Saturday, June 27, 2009

Tuesday, June 23, 2009

Monday, June 22, 2009

رنگین انقلاب ! ایرانی صدارتی انتخاب میں دھاندلی؟

ایران کے صدارتی انتخاب میں شکست کھانے والے امیدوار میر حسین موسوی نے حکومت پر انتخابی دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے ملک کے مقتدر ادارے سے نتائج کو منسوخ کرنے کی درخواست کی ہے ۔حسین موسوی نے اپنے الزامات شوریٰ نگہبان اور کچھ علماء کے نام خط میں بیان کیے ہیں۔انہوں نے الزام لگایا ہے کہ پولنگ ایجنٹ کو کارڈ بروقت نہیں ملے اسلئے وہ پولنگ سٹیشنوں پر نہیں پہنچ سکے۔ انکے جلسے بہت بڑے بڑے ہوئے تھے لیکن وہ ہار گئے۔ محمود احمدی نژاد نے اپنی انتخابی مہم میں سرکاری وسائل استعمال کیے ۔خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حسین موسوی کو ٹیلی ویژن پر احمدی نژاد کے برابر وقت نہیں ملا بعض جگہوں پر انکے حامیوں کو ہراساں کیا گیا۔ تاہم ابھی تک انکی طرف سے کوئی ایسا ثبوت سامنے نہیں آیا جس سے بے قاعدگی یا دھاندلی کو با آسانی ثابت کیا جا سکے۔ان صدارتی انتخاب میںحسین موسوی کو 33فی صد ووٹ پڑے ہیں اور احمد نژاد کو 62فی صد۔ اتنے بڑے فرق کے لیے یا تو کوئی بہت بڑی بے قاعدگی ہونا ضروری ہے جس طرح کے الزامات انہوں نے لگائے ہیں اس سے ووٹوں میں اتنا بڑا فرق نہیں ڈالا جا سکتا۔ جہاں تک ہزار ہا لوگوں کے سڑکوں پر آ جانے کو سوال ہے تو اس کیلئے ایران کی تقسیم شدہ سیاست کو سمجھنا پڑیگا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ایران میں شہر کے لوگوں کی اکثریت حسین موسوی کیساتھ ہے جبکہ کم آمدنی اور دیہاتی لوگوں کی اکثریت احمدی نژاد کے حامی ہے ۔
موجودہ صورتحال میں زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ اگر بحران یوں ہی بڑھتا رہا تو ایران کا سیاسی نظام غیر مستحکم ہو جائیگا۔ دوسرا خطرہ یہ ہے کہ احمد ی نژاد کے حامی جو زیادہ تر مذہبی اور قدامت پسند لوگ ہیں وہ بھی سڑکوں پر آ گئے تو تصادم اور خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ایرانی حکام نے غیر ملکی ذرائع ابلاغ کی طرف سے احتجاج اور غیر قانونی جلسوں کی کوریج پر سخت پابندیاں لگا دی ہیں۔ایران کی شوریٰ کے ترجمان نے کہا ہے کہ جن علاقوں میں ہارنے والے امیدواروں نے دھاندلی کا الزام لگایا ہے وہاں دوبارہ ووٹوں کی گنتی کی جائیگی۔تاہم شوریٰ کے ترجمان نے قومی ٹیلی ویژن کو بتایا ہے کہ شوریٰ انتخاب کا کالعدم نہیں کریگی جیسا کہ اصلاح پسند امیدوار مطالبہ کر رہے ہیں۔ایران میں ہونیوالے حالیہ انتخاب اور وہاں کے سیاسی نظام کے جائزے سے اندرونی اور بیرونی صورتحال کے اعتبار سے کئی حیران کن حقائق سامنے آتے ہیں۔
انتخاب کے نتائج کیخلاف ہونیوالے مظاہروں میں عوامی شرکت اس بات کا تو ثبوت ہے کہ وہاں تبدیلی کے خواہاں لوگوں کی بڑی تعداد موجود ہے تا ہم اگر چند بنیادی حقائق کو ذہن میں رکھا جائے تو صورتحال کا صحیح جائزہ سامنے آتا ہے۔تاریخی طور پر دیکھا جائے تو ایران کے امیر طبقے جنہیں مقامی اصطلاح میں ثروت مند طبقہ کہا جاتا ہے وہ دنیا بھر کے دوسرے معاشروں کی طرح صرف اپنی سہولت کے بارے میں فکر مند ہیں۔ایران میں بادشاہت کے زمانے سے لے کر اور اب تک انکی غرض صرف یہ رہی ہے کہ انکے کاروبار اور نفع کے راستے میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو۔ انقلاب کے دوران اور بعد میں جب اس طبقے نے دیکھا کہ انقلابیوں کیساتھ رہنے میں فائدہ ہے تو ان لوگوں نے بظاہر اسلامی شعار اپنا لیے حجاب اوڑھ لیا یا داڑھی رکھ لی۔
اس حکمت عملی کے تحت یہ طبقہ اسلامی انقلاب کے تیس برسوں میں ایرانی سیاست میں کسی نہ کسی طرح فعال رہا ہے۔ دوسرے ملکوں میں خاص کر مغربی معاشروں میں یہ سرمایہ دار طبقہ عام طور پر عملی سیاست سے دور رہتا ہے یہ طبقہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے بیک وقت بظاہر متضاد سیاسی گروپوں کو استعمال کرتا رہتا ہے۔ لیکن ایرانی معاشرے میں اس قسم کے طبقے کے افراد کا عملی سیاست میں سامنے آ کر کھلے عام شرکت کرنا نئی بات ہے۔غالباً اسکی وجہ یہ ہے کہ اسلامی انقلاب تیس برس کے دوران بھی ایرانی معاشرے سے وہ طبقاتی اثرات مکمل طور پر ختم نہیں کر سکا جو ایران کے بادشاہی نظام نے کئی صدیوں میں مرتب کیے تھے۔ 1979کے اسلامی انقلاب کے بعد، ایران کے پسماندہ طبقوں کو پہلی مرتبہ قائدانہ کردار ادا کرنے کا موقع ملا مگر شروع شروع میں اسلامی انقلاب کے اندر بھی اس کیخلاف ثروت مند طبقے نے مزاحمت کی۔ مثلاً جب ابو الحسن بنی صدر ایران کے پہلے صدر منتخب ہوئے تو انہوں نے اس وقت کے ایک غریب خاندان سے تعلق رکھنے والے سکول ٹیچر" محمد علی رجائی" کو اپنی حکومت کے وزیر اعظم کے طور پر قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
جب اسلامی جمہوریہ ایران کے پہلے صدر ملک سے بھاگ گئے تو محمد علی رجائی انکی جگہ صدر منتخب ہوئے مگر انتخاب کے دو ہفتوں کے بعد ہی وہ اور ان کے وزیر اعظم اگست1981 میں ایک بم دھماکے میں قتل کر دئیے گئے۔ اس طرح امام خمینی کی زندگی میں ہی پسماندہ طبقے کے لوگوں کو اعلیٰ قیادت حاصل کرنے کا جو موقع ملا تھا وہ اس دھماکے کیساتھ ہی پھر سے خواب بن گیا۔ صدر رجائی کے بعد آنیوالے تین صدور جنہوں نے مجموعی طور پر 24برس تک حکومت کی ان سب کا تعلق براہ راست یا بالواسطہ طور پر ایران کے امیر طبقہ سے تھا۔ ایرانی عوام نے اگست 2005میں امیر طبقے کے ایک اہم رکن، ہاشمی رفسنجانی پر ترجیح دیتے ہوئے ایک غریب کاریگر کے بیٹے محمود احمدی نژاد کو اپنا چھٹا صدر منتخب کیا۔جب احمد ی نژاد صدر بنے تو انہوں نے تیل کی برآمد سے حاصل ہونے والی دولت کو عوام میں برابری سے تقسیم کرنے کا نعرہ دیا اور صدر بننے کے بعد اس پر عمل در آمد شروع کر دیا۔ ہاشمی رفسنجانی کے آٹھ برسوں کے دور صدارت میں جتنی بھی اقتصادی ترقی ہوئی اس کا فائدہ سرمایہ داروں کے چند مخصوص گروپوں کو پہنچا اس طرح ایران کی دولت چند لوگوں میں مرتکز ہوتی رہی۔ ان چند گروپوں میں کچھ علماء بھی ہیں جنکی نمائندگی رفسنجانی کرتے رہے ۔
یہ علماء اپنی دو مدتی صدارت کے اختتام پر جب وہ انتخاب نہ لڑ سکے تو ہاشمی رفسنجانی نے اپنی ہی طرح کہ ایک امیر عالم،لیکن قدرے غیر معروف امیدوار، سید محمد خاتمی کو منتخب کروایا۔خاتمی کا تعلق بھی روایتی طور پر اعلیٰ طبقے سے ہے۔ انکے دور میں سیاسی اصلاحات کیلئے پیش رفت تو ہوئی مگر اقتصادی طور پر عدم مساوات کو دور کرنے کا کوئی قابل ذکر کام نہ ہوا۔
اسلامی انقلاب کے بعد ایران کے سرمایہ دار اور اسکے حامی طبقے نے اپنے آپکو سیاسی طاقت سے محروم سمجھنا شروع کر دیا۔حالیہ انتخابی مہم کے دوران احمدی نژاد کیخلاف جو نعرے لگے ان میں سے ایک مقبول نعرہ یہ تھا 'یک ہفتہ،دو ہفتہ، محمود حمام نہ رفتہ"یعنی ایک ہفتہ یا دو ہفتہ سے محمود نے غسل نہیںکیا ہے۔ ایران کے امیر طبقے نے کافی سوچ بچار کے بعد حسن موسوی کو اپنا نمائندہ بنایا ۔ حسین موسوی کی ذاتی شہرت ایک شریف شخص کی ہے لیکن روایتی طور پروہ بھی شمالی تہران کے ثروت مند طبقے کے رکن ہیں۔ اس طبقے کی امید تھی کہ بارہ جون کے انتخاب میں موسوی کی فتح سے وہ اپنی کھوئی ہوئی سیاسی قوت دوبارہ حاصل کر لیں گے مگر ایسا نہ ہوا۔ محمود احمد ی نژاد کا دوبارہ چار سال کیلئے صدر بن جانا اس ثروت مند (Elite)طبقے کیلئے کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں ۔ اس طبقے کی سیاسی محرومی صرف احمد نژاد کے صدر منتخب ہونے کی وجہ سے ہی نہیں ہے۔ ایران میں پارلیمانی انتخاب جغرافیائی حلقوں کی صور ت میں نہیں بلکہ متناسب نمائندگی کے نظام کے تحت ہوتے ہیں۔ اس لئے تہران کے متمول علاقے کے لوگ اس بڑے شہر کے تقریباً بیس اراکین پارلیمان میں سے کسی ایک کو بھی کامیاب نہ کرا سکے۔ احمدی نژاد کے انتخاب کے بعدایران کا امیر طبقہ اپنے آپکو ایران کے سیاسی نظام سے خارج تصور کر رہا ہے۔اب یہ طبقہ اپنی پوری طاقت اور امریکہ کی حمایت کے باوجود احمدی نژاد کو شکست نہ دے سکا۔تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یہ طبقہ اب ہر حال میں اصول و ضوابط کو توڑ کر سیاسی نظام میں اپنا تحفظ چاہتا ہے۔
ایرانی صدارتی انتخاب میں اس امر کا تجزیہ بھی ضروری ہے کہ امریکی اور مغربی میڈیا نے موسوی کی حمایت کیوں کی۔ یہ بات بڑی توجہ طلب ہے کہ کیا امریکی میڈیا نے ایرانی انتخابات پر اتنی توجہ کیوں دی۔امریکہ نے 1950میں ایران کی منتخب حکومت کو جس طرح انقلاب کے ذریعے ہٹا کر شاہ ایران رضا شاہ پہلوی کی صورت میں ایک ڈکٹیٹر کو حکمران بنوایا وہ ایرانی عوام کو اب تک یاد ہے، لیکن جب امام خمینی نے ایک عظیم انقلاب کے ذریعے شاہ ایران کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا تو اس خطے میں امریکہ کو شدید پریشانی لاحق ہو ئی۔ اس دن سے لیکر اب تک امریکہ اور اسکے مغربی حلیفوں کی کوشش رہی ہے کہ وہ کسی بھی ہتھکنڈے سے دوبارہ ایران پر اپنا تسلط قائم کر سکیں۔ خارجہ امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ نے ایران کے سوا اس خطے میں قریباً قریباً ہر جگہ اپنے پنچے گاڑھ لیے ہیں ۔امریکہ کی کوشش ہے کہ وہ جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کی معدنی دولت اور کسپئین کے توانائی کے ذخائر پر جلد از جلد دسترس حاصل کر لے کیونکہ اگر امریکہ نے اس حکمت عملی میں دیر کہ تو ممکن ہے مستقبل قریب میں چین امریکہ کو ایسا نہ کرنے دے۔ فی الوقت امریکہ نے افغانستان پر قبضہ کر کے اس خطے میں اپنی حیثیت کو کافی مضبوط کر لیا ہے۔ پاکستان اور ترکی بھی امریکی پالیسیوں کے ہمنوا ہیں۔ وسط ایشیائی ممالک پر بھی بہت حد تک امریکہ نے جزوی کنٹرول کر لیا ہے۔
کسپئین کے علاقے Caspian sea میں توانائی کے سب سے زیادہ ذخائر ہیں ایک اندازے کیمطابق اس علاقے میں تیل کے ذخائر ڈیڑھ سو سال تک دنیا کی ضرورت پوری کر سکتے ہیں۔ ان ذخائر پر قبضے کیلئے امریکہ نے جو حکمت عملی اختیار کی ہے اسکے تحت اس علاقے کے ہمسایہ ممالک میں سے صرف ایران ایسا ملک ہے جو امریکہ کے ان جارحانہ عزائم کیلئے رکاوٹ بنا ہوا ہے،احمدی نژاد کے ہوتے ہوئے امریکہ اپنے ان عزائم کی تکمیل نہیں کر سکتا۔ بعض اخبارات میں شائع ہونیوالی ایک دستاویز کیمطابق امریکی CIAنے ایرانی انتخاب پر اثر انداز ہونے کیلئے چار سو ملین ڈالر صرف کیے ہیں تا کہ اس انتخاب کے ذریعے ایران میں" رنگین انقلاب" لایا جا سکے۔ ان حقائق کے پس منظر میں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ امام خمینی نے ایران میں جس انقلاب کی بنیاد رکھی اسے احمدی نژاد آگے لے جانا چاہتے ہیں لیکن دوسرے بڑے سیاسی قائدین اور ایران کا اہل ثروت طبقہ امریکی اور مغربی انداز کی زندگی چھوڑنے کوتیار نہیں۔امریکہ کے اس متمول اور صاحب ثروت طبقے پر امریکی انٹیلی جنس ایجنسیاں تواتر سے کام کر رہی ہیں یہ ان ہی کی محنت کا ثمر ہے کہ ایران کے حالیہ صدارتی انتخاب کو میڈیا کے ذریعے متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔

