Monday, November 29, 2010

اب کانگریس کوئی آئی کالی دولت کی یاد

یہ خبر یقینا ملک کے لیے باعث مسرت ہوگی کہ مرکزی حکومت ملک میں کالے خزانوں کا پتہ لگا کر اس کے مالکان کی گردن تک پہنچنے کاجرا ¿ت مندانہ عزم کیا ہے۔اپنے اس مشن کا اظہار کرتے ہوئے وزیر خزانہ پرنب ’دا‘ نے کہا ہے کہ حکومت کالی دولت کی تحقیقات کے لیے تیاری مکمل کرچکی ہے۔اس سلسلے میں ہم نے قومی اداروں سے تجاویز مانگی ہے ۔ وزیر خزانہ نے کم ازکم چار قومی اداروں سے کہا ہے کہ وہ ملک میں کالی دولت کے تخمینے اور اُن کی تفصیلات کا پتہ لگانے کے بارے میں اپنی آرا پیش کریں۔وزارت خزانہ کے ایک سینئر افسر نے بتایا ہے کہ این آئی پی ایف پی ، نیشنل اسٹیٹس ٹیکل انسٹی ٹیوٹ، نیشنل کاو ¿نسل فار ااپلائڈ اکانومکس ریسرچ اور این آئی ایف ایم جیسے بڑے اداروں کے آخر تک اپنے تجاویز سونپنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔افسر کا کہنا ہے کہ اس قسم کی تحقیقات اور چھان بین میں کم ازکم ایک سال کا وقت صرف ہوسکتا ہے۔ اس تحقیقاتی پروگرام میں سی بی ڈی ٹی ، سی بی ای سی اور ڈائریکٹوریٹ آف ایکسچینج اور دیگر اقتصادی معاملوں کے محکمے ہندوستانی ایکسپورٹروں کی تنظیم فیو کے افسران کی بھی مدد لی جائے گی۔اس سے قبل کہ اس پر کوئی تبصرہ کیا جائے کہ آخر حکومت کو برسوں سے ہونے والی فضیحت کے بعد آج اس سیاہ دولت کی یاد کیسے آگئی جس نے ہمارے ملک کے اقتصادی نظام کو تتر بتر کرکے رکھا ہوا ہے۔ہم مناسب یہ سمجھتے ہیں کہ پہلے اس کی وضاحت کردی جائے کہ’ بلیک منی‘ یا ’سیاہ دولت ‘ کا مطلب کیا ہے۔
سیاہ دولت اُسے کہتے ہیں جس کا صنعتی اداروں نے ٹیکس ادانہ کیا ہو اور محکمہ محصولات کی نگاہوں سے چھپاکر اُسے اپنے خزانہ خاص میں محفوظ کردیاگیاہو۔اِس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ کسی بھی کمپنی یا صنعت کار اور اسی طرح اُن تمام ہندوستانیوں کی وہ رقم جس کے ٹیکس کی ادائیگی اُ س نے سرکاری خزانے میں کردی ہے ، کالی دولت نہیں کہی جاسکتی۔عموماً حکومت مرکز یا ریاستوںکو وہاں کاروبار کررہے سرمایہ داروں و صنعت کاروں اور اسی طرح اُن تمام لوگوں کی مالیات کے متعلق معلومات رہتی ہے جس کا کاغذ صاف ستھرا اور ٹیکس کی ادائیگی پابندی سے کی جارہی ہو۔اس تفصیل سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اُن تمام ذرائع سے آنے والی پونجی اور آمدنی سیاہ دولت کی شرح میںڈالی جائے گی۔ جس کی آمدنی کے ذرائع واضح نہ ہو ں اور حکومت کی آنکھوں میں دھول جھونک کر کاروباری غیر قانونی طریقے سے اپنے خزانے میں اضافہ کررہا ہو۔تاریخ بتاتی ہے کہ ملک کی آزادی کے وقت یہ سیاہ دولت صرف صنعت کاروں کے پاس ہوا کرتی تھی مگر وطن عزیز میں جمہوریت نافذ ہوتے ہی اُس کے ذرائع اور سورسز میں اضافے ہونے لگے چنانچہ صنعت کاروںنے سیاہ دولت کی ذخیرہ اندوزی کی روایت تو پہلے سے قائم کرہی رکھی تھی قانون وانتظام کے نفاذ کے ساتھ سرکاری اہلکار اور افسران بھی ان کے گناہوں پر پردہ ڈالنے کے لیے رشوت کے طورپر اپنی جیبیں گرم کرتے رہے جس کا اندازہ لگانا ناممکن نہیں تو ایک مشکل امرضرور ہے۔ حکومت کو سیاہ دولت کا پتہ لگانے کے لیے اپنے اُن تمام افسران کے بینک بیلنس کے علاوہ ان کی عیش گاہوں میں پوشیدہ طور سے بنائے گئے تہہ خانے اور بستر کی چادر تک اٹھانی پڑ سکتی ہے تاکہ یہ پتہ لگایا جاسکے کہ ملک سے اپنی خدمات اور فرض کی ادائیگی پر وافر مقدار میں معاوضہ وصول کرنے والے یہ سرکاری ملازمین رشوت کو اضافی کمائی کا ذریعہ بناکر ملک کو نقصان پہنچانے اور خزانے کا دیوالیہ نکالنے کے ناپاک مشن میں کیسے شامل ہوگئے۔ظاہر سی بات ہے کہ ان حقائق تک پہنچنے کے لیے صرف برسر ملازمت سرکاری افسران اور موجودہ وقت کے صنعت کاروں کے درمیان ان کے مضبوط رشتوں کے علاوہ ماضی کی اُن دیمک خوردہ دستاویزوں کو بھی اُلٹنا پڑیگا جو سبکدوش ملازمین نے سیٹھوں ، ساہوکاروں سے رشوت وصول کر اپنے خزانے میں اضافہ کرتے رہے اور وقت پورا ہوتے ہی خاموشی سے کرسی سے اتر گئے۔ جب تک ہمارے تحقیقات کی ابتدا آزادی کے بعد مالیاتی محکموں میں تعینات اُن سرکاری افسروں سے نہیں کی جاتی جنہوں نے ماضی میں یہ روایت قائم کی تھی اور ان کی دیکھا دیکھی بعد میں اس کاروان میں شامل ہونے والے لوگ اُنہیں کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے جس تھالی میں کھائے اُسی میں چھید کرتے رہے کی مصداق اس وقت تک حکومت کے اِ س عزم کو ہم سعی لاحاصل تو کہہ سکتے ہیں ، کوئی نتیجہ بخش پروگرام نہیں کہہ سکتے۔چونکہ اس سیاہ دولت پر زیادہ تر اجارہ داری اُن لوگوں کی جنہیں ملک میں سرمایہ دار گھرانوں کے طور پر جانا جاتا ہے اور ان کے اشاروں پر ہی حکومت کے اقتصادی نظام میں تبدیلی اور تجدید کی جاتی ہے۔ یعنی جمہوریت میں حکومتیں اکثر وبیشتر سرمایہ دار گھرانوں کی رکھیل بن جاتی ہیں جہاں اُن سرمایہ داروں کے نقصان کی صورت میں کبھی کبھی ضابطے اور قانون کی دھجیاں اڑانے میں بھی ہمارے سیاسی لیڈروںکے ضمیر پر بوجھ محسوس نہیں ہوتا ۔
چونکہ ان سرمایہ داروں کی کالی دولت چور دروازے سے خود سیاسی لیڈروں اورسرکاری افسروں کی خوابگاہوں تک پہنچتی رہتی ہے لہٰذا ان کا گناہ پکڑنے سے پہلے کوئی بھی سرکاری ملازم یہ سوبار سوچتا ہے کہ اگر ہم نے اُس سرمایہ دار کے گریبان میں ہاتھ ڈالا تو وہ پھوٹ جائے گا اور دنیا کو یہ چیخ چیخ کر بتادے گا کہ اُس نے سیاہ رات میں نوٹوں کی گرم تھیلی اُن کی عیش گاہوں تک مسلسل پہنچایا ہے لہٰذا افسر یا سیاسی لیڈران اِ س قسم کے اقدامات سے قبل سومرتبہ اپنے دائیں بائیں دیکھے گا اور بالآخر خود پکڑے جانے کا خوف ملک کے مفاد اور غریبوں کے فلاح کے اس عمل سے اُسے روک دے گا۔اس سمت میں یقینا وہی افسر ان اور سیاسی لیڈروں کی جرا ¿تِ رندانہ کامیاب ہوسکتی ہے جن کے دامن رشوت کی آلائش سے پاک ہو ں اور جنہوںنے سرمایہ داروںکا درباری بن کر چند کوڑی کے لیے خود کو کسی کا غلام بنانا پسند نہیں کیا ہو۔