Friday, November 16, 2012

ظالم ابن ظالم کی دہشت گردی کوشاباشی کیوں(قسط2)


ظالم ابن ظالم کی دہشت گردی کوشاباشی کیوں(قسط2)
میم ضادفضلی
شام مسلسل جل رہا ہے۔اسد کی دہشت گرد فوج نہتے شہریوں ،کمزور بوڑھوں،سن رسیدہ ماؤں، شیرخوار بچوں، مدارس میں اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے زانوئے تلمذ تہہ کئے مہمانان رسولﷺ اور کتاب وسنت کی درسگاہیں آراستہ کئے بوریا نشین علماء کرام،بندوقوں میزائلوں، بموں اور کلاشنگ کوف کی زد پر ہیں۔مساجد میں سربہ سجود مسلمان،تلاوت میں مصرو متقین، بازاروں میں قوت لایموت کیلئے تپتی دوپہر میں پسینہ کی جگہ اپنا خون جلارہے آبلہ پا مزدور،گھروں میں گرم عبادت عفت مآب خواتین بھی بے تحاشہ بشارالاسد کی دہشت گرد فوج کے ذریعہ بلند کی جانے والی آگ کی لپٹوں میں جھلس رہی ہیں اور ان کا لاشہ راکھ میں تبدیل ہورہا ہے۔ حمص سے حلب تک ،دمشق سے لاذقیہ تک،صف ماتم بچھا دی گئی ہے۔عوام اور بشارالاسد کے قصاب خاندان کی یہ جنگ تقریباً20ماہ پرانی ہوچکی ہے۔ مگر اس طویل مدت میں شام کے بے گناہ اور جمہوریت پسند عوام کو سکون کی ایک نیند میسر نہیں ہوسکی۔ ان کی زندگی کا لمحہ لمحہ موت کے دہانے پر کھڑا ہے۔ پتہ نہیں کدھر سے اسدی فوج کے دہشت گرد اور نام نہاد مجاہد جماعت حزب اللہ کے خونخوار کس سمت سے آئیں اور پوری آبادی کو قبرستان میں تبدیل کرکے چلتا بنیں یہ کوئی نہیں جانتا۔ ہم نے پہلی قسط میں بھی یہ وضاحت کی تھی اور دلیل کے طو رپر 1971سے شام میں جاری حالات وواقعات سے پردا اٹھاکر اپنے موقف کو مدلل کرنے کی کوشش کی تھی کہ شام میں اس وقت لڑی جانے والی جنگ مسلکی فکر سے عبارت ہے۔10فیصد نے90فیصد کو کچل کر سرزمین شام کی سیاہ وسفید کا مالک بن جانے کی ناعاقبت اندیشانہ پالیسی کے تحت نہتے باشندوں پر جبری جنگ تھوپ رکھی ہے۔
مگر انتہائی شاطرانہ طریقے سے ان ممالک میں جہاں غیر علوی مسلمان معتدبہ تعداد میں رہائش پذیر ہیں کچھ دستار فروش بے ضمیروں کی ٹیم منظم طریقے سے یہ پروپیگنڈہ کررہی ہے کہ شام کو مغربی استعمار نے جنگ میں جھونک رکھا ہے، اس کے اسلحے جمہوریت اور عوامی حکومت کی راہوں میں مزاحمت پر اڑے عوام کے ہاتھوں میں ہیں۔یہ الزام بھی عائد کیا جارہا ہے کہ بڑی تعداد میں پڑوسی ممالک کے غیر علوی شدت پسندطاقتیں شام کی فوج کے خلاف باغیوں کو تقویت دے رہی ہیں۔دیگر ممالک میں یہ پروپیگنڈے بھی عام طور سے ذرائع ابلاغ کی توسط سے پھیلائے جا رہے ہیں کہ شام کو کمزور کرکے اسرائیل کو طاقت ور کرنے کی مغربی سازشیں شام میں حکومت کے خلاف بغاوت کو ہوا دے رہی ہیں۔ حالانکہ خود اسد خاندان کی تاریخ پر غائرانہ نگاہ ڈالیں اور عصبیت کی عینک اتار کر دیانت دارانہ جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ خود بشار الاسد کے قصاب باپ حافظ الاسد نے اسرائیل کی درپردہ حمایت کے نتیجے میں ہی شام کے اقتدار پر قابض ہونے کا خواب پورا کیاتھا۔ 70کی دہائی سے قبل جس وقت شام اسرائیل سے برسرپیکار تھا اسی وقت حافظ الاسد کو لالچ دے کر فوج کو پسپائی پر مجبور ہونے کی سازش ترتیب دی گئی اور اس کے نتیجے میں اسرائیل کی سرحد سے متصل گولان پہاڑی کے بیشتر حصے انعامات کے طورپر یہودی حکومت کے سپرد کردےئے گئے۔ دنیا کے مسلمانوں کو یہ پیغام دینے کی مذموم کو شش کی گئی کہ کمزور اور پسپا ہونے کی وجہ سے شام کی فوج اسرائیلی معرکہ آرائی میں پیچھے ہونے پر مجبور ہوئی ہے۔ حالانکہ اس کے پس پردہ منصوبہ بند سازش کام کررہی تھی۔ ایک ایسی سازش جس کے نتیجے میں حافظ الاسد کے خاندان کو شام جیسے اسلامی تاریخ کے اہم ملک کی ابدی حکومت ملنے والی تھی۔ ایک ایسی حکومت جس کا سلسلہ نسل درنسل منتقل ہونا تھا، اس کیلئے یہ بھی ضروری تھا کہ ان تمام طبقات اور طاقتوں کو پوری طرح کچل دیا جائے جس کے ذریعہ مستقبل میں کبھی حق اور انصاف کے لئے آواز بلند کرنے کا شک وشبہ بھی ہو۔اس سازش کی قیادت اگر چہ مغرب کے ہاتھوں میں تھی مگر مارکسی گود میں پلنے کی وجہ سے اس وقت کے سپر پاور روس کی سرپرستی بھی حافظ الاسد کو حاصل ہوگئی۔ پھر تاریخ کی آنکھوں نے دیکھا اور بدستور دیکھ رہی ہے کہ حافظ الاسد کے اقتدار سنبھالنے کے دن سے آج تک مسلسل شامی قوم اس قصاب خاندان کے ہاتھوں میں ذبح ہورہی ہے۔اسد کی حکمرانی اس کی شخصی آمریت اور اکثریت پر علوی فرقہ کا اقلیتی تسلط تھا جسے عالمی ضمیر نے بھی تقریباً نصف صدی سے بے گناہ عوام کے قتل عام کی اجازت دے رکھی ہے۔ایک بار ہم پھر دوہرا لیں کہ حافظ الاسد کو ملنے والا اقتدار گولان کے علاقے سے شام کی ابدی محرومی کی شرط پر حاصل ہوا تھا۔اسرائیل سے اس نے اپنی شکست اور افواج کی پسپائی کا خود ساختہ اعلان کرنے والے اس وقت کے شامی وزیردفاع حافظ الاسد کا یہ فیصلہ اس کی ذات اور خاندان کیلئے شاہانہ زندگی کی ضمانت پرترتیب دیاگیا فیصلہ تھا۔ اس کے بعد تقریباً42برسوں سے وہی شام باپ بیٹے کی آمریت میں سلگ رہا ہے۔باپ نے تین مارچ1971کو اقتدار سنبھالنے کے بعد عوام کو طرح طرح کے عذاب اور تشدد کا نشانہ بنایاتھا۔اس کے پس پشت حافظ الاسد کی یہ مذموم پالیسی کام کررہی تھی کہ شام کی اکثریت سنی قوم اتنی کمزور اور بے آواز ہوجائے کہ کبھی بھی اسد خاندان کی دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھانے کی جرأت نہ کرسکے۔چنانچہ اس ناپاک منصوبے کے تحت 27جون1980سے شام میں سنیو ں کے خلاف قتل وغارت گری کا بازار گرم کیاگیا جس کی ابتداء شام کے معروف شہر تدمر سے ہوا۔10مارچ 1980کوجسر الشغورکے مقام پر،12اپریل 1980کو حماۃ میں،11اگست 1980کی صبح عین عیدالفطر کے دن تاریخی شہر حلب کے محلہ المشارفہ میں سنیوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی اور خوفناک تعداد میں ان کے جوانوں،بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو تہہ تیغ کردیاگیا۔چنانچہ کئی مستشرقین نے بھی حافظ الاسد کی دہشت گردی کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ1980کے دور میں حافظ الاسد کے ہاتھوں تقریباً40ہزار سنیوں کا قتل عام کردیاگیا۔آےئے ایک اور تاریخی دہشت گردی سے آپ کو واقف کراتے ہیں۔2فروری1982میں شام کے شہر حماۃ کو ایک بڑے قتل عام کا تحفہ دیاگیا اور نہتے سنی عوام کے تقریباً30ہزار نفوس کو محض 20دن کے اندر موت کی نیند سلادیاگیا۔کیا ان خونریزیوں کے باوجودہمارے سنی ضمیر فروش مولوی جو ہندوستان میں 1951سے مسلسل مظلوم مسلمانوں کے لہو کا سودا کررہے ہیں اور اس کے طفیل حکومت سے اعزازات وانعامات کی بارشیں ہورہی ہیں۔ کیا ہمارے ان بے ضمیر قائدوں کو شرم آئے گی کہ وہ سب کچھ بھول کر اور جاہ پرستی ومال ودولت کی لالچ سے اوپر اٹھ کر شام کے مظلوم سنیوں کے لئے انصاف کی آواز بلند کریں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ روہنگیا کے مظلوم مسلمان ہمارے ملی دکانداروں کو مظلوم نظر آتے ہیں مگر گزشتہ20ماہ سے شام میں گاجر مولی کی طرح کاٹے اور تراشے جارہے مظلوم سنی کا درد انہیں بے چین نہیں کرتا۔یہ ایک راز ہے جس سے پردا اٹھانا ہوگا اور ان حقائق تک ہمیں پہنچنا ہوگا جس پتہ چلے کہ امت مرحومہ کی قیادت اس وقت ایسے منافقوں، ظالموں اور جابروں کے ہاتھوں میں ہے جو کھنکھناتے سکے دیکھ کر کتے کی طرح دم ہلانے کو ترقی اوراعزاز کا سامان سمجھے ہوئے ہیں۔ 9911587378

Wednesday, November 14, 2012

مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کے پیچھے...