Sunday, June 21, 2009

ग्लोबलाइज विलेज: एक तरफ वेब 2.0 दूसरी तरफ एक अरब भूखे लोग

संयुक्त राष्ट्र.संयुक्त राष्ट्र के खा्दय और कृषि संगठन ने अपनी रिपोर्ट में चौकानें वाला आकड़ा देते हुए बताया है कि संसार में कुल एक अरब लोग भूखे है। रिपोर्ट के अनुसार यी संख्या रिकार्ड स्तर पर है और आर्थिक मंदी के कारण यह स्थिति बनी है।
उंची कीमतों से भुखमरी बड़ी
रिपोर्ट के अनुसार खाने के समानों की बढ़ती कीमतों से भुखमरी में बढ़ोत्तरी हुई है।
शांति और सुरक्षा को खतरा
रिपोर्ट के बारे में बातचीत करते हुए एफओं के महानिदेशक ने कहा कि इतनी बढ़ी तादात में भूखे लोगों की संख्या संसार की शांति और सुरक्षा के लिए खतरे की तरफ ले जाने का सकेंत है।
विकासशाील देशों में ज्यादा असर
विकासशील देशों में कुपोषित आबादी का एक बड़ा हिस्सा किसी तरह से अपना जीवन जी रहे है और एशिया प्रशांत क्षेत्र में करीब ६४ करोड़ लोग इस समस्या से ग्रस्त है।
विकसित देश में
एक तरफ विकाशील देशों में भुखमरी की समस्या से जूझ रहे लोगों की तादात अधिक है वहीं विकासशील देशों में मात्र डेढ़ करोड़ लोग भुखमरी की कगार पर है।
भुखमरी के खास कारण
इस रिपोर्ट के अनुसार संसार में एक करोड़ लोगों के भुखमरी की कगार तक पहचानें के लिए जिम्मेदार कारण..
* कम आया
* बढ़ती बेरोजगारी
कैसे बचाव हो सकता है
रिपोर्ट के अनुसार भुखमरी की इस समस्या से निपटने के लिए कृषि श्रेत्र पर तत्काल घ्यान देना होगा और छोटे किसानों की भरपूर मदद करनी होगी।

Saturday, June 20, 2009

CURRICULUM VITAE

M.Z.FAZLI
447/27,Trilok puri
Delhi- 110091
Mobile: 09868093558,09312017945,09555812750
E-mail: fazli.mz@gmail.com,mz734@yahoo.com , www.fazlidbg.blogspot.com
EDUCATION QUALIFICATION
 FAZIL from Darul Ulloom Deoband
 ALIM, Bihar Madrasa Education Board Patna equal of B.A. Hons,
 10th Bihar School Examination Board Patna
OCCUPATION
 Editor, Translator, Reporter & Columnist.
PROFESSIONAL EXPERIENCE:
 Worked as a Sub Editor daily Azadhind Kolkata, for 1995to1997
 Worked as a Sub Editor daily Hind Kolkata for 1997to 1999.
 Worked as a Asst. Editor Monthly Al-Islah Kolkata for 1997 to 2002.
 Worked as a Sub Editor Daily Indinon(Hindi) delhi 2006
 Working as a reporter UNN news agency in Hindi & Urdu Part time
 Working as a News Editor Daily Hamarasamaj (Urdu) Delhi March 2007 to till Date.
LINGUISTIC ABILITY
 Urdu, Hindi, English, Arabic, Persian and Gujarati
 Computer DTP & Pagemaking Knowledge
PERSONAL DETAIL:
Name : Muhammed Ziaullah Fazli
Father’s Name : Late. Ab. Malik
D.O.B. : 25/01/1976
Gender : Male
Nationality : Indian
Marital Status : Married
Hobbies : Column Writing
Permanent Address:
: At & P.O.Jahangir Tola
: Via, Jogiara
: Dist. Darbhanga Bihar.847303

Place: Delhi Signature
Date… Meem Zad Fazli (Dr. M.Z. FAZLI)

पैसे ले खबर छापना सही तो पैसे ले गोली मारना गलत कैसे?

मुददे पर बहस करें तो ज्यादा सार्थक होगा : मुद्दा था अखबारों के पैकेज संबंधी गोरखधंधे का। पर पिछले कुछ दिनों से मुख्य मुद्दा गौण हो गया। अब एक दूसरे पर आरोप लगाने की नौबत तक आ गई है। कौन गलत? कौन सही? जनसता का प्रसार घटा तो क्यों घटा? जनसत्ता महान या जागरण महान? शहर के अंदेशे में काजी जी दुबले क्यों? खैर जो कुछ है, उससे स्पष्ट हो गया है, हिंदी पत्रकारिता की दशा और दिशा क्या है। कैसे पत्रकार हिंदी जगत में है। उनकी शैक्षिक योग्यता क्या है? सामान्य रूप से पत्रकार हिंदी जगत में वही बनता है जिसे कहीं और नौकरी नहीं मिलती है। मैं भी उसी में से एक हूं। कहीं और नौकरी नहीं लगी तो पत्रकार बन गया। हिंदी जगत में कुल अस्सी प्रतिशत लोग ऐसे ही पत्रकार होंगे। यही कारण है कि निचले स्तर से उपर चापलूसी कर संपादक बने कई संपादक अपनी मूर्खता को छुपाने के लिए कई रास्ते अपनाते हैं। कई संपादक जिन्हें अंग्रेजी नहीं आती वो अंग्रेजी के दो चार शब्दों का इस्तेमाल अपने जूनियर के सामने करेंगे। कई संपादक हिंदी के प्रगतिशील कवियों के उदाहरण देंगे। कई संपादक रिपोर्टर की खबरों में व्याकरण की गलतियों को निकाल उन्हें बुलाकर समझाने की कोशिश करेंगे। कई कहेंगे कि जब मैं रिपोर्टर था तो संपादकों को पीट देता था, अफसरों को पीट देता था। इस तरह के संपादकों से मेरा पाला पड़ चुका है।
मसला यह नहीं है। मसला यह है कि 2009 के लोकसभा चुनावों में अखबारों ने पैकेज सिस्टम लाया। यह खुलेआम एक भ्रष्टाचार था। अर्थात पैसे लेकर खबरें छापी गई और जिन उम्मीदवारों ने पैसे नहीं दिया उन्हें अखबारों के पृष्ठ से गायब कर दिया गया। इस मसले को उठाया भाजपा के प्रत्याशी राम इकबाल सिंह, लालजी टंडन, समाजवादी पार्टी के मोहन सिंह और बसपा के हरमोहन धवन ने। इसके बाद विवाद की शुरुआत हुई। पत्रकारों के एक वर्ग ने इसे बुरा माना। इसमें प्रभाष जोशी एक थे। प्रभात खबर के हरिवंश ने सबसे पहले इस पर टिप्पणी की और खबरों का धंधा करने का खुला विरोध किया। इसके बाद मसला ज्यादा गरमाया। प्रभाष जोशी ने दैनिक जागरण पर हमला किया। उन्होंने अखबार का नाम नहीं लिखा, पर इशारा साफ जागरण की तरफ था क्योंकि राज्यसभा में दो अखबार मालिक अकेले जागरण समूह से ही गए हैं।
अब मसला था कि अखबारों के भ्रष्टाचार कितने नैतिक और कितने कानूनी हैं? पर कुछ पत्रकारों ने मुख्य मुदे से ध्यान हटाने के लिए निजी हमला शुरू कर दिया, कहा कि प्रभाष जोशी सफल है, जनसता असफल है, अर्थात प्रभाष जोशी असफल अखबार के सफल संपादक थे। ये दो अलग-अलग मुद्दे हैं। जनसता का अच्छा या बुरा होना अलग मुद्दा है, दैनिक जागरण, दैनिक भास्कर व पंजाब केसरी द्वारा पैसे लेकर खबरें छापना अलग मुद्दा है। इन दोनों मुद्दों का आपस में गड्डमड्ड नहीं किया जाना चाहिए। कोई अखबार कितना बिकता है, उससे अखबार की महानता नहीं सामने आती। लड़कियों की नंगी तस्वीर छापकर कोई अखबार समूह बीस लाख अखबार बेचता है तो वो बड़ा समूह नहीं हो जाएगा। हो सकता है कुछ दिनों में नंगी तस्वीर के कारण अखबार का सरकुलेशन पचास लाख हो जाए, पर क्या यह नैतिक या कानूनी रूप से जायज होगा? जनसता पर हमला करने वाले पत्रकार महोदय के तर्क को तब सही माना जाता जब वे प्रामाणिकता से कहते, प्रभाष जी, जनसता ने भी तो अमुक खबर लिखने के लिए पैसे लिए थे! जनसता ने भी तो चुनावों के दिनों में खबरें छापने के लिए प्रत्याशियों से पैसे लिए थे!! साथ ही इसका प्रमाण भी उपलब्ध करवा देते!!! पर प्रमाण पत्रकार महोदय के पास नहीं थे तो बड़े ही मारपीट की भाषा में कहा, जनसता से ज्यादा तो गली-कूचे के अखबार पढ़े जाते हैं। लेकिन यह भी तो हो सकता है कि जनसता इसलिए सरवाइव नहीं कर पाया क्योंकि जनसता वो भ्रष्टाचार नहीं कर सका जो अन्य अखबारों ने किया?
जो भी पत्रकार मीडिया के इस गोरखधंधे पर लिख रहे हैं, उन्हें न तो कानून की जानकारी है न ही सामाजिक परंपरा की, जो कानून के रूप में इस देश में सदियों से चला आ रहा है। दिलचस्प बात यह है इसमें रिपोर्टर ही नहीं, कुछ संपादक भी शामिल हैं। वे अखबारों के पैकेज को सही ठहराते हुए इसे अपनी रोजी-रोटी से जोड़ रहे हैं। खैर, ये वो पत्रकार हैं जो पत्रकार इसलिए बन गए क्योंकि किसी अखबार के संपादक के घर सब्जी, दूध, दही पहुंचाते होंगे। उनकी इस सेवा से प्रसन्न संपादक ने उन्हें कई सितारे दे दिए होंगे। लेकिन बहस तो इस बात पर होनी चाहिए थी कि वर्ष 2009 के लोकसभा चुनावों में अखबारों ने जो पैकेज का गोरखधंधा चलाया, क्या वो कानूनी रूप से जायज था? क्या ये चुनावी आचार संहिता के अनुकूल था? चुनावी आचार संहिता और भारत का जनप्रतिनिधि कानून इस पर क्या कहता है? इस संबंध में प्रेस, मीडिया एंड टेलीकम्यूनिकेशन ला क्या कहता है? इस संबंध में प्रेस एवं रजिस्ट्रेशन से संबंधित एक्ट क्या कहते हैं?
लेकिन दुर्भाग्य की बात है कि अभी तक इन कानूनी पहलुओं पर कोई बहस नहीं छेड़ी गई। न तो किसी पत्रकार महोदय ने इस पर लिखने की जहमत उठायी, न ही कोई आगे शायद उठाए। अच्छा होता सुप्रीम कोर्ट के किसी वकील से इस मुददे पर बहस कराई जाती। इस मसले पर भाजपा के वकील नेता अरुण जेतली, रविशंकर प्रसाद, कांग्रेस के वकील नेता अभिषेक मनु सिंघवी और कपिल सिब्बल से कुछ लिखवाया जाता? कम से कम इस देश के पत्रकार जगत को तो यह तो पता चलता कि आखिर देश का कानून इस संबंध में क्या कहता है? साथ ही इस बात पर भी बहस होनी चाहिए थी कि दुनिया के दूसरे देश जहां लोकतांत्रित तरीके से सरकार का गठन होता, वहां मीडिया की भूमिका क्या है? अमेरिका, ब्रिटेन, जर्मनी, फ्रांस जैसे देश में चुनावों के दौरान मीडिया कवरेज से संबंधित क्या कानून हैं? इनकी क्या परंपरा है? इन कानूनों और परंपराओं का कितना पालन होता है? फिर कम से कम राजनीतिक दलों से यह सवाल पूछा जाना चाहिए था कि अखबारों के इस गोरखधंधे पर उनका कया स्टैंड है? कुल मिलाकर सर्वसम्मति से इस गंभीर मसले पर एक निष्कर्ष निकालने की कोशिश होनी चाहिए।
सवाल उठता है कि अगर मतदान केंद्र पर कब्जा करना अपराध है, गैर-कानूनी है, मतदाताओं को पैसे देकर वोट खरीदना अपराध है, गैर-कानूनी है तो फिर अखबारों से पैकेज खरीद कर खबरों को छपवाना कैसे कानूनसम्मत होगा? 1990 के पहले चुनावी आचार संहिता शब्द देश की जनता नहीं जानती थी। चुनाव आयोग में जब मजबूत चुनाव आयुक्त आए तो चुनावी आचार संहिता देश के लोग जानने लगे। चुनावी आचार संहिता का कड़ाई से पालन होने लगा। उम्मीदवारों को चुनाव आयोग का डर भी होने लगा। पहले चुनावों में बेशुमार खर्च होते थे। ये खर्च दिखते थे। उम्मीदवार झंडे, डंडे, गाड़ी और बूथ लूटेरों पर बेतहाशा धन खर्च करते थे। चुनाव आयोग ने खर्च सीमा तय कर कुछ हद तक इसे रोकने की कोशिश की। झंडे-डंडे गायब हो गए गाड़ियां भी गायब हो गईं। पर खर्च के और अलग तरीके उम्मीदवारों ने ढूंढ लिया। अब प्रत्याशी शराब और पैसे लोगों के बीच बांटने लगे। बिहार जैसे राज्य में, जहां लोकसभा चुनाव दस लाख रुपये में निपट जाता था, अब करोड़ों का खर्च होने लगा है। वहां बूथ लूटेरों का आतंक कम हुआ तो शराब बंटने लगी। पंजाब में तो वोटर आई-कार्ड खरीदे जाने लगे। विरोधी दल का वोट देने वाला मतदाता, मतदान केंद्र पर न पहुंचे इसे सुनिश्चित करने के लिए चुनावों में प्रति वोटर आई-कार्ड दो से पांच हजार रुपये तक बांटे गए। इससे भी संतुष्टि नहीं हुई और लगा कि कहीं कोई और प्रूफ लेकर मतदाता, मतदान केंद्र तक न पहुंच जाए, तो उसकी अंगुली पर स्याही लगा दिया गया। मतलब की जो काम गैर-कानूनी था, उसे आयोग की सख्ती के बाद भी अंजाम दिया गया। आयोग अभी भी पूरी तरह से लोकतांत्रित प्रक्रिया बहाल करने में विफल रहा है। पर निश्चित तौर पर चुनाव के दौरान पैसे बांटना, शराब बांटना, वोटर आईकार्ड की खरीद गैर-कानूनी काम है। फिर जब ये गैरकानूनी है तो अखबारों द्वारा पैसे लेकर चुनावी खबर छापना कैसे कानूनी होगा?
अब अखबार वाले कहेंगे कि अगर प्रत्याशी बाकी मामलों में पैसे खर्च कर रहा है तो अखबार ने कुछ पैसे ले लिए तो क्या हुआ? पर सच्चाई यह है कि अखबारों ने इस मसले पर भारी अपराध किया है। यह तो उनका सौभाग्य है कि अभी चुनाव आयोग चुप है। शायद अखबारों से चुनाव आयोग भी फिलहाल डरा हुआ लग रहा है। नहीं तो अखबारों ने आयोग के उस निर्देश की धज्जियां उड़ायी है जिस पर मामला तक दर्ज हो सकता है। अखबारों ने पैसे लेकर जो संपादकीय छापे हैं, उन्हें अगर आयोग ने चुनावी खर्चे में शामिल कर दिया तो प्रत्याशी भी फंसेंगे और अखबार भी। अखबारों ने इस बार प्रत्याशियों के विज्ञापन इसलिए नहीं छापे क्योंकि इससे विज्ञापन का बिल चुनावी खर्च में शामिल हो जाता। अर्थात अखबारों ने एडोटोरियल के माध्यम से प्रत्याशियों को चोरी का नया रास्ता बताया। पर अखबारों ने यह नहीं सोचा कि इतने खर्चीले चुनाव का सबसे ज्यादा असर इस देश के लोकतंत्र पर पड़ेगा। अगर अखबारों ने यही धं¡धा जारी रखा तो गरीब प्रत्याशी आगे चुनाव लड़ने को ही नहीं सोचेगा। प्रत्याशी चुनाव लड़ने से पहले अपने खर्चों को गिनाते वक्त कहेगा, शराब के लिए पचास लाख, मतदाताओं को बांटने के लिए एक करोड़ और अखबारों के पैकेज के लिए दो करोड़। गरीब प्रत्याशी चाहे वो किसी भी दल का हो, पैकेज का शिकार होगा। अर्थात चुनाव को महंगा बनाने और गरीबों को चुनाव लड़ने से रोकने में सबसे बड़ी भागीदारी अखबारों की है। फिर तो निश्चित तौर पर कोई कलावती और भगवतिया देवी लोकसभा का मुंह नहीं देख पाएगी। यह दुर्भाग्य की बात है कि 2009 में गठित लोकसभा में साठ प्रतिशत से ज्यादा उम्मीदवार करोड़ों रुपये के पति हैं।
पैकेज बेचकर अखबारों में खबर छापने के बाद अखबार किस नैतिकता से किसी गलत काम का विरोध करेंगे? अगर कोई प्रत्याशी अखबारों के पैकेज खरीद चुनाव जीत जाता है, तो पैसे के बल पर यूपीएससी और राज्य सिविल सेवा की परीक्षा में चुनकर आने वाला कोई अभ्यर्थी कैसे गलत होगा? आखिर वो भी तो रोजी-रोटी के लिए ही नौकरी में पैसे देकर चयनित हुआ? फिर ऐसी कदाचार संबंधी खबरें छापने का कितना नैतिक हक किसी अखबार को होगा? अगर कोई शूटर पैसे लेकर किसी की हत्या कर देता है तो यह कितना गैर-कानूनी काम होगा? आखिर उसने भी तो रोजी-रोटी के लिए किसी को गोली मारी? अगर कोई ठेकेदार जिला, राज्य, केंद्र स्तर पर अधिकारियों को घूस देकर काम करा लेता है तो क्या गलत है? आखिर ठेकेदार और अफसर दोनों की रोजी-रोटी का ही सवाल है? कम से कम इस महंगाई के दौर में वेतन से तो काम नहीं ही चलता?
बहस अगर सार्थक हो तो ज्यादा अच्छा होगा। बहस की सीमा यहीं तक होनी चाहिए कि क्या अखबारों का पैकेज का धंधा कानूनसम्मत है? अगर कानून सम्मत नहीं है तो आने वाले दिनों में इसे कानूनसम्मत बनाया जाए ताकि अखबारों को फलने-फूलने का पूरा मौका मिले? अगर यह कानून सम्मत नहीं है तो अखबारों के खिलाफ क्या अपराधिक मामला दर्ज होना चाहिए? क्या अखबारों को अब सीधे रूप में चुनावी आचार संहिता के अंदर लाया जाना चाहिए? क्या चुनावों के दौरान आयोग अखबारों की खबरों की मॉनेटरिंग के लिए हर लोकसभा क्षेत्र में अलग से एक पर्यवेक्षक तैनात करे? अगर पर्यवेक्षक अखबारों की खबरों में पक्षपात की बू पाता है और किसी प्रत्याशी के पक्ष में पाता है, तो क्या अखबारों को नोटिस जारी होना चाहिए? क्या अखबारों के उपर ठीक उसी तरह से कार्रवाई होनी चाहिए जिस तरह से चुनाव आयोग आचार संहिता लागू होने के बाद पक्षपाती अफसरों और कर्मचारियों के खिलाफ कार्रवाई करता है? दुर्भाग्य की बात है कि अभी तक इस मसले पर कोई बहस नहीं छिड़ी है।

