लोग उर्दू पत्र-पत्रिकाओं के मालिक होते हैं। मालिक होने के नाते नीति-निर्धारक से लेकर संपादक और व्यवस्थापक तक सब कुछ यही लोग होते हैं। वे जैसा चाहते हैं, करते हैं। उनकी नजर में पत्रकारों की कोई अहमियत नहीं होती है। वह उन्हें क्लर्क या एजेन्ट के तौर पर इस्तेमाल करते हैं, इसलिए अधिक तेज या पढ़े-लिखे लोग उनको रास नहीं आते, वैसे भी अधिक पढ़े-लिखे लोग महंगे होंगे, और यह लोग चीफ एंड वेस्ट में विश्वास रखते हैं। ऐसी स्थिति में अगर कोई तेज पत्रकार आ भी जाता है तो वह उनकी उपेक्षा का शिकार हो जाता है। उसकी हर बात और हर राय की अनदेखी करके उसे उसकी औकात बता दी जाती है। वे कहते हैं कि हम बिजनेस करने के लिए आये हैं, और बिजनेस कैसे करना है, यह हम जानते हैं, लेकिन वास्तव में वह बिजनेस करना भी नहीं जानते, इसलिए वह उर्दू की सेवा या पत्रकारिता तो करते ही नहीं, ढंग से बिजनेस भी नहीं कर पाते हैं। श्री हाशमी कहते हैं, उर्दू पत्रकारिता में अब कारपोरेट सेक्टर ने भी पांव पसारना शुरू कर दिया है। वैसे तो वहां भी कुछ समझौते होते हैं और कई बार अयोग्य लोगों को कमान सौंप दी जाती है, जो अपना वर्चस्व बनाये रखने के लिए अपने से भी अधिक अयोग्य लोगों को लाकर पत्रकारिता की कबर खोदने का प्रयास करते हैं, फिर भी निजी हाथों की तुलना में कारपोरेट सेक्टर में स्थिति अच्छी है। मगर समस्या यह है कि कारपोरेट सेक्टर का नाम सुनते ही उर्दू के पाठक भड़क उठते हैं। उन्हें लगता है कि कारपोरेट जगत के अखबार उनकी आवाज मजबूती के साथ नहीं उठा सकते और उनके हितों की रक्षा नहीं कर सकते हैं।
उर्दू के वरिष्ठ पत्रकार और पटना कामर्स कालेज के पत्रकारिता विभाग के काडिनेटर तारिक फातमी का मानना है कि उर्दू पत्रकारिता आज अपने मूल उद्देश्यों से हटकर एक ऐसे रास्ते पर चल पड़ी है जहाँ दूर-दूर तक बेहतर भविष्य के लिए रौशनी की कोई किरण दिखाई नहीं देती है। उर्दू प्रेस के मालिकान उर्दू पत्रकारिता के भविष्य को लेकर चाहे जितने भी आशांवित हों लेकिन दरअसल एक कडवी सच्चाई यह भी है की उर्दू पत्रकारों का भविष्य उस अँधेरे कुँए की तरह है जहाँ से न रौशनी की उम्मीद की जा सकती और न प्यास बुझाने के लिए पानी की, दूसरे शब्दों में कहें तो उर्दू पत्रकार आज अपने भविष्य को लेकर एक अनिश्चितता के स्थिति से गुजर रहा है और अपने भविष्य की इसी अनिश्चिता के कारण वह परेशान भी है। दुखी भी। जो लोग उर्दू पत्रकारिता के स्वर्णिम इतिहास की बातें करते हैं उन्हें यह नहीं भूलना चाहिए की जिन लोगों ने उर्दू पत्रकारिता की नीवं रखी थी उनका उद्देश्य पैसा कमाना नहीं बल्कि समाज और मानवता की सेवा करना था, लेकिन आज स्थिति उलट गई है। आज उर्दू प्रेस मालिकों का एक मात्र उद्देश्य सरकारी और निजी विज्ञापनों को प्रकाशित करके पैसा कमाना और उर्दू समाचार पत्रों में कार्यरत श्रमजीवी पत्रकारों से बेशर्मी के साथ उनका शोषण करना मात्र है। आप बिहार से प्रकाशित किसी भी उर्दू समाचार पत्रों के कार्यालयों में चाहे वो कौमी तंजीम, फारूकी तंजीम, पिनदार, संगम, प्यारी उर्दू हो या कार्पोरेट जगत द्वारा प्रकाशित रोजनामा उर्दू सहारा, का भ्रमण करे तो आपको वहां कार्यरत पत्रकारों दशा देख कर मेरे दावे की पुष्टि हो जाएगी कौमी तंजीम, के संपादक उर्दू पत्रकारिता के भविष्य को लेकर खुशफहमी के शिकार हैं, सच्चाई यह है की भविष्य उर्दू पत्रकारिता का नहीं उनका जरूर उज्जवल है क्योंकि उर्दू समाचार पत्र के मालिक हैं, वह स्वय पत्रकार नहीं, उन्हें संपादक का पद विरासत में मिला है, उन्होंने कभी चिलचिलाती धूप, कड़कड़ाती सर्दी या भरी बरसात में मीलों पैदल चल कर समाचारों का संकलन नहीं किया। इसलिए उन्हें उस दर्द का एहसास नहीं होगा, जो दो हजार से पांच हजार की पगार पर बारह-बारह घंटों तक दफ्तर में बेगारी करने वाले श्रमजीवी पत्रकारों को होता है। यही हाल बिहार से प्रकाशित होने वाले सभी दैनिक समाचार पत्रों का है, पिन्दार, फारूकी तंजीम,संगम, इन सभों के वर्तमान मालिकों (तथाकथित संपादकों) का पत्रकारिता से कोई लेना-देना कभी नहीं रहा। इन तथाकथित संपादकों में कोई किरानी की नौकरी करता था तो कोई चिकित्सक है, कोई ठेके पर समाचार पत्र निकाल रहा है, तो कोई कमीशन पर विज्ञापन प्रकाशित करने के लिए समाचार पत्र का संपादक बना बैठा है। जाहिर है जब स्थिति इतनी भयावह हो तो उर्दू पत्रकारिता की दशा और दिशा का सहज ही अंदाजा लगाया जा सकता है। सचाई तो ये है की आज पूरे देश विशेष कर बिहार में उर्दू पत्रकारिता उसी तरह दिशाहीन है जिस तरह देश का अल्पसंख्यक नेतृत्व, जिस तरह अल्पसंख्यक समुदाय आज मुस्लिम नेताओं के हाथों छला जा रहा है उसी तरह तथाकथित संपादकों द्वारा उर्दू पाठक और उर्दू समाचर पत्रों में कार्य करने वाले श्रमजीवी पत्रकारों का शोषण और दोहन जारी है। बिहार की उर्दू पत्रकारिता आज सत्ता के इर्द -गिर्द घूम रही है । हर समाचार पत्र सरकारी विज्ञापन पाने के लिए वर्तमान सरकार की हर सही-गलत नीतियों का समर्थन करना अपना धर्म और फर्ज समझता है ,पद और सम्मान पाने के लिए उर्दू समाचार पत्रों के कुछ पत्रकार सत्ता के गलियारों में नेताओं के आगे-पीछे दुम हिलाते और चापलूसी करते देखे जा सकते हैं। जाहिर है जब एक पत्रकार पद, पैसा और समाज में प्रतिष्ठा प्राप्त करने के लिए राजनीतिज्ञों के पास अपना आत्मसम्मान गिरवी रख दे तो उस समाचार पत्र या पत्रकार से समाज कल्याण, मानव सेवा, भाषा, देश, राज्य और समाज के विकास में भागीदारी निभाने की आशा करना बेमानी है। देश और विशेष कर बिहार की उर्दू पत्रकारिता में आज जोश ,जज्बा और क्षमता नहीं है कि वह किसी बड़े आन्दोलन की अगवाई कर सके ?
दूसरी ओर ‘बिहार की खबरें’ के संपादक अंजुम आलम कहते हैं कि बिहार से सर्वप्रथम प्रकाषित होने वाला पत्र भी उर्दू था। इसके बावजूद इसकी वर्तमान दषा उत्साहवर्द्धक नहीं है। हालांकि अभी भी पटना सहित राज्य से दर्जनों उर्दू दैनिक एवं पचासों पत्रिकायें प्रकाशित हो रही हैं परंतु इनका स्तर उस बुलंदी पर नहीं है, जिसकी उम्मीद की जाती है। बिहार में उर्दू को द्वितीय राजभाषा का भी दर्जा प्राप्त है। उर्दू समाचार पत्रों को राज्य सरकार से विज्ञापन भी मिलता है। सरकारी विज्ञापनों के कारण उर्दू समाचार पत्रों की आर्थिक स्थिति सम्पन्न नहीं तो संतोषजनक अवश्य है। इसके बावजूद उर्दू पत्रकारों की आर्थिक स्थिति अच्छी नहीं है। परिणाम स्वरूप युवा पीढ़ी उर्दू पत्रकारिता की ओर आकर्षित नहीं हो रही है। इस कारण आने वाले दिनों में उर्दू समाचार पत्रों को संकटमय स्थिति का सामना करना पड़ सकता है। अखबार मालिकों को इस ओर विशेष ध्यान देने की आवश्यकता है। श्री अंजुम आलम कहते है कि स्वतंत्रता के बाद से गुलाम सरवर, शीन मुजफ्फरी, शाहिद राम नगरी इत्यादि उर्दू पत्रकारों, जो मील का पत्थर छोड़ा था वहां तक आज कोई नहीं पहुंच पाया है। मौजूदा उर्दू पत्रकारिता जगत में आज भी कई अच्छे पत्रकार सक्रिय हैं। परंतु, उनकी दशा से नई नस्ल प्रभावित नहीं हो पा रही है। आज का युवा वर्ग इसे करियर के रूप में अपनाने का इच्छुक नजर नहीं आ रहा है। उर्दू में अभी बिहार से कई रंगीन एवं आकर्षक उर्दू समाचार पत्र प्रकाशित हो रहे हैं लेकिन सीमित समाचार नेटवर्क का अभाव पाठकों को खटकता है। उर्दू समाचार पत्र सामान्यतः आम लोगों द्वारा प्रकाशित होते थे। परंतु हाल के वर्षों में सहारा इंडिया ने इस क्षेत्र में भी कदम रखा है।
उर्दू के वरिष्ठ पत्रकार राशिद अहमद का मानना है कि भारत की राजनीति विशेष रूप से स्वतंत्रता संग्राम में अदम्य भूमिका निभाने वाली उर्दू पत्रकारिता आज हिन्दी और अंग्रेजी की तुलना में पिछड़ गई है। यह एक कटु सत्य है मगर यह भी सच है कि जहां एक ओर इसके पिछड़ेपन की बात में कहानी और कल्पना अधिक है वहीं इसके पिछड़ेपन के आयाम भी विचारनीय हैं। उर्दू पत्रकारिता का पिछड़ापन पत्रकारिता के मूल तत्व से जुड़ा हुआ नहीं है क्योंकि अगर मुद्दों और सामाजिक सरोकारों की बात करें, तो समय की मांग और समस्या के मूल्यांकन में यह पीछे नहीं रही, तुलनात्मक अध्ययन करते समय कुछ बातों की अनदेखी की जाती है, जिसके कारण नतीजा गलत निकलता है। समाचार पत्र के सरोकारों का सीधा नाता उसके पाठकवर्ग से होता है। समाज की विस्तृत तस्वीर पेश करने के साथ-साथ समाचार पत्र और उससे जुड़े पत्रकार उस पूरे फ्रेम में अपने पाठक के स्थान तलाश करते हैं और उचित स्थान न मिल पाने के कारण और उससे जुड़ी समस्याआंे का मूल्यांकन करते हैं। अंग्रेजी हिन्दी पत्रकारिता का विश्लेषण करते समय तो पाठक तत्व का विशेष ध्यान रखा जाता है मगर उर्दू पत्रकारिता के विश्लेषण के समय उसके पाठक तत्व को अनदेखा करके उसे उर्दू और हिन्दी के पाठक तत्व की कसौटी पर परखा जाता है। कहने का मतलब केवल इतना है कि उर्दू पत्रकारिता की बदहाली मुद्दों और सरोकारों से दूर रहने की नहीं है बल्कि आर्थिक पिछड़ेपन की कहानी है।
समाचार पत्र का अर्थ विज्ञापन से जुड़ा हुआ है। मगर उर्दू समाचार पत्रों को हमेशा विज्ञापन के लिए जद्दोजहद करनी पड़ती है। संघर्षरत रहना पड़ता है। विज्ञापन सरकारी हो या गैर सरकारी। व्यापारी भी उर्दू पाठक को अपना उपभोक्ता तो जरूरत समझते हैं। उसके हाथ अपना सामान अधिक से अधिक बेचने का प्रयास तो जरूर करते हैं। मगर उन तक पहुंचने का रास्ता वह उर्दू समाचार पत्र के स्थान पर दूसरी भाषाओं के समाचार पत्रों में तलाश करते हैं। यह मानना होगा कि आर्थिक तंगी के कारण नई तकनीक अपनाने में उर्दू पत्रकारिता पिछड़ जाती है। वह नए प्रयास नहीं कर पाती, यह भी सही है कि आर्थिक तंगी के कारण उर्दू समाचार पत्र अपने पत्रकारों को उतनी और सुविधायें नहीं दे पाते जितना हिन्दी और अंग्रेजी पत्रकारों को मिलती है। इस ओर भी ध्यान देने की आवश्यकता है।
वरिष्ठ उर्दू पत्रकार इमरान सगीर कहते है शुरूआती दौर में उर्दू अखबारों को यह गौरव हासिल था कि उर्दू अखबार के संपादक या पाठक किसी विशेष वर्ग के नहीं हुआ करते थे, बल्कि यह पूरे तौर से सामान्य वर्ग के लिए था। लेकिन समय के साथ-साथ परिवर्तन यह हुआ कि उर्दू अखबार एक विशेष वर्ग तक सीमित होने लगा। ये उर्दू पत्रकारिता के लिए सबसे दुर्भाग्यपूर्ण है। आज हिन्दी और अंग्रेजी पत्रकारिता में बड़ी क्रांति आयी है, लेकिन इसकी अपेक्षा उर्दू पत्रकारिता को उतनी गति नहीं मिल पा रही है। हिन्दी और अंग्रेजी समाचार-पत्रों की तुलना में आधुनिक तकनीक को अपनाने में अब भी उर्दू अखबरात संघर्षरत हैं, इसका कारण स्पष्ट है कि सरकारी स्तर पर इसे अपेक्षाकृत सहयोग नहीं मिल पाता वहीं निजी या व्यवसायिक विज्ञापनों से भी उर्दू समाचार-पत्रों को उतनी आमदनी नहीं हो पाती जिससे की आर्थिक रूप से संपन्न हो सकें। इन सबके बावजूद सीमित संसाधनों में उर्दू अखबरात सकारात्मक सोच के साथ उर्दू पत्रकारिता के सफर को आगे बढ़ा रहे हैं। उर्दू अखबरात की सबसे बड़ी खूबी ये है कि ये आम आदमी का अखबार होने का धर्म निभाते हैं। हिन्दी या अंग्रेजी समाचार-पत्रों तक आम लोगों की पहुंच आसान नहीं हो पाती, वहीं उर्दू अखबार तक समाज में हाशिये पर खड़ा व्यक्ति की भी आसानी से पहुंच सकता है। अर्थात् समाज का कोई व्यक्ति उर्दू अखबारों से बिल्कुल जुड़ा हुआ महसूस करता है। ये उर्दू अखबारों की लोकप्रियता का बड़ा कारण है। उर्दू अखबारों की विश्वसनीयता और महत्ता इसके पाठक वर्ग में इसे लेकर भी है, कि ये उनके साथ होने वाली किसी भी स्तर पर नाइंसाफी की आवाज प्रमुखता से उठाते हैं, ऐसी खबरों को प्रमुखता से सामने लाते हैं, जिन्हें भेदभाव के नतीजे में अंग्रेजी या हिन्दी समाचार-पत्रों में या तो जगह नहीं दी जाती या फिर उन्हें तोड़-मरोड़कर संक्षेप में किसी कोने में जगह दी जाती है। ऐसे में उर्दू समाचार पत्र ही उनकी उत्सुकता दूर कर पाते हैं। आज के आधुनिक युग में दूर-दराज के ग्रामीण क्षेत्रों में जहां लोगों को उर्दू अखबार नहीं मिल पाता, वैसे गांव के लोग अब भी उर्दू अखबार के दफ्तर से डाक के माध्यम से अखबार मंगाते हैं, और दो-तीन दिन पुरानी ही सही लेकिन इसे पढ़ना जरूर पसंद करते हैं। डाक से अखबार मंगा का कर पढ़ने का शौक उर्दू अखबारों की अहमियत का एक बड़ा उदाहरण है। ऐसे में उर्दू पत्रकारिता का भविष्य उज्ज्वल ही कहा जायेगा।
उर्दू पत्रकारिता में महिलाएं नहीं के बराबर है। बल्कि उर्दू पत्रकारिता से कोसो दूर है। स्वतंत्र उर्दू पत्रकार डा0 सुरैया जबीं कहती है कि पत्रकारिता के क्षेत्र में नई क्रांति तो आयी अंग्रेजी और हिन्दी समाचार-पत्रों की तुलना में न सही लेकिन उर्दू पत्रकारिता में भी क्रांति आयी है। बड़ी संख्या में उर्दू समाचार-पत्र नये रंग-रूप में प्रकाशित किये जा रहे हैं। जहां आधुनिक तकनीक का प्रयोग भी हो रहा है। समाचारों की प्रस्तुति में सीमित दायरे से बाहर निकलकर अब उर्दू अखबारों में भी सामान्य खबरें पढ़ने को मिलती हैं। अलग-अलग विषयों पर साप्ताहिक विशेषांक भी प्रकाशित होते हैं, और अंग्रेजी और हिन्दी समाचार-पत्रों की तरह खुद को स्थापित कर रहे हैं। यह उर्दू पत्रकारिता के लिए एक शुभ संकेत हैं। पहले उर्दू अखबारों में खबरों का दायरा बिल्कुल सीमित था। वर्तमान में उर्दू पत्रकारिता के लिए एक दुर्भाग्यपूर्ण बात ये भी है कि बिहार की उर्दू प्रिंट मीडिया में महिलाओं की भागीदारी न के बराबर है, क्योंकि उर्दू अखबारों में महिला मीडियाकर्मियों को इन्ट्री नहीं मिल पाती, आज कालेजों में उर्दू पत्रकारिता में डिप्लोमा कोर्स भी चलाये जा रहे हैं। उर्दू पत्रकारिता में डिप्लोमा प्राप्त करने वालों में बड़ी संख्या छात्राओं की भी है, लेकिन इन्हें भी उर्दू अखबारों के दफ्तरों में इन्ट्री नहीं मिल पा रही है। उर्दू पत्रकारिता की सेवा से महिलाओं की दूरी अब भी कायम है, ये दुर्भाग्यपूर्ण है और ये दूरी मिटनी चाहिए।
बिहार हो या देश का कोई हिस्सा उर्दू पत्रकारिता की दशा-दिशा को प्रभावित करने वाले कारणों पर उर्दू पत्रकारों ने जो विचार दिये वह सवाल छोड़ जाते हैं। उर्दू पत्रकारिता की बदहाली के पीछे आर्थिक तंगी, भाषा, कारपोरेट घराना और पश्चिमी संस्कृति के प्रभाव जहां महत्वपूर्ण हैं वहीं पर राजनीतिक-सामाजिक कारण भी अहम है। बिहार में उर्दू दूसरी राजभाषा होने के बावजूद शुरूआती दौर की तरह आज यह अपने शिखर पर नहीं है। इसके सिमट जाने से उर्दू एक वर्ग/समुदाय तक ही रह गयी है। शुरूआती दौर में यह किसी एक वर्ग/समुदाय तक ही समीति नहीं थी बल्कि गैरमुस्लिम विद्वान उर्दू समाचार पत्रों के संपादन किया करते थे। आज ढूंढ़ने पर भी गैरमुस्लिम विद्वान नहीं मिलेगें जो उर्दू के अखबारों का संपादन करते हो ? इसके पीछे वजह जो भी रही हो एक वजह साफ है कि उर्दू को मुसलमनों की भाषा से जोड़ कर देखा गया। बिहार में उर्दू दूसरी राजभाषा होने के बावजूद भी उर्दू अखबार गैरमुस्लिम घरों में नहीं जाता है।
संजय कुमार ,ऑल इंडिया रेडियो , पटना में कार्यरत हैं .आपने एएमयू से पत्रकारिता की पढाई करने के बाद विभिन्न मीडिया हाउस में काम किया है . मीडिया की बारीकियों का सूक्ष्मता से अध्ययन करते हुए इन्होने मीडिया से जुड़े विभिन्न विषयों पर कई किताबें लिखी हैं जिनमें से छः अब तक प्रकाशित हो चुकी है . मीडिया विश्लेषक के तौर पर इनकी जान-पहचान पूरे देश भर में है
देखा जाये तो उर्दू पत्रकारों की स्थिति बद से बदतर है तो महिला पत्रकार नहीं के बराबर हैं। यह इस बात से अंदाजा लगाया जा सकता है कि बिहार से प्रकाशित एक दर्जन से ज्यादा उर्दू अखबरों में एक भी महिला श्रमजीवी पत्रकार नहीं है। पटना से प्रकाशित एक बड़ा उर्दू अखबार अपने पत्रकारों को पांच हजार से बीस हजार रूपये महीना तनख्वाह देता है जबकि मंझोल और छोट उर्दू अखबारों में शोषण जारी है। वहाँ पत्रकारों को तनख्वाह सरकारी दफ्तरों में कार्यरत आदेशपाल से भी कम मिलता है। वहीं अखबारों पर आरोप है कि वे विज्ञापनों के लिए निकल रही हैं। एक आध उर्दू पत्र दिख जाते हैं बाकि की फाइलें बनती है। एक ओर वर्षों से बिहार सहित देष भर में बडे/मंझोले/छोटे उर्दू अखबार उर्दू भाषी जनता के लिए अपनी परंपरागत तरीके से अखबार निकाल रहे हैं तो वहीं दूसरी ओर उर्दू अखबरों के प्रकाशन क्षेत्र में कारपोरेट जगत घुसपैठ कर उनकी नींद उड़ा रही है। सहारा ग्रुप तो पहले ही आ चुका है अब इस क्षेत्र में हिन्दी के बड़े अखबार घराने कूदने की पूरी तैयारी की चुकें हैं। ऐसे में पांरम्परिक उर्दू अखबारों के समक्ष चुनौतियों का दौर शुरू होने जा रहा है।
इसमें कोई शक नहीं कि देश में उर्दू पत्रकारिता का एक महत्वपूर्ण स्थान रहा है। आजादी के आंदोलन से लेकर भारत के नवनिर्माण में उर्दू के पत्रकारों और उर्दू पत्रकारिता ने अपना योगदान देकर एक बड़ा मुकाम बनाया है। लेकिन, हकीकत यह है कि मीडिया के झंझावाद ने लोकतंत्र के चैथे खम्भे को मजबूत बनाने में उर्दू के पत्रकारों और उर्दू पत्रकारिता के योगदान को आज दरकिनार कर दिया गया है। उर्दू पत्र व पत्रकार अपने बजूद के लिए आज हर मुकाम पर संघर्ष कर रहे हैं। इसके लिए किसी ने उर्दू पत्रकारिता की हालत बंदर के हाथ में नारियल जैसी बताया, तो किसी ने उर्दू पत्रकारिता को आज अपने मूल उद्देश्यों से हटकर चलते हुए। उर्दू पत्रकारिता की बदहाल दषा और दिशा पर कई पत्रकारों से बातचीत हुई। कई सवालों को खंगाला गया। उर्दू दैनिक ‘कौमी तन्जीम’ पटना के संपादक एस.एम. अजमल फरीद सच को स्वीरकते हुए कहते है, सच है कि वर्तमान समय में उर्दू अखबारात अंग्रेजी और हिन्दी समाचार पत्रों की तुलना में उतनी गति हासिल नहीं कर पा रहे हैं जितना कि इसका स्वर्णिम इतिहास रहा है। चाहे वो आधुनिक तकनीक अपनाने, विषय वस्तु विषेशज्ञ पत्रकारों की टीम तैयार करने या आज खुद को बिल्कुल नये रूप में ढालने की बात हो। इनका दायरा थोड़ा सीमित है। उर्दू भाषा जिसकी महत्ता और उच्चारण की मधुरता को स्वीकार तो सब कोई करता है लेकिन इसके विकास के लिए सामूहिक प्रयास नहीं किए जा रहे हैं और इसको एक विषेश वर्ग से जोड़कर देखा जाने लगा है। श्री फरीद कहते हैं कि इन सब के बावजूद एक सीमित संसाधन में उर्दू अखबारात पाठक वर्ग तक बेहतर अखबार पहुंचाने का प्रयत्न कर रहे हैं और अच्छी संख्या में उर्दू अखबारात पाबंदी से प्रकाशित हो रहे हैं। उर्दू अखबारात की प्रसार संख्या और पाठकों की संख्या में भी अप्रत्याशित वृद्धि हो रही है। उर्दू अखबारात का महत्व अंग्रेजी या हिन्दी समाचार पत्रों की तुलना में इस मायने में अब भी बरकरार है कि सकारात्मक पत्रकारिता उर्दू अखबारों का मूल उद्देश्य है जहां अंग्रेजी और हिन्दी समाचार पत्रों में पश्चिमी संस्कृति पूरी तरह हावी नजर आती है। खबरों से लेकर तस्वीरों की प्रस्तुति में जिस तरह का खेल अंग्रेजी और हिन्दी अखबारों में खेला जा रहा है। इससे उर्दू अखबारात अब भी बहुत हद तक सुरक्षित हैं। समाचार या लेख की प्रस्तुति में भी इस बात का पूरा ध्यान रखा जाता है कि भारतीय परंपरा और गंगा-यमुनी संस्कृति का ही समावेश हो। पाठक वर्ग का ध्यान रखते हुए भले ही अल्पसंख्यकों के साथ नाइंसाफी या जुल्म की खबरों को थोड़ी प्राथमिकता मिलती है लेकिन इसमें सांप्रदायिक सौहार्द बना रहे यह अब भी उर्दू अखबारों का बड़ा लक्ष्य होता है।