کسی قوم کاسیاسی استحصال کرنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ اس قوم کو ہمیشہ حالات اور مصائب سے دوچار رکھا جائے۔ یہ حقیقت توقطعی محتاج وضاحت نہیں ہے کہ فارغ البال اور خوشحال رہنے والی قوموں کا نہ کوئی سیاسی استحصال ممکن ہے اور نہ اس کی کسمپرسی کوایجنڈہ بناکر سیاسی دکانیں سجائی جاسکتی ہیں۔ اگر ہم ہندوستانی جمہوریت کے پس منظر میں مندرجہ بالا تھیوری پر سنجیدگی سے اور دیانت دارانہ غور کریں تو یہ بات روزروشن کی طرح واضح ہوسکتی ہے ۔کے سمجھانے کیلئے نہ کسی مثال کی ضرورت ہے اور نہ کوئی منطقی یا فلسفیانہ توضیحات کی ضرورت ہے۔ ہندوستانی سیاست کے بارے میں دنیا کے مبصرین کی تقریباً عام رائے یہی رہی ہے کہ یہاں مسلمانوں کو ٹارگٹ کرکے آزادی کے بعد بتدریج فرقہ وارانہ فسادات بھڑکانے کا مقصد صرف یہی تھا کہ کسی طرح اس لٹی پٹی اقلیت کے جذبات خریدے جائیں اوران کے معاشرے میں سیاسی ایجنڈا بنانے کا موضوع نام نہاد سیکولر جماعتوں کو حاصل رہے۔ چنانچہ ایک طویل عرصہ تک ملک بھر میں ہزار روں فرقہ وارانہ فسادات کرائے گئے۔ آپ آزاد ہندوستان کی تاریخ کا مطالعہ کریں تواندازہ ہوگا کہ 1964کے جمشید پور فسادات سے لے کر 2002کے گجرات فسادات تک ملک میں برپا کی جانے والی قتل وغارت گری میں سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کا ہوا۔ اگر ہم اپنی یادداشت کے مطابق آزادی کے چندسال بعد1963کے رانچی فسادات کو اسی فہرست میں شامل کرلیں توبات اوربھی زیادہ واضح ہوجائے گی، جس کے بارے میں کہا یہ جاتا ہے کہ مذکورہ فرقہ وارانہ فسادات سے قبل رانچی میں مسلمانوں کی قابل ذکر آبادی رہتی تھی۔ انگریزوں کے ذریعہ گرفتاری کا وارنٹ جاری کئے جانے کے بعد امام الہند مولانا ابوالکلام آزادؒ نے بھی رانچی میں محض اسی وجہ سے قیام فرمایاتھا کہ وہاں ان کے مریدین اور معتقدین کی بڑی تعداد قیام پذیر تھی۔ جنہوں نے آلام وابتلاء کے دور میں امام الہند کو اصرار کرکے رانچی میں قیام کرنے پر آمادہ کیاگیاتھا۔ انہوں نے رانچی کو اس لئے بھی ترجیح دی تھی کہ وہاں برادران وطن کے علاوہ مسلمانوں کی معتد بہ تعداد موجود تھی، مگر رانچی میں آزادی کے چندبرس بعدہی برپا کئے جانے والے فرقہ وارانہ فسادات نے ایسی خونچکاں داستاں رقم کردی کہ وہی رانچی مسلمانوں کیلئے ایک اجنبی شہر بن کر رہ گیا۔ آج رانچی میں مسلمانوں کی آبادی اتنی مختصر رہ گئی ہے کہ کوئی بھی فرقہ پرست پارٹی کا امیدوار بآسانی انتخاب جیت جاتا ہے۔نہ تواس کیلئے امیدوارکواقلیتی آبادی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور نہ انہیں اپنی جانب مائل کرنے کیلئے کسی پلاننگ یافلک بوس وعدوں کی۔ہم کہنا یہ چاہ رہے ہیں کہ فرقہ وارانہ فسادات کرانے کے پس پردہ جو مقاصد کارفرما تھے وہ صرف اورصرف یہی کہ کسی طرح خود کو سیکولر قرار دینے والی سیاسی جماعتوں کو مسلمانوں کا ووٹ حاصل کرنے کا بہانہ ملتا رہے،اس حقیقت میں بھی انکارکی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ ملک میں مسلمانوں کے قتل عام کی تمام وارداتوں میں براہ راست نقصان اسی مظلوم اقلیت کاہوا ہے ،مقتولین میں ان کی گردنوں کی تعدادزیادہ رہی املاک واسباب کی بربادی میں بیشترنقصان انہیں کاہوااورانہیں کوعقوبت خانوں میں بھی سب سے زیادہ ٹھونساگیا۔ جبکہ تسلسل کیساتھ فرقہ پرست عناصر اپنی طاقت کو مستحکم کرنے کے مقصد سے یہ کارستانیاں انجام دیتے رہے ،المیہ تویہ ہے کہ مسلمانوں کی مظلومیت کانعرہ دینے والی جماعتوں نے ان کے ساتھ روارکھی جانے والی ناانصافیوں کی دہائی دیکرمسلمانوں کے ووٹوں سے کرسیاں حاصل کیں اوراقتدارملتے ہی مظلوموں کوانصاف دلانے کے سارے عہدوپیمان چھوڑکرظالموں کی نازبرداری کوہی اپنااوڑھنابچھونابنالیا،قاتلوں کوبچانے کی مجرمانہ سازشیں رچی گئیں اوران مسلم کش فسادات میں اپنے فرض کوانگوٹھادکھانے والے پولس افسران کوترقیاں دی جاتی رہیں۔ہم بلاخوف تردیدیہ بات کہہ سکتے ہیں کہ 90کی دہائی سے قبل جہاں جہاں بھی فرقہ وارانہ فسادت کرائے گئے ان میں سے بیشتر ریاستوں میں کانگریس ہی برسراقتدار تھی جبکہ مرکزمیں بھی صرف اسی کے نام کاسکہ چلتاتھامگرصدافسوس کہ ہمیشہ خودکوسکولراقدارکاسب سے بڑاعلمبردار کہنے والی کانگریس پارٹی کے حکمرانوں نے مسلمانوں کے ساتھ فریب کے کاروبار ہی چلائے مسلمانوں کے ووٹوں نے انہیں اقتدارتک پہنچا اور ان غیظ وغضب کاشکار بھی سب سے زیادہ مسلمان ہی رہے،جس کاسلسلہ کسی نہ کسی بہانے سے آج بھی جاری ہے۔