लेखक संजीव जुझारू पत्रकार हैं और पिछले कई वर्षों से चंडीगढ़ में विभिन्न मीडिया माध्यमों से जुड़े हुए हैं। उनसे संपर्क के लिए sanjiv.panday@yahoo.com This e-mail address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it पर मेल कर सकते हैं या फिर 09417005113 पर रिंग कर सकते हैं।

हर गलती पर देने होंगे 10 रुपये

दैनिक हिंदुस्तान के पटना आफिस में नया नियम लागू हो गया है। यह नियम लागू कराया है यहां के स्थानीय संपादक अकु श्रीवास्तव ने। नियम ये है कि अगर कोई किसी तरह की गलती करता है तो उसे दस रुपये का जुर्माना अदा करना होगा। मतलब, अगर किसी रिपोर्टर से कोई खबर छूटती है तो उसे हर छूटी हुई खबर पर दस-दस रुपये का भुगतान करना पड़ेगा। ऐसा नहीं है कि अकु श्रीवास्तव ने इस नियम को खुद ही बनाकर लागू करा दिया। उन्होंने इस नियम को बनाने-लागू कराने से पहले संपादकीय विभाग के लोगों की राय ली। इसी मुद्द पर उन्होंने संपादकीय विभाग की सोमवार को बैठक बुलाई थी। बैठक में अकु ने नए नियम के बारे में सबको बताया और सबसे मशविरा किया। उनके सामने किसी ने इस नियम का विरोध नहीं किया बल्कि दबी जुबान से इसकी तारीफ ही की। वैसे भी, बॉस के गलत को गलत कहने का रिवाज मीडिया में अब नहीं रहा और बॉस लोग भी अपने गलत को दूसरे के मुंह से गलत सुनने के कतई इच्छुक नहीं होते क्योंकि बॉस लोगों का इगो ज्यादा बड़ा हो चुका है और व्यक्तित्व उसी अनुपात में छोटा। बैठक में सहमति के बाद नया नियम लागू करने का फैसला ले लिया गया। पर पत्रकार तो पत्रकार। लगते हैं एंगिल निकालने। मीटिंग के बाद इस नए नियम पर पत्रकारों ने दिमाग भिड़ा दिया और होने लगी कानाफूसी। जितने मुंह उतनी बातें। कुछ लोग इसे मंदी के दौर में संस्थान का थोड़ा और उद्धार करने का नया फार्मूला बता रहे हैं तो कुछ लोग इसे पत्रकारों के शोषण का एक और हथियार करार दे रहे हैं। कुछ इसे किसी अज्ञात सामूहिक समारोह के लिए चंदा इकट्ठा करने का उपक्रम बता रहे हैं तो कुछ लोग कम से कम गलती होने के लिए दबाव बनाने की रणनीति मान रहे हैं। वैसे तो हर मीडिया हाउस में गलती करने वालों को दंडित करने के कई तरह के कायदे कानून होते हैं लेकिन सेलरी काटने को बुरा इसलिए माना जाता है क्योंकि कोई भी कर्मचारी इरादन गलती नहीं करता और अगर मानवीय चूक के चलते गलती होती है तो उसे गंभीर अपराध नहीं माना जाना चाहिए। दूसरे, सेलरी ही वो चीज है जिसके आधार पर एक कर्मचारी अपने भविष्य की प्लानिंग करता है, घर के खर्चे का बजट बनाता है। ऐसे में सेलरी कटौती कर्मचारी के परिजनों के अरमानों को कुचलने जैसा होता है। गलती के बारे में कहा जाता है, गलती आदमी ही करता है, कंप्यूटर नहीं। इसीलिए मानवीय गलतियों को हमेशा माफी के लायक माना जाता है। अगर माफी लायक नहीं भी हैं तो गलती के स्तर के हिसाब से आमतौर पर लिखित नोटिस, सो काज, चेतावनी पत्र, फोर्स लीव, सस्पेंसन जैसे परंपरागत तरीकों से काम चलाया जाता है। लेकिन आजकल के साहब-सुब्बा लोग अपने प्रबंधन को खुश करने के लिए नए-नए तरीके इजाद करते जा रहे हैं। गलती पर सेलरी काट लेना, जुर्माना लगा देना, गाली दे देना, हाथ छोड़ देना......ये कुछ उसी तरह के तरीके हैं जो कर्मचारियों के चरम शोषण के लिए कुख्यात गैर-मीडिया संस्थानों और फैक्ट्रियों के दुर्जन मैनेजरों द्वारा लागू कराए जाते हैं। अब मीडिया संस्थानों में यही सारे तरीके लागू होने लगे हैं।
कहा जाता है कि किसी रिपोर्टर का दिन तभी खराब हो जाता है जब वह अपने प्रतिस्पर्धी अखबार में कोई बड़ी खबर देखता है, जो उससे अपने अखबार में मिस हो गई हो। वह घर से ही निराश और हताश मुद्रा में आफिस पहुंचता है। वहां उसको सिटी मीटिंग में जवाब देना होता है। कई बार तो उपर के लोगों तक अपनी सफाई पेश करनी पड़ती है। मतलब, गलती का खुद एहसास होना ही सबसे बड़ा दंड होता है। अगल गलती का एहसास नहीं है तो एहसास कराना भी एक तरह से दंड जैसा ही है। लेकिन अब बात इमोशनल से प्रोफेशनल हो चुकी है। हर चीज लिखत-पढ़त और कारपोरेट स्टाइल में। तो दंड भी क्यों न कारपोरेट स्टाइल में मिले। खैर मनाइए, हिंदुस्तान, पटना में अभी तो केवल दस रुपये कट रहे हैं। हो सकता है कि कुछ संस्थानों में हर गलती पर सौ रुपये या हजार रुपये काटे जाते हों और कई संस्थान ऐसे भी हों जहां किसी भी गलती पर बाहर का रास्ता दिखा दिया जाता हो। तो इन संस्थानों के मुकाबले हिंदुस्तान, पटना में गलती पर सजा देने के लिए बना नया नियम ज्यादा मानवीय है, यह कहा जा सकता है।

लाल गलियारे के खतरनाक संकेत

पश्चिम बंगाल के पश्चिमी मिदनापुर जिले में सीपीएम और माओवादियों के बीच वर्चस्व की लड़ाई काफी समय से चल रही है। आश्चर्यजनक संयोग है कि पश्चिम बंगाल में सीपीएम के कमजोर होने और तृणमूल कांग्रेस व कांग्रेस की सक्रियता बढ़ने के साथ ही इस प्रभावित क्षेत्र में माओवादी विद्रोही और मजबूत हुए हैं।पिछले कुछ दिनों से इस जिले के लालगढ़ में जारी हिंसा के बाद माओवादियों ने जिस तरह इस पूरे कस्बे को ‘आजाद क्षेत्र’ घोषित किया है और सुरक्षा बलों के लिए वहां पहुंचना दुर्गम कर दिया है, उससे इस समस्या का वह खतरनाक पहलू उजागर होता है जिसके तहत माओवादिओं ने देश के उत्तर से उत्तर-पूर्व होते हुए दक्षिण-पूर्व तक लाल गलियारे में ‘लिबेरेटेड जोन’ या ‘आजाद क्षेत्र’ बनाने का मंसूबा पाल रखा है।
लालगढ़ की हिंसा के बीच वहां के माओवादी नेता द्वारा उनकी कार्रवाई को कांग्रेस व तृणमूल कांग्रेस के समर्थन का दावा इस घटना के राजनीतिक दांव-पेंच का उदाहरण है। पश्चिम बंगाल की कानून-व्यवस्था की स्थिति के प्रति केंद्र का रुख हमेशा अनिश्चय का रहा है, खासतौर पर पिछली और वर्तमान यूपीए सरकार के कार्यकाल में।
पिछली सरकार में तो वामदल केंद्र सरकार को समर्थन ही दे रहे थे, इसलिए गत वर्ष हुई नंदीग्राम और सिंगूर की घटनाओं में कें द्र द्वारा कोई गंभीर प्रतिक्रिया नहीं हुई और इस समय लालगढ़ में हो रही हिंसा में केंद्र के सामने एक तरफ हैं पुराने सहयोगी जिनसे भावनात्मक लगाव अभी भी है और दूसरी तरफ है वर्तमान सहयोगी, जिसकी कर्ता-धर्ता ममता बनर्जी केंद्र में मंत्री भी हैं।
केंद्र की कश्मकश समझ में आती है, क्योंकि ममता ने स्पष्ट कहा है कि उनकी केंद्र में किसी भी भूमिका में लंबे समय तक रुचि नहीं है, उनका लक्ष्य प. बंगाल का नेतृत्व है। तृणमूल को सीपीएम के साथ अपनी खूनी लड़ाई में अल्पसंख्यक कार्ड के अलावा माओवादियों का साथ लेने से भी परहेज नहीं है। पश्चिम बंगाल में वामदलों की सरकार को गिराने के लिए किसी से भी, कैसा भी समर्थन इस्तेमाल करने को जायज ठहराना कहां तक जायज है, यह विचारणीय है।
विचित्र संयोग है कि जहां देश के तमाम राज्यों में माओवादियों द्वारा की जा रही हिंसक वारदातों पर सीपीएम और अन्य वामदल खामोश रहते हैं, वहीं उन्हीं के अपने गृहराज्य में बवाल होने पर उन्हीं माओवादियों पर कठोर कार्रवाई के लिए बंगाल की राज्य सरकार तुरंत तैयार है। साफ है कि वामदलों के संकट कम होने के आसार अभी नहीं दिखते।

Tuesday, June 16, 2009




आरोपी डीएम ने पत्रकारों को खरीदा!