श्री फरीद जोर देकर कहते है कि हाल के वर्षों में कारपोरेट घरानों का आकर्षण भी उर्दू अखबारों की ओर बढ़ा है और अब कारपोरेट घराने भी उर्दू अखबार निकाल रहे हैं, जिससे इस बात की आषंका बढ़ गई है कि भारतीय संस्कृति और परम्पराओं को बरकरार रखते हुए अबतक उर्दू पत्रकारिता जो एक स्वस्थ समाज की कल्पना के साथ आगे बढ़ रही थी वो बाधित हो सकती है, क्योंकि कारपोरेट घरानों के उर्दू अखबार भी पश्चिमी संस्कृति से प्रभावित नजर आते हैं और अपने पाठकवर्ग के विचारों की अनदेखी करते हुए उनपर एक नयी संस्कृति थोपने का प्रयास किया जा रहा है। वहीं उर्दू के वरिष्ठ पत्रकार ख़ुर्शीद हाशमी कहते है कि मुझे उर्दू पत्रकारिता की दशा और दिशा दोनों गड़बड़ नजर आती है। मेरी नजर में उर्दू पत्रकारिता की हालत आज वैसी ही है जैसी बंदर के हाथ में नारियल की होती है। बंदर नारियल के साथ कब तक खेलेगा, कब उसे पानी में उछाल देगा या कब उसे किसी के सिर पर दे मारेगा, कहना मुश्किल है।
यह स्थिति इसलिए है कि उर्दू पत्रकारिता मुख्यतः आज भी निजी हाथों में हैं। उर्दू पत्रकारिता के भाग्य विधाता वह लोग बने बैठे हैं, जो न उर्दू जानते हैं और न पत्रकारिता का ज्ञान रखते हैं। यह लोग उर्दू पत्र-पत्रिकाओं के मालिक होते हैं। मालिक होने के नाते नीति-निर्धारक से लेकर संपादक और व्यवस्थापक तक सब कुछ यही लोग होते हैं। वे जैसा चाहते हैं, करते हैं। उनकी नजर में पत्रकारों की कोई अहमियत नहीं होती है। वह उन्हें क्लर्क या एजेन्ट के तौर पर इस्तेमाल करते हैं, इसलिए अधिक तेज या पढ़े-लिखे लोग उनको रास नहीं आते, वैसे भी अधिक पढ़े-लिखे लोग महंगे होंगे, और यह लोग चीफ एंड वेस्ट में विश्वास रखते हैं। ऐसी स्थिति में अगर कोई तेज पत्रकार आ भी जाता है तो वह उनकी उपेक्षा का शिकार हो जाता है। उसकी हर बात और हर राय की अनदेखी करके उसे उसकी औकात बता दी जाती है। वे कहते हैं कि हम बिजनेस करने के लिए आये हैं, और बिजनेस कैसे करना है, यह हम जानते हैं, लेकिन वास्तव में वह बिजनेस करना भी नहीं जानते, इसलिए वह उर्दू की सेवा या पत्रकारिता तो करते ही नहीं, ढंग से बिजनेस भी नहीं कर पाते हैं। श्री हाशमी कहते हैं, उर्दू पत्रकारिता में अब कारपोरेट सेक्टर ने भी पांव पसारना शुरू कर दिया है। वैसे तो वहां भी कुछ समझौते होते हैं और कई बार अयोग्य लोगों को कमान सौंप दी जाती है, जो अपना वर्चस्व बनाये रखने के लिए अपने से भी अधिक अयोग्य लोगों को लाकर पत्रकारिता की कबर खोदने का प्रयास करते हैं, फिर भी निजी हाथों की तुलना में कारपोरेट सेक्टर में स्थिति अच्छी है। मगर समस्या यह है कि कारपोरेट सेक्टर का नाम सुनते ही उर्दू के पाठक भड़क उठते हैं। उन्हें लगता है कि कारपोरेट जगत के अखबार उनकी आवाज मजबूती के साथ नहीं उठा सकते और उनके हितों की रक्षा नहीं कर सकते हैं।
उर्दू के वरिष्ठ पत्रकार और पटना कामर्स कालेज के पत्रकारिता विभाग के काडिनेटर तारिक फातमी का मानना है कि उर्दू पत्रकारिता आज अपने मूल उद्देश्यों से हटकर एक ऐसे रास्ते पर चल पड़ी है जहाँ दूर-दूर तक बेहतर भविष्य के लिए रौशनी की कोई किरण दिखाई नहीं देती है। उर्दू प्रेस के मालिकान उर्दू पत्रकारिता के भविष्य को लेकर चाहे जितने भी आशांवित हों लेकिन दरअसल एक कडवी सच्चाई यह भी है की उर्दू पत्रकारों का भविष्य उस अँधेरे कुँए की तरह है जहाँ से न रौशनी की उम्मीद की जा सकती और न प्यास बुझाने के लिए पानी की, दूसरे शब्दों में कहें तो उर्दू पत्रकार आज अपने भविष्य को लेकर एक अनिश्चितता के स्थिति से गुजर रहा है और अपने भविष्य की इसी अनिश्चिता के कारण वह परेशान भी है। दुखी भी। जो लोग उर्दू पत्रकारिता के स्वर्णिम इतिहास की बातें करते हैं उन्हें यह नहीं भूलना चाहिए की जिन लोगों ने उर्दू पत्रकारिता की नीवं रखी थी उनका उद्देश्य पैसा कमाना नहीं बल्कि समाज और मानवता की सेवा करना था, लेकिन आज स्थिति उलट गई है। आज उर्दू प्रेस मालिकों का एक मात्र उद्देश्य सरकारी और निजी विज्ञापनों को प्रकाशित करके पैसा कमाना और उर्दू समाचार पत्रों में कार्यरत श्रमजीवी पत्रकारों से बेशर्मी के साथ उनका शोषण करना मात्र है। आप बिहार से प्रकाशित किसी भी उर्दू समाचार पत्रों के कार्यालयों में चाहे वो कौमी तंजीम, फारूकी तंजीम, पिनदार, संगम, प्यारी उर्दू हो या कार्पोरेट जगत द्वारा प्रकाशित रोजनामा उर्दू सहारा, का भ्रमण करे तो आपको वहां कार्यरत पत्रकारों दशा देख कर मेरे दावे की पुष्टि हो जाएगी कौमी तंजीम, के संपादक उर्दू पत्रकारिता के भविष्य को लेकर खुशफहमी के शिकार हैं, सच्चाई यह है की भविष्य उर्दू पत्रकारिता का नहीं उनका जरूर उज्जवल है क्योंकि उर्दू समाचार पत्र के मालिक हैं, वह स्वय पत्रकार नहीं, उन्हें संपादक का पद विरासत में मिला है, उन्होंने कभी चिलचिलाती धूप, कड़कड़ाती सर्दी या भरी बरसात में मीलों पैदल चल कर समाचारों का संकलन नहीं किया। इसलिए उन्हें उस दर्द का एहसास नहीं होगा, जो दो हजार से पांच हजार की पगार पर बारह-बारह घंटों तक दफ्तर में बेगारी करने वाले श्रमजीवी पत्रकारों को होता है। यही हाल बिहार से प्रकाशित होने वाले सभी दैनिक समाचार पत्रों का है, पिन्दार, फारूकी तंजीम,संगम, इन सभों के वर्तमान मालिकों (तथाकथित संपादकों) का पत्रकारिता से कोई लेना-देना कभी नहीं रहा। इन तथाकथित संपादकों में कोई किरानी की नौकरी करता था तो कोई चिकित्सक है, कोई ठेके पर समाचार पत्र निकाल रहा है, तो कोई कमीशन पर विज्ञापन प्रकाशित करने के लिए समाचार पत्र का संपादक बना बैठा है। जाहिर है जब स्थिति इतनी भयावह हो तो उर्दू पत्रकारिता की दशा और दिशा का सहज ही अंदाजा लगाया जा सकता है। सचाई तो ये है की आज पूरे देश विशेष कर बिहार में उर्दू पत्रकारिता उसी तरह दिशाहीन है जिस तरह देश का अल्पसंख्यक नेतृत्व, जिस तरह अल्पसंख्यक समुदाय आज मुस्लिम नेताओं के हाथों छला जा रहा है उसी तरह तथाकथित संपादकों द्वारा उर्दू पाठक और उर्दू समाचर पत्रों में कार्य करने वाले श्रमजीवी पत्रकारों का शोषण और दोहन जारी है। बिहार की उर्दू पत्रकारिता आज सत्ता के इर्द -गिर्द घूम रही है । हर समाचार पत्र सरकारी विज्ञापन पाने के लिए वर्तमान सरकार की हर सही-गलत नीतियों का समर्थन करना अपना धर्म और फर्ज समझता है ,पद और सम्मान पाने के लिए उर्दू समाचार पत्रों के कुछ पत्रकार सत्ता के गलियारों में नेताओं के आगे-पीछे दुम हिलाते और चापलूसी करते देखे जा सकते हैं। जाहिर है जब एक पत्रकार पद, पैसा और समाज में प्रतिष्ठा प्राप्त करने के लिए राजनीतिज्ञों के पास अपना आत्मसम्मान गिरवी रख दे तो उस समाचार पत्र या पत्रकार से समाज कल्याण, मानव सेवा, भाषा, देश, राज्य और समाज के विकास में भागीदारी निभाने की आशा करना बेमानी है। देश और विशेष कर बिहार की उर्दू पत्रकारिता में आज जोश ,जज्बा और क्षमता नहीं है कि वह किसी बड़े आन्दोलन की अगवाई कर सके ?
दूसरी ओर ‘बिहार की खबरें’ के संपादक अंजुम आलम कहते हैं कि बिहार से सर्वप्रथम प्रकाषित होने वाला पत्र भी उर्दू था। इसके बावजूद इसकी वर्तमान दषा उत्साहवर्द्धक नहीं है। हालांकि अभी भी पटना सहित राज्य से दर्जनों उर्दू दैनिक एवं पचासों पत्रिकायें प्रकाशित हो रही हैं परंतु इनका स्तर उस बुलंदी पर नहीं है, जिसकी उम्मीद की जाती है। बिहार में उर्दू को द्वितीय राजभाषा का भी दर्जा प्राप्त है। उर्दू समाचार पत्रों को राज्य सरकार से विज्ञापन भी मिलता है। सरकारी विज्ञापनों के कारण उर्दू समाचार पत्रों की आर्थिक स्थिति सम्पन्न नहीं तो संतोषजनक अवश्य है। इसके बावजूद उर्दू पत्रकारों की आर्थिक स्थिति अच्छी नहीं है। परिणाम स्वरूप युवा पीढ़ी उर्दू पत्रकारिता की ओर आकर्षित नहीं हो रही है। इस कारण आने वाले दिनों में उर्दू समाचार पत्रों को संकटमय स्थिति का सामना करना पड़ सकता है। अखबार मालिकों को इस ओर विशेष ध्यान देने की आवश्यकता है। श्री अंजुम आलम कहते है कि स्वतंत्रता के बाद से गुलाम सरवर, शीन मुजफ्फरी, शाहिद राम नगरी इत्यादि उर्दू पत्रकारों, जो मील का पत्थर छोड़ा था वहां तक आज कोई नहीं पहुंच पाया है। मौजूदा उर्दू पत्रकारिता जगत में आज भी कई अच्छे पत्रकार सक्रिय हैं। परंतु, उनकी दशा से नई नस्ल प्रभावित नहीं हो पा रही है। आज का युवा वर्ग इसे करियर के रूप में अपनाने का इच्छुक नजर नहीं आ रहा है। उर्दू में अभी बिहार से कई रंगीन एवं आकर्षक उर्दू समाचार पत्र प्रकाशित हो रहे हैं लेकिन सीमित समाचार नेटवर्क का अभाव पाठकों को खटकता है। उर्दू समाचार पत्र सामान्यतः आम लोगों द्वारा प्रकाशित होते थे। परंतु हाल के वर्षों में सहारा इंडिया ने इस क्षेत्र में भी कदम रखा है।
उर्दू के वरिष्ठ पत्रकार राशिद अहमद का मानना है कि भारत की राजनीति विशेष रूप से स्वतंत्रता संग्राम में अदम्य भूमिका निभाने वाली उर्दू पत्रकारिता आज हिन्दी और अंग्रेजी की तुलना में पिछड़ गई है। यह एक कटु सत्य है मगर यह भी सच है कि जहां एक ओर इसके पिछड़ेपन की बात में कहानी और कल्पना अधिक है वहीं इसके पिछड़ेपन के आयाम भी विचारनीय हैं। उर्दू पत्रकारिता का पिछड़ापन पत्रकारिता के मूल तत्व से जुड़ा हुआ नहीं है क्योंकि अगर मुद्दों और सामाजिक सरोकारों की बात करें, तो समय की मांग और समस्या के मूल्यांकन में यह पीछे नहीं रही, तुलनात्मक अध्ययन करते समय कुछ बातों की अनदेखी की जाती है, जिसके कारण नतीजा गलत निकलता है। समाचार पत्र के सरोकारों का सीधा नाता उसके पाठकवर्ग से होता है। समाज की विस्तृत तस्वीर पेश करने के साथ-साथ समाचार पत्र और उससे जुड़े पत्रकार उस पूरे फ्रेम में अपने पाठक के स्थान तलाश करते हैं और उचित स्थान न मिल पाने के कारण और उससे जुड़ी समस्याआंे का मूल्यांकन करते हैं। अंग्रेजी हिन्दी पत्रकारिता का विश्लेषण करते समय तो पाठक तत्व का विशेष ध्यान रखा जाता है मगर उर्दू पत्रकारिता के विश्लेषण के समय उसके पाठक तत्व को अनदेखा करके उसे उर्दू और हिन्दी के पाठक तत्व की कसौटी पर परखा जाता है। कहने का मतलब केवल इतना है कि उर्दू पत्रकारिता की बदहाली मुद्दों और सरोकारों से दूर रहने की नहीं है बल्कि आर्थिक पिछड़ेपन की कहानी है।
समाचार पत्र का अर्थ विज्ञापन से जुड़ा हुआ है। मगर उर्दू समाचार पत्रों को हमेशा विज्ञापन के लिए जद्दोजहद करनी पड़ती है। संघर्षरत रहना पड़ता है। विज्ञापन सरकारी हो या गैर सरकारी। व्यापारी भी उर्दू पाठक को अपना उपभोक्ता तो जरूरत समझते हैं। उसके हाथ अपना सामान अधिक से अधिक बेचने का प्रयास तो जरूर करते हैं। मगर उन तक पहुंचने का रास्ता वह उर्दू समाचार पत्र के स्थान पर दूसरी भाषाओं के समाचार पत्रों में तलाश करते हैं। यह मानना होगा कि आर्थिक तंगी के कारण नई तकनीक अपनाने में उर्दू पत्रकारिता पिछड़ जाती है। वह नए प्रयास नहीं कर पाती, यह भी सही है कि आर्थिक तंगी के कारण उर्दू समाचार पत्र अपने पत्रकारों को उतनी और सुविधायें नहीं दे पाते जितना हिन्दी और अंग्रेजी पत्रकारों को मिलती है। इस ओर भी ध्यान देने की आवश्यकता है।
वरिष्ठ उर्दू पत्रकार इमरान सगीर कहते है शुरूआती दौर में उर्दू अखबारों को यह गौरव हासिल था कि उर्दू अखबार के संपादक या पाठक किसी विशेष वर्ग के नहीं हुआ करते थे, बल्कि यह पूरे तौर से सामान्य वर्ग के लिए था। लेकिन समय के साथ-साथ परिवर्तन यह हुआ कि उर्दू अखबार एक विशेष वर्ग तक सीमित होने लगा। ये उर्दू पत्रकारिता के लिए सबसे दुर्भाग्यपूर्ण है। आज हिन्दी और अंग्रेजी पत्रकारिता में बड़ी क्रांति आयी है, लेकिन इसकी अपेक्षा उर्दू पत्रकारिता को उतनी गति नहीं मिल पा रही है। हिन्दी और अंग्रेजी समाचार-पत्रों की तुलना में आधुनिक तकनीक को अपनाने में अब भी उर्दू अखबरात संघर्षरत हैं, इसका कारण स्पष्ट है कि सरकारी स्तर पर इसे अपेक्षाकृत सहयोग नहीं मिल पाता वहीं निजी या व्यवसायिक विज्ञापनों से भी उर्दू समाचार-पत्रों को उतनी आमदनी नहीं हो पाती जिससे की आर्थिक रूप से संपन्न हो सकें। इन सबके बावजूद सीमित संसाधनों में उर्दू अखबरात सकारात्मक सोच के साथ उर्दू पत्रकारिता के सफर को आगे बढ़ा रहे हैं। उर्दू अखबरात की सबसे बड़ी खूबी ये है कि ये आम आदमी का अखबार होने का धर्म निभाते हैं। हिन्दी या अंग्रेजी समाचार-पत्रों तक आम लोगों की पहुंच आसान नहीं हो पाती, वहीं उर्दू अखबार तक समाज में हाशिये पर खड़ा व्यक्ति की भी आसानी से पहुंच सकता है। अर्थात् समाज का कोई व्यक्ति उर्दू अखबारों से बिल्कुल जुड़ा हुआ महसूस करता है। ये उर्दू अखबारों की लोकप्रियता का बड़ा कारण है। उर्दू अखबारों की विश्वसनीयता और महत्ता इसके पाठक वर्ग में इसे लेकर भी है, कि ये उनके साथ होने वाली किसी भी स्तर पर नाइंसाफी की आवाज प्रमुखता से उठाते हैं, ऐसी खबरों को प्रमुखता से सामने लाते हैं, जिन्हें भेदभाव के नतीजे में अंग्रेजी या हिन्दी समाचार-पत्रों में या तो जगह नहीं दी जाती या फिर उन्हें तोड़-मरोड़कर संक्षेप में किसी कोने में जगह दी जाती है। ऐसे में उर्दू समाचार पत्र ही उनकी उत्सुकता दूर कर पाते हैं। आज के आधुनिक युग में दूर-दराज के ग्रामीण क्षेत्रों में जहां लोगों को उर्दू अखबार नहीं मिल पाता, वैसे गांव के लोग अब भी उर्दू अखबार के दफ्तर से डाक के माध्यम से अखबार मंगाते हैं, और दो-तीन दिन पुरानी ही सही लेकिन इसे पढ़ना जरूर पसंद करते हैं। डाक से अखबार मंगा का कर पढ़ने का शौक उर्दू अखबारों की अहमियत का एक बड़ा उदाहरण है। ऐसे में उर्दू पत्रकारिता का भविष्य उज्ज्वल ही कहा जायेगा।
उर्दू पत्रकारिता में महिलाएं नहीं के बराबर है। बल्कि उर्दू पत्रकारिता से कोसो दूर है। स्वतंत्र उर्दू पत्रकार डा0 सुरैया जबीं कहती है कि पत्रकारिता के क्षेत्र में नई क्रांति तो आयी अंग्रेजी और हिन्दी समाचार-पत्रों की तुलना में न सही लेकिन उर्दू पत्रकारिता में भी क्रांति आयी है। बड़ी संख्या में उर्दू समाचार-पत्र नये रंग-रूप में प्रकाशित किये जा रहे हैं। जहां आधुनिक तकनीक का प्रयोग भी हो रहा है। समाचारों की प्रस्तुति में सीमित दायरे से बाहर निकलकर अब उर्दू अखबारों में भी सामान्य खबरें पढ़ने को मिलती हैं। अलग-अलग विषयों पर साप्ताहिक विशेषांक भी प्रकाशित होते हैं, और अंग्रेजी और हिन्दी समाचार-पत्रों की तरह खुद को स्थापित कर रहे हैं। यह उर्दू पत्रकारिता के लिए एक शुभ संकेत हैं। पहले उर्दू अखबारों में खबरों का दायरा बिल्कुल सीमित था। वर्तमान में उर्दू पत्रकारिता के लिए एक दुर्भाग्यपूर्ण बात ये भी है कि बिहार की उर्दू प्रिंट मीडिया में महिलाओं की भागीदारी न के बराबर है, क्योंकि उर्दू अखबारों में महिला मीडियाकर्मियों को इन्ट्री नहीं मिल पाती, आज कालेजों में उर्दू पत्रकारिता में डिप्लोमा कोर्स भी चलाये जा रहे हैं। उर्दू पत्रकारिता में डिप्लोमा प्राप्त करने वालों में बड़ी संख्या छात्राओं की भी है, लेकिन इन्हें भी उर्दू अखबारों के दफ्तरों में इन्ट्री नहीं मिल पा रही है। उर्दू पत्रकारिता की सेवा से महिलाओं की दूरी अब भी कायम है, ये दुर्भाग्यपूर्ण है और ये दूरी मिटनी चाहिए।
बिहार हो या देश का कोई हिस्सा उर्दू पत्रकारिता की दशा-दिशा को प्रभावित करने वाले कारणों पर उर्दू पत्रकारों ने जो विचार दिये वह सवाल छोड़ जाते हैं। उर्दू पत्रकारिता की बदहाली के पीछे आर्थिक तंगी, भाषा, कारपोरेट घराना और पश्चिमी संस्कृति के प्रभाव जहां महत्वपूर्ण हैं वहीं पर राजनीतिक-सामाजिक कारण भी अहम है। बिहार में उर्दू दूसरी राजभाषा होने के बावजूद शुरूआती दौर की तरह आज यह अपने शिखर पर नहीं है। इसके सिमट जाने से उर्दू एक वर्ग/समुदाय तक ही रह गयी है। शुरूआती दौर में यह किसी एक वर्ग/समुदाय तक ही समीति नहीं थी बल्कि गैरमुस्लिम विद्वान उर्दू समाचार पत्रों के संपादन किया करते थे। आज ढूंढ़ने पर भी गैरमुस्लिम विद्वान नहीं मिलेगें जो उर्दू के अखबारों का संपादन करते हो ? इसके पीछे वजह जो भी रही हो एक वजह साफ है कि उर्दू को मुसलमनों की भाषा से जोड़ कर देखा गया। बिहार में उर्दू दूसरी राजभाषा होने के बावजूद भी उर्दू अखबार गैरमुस्लिम घरों में नहीं जाता है।
संजय कुमार ,ऑल इंडिया रेडियो , पटना में कार्यरत हैं .आपने एएमयू से पत्रकारिता की पढाई करने के बाद विभिन्न मीडिया हाउस में काम किया है . मीडिया की बारीकियों का सूक्ष्मता से अध्ययन करते हुए इन्होने मीडिया से जुड़े विभिन्न विषयों पर कई किताबें लिखी हैं जिनमें से छः अब तक प्रकाशित हो चुकी है . मीडिया विश्लेषक के तौर पर इनकी जान-पहचान पूरे देश भर में है
Friday, June 3, 2011
अल्पसंख्यक नेतृत्व की तरह दिशाहीन होती उर्दू पत्रकारिता
संजय कुमार
भारतीय मीडिया में हिन्दी व अंग्रेजी की तरह उर्दू समाचार पत्रों का हस्तक्षेप नहीं दिखता है। वह तेवर नहीं दिखता जो हिन्दी या अंग्रेजी के पत्रों में दिखता है। आधुनिक मीडिया से कंधा मिला कर चलने में अभी भी यह लड़खड़ा रहा है।
यों तो देश के चर्चित उर्दू अखबरों में आठ राज्यों से छप रहा ‘रोजनामा’ हैदराबाद से ‘सियासत’ और ‘मुंसिफ’, मुंबई का ‘इंकलाब’, दिल्ली से ‘हिन्दुस्तान एक्सप्रैस’ व ‘मिलाप’, कनाटर्क से ‘दावत’ और पटना से ‘कौमी तन्जीम’ सहित अन्य उर्दू पत्र इस कोशिश में लगे हैं कि उर्दू पत्रकारिता को एक मुकाम दिया जाए। लेकिन बाजार और अन्य समस्याओं के जकड़न से यह निकल नहीं पा रहा है। देखा जाये तो उर्दू पत्रकारों की स्थिति बद से बदतर है तो महिला पत्रकार नहीं के बराबर हैं। यह इस बात से अंदाजा लगाया जा सकता है कि बिहार से प्रकाशित एक दर्जन से ज्यादा उर्दू अखबरों में एक भी महिला श्रमजीवी पत्रकार नहीं है। पटना से प्रकाशित एक बड़ा उर्दू अखबार अपने पत्रकारों को पांच हजार से बीस हजार रूपये महीना तनख्वाह देता है जबकि मंझोल और छोट उर्दू अखबारों में शोषण जारी है।
वहाँ पत्रकारों को तनख्वाह सरकारी दफ्तरों में कार्यरत आदेशपाल से भी कम मिलता है। वहीं अखबारों पर आरोप है कि वे विज्ञापनों के लिए निकल रही हैं। एक आध उर्दू पत्र दिख जाते हैं बाकि की फाइलें बनती है। एक ओर वर्षों से बिहार सहित देष भर में बडे/मंझोले/छोटे उर्दू अखबार उर्दू भाषी जनता के लिए अपनी परंपरागत तरीके से अखबार निकाल रहे हैं तो वहीं दूसरी ओर उर्दू अखबरों के प्रकाशन क्षेत्र में कारपोरेट जगत घुसपैठ कर उनकी नींद उड़ा रही है। सहारा ग्रुप तो पहले ही आ चुका है अब इस क्षेत्र में हिन्दी के बड़े अखबार घराने कूदने की पूरी तैयारी की चुकें हैं। ऐसे में पांरम्परिक उर्दू अखबारों के समक्ष चुनौतियों का दौर शुरू होने जा रहा है।