اور یہ کہنابھی غیرمناسب نہیں ہے کہ کانگریس آئندہ بھی اپنی دغاآمیزسیاست میں پیش پیش رہے گی۔اگرچہ مسلمانوں پرڈھائے جانے والے عتاب کی نوعیت بدل جائے ۔واضح رہے کہ90کی دہائی کے بعد جب ملک کی کچھ ریاستوں میں کانگریس کے برخلاف دوسری سیکولر جماعتیں اقتدار میں آئیں اور ان کے وزرائے اعلیٰ نے فسادات کے ادوار میں قائدانہ رول ادا کرنے والے لوگوں کے چہرے سے نقاب الٹنا شروع کردیا تو پھر فرقہ پرستوں کیلئے مذہبی فسادات بھڑکانے کا حوصلہ ٹوٹتا چلا گیا،مسلمانوں کو انصاف دلانے کیلئے پہل کرنے والی جماعتوں میں بھی کانگریس پارٹی کہیں نظرنہیںآتی ،البتہ اس کاکریڈٹ لینے کاکانگریس پارٹی نے کبھی کوئی موقع فروگذاشت نہیں کیا۔غیرکانگریس سیکولرحکومتوں کے اقدامات سے فرقہ پرستوں کو یہ خوف ستانے لگا کہ فرقہ وارانہ فسادات کی حقیقت کبھی نہ کبھی ضرور سامنے آئے گی اور اس طرح ان کی ناپاک کارکردگیاں دنیا کے سامنے عام ہوجائیں گی جو ان کے لئے بڑے شرم کی بات ہے۔ لہٰذامسلمانوں کو مسائل سے دوچار رکھنے کیلئے 2002کے گجرات فسادات کے بعدمسلم نوجوانوں کو دہشت گردانہ حملوں کے الزام میں گرفتار کرنے کی سازش تیار کرکے وسیع پیمانے پر اسے ملک میں پھیلا دیاگیا۔حالانکہ این ڈی اے کے دورحکومت میں مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن لال کرشن اڈوانی نے دینی مدارس کا سروے کراکریہ اعتراف کیاتھاکہ دہشت گردانہ سرگرمیوں سے دینی مدارس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔یہ اس قسم کی غیر انسانی سازشوں سے بالکل پاک ہے اور اپنے مذہب کی ترویج واشاعت کیلئے خدمات انجام دے رہے ہیں۔دینی مدارس اور غریب مسلمانوں کی گرفتاریوں سے عام لوگوں میں اتنی بوکھلاہٹ اور بے قراری پیدا نہیں ہوتی تھی جس سے یہ سمجھا جاسکے کہ مسلمان اپنے غریب طبقہ کے ساتھ بروئے کار لائے جارہے اس ظالمانہ حرکت کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں اور یہ نام نہاد سیکولر جماعتوں کیلئے الیکشن میں اقلیتوں کو ٹھگنے کا بہترین مدعا بن سکتا ہے ، دہشت گری کے الزامات میں دینی مدارس کے طلبہ یااساتذہ کی اسپیشل سیل اورخفیہ ایجنسیوں کے ذریعہ انجام دی جانے والی گرفتاریوں کے نتیجے میں نام نہاد سیکولرجماعتوں کے کو،ان کے ابن الوقت مسلم لیڈروں اورکانگریس سے وابستہ مسلم نمائندوں اورملی دکانوں کے مالکان کومایوسی ہی ہاتھ لگی۔لہذا بعد کے ادوار میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کا الزام لگاکر مسلمانوں کے متوسط اور اعلیٰ گھرانوں کے نوجوانوں کو ٹارگیٹ کیا جانے لگا۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی خوف نہیں ہے کہ جب تک غریب مدارس کے طلبہ واساتذہ یا انتہائی پسماندہ حد تک تباہ ہوچکا غریب مسلمان ایجنسیوں کے عتاب کا نشانہ بن رہے تھے اس وقت تک نہ توہمارے مسلم سیاسی لیڈران اس موضوع کوسنجیدگی سے لے رہے تھے اور نہ انہیں اس میں کوئی سیاسی فائدہ نظر آرہاتھا۔ مگر اعلیٰ طبقات کے نوجوانوں پر خفیہ ایجنسیوں کا پنجۂ استبداد پڑتے ہی انہیں سمجھ میں آگیا کہ اب ان کاررائیوں کے خلاف مستعد اور پرعزم ہوکر آواز بلند کرنے کا وقت آگیا ہے جس سے سیاسی فائدے بھی حاصل ہوں گے اور واہ واہی لوٹنے کا بھی بھرپور موقع ملے گا۔ یہی وجہ ہے کہ آج مسلم نوجوانوں کی ہرناجائز گرفتاریوں کے بعد پورے ملک میں محاذ آرائی ہوتی ہے اور اسی بہانے کچھ لوگوں کو اپنا سیاسی الوسیدھا کرنے کا بھر پورموقع ملتا ہے،جبکہ مظلوں کوان کی شورانگیزیوں سے کبھی کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ور نہ کوئی وجہ نہیں تھی کہ سیکولرزم کا مکھوٹا چڑھا کر مسلمانوں کا قتل عام کرنے کا مشن لے کرکام کرنے والی سیاسی جماعتوں کے خلاف ہمارے یہ بڑے لوگ کھل کر میدان میں نہ اترتے اور ملت کے ایک ایک فرد کو یہ باور کرانے کی کوشش نہ کرتے کہ یہ سیکولر نہیں ہیں جنہیں آپ نے اپنا سمجھ کر اقتدار سونپنے کا فیصلہ کرلیا ہے بلکہ یہ آستین کے سانپ ہیں ان سے ہوشیار رہئے۔

MOBILE: 09911587378


Thursday, November 8, 2012

ظالم ابن ظالم کی دہشت گردی کو شاباشی کیوں؟

 سچ بول دوں..........میم ضاد فضلی