बिहार के लखीसराय जिले का डीएम प्रेम कुमार झा, जो छेड़खानी का आरोपी है

बिहार के लखीसराय जिले से एक चिट्ठी आई है। चिट्ठी संग सुबूत भी अटैच है। तस्वीरें भी हैं. पीड़ित महिला कर्मचारी और आरोपी जिलाधिकारी की। इन दोनों तस्वीरों को प्रकाशित किया जा रहा है। पत्र भेजा है लखीसराय के एक संवेदनशील और सजग पत्रकार ने।
महिला की पहचान छिपाने के लिए तस्वीर में उसका चेहरा ब्लर कर दिया गया है। इस खबर में महिला का नाम भी बदल दिया गया है। पत्र भेजने वाले पत्रकार ने मीडिया द्वारा दबा दी गई जिले की एक हाईप्रोफाइल वारदात के माध्यम से करप्ट हो चुकी पत्रकारिता और सड़ चुके लोकतंत्र के खंभों की बेहाली को बयान किया है। उन्होंने अपनी पहचान छुपाने का अनुरोध किया हैए इसलिए पत्र भेजने वाले पत्रकार का भी नाम नहीं प्रकाशित किया जा रहा है। बी4एम ने अपनी ओर से उनकी चिट्ठी में दिए गए तथ्यों की पड़ताल कर ली है। हम उनकी इस चिट्ठी को प्रकाशित कर रहे हैं। मेरी तरह आप भी इस चिट्ठी को पढ़कर रोएंगे.सोचेंगे कि आखिर किस देश और किस दौर में जी रहे हैं हम लोग। .
MEEM ZAD FAZLI

आदरणीय संपादक जीए बी4एम
पत्रकारिता चौथा खम्भा है और पत्रकार लोकतंत्र के सजग प्रहरीए मीडिया आमलोगों की आवाज हैण्ण्ण्इस तरह की न जाने कितनी बातें कही जाती हैं। इस पेशे में नए आने वाले पत्रकारों को उपर लिखे इन वाक्यों को सुनने में आनन्द आता होगा। लेकिन मैं आपको दो दिन पहले की एक घटना के बारे में बता रहा हूं जिसके बाद आप खुद तय करिए कि क्या पत्रकारिता चौथा खम्भा है और पत्रकार लोकतंत्र के सजग प्रहरी या फिर ये पत्रकार भड़ओं की जमात है। बिहार का एक जिला है लखीसराय। यहां के जिलाधिकारी हैं प्रेम कुमार झा। चार दिन पूर्व इन्होंने इसी जिले में काम करने वाली एक महिला कर्मचारी उम्मीद देवी ;पहचान छिपाने के लिए नाम बदल दिया गया हैद्ध को अपने आवास पर बुलाया और हवस का शिकार बनाने की कोशिश की। महिला किसी तरह भाग कर आवास से बाहर आई और डीएम के बाद के अधिकारियों को रो.रो कर सब कुछ बताया दिया। चूकि मामला वरीय पदाधिकारी का थाए इसलिए अधीनस्थ अधिकारियों ने महिला को तत्काल जबरन छुट्टी पर भेज दिया।
इस घटना की भनक किसी तरह स्थानीय पत्रकारों को भी लग गई। सभी पत्रकार डीएम को फोन मिलाने लगे। डीएम का बयान लेने की कोशिश की जाने लगी। डीएम ने फोन करने वाले सभी पत्रकारों को अपने आवास पर बुलाया। इसके बाद जो जो हुआ वह एक पेशेवर भंड़ुआ भी करने में शर्म करेगा लेकिन पत्रकारों को शर्म नहीं आई। आनन.फानन में जिला मुख्यालय से पत्रकारों की एक टीम उस महिला के घर एक घंटे तक सफर करने के बाद पहुंची। वहां स्टोरी करने के बजाय पत्रकारों ने महिला से मुंह बंद रखने के लिए डीएम द्वारा दिए जाने वाले मदद की पेशकश को सुना कर मामले को मैनेज कर दिया। टीम वापस लौटी और डीएम से अपने मेहनताने को प्राप्त किया। इस प्रकरण का खुलासा नहीं होता लेकिन एक नए रीजनल न्यूज चैनल साधना न्यूज ;बिहार.झारखंडद्ध पर यहां की खबर प्रसारित हो गई। इस चैनल के रिपोर्टर ने महिला का बयान और डीएम की बाइट को अपने चैनल मुख्यालय को भेज दिया जिसे चैनल ने प्रसारित भी कर दिया।
महिला के साथ हुए हादसे की खबर किसी भी अन्य अखबार या टीवी चैनल ने अपने यहां प्रसारित.प्रकाशित नहीं की क्योंकि ब्यूरो चीफोंए रिपोर्टरों ने खबर भेजी ही नहीं। किसी पत्रकार ने गरीब और अबला महिला की आवाज को बल देने की कोशिश नहीं की। चूंकि यह मामला डीएम से जुड़ा था इसलिए पत्रकारों ने भंड़ुआगिरी की है। महिला से छेड़छाड़ का प्रयास किसी साधारण व्यक्ति ने किया होता तो फिर अखबार वाले पाठकों को कई मसालेदार स्टोरी परोस देते। क्या यही है पत्रकारिताघ् कहां चले गए संपादकजी लोगघ् आज उस डीएम के खौफ से कोई भी महिला कर्मचारी उनके आवासीय कार्यालय में नही जाना चाहती। डीएम की करतूतए महिला की पीड़ा से संबंधित कोई भी मेन और साइड स्टोरी किसी भी मीडिया माध्यम में नहीं प्रकाशित.प्रसारित होने वाली क्योंकि मामला डीएम का जो है और डीएम ने पत्रकारों को बुलाकर ओबलाइज जो कर दिया है।
धन्य है लोकतंत्रए धन्य हैं लोकतंत्र के खंभेए धन्य है ब्यूरोक्रेसीए धन्य है पत्रकारिता।
आपका
एक पत्रकार
लखीसरायए बिहार

Wednesday, June 10, 2009

अब समय है एक नई शुरुआत का

मंगलवार को समाप्त हुए संसद के पांचदिवसीय संक्षिप्त सत्र में कोई बहुत महत्वपूर्ण घोषणा भले ही न हुई हो, पर यह आने वाले समय में संसद, विशेषकर लोकसभा के नए माहौल के बारे में काफी कुछ बता गया। जहां राष्ट्रपति प्रतिभा पाटील ने अपने भाषण में नई सरकार की प्राथमिकताएं गिनाईं, वहीं प्रधानमंत्री मनमोहन सिंह ने धन्यवाद प्रस्ताव में अपनी सरकार की प्रतिबद्धताएं गिनाईं, जिनमें कुछ ऐसा नहीं था जो यूपीए की पिछली सरकार की प्राथमिकताओं से अलग हो। इस बार वाम दलों से समर्थन की मजबूरी में न होने का प्रभाव साफ दिखा, जब प्रधानमंत्री ने सरकार के आर्थिक एजेंडे पर विस्तार से बात की। अधोसंरचना व सरकारी खर्च में बढ़ोतरी के बावजूद उन्होंने आशा जताई है कि आर्थिक विकास दर 7 फीसदी से कम नहीं होगी। पाकिस्तान के साथ संबंधों पर दूसरी ओर से पहल की जरूरत पर जोर देते हुए कहा कि ताली दोनों हाथ से बजती है। इन सब अपेक्षित बयानों से अलग जो दिखा, वह था लोकसभा का बदला नजारा, जहां स्पीकर की कुर्सी पर पहली बार कोई महिला, और वह भी दलित, आसीन थी। सदन को चलाने के तरीके में दिखे परिवर्तन निश्चित ही आने वाले दिनों में सदन में होने वाली बहस और नोक-झोंक को भी प्रभावित करेंगे, ऐसी उम्मीद की जा सकती है। जहां एक ओर मुख्य विपक्षी दल भाजपा के सांसदों के संयत व्यवहार और वाम दलों की चुप्पी ने ये संकेत दिया कि ये दल अभी अपनी हार के सदमे से उबरे नहीं हैं, वहीं लालू यादव के हाव-भाव से साफ जाहिर हुआ कि वे अपनी मंत्री की कुर्सी छिन जाने से काफी विचलित हैं। सत्र के अंतिम दिन उन्होंने मनमोहन मंत्रिमंडल पर ऐतराज जताते हुए प्रधानमंत्री से कहा कि वे अपने ‘मान-सम्मान से समझौता नहीं करेंगे’ जबकि अभी तक ऐसा कुछ भी नहीं हुआ जिससे उनके सम्मान को ठेस पहुंचती दिखी हो। लालू की हताशा समझी जा सकती है कि सदन भी वही है और प्रधानमंत्री भी वही, सत्तापक्ष को समर्थन भी वही, पर जो नहीं है, वह है उनकी मंत्री वाली कुर्सी।उल्लेखनीय है कि प्रधानमंत्री ने सरकार के लिए १क्क् दिनों का रिपोर्ट कार्ड बनाने की घोषणा की थी, जिसके तहत सभी मंत्रियों ने भी अपने-अपने विभागों ने आगामी सौ दिनों में पूरे होने वाले कार्यो की अति-उत्साही घोषणा कर दी थी। प्रधानमंत्री ने इस रिपोर्ट कार्ड पर तो कुछ नहीं कहा, पर आशा है कि ३ जुलाई को पेश होने वाले बजट में इसका उल्लेख जरूर होगा।

अब समय है एक नई शुरुआत का

मंगलवार को समाप्त हुए संसद के पांचदिवसीय संक्षिप्त सत्र में कोई बहुत महत्वपूर्ण घोषणा भले ही न हुई हो, पर यह आने वाले समय में संसद, विशेषकर लोकसभा के नए माहौल के बारे में काफी कुछ बता गया। जहां राष्ट्रपति प्रतिभा पाटील ने अपने भाषण में नई सरकार की प्राथमिकताएं गिनाईं, वहीं प्रधानमंत्री मनमोहन सिंह ने धन्यवाद प्रस्ताव में अपनी सरकार की प्रतिबद्धताएं गिनाईं, जिनमें कुछ ऐसा नहीं था जो यूपीए की पिछली सरकार की प्राथमिकताओं से अलग हो। इस बार वाम दलों से समर्थन की मजबूरी में न होने का प्रभाव साफ दिखा, जब प्रधानमंत्री ने सरकार के आर्थिक एजेंडे पर विस्तार से बात की। अधोसंरचना व सरकारी खर्च में बढ़ोतरी के बावजूद उन्होंने आशा जताई है कि आर्थिक विकास दर 7 फीसदी से कम नहीं होगी। पाकिस्तान के साथ संबंधों पर दूसरी ओर से पहल की जरूरत पर जोर देते हुए कहा कि ताली दोनों हाथ से बजती है। इन सब अपेक्षित बयानों से अलग जो दिखा, वह था लोकसभा का बदला नजारा, जहां स्पीकर की कुर्सी पर पहली बार कोई महिला, और वह भी दलित, आसीन थी। सदन को चलाने के तरीके में दिखे परिवर्तन निश्चित ही आने वाले दिनों में सदन में होने वाली बहस और नोक-झोंक को भी प्रभावित करेंगे, ऐसी उम्मीद की जा सकती है। जहां एक ओर मुख्य विपक्षी दल भाजपा के सांसदों के संयत व्यवहार और वाम दलों की चुप्पी ने ये संकेत दिया कि ये दल अभी अपनी हार के सदमे से उबरे नहीं हैं, वहीं लालू यादव के हाव-भाव से साफ जाहिर हुआ कि वे अपनी मंत्री की कुर्सी छिन जाने से काफी विचलित हैं। सत्र के अंतिम दिन उन्होंने मनमोहन मंत्रिमंडल पर ऐतराज जताते हुए प्रधानमंत्री से कहा कि वे अपने ‘मान-सम्मान से समझौता नहीं करेंगे’ जबकि अभी तक ऐसा कुछ भी नहीं हुआ जिससे उनके सम्मान को ठेस पहुंचती दिखी हो। लालू की हताशा समझी जा सकती है कि सदन भी वही है और प्रधानमंत्री भी वही, सत्तापक्ष को समर्थन भी वही, पर जो नहीं है, वह है उनकी मंत्री वाली कुर्सी।उल्लेखनीय है कि प्रधानमंत्री ने सरकार के लिए १क्क् दिनों का रिपोर्ट कार्ड बनाने की घोषणा की थी, जिसके तहत सभी मंत्रियों ने भी अपने-अपने विभागों ने आगामी सौ दिनों में पूरे होने वाले कार्यो की अति-उत्साही घोषणा कर दी थी। प्रधानमंत्री ने इस रिपोर्ट कार्ड पर तो कुछ नहीं कहा, पर आशा है कि ३ जुलाई को पेश होने वाले बजट में इसका उल्लेख जरूर होगा।