इसमें कोई शक नहीं कि देश में उर्दू पत्रकारिता का एक महत्वपूर्ण स्थान रहा है। आजादी के आंदोलन से लेकर भारत के नवनिर्माण में उर्दू के पत्रकारों और उर्दू पत्रकारिता ने अपना योगदान देकर एक बड़ा मुकाम बनाया है। लेकिन, हकीकत यह है कि मीडिया के झंझावाद ने लोकतंत्र के चैथे खम्भे को मजबूत बनाने में उर्दू के पत्रकारों और उर्दू पत्रकारिता के योगदान को आज दरकिनार कर दिया गया है। उर्दू पत्र व पत्रकार अपने बजूद के लिए आज हर मुकाम पर संघर्ष कर रहे हैं। इसके लिए किसी ने उर्दू पत्रकारिता की हालत बंदर के हाथ में नारियल जैसी बताया, तो किसी ने उर्दू पत्रकारिता को आज अपने मूल उद्देश्यों से हटकर चलते हुए। उर्दू पत्रकारिता की बदहाल दषा और दिशा पर कई पत्रकारों से बातचीत हुई। कई सवालों को खंगाला गया। उर्दू दैनिक ‘कौमी तन्जीम’ पटना के संपादक एस.एम. अजमल फरीद सच को स्वीरकते हुए कहते है, सच है कि वर्तमान समय में उर्दू अखबारात अंग्रेजी और हिन्दी समाचार पत्रों की तुलना में उतनी गति हासिल नहीं कर पा रहे हैं जितना कि इसका स्वर्णिम इतिहास रहा है। चाहे वो आधुनिक तकनीक अपनाने, विषय वस्तु विषेशज्ञ पत्रकारों की टीम तैयार करने या आज खुद को बिल्कुल नये रूप में ढालने की बात हो। इनका दायरा थोड़ा सीमित है। उर्दू भाषा जिसकी महत्ता और उच्चारण की मधुरता को स्वीकार तो सब कोई करता है लेकिन इसके विकास के लिए सामूहिक प्रयास नहीं किए जा रहे हैं और इसको एक विषेश वर्ग से जोड़कर देखा जाने लगा है। श्री फरीद कहते हैं कि इन सब के बावजूद एक सीमित संसाधन में उर्दू अखबारात पाठक वर्ग तक बेहतर अखबार पहुंचाने का प्रयत्न कर रहे हैं और अच्छी संख्या में उर्दू अखबारात पाबंदी से प्रकाशित हो रहे हैं। उर्दू अखबारात की प्रसार संख्या और पाठकों की संख्या में भी अप्रत्याशित वृद्धि हो रही है।
उर्दू अखबारात का महत्व अंग्रेजी या हिन्दी समाचार पत्रों की तुलना में इस मायने में अब भी बरकरार है कि सकारात्मक पत्रकारिता उर्दू अखबारों का मूल उद्देश्य है जहां अंग्रेजी और हिन्दी समाचार पत्रों में पश्चिमी संस्कृति पूरी तरह हावी नजर आती है। खबरों से लेकर तस्वीरों की प्रस्तुति में जिस तरह का खेल अंग्रेजी और हिन्दी अखबारों में खेला जा रहा है। इससे उर्दू अखबारात अब भी बहुत हद तक सुरक्षित हैं। समाचार या लेख की प्रस्तुति में भी इस बात का पूरा ध्यान रखा जाता है कि भारतीय परंपरा और गंगा-यमुनी संस्कृति का ही समावेश हो। पाठक वर्ग का ध्यान रखते हुए भले ही अल्पसंख्यकों के साथ नाइंसाफी या जुल्म की खबरों को थोड़ी प्राथमिकता मिलती है लेकिन इसमें सांप्रदायिक सौहार्द बना रहे यह अब भी उर्दू अखबारों का बड़ा लक्ष्य होता है।
श्री फरीद जोर देकर कहते है कि हाल के वर्षों में कारपोरेट घरानों का आकर्षण भी उर्दू अखबारों की ओर बढ़ा है और अब कारपोरेट घराने भी उर्दू अखबार निकाल रहे हैं, जिससे इस बात की आषंका बढ़ गई है कि भारतीय संस्कृति और परम्पराओं को बरकरार रखते हुए अबतक उर्दू पत्रकारिता जो एक स्वस्थ समाज की कल्पना के साथ आगे बढ़ रही थी वो बाधित हो सकती है, क्योंकि कारपोरेट घरानों के उर्दू अखबार भी पश्चिमी संस्कृति से प्रभावित नजर आते हैं और अपने पाठकवर्ग के विचारों की अनदेखी करते हुए उनपर एक नयी संस्कृति थोपने का प्रयास किया जा रहा है। वहीं उर्दू के वरिष्ठ पत्रकार ख़ुर्शीद हाशमी कहते है कि मुझे उर्दू पत्रकारिता की दशा और दिशा दोनों गड़बड़ नजर आती है। मेरी नजर में उर्दू पत्रकारिता की हालत आज वैसी ही है जैसी बंदर के हाथ में नारियल की होती है। बंदर नारियल के साथ कब तक खेलेगा, कब उसे पानी में उछाल देगा या कब उसे किसी के सिर पर दे मारेगा, कहना मुश्किल है।
यह स्थिति इसलिए है कि उर्दू पत्रकारिता मुख्यतः आज भी निजी हाथों में हैं। उर्दू पत्रकारिता के भाग्य विधाता वह लोग बने बैठे हैं, जो न उर्दू जानते हैं और न पत्रकारिता का ज्ञान रखते हैं। यह लोग उर्दू पत्र-पत्रिकाओं के मालिक होते हैं। मालिक होने के नाते नीति-निर्धारक से लेकर संपादक और व्यवस्थापक तक सब कुछ यही लोग होते हैं। वे जैसा चाहते हैं, करते हैं। उनकी नजर में पत्रकारों की कोई अहमियत नहीं होती है। वह उन्हें क्लर्क या एजेन्ट के तौर पर इस्तेमाल करते हैं, इसलिए अधिक तेज या पढ़े-लिखे लोग उनको रास नहीं आते, वैसे भी अधिक पढ़े-लिखे लोग महंगे होंगे, और यह लोग चीफ एंड वेस्ट में विश्वास रखते हैं। ऐसी स्थिति में अगर कोई तेज पत्रकार आ भी जाता है तो वह उनकी उपेक्षा का शिकार हो जाता है। उसकी हर बात और हर राय की अनदेखी करके उसे उसकी औकात बता दी जाती है। वे कहते हैं कि हम बिजनेस करने के लिए आये हैं, और बिजनेस कैसे करना है, यह हम जानते हैं, लेकिन वास्तव में वह बिजनेस करना भी नहीं जानते, इसलिए वह उर्दू की सेवा या पत्रकारिता तो करते ही नहीं, ढंग से बिजनेस भी नहीं कर पाते हैं।
श्री हाशमी कहते हैं, उर्दू पत्रकारिता में अब कारपोरेट सेक्टर ने भी पांव पसारना शुरू कर दिया है। वैसे तो वहां भी कुछ समझौते होते हैं और कई बार अयोग्य लोगों को कमान सौंप दी जाती है, जो अपना वर्चस्व बनाये रखने के लिए अपने से भी अधिक अयोग्य लोगों को लाकर पत्रकारिता की कबर खोदने का प्रयास करते हैं, फिर भी निजी हाथों की तुलना में कारपोरेट सेक्टर में स्थिति अच्छी है। मगर समस्या यह है कि कारपोरेट सेक्टर का नाम सुनते ही उर्दू के पाठक भड़क उठते हैं। उन्हें लगता है कि कारपोरेट जगत के अखबार उनकी आवाज मजबूती के साथ नहीं उठा सकते और उनके हितों की रक्षा नहीं कर सकते हैं।
उर्दू के वरिष्ठ पत्रकार और पटना कामर्स कालेज के पत्रकारिता विभाग के काडिनेटर तारिक फातमी का मानना है कि उर्दू पत्रकारिता आज अपने मूल उद्देश्यों से हटकर एक ऐसे रास्ते पर चल पड़ी है जहाँ दूर-दूर तक बेहतर भविष्य के लिए रौशनी की कोई किरण दिखाई नहीं देती है। उर्दू प्रेस के मालिकान उर्दू पत्रकारिता के भविष्य को लेकर चाहे जितने भी आशांवित हों लेकिन दरअसल एक कडवी सच्चाई यह भी है की उर्दू पत्रकारों का भविष्य उस अँधेरे कुँए की तरह है जहाँ से न रौशनी की उम्मीद की जा सकती और न प्यास बुझाने के लिए पानी की, दूसरे शब्दों में कहें तो उर्दू पत्रकार आज अपने भविष्य को लेकर एक अनिश्चितता के स्थिति से गुजर रहा है और अपने भविष्य की इसी अनिश्चिता के कारण वह परेशान भी है। दुखी भी। जो लोग उर्दू पत्रकारिता के स्वर्णिम इतिहास की बातें करते हैं उन्हें यह नहीं भूलना चाहिए की जिन लोगों ने उर्दू पत्रकारिता की नीवं रखी थी उनका उद्देश्य पैसा कमाना नहीं बल्कि समाज और मानवता की सेवा करना था, लेकिन आज स्थिति उलट गई है।
आज उर्दू प्रेस मालिकों का एक मात्र उद्देश्य सरकारी और निजी विज्ञापनों को प्रकाशित करके पैसा कमाना और उर्दू समाचार पत्रों में कार्यरत श्रमजीवी पत्रकारों से बेशर्मी के साथ उनका शोषण करना मात्र है। आप बिहार से प्रकाशित किसी भी उर्दू समाचार पत्रों के कार्यालयों में चाहे वो कौमी तंजीम, फारूकी तंजीम, पिनदार, संगम, प्यारी उर्दू हो या कार्पोरेट जगत द्वारा प्रकाशित रोजनामा उर्दू सहारा, का भ्रमण करे तो आपको वहां कार्यरत पत्रकारों दशा देख कर मेरे दावे की पुष्टि हो जाएगी कौमी तंजीम, के संपादक उर्दू पत्रकारिता के भविष्य को लेकर खुशफहमी के शिकार हैं, सच्चाई यह है की भविष्य उर्दू पत्रकारिता का नहीं उनका जरूर उज्जवल है क्योंकि उर्दू समाचार पत्र के मालिक हैं, वह स्वय पत्रकार नहीं, उन्हें संपादक का पद विरासत में मिला है, उन्होंने कभी चिलचिलाती धूप, कड़कड़ाती सर्दी या भरी बरसात में मीलों पैदल चल कर समाचारों का संकलन नहीं किया। इसलिए उन्हें उस दर्द का एहसास नहीं होगा, जो दो हजार से पांच हजार की पगार पर बारह-बारह घंटों तक दफ्तर में बेगारी करने वाले श्रमजीवी पत्रकारों को होता है।
यही हाल बिहार से प्रकाशित होने वाले सभी दैनिक समाचार पत्रों का है, पिन्दार, फारूकी तंजीम,संगम, इन सभों के वर्तमान मालिकों (तथाकथित संपादकों) का पत्रकारिता से कोई लेना-देना कभी नहीं रहा। इन तथाकथित संपादकों में कोई किरानी की नौकरी करता था तो कोई चिकित्सक है, कोई ठेके पर समाचार पत्र निकाल रहा है, तो कोई कमीशन पर विज्ञापन प्रकाशित करने के लिए समाचार पत्र का संपादक बना बैठा है। जाहिर है जब स्थिति इतनी भयावह हो तो उर्दू पत्रकारिता की दशा और दिशा का सहज ही अंदाजा लगाया जा सकता है। सचाई तो ये है की आज पूरे देश विशेष कर बिहार में उर्दू पत्रकारिता उसी तरह दिशाहीन है जिस तरह देश का अल्पसंख्यक नेतृत्व, जिस तरह अल्पसंख्यक समुदाय आज मुस्लिम नेताओं के हाथों छला जा रहा है उसी तरह तथाकथित संपादकों द्वारा उर्दू पाठक और उर्दू समाचर पत्रों में कार्य करने वाले श्रमजीवी पत्रकारों का शोषण और दोहन जारी है।
बिहार की उर्दू पत्रकारिता आज सत्ता के इर्द -गिर्द घूम रही है । हर समाचार पत्र सरकारी विज्ञापन पाने के लिए वर्तमान सरकार की हर सही-गलत नीतियों का समर्थन करना अपना धर्म और फर्ज समझता है ,पद और सम्मान पाने के लिए उर्दू समाचार पत्रों के कुछ पत्रकार सत्ता के गलियारों में नेताओं के आगे-पीछे दुम हिलाते और चापलूसी करते देखे जा सकते हैं। जाहिर है जब एक पत्रकार पद, पैसा और समाज में प्रतिष्ठा प्राप्त करने के लिए राजनीतिज्ञों के पास अपना आत्मसम्मान गिरवी रख दे तो उस समाचार पत्र या पत्रकार से समाज कल्याण, मानव सेवा, भाषा, देश, राज्य और समाज के विकास में भागीदारी निभाने की आशा करना बेमानी है। देश और विशेष कर बिहार की उर्दू पत्रकारिता में आज जोश ,जज्बा और क्षमता नहीं है कि वह किसी बड़े आन्दोलन की अगवाई कर सके?
दूसरी ओर ‘बिहार की खबरें’ के संपादक अंजुम आलम कहते हैं कि बिहार से सर्वप्रथम प्रकाषित होने वाला पत्र भी उर्दू था। इसके बावजूद इसकी वर्तमान दषा उत्साहवर्द्धक नहीं है। हालांकि अभी भी पटना सहित राज्य से दर्जनों उर्दू दैनिक एवं पचासों पत्रिकायें प्रकाशित हो रही हैं परंतु इनका स्तर उस बुलंदी पर नहीं है, जिसकी उम्मीद की जाती है। बिहार में उर्दू को द्वितीय राजभाषा का भी दर्जा प्राप्त है। उर्दू समाचार पत्रों को राज्य सरकार से विज्ञापन भी मिलता है। सरकारी विज्ञापनों के कारण उर्दू समाचार पत्रों की आर्थिक स्थिति सम्पन्न नहीं तो संतोषजनक अवश्य है। इसके बावजूद उर्दू पत्रकारों की आर्थिक स्थिति अच्छी नहीं है।
परिणाम स्वरूप युवा पीढ़ी उर्दू पत्रकारिता की ओर आकर्षित नहीं हो रही है। इस कारण आने वाले दिनों में उर्दू समाचार पत्रों को संकटमय स्थिति का सामना करना पड़ सकता है। अखबार मालिकों को इस ओर विशेष ध्यान देने की आवश्यकता है। श्री अंजुम आलम कहते है कि स्वतंत्रता के बाद से गुलाम सरवर, शीन मुजफ्फरी, शाहिद राम नगरी इत्यादि उर्दू पत्रकारों, जो मील का पत्थर छोड़ा था वहां तक आज कोई नहीं पहुंच पाया है। मौजूदा उर्दू पत्रकारिता जगत में आज भी कई अच्छे पत्रकार सक्रिय हैं। परंतु, उनकी दशा से नई नस्ल प्रभावित नहीं हो पा रही है। आज का युवा वर्ग इसे करियर के रूप में अपनाने का इच्छुक नजर नहीं आ रहा है। उर्दू में अभी बिहार से कई रंगीन एवं आकर्षक उर्दू समाचार पत्र प्रकाशित हो रहे हैं लेकिन सीमित समाचार नेटवर्क का अभाव पाठकों को खटकता है। उर्दू समाचार पत्र सामान्यतः आम लोगों द्वारा प्रकाशित होते थे। परंतु हाल के वर्षों में सहारा इंडिया ने इस क्षेत्र में भी कदम रखा है।
उर्दू के वरिष्ठ पत्रकार राशिद अहमद का मानना है कि भारत की राजनीति विशेष रूप से स्वतंत्रता संग्राम में अदम्य भूमिका निभाने वाली उर्दू पत्रकारिता आज हिन्दी और अंग्रेजी की तुलना में पिछड़ गई है। यह एक कटु सत्य है मगर यह भी सच है कि जहां एक ओर इसके पिछड़ेपन की बात में कहानी और कल्पना अधिक है वहीं इसके पिछड़ेपन के आयाम भी विचारनीय हैं। उर्दू पत्रकारिता का पिछड़ापन पत्रकारिता के मूल तत्व से जुड़ा हुआ नहीं है क्योंकि अगर मुद्दों और सामाजिक सरोकारों की बात करें, तो समय की मांग और समस्या के मूल्यांकन में यह पीछे नहीं रही, तुलनात्मक अध्ययन करते समय कुछ बातों की अनदेखी की जाती है, जिसके कारण नतीजा गलत निकलता है।
समाचार पत्र के सरोकारों का सीधा नाता उसके पाठकवर्ग से होता है। समाज की विस्तृत तस्वीर पेश करने के साथ-साथ समाचार पत्र और उससे जुड़े पत्रकार उस पूरे फ्रेम में अपने पाठक के स्थान तलाश करते हैं और उचित स्थान न मिल पाने के कारण और उससे जुड़ी समस्याओं का मूल्यांकन करते हैं। अंग्रेजी हिन्दी पत्रकारिता का विश्लेषण करते समय तो पाठक तत्व का विशेष ध्यान रखा जाता है मगर उर्दू पत्रकारिता के विश्लेषण के समय उसके पाठक तत्व को अनदेखा करके उसे उर्दू और हिन्दी के पाठक तत्व की कसौटी पर परखा जाता है। कहने का मतलब केवल इतना है कि उर्दू पत्रकारिता की बदहाली मुद्दों और सरोकारों से दूर रहने की नहीं है बल्कि आर्थिक पिछड़ेपन की कहानी है।
समाचार पत्र का अर्थ विज्ञापन से जुड़ा हुआ है। मगर उर्दू समाचार पत्रों को हमेशा विज्ञापन के लिए जद्दोजहद करनी पड़ती है। संघर्षरत रहना पड़ता है। विज्ञापन सरकारी हो या गैर सरकारी। व्यापारी भी उर्दू पाठक को अपना उपभोक्ता तो जरूरत समझते हैं। उसके हाथ अपना सामान अधिक से अधिक बेचने का प्रयास तो जरूर करते हैं। मगर उन तक पहुंचने का रास्ता वह उर्दू समाचार पत्र के स्थान पर दूसरी भाषाओं के समाचार पत्रों में तलाश करते हैं। यह मानना होगा कि आर्थिक तंगी के कारण नई तकनीक अपनाने में उर्दू पत्रकारिता पिछड़ जाती है। वह नए प्रयास नहीं कर पाती, यह भी सही है कि आर्थिक तंगी के कारण उर्दू समाचार पत्र अपने पत्रकारों को उतनी और सुविधायें नहीं दे पाते जितना हिन्दी और अंग्रेजी पत्रकारों को मिलती है। इस ओर भी ध्यान देने की आवश्यकता है।
वरिष्ठ उर्दू पत्रकार इमरान सगीर कहते है शुरूआती दौर में उर्दू अखबारों को यह गौरव हासिल था कि उर्दू अखबार के संपादक या पाठक किसी विशेष वर्ग के नहीं हुआ करते थे, बल्कि यह पूरे तौर से सामान्य वर्ग के लिए था। लेकिन समय के साथ-साथ परिवर्तन यह हुआ कि उर्दू अखबार एक विशेष वर्ग तक सीमित होने लगा। ये उर्दू पत्रकारिता के लिए सबसे दुर्भाग्यपूर्ण है। आज हिन्दी और अंग्रेजी पत्रकारिता में बड़ी क्रांति आयी है, लेकिन इसकी अपेक्षा उर्दू पत्रकारिता को उतनी गति नहीं मिल पा रही है। हिन्दी और अंग्रेजी समाचार-पत्रों की तुलना में आधुनिक तकनीक को अपनाने में अब भी उर्दू अखबरात संघर्षरत हैं, इसका कारण स्पष्ट है कि सरकारी स्तर पर इसे अपेक्षाकृत सहयोग नहीं मिल पाता वहीं निजी या व्यवसायिक विज्ञापनों से भी उर्दू समाचार-पत्रों को उतनी आमदनी नहीं हो पाती जिससे की आर्थिक रूप से संपन्न हो सकें।
इन सबके बावजूद सीमित संसाधनों में उर्दू अखबरात सकारात्मक सोच के साथ उर्दू पत्रकारिता के सफर को आगे बढ़ा रहे हैं। उर्दू अखबरात की सबसे बड़ी खूबी ये है कि ये आम आदमी का अखबार होने का धर्म निभाते हैं। हिन्दी या अंग्रेजी समाचार-पत्रों तक आम लोगों की पहुंच आसान नहीं हो पाती, वहीं उर्दू अखबार तक समाज में हाशिये पर खड़ा व्यक्ति की भी आसानी से पहुंच सकता है। अर्थात् समाज का कोई व्यक्ति उर्दू अखबारों से बिल्कुल जुड़ा हुआ महसूस करता है। ये उर्दू अखबारों की लोकप्रियता का बड़ा कारण है। उर्दू अखबारों की विश्वसनीयता और महत्ता इसके पाठक वर्ग में इसे लेकर भी है, कि ये उनके साथ होने वाली किसी भी स्तर पर नाइंसाफी की आवाज प्रमुखता से उठाते हैं, ऐसी खबरों को प्रमुखता से सामने लाते हैं, जिन्हें भेदभाव के नतीजे में अंग्रेजी या हिन्दी समाचार-पत्रों में या तो जगह नहीं दी जाती या फिर उन्हें तोड़-मरोड़कर संक्षेप में किसी कोने में जगह दी जाती है। ऐसे में उर्दू समाचार पत्र ही उनकी उत्सुकता दूर कर पाते हैं।
आज के आधुनिक युग में दूर-दराज के ग्रामीण क्षेत्रों में जहां लोगों को उर्दू अखबार नहीं मिल पाता, वैसे गांव के लोग अब भी उर्दू अखबार के दफ्तर से डाक के माध्यम से अखबार मंगाते हैं, और दो-तीन दिन पुरानी ही सही लेकिन इसे पढ़ना जरूर पसंद करते हैं। डाक से अखबार मंगा का कर पढ़ने का शौक उर्दू अखबारों की अहमियत का एक बड़ा उदाहरण है। ऐसे में उर्दू पत्रकारिता का भविष्य उज्ज्वल ही कहा जायेगा।
उर्दू पत्रकारिता में महिलाएं नहीं के बराबर है। बल्कि उर्दू पत्रकारिता से कोसो दूर है। स्वतंत्र उर्दू पत्रकार डा0 सुरैया जबीं कहती है कि पत्रकारिता के क्षेत्र में नई क्रांति तो आयी अंग्रेजी और हिन्दी समाचार-पत्रों की तुलना में न सही लेकिन उर्दू पत्रकारिता में भी क्रांति आयी है। बड़ी संख्या में उर्दू समाचार-पत्र नये रंग-रूप में प्रकाशित किये जा रहे हैं। जहां आधुनिक तकनीक का प्रयोग भी हो रहा है। समाचारों की प्रस्तुति में सीमित दायरे से बाहर निकलकर अब उर्दू अखबारों में भी सामान्य खबरें पढ़ने को मिलती हैं। अलग-अलग विषयों पर साप्ताहिक विशेषांक भी प्रकाशित होते हैं, और अंग्रेजी और हिन्दी समाचार-पत्रों की तरह खुद को स्थापित कर रहे हैं।
यह उर्दू पत्रकारिता के लिए एक शुभ संकेत हैं। पहले उर्दू अखबारों में खबरों का दायरा बिल्कुल सीमित था। वर्तमान में उर्दू पत्रकारिता के लिए एक दुर्भाग्यपूर्ण बात ये भी है कि बिहार की उर्दू प्रिंट मीडिया में महिलाओं की भागीदारी न के बराबर है, क्योंकि उर्दू अखबारों में महिला मीडियाकर्मियों को इन्ट्री नहीं मिल पाती, आज कालेजों में उर्दू पत्रकारिता में डिप्लोमा कोर्स भी चलाये जा रहे हैं। उर्दू पत्रकारिता में डिप्लोमा प्राप्त करने वालों में बड़ी संख्या छात्राओं की भी है, लेकिन इन्हें भी उर्दू अखबारों के दफ्तरों में इन्ट्री नहीं मिल पा रही है। उर्दू पत्रकारिता की सेवा से महिलाओं की दूरी अब भी कायम है, ये दुर्भाग्यपूर्ण है और ये दूरी मिटनी चाहिए।
बिहार हो या देश का कोई हिस्सा उर्दू पत्रकारिता की दशा-दिशा को प्रभावित करने वाले कारणों पर उर्दू पत्रकारों ने जो विचार दिये वह सवाल छोड़ जाते हैं। उर्दू पत्रकारिता की बदहाली के पीछे आर्थिक तंगी, भाषा, कारपोरेट घराना और पश्चिमी संस्कृति के प्रभाव जहां महत्वपूर्ण हैं वहीं पर राजनीतिक-सामाजिक कारण भी अहम है। बिहार में उर्दू दूसरी राजभाषा होने के बावजूद शुरूआती दौर की तरह आज यह अपने शिखर पर नहीं है। इसके सिमट जाने से उर्दू एक वर्ग/समुदाय तक ही रह गयी है। शुरूआती दौर में यह किसी एक वर्ग/समुदाय तक ही समीति नहीं थी बल्कि गैरमुस्लिम विद्वान उर्दू समाचार पत्रों के संपादन किया करते थे। आज ढूंढ़ने पर भी गैरमुस्लिम विद्वान नहीं मिलेगें जो उर्दू के अखबारों का संपादन करते हो ? इसके पीछे वजह जो भी रही हो एक वजह साफ है कि उर्दू को मुसलमनों की भाषा से जोड़ कर देखा गया। बिहार में उर्दू दूसरी राजभाषा होने के बावजूद भी उर्दू अखबार गैरमुस्लिम घरों में नहीं जाता है।
लेखक संजय कुमार आकाशवाणी, पटना में समाचार संपादक के रूप में कार्यरत हैं. उनसे संपर्क sanju3feb@gmail.comThis e-mail address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it या 09934293148 के जरिए किया जा सकता है.