 دنیا میں بے گناہ انسانوں کا قتل عام کسی بھی دردمنددل انسان کے لئے کبھی بھی قابل قبول نہیں رہا ہے اس کے برعکس انسانی زندگی سے محبت وعقیدت رکھنے والے انسانیت نوازوں نے ہمیشہ ایسے ظالمین پر لعنت وملامت اور مذمت بھیجی ہے۔انسانی نسلوں کے قتل عام کو چاہے اس کے پس پردہ کوئی بھی مقصد کارفرمارہا ہو انسانی دنیا میں کبھی پسند نہیں کیا گیا۔چنانچہ ہٹلر کے ذریعہ جرمنی اور خطہ ارض پر آباد دیگر علاقوں میں یہودیوں کے قتل عام کو بھی کبھی پذیرائی نہیں ملی۔خود ہٹلر کے حلقہ سے وابستہ لوگوں نے بھی ہٹلر کے اس عمل پر اس کی سرزنش کی ہے اور انسانی ہمدردی کے ناطے یہودیوں کے قتل عام کوقابل مذمت عمل قراردیا ہے۔ اگر تاریخ عالم کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ خود ہمارے وطن عزیز ہندوستان میں قتل وغارت گری کا بازار گرم کرنے والے انگریزوں کی فرعونیت کے خلاف بہت سارے انسانیت دوست انگریزوں نے محاذ آرائی کی ،ظلم وجبر کے خلاف اپنے قلم کا استعمال کیا اور ایسی غیر جانب دارانہ تاریخیں مرتب کیں جس سے انگریزی سامراج کے مظالم کی داستان صفحہ قرطاس پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوگئی۔ ہم کہنا یہ چاہ رہے ہیں کہ ظلم بہر حال ظلم ہے ،بے گناہ انسانوں کا قتل انسانی سماج کے دامن پر ایک مکروہ داغ ہے،عفت مآب خواتین کی آبروریزی کو انسانی معاشرے نے ہمیشہ قابل ملامت گردانا ہے۔ یہ الگ سی بات ہے کہ کچھ طبقہ اپنے ذاتی منفعت اور کسی قسم کی رشتہ داری نبھانے کے لئے اپنوں کے ذریعہ روا رکھی جانے والی غارت گری کی حمایت کرتا ہو،مگر یہ قطعی نہیں ہوسکتا کہ حمایت کرنے والے کا پورا معاشرہ اس ظالم کے ساتھ ہوگا جس نے بے گناہ انسانوں کے قتل عام کو اپنے سامراج کی بقا اور آمریت کے دوام کے لئے جائز گردان لیا ہو۔ ہم اس وقت شام میں گذشتہ 19ماہ سے جاری بشارالاسد کی انسانیت کے خلاف دہشت گردی کو اپنے اسی تمہید کی روشنی میں واضح کرنا چاہتے ہیں۔ مارچ2011سے بشارالاسد کی فرعونی حکومت کے خلاف جدوجہد کرنے والے اور اپنی سرزمین پر اسلامی جمہوریت کے قیام کے لئے آواز بلند کرنے والے سیریاکے عوام پر اسد کی ظالم فوج کے ذریعہ قتل وغارت گری کے بازار کو کوئی بھی انسانیت دوست معاشرہ تحسین کی نگاہوں سے نہیں دیکھ سکتا۔ الا یہ کہ اگر کسی نے مسلکی عصبیت کی عینک چڑھا رکھی ہو تو اس کی بات نہیں کی جاسکتی۔ کیونکہ اس کی عصبیت زدہ عینک میں ظالم کا ظلم نظر نہیں آئے گا،البتہ انسانیت کا قتل عام مسلک دوستی کی بنیاد پر اسے جائز نظر آسکتا ہے۔اس وقت مجموعی طور پر دنیا میں جہاں کہیں سے بھی بشارالاسد کی فرعونیت اور شام میں انسانیت کے قتل عام کو تحسین کی نگاہوں سے دیکھا جارہا ہے تو اس کے پس پردہ بس یہی پالیسی کام کررہی ہے وہاں انسانی ہمدردی کے ناطے کوئی آواز بلند نہیں کی جاتی، بلکہ مسلکی رشتے کی بنیاد پر ظالم کی حمایت کا شور غوغا اسے ضرور کہا جائے گا۔ ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ اس وقت بڑی چالاکی سے کچھ انسانیت دشمن طاقتوں نے مسلم سماج پر اپنے ظلم وبربریت کو پوشیدہ رکھنے کے لئے اپنے ہر شیطانی عمل میں یہودی اور مغرب کا ہوّا کھڑا کرکے آگے بڑھنے کا راستہ ڈھونڈ نکالا ہے تاکہ مسلم معاشرے کی ساری توجہ اسرائیل اور مغرب پر مرکوز رہے اور یہ آسانی سے بے گناہ انسانوں کے قتل عام کے مکروہ کارنامے کو انجام دیتے ہوئے تاریخ انسانی کی تمام فرعونیت کو پیچھے چھوڑتے رہیں۔مگر انسانیت کے ان دشمنوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بہت دنوں تک اپنے ظلم اورقتل وغارت گری کو پوشیدہ نہیں رکھا جاسکتا ہے چاہے آپ اسے چھپانے کے لئے دنیا کے جتنے بہانے اور حربے نکال لائیں مگر ظلم تو ظلم ہے ایک نہ ایک دن سامنے آکر رہتا ہے۔ بشارالاسد اس وقت جو کچھ کررہا ہے اسے کسی فرماں رواکے خلاف اپنے قوم کے بغاوت کو کچلنے کا عمل قرار دینا حقائق کو چھپانے والی مکاری قرار پائے گا۔ جسے منافقین انسانیت نے ہر زمانے میں بخوبی انجام دیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے علوی حکومت کے ابتدائے آفرینش سے ہی شام مسلکی جنگ کی آگ میں تپ رہا ہے۔ بشارالاسد سے قبل حافظ الاسد کے خلاف بھی عوام نے علم بغاوت بلند کیا تھا،وہاں یہ فکر کام کررہی تھی کہ کسی طرح یہ مٹھی بھر علوی جن کا نہ کوئی دین ہے نہ دھرم اور جنہیں روسی کمیونسٹوں کو اپنا خدا بنانے میں کبھی کوئی عار محسوس نہیں ہوئی۔ ایسا حاکم جس کا ایمان وعقیدہ خدا بے زاری پر مشتمل ہے وہ کیسے اس سرزمین کی آبیاری اور تحفظ کے لئے مناسب ثابت ہوسکتا ہے جس سرزمین کے لئے پیغمبر اسلام نے برکت کی دعا کی تھی۔ جہاں امام ابن تیمیہ نے اپنی درسگاہیں آراستہ کی تھیں، جہاں قاضی القضاۃ ابوحازم نے انصاف کا پرچم بلند کیا تھا۔جس کی پاک سرزمین میں عبیدہ ابن جراح ،خالد ابن ولیداورصلاح الدین ایوبی جیسے پاسبان دین وملت آسودہ خواب ہیں۔ ایسی سرزمین کا تحفظ کسی کمیونسٹ نواز حکمراں کے ذریعہ قطعی ممکن نہیں ہے۔چنانچہ دین وملت سے محبت کرنے والے رجا ل اللہ نے 1982میں ہی بغاوت کی تحریک چھیڑ دی تھی اور حافظ الاسد کی غیر افلاکی، غیر انسانی اور خدا بیزار حکومت کے خلاف جمہوریت اسلام کے قیام کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے کا تہیہ کرلیا تھا۔ چانچہ حقوق انسانی کی عالمی تنظیموں نے حافظ الاسد کے ذریعہ برپا کئے گئے قتل عام کا ریکارڈ محفوظ رکھا ہوا ہے ۔ حافظ الاسد نے اپنی غیر انسانی آمریت کے خلاف آواز بلند کرنے والے تقریباً 30سے 40ہزار بے گناہ مسلمانوں کو تہہ تیغ کردیا تھا۔ حافظ الاسد کے ذریعہ شہید کئے جانے والوں میں اگر ایک طرف جواں عمر جیالے تھے تو وہ شیر خوار بچے بھی شامل تھے جنہوں نے ابھی دنیا میں آنکھیں کھولی تھیں اور جن سے کسی نا انصافی یا گناہ کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا۔ آج ایک طویل مدت کے بعد اسی فرعون کا بیٹا بشارالاسد انسانی لاشوں سے شام کی مقدس سرزمین کو مسلسل لالہ زار کررہا ہے،جس کا انکشاف کسی اپنے نے نہیں بلکہ ان غیروں نے بھی کیا ہے جنہیں بظاہر مسلمانوں کا دشمن کہا جاتا ہے مگر انسانی ہمدردی تو ظالم سے ظالم بھی کبھی نہ کبھی بے قرار کرتی ہی ہے ۔چنانچہ حقوق انسانی کی مغربی تنظیموں نے ابھی گذشتہ اگست2012میں ایک رپورٹ پیش کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مارچ2011سے اپنے عوام پر گولہ باری کرکے بشارالاسد کی کمیونسٹ نواز فوج نے تقریباً 36ہزار بے گناہوں کو موت کی نیند سلادیا ہے۔ یعنی یومیہ 165بے گناہوں کا قتل عام کیا جارہا ہے ۔ چونکہ بشارالاسد جس مٹی سے اٹھا ہے اس کی تاریخ ظلم وبربریت اور قتل وغارت گری کی خمیر سے نکلی ہے ۔لہٰذا انسانی جانوں کی ارزانی پر نہ اس کی غیرت کبھی بیدار ہوسکتی ہے نہ اس کا نفس کبھی اسے ملامت کرسکتا ہے۔کمیونسٹ کے بابائے آدم میں ہٹلر مسولینی یا روس کے بڑے بڑے رہنماؤں نے مسلمانوں کے قتل عام کی جو تاریخ رقم کی ہے اس کے تصور سے بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ایسی فکر سے جنم سے لینے والا کوئی رہنما بھلا انسانیت کیلئے ہمدرد کیسے ہوسکتا ہے اور اس کو بچے بوڑھوں اور معاشرے کے کمزور طبقات پر رحم کیسے آئے گا جس کے اجداد نے اسے انسانیت سکھائی ہی نہیں۔ چنانچہ حقوق انسانی کی عالمی تنظیمیں بتاتی ہیں کہ تقریباً 19ماہ سے زائد عرصہ سے جاری خانہ جنگی کے دوران اسد کی فوج نے لگ بھگ 3500شیر خوار بچوں کو شہید کردیا ہے ۔ آج صورتحال یہ ہے کہ یکم اگست 2012تک ایک لاکھ سے زائد شامی شہری اپنا وطن چھوڑ کر قرب وجوار کے ممالک میں پناہ لے چکے ہیں۔ جب کہ 2لاکھ 35ہزار لوگوں نے پناہ مانگنے والوں کی فہرست میں اپنا رجسٹرڈ کرالیا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ ہندوستان جیسے انسانیت دوست ملک میں بھی ایک طبقہ بڑی بے غیرتی اور ہٹ دھرمی کے ساتھ کمیونسٹ نواز بشارالاسد کی خون ریزیوں کو جائز گردان رہا ہے اور اس کے خلاف زبان کھولنے یا قلم ا ٹھانے والے جرأت مندوں کو ملامت اور تنقیدوں کا نشانہ بنارہا ہے اوراس ناپاک مشن میں غیروں کے علاوہ خود اہل سنت کے چند دستار فروش مولوی بھی شامل ہیں جنہوں نے صرف تہران کے ایک سفر کے لئے ایران کو اپنا خدا مان رکھا ہے۔ ان کی نگاہوں میں اسرائیل کی بربریت ظلم ہے، مگر بشارالاسد کی فرعونیت عین اسلام نظر آتی ہے۔ انسانیت سے محبت کرنے والا کوئی بھی معاشرہ نہ اسرائیل کی تائید کرسکتا ہے اور نہ بشارالاسد کی فرعونیت کو جائز قرار دے سکتا ہے، مگر اس وقت انتہائی چالاکی سے بشارالاسد کے ظلم وبربریت کو دنیا کی نگاہوں سے پوشیدہ رکھنے کے لئے کچھ ضمیر فروشوں نے یہودی سرکشی کے خلاف تحریک کا نام دے کر طوفان اٹھا رکھا ہے۔ قابل غور ہے کہ ابھی عید کی خوشیاں چہروں پرہویدا تھیں کہ عین خوشیوں کے اس موقع پر اسلامی تاریخ کے مقدس ترین دمشق پر عید قرباں کے تیسرے دن بشارالاسد کی ظالم فوج نے آسمان سے بارود کی بارش کردی جس میں تقریباً 200سے زائد مکانات زمین بوس ہوگئے ، تصور کیا جاسکتا ہے کہ ان مکانوں کے مکین کی تعداد کیا رہی ہوگی اور ان کا انجام کیا ہوا ہوگا۔