Monday, June 8, 2009

Saturday, June 6, 2009

मासूम का शव सीने से लगाए अदालत पहुंची मां

कोटा. अदालत परिसर में शुक्रवार को उस समय सनसनी फैल गई, जब एक महिला रोते- बिलखते नवजात बेटी का शव सीने से लगाए वहां पहुंची। पुलिस से नाउम्मीद महिला मुख्य न्यायिक मजिस्ट्रेट के पास पहुंची और इंसाफ की गुहार लगाई। उसने आरोप लगाया कि गुरुवार रात दो जनों ने घर में घुस उससे दुष्कर्म का प्रयास किया।विरोध करने पर उसकी एक माह की मासूम बेटी को वहशियों की तरह पैरों से कुचलकर मार डाला था। वैम्बे योजना निवासी मंजू (परिवर्तित नाम) ने सीजेएम को प्रार्थना पत्र पेश किया कि दशरथ सिंह व दल्ला नामक युवक उसके घर में घुस गए। उन्होंने उसके साथ दुष्कर्म करने की कोशिश की। विरोध करने पर दोनों ने उसे पीटा और कमरे में सो रही एक माह की पुत्री को पैर से कुचलकर मार डाला। महिला का आरोप है कि इससे एक दिन पूर्व 3 जून को भी दशरथ व दल्ला ने उसके पति के साथ मारपीट की तथा उसे उठाकर ले गए। इस संबंध में उद्योग नगर थाने में मुकदमा दर्ज कराना चाहा था, लेकिन पुलिस ने रिपोर्ट दर्ज नहीं की। उसकी व्यथा सुनकर सीजेएम ने तत्काल महिला को कार्रवाई के लिए एसपी भूपेन्द्र साहू के पास भेज दिया।
महिला एसपी ऑफिस पहुंची। एसपी ने एएसपी लक्ष्मण गौड़ को जांच के आदेश दिए। उद्योग नगर पुलिस को बुलवाया और महिला को उसके साथ थाने भेजा। महिला के बयान के आधार पर पुलिस ने वैम्बे योजना निवासी दशरथ व दल्ला के खिलाफ हत्या, दुष्कर्म का प्रयास व मारपीट का मुकदमा दर्ज कर लिया। बालिका के शव का पोस्टमार्टम कराया गया। मामले की जांच की जा रही है।
यह है झगड़े का कारण
दोनों पक्षों में वैम्बे योजना के मकान पर कब्जे का झगड़ा है। महिला का मकान दशरथ व दल्ला हड़पना चाहते हैं। इसके लिए उसे डरा-धमकाकर यहां से भगाना चाहते हैं।
पुलिस की कहानी अलग
महिला व उसकी बड़ी बेटी के बयानों में विरोधाभास है। पड़ोसी भी घटना की तस्दीक नहीं कर रहे हैं। बालिका प्रीमेच्योर जुड़वां हुई थी। जिसमें से एक की मृत्यु उसी समय हो गई थी, दूसरी कमजोर थी। उसे कुचलकर मारा है या उसकी मौत स्वाभाविक है, यह पोस्टमार्टम रिपोर्ट से ही स्पष्ट हो सकेगा। 3 जून को दशरथ, दल्ला व महिला के पति के बीच झगड़ा हुआ था। जिसमें उसके पति के खिलाफ मुकदमा दर्ज है। तभी से वह फरार है। उसका पति रतलाम से जिला बदर है।

Wednesday, June 3, 2009

पिता की विरासत को सहेजती बेटियां

पिता की विरासत को सहेजती बेटियां
हाल ही में एक वकील ने एक घटना का जिक्र करते हुए बताया कि एक जाने-माने व्यवसायी ने बेटे के होते हुए भी अपनी बेटी की मेहनत और निष्ठा को देखते हुए अपने व्यवसाय की सारी जिम्मेदारी उसे जीते जी सौंप दी। बेटी ने न केवल अपने पिता की विरासत को संभाला बल्कि अपनी सोच और मेहनत से व्यवसाय को नए आयाम भी दिए। बेटे की लापरवाहियों ने पिता को पूरे तौर पर निराश कर दिया था। लेकिन पिता के मरते ही बेटे ने कोर्ट में मुकदमा दायर किया और अपने हक की मांग की। कोर्ट ने उसके पक्ष में फैसला सुनाते हुए दोनों भाई-बहनों को आधा-आधा व्यवसाय सौंप दिया। अगले कुछ ही सालों में भाई ने उस आधे को भी पूरा समाप्त कर दिया। जबकि बहन ने अपने हिस्से में आई विरासत को संजोने और आगे ले जाने में पूरी जान लगा दी। यह निर्विवाद सच है कि बेटियां अपने पिता के प्रति अधिक निष्ठावान होती हैं। हमारे जीवन में पिता की भूमिका कुछ ऐसी ही है। अपवादों की बात न करें तो अनेक उदाहरण ऐसे मिल जाएंगे जिन्होंने तमाम बंदिशों के बाद भी अपने घर-परिवार का नाम रोशन किया। पिता के व्यक्तित्व से प्रभावित ऐसी बेटियों की कमी नहीं है जिन्होंने उनके पदचिह्नों पर चलकर मिसाल कायम की।

संबंध पिता-पुत्री का

इसमें संदेह नहीं कि आम तौर पर पिता का पुत्री के साथ और पुत्र का मां के साथ नाता गहरा होता है। प्रख्यात मनोवैज्ञानिक सिग्मंड फ्रायड के अनुसार विपरीत सेक्स के कारण यह आकर्षण प्रबल होकर इस लगाव का मुख्य कारण बनता है। जीवन में आने वाले सर्वप्रथम पुरुष पिता से लडकियां स्वत: प्रभावित होती हैं। वे आजीवन इस मजबूत और आदर्श व्यक्तित्व से प्रभावित रहती हैं और सारी उम्र अपने साथी में भी पिता के गुणों को खोजती हैं।

बदला दृष्टिकोण

आज पिता की भूमिका बदल गई है। वह पहले की तरह घर-परिवार से दूर रहने वाला केवल कामकाजी व्यक्ति नहीं रह गया। आज का पिता पहले की तुलना में कहीं अधिक व्यावहारिक हो गया है। वह चाहता है कि उसकी व्यावहारिकता और अनुभव उसके बच्चों के काम आएं। यूं भी बहुत से परिवर्तन हमारे समाज में आए हैं। पहले जहां बेटियों को पराया धन मानकर उसे तवज्जो नहीं दी जाती थी और बेटे की परवरिश पर ध्यान दिया जाता था, वहीं अब दोनों को बराबरी का हक मिलता है। सोच और दृष्टि में आए बदलावों ने बेटियों के जीवन में क्रांतिकारी बदलाव ला दिए। इसी बदलाव के चलते ये संबंध और प्रगाढ हुए।

इतिहास गवाह है

ऐसे उदाहरण जिन्होंने अपने पिता की परंपरा को न केवल जीवित रखा बल्कि बख्ाूबी निभा कर आगे भी ले गई, कम नहीं हैं। पंडित जवाहर लाल नेहरू की बेटी इंदिरा गांधी हों या पंडित रविशंकर की बेटी अनुष्का शंकर। ये उस जमाने की बेटियां हैं जिन्हें सुविधाओं और अवसरों की कमी नहीं है। लेकिन दूसरी तरफ आज से चार सौ साल पहले जन्मी चांद बीबी [1550-1599] अरबी, फारसी, टर्की के साथ मराठी और कन्नड भाषा में निपुण थीं और जिस जमाने में बेटियों के घर से निकलने पर भी पाबंदी थी, उसी दौर में चांद ने बीजापुर की सल्तनत में विवाह करने के बाद भी अपने पिता [अहमदनगर के हुसैन निजाम शाह] का नाम अमर किया। इनके दो सौ साल बाद 1725-1795 में अहिल्या बाई हुई। एक बडी फिलॉसफर होने के साथ महान बिल्डर बनीं। उनके बनाए भव्य मंदिर आज भी देश-विदेश में चर्चा के केंद्र हैं। उनके पिता मनकाजी शिंदे तो चोंडी गांव, अहमदनगर के पाटिल ही रहे, लेकिन बेटी अहिल्या के कारण उनका नाम इतिहास में आज भी इज्जत से लिया जाता है।

सक्षम है बेटी

वरिष्ठ मनोचिकित्सक डॉक्टर जयंती दत्ता का कहना है कि स्त्री की सहनशीलता, ईमानदारी और ताकत को भगवान भी मानते हैं। यदि नहीं मानते तो सृष्टि के सृजन का माध्यम उसे नहीं बनाते। बेटी को केवल इस वजह से पराया धन मान लेना कि एक दिन उसे दूसरे घर जाना है, एकदम गलत है। अपनी संतान को खून से सींच कर पालते हैं। यही काम बेटी आगे चलकर करती है क्या कोई बेटा ये काम कर सकता है? तो बेटियां क्यों नहीं पिता की विरासत को आगे बढा सकतीं। वे भी सक्षम हैं हर काम करने में।

बेटी में मां की झलक

जयंती मानती हैं कि पिता अपनी पुत्री में अपने ही खून का बदला हुआ चेहरा देखता है। वह उसमें अपनी मां की झलक देखता है। वह उसकी देखभाल करती है, सलाह मानती है और सलाह देती भी है, गुस्सा भी होती है। इसलिए बेटी से उसका लगाव बेहद मजबूत होता है। ये भावनात्मक संबंध संसार के सभी संबंधों से एकदम अलग और अटूट है। उसे बाहर की दुनिया से रूबरू कराने का काम भी पिता ही करता है। मानसिक व शारीरिक सक्षमता के कारण वह हर जगह खडा होता है। यही वजह है कि बेटी भी अपने निकटतम संबंधों में अपने पिता का सा व्यक्तित्व और गुण खोजती रहती है। विज्ञान भी इस बात को मानता है कि पिता और पुत्री का संबंध अटूट व रचनात्मक है। इसे इलेक्ट्राकॉम्प्लेक्स कहते हैं। ये निरंतर सीखने व आगे ले जाने की परंपरा का निर्वाह करता है। ऐसी कुछ जानी-मानी बेटियों के अनुभव जिन्होंने पिता की विरासत को संजोने व आगे बढाने में सक्षम भूमिका निभाई।

पापा के पदचिह्नों पर चलने की कोशिश की

रवीना टंडन थदानी, अभिनेत्री व निर्माता

मेरे पापा रवि टंडन ने अपने जमाने में कई बेहतरीन फिल्मों का निर्माण-निर्देशन किया। उनके साथ मेरी कोई बराबरी किसी क्षेत्र में हो ही नहीं सकती। एक इंसान और योग्य निर्देशक के रुप में जो गुण उनमें हैं, उनसे मेरी तुलना नहीं हो सकती। जहां तक पिता की परंपरा निभाने का सवाल है, तो मैं यही कहूंगी कि मैंने अपनी तरफ से कोई कसर नहीं छोडी उनकी तरह बनने में। मैंने स्वयं कुछ सॉफ्टेवयर प्रोग्राम्स किए, कुछ फिल्म मेकिंग की शुरुआत की। आप सभी जानते हैं कि मैंने फिल्म स्टंप्ड का निर्माण किया, पर यह फिल्म ओवर बजट होने से सफल नहीं हुई। यदि अभिनय और फिल्म निर्माण-निर्देशन एक सिक्के के दो पहलू हैं, तो मैंने अपने पापा के पद्चिह्नों पर इस क्षेत्र में गंभीरता से चलने का प्रयास किया। पापा बेहद संजीदा इंसान हैं, उन्होंने अपने पेशे और परिवार से बेहद गहराई से प्यार किया। मेरी और भाई राजीव की परवरिश करने में उन्होंने कभी कोई भेद नहीं रखा। मैंने मिठीबाई कॉलेज में पढते समय ही मॉडलिंग शुरू की। मुझे एड फिल्म्स की मेकिंग में बडी दिलचस्पी थी, सो पापा ने मुझे एड गुरू प्रहलाद कक्कड से मिलवाया। रोमांचक होता है इस क्षेत्र में काम करना पर यहां काम करने का समय तय नहीं होता। मैंने अपनी मर्जी से एड व‌र्ल्ड छोड दिया। मुझे फिल्मों के लिए ऑफर्स आ रहे थे। मेरे हर काम में उन्होंने मुझे पूरा सहयोग दिया। उनका कहना था कि मुझे तुम पर पूरा भरोसा है कि तुम कुछ ऐसा नहीं करोगी, जिससे मुझे शर्मसार होना पडेगा। मैंने पापा के विश्वास को कायम रख। पापा हमेशा चुपचाप सामाजिक सारोकारों के लिए बरसों से काम करते रहे। मैं यूनिसेफ और क्राय की ब्रैंड एंबेसेडर हूं। मुझे खुशी है कि मैंने अपने पापा के पदचिह्नों पर चलने का प्रयास किया। राजीव, मेरा भाई पापा की तरह नामचीन मेकर नहीं बन सका, अब फिल्म इंड्स्ट्री के सारे गणित बदल चुके है, शायद नई फिल्म इंडस्ट्री में राजीव खुद को नहीं ढाल पाया हो। मेरे विचार में शादीशुदा स्त्री के लिए यह बहुत मायने रखता है कि वो अपनी व्यक्तिगत जिंदगी में कितनी सफल मां, पत्नी और गृहिणी है। मेरे पापा मेरी जीवन के असली हीरो हैं। आज जब वह मेरे बच्चे राशा और रणबीर को गोदी में लेते हैं, तो बडा सुकून मिलता है।

मैं उनकी परंपरा नहीं निभा पाई

मॉडल-अभिनेत्री पूजा बेदी

मैं अपने डैड के बारे में जितना कहूं उतना ही कम होगा। मेरे पिता बॉलीवुड और हॉलीवुड के बेहतरीन अभिनेता हैं। बेदी परिवार की शायद सबसे बडी खासियत यह रही है कि परिवार का हर सदस्य अपनी मर्जी का मालिक है। मैंने यदि अपने पिता की परंपरा निभाई है, तो वह मेरे जींस में है।