भारतीय मीडिया में हिन्दी व अंग्रेजी की तरह उर्दू समाचार पत्रों का हस्तक्षेप नहीं दिखता है। वह तेवर नहीं दिखता जो हिन्दी या अंग्रेजी के पत्रों में दिखता है। आधुनिक मीडिया से कंधा मिला कर चलने में अभी भी यह लड़खड़ा रहा है।
यों तो देश के चर्चित उर्दू अखबरों में आठ राज्यों से छप रहा ‘रोजनामा’ हैदराबाद से ‘सियासत’ और ‘मुंसिफ’, मुंबई का ‘इंकलाब’, दिल्ली से ‘हिन्दुस्तान एक्सप्रैस’ व ‘मिलाप’, कनाटर्क से ‘दावत’ और पटना से ‘कौमी तन्जीम’ सहित अन्य उर्दू पत्र इस कोशिश में लगे हैं कि उर्दू पत्रकारिता को एक मुकाम दिया जाए। लेकिन बाजार और अन्य समस्याओं के जकड़न से यह निकल नहीं पा रहा है। देखा जाये तो उर्दू पत्रकारों की स्थिति बद से बदतर है तो महिला पत्रकार नहीं के बराबर हैं। यह इस बात से अंदाजा लगाया जा सकता है कि बिहार से प्रकाशित एक दर्जन से ज्यादा उर्दू अखबरों में एक भी महिला श्रमजीवी पत्रकार नहीं है। पटना से प्रकाशित एक बड़ा उर्दू अखबार अपने पत्रकारों को पांच हजार से बीस हजार रूपये महीना तनख्वाह देता है जबकि मंझोल और छोट उर्दू अखबारों में शोषण जारी है।
वहाँ पत्रकारों को तनख्वाह सरकारी दफ्तरों में कार्यरत आदेशपाल से भी कम मिलता है। वहीं अखबारों पर आरोप है कि वे विज्ञापनों के लिए निकल रही हैं। एक आध उर्दू पत्र दिख जाते हैं बाकि की फाइलें बनती है। एक ओर वर्षों से बिहार सहित देष भर में बडे/मंझोले/छोटे उर्दू अखबार उर्दू भाषी जनता के लिए अपनी परंपरागत तरीके से अखबार निकाल रहे हैं तो वहीं दूसरी ओर उर्दू अखबरों के प्रकाशन क्षेत्र में कारपोरेट जगत घुसपैठ कर उनकी नींद उड़ा रही है। सहारा ग्रुप तो पहले ही आ चुका है अब इस क्षेत्र में हिन्दी के बड़े अखबार घराने कूदने की पूरी तैयारी की चुकें हैं। ऐसे में पांरम्परिक उर्दू अखबारों के समक्ष चुनौतियों का दौर शुरू होने जा रहा है।
इसमें कोई शक नहीं कि देश में उर्दू पत्रकारिता का एक महत्वपूर्ण स्थान रहा है। आजादी के आंदोलन से लेकर भारत के नवनिर्माण में उर्दू के पत्रकारों और उर्दू पत्रकारिता ने अपना योगदान देकर एक बड़ा मुकाम बनाया है। लेकिन, हकीकत यह है कि मीडिया के झंझावाद ने लोकतंत्र के चैथे खम्भे को मजबूत बनाने में उर्दू के पत्रकारों और उर्दू पत्रकारिता के योगदान को आज दरकिनार कर दिया गया है। उर्दू पत्र व पत्रकार अपने बजूद के लिए आज हर मुकाम पर संघर्ष कर रहे हैं। इसके लिए किसी ने उर्दू पत्रकारिता की हालत बंदर के हाथ में नारियल जैसी बताया, तो किसी ने उर्दू पत्रकारिता को आज अपने मूल उद्देश्यों से हटकर चलते हुए। उर्दू पत्रकारिता की बदहाल दषा और दिशा पर कई पत्रकारों से बातचीत हुई। कई सवालों को खंगाला गया। उर्दू दैनिक ‘कौमी तन्जीम’ पटना के संपादक एस.एम. अजमल फरीद सच को स्वीरकते हुए कहते है, सच है कि वर्तमान समय में उर्दू अखबारात अंग्रेजी और हिन्दी समाचार पत्रों की तुलना में उतनी गति हासिल नहीं कर पा रहे हैं जितना कि इसका स्वर्णिम इतिहास रहा है। चाहे वो आधुनिक तकनीक अपनाने, विषय वस्तु विषेशज्ञ पत्रकारों की टीम तैयार करने या आज खुद को बिल्कुल नये रूप में ढालने की बात हो। इनका दायरा थोड़ा सीमित है। उर्दू भाषा जिसकी महत्ता और उच्चारण की मधुरता को स्वीकार तो सब कोई करता है लेकिन इसके विकास के लिए सामूहिक प्रयास नहीं किए जा रहे हैं और इसको एक विषेश वर्ग से जोड़कर देखा जाने लगा है। श्री फरीद कहते हैं कि इन सब के बावजूद एक सीमित संसाधन में उर्दू अखबारात पाठक वर्ग तक बेहतर अखबार पहुंचाने का प्रयत्न कर रहे हैं और अच्छी संख्या में उर्दू अखबारात पाबंदी से प्रकाशित हो रहे हैं। उर्दू अखबारात की प्रसार संख्या और पाठकों की संख्या में भी अप्रत्याशित वृद्धि हो रही है।
उर्दू अखबारात का महत्व अंग्रेजी या हिन्दी समाचार पत्रों की तुलना में इस मायने में अब भी बरकरार है कि सकारात्मक पत्रकारिता उर्दू अखबारों का मूल उद्देश्य है जहां अंग्रेजी और हिन्दी समाचार पत्रों में पश्चिमी संस्कृति पूरी तरह हावी नजर आती है। खबरों से लेकर तस्वीरों की प्रस्तुति में जिस तरह का खेल अंग्रेजी और हिन्दी अखबारों में खेला जा रहा है। इससे उर्दू अखबारात अब भी बहुत हद तक सुरक्षित हैं। समाचार या लेख की प्रस्तुति में भी इस बात का पूरा ध्यान रखा जाता है कि भारतीय परंपरा और गंगा-यमुनी संस्कृति का ही समावेश हो। पाठक वर्ग का ध्यान रखते हुए भले ही अल्पसंख्यकों के साथ नाइंसाफी या जुल्म की खबरों को थोड़ी प्राथमिकता मिलती है लेकिन इसमें सांप्रदायिक सौहार्द बना रहे यह अब भी उर्दू अखबारों का बड़ा लक्ष्य होता है।
श्री फरीद जोर देकर कहते है कि हाल के वर्षों में कारपोरेट घरानों का आकर्षण भी उर्दू अखबारों की ओर बढ़ा है और अब कारपोरेट घराने भी उर्दू अखबार निकाल रहे हैं, जिससे इस बात की आषंका बढ़ गई है कि भारतीय संस्कृति और परम्पराओं को बरकरार रखते हुए अबतक उर्दू पत्रकारिता जो एक स्वस्थ समाज की कल्पना के साथ आगे बढ़ रही थी वो बाधित हो सकती है, क्योंकि कारपोरेट घरानों के उर्दू अखबार भी पश्चिमी संस्कृति से प्रभावित नजर आते हैं और अपने पाठकवर्ग के विचारों की अनदेखी करते हुए उनपर एक नयी संस्कृति थोपने का प्रयास किया जा रहा है। वहीं उर्दू के वरिष्ठ पत्रकार ख़ुर्शीद हाशमी कहते है कि मुझे उर्दू पत्रकारिता की दशा और दिशा दोनों गड़बड़ नजर आती है। मेरी नजर में उर्दू पत्रकारिता की हालत आज वैसी ही है जैसी बंदर के हाथ में नारियल की होती है। बंदर नारियल के साथ कब तक खेलेगा, कब उसे पानी में उछाल देगा या कब उसे किसी के सिर पर दे मारेगा, कहना मुश्किल है।
यह स्थिति इसलिए है कि उर्दू पत्रकारिता मुख्यतः आज भी निजी हाथों में हैं। उर्दू पत्रकारिता के भाग्य विधाता वह लोग बने बैठे हैं, जो न उर्दू जानते हैं और न पत्रकारिता का ज्ञान रखते हैं। यह लोग उर्दू पत्र-पत्रिकाओं के मालिक होते हैं। मालिक होने के नाते नीति-निर्धारक से लेकर संपादक और व्यवस्थापक तक सब कुछ यही लोग होते हैं। वे जैसा चाहते हैं, करते हैं। उनकी नजर में पत्रकारों की कोई अहमियत नहीं होती है। वह उन्हें क्लर्क या एजेन्ट के तौर पर इस्तेमाल करते हैं, इसलिए अधिक तेज या पढ़े-लिखे लोग उनको रास नहीं आते, वैसे भी अधिक पढ़े-लिखे लोग महंगे होंगे, और यह लोग चीफ एंड वेस्ट में विश्वास रखते हैं। ऐसी स्थिति में अगर कोई तेज पत्रकार आ भी जाता है तो वह उनकी उपेक्षा का शिकार हो जाता है। उसकी हर बात और हर राय की अनदेखी करके उसे उसकी औकात बता दी जाती है। वे कहते हैं कि हम बिजनेस करने के लिए आये हैं, और बिजनेस कैसे करना है, यह हम जानते हैं, लेकिन वास्तव में वह बिजनेस करना भी नहीं जानते, इसलिए वह उर्दू की सेवा या पत्रकारिता तो करते ही नहीं, ढंग से बिजनेस भी नहीं कर पाते हैं।
श्री हाशमी कहते हैं, उर्दू पत्रकारिता में अब कारपोरेट सेक्टर ने भी पांव पसारना शुरू कर दिया है। वैसे तो वहां भी कुछ समझौते होते हैं और कई बार अयोग्य लोगों को कमान सौंप दी जाती है, जो अपना वर्चस्व बनाये रखने के लिए अपने से भी अधिक अयोग्य लोगों को लाकर पत्रकारिता की कबर खोदने का प्रयास करते हैं, फिर भी निजी हाथों की तुलना में कारपोरेट सेक्टर में स्थिति अच्छी है। मगर समस्या यह है कि कारपोरेट सेक्टर का नाम सुनते ही उर्दू के पाठक भड़क उठते हैं। उन्हें लगता है कि कारपोरेट जगत के अखबार उनकी आवाज मजबूती के साथ नहीं उठा सकते और उनके हितों की रक्षा नहीं कर सकते हैं।
उर्दू के वरिष्ठ पत्रकार और पटना कामर्स कालेज के पत्रकारिता विभाग के काडिनेटर तारिक फातमी का मानना है कि उर्दू पत्रकारिता आज अपने मूल उद्देश्यों से हटकर एक ऐसे रास्ते पर चल पड़ी है जहाँ दूर-दूर तक बेहतर भविष्य के लिए रौशनी की कोई किरण दिखाई नहीं देती है। उर्दू प्रेस के मालिकान उर्दू पत्रकारिता के भविष्य को लेकर चाहे जितने भी आशांवित हों लेकिन दरअसल एक कडवी सच्चाई यह भी है की उर्दू पत्रकारों का भविष्य उस अँधेरे कुँए की तरह है जहाँ से न रौशनी की उम्मीद की जा सकती और न प्यास बुझाने के लिए पानी की, दूसरे शब्दों में कहें तो उर्दू पत्रकार आज अपने भविष्य को लेकर एक अनिश्चितता के स्थिति से गुजर रहा है और अपने भविष्य की इसी अनिश्चिता के कारण वह परेशान भी है। दुखी भी। जो लोग उर्दू पत्रकारिता के स्वर्णिम इतिहास की बातें करते हैं उन्हें यह नहीं भूलना चाहिए की जिन लोगों ने उर्दू पत्रकारिता की नीवं रखी थी उनका उद्देश्य पैसा कमाना नहीं बल्कि समाज और मानवता की सेवा करना था, लेकिन आज स्थिति उलट गई है।
आज उर्दू प्रेस मालिकों का एक मात्र उद्देश्य सरकारी और निजी विज्ञापनों को प्रकाशित करके पैसा कमाना और उर्दू समाचार पत्रों में कार्यरत श्रमजीवी पत्रकारों से बेशर्मी के साथ उनका शोषण करना मात्र है। आप बिहार से प्रकाशित किसी भी उर्दू समाचार पत्रों के कार्यालयों में चाहे वो कौमी तंजीम, फारूकी तंजीम, पिनदार, संगम, प्यारी उर्दू हो या कार्पोरेट जगत द्वारा प्रकाशित रोजनामा उर्दू सहारा, का भ्रमण करे तो आपको वहां कार्यरत पत्रकारों दशा देख कर मेरे दावे की पुष्टि हो जाएगी कौमी तंजीम, के संपादक उर्दू पत्रकारिता के भविष्य को लेकर खुशफहमी के शिकार हैं, सच्चाई यह है की भविष्य उर्दू पत्रकारिता का नहीं उनका जरूर उज्जवल है क्योंकि उर्दू समाचार पत्र के मालिक हैं, वह स्वय पत्रकार नहीं, उन्हें संपादक का पद विरासत में मिला है, उन्होंने कभी चिलचिलाती धूप, कड़कड़ाती सर्दी या भरी बरसात में मीलों पैदल चल कर समाचारों का संकलन नहीं किया। इसलिए उन्हें उस दर्द का एहसास नहीं होगा, जो दो हजार से पांच हजार की पगार पर बारह-बारह घंटों तक दफ्तर में बेगारी करने वाले श्रमजीवी पत्रकारों को होता है।
यही हाल बिहार से प्रकाशित होने वाले सभी दैनिक समाचार पत्रों का है, पिन्दार, फारूकी तंजीम,संगम, इन सभों के वर्तमान मालिकों (तथाकथित संपादकों) का पत्रकारिता से कोई लेना-देना कभी नहीं रहा। इन तथाकथित संपादकों में कोई किरानी की नौकरी करता था तो कोई चिकित्सक है, कोई ठेके पर समाचार पत्र निकाल रहा है, तो कोई कमीशन पर विज्ञापन प्रकाशित करने के लिए समाचार पत्र का संपादक बना बैठा है। जाहिर है जब स्थिति इतनी भयावह हो तो उर्दू पत्रकारिता की दशा और दिशा का सहज ही अंदाजा लगाया जा सकता है। सचाई तो ये है की आज पूरे देश विशेष कर बिहार में उर्दू पत्रकारिता उसी तरह दिशाहीन है जिस तरह देश का अल्पसंख्यक नेतृत्व, जिस तरह अल्पसंख्यक समुदाय आज मुस्लिम नेताओं के हाथों छला जा रहा है उसी तरह तथाकथित संपादकों द्वारा उर्दू पाठक और उर्दू समाचर पत्रों में कार्य करने वाले श्रमजीवी पत्रकारों का शोषण और दोहन जारी है।
बिहार की उर्दू पत्रकारिता आज सत्ता के इर्द -गिर्द घूम रही है । हर समाचार पत्र सरकारी विज्ञापन पाने के लिए वर्तमान सरकार की हर सही-गलत नीतियों का समर्थन करना अपना धर्म और फर्ज समझता है ,पद और सम्मान पाने के लिए उर्दू समाचार पत्रों के कुछ पत्रकार सत्ता के गलियारों में नेताओं के आगे-पीछे दुम हिलाते और चापलूसी करते देखे जा सकते हैं। जाहिर है जब एक पत्रकार पद, पैसा और समाज में प्रतिष्ठा प्राप्त करने के लिए राजनीतिज्ञों के पास अपना आत्मसम्मान गिरवी रख दे तो उस समाचार पत्र या पत्रकार से समाज कल्याण, मानव सेवा, भाषा, देश, राज्य और समाज के विकास में भागीदारी निभाने की आशा करना बेमानी है। देश और विशेष कर बिहार की उर्दू पत्रकारिता में आज जोश ,जज्बा और क्षमता नहीं है कि वह किसी बड़े आन्दोलन की अगवाई कर सके?