مگر انسانیت سے ہمدردی کا نعرہ لگانے والے دستار فروشوں نے اسد کی فرعونیت کے خلاف کوئی آواز بلند نہیں کی ۔اس کے برعکس اس کے پڑوس میں آباد ایک ایسے ملک کی دعوتیں اڑاتے رہے جہاں مسلک کی بنیاد پر حد فاصل کھینچ دی گئی ہے اور جہاں مسلمانوں کے ایک سواداعظم کو عیدالاضحی کی نماز بھی نہیں پڑھنے دی گئی۔ مجبوراً انہیں عین تہوار کے دن خود کو اپنے گھروں میں قید کرکے خدا کے حضور سجدے کرنے پڑے۔ اب تک تو صرف عیدالفطر کی نماز پر پابندی تھی مگر اب وہاں دنیا کے مسلمانوں کی 96فیصد آبادی کے لئے بقرعید کی نماز اور قربانی پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔ مگر اسی ملک کے ایک سفر کے لئے اور تہران کے عالی شان ہوٹلوں میں داد عیش دینے کے لئے کچھ بے ضمیر مولوی نما نمائندوں نے اس کی انسانیت نوازی کے فسانے کا دنیا میں شور مچا رکھا ہے۔ اگر اسی بقر عید یا قربانی پر کسی غیر اسلامی ملک میں پابندی عائد کی جاتی تو اس وقت ان مولویوں کا رد عمل کیا ہوتا یہ محتاج وضاحت نہیں ہے۔ مگر انہیں تو صرف مفت کی بھیڑ اکٹھا کرکے اپنا الو سیدھا کرنا ہے نہ کل یہ انسانیت کے لئے مخلص تھے نہ آج ملت کے ہمدرد ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اب غیور مسلمان جرأت کریں اور شام میں جاری بشارالاسد کے ظلم وبربریت کے خلاف کم از کم مذمتی کلمات سے ہی سہی اپنے مشن کا آغاز کریں،اپنی دعاؤں اور خدا کے حضور عجز ونیاز پیش کرکے شام کے لئے امن کی التجا کریں۔ شاید اللہ کو ہماری یہی ادا پسند آجائے اور شام کے مظلوموں کی آزادی کی راہ رب کریم آسان کردے۔ 09911587378

Saturday, January 28, 2012

جب بھی ملتاہے کوئی زخم نیادیتاہے

کانگرےس لےنے سے زیادہ دےنے میں ےقےن رکھتی ہے۔ سےکولرزم کی بنیاد پر جدوجہدآزادی میں انگریزوںکے دانت کھٹے کردےنے والی اس جماعت میں فرقہ پرست عناصر کا ہمیشہ سے ہی بول بالا رہا ہے۔ اب اس غلط فہمی میں مت رہئے گا کہ دےنے کے معاملے میں کانگرےس کی سخاوت حاتم طائی کی قبر پر لات مارنے جےسی ہے لہٰذاکانگریس پرآنکھ موندکربھروسہ کرلیاجائے اور بھیڑ و ںکے ریوڑکی طرح حالیہ اسمبلی انتخابات میںسارے مسلمان کانگریس کواپنامسیحامانتے ہوئے سارے ووٹ اس کی جھولی میںڈال دیں۔ یہ سچ ہے کہ کانگریس جسے نوازنا چاہتی ہے اسے اوج ثریا تک پہنچادےنا اس کے بائےں ہاتھ کا کھےل ہے۔ آپ نے دےکھا ہوگا کہ کس طرح ملک کی انتہائی قلےل آبادی والے طبقہ کے ایک فرد کو آن واحد میں کانگرےس نے وزارت عظمی کی کرسی دے کرساری دنیا میں خودکے سےکولر اور جمہوری ہونے کے دعوے کو صحیح ثابت کردکھا یا۔ ےہ الگ سی بات ہے کہ سکھ اور ہندو مذہب میں بین بین کا فرق ہے جس کی بنیاد پر اقلےت کی لکےر کھےنچی جاسکتی ہے مگر ےہ توقطعا نہےں کہا جاسکتا کہ سکھ مذہب کسی بھی طور پر ہندو مذہب سے بہت زیادہ مختلف ہے۔ دےنے کے نام پر کانگرےس کے پاس اس کے علاوہ بھی کچھ ہے مگر اس کا نشانہ براہ راست مسلمان ہےں۔چنانچہ باربارہمارے کانگرےسی رہنماءاورنام نہاد مسلم لےڈران جلسہ گاہوںمیں چیخ چیخ کر مسلمانو ںکو ےہ تلقےن کرتے رہتے ہےں کہ عصری تعلےم کی ضروریا ت پوری کرنے کےلئے ہمیں اپنے ادارے کھولنے چاہئےں۔ مگر جب انہی کانگرےسی لےڈروں سے ےہ سوال کیاجاتاہے کہ کسی بھی ادارہ کے قیام سے پہلے اس کے الحاق اور رجسٹریشن کا مسئلہ سب سے زیادہ پرےشانیاں کھڑا کرتا ہے۔ آپ ےہ ےقےن دلادےں کہ مسلمان اپنی سوکھی روکھی روٹی میں سے تھوڑا بہت بچا کر تعلےمی ادارے کے قیام کےلئے مادی وسائل بہم کرنے کو تیار ہےں، رجسٹریشن اورالحاق کی ذمہ داریاں مسلمان ہونے کی حیثےت سے آپ لے لیجئے۔ اگرکانگرےس پارٹی میںشامل مسلم لیڈروںسے اس قسم کا سوال کیاجائے تو فوراً ہی بغلےں جھانکنے لگتے ہےں اور اس وقت بخوبی ےہ احساس ہونے لگتا ہے کہ مسلم لےڈروںکا پارٹی میں کیا معیار ہے اورکتنا اعتبار۔ان کی ناکامی واضح لفظوںمیںبتارہی ہوتی ہے کہ ہمارے مسلم کانگریسی لیڈران کی حیثیت صرف ایک بھونپوکی ہے جسے بجانے والاکوئی اورہے ۔البتہ ہرایک مسلم کانگریسی لیڈراپنی دنیاسجانے سنوارنے اورذاتی مفادات کے حصول میںاتنامگن رہتاہے کہ اسے لمحہ بھرکیلئے بھی یہ خیال نہیںرہتاکہ جن غریبوںکے جذبات سے کھیل کروہ اپنی دنےابنارہے ہیں،اس قوم کوکانگریس پارٹی سے تباہی وبربادی کے علاوہ کبھی کچھ نہیںملاہے۔ اگریہی مظلوم طبقہ کل ان سے اپنے ساتھ کانگریس حکومتوںکے ذیعہ رو ارکھی جانے والی ستم آرائیوںکا سوال کردے تویہ انہیںیہ کیاجواب دیںگے۔ قابل غورہے کہ کانگرےس پارٹی میں شامل مسلم لےڈران قوم کے نام پر اپنے ذاتی منفعت کے حصول میں ہمیشہ پےش پےش رہے ہےں۔ کانگرےس میںشامل لےڈران کی طرح دوسری جماعتوں میںشامل رہنماﺅں کی فہرست اس معاملے میں نہاےت ہی مختصرہے۔ ثبوت کیلئے ہم ڈی پی ایس جیسے اداروںکو دےکھ سکتے ہےں۔ قوم چولہے بھاڑ میں جائے مگر ہمارے مسلم لےڈروں کو پورے ملک میں اپنا ادارہ قائم کرنے کی سند تو مل گئی۔اس کے برعکس اگرکوئی اےسے ادارے کے قیام کا فےصلہ کیاجائے جس کی حےثےت اجتماعی ہو تو پھر دےکھئے کےسے مرکز میں بیٹھی ہماری کانگرےس پارٹی آپ کے سامنے مسائل کے انبار کھڑے کرتی ہے۔ حالانکہ ملک کی دےگر اقلےتوںکے ساتھ ےہی معاملہ بالکل جداگانہ ہے اس کےلئے آپ ریاست جھارکھنڈ کا جائزہ لے لیجئے۔ دوردراز دےہاتوںمیں قائم کرشچین بھائیوں کے اپنے عصری ادارے اوران میں تعلےم کی ہلچل آپ کوےہ گواہی دے رہی ہوگی کہ کانگرےس پارٹی میں بھےد بھاﺅ کا اجگر کتنا طاقتور اورمضبوط ہے۔ملک کے مسلمانوں کو دےنے کےلئے اگرکانگرےس کے پاس کچھ ہے تو وہ 1947 سے آج تک ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کی ایک طوےل فہرست ہے۔ مےرٹھ، ہاشم پورہ، مرادآباد ،ملےانہ اور بھاگلپور وغیرہ میں زندہ دفنا دی گئیں لاشوںکی باقیات ، جو چیخ چیخ کرےہ بتا رہی ہےں کہ کانگرےس مسلمانوںکودےنے کے معاملے میں کتنی سخی اور دریادل واقع ہوئی ہے۔ بابری مسجد کا دروازہ کھولے جانے سے اس کی شہادت تک کاواقعہ کانگرےس کی دادودہش کی داستان سناتاہے۔ آنجہانی راجیوگاندھی نے دروازہ کھولنے کی اجازت دی اورکانگرےس کے مضبوط ترین سنگھ نواز لےڈر نرسمہا راﺅ نے اسے زمےں بوس کردےنے کی راہ میں حائل رکاوٹیں دورکردےں۔آج بھی کانگرےس کی روش سے ےہ اندازہ لگانا مشکل نہےں ہے کہ اس نے اپنی بھول نہیں سدھاری ہے اور نہ دےنے کے طور طرےقے مثبت کرلئے ہیں۔سابقہ پالیسیوںکے برخلاف اب وہ سنجیدگی اورایمانداری کے ساتھ مسلمانوںکے ساتھ مسلسل روا رکھی جانے والی جانبدارانہ پالےسی سے نکل کر دیانت داری کے سفر پر چل پڑی ہے۔ آپ رشدی کی ہند آمد پر لگائی جانے والی روک سے اس غلط فہمی میں نہ رہےں کہ کانگرےس نے رشدی کے آنے کا باب بند کرکے خود کو سےکولر ہونےکی سند پےش کردی ہے، بلکہ کانگرےس نے رشدی کو ہند کے سفر سے روک کر پھر ایک با رمسلمانوں کوفرےب دےنے کی پالےسی پر سختی سے عمل کیاہے۔ کانگرےس ےہ چاہ رہی تھی کہ مےڈیا میں رشدی کی آمد کا ماحول گرم رہے اورخاموشی سے مسلم نوجوانوںکو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا جائے۔ اسی شوروغل کے دوران جب مےڈیا کی ساری توجہ سلمان رشدی پرٹکی ہوئی تھی، دربھنگہ ضلع کے دومسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کرلیاگیا۔ عےن اسی وقت راہل گاندھی نے اپنی مسلم دشمنی کا وافر ثبوت دےتے ہوئے ایک دیانتدار اور مخلص کانگرےسی کارکن کاجسے خود راہل کا دست راست کہا جاتا تھا ٹکٹ کاٹ کر نہ جانے کس پالےسی کے تحت لالوپرشاد کے سمدھی کو دے دیاگیا۔ مگرےہ خبرےں محض رشدی کے ہو ہنگامے کی وجہ سے موضوع بحث نہ بن سکیں۔ سکندرآباد سے کانگرےس کا امیدوار بنائے جانے والے نظام ملک کو پارٹی کا مضبوط لےڈر تصور کیاجاتاہے اورسکندرآباد میں مسلم ووٹوںکا فےصد بھی غےرمعمولی ہے۔ ےہ حالات بتار ہے تھے کہ کانگرےس نے نظام ملک کو ٹکٹ دے کر نےک نیتی کا مظاہرہ کیاہے۔ مگر وہ کہتے ہےں ناکہ چورچوری سے جائے ہےرا پھےری سے نہ جائے۔ بس وہی ہےرا پھےری ےہاں کی گئی اور برسوںسے پارٹی کےلئے کام کرنے والے فعال اور زمےنی لےڈر نظام ملک کوانگوٹھا دکھا دیاگیا۔ ےہ سارے حالات بتارہے ہےں کہ کانگرےس کے پاس دےنے کےلئے کچھ بھی نہےں ہے صرف وہ مسلمانوںسے لیناجانتی ہے۔ کبھی فرقہ وارانہ فسادات کے بہانے مسلمانوںکا لہو تو کبھی ناجائزگرفتاریوں کے ذرےعہ ان کے جذبات اور امن پرشب خون مارنا،بس کانگرےس کی جھولی میںآپ کےلئے اتنا ہی ہے۔ورنہ جتےندر یادو کسی شےر کا نام نہےں جو جےت کر پوری ےوپی میں کانگرےس کی ڈوبتی نیا پار لگا دے گا۔ حالات بتارہے ہےں کہ جتیندر یادو کی شکست ےقےنی ہے۔ مگر کانگرےس کو اس پرچنداں غور نہےں کرنا ہے ،کانگرےس کا منشا ےہی ہے کہ کسی طرح بھی مسلمان سراٹھانے کے قابل نہ رہےں اورنہ ان کا کوئی لےڈر بلندی کی معراج حاصل کرسکے۔
ہے زمانے سے الگ میرامسیحا سنبل
جب بھی ملتاہے کوئی زخم نیادیتاہے
نوٹ:مضمون نگارہفت روزہ متھلاپوسٹ کے ایڈیٹر ہیں
Mob:09911587378