मेरे पिता का जन्म पंजाब में हुआ। उनके पिताजी यानी मेरे दादाजी का नाम था-बाबा फायरेलाल बेदी। वह लेखक और चिंतक थे। उन्होंने उन्नीसवीं सदी के आरंभ में आजादी की लडाई लडी। तमाम विरोध सहते हुए मेरी दादी फ्रेदा होलस्टन, जो ब्रिटिशर थीं, से हिंदू तरीके से शादी की। उन्नीसवीं-सदी का आरंभ और अठारहवीं सदी के अंत में हमारे बेदी परिवार में एक साथ सिख-हिंदू और क्रिश्यियन धर्म की पंरपराओं का पालन एक ही छत के नीचे किया जाता रहा है। उस समय में भी बेदी परिवार विचारों से सौ साल आगे था और भी है। दादा-दादी दोनों ने मिलकर काफी समाज सुधारक काम किए। मेरे पिताजी पढाई के लिए शेरवुड कॉलेज, नैनीताल गए। वहीं कॉलेज के नाटकों में काम करते-करते उन्हें अभिनय का शौक लगा। डैड ने अभिनय की जिन गहराइयों को छुआ, वहां तक पहुंचने के लिए मुझे अगले जन्म का इंतजार करना पडेगा। डैड ने बॉलीवुड और हॉलीवुड में कई ऐतिहासिक किरदार निभाए। उस दौर में अभिनेता होना कुछ खास बात नहीं थी। मेरी मां प्रोतिमा बेदी ओडिसी डांसर रही हैं। पिताजी ने जो किया उसका अगर मैं एक अंश भी कर सकूं तो बहुत बडी बात होगी। मेरे भाई -सिद्धार्थ को पढने-लिखने में गहरी दिलचस्पी थी, शायद वह भविष्य में नाम कमाता पर वह इस दुनिया में नहीं रहा..। दूसरा भाई एडम बेदी भी आज विज्ञापन की दुनिया में बडा नाम बन चुका है, जो ग्लैमर से ही जुडा है। मैं अपने पिताजी की अभिनय की विरासत को निभाने में सक्षम नहीं रही। मुझे जितने मौके मिले, मैंने उन्हें ईमानदारी से निभाने की पूरी कोशिश की। पिताजी इस बात से संतुष्ट हैं कि मैं एक बेहद अच्छी मां हूं। शायद भविष्य में मेरी बेटी आलिया या बेटा फरहान अभिनय के क्षेत्र से जुडें.. काल के गर्भ में क्या छिपा है, नहीं पता।

उनके सपने मैं पूरे करना चाहती हूं

मेघना [डायरेक्टर-एक्टिव इंस्टीट्यूट]

आजकल बेटे और बेटी में कोई अंतर नहीं रह गया। मेरे हिसाब से जो काम पहले बेटे करते थे, अब बेटियां करती हैं। मैं अपने पिता सुभाष घई की इकलौती पुत्री हूं। मुझे हमेशा पिता का स्नेह मिला। उन्होंने मुझे हमेशा हर काम में डटे रहने का सुझाव दिया। मेरे पिता का सपना था कि मैं एक ऐसी संस्था खोलूं जिसमें गांव और छोटे शहरों से आने वाले बच्चों को निर्देशन, कला, डबिंग, एडिटिंग, एक्टिंग आदि की शिक्षा दी जाए। ताकि अगर कोई इस क्षेत्र में आना चाहे तो वह कामयाब हो सके।

मेरे पिता ने मुझे हर काम के लिए प्रोत्साहन दिया। मैंने 16 वर्ष की आयु से इस क्षेत्र में कदम रखा। जब मेरी छुट्टियां होतीं तो मैं अपने पिता के साथ ऑफिस चली जाती। उन्होंने कभी ये नहीं कहा कि लडकी हो और घर पर बैठो। वे हमेशा मुझे अपने साथ शूट पर ले जाते थे। फलस्वरूप मुझे भी इस क्षेत्र में आने की प्रेरणा मिली। इसके अलावा जब मैं उनके साथ सेट पर जाती और उनके काम को देखती तो अनायास ही मुझे इससे लगाव होने लगा। वह हमेशा कहते हैं कि आप कितने भी ऊपर पहुंच जाएं या सफलता हासिल कर लें पर अपनी जड को कभी मत भूलें। ईगो को कभी आगे आने मत दें। वे खुद भी अपनी टीम के हर सदस्य से परिवार जैसा रिश्ता रखते हैं। चाहे लाइटमैन हो या निर्देशक सबसे मिलते हैं, बातें करते हैं। 35 साल से भी अधिक समय उन्होंने इस फिल्मी दुनिया में बिताए। सबसे उनका अच्छा व्यवहार है। उनका कहना है कि हर व्यक्ति का काम महत्वपूर्ण है तथा सबसे मिलकर ही टीम बनती है। मुझे किसी प्रकार की परेशानी कभी नहीं आई, पर हमेशा ये चिंता रही है कि मैं उनके सपनों को साकार कर सकूं और उनके नाम को आगे बढाऊं। उनकी बेटी हूं, ऐसा सोचकर मुझे गर्व महसूस होता है। उनके अनुभव ही मेरे काम आ रहे हैं। अब तो लगता है कि मुझे सब पता है। यह एक बडा ही प्यारा काम है और उनके सपने मैं पूरे करना चाहती हूं।

संभाली पिता की विरासत

मीता पंडित, शास्त्रीय गायिका

पिता एल के पंडित और दादा पद्मभूषण कृष्णराव शंकर के कारण घर में शास्त्रीय संगीत का माहौल तो हमेशा रहा। बचपन से संगीत के प्रति अनुराग रहा है। संगीत के प्रति दीवानगी इस हद तक थी कि हम संगीत ही खाते, संगीत ही पहनते और संगीत ही ओढते थे। संगीत की इस दीवानगी में हमारा बचपन कब और कैसा बीता मुझे पता नहीं चला। हमें नहीं पता कि बचपन क्या होता है। हम गरमी की छुट्टियां मनाने कहीं जाते तो हारमोनियम और तबला भी हमारे साथ जाता। ताकि अवसर निकाल कर हम रियाज भी कर लिया करें। मगर तब तक हमने यह नहीं सोचा था कि दादाजी और पिताजी की विरासत को एक ऊंचाई देने में मेरी भी कुछ भूमिका होगी। यह सन् 1994 की बात है, मैं बी. कॉम कर रही थी। तब तक मैंने भविष्य को लेकर कोई निश्चित योजना नहीं बनाई थी। दुर्भाग्यवश उन्हीं दिनों मेरे परमप्रिय भाई तुषार पंडित की एक दुर्घटना में मृत्यु हो गई। तुषार ही वास्तव में पिता की इस कला विरासत को आगे ले जाने के लिए प्रयासरत थे। भाई के इस दुखद अवसान के बाद मुझे लगा कि उनके छोडे अधूरे अभियान को मैं पूरा करूंगी। इस तरह मैंने ख्ाुद को शास्त्रीय संगीत की दुनिया को समर्पित कर दिया। मगर मैं इस बात से सहमत नहीं हूं कि पिता का वारिस केवल बेटा ही हो सकता है खासकर उनके शौक, उनके प्रोफेशन, उनकी हसरतों को लेकर। हो सकता है कि बी.कॉम के बाद मैं किसी जॉब से जुडने के साथ-साथ गीत-संगीत की इस विधा से भी इतने ही अपनेपन के साथ जुडी रहती। कोई इंसान एक बार में दो काम क्यों नहीं कर सकता? बहन शोभना अपने जॉब के साथ-साथ शास्त्रीय नृत्य के शोज भी निरंतर कर रही हैं। कथक की सर्वश्रेष्ठ नृत्यांगना के तौर पर वह देश-विदेश में विख्यात है। जहां तक परवरिश की बात है, घर का माहौल गीत-संगीत का होने की वजह से इसके प्रति रुझान भी बचपन से बना हुआ था।

पिताजी ने एक गुरु की तरह मुझे संगीत की तालीम दिलाई है। सारे सुर-ताल मैंने उन्हीं से सीखे। पिता के साथ गुजरे वक्त के साथ मुझे सीखने को मिला कि स्टेज के पीछे किस तरह का वातावरण होता है? ग्रीन रूम के भीतर कैसा माहौल रहता है इत्यादि। इन स्थितियों से कैसे निबटा जाता है ये भी उन्होंने सिखाया। ऐसे परिवार का हिस्सा रहते हुए आप काफी कुछ सीख समझ जाते हैं। आप किसी भी फील्ड में तरक्की करते हैं तो कुछ लोग आपकी तरक्की से जलते हैं। मगर ऐसे लोगों को तवज्जो दिए बिना हमें अपना काम करते रहना चाहिए। इसी में हमारी सफलता निहित है। यदि पिताजी मेरे गौरव हैं तो उन्हें भी अपनी बेटी पर गर्व होना चाहिए।

मेरे आदर्श रहे पापा

डॉ. समीना खलिल

मेरे पिता डॉ. खलीलुल्लाह का नाम मेडिकल प्रोफेशन में किसी पहचान या परिचय का मोहताज नहीं। कार्डियोलॉजिस्ट के रूप में वह केवल देश में ही नहीं, विदेशों में भी लोकप्रिय रहे। मां भी डॉक्टर थीं, लेकिन वह बच्चों की विशेषज्ञ थीं। पापा दिल के विशेषज्ञ थे। मैंने देखा कि इस क्षेत्र में कितना सम्मान और संतोष है। लोग आते, पापा का धन्यवाद करते। उनका धन्यवाद करने का तरीका भी इतना अनोखा होता कि देखकर हृदय द्रवित हो जाता। कभी कोई अपने खेतों की फसल ही ले आता तो एक बार एक व्यक्ति अपनी इकलौती मुर्गी दे गया। उसके पास संपत्ति के नाम पर केवल वही थी। वह गरीब लोगों का नि:शुल्क इलाज करते। लगता कि इससे अच्छा और नोबल प्रोफेशन और कोई नहीं हो सकता। हम दो बहनें ही थीं। मैंने पापा का क्षेत्र अपनाया तो बहन ने मां का। यह जरूर है कि वह इतना ज्यादा व्यस्त रहते थे कि हमारे लिए समय कम पड जाता। लेकिन जब उनका संतोष और प्रसन्नता देखती तो समझ में आता कि क्यों वह दिन-रात अपने काम में लगे रहते हैं। एम.बी.बी.एस. करने के बाद मैंने मेडिसन में पोस्ट ग्रेजुएशन किया और अब एस्कॉर्टस से कार्डियोलॉजी में महारत हासिल कर रही हूं। अभी तक तो इस क्षेत्र में आने और आगे बढने को लेकर कभी कोई दिक्कत नहीं हुई। मुझे लगता है कि लोग पहले की तुलना में कहीं अधिक परिपक्व होते जा रहे हैं। अब ये मुद्दे छोटे और बेमानी हैं। चूंकि अभी मेरी शादी नहीं हुई, इसलिए पारिवारिक जिम्मेदारियां भी मेरे ऊपर कुछ खास नहीं हैं। लेकिन मुझे नहीं लगता कि आगे कोई परेशानी आएगी।

जहां तक सवाल बेटे या बेटी का है तो मुझे नहीं लगता कि आज इन बातों के कोई मायने रह गए हैं। यह ठीक है कि समान क्षेत्र में आना कोई कम चुनौतीपूर्ण नहीं होता। लेकिन चुनौतीयों कहां नहीं हैं। आज आप कोई सा भी क्षेत्र चुनें समय की बाध्यता कहीं नहीं रह गई है। अपने को साबित करना है तो मेहनत व ईमानदारी से अपना काम करना होगा। मेरे साथ-साथ मेरी बहन को भी नाज है अपने पेरेंट्स पर। उम्मीद है कि हम उनके जैसे बन पाएंगे।

पिता के बेहद करीब हूं

एकता कपूर, निर्माता-निर्देशक

डैड का फिल्मों में आना उनकी मजबूरी थी। उन्हें चित्रपति व्ही. शांताराम ने फिल्म में पहली बार मौका दिया फिल्म गीत गाया पत्थरों ने में। सामान्य मध्यम वर्गीय परिवार से आए मेरे डैड ने मुंबई की चाल में रहकर बडी मेहनत से बॉलीवुड में अपनी जगह बनाई और हमें पाल-पोसकर बडा किया। तुषार पढने-लिखने में मुझसे अच्छा था। उसकी स्कूल के बाद की पढाई तो विदेश में हुई। डैड ने कहा, तुम एम.बी.ए. कर लो, और कोई बिजनेस शुरू कर देना। जब मैं डैड के करीबी दोस्तों को अपने घर पर देखा करती थी, कहीं न कहीं मेरे दिलो-दिमाग पर भी ग्लैमर का प्रभाव पडने लगा। लगा मुझे अपने पिता की तरह एक्टर बनना चाहिए। कभी ममा [शोभा कपूर] की तरह मेरे दिमाग ने एबाउट टर्न लेते हुए हवाई सुंदरी के करियर पर गंभीरता से सोचना शुरू किया। स्कूली एजूकेशन बॉम्बे स्कॉटिश से हुआ था और फिर कॉलेज के लिए मैंने मीठीबाई कॉलेज में एडमिशन लिया। मेरे स्कूल और कॉलेज में काफी सेलेब्रिटीज के बच्चे पढा करते थे। हर कोई अपने भविष्य के बारे में बात किया करता।