दूसरी ओर ‘बिहार की खबरें’ के संपादक अंजुम आलम कहते हैं कि बिहार से सर्वप्रथम प्रकाषित होने वाला पत्र भी उर्दू था। इसके बावजूद इसकी वर्तमान दषा उत्साहवर्द्धक नहीं है। हालांकि अभी भी पटना सहित राज्य से दर्जनों उर्दू दैनिक एवं पचासों पत्रिकायें प्रकाशित हो रही हैं परंतु इनका स्तर उस बुलंदी पर नहीं है, जिसकी उम्मीद की जाती है। बिहार में उर्दू को द्वितीय राजभाषा का भी दर्जा प्राप्त है। उर्दू समाचार पत्रों को राज्य सरकार से विज्ञापन भी मिलता है। सरकारी विज्ञापनों के कारण उर्दू समाचार पत्रों की आर्थिक स्थिति सम्पन्न नहीं तो संतोषजनक अवश्य है। इसके बावजूद उर्दू पत्रकारों की आर्थिक स्थिति अच्छी नहीं है।
परिणाम स्वरूप युवा पीढ़ी उर्दू पत्रकारिता की ओर आकर्षित नहीं हो रही है। इस कारण आने वाले दिनों में उर्दू समाचार पत्रों को संकटमय स्थिति का सामना करना पड़ सकता है। अखबार मालिकों को इस ओर विशेष ध्यान देने की आवश्यकता है। श्री अंजुम आलम कहते है कि स्वतंत्रता के बाद से गुलाम सरवर, शीन मुजफ्फरी, शाहिद राम नगरी इत्यादि उर्दू पत्रकारों, जो मील का पत्थर छोड़ा था वहां तक आज कोई नहीं पहुंच पाया है। मौजूदा उर्दू पत्रकारिता जगत में आज भी कई अच्छे पत्रकार सक्रिय हैं। परंतु, उनकी दशा से नई नस्ल प्रभावित नहीं हो पा रही है। आज का युवा वर्ग इसे करियर के रूप में अपनाने का इच्छुक नजर नहीं आ रहा है। उर्दू में अभी बिहार से कई रंगीन एवं आकर्षक उर्दू समाचार पत्र प्रकाशित हो रहे हैं लेकिन सीमित समाचार नेटवर्क का अभाव पाठकों को खटकता है। उर्दू समाचार पत्र सामान्यतः आम लोगों द्वारा प्रकाशित होते थे। परंतु हाल के वर्षों में सहारा इंडिया ने इस क्षेत्र में भी कदम रखा है।
उर्दू के वरिष्ठ पत्रकार राशिद अहमद का मानना है कि भारत की राजनीति विशेष रूप से स्वतंत्रता संग्राम में अदम्य भूमिका निभाने वाली उर्दू पत्रकारिता आज हिन्दी और अंग्रेजी की तुलना में पिछड़ गई है। यह एक कटु सत्य है मगर यह भी सच है कि जहां एक ओर इसके पिछड़ेपन की बात में कहानी और कल्पना अधिक है वहीं इसके पिछड़ेपन के आयाम भी विचारनीय हैं। उर्दू पत्रकारिता का पिछड़ापन पत्रकारिता के मूल तत्व से जुड़ा हुआ नहीं है क्योंकि अगर मुद्दों और सामाजिक सरोकारों की बात करें, तो समय की मांग और समस्या के मूल्यांकन में यह पीछे नहीं रही, तुलनात्मक अध्ययन करते समय कुछ बातों की अनदेखी की जाती है, जिसके कारण नतीजा गलत निकलता है।
समाचार पत्र के सरोकारों का सीधा नाता उसके पाठकवर्ग से होता है। समाज की विस्तृत तस्वीर पेश करने के साथ-साथ समाचार पत्र और उससे जुड़े पत्रकार उस पूरे फ्रेम में अपने पाठक के स्थान तलाश करते हैं और उचित स्थान न मिल पाने के कारण और उससे जुड़ी समस्याओं का मूल्यांकन करते हैं। अंग्रेजी हिन्दी पत्रकारिता का विश्लेषण करते समय तो पाठक तत्व का विशेष ध्यान रखा जाता है मगर उर्दू पत्रकारिता के विश्लेषण के समय उसके पाठक तत्व को अनदेखा करके उसे उर्दू और हिन्दी के पाठक तत्व की कसौटी पर परखा जाता है। कहने का मतलब केवल इतना है कि उर्दू पत्रकारिता की बदहाली मुद्दों और सरोकारों से दूर रहने की नहीं है बल्कि आर्थिक पिछड़ेपन की कहानी है।
समाचार पत्र का अर्थ विज्ञापन से जुड़ा हुआ है। मगर उर्दू समाचार पत्रों को हमेशा विज्ञापन के लिए जद्दोजहद करनी पड़ती है। संघर्षरत रहना पड़ता है। विज्ञापन सरकारी हो या गैर सरकारी। व्यापारी भी उर्दू पाठक को अपना उपभोक्ता तो जरूरत समझते हैं। उसके हाथ अपना सामान अधिक से अधिक बेचने का प्रयास तो जरूर करते हैं। मगर उन तक पहुंचने का रास्ता वह उर्दू समाचार पत्र के स्थान पर दूसरी भाषाओं के समाचार पत्रों में तलाश करते हैं। यह मानना होगा कि आर्थिक तंगी के कारण नई तकनीक अपनाने में उर्दू पत्रकारिता पिछड़ जाती है। वह नए प्रयास नहीं कर पाती, यह भी सही है कि आर्थिक तंगी के कारण उर्दू समाचार पत्र अपने पत्रकारों को उतनी और सुविधायें नहीं दे पाते जितना हिन्दी और अंग्रेजी पत्रकारों को मिलती है। इस ओर भी ध्यान देने की आवश्यकता है।
वरिष्ठ उर्दू पत्रकार इमरान सगीर कहते है शुरूआती दौर में उर्दू अखबारों को यह गौरव हासिल था कि उर्दू अखबार के संपादक या पाठक किसी विशेष वर्ग के नहीं हुआ करते थे, बल्कि यह पूरे तौर से सामान्य वर्ग के लिए था। लेकिन समय के साथ-साथ परिवर्तन यह हुआ कि उर्दू अखबार एक विशेष वर्ग तक सीमित होने लगा। ये उर्दू पत्रकारिता के लिए सबसे दुर्भाग्यपूर्ण है। आज हिन्दी और अंग्रेजी पत्रकारिता में बड़ी क्रांति आयी है, लेकिन इसकी अपेक्षा उर्दू पत्रकारिता को उतनी गति नहीं मिल पा रही है। हिन्दी और अंग्रेजी समाचार-पत्रों की तुलना में आधुनिक तकनीक को अपनाने में अब भी उर्दू अखबरात संघर्षरत हैं, इसका कारण स्पष्ट है कि सरकारी स्तर पर इसे अपेक्षाकृत सहयोग नहीं मिल पाता वहीं निजी या व्यवसायिक विज्ञापनों से भी उर्दू समाचार-पत्रों को उतनी आमदनी नहीं हो पाती जिससे की आर्थिक रूप से संपन्न हो सकें।
इन सबके बावजूद सीमित संसाधनों में उर्दू अखबरात सकारात्मक सोच के साथ उर्दू पत्रकारिता के सफर को आगे बढ़ा रहे हैं। उर्दू अखबरात की सबसे बड़ी खूबी ये है कि ये आम आदमी का अखबार होने का धर्म निभाते हैं। हिन्दी या अंग्रेजी समाचार-पत्रों तक आम लोगों की पहुंच आसान नहीं हो पाती, वहीं उर्दू अखबार तक समाज में हाशिये पर खड़ा व्यक्ति की भी आसानी से पहुंच सकता है। अर्थात् समाज का कोई व्यक्ति उर्दू अखबारों से बिल्कुल जुड़ा हुआ महसूस करता है। ये उर्दू अखबारों की लोकप्रियता का बड़ा कारण है। उर्दू अखबारों की विश्वसनीयता और महत्ता इसके पाठक वर्ग में इसे लेकर भी है, कि ये उनके साथ होने वाली किसी भी स्तर पर नाइंसाफी की आवाज प्रमुखता से उठाते हैं, ऐसी खबरों को प्रमुखता से सामने लाते हैं, जिन्हें भेदभाव के नतीजे में अंग्रेजी या हिन्दी समाचार-पत्रों में या तो जगह नहीं दी जाती या फिर उन्हें तोड़-मरोड़कर संक्षेप में किसी कोने में जगह दी जाती है। ऐसे में उर्दू समाचार पत्र ही उनकी उत्सुकता दूर कर पाते हैं।
आज के आधुनिक युग में दूर-दराज के ग्रामीण क्षेत्रों में जहां लोगों को उर्दू अखबार नहीं मिल पाता, वैसे गांव के लोग अब भी उर्दू अखबार के दफ्तर से डाक के माध्यम से अखबार मंगाते हैं, और दो-तीन दिन पुरानी ही सही लेकिन इसे पढ़ना जरूर पसंद करते हैं। डाक से अखबार मंगा का कर पढ़ने का शौक उर्दू अखबारों की अहमियत का एक बड़ा उदाहरण है। ऐसे में उर्दू पत्रकारिता का भविष्य उज्ज्वल ही कहा जायेगा।
उर्दू पत्रकारिता में महिलाएं नहीं के बराबर है। बल्कि उर्दू पत्रकारिता से कोसो दूर है। स्वतंत्र उर्दू पत्रकार डा0 सुरैया जबीं कहती है कि पत्रकारिता के क्षेत्र में नई क्रांति तो आयी अंग्रेजी और हिन्दी समाचार-पत्रों की तुलना में न सही लेकिन उर्दू पत्रकारिता में भी क्रांति आयी है। बड़ी संख्या में उर्दू समाचार-पत्र नये रंग-रूप में प्रकाशित किये जा रहे हैं। जहां आधुनिक तकनीक का प्रयोग भी हो रहा है। समाचारों की प्रस्तुति में सीमित दायरे से बाहर निकलकर अब उर्दू अखबारों में भी सामान्य खबरें पढ़ने को मिलती हैं। अलग-अलग विषयों पर साप्ताहिक विशेषांक भी प्रकाशित होते हैं, और अंग्रेजी और हिन्दी समाचार-पत्रों की तरह खुद को स्थापित कर रहे हैं।
यह उर्दू पत्रकारिता के लिए एक शुभ संकेत हैं। पहले उर्दू अखबारों में खबरों का दायरा बिल्कुल सीमित था। वर्तमान में उर्दू पत्रकारिता के लिए एक दुर्भाग्यपूर्ण बात ये भी है कि बिहार की उर्दू प्रिंट मीडिया में महिलाओं की भागीदारी न के बराबर है, क्योंकि उर्दू अखबारों में महिला मीडियाकर्मियों को इन्ट्री नहीं मिल पाती, आज कालेजों में उर्दू पत्रकारिता में डिप्लोमा कोर्स भी चलाये जा रहे हैं। उर्दू पत्रकारिता में डिप्लोमा प्राप्त करने वालों में बड़ी संख्या छात्राओं की भी है, लेकिन इन्हें भी उर्दू अखबारों के दफ्तरों में इन्ट्री नहीं मिल पा रही है। उर्दू पत्रकारिता की सेवा से महिलाओं की दूरी अब भी कायम है, ये दुर्भाग्यपूर्ण है और ये दूरी मिटनी चाहिए।
बिहार हो या देश का कोई हिस्सा उर्दू पत्रकारिता की दशा-दिशा को प्रभावित करने वाले कारणों पर उर्दू पत्रकारों ने जो विचार दिये वह सवाल छोड़ जाते हैं। उर्दू पत्रकारिता की बदहाली के पीछे आर्थिक तंगी, भाषा, कारपोरेट घराना और पश्चिमी संस्कृति के प्रभाव जहां महत्वपूर्ण हैं वहीं पर राजनीतिक-सामाजिक कारण भी अहम है। बिहार में उर्दू दूसरी राजभाषा होने के बावजूद शुरूआती दौर की तरह आज यह अपने शिखर पर नहीं है। इसके सिमट जाने से उर्दू एक वर्ग/समुदाय तक ही रह गयी है। शुरूआती दौर में यह किसी एक वर्ग/समुदाय तक ही समीति नहीं थी बल्कि गैरमुस्लिम विद्वान उर्दू समाचार पत्रों के संपादन किया करते थे। आज ढूंढ़ने पर भी गैरमुस्लिम विद्वान नहीं मिलेगें जो उर्दू के अखबारों का संपादन करते हो ? इसके पीछे वजह जो भी रही हो एक वजह साफ है कि उर्दू को मुसलमनों की भाषा से जोड़ कर देखा गया। बिहार में उर्दू दूसरी राजभाषा होने के बावजूद भी उर्दू अखबार गैरमुस्लिम घरों में नहीं जाता है।
लेखक संजय कुमार आकाशवाणी, पटना में समाचार संपादक के रूप में कार्यरत हैं. उनसे संपर्क sanju3feb@gmail.comThis e-mail address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it या 09934293148 के जरिए किया जा सकता है.
Monday, May 23, 2011
नीतीश, लालू और बिहार का विकास
वर्तमान में बिहार का जिक्र आने पर जो परिदृश्य उभरकर सामने आता है, उसमें राजधानी पटना की उंची इमारतें, चकाचक रोड, भीड़ के कोलाहल से गुंजायमान डाकबंगला रोड, देर रात तक गुलजार रहने वाला मौर्यालोक परिसर, मुख्यमंत्री, मंत्रियों एवं अधिकारियों के आलीशान बंगले और फ़िर 24 घंटे में कम से कम 22 घंटे बिजली रहने की गारंटी। यानि सबकुछ ठीक ठाक्। जब भी कोई विदेशी मेहमान आता है, पटना को देखता है और फ़िर मुख्यमंत्री नीतीश कुमार के नाम का जयकारा लगाता है। अगले दिन बिहार के अखबार वाले इस जयकारे में अपनी चमचागिरी का तड़का लगाकर बिहार की बेहाल जनता के सामने खबर परोसते हैं। यह खबर कैसी होती है, इसका एक उदाहरण देखिये।
अभी हाल ही में माइक्रोसाफ़्ट के मालिक बिल गेट्स और उनकी पत्नी मिलिंडा गेट्स बिहार आई थीं। दोनों ने बिहार के उन गावों का दौरा किया, जिन्हें, उनके चैरिटी संस्थान गेट्स फ़ाऊंडेशन ने गोद ले रखा है। जब श्री गेट्स ने गोद लिये गये गावों में चल रहे कार्यक्रमों की समीक्षा कर ली, तब पूर्व से तय कार्यक्रम के अनुसार उन्होंने सूबे के मुख्यमंत्री नीतीश कुमार से भेंट की। इस बैठक में श्री गेट्स ने मुख्यमंत्री से शिकायती लहजे में कहा था कि राज्य की स्वास्थ्य संबंधी आधारभूत संरचना अत्यंत दयनीय है। प्रेस कर्मियों से पूछे गये एक सवाल के क्रम में उन्होंने कहा था कि – बिहार इज स्टील बिहाइन्ड सेंचुरिज। यानि बिहार अभी भी विकास के मामले में कई शताब्दियां पीछे है।
अगले दिन जब खबर छपी तो, पुछिये मत। शायद ही कोई ऐसा अखबार रहा होगा, जिसने श्री गेट्स के इस बयान को छापा हो। सभी ने कहा – गेट्स सैल्यूटेड नीतीश फ़ार फ़ास्ट डेवलपमेंट आफ़ बिहार। वास्तविकता क्या थी और अखबारों ने क्या छापा, इसका अंदाज तो आसानी से लग जाता है। खैर, बात हो रही है बिहार के विकास की।
असल में बिहार सरकार के मुखिया नीतीश कुमार बहुत ही तेज दिमाग के मालिक हैं। तेज इसलिये हैं क्योंकि बिहार की जनता में एकता नहीं है। इसकी हालत बिल्कुल उन बकरों की तरह है, जिनका एक साथी मांस विक्रेता द्वारा हलाल किया जा रहा हो और वे इस बात को सोचकर मगन हों कि अभी उनकी बारी नहीं आई है। अगर यकीन न आये तो दो दिनों के लिये पहले पटना में रह लिजीये और फ़िर दो दिनों के लिये आप लखीसराय या फ़िर कोई भी जिला चुन लिजीये, चले जाइये। पटना के निवासियों को इस बात से कोई मतलब नहीं है कि कटिहार जिले में क्यों केवल 2 घंटे बिजली है ? उसी प्रकार किसी खाते पीते घर को इस बात से कोई मतलब नहीं है कि उसका पड़ोसी क्यों भूखा है? जब कोई भूख से मर जाता है तो वह सोचता है कि चलो, अच्छा हुआ, कोई उसके घर का नहीं मरा न?
बक्सर, रोहतास, औरंगाबाद और आरा के किसानों की तकलीफ़ कोई मिथिलांचल वाले नहीं समझना चाहते हैं कि आखिर क्यों सोन कैनाल में पानी नहीं दिया जा रहा है? उसी प्रकार मगध का वासी यह जानने की कोशिश भी नहीं करता कि कोशी 2008 के पीड़ितों का मकान बना या नहीं बना? ये तो बहुत दूर की बात रही। आज का बिहारी समुदाय किस कदर स्वार्थी हो गया है कि जब कोई व्यक्ति किसी कारणवश बेखौफ़ हो चुके अपराधियों की गोली का शिकार होता है तो वह सोचता है कि जरूर उसने भी किसी का खून किया होगा, तभी वह मारा गया। अभी एक दिन पहले ही राजधानी पटना के फ़ुलवारी प्रखंड में एक वार्ड पार्षद रेखा की हत्या गैंगरेप के बाद कर दी गई। जानते हैं, उसके अपने आस पड़ोस के लोगों ने क्या कहा। लोगों ने कहा कि बड़ा बनती थी, अब चली गई न दूनिया से।
सवाल यह है कि आखिर क्यों बिहारी इतने असंवेदनशील होते जा रहे हैं। सरकार कहती है कि उसके विकास कार्यक्रमों ने जातिवाद की दीवार को ढाह दिया है। इसका प्रमाण वह बिहार विधान सभा चुनाव परिणाम को देती है। वैसे इस बात में कोई दम नहीं है। इसका सबसे बड़ा आधार यही है कि भूमिहार समाज में ही अनंत सिंह के स्थान पर बड़े से बड़े दिग्गज और इंसान बिहार में निवास करते हैं। यदि बिहार सरकार जातिवाद नहीं करती तो आज पटना के सीनियर एसपी और डीएम दोनों जाति के कुर्मी नहीं होते।
दरअसल नीतीश कुमार बिहार में विकास शब्द की आड़ में सुशासन नहीं, बल्कि लूट का शासन चला रहे हैं। इसका सबसे बड़ा प्रमाण यह कि आज बिहार में त्रिस्तरीय लूट व्यवस्था कायम हो गई है। पहले मुख्यमंत्री, मंत्री और राजधानी में बैठे अफ़सर लूटते हैं, फ़िर बारी आती है जिले और प्रखंड में बैठे अफ़सरों की। इन महानुभावों के लूटने के बाद जो धनराशि बचती है, उस पर पंचायती राज के प्रतिनिधियों और ठेकेदारों का अधिकार बनता है। अभी हाल ही में एक संवाददाता सम्मेलन में राज्य निर्वाचन आयोग के आयुक्त जे के दत्ता ने कहा कि उन्होंने राज्य सरकार को आयोग की ओर से दी गई अनुशंसा में स्पष्ट तौर पर उल्लेखित किया है कि मुखिया को वित्तीय शक्ति देने से पंचायती राज व्यवस्था तार तार हुई है।
सवाल यही है कि आखिर जब विकास हुआ है अथवा हो रहा है फ़िर भी इतनी खामियां क्यों हैं। सत्तापक्ष के नेताओं द्वारा यह कहा जाता है कि सूबे में 15 सालों के जंगलराज के दुष्प्रभाव को जाने में समय लगेगा। गाहे-बेगाहे सत्ता पक्ष के बिहार की बदहाली के लिए लालू राज पर दोषारोपण करते हैं। क्या वाकई में इन सबके लिये लालू राज जिम्मेवारी है कि पिछले 3 माह में राजधानी पटना में 38 युवाओं ने आत्महत्यायें कर लीं? क्या इसके लिये भी लालू ही जिम्मेवार हैं कि पिछले साढे पांच सालों में 1 लाख 99 हजार करोड़ रुपये के निवेश के बदले केवल 2000 करोड़ रुपये का निवेश हुआ है? क्या इसके लिये लालू यादव को दोषी ठहराया जा सकता है कि बिहार के विभिन्न विभागों द्वारा करीब साढे सोलह हजार करोड़ रुपये के खर्चे का हिसाब नहीं दिया गया है, जिसे सीएगी की नजर में वित्तीय अनियमितता और आम आदमी की नजर में घोटाला कहा जाता है?
बहरहाल, नीतीश सरकार पर कोई सवाल उठता है तब सत्ता पक्ष के लोग बिहार की जनता को लालू राज का भय दिखाकर अथवा याद दिलाकर पूरे मुद्दे का राजनीतिकरण कर देते हैं। इसका एक प्रमाण यह देखिये कि बिहार सरकार में शामिल रहे रामाधार सिंह की तुलना लालू यादव से कर सुशील कुमार मोदी ने अपनी निम्न मानसिकता का परिचय दिया है। जबकि अभी भी बिहार सरकार में चार मंत्री ऐसे हैं, जिनके खिलाफ़ घोटाले के मामले लंबित पड़े हैं। इनमें से एक हमारे सूबे के मुख्यमंत्री नीतीश कुमार भी हैं। सवाल यही है कि क्या नीतीश सरकार लालू नाम के सहारे बिहार की जनता को दिग्भ्रमित करने में सफ़ल रह पायेगी? वर्तमान परिवेश में संभव है कि इसका उत्तर सकारात्मक है, क्योंकि अभी भी समाज का जो वर्ग वोकल है, वह किसी न किसी रुप में नीतीश सरकार के सोशल इंजीनियरिंग से लाभान्वित है और उसके लिये तो घटिया कंपनी के द्वारा उत्पादित जैक आपूर्ति पर मुहर लगाकर करोड़ों लोगों की जिंदगी से खिलवाड़ करने वाले नीतीश कुमार किसी महापुरुष से कम नहीं। खैर, अब इनके दिन भी लदने वाले हैं। बस थोड़ा इंतजार और।
अभी हाल ही में माइक्रोसाफ़्ट के मालिक बिल गेट्स और उनकी पत्नी मिलिंडा गेट्स बिहार आई थीं। दोनों ने बिहार के उन गावों का दौरा किया, जिन्हें, उनके चैरिटी संस्थान गेट्स फ़ाऊंडेशन ने गोद ले रखा है। जब श्री गेट्स ने गोद लिये गये गावों में चल रहे कार्यक्रमों की समीक्षा कर ली, तब पूर्व से तय कार्यक्रम के अनुसार उन्होंने सूबे के मुख्यमंत्री नीतीश कुमार से भेंट की। इस बैठक में श्री गेट्स ने मुख्यमंत्री से शिकायती लहजे में कहा था कि राज्य की स्वास्थ्य संबंधी आधारभूत संरचना अत्यंत दयनीय है। प्रेस कर्मियों से पूछे गये एक सवाल के क्रम में उन्होंने कहा था कि – बिहार इज स्टील बिहाइन्ड सेंचुरिज। यानि बिहार अभी भी विकास के मामले में कई शताब्दियां पीछे है।
अगले दिन जब खबर छपी तो, पुछिये मत। शायद ही कोई ऐसा अखबार रहा होगा, जिसने श्री गेट्स के इस बयान को छापा हो। सभी ने कहा – गेट्स सैल्यूटेड नीतीश फ़ार फ़ास्ट डेवलपमेंट आफ़ बिहार। वास्तविकता क्या थी और अखबारों ने क्या छापा, इसका अंदाज तो आसानी से लग जाता है। खैर, बात हो रही है बिहार के विकास की।
असल में बिहार सरकार के मुखिया नीतीश कुमार बहुत ही तेज दिमाग के मालिक हैं। तेज इसलिये हैं क्योंकि बिहार की जनता में एकता नहीं है। इसकी हालत बिल्कुल उन बकरों की तरह है, जिनका एक साथी मांस विक्रेता द्वारा हलाल किया जा रहा हो और वे इस बात को सोचकर मगन हों कि अभी उनकी बारी नहीं आई है। अगर यकीन न आये तो दो दिनों के लिये पहले पटना में रह लिजीये और फ़िर दो दिनों के लिये आप लखीसराय या फ़िर कोई भी जिला चुन लिजीये, चले जाइये। पटना के निवासियों को इस बात से कोई मतलब नहीं है कि कटिहार जिले में क्यों केवल 2 घंटे बिजली है ? उसी प्रकार किसी खाते पीते घर को इस बात से कोई मतलब नहीं है कि उसका पड़ोसी क्यों भूखा है? जब कोई भूख से मर जाता है तो वह सोचता है कि चलो, अच्छा हुआ, कोई उसके घर का नहीं मरा न?
बक्सर, रोहतास, औरंगाबाद और आरा के किसानों की तकलीफ़ कोई मिथिलांचल वाले नहीं समझना चाहते हैं कि आखिर क्यों सोन कैनाल में पानी नहीं दिया जा रहा है? उसी प्रकार मगध का वासी यह जानने की कोशिश भी नहीं करता कि कोशी 2008 के पीड़ितों का मकान बना या नहीं बना? ये तो बहुत दूर की बात रही। आज का बिहारी समुदाय किस कदर स्वार्थी हो गया है कि जब कोई व्यक्ति किसी कारणवश बेखौफ़ हो चुके अपराधियों की गोली का शिकार होता है तो वह सोचता है कि जरूर उसने भी किसी का खून किया होगा, तभी वह मारा गया। अभी एक दिन पहले ही राजधानी पटना के फ़ुलवारी प्रखंड में एक वार्ड पार्षद रेखा की हत्या गैंगरेप के बाद कर दी गई। जानते हैं, उसके अपने आस पड़ोस के लोगों ने क्या कहा। लोगों ने कहा कि बड़ा बनती थी, अब चली गई न दूनिया से।
सवाल यह है कि आखिर क्यों बिहारी इतने असंवेदनशील होते जा रहे हैं। सरकार कहती है कि उसके विकास कार्यक्रमों ने जातिवाद की दीवार को ढाह दिया है। इसका प्रमाण वह बिहार विधान सभा चुनाव परिणाम को देती है। वैसे इस बात में कोई दम नहीं है। इसका सबसे बड़ा आधार यही है कि भूमिहार समाज में ही अनंत सिंह के स्थान पर बड़े से बड़े दिग्गज और इंसान बिहार में निवास करते हैं। यदि बिहार सरकार जातिवाद नहीं करती तो आज पटना के सीनियर एसपी और डीएम दोनों जाति के कुर्मी नहीं होते।
दरअसल नीतीश कुमार बिहार में विकास शब्द की आड़ में सुशासन नहीं, बल्कि लूट का शासन चला रहे हैं। इसका सबसे बड़ा प्रमाण यह कि आज बिहार में त्रिस्तरीय लूट व्यवस्था कायम हो गई है। पहले मुख्यमंत्री, मंत्री और राजधानी में बैठे अफ़सर लूटते हैं, फ़िर बारी आती है जिले और प्रखंड में बैठे अफ़सरों की। इन महानुभावों के लूटने के बाद जो धनराशि बचती है, उस पर पंचायती राज के प्रतिनिधियों और ठेकेदारों का अधिकार बनता है। अभी हाल ही में एक संवाददाता सम्मेलन में राज्य निर्वाचन आयोग के आयुक्त जे के दत्ता ने कहा कि उन्होंने राज्य सरकार को आयोग की ओर से दी गई अनुशंसा में स्पष्ट तौर पर उल्लेखित किया है कि मुखिया को वित्तीय शक्ति देने से पंचायती राज व्यवस्था तार तार हुई है।
सवाल यही है कि आखिर जब विकास हुआ है अथवा हो रहा है फ़िर भी इतनी खामियां क्यों हैं। सत्तापक्ष के नेताओं द्वारा यह कहा जाता है कि सूबे में 15 सालों के जंगलराज के दुष्प्रभाव को जाने में समय लगेगा। गाहे-बेगाहे सत्ता पक्ष के बिहार की बदहाली के लिए लालू राज पर दोषारोपण करते हैं। क्या वाकई में इन सबके लिये लालू राज जिम्मेवारी है कि पिछले 3 माह में राजधानी पटना में 38 युवाओं ने आत्महत्यायें कर लीं? क्या इसके लिये भी लालू ही जिम्मेवार हैं कि पिछले साढे पांच सालों में 1 लाख 99 हजार करोड़ रुपये के निवेश के बदले केवल 2000 करोड़ रुपये का निवेश हुआ है? क्या इसके लिये लालू यादव को दोषी ठहराया जा सकता है कि बिहार के विभिन्न विभागों द्वारा करीब साढे सोलह हजार करोड़ रुपये के खर्चे का हिसाब नहीं दिया गया है, जिसे सीएगी की नजर में वित्तीय अनियमितता और आम आदमी की नजर में घोटाला कहा जाता है?