پرنب ’دا‘ نے اگر یہ ہمت کی ہے تو یہ یقینا اُس کی ستائش کی جانی چاہیے اور ہمارے ملک کے اُن سرفروش سیاسی خادموں اور سرکاری افسران کو حمایت میں کود جانا چاہیے ۔مگر چونکہ اکثرو بیشتر سیاسی جماعتوںمیں ایک ہی تھیلی کے بند سانس لیتے ہیں لہٰذا یہ کہنا مشکل ہے کہ پرنب دا کا یہ منصوبہ کامیابی سے ہمکنار ہوگا اور ملک کو لاکھوں کروڑ کا نقصان پہنچانے والے خوش پوش سرمایہ دار اور صنعت کار دھر لیے جائینگے۔ اُن سے سیاہ دولت چھین کر سرکاری خزانے میں جمع کرلی جائے گی۔جب تک ایسے بے داغ سیاسی قائدین کا تعاون اس منصوبے کو حاصل نہیں ہوگا اُس وقت تک اس قسم کے منصوبے کو خواب تو کہہ سکتے ہیں حقیقت قطعاً نہیں۔
Editorial,29-11-2010

ہم چپ ہیں خوابیدہ نہیں!

20اکتوبر 2010سے شروع ہونے والے بہار اسمبلی انتخابات کے پانچ مراحل خدا خدا کرکے پرامن اور خوشگوار ماحول میں اختتام پذیر ہوچکے ہیں، جبکہ چھٹا اور آخری مرحلہ چھٹھ تقاریب کے اختتام کے ساتھ ہی دستک دینے لگا ہے۔ریاست میں سرگرم سیاسی جماعتوں کے باوقار سربراہان آج پھلواری شریف طیرانگاہ سے اپنے اپنے مقررہ اہداف کے مطابق گرم پرواز ہوچکے ہیں۔ یقینا سیاسی معرکہ آرائی میں ہرلیڈر چاہے اُس کا تعلق حزب اختلاف سے ہو یا برسرِ اقتدار جماعت کے خیمے میں رہ کروہ حکومت کے ذریعے ملنے والے عیش وعشرت سے لطف اندوز ہوئے ہوں ، سبھی انتخابی حلقوں میں جاکر رائے دہندگان کو یہ باور کرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑینگے کہ ریاست کے اقتدار کی کرسی اُن کے توانا جسم کے مطابق بالکل فٹ بیٹھتی ہے۔ہرکوئی یہ دعویٰ کررہا ہے کہ بہار اسمبلی کی کرسی پر اُسے براجمان کردیا جائے اِس منصب پر فائز ہوتے ہی وہ ریاست کے تمام خشک چہروں پر ترقی کی چمک لانے میں سردھڑ کی بازی لگا دینگے۔برسرِ اقتدار این ڈی اے کے لیڈران یہ دعوے کررہے ہیں کہ تقریباً پندرہ برسوں تک غنڈہ ازم اور غیر سماجی عناصرکی مٹھیوں میںجکڑ کر تباہ ہوچکے بہار کو انہوں نے نئی توانائی بخشی ہے۔انہوں نے گذشتہ پانچ سالہ دورِ اقتدار میں ریاست میں مجرمانہ سرگرمیوں پر قدغن لگانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قانون وانتظام کی بالادستی کا ہمہمہ پوری ریاست میں گونجنے لگا ۔ کل جرائم پیشے قانون کو ٹھینگا دِکھاتے تھے آج وہی جرائم پیشہ عناصر قانون کے خوف سے منہ چھپائے پھر رہے ہیں۔وزیر اعلیٰ نتیش کمار اگر اپنی انتخابی تقاریر میں اِس قسم کے دعوے کررہے ہیں تو اِ س میں کہیں نہ کہیں اُس حقیقت کا اعتراف ضرور ہے جو انہوں نے بہار کو پٹری پر لانے کے لیے کیا ہے۔ ریاست میں طویل مدت تک حکومت کرنے والی دیگر جماعتوں کے لیڈران اُن کے اِس دعوے کو چاہے جھوٹ کا پلندہ کہیں، مگر عوام کی آنکھیں کھل چکی ہیں ۔ اُنہیں فریب میں رکھ کر کامیابی حاصل کرلینا اب کسی کے لیے بھی ممکن نہیں ہے’ سرخرو ہوتا ہے انساں ٹھوکریں کھانے کے بعد‘ کی مصداق ریاست کے تقریباً نوکروڑ باشندوں نے وہ منظر ضرور دیکھا ہے جب 8بجے شب کے بعد ریاست کے شہروں کی سڑکوں پر غیر سماجی عناصر کا دبدبہ قائم ہوجاتا تھا ۔ والدین اپنے نوجوان سپوتوں کو یہ تاکید کرتے تھے کہ سرِ شام گھر لوٹ آنا ،کہیں ایسا نہ ہو کہ قانون وانتظام کی ابتر حالت کے اِس دور م میں کوئی انہونی گھٹ جائے اور ہمارے بوڑھے اور کمزور کندھے کو تمہارا جنازہ اُٹھانا پڑے۔طویل مدت تک دیگر ریاستوں کے شہروں میں اپنا خون پسینہ ایک کرکے گھر میں انتظار کررہے اپنے بیوی بچوں کے خوردونوش کے لیے پونجی جمع کرکے گاو ¿ں لوٹنے والے یہ اَبھاگے مسافر کب کہاں لوٹ لیے جاتے اِ س کی کوئی ضمانت نہیںتھی۔بطورِ خاص ہم نے دارالحکومت عظیم آباد اور شمالی ہند کے صنعتی شہرمظفرپور کا وہ منظر دیکھا ہے جس کا تصور کرتے ہی کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے کہ کس طرح ٹولوں میں بٹ کر جرائم پیشہ عناصر سرِ شام ہی چوک چوراہوں پر آدھمکتے تھے اور پھر اُن کی نظروں سے کوئی بچ کر اپنی جان اور مال بچا لے جائے یہ کسی سخت جان یا قسمت کے دھنی کے بس کی بات ہی ہوسکتی تھی۔آج حقیقت یہ ہے کہ جرائم کا گراف نیچے آیا ہے ۔ دیر گئے شب میں بھی ہم پٹنہ کی سڑکوں پر ہم خود کو کسی نہ کسی حد تک محفوظ تصور کرتے ہیں۔ اِس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ریاست بہار میں قان وانتظام کی بالادستی قائم ہوئی ہے ۔آنکھوں دیکھی اِ س حقیقت کو جھٹلانا اُسی بہروپئے کا کام ہوسکتا ہے جو مختلف لبادے اور روپ میں لوگوں کے سامنے آکر اُنہیں طرح طرح کی کہانیا ں سنایا کرتا ہے ۔
یقینااُن تمام لیڈران کا ضمیر اُنہیں کچوکے لگاتا ہوگا جب وہ ریاست کی اُن سڑکوں سے گذرتے ہوں گے جن کی ناہمواریاں کل نالوں اور گڈھوں کو مات دیتی تھیں تو اُن کا دل کہیں نہ کہیں اُنہیں ضرور ملامت کرتا ہوگا کہ کیوں سچائی چھپاکر گنہ گار بن رہے ہو۔اِس مرحلے پر شاید یہ سوال آسکتا ہے کہ ریاست میں جرائم کا ارتکاب اب بھی جاری ہے ۔ ابھی حال ہی میں پٹنہ کے وی آئی پی علاقے میں ایک انسپکٹر کو کسی نامعلوم جرائم پیشہ نے گولیوں کا نشانہ بنایا ہے پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ جرائم پر قابو پالیا گیا ہے۔ہم نے یہ قطعاً نہیں کہا کہ ریاست سے جرم اور غنڈہ گردی کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ یہ تو اُس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ ریاست میں بھکمری، غریبی اور خستہ حالی پر سیاست کرنے والے اپنی روٹیاں سینکتے رہیں گے۔مگر حقیقت یہ ہے کہ جرائم میں کمی آئی ہے ۔ آج ریاست میں واضح طور پر تبدیلی محسوس کی جارہی ہے۔یہی وہ چیز ہے جس نے کچھ نہ کرنے والوں کو آج پریشان کررکھا ہے اور طرح طرح کی شعبدہ بازیاں دِکھاکر ریاست کے باشندوں کو فریب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔اب حالات آئینے کی طرح واضح ہوچکے ہیں ،قوم بیدار ہوچکی ہے اور اُس نے پراسرار چپی سادھ رکھی ہے ۔ وہ نہ کسی کی حمایت میں نعرے بازی میں اپنا وقت ضائع کرنا پسند کررہے ہیں اور نہ کسی کو دِھتکار کر یہ واضح کرنے کے حق میں ہیں کہ سیاسی بہروپیوں کو قبل از وقت حقیقت کا پتہ لگ جائے اور وہ حالات کے مطابق بربریت کا ننگا ناچ ناچنے پر اُتارو ہوجائیں۔