पढाई के दौरान मुझे गॉसिप मैगजींस पढने का चस्का लगा। मैंने डैड से कहा कि मुझे पत्रकार बनना है। डैड ने हंसकर कहा, बेटा पहले किसी मैगजीन या न्यूज पेपर में काम करो। मैंने कुछ स्टार्स के इंटरव्यू लिए और उन्हें छपने के लिए भेजा भी। मेरे किए साक्षात्कार छपे भी। लेकिन आदतन मैं इस काम से भी जल्द ही ऊब गई। मुझे टीवी देखने का शौक लगा। मैं दिन-रात इडियट बॉक्स के सामने रहकर टीवी देखने लगी। यही टर्निग पॉइंट था मेरे जीवन का। उसके बाद फिर पीछे मुडकर नहीं देखा। लोगों ने मुझे क्वीन ऑफ स्मॉल स्क्रीन की उपाधि दी। फिर पिताजी के पदचिह्नों पर चलते कुछ फिल्में बनाई, कुछ चलीं.. कुछ नहीं। सच्चाई तो यही है कि डैड या मॉम ने कभी किसी भी बात के लिए दबाव नहीं डाला। उनका विश्वास और प्रेरणा हमेशा साथ है। मैं उनके बेहद करीब हूं। वह मेरी बैक बोन हैं।

दोस्त और सच्चे मार्गदर्शक थे पापा

कीर्ति जैन, रंगकर्मी

मैंने जिस परिवार में आंखें खोलीं तो वहां आसपास किताबें ही किताबें हीं थीं। लिखना-पढना हमारे जीवन का अनिवार्य हिस्सा था। जब मैं पांच साल की थी तब इलाहाबाद में पापा ने एक दुकान शुरू की। नाम था आधुनिक पुस्तक भंडार। हंसी इस बात पर आती है कि यह दुकान आरंभ की गई व्यवसाय के लिए, लेकिन वह केवल लेखकों के जमावडे का केंद्र बन कर रह गई। पापा खुद पढने के बेहद शौकीन थे। हर रोज वहां पढने के शौकीनों का मेला लगा होता। वह स्वयं लोगों को किताबें मुफ्त दिया करते। इसके बाद हम दिल्ली आ गए। सच कहूं तो हमारा रिश्ता किताबों से कुछ ऐसा था जैसे सांस और शरीर का। घर में चारों तरफ किताबें ही किताबें थीं। हम तीन बहनें और एक भाई था। मां ने हम चारों की डयूटी लगाई हुई थी कि एक शेल्फ एक व्यक्ति रोज साफ करेगा। हम साफ करते-करते उन्हें देखते, पलटते और पढते जाते। लिखना-पढना हमारे आसपास था। पापा के संगीत नाटक अकादमी जॉइन करने के बाद दिल्ली के तमाम बडे लेखक और रंगकर्मी हमारे घर से जुडने लगे। हमने इन लोगों को केवल सुना नहीं देखा और महसूस किया।

अपने-अपने क्षेत्र चुनने की सभी को पूरी आजादी थी। एक बहन ने बिरजू महाराज से कत्थक सीखा, एक ने अमजद अली खां के पिता हाफिज अली से सितार। मेरे लिए समान क्षेत्र में आना कोई कम चुनौतीपूर्ण नहीं था। यह डर तो मन में था ही कि कहीं उनके नाम को ठेस न लगे। उनसे हट कर अपनी पहचान बनाने का भी दबाव मन में बना हुआ था। लेखकों को उस समय आर्थिक संकट से गुजरना पडता था एक सच यह भी था। ऐसा नहीं कि हमने कठिन समय नहीं देखा, लेकिन मां-पापा ने कभी कोई कमी महसूस नहीं होने दी। बेहद संतोष था। पैसा कोई मुद्दा नहीं था जीवन में।

उनका व्यक्तित्व हमेशा मुझ पर हावी रहा। मैं बीच-बीच में कुछ अलग करने की भी कोशिश करती रही। यह अनजानी प्रतिस्पर्धा हर उस संतान को देखनी पडती है जो अपने माता-पिता के क्षेत्र में कदम रखता है। यही वजह है कि जब टी.वी. से जुडी तो बेहद संतोषप्रद अनुभव रहा। रचनात्मकता और अपनी पहचान बनाने का सुअवसर यहीं मिला।

पापा से मिली आलोचनात्मक दृष्टि। इससे आपका आत्मविश्वास मजबूत होता है। यही आपको ताकत देता है, विषम परिस्थितियों में खडे रहने की। ये सभी गुण हमें पापा से मिले और हर काम को परफेक्शन से करने का गुण हमने मां से सीखा।

चुनौती स्वीकारी मैंने

प्रियंका मलहोत्रा, प्रकाशक

मेरे दादाजी दीनानाथ जी ने हिंद पॉकेट बुक्स प्रकाशन को नए आयाम दिए। एक समय में वह हिंदुस्तान का जाना-माना पब्लिशिंग हाउस था। पापा भी उसी क्षेत्र में उल्लेखनीय काम करते रहे। बचपन से ही मैंने किताबों की दुनिया देखी। जब हम छोटे थे तो छुट्टियों में पापा के ऑफिस जाते, जो दिलशाद गार्डन में हुआ करता था। पढने का शौक बहुत था, इसलिए वहां जाने पर लगता मन मांगी मुराद मिल गई। खूब किताबें पढते। मां भी क्योंकि प्रकाशन संबंधी कामों में रुचि रखती थीं, इसलिए वह हमें कुछ न कुछ काम दे दिया करतीं - जैसे इलस्ट्रेशन बनाना या किसी किताब का डिजाइन करना। मुझे बहुत बचपन में ही पता चल गया था कि मुझे इसी क्षेत्र में करियर बनाना है। हम दो बहनें ही थीं। पापा ने कहा कोई जरूरी नहीं कि तुम सिर्फ इसलिए इस क्षेत्र को चुनो क्योंकि कोई संभालने वाला नहीं। पर मेरा लक्ष्य साफ था। मेरा मन पढने में इतना रमता था कि मुझे लगता कि यही क्षेत्र मेरे लिए उपयुक्त है। मैंने ग्रेजुएशन लंदन से पब्लिशिंग में किया। इसके बाद लंदन स्कूल ऑफ इकोनॉमिक्स मास्टर इन साइंस ऑफ मीडिया का कोर्स भी किया। जिस भी क्षेत्र में जाएं उसका पूरा प्रोफेशनल ज्ञान आपको होना चाहिए। यह ठीक है कि इस क्षेत्र में आना कम चुनौतीपूर्ण नहीं था। एक तो इस क्षेत्र में लडकियां कम हैं, दूसरे यहां आकर अपने को भीड से अलग पहचान देना आसान काम नहीं। यह भी था कि आपकी टीम के लोग यह न समझें कि मालिक ही बेटी होने के नाते आ गई, इसे कुछ आता-जाता नहीं। यह भ्रम भी सभी के मन से दूर करना था। वह बिना मेहनत के संभव नहीं था। मेहनत से मैं नहीं घबराती। मेरी बात को गंभीरता से लोग लें, उन्हें यह समझाना भी जरूरी था।

मेरे बाबा दीनानाथ जी ने पब्लिशिंग में जो मकाम हासिल किया और पापा जिस तरह से उसे आगे ले गए, उसे बरकरार ही नहीं रखना था और आगे ले जाने की महत्वपूर्ण जिम्मेदारी मेरे ऊपर थी। मैंने पूरी ईमानदारी और मेहनत से इसे निभाने की कोशिश की। बहुत से नए प्रयोग भी किए। यदि आपमें लगन हो और मेहनत करने से नहीं बचते तो आपको आगे जाने से कोई रोक नहीं सकता। यह तो था परंपरा निभाने का सवाल लेकिन समान क्षेत्र में आने के जो फायदे थे वह मुझे भी मिले। हर कदम पर बडों का सहयोग और सुझाव मिलता रहा। उनसे मैंने बहुत कुछ सीखा और सीख रही हूं। पापा का हर तरह से पूरा सहयोग मुझे मिला। वह चाहते थे कि मैं संगीत के क्षेत्र में जाऊं और पियानो सीखूं। लेकिन कभी भी किसी प्रकार की बंदिश उन्होंने नहीं लगाई। आजाद और खुला वातावरण उन्होने अपनी बेटियों को दिया। इसी आजादी के कारण आज मैं वह कर पाई जो करना चाहती थी। उम्मीद रखती हूं कि इस नाम को अपने प्रयासों से और आगे ले जाऊंगी।

राजनीति में लंबा सफर तय किया है मीरा कुमार ने


राजनयिक से राजनेता बनने वाली कांग्रेस के दलित चेहरे मीरा कुमार ने 1980 के दशक के मध्य में चुनावी राजनीति में प्रवेश करने के बाद दुनिया के सबसे बड़े लोकतंत्र की प्रथम महिला लोकसभा अध्यक्ष पद के लिए चुने जाने तक एक लंबा सफर तय किया है। मीरा कुमार कांग्रेस के दिवंगत नेता जगजीवन राम की पुत्री हैं। पिछले एक पखवाड़े में लोकसभा अध्यक्ष पद के लिए आंध्र प्रदेश के कांग्रेस नेता किशोर चंद्र देव का नाम प्रमुखता से आने के बाद मीरा कुमार के नाम पर अचानक सहमति बनी। 64 वर्षीय मीरा कुमार ने 1985 में भारतीय विदेश सेवा की नौकरी छोड़कर राजनीति में प्रवेश किया था। वह पांच बार सांसद चुनी गई हैं। उन्होंने 2002 में कांग्रेस नेतृत्व से मतभेद होने के बाद पार्टी से इस्तीफा दे दिया था। हालांकि दो साल बाद ही वह फिर पार्टी में लौट आईं।
मीरा कुमार सबसे पहले पीवी नरसिंह राव के मंत्रिमंडल में उपमंत्री बनी थीं और 2004 के लोकसभा चुनाव में जब संप्रग ने सत्ता की बागडोर संभाली तो उन्हें कैबिनेट स्तर का मंत्री बनाया गया। मनमोहन सिंह के दूसरे कार्यकाल में जल संसाधन मंत्रालय का प्रभार संभालने के महज दो दिन बाद ही उन्हें लोकसभा अध्यक्ष पद के लिए चुने जाने का निर्णय किया गया। विधि स्नातक और अंग्रेजी में मास्टर डिग्री प्राप्त मीरा को 1973 में भारतीय विदेश सेवा के लिए चुना गया था। उन्होंने स्पेन ब्रिटेन और मारीशस के दूतावासों में अपनी सेवाएं दीं। वह भारत-मारीशस के संयुक्त आयोग की सदस्य भी रहीं।मृदु भाषी मीरा 1985 में उत्तर प्रदेश के बिजनौर से लोकसभा सदस्य चुनी गईं। वह दिल्ली की करोलबाग सीट से 1996 अ©र 1998 में सांसद चुनी गईं। लेकिन 1999 में जब राजग सत्ता में आया तो वह चुनाव हार गईं। वह 2004 में बिहार के सासाराम से लोकसभा सदस्य चुनी गईं और उन्हें केंद्र में सामाजिक न्याय और अधिकारिता मंत्री बनाया गया। सासाराम उनके पिता का निर्वाचन क्षेत्र था। मीरा कुमार 1990 से 1992 तक कांग्रेस की महासचिव रहीं। इसके बाद वह 1996 से 1998 तक भी इस पद पर रहीं। वह पहली बार 1990 में कांग्रेस कार्यकारिणी समिति की सदस्य बनीं और 2000 तक इस पद पर रहीं। गौरतलब है कि दो साल के अंतराल के बाद 2002 में वह फिर से कांग्रेस कार्यकारिणी में शामिल हुईं अ©र 2004 तक सदस्य बनी रहीं। मीरा का जन्म 31 मार्च 1945 को पटना में हुआ था। उन्होंने दिल्ली विश्वविद्यालय के इंद्रप्रस्थ कालेज अ©र मिरांडा हाउस में शिक्षा हासिल की। उन्होंने स्पैनिश भाषा में एडवांस्ड डिप्लोमा भी किया था। उन्हें राइफल निशानेबाजी के लिए पदक भी मिला है। विधि की डिग्री के साथ वह उच्चतम न्यायालय बार एशोसिएशन की 1980 में सदस्य बनीं। उनकी शादी उच्चतम न्यायालय के एक वकील मंजुल कुमार के साथ हुई थी। उनका एक बेटा अ©र दो बेटियां हैं।