बहरहाल, नीतीश सरकार पर कोई सवाल उठता है तब सत्ता पक्ष के लोग बिहार की जनता को लालू राज का भय दिखाकर अथवा याद दिलाकर पूरे मुद्दे का राजनीतिकरण कर देते हैं। इसका एक प्रमाण यह देखिये कि बिहार सरकार में शामिल रहे रामाधार सिंह की तुलना लालू यादव से कर सुशील कुमार मोदी ने अपनी निम्न मानसिकता का परिचय दिया है। जबकि अभी भी बिहार सरकार में चार मंत्री ऐसे हैं, जिनके खिलाफ़ घोटाले के मामले लंबित पड़े हैं। इनमें से एक हमारे सूबे के मुख्यमंत्री नीतीश कुमार भी हैं। सवाल यही है कि क्या नीतीश सरकार लालू नाम के सहारे बिहार की जनता को दिग्भ्रमित करने में सफ़ल रह पायेगी? वर्तमान परिवेश में संभव है कि इसका उत्तर सकारात्मक है, क्योंकि अभी भी समाज का जो वर्ग वोकल है, वह किसी न किसी रुप में नीतीश सरकार के सोशल इंजीनियरिंग से लाभान्वित है और उसके लिये तो घटिया कंपनी के द्वारा उत्पादित जैक आपूर्ति पर मुहर लगाकर करोड़ों लोगों की जिंदगी से खिलवाड़ करने वाले नीतीश कुमार किसी महापुरुष से कम नहीं। खैर, अब इनके दिन भी लदने वाले हैं। बस थोड़ा इंतजार और।
Sunday, May 22, 2011
اخلاقی زوال کے شکار ذرائع ابلاغ
سادہ الفاظ میں خبروں کے جمع کرنے، لکھنے اور ان کو نشر یا شائع کرنے کے نظام یا شعبے کا نام صحافت یا میڈیا ہے۔ ذرا وسیع معنوں میں وہ قرا ¿تی، سمعی اور بصری ذرائع جن کے ذریعے حادثات و واقعات، مسائل اور رجحانات و میلانات کے بارے میں معلومات اکٹھی کی جاتی ہیں` ان کی سند اور صداقت کے بارے میں تحقیق کی جاتی ہے اور پھر ان کو اخبارات و رسائل، ریڈیو، ٹی وی یا انٹرنیٹ پر نشر کیا جاتا ہے، میڈیا کی تعریف میں آتے ہیں۔ موجودہ دور میں نیوز میڈیا کا دائرہ اتنی وسعت حاصل کرچکا ہے کہ اطلاعات و معلومات اور آراءوافکار کو عوام تک پہنچانے کا یہ واحد ذمہ دار یا ٹھیکے دار بن گیا ہے۔ لفظ میڈیا کے رواجِ عام سے پہلے اس نظام کے لیے اردو میں صحافت اور انگریزی میں Journalism کی اصطلاح عام تھی جو فرانسیسی زبان کے Journal اور لاطینی زبان کے Diurnal سے ماخوذ تھی، جس کا مطلب روزنامہ ہے۔ قدیم روم میں
Acta Diuma The ہاتھ سے لکھے ہوئے خبری بلیٹن کو کہا جاتا تھا جو کسی اہم پبلک مقام پر رکھ یا پہنچا دیا جاتا تھا اور لوگ وہاں جمع ہوکر اسے پڑھتے اور اس دن کی تازہ خبر سے آگاہ ہوتے تھے۔ یہ گویا دنیا کا پہلا اخبار تھا۔ لیکن انگریزی زبان کا پہلا اخبار Daily Courant مانا جاتا ہے جو 1702ءسے 1735ءتک شائع ہوتا رہا۔ اقرائی ذرائع میں کبھی صرف کتابیں، رسالے اور اخبارات شامل تھے، فلم اور ڈرامے نے سمعی اور بصری پہلو کا اضافہ کیا اور اسے ایک نئی جہت بخشی۔ آج انٹرنیٹ کا جن بوتل سے نکل کر ان سب پر چھا گیا ہے، اس نے لوگوں کی توجہ جرائد و کتب سے ہٹادی ہے۔ گزشتہ ایک ڈیڑھ عشرے سے مطالعہ کے ذوق اور سرگرمی پر جو دھند گہری ہوئی جارہی ہے اسی بوتل کا دھواں ہے جس سے یہ جن نکلا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں انٹرنیٹ ایجاد ہوا اور اس کا سب سے پہلے اور سب سے زیادہ استعمال شروع ہوا وہاں تو کتاب خوانی کے رجحان میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ ہر ماہ ہی نہیں ہر ہفتے کسی نہ کسی موضوع پر کوئی کتاب چھپتی ہے اور Seller Best کا درجہ پاکر لاکھوں قارئین کے ہاتھوں میں اور مطالعہ کی میز پر پہنچ جاتی ہے، لیکن ہماری نگاہیں انٹرنیٹ سے ایسی خیرہ ہوئی ہیں کہ اس کے سوا کچھ اور سجھائی ہی نہیں دے رہا ہے۔ اخبارات اور رسائل کے بعد ریڈیو میڈیا کا حصہ بنا۔ اس سے حالات و حوادث سے آگہی اور تفریح کے امکانات میں اور وسعت آئی۔ ہمارے ہاں 1970 کے عشرے میں بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی کی آمد ہوئی۔ پھر رنگین ٹی وی نے آکر واقعات و شخصیات کو متحرک اور Live حالت میں ناظرین کے سامنے پیش کرنا شروع کیا تو اس کے اثرات کا دائرہ اور زیادہ پھیل گیا۔ اب واقعات محض خبروں کی صورت میں نہیں بلکہ اپنی اصلی صورت میں نگاہوں کے سامنے آنے لگے۔ اس وقت سمعی اور بصری ذرائع ابلاغ کی برادری میں ایک اور رکن یعنی موبائل فون کا اضافہ بھی ہوچکا ہے۔ میڈیا کا دائرہ ¿ کار یا ذمہ داری میڈیا کی ذمہ داریوں میں معروضی انداز میں خبر دینا، حالات سے باخبر رکھنا، واقعات کے پس منظر پر روشنی ڈالنا، حقائق کی تہہ تک پہنچنا، انسانی معلومات سے تھوڑا آگے جاکر اس کے شعور کو بیدار کرنا، ایک خاص نہج پر رائے سازی اور معاشرتی تقاضوں کے مطابق لوگوں کے رویوں اور رجحانات کی تعمیر ( Trend Setting) کرنا شامل ہیں۔ جدید دور کے میڈیا نے خبر دینے کے ساتھ خبر لینے کو بھی اپنے مقاصد میں شامل کرلیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میڈیا جہاں ہر طبقے، ہر گروہ اور ہر سیاسی پارٹی، مذہبی جماعت اور سماجی تنظیم کی سرگرمیوں کی معروضی انداز میں خبریں دیتا ہے وہاں وہ عوامی نمائندگی کرتے ہوئے ان جماعتوں اور تنظیموں اور گروہوں کی غلطیوں اور کوتاہیوں پر ان کا مواخذہ اور محاسبہ بھی کرتا ہے تاکہ ان کی کوئی پالیسی اور سرگرمی قومی مفاد اور سماجی بہبود کے منافی نہ ہو۔ میڈیا کی اسی اہمیت کے باعث اس کو جمہوری نظام کا اہم ترین ستون شمار کیا جاتا ہے۔ ان مقاصد کو سامنے رکھا جائے تو میڈیا کا کردار بڑا مقدس نظر آتا ہے۔ جس طرح ناولوں اور ڈراموں میں برائی اور اچھائی کی کشمکش میں برائی کو اس انداز میں پیش کیا جاتا تھا کہ پڑھنے والوں کے دل میں ہیرو سے عقیدت اور ہمدردی پیدا ہوجاتی تھی اور ولن شر و فساد کا نمائندہ بن کر سامنے آتا اور اس سے نفرت کے جذبات ابھرتے تھے۔ قارئین فطری طور پر ہیرو کی فتح اور ولن کی ذلت و رسوائی کی تمنا کرتے اور اس کے روپ میں مجسم باطل کو کیفر کردار تک پہنچا ہوا دیکھنا چاہتے تھے، عین اسی طرح میڈیا پر کرپٹ اور گھٹیا ذہنیت و اخلاق کے سیاستدانوں، بگاڑ اور فساد کی قوتوں اور معاشرے میں پھیلے ہوئے دیگر تخریبی عناصر کو بے نقاب کرکے ان کو انجام تک پہنچانے کی مہم خیر اور بھلائی کے غلبے کی مہم چلانے کی ذمہ داری ہے۔ قومی ذمہ داری کے اعتبار سے ملک و قوم کی اساسات سے ہم آہنگ اعتقادات، نظریات و افکار اور تعمیری رجحانات و میلانات کو فروغ دینا میڈیا کا اصل کام سمجھا جاتا ہے۔ جس طرح ایک استاد سے یہ توقع کرنا بعید ازامکان ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کو برائی کی تعلیم دے گا اور جرائم کا عادی بنائے گا اسی طرح میڈیا کے بارے میں یہ سوچنا انوکھی بات سمجھی جاتی تھی کہ وہ ان اخلاقی رویوں اور افکار و معتقدات کا پرچار کرے گا جو قومی مقاصد سے متصادم ہوں۔ جو معیارات و اصول اب قصہ ¿ پارینہ ہیں ایک وقت تھا، جب ایک مشن کے سوا میڈیا کا کوئی اور کردار تصور میں ہی نہیں آسکتا تھا۔ ہمارے ماضی قریب کی تاریخ میں سامراج سے آزادی کی جدوجہد کو ا ±س وقت کے پرنٹ میڈیا کا سب سے بڑا جہاد سمجھا جاتا تھا۔ مولانا ظفر علی خان، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد اور ایسی ہی دیگر شخصیات کا قلمی جہاد وہ وقیع کارنامہ تھا جس کے ذریعے انہوں نے تاریخ میں اپنا روشن کردار رقم کرایا اور قوم و ملت کے محبوب و محترم قرار پائے۔ ا ±س زمانے میں روزنامہ صحافت کا کچھ زیادہ چلن نہیں تھا۔ متعدد وقیع دینی اور علمی ماہنامے اپنی ایک پہچان رکھتے تھے۔ اکثر ماہنامے اپنے عالی قدر مدیروں کی رحلت کے بعد بند ہوگئے۔ فکری یکجہتی، اپنے خاص آدرش کے تحت ذہن سازی اور رائے اور فکر کی تشکیل سب کا مشترک مطمح نظر تھا۔ اپنے نظریے اور فکر کی پاسداری میں ا ±س دور کے مدیرانِ کرام نے بڑی قربانیاں دیتے، جیلیں کاٹتے اور بھاری جرمانے بھرتے تھے، مگر اس طرح کی ہر تلخی اور ترشی ان کے نشہ ¿ جدوجہد آزادی اور جنون مقاصد کو اور بڑھا دیتی تھی۔ وہ اپنے نظریی، اصول اور اپنے نصب العین پر کسی سودے بازی کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ وہ نہ بکتے تھے اور نہ جھکتے تھے۔ ان کے نزدیک قلم کی حرمت پر حرص و ہوس کی آنچ آنے دینا ماں بہن کی آبرو بیچنے کے مترادف تھا۔ ان کے الفاظ اتنی بڑی قیمت رکھتے تھے کہ کوئی ان کی قیمت لگانے کی ہمت ہی نہیں کرتا تھا۔ وہ فقر و فاقہ اور مشکلات و مصائب کی حالت میں بھی اپنے اصولوں سے غذا اور روشنی پاتے تھے۔ یہی ان کی قوت کا راز تھا۔ کردار کے کھرے پن کا اپنا ایک وزن اور اثر ہوتا ہے۔ مولانا محمد علی جوہرؒ سے بڑھ کر کون سامراج دشمن ہوسکتا تھا اور کس نے انگریز کو چیلنج کرنے کی اس سے بڑی جسارت کی ہوگی! لیکن یہی چیز ان کی اس عظمت کی دلیل تھی جس کے اعتراف میں انگریز وائسرائے صبح دم اپنے ناشتے کی میز پر سب سے پہلے ”کامریڈ“ دیکھنا پسند کرتا تھا۔ معیارِ زبان و بیان بھی روبہ زوال وقت گزرنے کے ساتھ ہر چیز کی قیمت و قامت گھٹنے لگی۔ صحافت یا مروجہ اصطلاح میں میڈیا کی اصولی آب و تاب بھی ایک گہن کی لپیٹ میں آگئی ہے۔ بیان کی لذت اور شائستگی اور زبان کی مہارت کے لحاظ سے بھی اب وہ معیار خواب و خیال ہوکر رہ گیا ہے جو صحافت کے ان اساطین نے قائم کیا تھا۔ ان میں سے اکثر اپنے وقت کے نامور ادیب اور شاعر تھے۔ بات صرف اردو ہی تک محدود نہیں ہی، مولانا ظفر علی خان اور مولانا محمد علی جوہر اور دوسرے کئی عظیم صحافیوں کو انگریزی زبان پر بھی کامل قدرت حاصل تھی۔ مشہور تھا کہ کئی انگریز مولانا محمد علی جوہر کی انگریزی پڑھ کر اپنی لغوی غلطیاں دور کرتے تھے۔ پھر اپنی تہذیبی جڑوں کے ساتھ ان کا رشتہ بہت گہرا تھا۔ سیرت و کردار کے لحاظ سے بڑے ا ±جلے تھے۔ آج ذرائع ابلاغ سے وابستہ خواتین و حضرات کے کردار میں وہ بلندی، اور مقاصد میں وہ رفعت غائب ہوگئی ہے جو ماضی میں صحافی کی پہچان تھی۔ اب ذہن اور قلم دونوں پر For Sale یعنی برائے فروخت کا لیبل لگا کر صحافی اپنے دفتروں میں بیٹھتے ہیں۔ میڈیا میں اب کالی بھیڑوں نے جگہ بنالی ہے۔ کردار کی بلندی میں آج کے صحافی مذکورہ بالا بزرگوں سے کوئی نسبت نہیں رکھتے۔ ان کی نظریاتی بینائی بہت کمزور ہے۔ اغراض کے بندوں اور ناتراشیدہ ذہنوں کے لشکر اس شعبے میں داخل ہوگئے ہیں۔ یہ ہمیشہ ہری گھاس پر نگاہ رکھتے ہیں۔ جدھر چارہ زیادہ ملتا ہے ا ±دھر چلے جاتے ہیں۔ میڈیا مراکز نے بھی صحافیوں کو خریدنے کی منڈیاں لگا رکھی ہیں۔ ایک خاتون یا حضرت صبح ایک چینل پر خبریں پڑھتے نظر آتے ہیں تو شام کو کسی دوسرے چینل پر جھلک دکھاتے ہیں۔ اینکر اور کالم نویس کبھی ایک چینل یا اخبار کے مالکان کے کلمے پڑھ رہے ہوتے ہیں، اور ذرا بھاو ¿ بڑھ جائے تو اسی زبان اور لہجے میں دوسری انتظامیہ کے قصیدے شروع کردیتے ہیں۔ کبھی ایک جماعت کے حامی ہوتے ہیں تو کبھی دوسری کے دسترخوان کی خوشہ چینی میں لگ جاتے ہیں۔ پی سائی ناتھ انگریزی اخبار Hindu کے دیہی امور کے ایڈیٹر ہیں اور عوامی مسائل اور مشکلات سے بحث کرتے ہیں۔ 30 جون کو نئی دہلی میں MassMedia پر اپنے ایک لیکچر میں انہوں نے ایسی باتیں کی ہیں جو میڈیا سے تعلق رکھنے والی ایک معتبر شخصیت کی طرف سے بڑی تلخ حقیقت کے بارے میں شہادت کا درجہ رکھتی ہیں: 1۔ میڈیا اب کوئی مقدس مشن نہیں، بلکہ یہ اب کارپوریٹ سیکٹر کا حصہ ہے۔ 2۔ میڈیا کا کاروبار کرنے والی کمپنیوں کے معیشت کے مختلف شعبوں میں زبردست مفادات ہیں۔ ان کی اولین ترجیح مفادات کی حفاظت ہے۔ 3۔ میڈیا کمپنیوں یا اداروں کے ایڈیٹر، رپورٹر، کالم نگار اور دیگر قلم کار ان کمپنیوں کے تنخواہ دار کارندے ہیں۔ ان کا اولین کام اپنے مالکان کے مفادات کا تحفظ ہے۔ 4۔ جھوٹ بولنا اور پھیلانا ان صحافیوں کی حالیہ ”صحافتی اخلاقیات“ کے تحت ایک پیشہ ورانہ مجبوری بن گئی ہے۔ پی سائی ناتھ نے اس کے لیے StructuralCompulsion to lie کی اصطلاح استعمال کی۔ 5۔ میڈیا کی کمپنیاں اور ادارے بڑی بڑی تجارتی کمپنیوں کے ساتھ ایک طرح سے مفادات کے ساجھی اور ساتھی ہیں۔ صحافی انہی کے مفاد میں اسٹور یاں گھڑتے اور سنسنی خیز انداز میں ان کو پھیلاتے ہیں تاکہ ٹی وی چینلوں کی ٹی پی آر بڑھے۔ 6۔ نقد رقوم کے عوض ( PaidNews) خبروں اور اسکینڈلز کی اشاعت میڈیا میں پھیلنے والی بہت بڑی لعنت ہے جس میں بڑے بڑے نامور رپورٹر، ٹی وی اینکر، تبصرہ نگار اور کالم نویس ملوث ہیں۔ ان کی تحریروں میں اب نہ معروضیت ہے اور نہ غیر جانبداری۔ وہ وہی لکھتے ہیں جس کا اشارہ ان کے مالکان کی طرف سے ہوتا ہے۔
Acta Diuma The ہاتھ سے لکھے ہوئے خبری بلیٹن کو کہا جاتا تھا جو کسی اہم پبلک مقام پر رکھ یا پہنچا دیا جاتا تھا اور لوگ وہاں جمع ہوکر اسے پڑھتے اور اس دن کی تازہ خبر سے آگاہ ہوتے تھے۔ یہ گویا دنیا کا پہلا اخبار تھا۔ لیکن انگریزی زبان کا پہلا اخبار Daily Courant مانا جاتا ہے جو 1702ءسے 1735ءتک شائع ہوتا رہا۔ اقرائی ذرائع میں کبھی صرف کتابیں، رسالے اور اخبارات شامل تھے، فلم اور ڈرامے نے سمعی اور بصری پہلو کا اضافہ کیا اور اسے ایک نئی جہت بخشی۔ آج انٹرنیٹ کا جن بوتل سے نکل کر ان سب پر چھا گیا ہے، اس نے لوگوں کی توجہ جرائد و کتب سے ہٹادی ہے۔ گزشتہ ایک ڈیڑھ عشرے سے مطالعہ کے ذوق اور سرگرمی پر جو دھند گہری ہوئی جارہی ہے اسی بوتل کا دھواں ہے جس سے یہ جن نکلا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں انٹرنیٹ ایجاد ہوا اور اس کا سب سے پہلے اور سب سے زیادہ استعمال شروع ہوا وہاں تو کتاب خوانی کے رجحان میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ ہر ماہ ہی نہیں ہر ہفتے کسی نہ کسی موضوع پر کوئی کتاب چھپتی ہے اور Seller Best کا درجہ پاکر لاکھوں قارئین کے ہاتھوں میں اور مطالعہ کی میز پر پہنچ جاتی ہے، لیکن ہماری نگاہیں انٹرنیٹ سے ایسی خیرہ ہوئی ہیں کہ اس کے سوا کچھ اور سجھائی ہی نہیں دے رہا ہے۔ اخبارات اور رسائل کے بعد ریڈیو میڈیا کا حصہ بنا۔ اس سے حالات و حوادث سے آگہی اور تفریح کے امکانات میں اور وسعت آئی۔ ہمارے ہاں 1970 کے عشرے میں بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی کی آمد ہوئی۔ پھر رنگین ٹی وی نے آکر واقعات و شخصیات کو متحرک اور Live حالت میں ناظرین کے سامنے پیش کرنا شروع کیا تو اس کے اثرات کا دائرہ اور زیادہ پھیل گیا۔ اب واقعات محض خبروں کی صورت میں نہیں بلکہ اپنی اصلی صورت میں نگاہوں کے سامنے آنے لگے۔ اس وقت سمعی اور بصری ذرائع ابلاغ کی برادری میں ایک اور رکن یعنی موبائل فون کا اضافہ بھی ہوچکا ہے۔ میڈیا کا دائرہ ¿ کار یا ذمہ داری میڈیا کی ذمہ داریوں میں معروضی انداز میں خبر دینا، حالات سے باخبر رکھنا، واقعات کے پس منظر پر روشنی ڈالنا، حقائق کی تہہ تک پہنچنا، انسانی معلومات سے تھوڑا آگے جاکر اس کے شعور کو بیدار کرنا، ایک خاص نہج پر رائے سازی اور معاشرتی تقاضوں کے مطابق لوگوں کے رویوں اور رجحانات کی تعمیر ( Trend Setting) کرنا شامل ہیں۔ جدید دور کے میڈیا نے خبر دینے کے ساتھ خبر لینے کو بھی اپنے مقاصد میں شامل کرلیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میڈیا جہاں ہر طبقے، ہر گروہ اور ہر سیاسی پارٹی، مذہبی جماعت اور سماجی تنظیم کی سرگرمیوں کی معروضی انداز میں خبریں دیتا ہے وہاں وہ عوامی نمائندگی کرتے ہوئے ان جماعتوں اور تنظیموں اور گروہوں کی غلطیوں اور کوتاہیوں پر ان کا مواخذہ اور محاسبہ بھی کرتا ہے تاکہ ان کی کوئی پالیسی اور سرگرمی قومی مفاد اور سماجی بہبود کے منافی نہ ہو۔ میڈیا کی اسی اہمیت کے باعث اس کو جمہوری نظام کا اہم ترین ستون شمار کیا جاتا ہے۔ ان مقاصد کو سامنے رکھا جائے تو میڈیا کا کردار بڑا مقدس نظر آتا ہے۔ جس طرح ناولوں اور ڈراموں میں برائی اور اچھائی کی کشمکش میں برائی کو اس انداز میں پیش کیا جاتا تھا کہ پڑھنے والوں کے دل میں ہیرو سے عقیدت اور ہمدردی پیدا ہوجاتی تھی اور ولن شر و فساد کا نمائندہ بن کر سامنے آتا اور اس سے نفرت کے جذبات ابھرتے تھے۔ قارئین فطری طور پر ہیرو کی فتح اور ولن کی ذلت و رسوائی کی تمنا کرتے اور اس کے روپ میں مجسم باطل کو کیفر کردار تک پہنچا ہوا دیکھنا چاہتے تھے، عین اسی طرح میڈیا پر کرپٹ اور گھٹیا ذہنیت و اخلاق کے سیاستدانوں، بگاڑ اور فساد کی قوتوں اور معاشرے میں پھیلے ہوئے دیگر تخریبی عناصر کو بے نقاب کرکے ان کو انجام تک پہنچانے کی مہم خیر اور بھلائی کے غلبے کی مہم چلانے کی ذمہ داری ہے۔ قومی ذمہ داری کے اعتبار سے ملک و قوم کی اساسات سے ہم آہنگ اعتقادات، نظریات و افکار اور تعمیری رجحانات و میلانات کو فروغ دینا میڈیا کا اصل کام سمجھا جاتا ہے۔ جس طرح ایک استاد سے یہ توقع کرنا بعید ازامکان ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کو برائی کی تعلیم دے گا اور جرائم کا عادی بنائے گا اسی طرح میڈیا کے بارے میں یہ سوچنا انوکھی بات سمجھی جاتی تھی کہ وہ ان اخلاقی رویوں اور افکار و معتقدات کا پرچار کرے گا جو قومی مقاصد سے متصادم ہوں۔ جو معیارات و اصول اب قصہ ¿ پارینہ ہیں ایک وقت تھا، جب ایک مشن کے سوا میڈیا کا کوئی اور کردار تصور میں ہی نہیں آسکتا تھا۔ ہمارے ماضی قریب کی تاریخ میں سامراج سے آزادی کی جدوجہد کو ا ±س وقت کے پرنٹ میڈیا کا سب سے بڑا جہاد سمجھا جاتا تھا۔ مولانا ظفر علی خان، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد اور ایسی ہی دیگر شخصیات کا قلمی جہاد وہ وقیع کارنامہ تھا جس کے ذریعے انہوں نے تاریخ میں اپنا روشن کردار رقم کرایا اور قوم و ملت کے محبوب و محترم قرار پائے۔ ا ±س زمانے میں روزنامہ صحافت کا کچھ زیادہ چلن نہیں تھا۔ متعدد وقیع دینی اور علمی ماہنامے اپنی ایک پہچان رکھتے تھے۔ اکثر ماہنامے اپنے عالی قدر مدیروں کی رحلت کے بعد بند ہوگئے۔ فکری یکجہتی، اپنے خاص آدرش کے تحت ذہن سازی اور رائے اور فکر کی تشکیل سب کا مشترک مطمح نظر تھا۔ اپنے نظریے اور فکر کی پاسداری میں ا ±س دور کے مدیرانِ کرام نے بڑی قربانیاں دیتے، جیلیں کاٹتے اور بھاری جرمانے بھرتے تھے، مگر اس طرح کی ہر تلخی اور ترشی ان کے نشہ ¿ جدوجہد آزادی اور جنون مقاصد کو اور بڑھا دیتی تھی۔ وہ اپنے نظریی، اصول اور اپنے نصب العین پر کسی سودے بازی کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ وہ نہ بکتے تھے اور نہ جھکتے تھے۔ ان کے نزدیک قلم کی حرمت پر حرص و ہوس کی آنچ آنے دینا ماں بہن کی آبرو بیچنے کے مترادف تھا۔ ان کے الفاظ اتنی بڑی قیمت رکھتے تھے کہ کوئی ان کی قیمت لگانے کی ہمت ہی نہیں کرتا تھا۔ وہ فقر و فاقہ اور مشکلات و مصائب کی حالت میں بھی اپنے اصولوں سے غذا اور روشنی پاتے تھے۔ یہی ان کی قوت کا راز تھا۔ کردار کے کھرے پن کا اپنا ایک وزن اور اثر ہوتا ہے۔ مولانا محمد علی جوہرؒ سے بڑھ کر کون سامراج دشمن ہوسکتا تھا اور کس نے انگریز کو چیلنج کرنے کی اس سے بڑی جسارت کی ہوگی! لیکن یہی چیز ان کی اس عظمت کی دلیل تھی جس کے اعتراف میں انگریز وائسرائے صبح دم اپنے ناشتے کی میز پر سب سے پہلے ”کامریڈ“ دیکھنا پسند کرتا تھا۔ معیارِ زبان و بیان بھی روبہ زوال وقت گزرنے کے ساتھ ہر چیز کی قیمت و قامت گھٹنے لگی۔ صحافت یا مروجہ اصطلاح میں میڈیا کی اصولی آب و تاب بھی ایک گہن کی لپیٹ میں آگئی ہے۔ بیان کی لذت اور شائستگی اور زبان کی مہارت کے لحاظ سے بھی اب وہ معیار خواب و خیال ہوکر رہ گیا ہے جو صحافت کے ان اساطین نے قائم کیا تھا۔ ان میں سے اکثر اپنے وقت کے نامور ادیب اور شاعر تھے۔ بات صرف اردو ہی تک محدود نہیں ہی، مولانا ظفر علی خان اور مولانا محمد علی جوہر اور دوسرے کئی عظیم صحافیوں کو انگریزی زبان پر بھی کامل قدرت حاصل تھی۔ مشہور تھا کہ کئی انگریز مولانا محمد علی جوہر کی انگریزی پڑھ کر اپنی لغوی غلطیاں دور کرتے تھے۔ پھر اپنی تہذیبی جڑوں کے ساتھ ان کا رشتہ بہت گہرا تھا۔ سیرت و کردار کے لحاظ سے بڑے ا ±جلے تھے۔ آج ذرائع ابلاغ سے وابستہ خواتین و حضرات کے کردار میں وہ بلندی، اور مقاصد میں وہ رفعت غائب ہوگئی ہے جو ماضی میں صحافی کی پہچان تھی۔ اب ذہن اور قلم دونوں پر For Sale یعنی برائے فروخت کا لیبل لگا کر صحافی اپنے دفتروں میں بیٹھتے ہیں۔ میڈیا میں اب کالی بھیڑوں نے جگہ بنالی ہے۔ کردار کی بلندی میں آج کے صحافی مذکورہ بالا بزرگوں سے کوئی نسبت نہیں رکھتے۔ ان کی نظریاتی بینائی بہت کمزور ہے۔ اغراض کے بندوں اور ناتراشیدہ ذہنوں کے لشکر اس شعبے میں داخل ہوگئے ہیں۔ یہ ہمیشہ ہری گھاس پر نگاہ رکھتے ہیں۔ جدھر چارہ زیادہ ملتا ہے ا ±دھر چلے جاتے ہیں۔ میڈیا مراکز نے بھی صحافیوں کو خریدنے کی منڈیاں لگا رکھی ہیں۔ ایک خاتون یا حضرت صبح ایک چینل پر خبریں پڑھتے نظر آتے ہیں تو شام کو کسی دوسرے چینل پر جھلک دکھاتے ہیں۔ اینکر اور کالم نویس کبھی ایک چینل یا اخبار کے مالکان کے کلمے پڑھ رہے ہوتے ہیں، اور ذرا بھاو ¿ بڑھ جائے تو اسی زبان اور لہجے میں دوسری انتظامیہ کے قصیدے شروع کردیتے ہیں۔ کبھی ایک جماعت کے حامی ہوتے ہیں تو کبھی دوسری کے دسترخوان کی خوشہ چینی میں لگ جاتے ہیں۔ پی سائی ناتھ انگریزی اخبار Hindu کے دیہی امور کے ایڈیٹر ہیں اور عوامی مسائل اور مشکلات سے بحث کرتے ہیں۔ 30 جون کو نئی دہلی میں MassMedia پر اپنے ایک لیکچر میں انہوں نے ایسی باتیں کی ہیں جو میڈیا سے تعلق رکھنے والی ایک معتبر شخصیت کی طرف سے بڑی تلخ حقیقت کے بارے میں شہادت کا درجہ رکھتی ہیں: 1۔ میڈیا اب کوئی مقدس مشن نہیں، بلکہ یہ اب کارپوریٹ سیکٹر کا حصہ ہے۔ 2۔ میڈیا کا کاروبار کرنے والی کمپنیوں کے معیشت کے مختلف شعبوں میں زبردست مفادات ہیں۔ ان کی اولین ترجیح مفادات کی حفاظت ہے۔ 3۔ میڈیا کمپنیوں یا اداروں کے ایڈیٹر، رپورٹر، کالم نگار اور دیگر قلم کار ان کمپنیوں کے تنخواہ دار کارندے ہیں۔ ان کا اولین کام اپنے مالکان کے مفادات کا تحفظ ہے۔ 4۔ جھوٹ بولنا اور پھیلانا ان صحافیوں کی حالیہ ”صحافتی اخلاقیات“ کے تحت ایک پیشہ ورانہ مجبوری بن گئی ہے۔ پی سائی ناتھ نے اس کے لیے StructuralCompulsion to lie کی اصطلاح استعمال کی۔ 5۔ میڈیا کی کمپنیاں اور ادارے بڑی بڑی تجارتی کمپنیوں کے ساتھ ایک طرح سے مفادات کے ساجھی اور ساتھی ہیں۔ صحافی انہی کے مفاد میں اسٹور یاں گھڑتے اور سنسنی خیز انداز میں ان کو پھیلاتے ہیں تاکہ ٹی وی چینلوں کی ٹی پی آر بڑھے۔ 6۔ نقد رقوم کے عوض ( PaidNews) خبروں اور اسکینڈلز کی اشاعت میڈیا میں پھیلنے والی بہت بڑی لعنت ہے جس میں بڑے بڑے نامور رپورٹر، ٹی وی اینکر، تبصرہ نگار اور کالم نویس ملوث ہیں۔ ان کی تحریروں میں اب نہ معروضیت ہے اور نہ غیر جانبداری۔ وہ وہی لکھتے ہیں جس کا اشارہ ان کے مالکان کی طرف سے ہوتا ہے۔
Thursday, May 12, 2011
دنیا کی بد امنی کی اہم وجہ مزدوروں کے دل کی آہ !
سچ بول دوں
میم ضاد فضلی
09576659393
قسط ۱
آج ساری دنیا بد عنوانی ، رشوت ستانی کے علاوہ جس انتشار اور بد عملی کی وجہ سے جہنم کا نمونہ بن چکی ہے، اس کے مختلف اسباب بیان کئے جاتے ہےں ۔ مگر نہ جانے کیوں ہمارے مبصرین اور ماہرین ماحولیات و سیاسیات بد امنی اور انتشار پر خامہ فرسائی کر تے ہوئے اس دیانت اور ایمانداری کا مظاہرہ نہےں کر تے جس کی وجہ سے اصل مرض کی نشاندہی ہماری نظروں سے او جھل ہو جاتی ہے اور اس کے صحیح علاج کی جانب ہماری توجہ نہیںجاتی ۔یہی وجہ ہے کہ ہمارا قلم الفاظ کے زیرو بم سے کھیلتے ہوئے قارئین کو چٹخارے کا سامان تو فراہم کر تا ہے، ٹھہرے ہوئے پانی پر کنکڑ مارنے کے بعد اٹھنے والی جنبش کی طرح قاری کے قلب میں سگبگاہٹ تو ضرور ہو تی ہے، مگر اس مسئلے کا حقیقی حل جوں کا توں مسئلہ بنا رہتا ہے ۔نہ تو ہماری تحریروں سے صحیح بیماری کی تشخیص ہو تی ہے اور نہ اس کے علاج کی دیانتدارانہ نشاندہی۔ہمیں یہ کہنے میں ذرہ برابر بھی ہچکچاہٹ نہےں ہو نی چاہئے کہ آج معاشرے میں پھیلی ہوئی سراسیمگی ، بے اطمینانی ، انتشار و افتراق اور قتل و غارت کے شب و روز رو نما ہو نے والے واقعات جس بیماری کی وجہ سے جنم لیتے ہےں اس پر قلم اٹھانے سے بلا استثنا ئے زبان وبیان ہمارے میڈیا میں شامل اکثر قلم کارگھبراتے ہیں۔ چوں کہ ان کی پر شکوہ زندگی کے سامان کا انحصاروہ سر مایہ داروں ساہو کاروں ، سیاستدانو ں اور منصب حکومت پر فائز لیڈروں کی چاپلوسی ،چمچہ گیری اور ان کی قدم بوسی کو باور کر چکے ہےں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے قلم اور تحریروں سے معاشرے کی بد امنی کی اہم بیماری کی جانب اشارہ یا رہنمائی کی کوئی مہک نہےںاٹھتی، اس کے بر خلاف ہم ہندوستان کی افرا تفری کا ذمہ دار عالمی صورت حال کو قرار دیتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہےں ۔اسی طرح پاکستان والا اپنے ملک میں جاری قتل و خون کی ارزانی کودیگر ممالک کی ایجنسیوں پر تھوپ کر اپنے ملک کے نہتھے اور مظلوم باشندوں کے دلوں میں اٹھنے والی آگ کو سرد کر نے کی ناکام کوشش کر تا ہے بعینہ یہی صورت حال اس وقت ساری دنیاکی ہے۔المیہ یہ کہ اس وقت دنیا کے تمام ممالک کے اندر پائی جانے والی بے قراری ، بے چینی اور اضطراب کی جو اصل وجہ ہے ا س پر پردہ ڈالنے کی مجرمانہ کوشش کی جار ہی ہے اور اس پروپیگنڈہ میں جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جانے والا ہمارا میڈیا پیش پیش ہے ۔اس جرم کا ارتکاب کر نے والوں میں انگریزی ، ہندی اور اردو کے ساتھ ان تمام زبانوں کے صحافیوں کا کارواں شامل ہے ۔ جس نے ذخیرہ اندوزی اور مادی منفعت کے بدلے اپنے قلم اور فکر کو گروی رکھ دیا ہے ۔ ہم کہہ سکتے ہےں کہ آج ہمارا قلم سیاسی چکلے کا وہ ایجنٹ بن چکا ہے جس کا کام صرف ارباب حکومت کی ثنا خوانی میں اپنی توانائی صرف کرنارہ گیاہے۔اس کی کوشش ہوتی ہیکہ بھول کر بھی ان تسامحات اور سیاسی منصوبوں پر جس سے غریبوں کا نقصان ہو تا ہو زبان کھولنے یا قلم چلانے کی غلطی نہ کی جائے۔
ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اس کے اصل ذمہ دار صحافتی شعبہ میں اپنا جسم گھلا رہے ملازمین سے زیادہ اس سیکٹر پر قابض مالکان ہےں۔ اگر ان کے یہاں ملازمت کر نے والا کوئی قلم بر گوش صحافی انگلی اٹھانے یا زبان کھولنے کی جرا_؟ت کر تا ہے تو اس پیشے سے جڑے ہمارے مالکان اسے نوکری سے بر خاست کر دیتے ہےں یا ان کی تحریروں کو آگ کے حوالے کردیا جاتاہے ۔یہ وہ تلخ حقیقت ہے جس کا اعتراف اس پیشے سے جڑا کوئی مالک تو پل بھر کے لئے نہےں کرے گا جس نے حکومت کے تلوے چاٹنے کو ہی اپنی کامیابی کی اساس باور کر لیا ہے ۔ اس سچائی کا اعتراف اس سیکٹر میں سر گرم وہ احباب کر سکتے ہےں جن کی حیثیت اخبارات و رسائل میں ایک ملازم کی ہے اور جنہیں سچائیوں سے انحراف اور چشم پوشی ماں کی گالی جیسی لگتی ہے ۔آپ کسی بھی اخبا ر کے ایسے فرد کو جس کی حیثیت قلمکار یا نامہ نویس کی ہو تخلیہ میں لے جائیں اور اس کے کلیجے پر ہاتھ رکھ کر حلفیہ پوچھےں کہ کیا آج تمہیں سچ لکھنے ، بولنے اور اسے ظاہر کر نے کی اجازت ہے ؟ وہ یقینا آپ کو جس درد و کرب سے آشنا کرائے گا اسے سن کر بس یہی کہہ سکتے ہےں کہ اب اس معزز پیشے کی حیثیت اس پیشے ور طوائف کی ہو گئی ہے جسے چند پیسے کے لئے اپنا تن من دھن سب کچھ عیاش گاہک اور خریدار کے حوالے کر نا پڑ تا ہے ۔میں نے مذکورہ تفصیل میں صحافتی ادارے کو سیاست کا ایجنٹ رعایت میں کہا ہے ورنہ عرف عام میں تو اس قسم کا کاروبار چلانے والوں کو بھڑوا کہا جاتا ہے۔ اس کی مثال میں ہم ریاست بہار کے بیشتر اردو اخبار کو بجا طور پر پیش کر سکتے ہےں جنہےں آج روئے زمین پر نتیش کمار کے علاوہ کوئی خدا بھی نظر نہےں آتا ۔جن کا ایمان انہےں لمحہ بھر کے لئے بھی یہ احساس نہےں دلاتا کہ سچائی سے آنکھیں موند کر عوام کو گمراہ کر نا ایسی غداری ہے جس کی سزا دنیا میں بھی مل سکتی ہے اور آخرت بھی تباہ ہو جائے گی ۔
ہاں تو ہم یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ آج ہمارے ملک کے علاوہ ساری دنیا میں پھیلی ہوئی اضطراب و بے قراری کی اصل وجہ کیا ہے؟ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ آج عدل او ر انصاف کے وہ تمام اوصاف ہمارا ساتھ چھوڑ چکے ہےں جس کے وجود سے ہر فرد کو اطمینان اور قلبی سکون کا احساس ہو تا ہے ۔ غور کیجئے!کیا کسی مل، فیکٹری ، کارخانہ یا ادارے میں کام کر نے والے مزدوروں کا پسینہ چھوٹے بغیر ان کا قیمتی لہو جلے بنا آپ کا کاروبار چل سکتا ہے ؟ہرگزنہیںمگراجرت دیتے وقت مالکان کو یہ کیوںیادنہیں رہتاکہ وہ اپنے محنت کش مزدورکوجودے رہے ہیںاس سے زیادہ کی بسکٹ مالکان کے کتے کھایاکرتے ہیں۔ یعنی آپ کی عیاشی اور شاہ خرچی کے لئے خون پسینہ ایک کر نے والوں کو کتے کی طرح چند نوالے پھینک کر یہ باور کر لیا جائے کہ آپ نے اس کی پوری پوری مزدوری دیدی ہے اور آپ نے اپنے مزدوروںاورملازموںکے ساتھ انصاف کیاہے،یہ کون سی شرافت اور انسانیت ہے اورکوڑی برابرمزدوردینے کی دنیاکاکون ساقانون وکالت کرتاہے ۔ یہ خود انصاف کے منھ پر طمانچہ ہے ۔ علامہ اقبال نے شاید انہےں حالات کا مشاہدہ کر تے ہوئے اپنے قلم سے چنگاری پھینکنے کی کوشش کی تھی ۔
سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم
بخیلی ہے یہ رزاقی نہےں ہے
خصوصاً ہمارے صحافتی اداروں میں مالکان اپنے سگریٹوں میں جتنا دھونک دیتے ہےں ، چائے اور پان میں جو کچھ تھوک دیتے ہےں اس کا سووا حصہ بھی اپنے ان ملازمین اور مزدوروں پر صرف کرنے کی زحمت نہےں کر تے جن کی قربانیوں ،ایثار اور انتھک جاں فشانی سے ان کا کاروبار چلتا ہے ۔
اس سلسلے کی اگلی کڑی ملاحظہ فرمائیں آئندہ ۔
میم ضاد فضلی
09576659393
قسط ۱
آج ساری دنیا بد عنوانی ، رشوت ستانی کے علاوہ جس انتشار اور بد عملی کی وجہ سے جہنم کا نمونہ بن چکی ہے، اس کے مختلف اسباب بیان کئے جاتے ہےں ۔ مگر نہ جانے کیوں ہمارے مبصرین اور ماہرین ماحولیات و سیاسیات بد امنی اور انتشار پر خامہ فرسائی کر تے ہوئے اس دیانت اور ایمانداری کا مظاہرہ نہےں کر تے جس کی وجہ سے اصل مرض کی نشاندہی ہماری نظروں سے او جھل ہو جاتی ہے اور اس کے صحیح علاج کی جانب ہماری توجہ نہیںجاتی ۔یہی وجہ ہے کہ ہمارا قلم الفاظ کے زیرو بم سے کھیلتے ہوئے قارئین کو چٹخارے کا سامان تو فراہم کر تا ہے، ٹھہرے ہوئے پانی پر کنکڑ مارنے کے بعد اٹھنے والی جنبش کی طرح قاری کے قلب میں سگبگاہٹ تو ضرور ہو تی ہے، مگر اس مسئلے کا حقیقی حل جوں کا توں مسئلہ بنا رہتا ہے ۔نہ تو ہماری تحریروں سے صحیح بیماری کی تشخیص ہو تی ہے اور نہ اس کے علاج کی دیانتدارانہ نشاندہی۔ہمیں یہ کہنے میں ذرہ برابر بھی ہچکچاہٹ نہےں ہو نی چاہئے کہ آج معاشرے میں پھیلی ہوئی سراسیمگی ، بے اطمینانی ، انتشار و افتراق اور قتل و غارت کے شب و روز رو نما ہو نے والے واقعات جس بیماری کی وجہ سے جنم لیتے ہےں اس پر قلم اٹھانے سے بلا استثنا ئے زبان وبیان ہمارے میڈیا میں شامل اکثر قلم کارگھبراتے ہیں۔ چوں کہ ان کی پر شکوہ زندگی کے سامان کا انحصاروہ سر مایہ داروں ساہو کاروں ، سیاستدانو ں اور منصب حکومت پر فائز لیڈروں کی چاپلوسی ،چمچہ گیری اور ان کی قدم بوسی کو باور کر چکے ہےں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے قلم اور تحریروں سے معاشرے کی بد امنی کی اہم بیماری کی جانب اشارہ یا رہنمائی کی کوئی مہک نہےںاٹھتی، اس کے بر خلاف ہم ہندوستان کی افرا تفری کا ذمہ دار عالمی صورت حال کو قرار دیتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہےں ۔اسی طرح پاکستان والا اپنے ملک میں جاری قتل و خون کی ارزانی کودیگر ممالک کی ایجنسیوں پر تھوپ کر اپنے ملک کے نہتھے اور مظلوم باشندوں کے دلوں میں اٹھنے والی آگ کو سرد کر نے کی ناکام کوشش کر تا ہے بعینہ یہی صورت حال اس وقت ساری دنیاکی ہے۔المیہ یہ کہ اس وقت دنیا کے تمام ممالک کے اندر پائی جانے والی بے قراری ، بے چینی اور اضطراب کی جو اصل وجہ ہے ا س پر پردہ ڈالنے کی مجرمانہ کوشش کی جار ہی ہے اور اس پروپیگنڈہ میں جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جانے والا ہمارا میڈیا پیش پیش ہے ۔اس جرم کا ارتکاب کر نے والوں میں انگریزی ، ہندی اور اردو کے ساتھ ان تمام زبانوں کے صحافیوں کا کارواں شامل ہے ۔ جس نے ذخیرہ اندوزی اور مادی منفعت کے بدلے اپنے قلم اور فکر کو گروی رکھ دیا ہے ۔ ہم کہہ سکتے ہےں کہ آج ہمارا قلم سیاسی چکلے کا وہ ایجنٹ بن چکا ہے جس کا کام صرف ارباب حکومت کی ثنا خوانی میں اپنی توانائی صرف کرنارہ گیاہے۔اس کی کوشش ہوتی ہیکہ بھول کر بھی ان تسامحات اور سیاسی منصوبوں پر جس سے غریبوں کا نقصان ہو تا ہو زبان کھولنے یا قلم چلانے کی غلطی نہ کی جائے۔
ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اس کے اصل ذمہ دار صحافتی شعبہ میں اپنا جسم گھلا رہے ملازمین سے زیادہ اس سیکٹر پر قابض مالکان ہےں۔ اگر ان کے یہاں ملازمت کر نے والا کوئی قلم بر گوش صحافی انگلی اٹھانے یا زبان کھولنے کی جرا_؟ت کر تا ہے تو اس پیشے سے جڑے ہمارے مالکان اسے نوکری سے بر خاست کر دیتے ہےں یا ان کی تحریروں کو آگ کے حوالے کردیا جاتاہے ۔یہ وہ تلخ حقیقت ہے جس کا اعتراف اس پیشے سے جڑا کوئی مالک تو پل بھر کے لئے نہےں کرے گا جس نے حکومت کے تلوے چاٹنے کو ہی اپنی کامیابی کی اساس باور کر لیا ہے ۔ اس سچائی کا اعتراف اس سیکٹر میں سر گرم وہ احباب کر سکتے ہےں جن کی حیثیت اخبارات و رسائل میں ایک ملازم کی ہے اور جنہیں سچائیوں سے انحراف اور چشم پوشی ماں کی گالی جیسی لگتی ہے ۔آپ کسی بھی اخبا ر کے ایسے فرد کو جس کی حیثیت قلمکار یا نامہ نویس کی ہو تخلیہ میں لے جائیں اور اس کے کلیجے پر ہاتھ رکھ کر حلفیہ پوچھےں کہ کیا آج تمہیں سچ لکھنے ، بولنے اور اسے ظاہر کر نے کی اجازت ہے ؟ وہ یقینا آپ کو جس درد و کرب سے آشنا کرائے گا اسے سن کر بس یہی کہہ سکتے ہےں کہ اب اس معزز پیشے کی حیثیت اس پیشے ور طوائف کی ہو گئی ہے جسے چند پیسے کے لئے اپنا تن من دھن سب کچھ عیاش گاہک اور خریدار کے حوالے کر نا پڑ تا ہے ۔میں نے مذکورہ تفصیل میں صحافتی ادارے کو سیاست کا ایجنٹ رعایت میں کہا ہے ورنہ عرف عام میں تو اس قسم کا کاروبار چلانے والوں کو بھڑوا کہا جاتا ہے۔ اس کی مثال میں ہم ریاست بہار کے بیشتر اردو اخبار کو بجا طور پر پیش کر سکتے ہےں جنہےں آج روئے زمین پر نتیش کمار کے علاوہ کوئی خدا بھی نظر نہےں آتا ۔جن کا ایمان انہےں لمحہ بھر کے لئے بھی یہ احساس نہےں دلاتا کہ سچائی سے آنکھیں موند کر عوام کو گمراہ کر نا ایسی غداری ہے جس کی سزا دنیا میں بھی مل سکتی ہے اور آخرت بھی تباہ ہو جائے گی ۔