Tuesday, June 2, 2009

فیصلہ سے پہلے خوداعتمادی ضروری ہے


فیصلہ سے پہلے خوداعتمادی ضروری ہے





کسیبھی ملک کی ترقی و تعمےر اور بقائے امن کے لئے اس کے حکمرانو ںکا باشعور،حاضر دماغ اور فےصلہ کن قوتوں کا حامل ہونا ضروری ہے۔تےزی سے بدلتی دنےا کے مکےنوں نے اب اپنے حکمرانو ںمےں دےگر خوبےوں کے ساتھ ساتھ مندرجہ بالا صفات کی تلاش بھی شروع کردی ہے۔ترقی دنےا کی سب سے اہم ترےن ضرورت ہے اور امن اس کے حصول کی کلےد۔امن کے بغےر ترقی کا تصور ممکن نہےں اور ترقی کے بغےر سربلندی و فراوانی اورکشادگی کوحاصل کرلینا اےک مشکل ترےن امر ہے۔دنےا جانتی ہے کہ امرےکہ کی بش حکومت نے ساری دنےا کو جنگ کی خطرناک تباہی مےں ڈال کر افراتفری مچا دی تھی۔بش نے اپنے دور اقتدار مےں دنےا پر جو جنگ تھوپی تھی اس کے اثرات سے خود امرےکی عوام دہل اٹھے، ان کی معےشتےں تباہ ہوئیں، بازار سردہونے لگے،مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی اور بڑی بڑی کمپنےاں دےوالےہ ہو گئیں۔جس کے نتےجہ مےں لاکھوں افراد بے روزگاری کے کرب سے دوچار ہوئے۔ بڑھتی ہوئی بے روزگاری نے معاشرے مےں اےسے اےسے جرائم کو جنم دےا جس سے امن کی دےوی کی روٹھ جاتی ہے اور معاشرہ اضطراب و بے چےنی کی کےفےت مےں مبتلا ہو جاتاہے۔ظاہر سی بات ہے کہ جب کسی انسان کو جائز طرےقوں سے پےٹ کی آگ بجھانے کے لئے کوئی چےز دستےاب نہ ہو سکے گی تو وہ چھےن کر اپنی بھوک مٹانے کی کوشش کرے گا۔اس وقت جن ترقی ےافتہ ممالک مےں ا س قسم کی صورتحال پائی جاتی ہے،اس کی اہم وجہ بے روزگاری کا ےہی عفرےت ہے جس نے انسان کو اپنی ضرورتےں دوسروں سے چھےن کر پوری کرنے پر مجبور کردےا ہے۔
قابل غور ےہ ہے کہ امرےکہ کی طرح ہمارا عظےم جمہوری ملک ہندوستان بھی ان دنوں انہی حالات کی چپےٹ مےں ہے جس سے اس وقت دنےا کے دےگر ممالک نبردآزما ہےں۔بڑھتے ہوئے جرائم نے عوام کے اطمےنان کو ہڑپ لےا ہے، ہر چہرے پر خوف اور سناٹوں کا راج ہے۔دن دہاڑے کسی کی عفت و عصمت پر ڈاکے ڈال دےنا، کھلے بازار مےں بندوق کی نوک پر دکانوں کی تجورےاں خالی کرالےنا، بےنک ملازمےن کو ےرغمال بنا کر کروڑوں روپے لوٹ لےنا، پھول جےسے بچوں کا اغواکر کے پھروتی کی شکل مےں موٹی موٹی رقم کے مطالبے کرنا اب عام بات بن گئی ہے۔ےہ جرائم آج ہمارے ملک مےں اےک گھن کی طرح پھےلتی جار ہے ہیں، جس سے دےہی آبادی سے زےادہ شہری زندگی دوچار ہو رہی ہے۔
اس قسم کے ناگفتہ بہ حالات نے ملک کو ترقی سے آشنا کرانے ہر شہری کے چہرے پر خوشحالی کی شعاعیں پہنچانے کے خواب کو اےک سنگےن مسئلہ بنا دےا ہے۔اےسا نہےں ہے کہ اسے دور کرنے کی بات کسی کے ذہن و دماغ مےں نہےں ہے۔ملک کا ہر لےڈر ، ہر سربراہ اور رہنما بس ےہی کہتا ہے کہ اس کی سےاسی سرگرمےو ںکا واحد مقصد ملک کو امن کی دولت سے مالا مال کرنا، وطن عزےز کے اےک اےک گھر تک ترقی کے سورج کی روشنی پہنچانا اس کے دل کا ارمان ہے۔مگر سوال ےہ ہے کہ کےا صرف دلوں مےں حسےن خواب سجالےنے سے ملک کے حالات سدھر جائےں گے؟ کےا صرف ذرائع ابلاغ کے ذرےعہ اپنے دل مےں پل رہے منصوبوں کو منظر عام پر لے آنے سے وطن کا ہر شہری ترقی سے مستفےض ہو جائے گا؟اس وقت ملک ہی نہےں بلکہ بےن الاقوامی سطح پر ےہ سوال دنےا کے تمام ممالک کے باشندوں کی زبان پر آنے لگا ہے۔اب انتخابات کے دوران رائے دہندگان اپنی قےادت اور سربراہی کے موزوں شخص کو اس زاوےے سے بھی دےکھنے لگے ہےں کہ وہ جس کے ہاتھ مےں اپنی قےادت و سرداری تھما رہا ہے اس کے اندر معاشرے مےں پھےل رہے جرائم کو فنا کردےنے کی طاقت و قوت ہے بھی ےا نہےں۔ مغربی بنگال، آسام اور آندھرا پردےش جےسی رےاستوں مےں عوام نے اپنی قےادت کے لئے کانگرےس کا انتخاب اسی لئے کےا ہے کہ وہ مدتو ںسے نکسلی دہشت گردوںاور ماﺅنواز حملہ آوروں کے ذرےعہ بخشے گئے زخموں سے چور ہو چکے تھے،ان کی کھےتےاں برباد ہو چکی تھیں، ان کے آشےانے تباہ ہو رہے تھے، ان کے عزےز و اقربا پر بے درےغ مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے تھے۔انہو ںنے برسوں رےاستی حکومتوں کی طرف اپنے تحفظ اور بقا کے لئے بھےک کی کٹوری بڑھائی تھی مگر انہےں وہا ںسے نامرادی اور دھتکار دےنے کے سوا کوئی اےسی چےز ہاتھ نہےں لگی جس سے انہےں ان کے مسائل سے آزادی مل جاتی۔لہذا ےوپی اے کو سوچنا ہوگا کہ اسے اپنے ملک کے تمام حصے اور اس کے باشندوںکی ترقی کے ساتھ ساتھ اس کے تحفظ اور بقا کے لئے کیسی قربانےاں دےنی ہےں۔اگر عوام کو ملک مےں اپنی جڑےں مضبوط کرچکے علاحدگی پسند طبقات ،ماﺅنواز جنگجو اور انتہا پسند نکسلےوں کے چنگل سے آزادی دلانے کی کوشش نہ کی گئی تو ماےوس عوام بہت دنوں تک کانگرےس کا بوجھ اپنے ناتواں کندھوں پر نہےں ڈھو سکےں گے۔آج ماﺅنواز ہی نہےں بلکہ مذہبی شدت پسندی بھی ملک کے بے گناہ شہرےوں کے تحفظ پر ڈاکے ڈال رہی ہےں۔فرقہ پرست طاقتےں امن و امان کو تہہ و بالا کردےنے کی صبح و شام اسکےمےں تےار کررہی ہےں۔ان پر لگام کسنا ماﺅنوازوں کے تشدد پر نکےل ڈالنا،نکسلےوں کی طاقت کو نےست و نابود کر کے عوام کو ان کے مظالم سے رستگاری دلانا بھی ےوپی اے کی ذمہ دارےوں مےں شامل ہے۔ غورطلب بات ےہ ہے کہ ان تشدد پسند جنگجو طاقتوں کے وجود کے ساتھ ملک کا تحفظ کبھی بھی پائےدار قرار نہےں دےا جاسکتا ،مگر ان کے تشدد کا خاتمہ کرکے ملک کو اےک سےکولر حکومت اور انسانےت نواز ماحول فراہم کرنے کی راہوں مےں اتنی رکاوٹےں حائل ہےں کہ بڑے سے دل گردے کاکام ہے۔ اسے دور کرنے کے لئے صرف دلی تمنائےں اور آرزوئےں کبھی کارآمد ثابت نہےں ہو سکتیں۔مذہبی جنون کا قلع قمع کرنے، نکسلی دہشت گردوں کے پر کترنے اور ماﺅنوازوں کے ظلم و جبروت کا صفاےا کرنے کے لئے قائدےن کا باشعور ہونے کے ساتھ ساتھ معتدل اور مضبوط قوت ارادی کا حامل ہونا بھی ضروری ہے۔اتنا ہی نہےں بلکہ ملک کی سسکتی بلکتی انسانےت کوان خوں آشام وحشےوں کے چنگل سے بچانے کے لئے فےصلہ کن کرداروں سے متصف قےادت کا وجود بھی نہاےت ضروری ہے۔مذکورہ بالا شدت پرداز طاقتوں سے مقابلہ کے لئے زور آزمائی کا فےصلہ بھی مناسب نہےں ہوگا بلکہ اس کے لئے اس تےز طرار دماغ کے استعمال کی ضرورت ہے جو اپنی فراست و بصےرت سے اےسا لائحہ عمل تےار کرے جو امن مخالف طاقتوں کو آسانی سے زےرکرسکیں ۔ماضی قرےب مےں امرےکہ کے نو منتخب صدر بارک حسےن اوبامہ نے اپنے منصوبوں اور تجاوےز کے ذرےعہ دنےا کے قائدےن کو ےہ سبق دےنے کی کوشش کی ہے کہ تشدد مٹانے کے لئے مصالحت اور گفت و شنےد پر مشتمل پروگرام ہی ہمےں امن و سکون سے سرفراز کرسکتے ہےں۔مگر اس راہ مےں حائل کیل کانٹوں کو اکھاڑنے کے لئے کبھی کبھی طاقت کے استعمال سے بھی گرےز نہےں کےا جاسکتاجےسا کہ مدتوں سے اےل ٹی ٹی ای کی دہشت گردی سے جل رہے سری لنکا مےں راج پکشے حکومت نے اپنی مضبوط قوت ارادی کے ذرےعہ اےل ٹی ٹی ای دہشت گرد تنظےم کا خاتمہ کر کے بتاےا ہے۔
ہمارے ملک کا المےہ ےہ ہے کہ ہر شدت پسند تنظےم کو کسی نہ کسی سےاسی محاذ سے حماےت اور تعاون ملتا رہتا ہے۔چنانچہ کروناندھی کا اےل ٹی ٹی ای کی گوشمالی پر چراغ پا ہونا، ماﺅنوازوں کے خلاف طاقت کے استعمال پر باےاں محاذ جماعتوںکی ناراضگی ہمےں اسی حقےقت کا پتہ دےتی ہےں کہ ان شدت پسند طاقتوں کو کچلنے کے لئے مضبوط قوت ارادی کے ساتھ فہم و فراست اور صلح پسند فکروں پر مشتمل سےاسی قےادت کی ضرورت ہے اور سواسوکروڑ عوام موجودہ حکومت سے اسی قسم کی توقعات رکھتے ہےںکہ وہ طاقت و مصالحت دونوںطرح کے منصوبوں کے ذرےعہ ملک کے عوام کو تحفظ و سلامتی اور ترقی سے آہنگ معاشرہ دےنے کی کوشش کرے گی۔qqq
موبائل:9868093558

Monday, June 1, 2009

इसलिए जताती हैं वे सेक्स में अरुचि...


इसलिए जताती हैं वे सेक्स में अरुचि...
लंदन. महिलाओं में सेक्स की इच्छाओं में कमी आ जाने के पीछे एक नया पेंच निकलकर सामने आया है। एक शोध में पाया गया है कि समय से पहले मेनोपॉज की वजह से लगभग महिलाओं में सेक्स की चाहत कम पड़ जाती है।इस समस्या से समाधान के लिए डॉक्टरों ने इंटरिंसा नाम के अनोखे नुस्खे की खोज की है। महिलाओं में सेक्स समस्या को दूर करने में यह काफी मददगार साबित होगा।दवा बनाने वाली कंपनी प्रॉक्टर एंड गैम्बल का कहना है कि इस दवा को वायग्रा नहीं समझना चाहिए लेकिन इसको (इंटरिंसा) महिलाओं के पेट पर बांधने के बाद काफी कम मात्रा में सेक्स हार्मोन टेस्टोस्टेरॉन शरीर के अंदर जाता है जिससे सेक्स की चाहत अपने बढ़ जाती। डॉक्टरों का मानना है कि यह सेक्स की चाहत में तत्काल प्रभाव से इजाफा नहीं करता है लेकिन इससे कुछ हद तक तो जरूर फायदा महिलाएं प्राप्त कर सकती हैं।
क्या कहना है डॉक्टरों का..
महिलाओं पर किए गए शोध पर अमेरिका के डेजी नेटवर्क के डॉक्टर ने बताया कि समय से पहले मोनोपॉज की समस्या का शिकार हो रही महिलाओं के लिए यह नुस्खा काफी कारगर साबित हो सकता है।डॉक्टर के मुताबिक यह सेक्स की इच्छा में इजाफा तो करता ही है साथ ही उन्हें अन्य तरह की परेशानियों से भी छुटकारा दिलाएगी।वहीं रॉयल कॉलेज के डॉक्टर जिम केनेडी का कहना है कि माहौल के चलते भी महिलाओं में सेक्स की इच्छा में कमी आ जाती है। यह एक मनोवैज्ञानिक कारण है। महिलाओं को सही माहौल और वातावरण को भी ध्यान देना चाहिए।

उस समय सबसे उत्तेजित रहती हैं महिलाएं...


उस समय सबसे उत्तेजित रहती हैं महिलाएं...
लंदन. अगर आप अपने पार्टनर के साथ सेक्स का भरपूर आनंद उठाना चाहते हैं तो कुछ महत्वपूर्ण जानकारियां आपके पास होना बेहद जरूरी है। जर्मनी के यूनिवर्सिटी ऑफ बेम्बर्गन के शोधकर्ताओं ने सैकड़ो महिलाओं पर किए गए एक रिसर्च में पाया कि किस समय महिलाओं के साथ सेक्स करने में ज्यादा आनंद की अनुभूति होती है।सेक्सोलोजिस्टों के मुताबिक मासिक पूरा हो जाने के पांच से सात दिन तक महिलाएं सेक्स के मूड में ज्यादा होती हैं क्योंकि मासिक पिरियड पूरा होने के बाद सेक्स के लिए जवाबदार गिने जाने वाले हार्मोस सक्रिय हो जाते हैं। यूनिवर्सिटी के शोधकर्ताओं ने युवतियों के ब्रेइन वेब्ज पर काफी रिसर्च किया, जिसमें पाया गया कि मासिक पिरियड के पांच से सात दिन में सेक्स करना ज्यादा ही आनंद की अनुभूति कराता है साथ ही इस लाभ कम से कम 12 दिनों तक रहता है।वर्जीनिया यूनिवर्सिटी के साइक्रियाट्रिक मेडिसिन के प्रोफेसर क्लेटन ने कहा कि मासिक पिरियड के बाद महिलाओं में सेक्स की तीव्र इच्छा जागृत होना स्वाभाविक है, क्योंकि इन दिनों में गर्भधारण की संभावना बढ़ जाती है।इस सर्वे में 1000 युवाओं और महिलाओं को शामिल किया गया, जिसमें हर एक महिला ने यह बताया कि मासिक पीरियड के पांच से सात दिनों में वे भरपूर सेक्स का आनंद चाहती हैं। इस समय में किए गए सेक्स में जो आनंद आता है व अन्य दिनों के मुकाबले कहीं अधिक होती है।इन सबके उपरांत सर्वे में यह भी पाया गया कि महिलाओं के साथ उनके सेक्स पार्टनर का इन दिनों के बीच किया जाने वाला सेक्स वैवाहिक संबंधों को सुखी बनाता है और भविष्य में दोनों के बीच सेक्स को लेकर दूरियां कभी नहीं आती। लेकिन अधिकतर शोधकर्ताओं का मानना है कि महिलाओं को इस पीरियड में अपने सेक्स पार्टनर को सहकार देना जरूरी है। अगर इन दिनों पार्टनर को सहकार न दे तो महिलाओं में उनकी सेक्स की भूख कभी नहीं मिटाया जा सकता है। परिणाम स्वरूप सेक्स लाइफ में तनाव आ जाता है।