ہاں تو ہم یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ آج ہمارے ملک کے علاوہ ساری دنیا میں پھیلی ہوئی اضطراب و بے قراری کی اصل وجہ کیا ہے؟ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ آج عدل او ر انصاف کے وہ تمام اوصاف ہمارا ساتھ چھوڑ چکے ہےں جس کے وجود سے ہر فرد کو اطمینان اور قلبی سکون کا احساس ہو تا ہے ۔ غور کیجئے!کیا کسی مل، فیکٹری ، کارخانہ یا ادارے میں کام کر نے والے مزدوروں کا پسینہ چھوٹے بغیر ان کا قیمتی لہو جلے بنا آپ کا کاروبار چل سکتا ہے ؟ہرگزنہیںمگراجرت دیتے وقت مالکان کو یہ کیوںیادنہیں رہتاکہ وہ اپنے محنت کش مزدورکوجودے رہے ہیںاس سے زیادہ کی بسکٹ مالکان کے کتے کھایاکرتے ہیں۔ یعنی آپ کی عیاشی اور شاہ خرچی کے لئے خون پسینہ ایک کر نے والوں کو کتے کی طرح چند نوالے پھینک کر یہ باور کر لیا جائے کہ آپ نے اس کی پوری پوری مزدوری دیدی ہے اور آپ نے اپنے مزدوروںاورملازموںکے ساتھ انصاف کیاہے،یہ کون سی شرافت اور انسانیت ہے اورکوڑی برابرمزدوردینے کی دنیاکاکون ساقانون وکالت کرتاہے ۔ یہ خود انصاف کے منھ پر طمانچہ ہے ۔ علامہ اقبال نے شاید انہےں حالات کا مشاہدہ کر تے ہوئے اپنے قلم سے چنگاری پھینکنے کی کوشش کی تھی ۔
سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم
بخیلی ہے یہ رزاقی نہےں ہے
خصوصاً ہمارے صحافتی اداروں میں مالکان اپنے سگریٹوں میں جتنا دھونک دیتے ہےں ، چائے اور پان میں جو کچھ تھوک دیتے ہےں اس کا سووا حصہ بھی اپنے ان ملازمین اور مزدوروں پر صرف کرنے کی زحمت نہےں کر تے جن کی قربانیوں ،ایثار اور انتھک جاں فشانی سے ان کا کاروبار چلتا ہے ۔
اس سلسلے کی اگلی کڑی ملاحظہ فرمائیں آئندہ ۔
Saturday, May 7, 2011
اسلام کی نظر میں معاشرہ
جس طرح انسان کا بدن مختلف اعضاء سے مل کر بناہے اوران اعضاء کے درمیان فطری رابطہ موجود ہے اسی طرح معاشرہ بھی چھوٹے بڑے خاندانوں سے مل کر بنتاہے ۔جب کسی خاندان کے افراد میں اتحاد اور یگانگت ہوتی ہے تو اس سے ایک مضبوط اور سالم معاشرہ بنتا ہے ۔اس کے بر خلاف اگر ان افرادمیں اختلاف ہو تو معاشرے کا پہیہ پورا نہیں گھومتا اورتشتت و پراگندگی کا شکار ہوجاتا ہے ۔ انسان فطری طور پر زندہ رہنا چاہتا ہے اور اپنی اس خواہش کو پوری کرنے کے لئے ہر قسم کی کوشش کرتا ہے اس مقصد کے حصول کے لئے سب سے آسان طریقہ ایجاد نسل ہے کیونکہ جب تک نسل انسانی رہے گی ، زندگی رہے گی اور ایجاد نسل کے لۓ ایک خانوادے کی تشکیل کی ضرورت ہے۔زندگی کی گاڑی چلانے کیلئے اقتصاد کی ضرورت ہوتی ہےایجاد خانوادے میں بھی مختلف نظریات کارفرماہیں کچھ لوگ تاجرانہ ذہنیت رکھتے ہیں انکا خیال ہے کہ اقتصادیات کوحل کرنے کے لئے خانوادے کی تشکیل کی جاتی ہے اور شادی بیاہ بھی دو خاندانوں کے درمیان ایک قسم کا تجارتی مسئلہ ہے۔مگر یہ طرز فکر اجتماع کی واقعی غرض ــــــــــــــ یعنی شادی بیاہ کا مقصد بقائے نسل ہے ــــــــــــــ سے دور ہے ۔ مولرلیور لکھتا ہے کہ شادی بیاہ کے تین اسباب ہوتے ہيں : (1)اقتصادی ضرورت (2) اولاد کی خواہش (3) عشق ۔ یہ اسباب اگر چہ ہر معاشرے میں موجود ہيں مگر مختلف زمانوں میں ان کے اندرمختلف تغیر ہوا ہے ۔ ابتدائی معاشروں میں اقتصادی علت کی اہمیت زیادہ تھی اور آج کے دور میں عشق کی اہمیت زیادہ ہے ۔ (جامعہ شناسی ساموئیل کینگ) اسلام نے تشکیل خانوادہ ــــــــــــــ جو عفت عمومی کے حفاظت کابہترین ذریعہ ہے ــــــــــــــ کی طرف تشویق دلانے کے ساتھ ساتھ فطری مانگ کابھی مثبت جواب دیا ہے اورشادی بیاہ کوبقائے نوع انسانی اوراولادصالح کی پیدائش کاواحد ذریعہ قراردیا ہے چنانچہ قرآن کہتا ہے خدانے تمہاری ہی جنس سے تمہارے لئے بیویاں بنائيں اور ان سے تمہارے لئے اولاد دراولاد کاسلسلہ قرار دیا۔اور پاک چیزوں کو تمہاری روزی قراردی ۔(نحل 72) اسلام نےجوانوں کوجنسی بے راہ روی سے روکنے کیلئے خاندان کے ذمہ داروں کوابھارا ہے کہ جوانوں کی شادی جلد ازجلد کریں کیونکہ جوجوان شخصی طور پراپنی شادی کرنے پرقادرنہیں ہے کہیں ایسانہ ہو کہ شہوانی جذبے سے مجبور ہوکرخودکو تباہی کے غارمیں گرادے،اس لئے بچوں کی شادی بیاہ کی ذمہ داری والدین کے سر ڈال دی اوروالدین کواس انسانی فریضہ کی ادائیگی کیطرف ضرورت سے زیادہ تشویق دلائی ۔کیونکہ جلد از جلد شادی کردینا بچوں کے اخلاق وایمان کومحفوظ رکھےگا۔ اسلام کاعقیدہ ہے کہ جنسی افراط و تفریط سے بچانے اور خوش بختی کی زندگی بسر کرنے کے لئے شادی بیاہ کرنا اور خاندان کی تشکیل کرنا ضروری ہے ۔ رسول اسلام (ص) نے ایک دن منبر سے اعلان فرمایامسلمانو!تمہاری لڑکیاں درختوں پر پکے ہوئے میوے کیطرح ہیں اگرانکو بروقت توڑانہ گیا (یعنی لڑکیوں کی شادی نہ کی گئی) توآفتاب کی حرارت اورفضائی عوامل اسے تباہ وبرباد کردینگے اسی طرح لڑکیوں کی فطری خواہش کو پورا نہ کیا گیا اور ان کی بروقت شادی نہ کی گئی تو ان کے فاسدہونے کا خطرہ ہے کیونکہ وہ بھی انسان ہيں اورانکی ضرورتوں کوپورا کر نا ہی چاہئے ۔(وسائل باب 22 ) امام محمد باقر (ع) کے صحابی "علی بن اسباط "نے حضرت کوایک خط لکھا اس میں تحریر کیا : مناسب ومعقول لڑکے ہماری لڑکیوں کے لئےنہیں ملتے اب بتائے ہم کیا کر یں ؟ حضرت نے جواب دیا ہر لحاظ سے مناسب جوان کاانتظارمت کرو کیونکہ رسول اکرم(ص)نے فرمایا: اگرایسے جوان تمہاری لڑکیوں کی خواستگاری کریں جو مذہبی واخلاقی لحاظ سے تم کوپسندہوں تواپنی لڑکیوں کی شادی کردواسکے علاوہ صورت میں اپنے لڑکے اورلڑکیوں کی بے راہ روی سے مطمئن نہ ہو ۔(وسائل باب 27) پس اسلام نہ صرف یہ کہ شادی بیاہ میں کوئی اڑچن نہيں پیدا کرتا ،بلکہ اس فطری قوت سے شخصی زندگی اوراجتماع کوفائدہ حاصل کرنے پرآمادہ بھی کرتاہے ۔شادی بیاہ سے جسمانی سکون کے علاوہ روحانی، فکری ، اخلاقی سکون بھی ملتاہے۔ کیونکہ جوشخص وحشت واضطراب کے عالم میں ہووہ واقعی سعادت کودرک نہیں کرسکتا ۔اسلام کی نظرمیں یہ انسانی پیوند ــــــــــــــ شادی ــــــــــــــ دلوں کامقدس عہدو پیمان ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ طرفین سکون و آرام کی زندگی بسر کرسکیں۔قرآن میں ارشاد ہے خدا کے وجود کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اس نے تمہاری ہی نوع سے تمہارے لۓ بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے آرام حاصل کرو اور تمہارے درمیان مہر و محبت قرار دی اور جو لوگ اس محبت و دوستی میں غورو فکر کریں گے ان کے لئے بہت سی نشانیاں اس میں موجود ہيں ۔(سورہ روم 21) افراد خاندان میں استحکام روابط کے لئے اسلام نے کچھ معاشرتی اصول و قوانین بھی بتائے ۔اسلام نے شادی کو" پیمان محکم " کے لفظ سے تعبیر کیا ہے ۔( نساء 25) اور تمام مادی وسائل کو اپنے مقصد سے بالکل الگ رکھاہے ۔ خاندان کے افراد میں اتحادوہم آہنگی برقراررکھنے کے لئے ہرایک کے فرائض عادلانہ طریقے سے بتادئے تا کہ ہر شخص اپنے فنی استعداد کے لحاظ سے اپنے امور زندگی کو پورا کرسکے ۔چنانچہ ارشاد ہے عورت ومردایک دوسرے کے ساتھ برابرحقوق رکھتے ہيں۔(بقرہ 228) تقسیم کار کے سلسلے میں بھی عورت و مرد کی فطرت کا بہت ہی دقیق نظر سے مطالہ کیا ہے ۔مرد پر اقتصادیات کی فراہمی اوران سے متعلق امور لازم کئے گئے اور عورتوں سے بچوں کی تربیت و پرورش اورامور خانہ داری کا انتظام متعلق کیاگيا ۔ اسلام نے عورت کے ذمے اسکے فطری فرائض ہی رکھےاوراس سلسلے میں معمولی سی بھی فروگذاشت نہیں رکھی اوراس بات کالحاظ رکھاہے کہ اسکے فطری رجحانات ضائع و برباد نہ ہوجائيں ۔البتہ کسی شخصی یا اجتماعی امر کی بناپر عورت کو اس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ گھر سے باہروالے کام بھی انجام دے سکے لیکن معاشرے میں اس بات کی اجازت ہرگز نہیں ہےدی کہ وہ دوسرے مردوں سے غلط روابط قائم کرسکے ۔ ہرانتظامیہ کاایک سربراہ ہوناضروری ہے گھراورگھرداری بھی ایک قسم کا انتظامیہ ہے جس کا ایک سربراہ ہونا ضروری ہے کیونکہ بغیرسر براہ انتظامیہ ہرج و مرج میں مبتلا ہوسکتا ہے ۔اسی لئے گھریلو انتظامیہ کی سربراہی مرد یا عورت کے ہاتھ میں ہونی چاہئے ۔ آئیے ذرا دیکھیں یہ کام کس کے سپرد ہوناچاہئے ۔اس انتظامیہ کی ذمہ داری بچوں کی تربیت نگرانی۔خانوادے کا سنگین بار اٹھانے کے لۓ عورت سے زیادہ مرد لائق و سزاوار ہے صرف مرد ہی ہے جواتنی بڑی ذمہ داری کو اپنے کاندھوں پر اٹھاسکتا ہے ۔ اپنی جگہ پر یہ بات طے شدہ ہے کہ عورت اپے جذبات کی تابع ہوتی ہے اور اس کی خلقت ہی کچھ اسطرح کی گئی ہے کہ فطری طورپروہ مردہ سے زیادہ زود حس ہے، بر خلاف مرد کے کہ وہ فطری طور پرعقل کا تابع ہوتا ہے۔اس بناپر عاطفہ کے مقابلے میں فکرکی زیادہ اہمیت ہوئی اسی لئے اسلام نے خانوادے کی ریاست مرد کے ہاتھوں میں رکھی۔(فرانس کے جدید قانون مادہ صفحہ 213میں تصریح کی گئی ہے کہ خانوادے کی سرپرستی مرد سے متعلق ہے ۔ ) لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عورت سے کسی قسم کا مشورہ نہ لیا جائے اورمرد حسب خواہش ایک مطلق العنان ڈکٹیٹر بن جائے ۔ اسلا م نے مرد کو سرپرست بنانے کے ساتھ اس کو عورتوں پرہر قسم کی زیادتی و ظلم سے روک دیا ہے ۔ قرآن اعلان کرتا ہے ظلم و تعدی سے الگ ہوکر شائستہ اور معقول طریقے سے عورتوں کے ساتھ زندگی بسر کرو ۔ (نساء 19) گھریلو امور کی ذمہ داری مرد کے سپرد ہونے باوجود گھرکے داخلی معاملات میں عورت مستقل ہے اوروسائل زندگی کی ذمہ داری اس پر ہے۔رسول اکرم(ص) نے فرمایا : خانوادے کا نگہبان مرد ہے مگرعورت بھی گھر، شوہر ، بچوں کے بارے میں مسئول ہے ۔(مجموعہ ورام صفحہ 6) ہمارے یہاں آج کل جو شادی بیاہ کی قدروقیمت گھٹ گئی ہے کہ معمولی معمولی باتوں پرعلیحدگی ہوجاتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کل شادی بیاہ میں واقعیات زندگی کا خیال نہیں رکھا جاتا اس قسم کی شادیاں عموما رومانی اوربچکانہ و کچے تصورات کی بناء پرکی جاتی ہیں ۔ بہت سے لوگ ہم آہنگی اتحاد نظریات کے بغیر محض دولت و شہرت اورظاہری نمائش پرشادی کرلیتے ہیں اس کے نتیجے میں یہ شادیاں ناکامیاب ہوتی ہیں ان کا مستقبل تاریک ہوتا ہے کیونکہ عورت و مرد کے اختلاف نظریات روزبروزوسیع سے وسیع ترہوتے جاتے ہیں اورآخری نتیجہ علیحدگی کی صورت میں ظاہرہوتاہے ۔جب تک لوگ اصولی اور صاحب فکرونظر نہ ہوں گے زندگی کے واقعی مسائل کاصحیح مطالعہ نہيں کریں گے اس قسم کےحالات روز بروز بڑھتےجائيں گےاسیوجہ سےاسلام نےایسے طرزفکرــــــــــــــجوبد بختی اور کشمکش کے علاوہ کچھ بھی نہیں دیتا ــــــــــــــ کو رد کردیاہے ۔ اسلام کی نظر میں تشکیل خانوادے کے لئے دولت ، شہرت ،مادی ، امور کی کوئی قیمت نہيں ہے بلکہ شادی کا دارومدار ایمان و فضیلت عفت و پاک دامنی پر ہے مرد وعورت کے تقوی و پرہیز گاری کیطرف خصوصی دیتاہے پیغمبر اسلام (ص) فرماتےہيں : جو شخص کسی عورت سے خوبصورتی کی بناء پر شادی کرے گا اپنی محبوب چیز اس میں نہيں پائے گا اور جو کسی عورت سے محض دولت کی خاطر شادی کرے گا خدا اس کو اسی کے حوالے کردے گا ۔ اس لئے تم لوگ باایمان و پاک دامن عورت سے شادی کرو ۔(وسائل جلد3 صفحہ 6) اسلام نے تشکیل معاشرے کی طرف بہت تشویق وترغیب دلائی ہے ۔حدیہ ہے کہ شادی سے زیادہ پسندیدہ کسی چیز کو نہيں قراردیا ۔(من لا یحضرہ الفقیہ 409) جولوگ نامعقول اسباب کی بناء پر شادی نہيں کرتے ان کی مذمت کی ہے اور ہر اس بہانے کوجوجنسی روکو غلط راستے پر ڈال دے سختی سے روکتا ہے فرماتے ہيں : نکاح میری سنت ہے جو میری سنت سے اعراض کرے گا وہ مجھ سے نہیں ہے ۔ (سفینۃ البحارجلد1صفحہ561)اسی طرح ایسے لوگوں سے اسلام شادی کو روکتا ہے جن کے اندر نفسانی کمالات اورروحانی فضائل نہ پائے جائيں اورجو خاندان نجیب نہ ہو، یا اخلاقی و مذبہی تربیت سے بےبہرہ ہواس سے بھی شادی کو روکتا ہے گھورے کی سرسبزی سے بچو! لوگوں نے پوچھا اس سے کیامرادہے ؟فرمایاایسی خوبصورت عورت جس کا خاندانی ماحول خراب ہو ۔(وسائل کتاب نکاح باب 7) ظاہر ہے کہ جو بیویاں اخلاقی ومذہبی اصول وقوانین کی پابندی نہيں ہیں وہ خاندان کوخوش بخت وسعادت مند نہيں بناسکتیں،اورایسی شادیوں کانتیجہ بدکار، شہوت پرست اولاد کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے ۔اسی لئے اسلام دونوں کی نیک بختی کی طرف عقلی واخلاقی لحاظ سے خاص نظررکھتا ہے اوربری وفاسد نسلوں سے شادی کو منع کرتا ہے ۔ اگر نوجوان بیوی کومنتخب کرتے وقت ظاہری ٹھاٹھ باٹھ کونہ دیکھتے ہوئے اسلامی اصول کی پابندی کریں اورخواہشات نفس کے بجائے عقل سے کام لیں تو بدبختی سےبچ سکتے ہيں ۔ ہمارے آج کل کے نوجوان بیوی کے انتخاب کے لئے صحیح راستہ یہ سمجھتے ہیں کہ کچھ دنوں تک عورت کےساتھ باقاعدہ نشست برخاست رکھی جائے ۔ساتھ رہا جائے تاکہ اس کے اخلاق وعادات سے جانکاری کے بعداقدام کیا جائے تاکہ پوری زندگی خوشگوار طور سے گزرے حالانکہ یہ طریقہ اپنے مفاسد ونقصانات کےساتھ بیوی کے صفات وخصائص پرپوری طرح سبب اطلاع نہيں ہے کیونکہ اس کے لئے بہت طولانی معاشرت کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ " خبث نفس نگردد بسالہا معلوم" تھوڑے دنوں کی آمدورفت نشست و برخاست سے کافی معلومات نہیں حاصل ہوسکتے ۔ بلکہ جوں جوں زندگی میں واقعات و حادثات رونما ہوتے رہیں گے اسی طرح انسان کی شخصیت آشکاراہوگی درحقیقت کسی کے صبروشکیبائی، متانت، بردباری،قناعت، درگزر، فداکاری وغیرہ کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب کوئی جاں گداز واقعہ پیش آجائے ورنہ خوشی و آسائش و تفریح کے وقت ان اخلاقی صفات کا اندازہ نہيں لگایا جاسکتا ۔ کیا تفریح گاہ یا سینمامیں ملاقات سے طرفین کی حقیقت معلوم ہوسکتی ہے ؟ جبکہ ابتدامیں دونوں طرف کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنی کمیوں کا اظہار نہ ہونے پائے ، بلکہ تصنع کرکے اپنے کونیک خصلت ، پسندیدہ صفت ظاہر کرنےکی کوشش کرتے ہيں ایسی صورت میں صحیح حالات کاعلم کیونکر ہوسکتا ہے ؟ بھلا سوچئے تو جو نوجوان عمر کے شدید جذباتی دور میں ہیں وہ محض چند دنوں ساتھ رہ کر کس طرح سے پتہ لگاسکتے ہیں کہ روحانی اوراخلاقی لحاظ سے دونوں میں کوئی اختلاف نہيں ہے ؟اس شہوانی دوراورخواب دیکھنے کی عمرنوجوان جنسیات کے علاوہ کچھ سوچتا ہی نہيں۔! کیاوہ نوجوان مختصر سی مدت ساتھ رہنے کے بعد اپنی بیوی کاانتخاب کریں گےاور اس سے شادی کریں گے ، وہ آخری عمرتک لڑائی جھگڑے کشمکش سے بچے رہیں گے؟ ان کےاوران کی بیوی میں کسی قسم کااختلاف نہیں ہوگا ؟ اور یہ دونوں قابل غبطہ زندگی بسر کرسکیں گے ؟ ہرگز نہيں ۔ ! تجربات اس کے برخلاف موجود ہيں ! کیونکہ اس قسم کی شادی میں شروع شروع تومیاں بیوی بہت خوش خوش رہتے ہیں لیکن رفتہ فتہ ایک دوسرے کی کمی کی گرفت کرنےلگتے ہیں اور پھرنتیجہ طلاق کی صورت میں ظاہرہوتاہے ــــــــــــــ ہر جوان کویہ بات یادرکھنی چاہئے کہ دو آدمیوں میں روحی تطابق ہرجہت سے اس طرح مشکل کیابلکہ محال ہے جس طرح کہ ظاہری قیافہ میں اتحاد اورشکل و صورت میں مطابقت مشکل ہے۔اس کے علاوہ عورتوں کااندازہ فکر اوران کے احساسات کچھ اس قسم کے ہوتے ہیں کہ خواہ مخواہ ان کومرد سے الگ صورت میں مشخص کرتے ہیں ۔ اسلام شادی بیاہ میں جس اہمیت کاقائل ہےاسی کے پیش نظراس نے ہرفردکواجازت دی ہے کہ نکاح سے پہلے اپنی ہونے والی بیوی کودیکھ لےاوراس کےاخلاقیات ودیگر خصوصیات کا علم جانکارافراد کے ذریعے بہت آسانی سے حاصل کرسکتا ہے ۔ خاندان کی نیک بختی سب سےپہلے مردوعورت کے روابط ویگانگت پرموقوف ہوا کرتی ہےاس گھر کے دواصلی افرادمیں روحانی روابط جتنے زیادہ استوارہوں گے اسی قدراس گھر کی خوش قسمتی بھی ہوگی۔جب مردعورت میں ایک دوسرے پرفدا کاری کا جذبہ جتنا زیادہ موجودہوگا تو ماحول اتنا ہی اچھاہوگااور یہی جذبہ فدا کاری خاندان کوتباہ وبرباد ہونے سے بچالیتی ہے ۔ معاشرتی حقوق و قوانین کے علاوہ بھی اسلام نے گھریلو زندگی میں بھی ایسے مبنی برانصاف قانون بنائے ہیں جس سے ہر ایک کے فریضے الگ الگ ہوجاتے ہيں
Subscribe to:
Posts
(
Atom
)