سدرشن کی گناہ چھپانے کی ناکام کوشش

عین اس وقت جب مہاراجہ اشوک کی سرزمین شمال مشرقی ہند کے باشندے چھٹھ کے مقدس تیوہار کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ ہر فرد تہوار کو اچھے ڈھنگ اور پرمسرت ماحول میں منانے کی غرض سے بازاروںمیں خریداریاں کررہا تھا ، ہر چہرہ نہایت شادماں اور کھلا کھلا نظر آرہا تھا۔ مگر خوف کی پرچھائیاں ہزار کوششوں کے باوجود ان تمام افراد کے چہروں سے جھلک ہی جاتی تھی،جو امن کو اپنی ترقی اور سربلندی کے کے لیے زندگی کی سب سے اہم ضرور ت تصور کرتے ہیں ۔ بار بار نگاہیں آسمان کی طرف اٹھتی اور بے ساختہ خریداریوں میں مصرف برادران وطن کی زبان پر دُعائیں نکلتی تھیں کہ کسی طرح چھٹھ کا یہ عظیم الشان تہوار پرامن ماحول میں گذر جائے اوراکوئی انہونی ہماری خوشیوں کو ڈس لینے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ ابھی ریاست اترپردیش،بہار اورجھارکھنڈکے امن دوست باشندے یہ دُعائیں کرہی رہے تھے کہ اُدھر اندور میں جمعرات کے روز ملک کی ہندو شدت پسند تنظیم آرایس ایس کے سابق سربراہ کے ، ایس سدرشن نے ٹھہرے ہوئے پانی میں کنکر مار کرپرامن ہندوستان میں کھلبلی اور افر تفری کی صورتحال پیدا کردی ۔ انہوں نے کانگریس پارٹی کی قومی سربراہ مسز سونیا گاندھی پر بہتان تراشیوں کا سابقہ ریکارڈ توڑتے ہوئے کہا کہ محترمہ سی آئی اے کی ایجنٹ ہیں۔ دیدہ دلیری اور بے غیرتی کی انتہا کرتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہا کہ آنجہانی وزیر اعظم اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کی قاتل بھی مسز سونیا ہی ہیں۔ جس وقت سدرشن کی زبان سے ملک کے امن کو انگوٹھا دکھانے والے مذکورہ تشدد انگیز بیان ٹی وی پر نشر کیے جارہے تھے، ہمارے ذہن میں کہیں دو ریہ سوال گونج رہا تھا کہ یہ کیسا قاتل ہے جو اُس چور کی طرح سینہ زوری کرکے اپنے گناہ کو چھپانے کی ناکام کوشش کررہا ہے جس کے کالے کارنامے دنیا کے سامنے چرھتے ہوئے سورج کی طرح واضح ہوچکے ہیں۔ بابائے قوم مہاتما گاندھی کی قاتل تنظیم کا یہ سابق سربراہ نہایت ڈھٹائی سے اپنے گناہ پر پردہ ڈالنے کے لیے ایسا سفید جھوٹ بول رہا تھا جسے سن کر جھوٹ بھی شرمارہا ہوگا۔ہمیں یاد آرہا تھا آج سے تقریباً 65سال قبل کاوہ واقعہ جب 30جنوری 1948کو با بائے قوم مہاتما گاندھی کو شہید کردینے والے گنہگار عوام کے سامنے آکر نہایت ڈھٹائی سے یہ کہہ رہے تھے کہ بابائے قوم کے سینے میں ان کی گولیا پیوست نہیں ہوئی ہیں ۔ مگر دنیا کے تمام افراد نے ان قاتلوں کی باتوں کو سفید جھوٹ قرار دیا تھا، جن کی نگاہوں کے سامنے موہن داس کرم چند گاندھی کی پوری زندگی آئینہ کی طرح موجو دتھی ،جنہوں نے بابائے قوم کے عدم تشدد کی تحریک کو وطن عزیز کی آزادی سے ہم آغوش ہوتے دیکھا تھا۔ انہیں یقین ہوگیا تھا کہ اِس عظیم انسان کے قاتل وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو انگریزوں کی جوتیا چاٹنے کو دنیا میں ترقی اور سربلندی کی معراج سمجھتے ہیں ۔ دنیا نے اس دلیل کے ساتھ بابائے قوم کے قاتلوں کو خاموش ہوجانے کا حکم دیا تھا کہ تمہارے ہی خیمے کا سربراہ قید وبند کی صعوبت سے نجات پانے کے لیے انگریزوں کی غلامی قبول کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہا ہے ۔ تمہارے اولین قائدویر ساورکر کو پس دریائے شور قید سے محض اِس لیے نجات عطا کی گئی تھی کہ وہ ساحل بنگال پراترکر پورے ہندوستا ن میں انگریزوں کی حمایت اور جدو جہد آزادی کے متوالوں کے خلاف تحریکیں چھیڑیں، جن سے ان کے انگریز آقاو ¿ں نے پورٹ بلیئر کی سیلولر جیل سے آزادی کا پروانہ دیتے ہوئے سو بار یہ عہد لیایا تھا کہ وہ ہندوستان لوٹ کرملک کے چپے چپے میں انگریز آقاو ¿ں کی سربلندی کے نغمے سنائے گا۔ وہ ان لوگوں کو سرعام شرمندہ اور رُسو اکرنے کی مکروہ سازشیں رچے گا، جو انگریز کی غلامی میں سانس لینے کو اپنے لیے سب سے بڑی توہین سمجھتے ہیں۔ ہاں! ہمیں کہہ لینے دیجئے کہ انہیں ویر ساور کر کی گود کے پروردہ ناتھو رام گوڈسے کی بندوق سے نکلنے والی آگ نے باپو کے کلیجے کو جلا ڈالا تھا ۔ جن کے سینے میں ایک ترقی یافتہ اور پرامن ہندوستان کا خواب روزانہ پلتا اور جوان ہوتا تھا۔ ایسے فرد کو یقینا ایسے لوگوں کی گولیا ہی نشانہ بناسکتی تھیں جو انگریزوں کی غلامی والے ہندوستان اپنے لیے جنت تصور کرتے ہوں۔
آج ٹھیک اُسی خیمے کا ایک ماﺅف ذہن کھوسڈسربراہ اگر وطن کی آزادی میں قائدانہ رول اداکرنے والی سیاسی جماعت کانگریس کی قومی سربراہ پر یہ کہہ کر اُنگلیاں اُٹھانے کی مجرمانہ جرا ¿ت کررہا ہے تو ہمیں بے چین نہیں ہونا چاہیے، بلکہ ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ اِ ن کے بابائے آدم نے اِ نہیں یہی تعلیم دی ہے کہ خود کو بے قصو ر ثابت کرنے کے لیے سارے زمانے کو قاتل گرداننے میں قطعاً گریز نہ کیاکرو۔دنیا تمہاری طرف کبھی بھی انگلی اٹھانے میں کامیاب نہیں ہوگی۔ کے ایس سدرشن کا یہ بیان یقینا اُسی گناہ کو چھپانے کی ایک چال ہے جس میں آر ایس ایس کی کئی گنہ گار گردنیں پھنس چکی ہیں۔مکہ مسجد میں خون کی تاریخ رقم کرنے والوں نے الزام چندبے گناہ مسلم نوجوانوں پر رکھ کر یہ تصور کرلیا تھا کہ دنیا کی کوئی بھی طاقت انہیں کیفرکردار تک پہنچانے میں کامیا ب نہیںہوسکے گی۔ شاید انہیں یقین نہیں رہا ہوگا کہ مظلو،موں کی آہ عرشِ خداوندی کو ہلا دیتی ہے۔ بقول سعدی ’مظلوم کی آہ سمند ر میں آگ لگادیتی ہے۔‘ یقینا بے گناہ مسلم نوجوانوں کے آنسو عذاب کی شکل میں آرایس ایس پر برسنے لگے اورمسلسل دوچاربرسوںسے ملک میںانجام دئے جانے والی دہشت گردانہ کارروائےوںمیںیکے بعد دیگرے ان کے کئی قدآورکہے جانے والے لیڈروںکے اصلی چہرے دنیاکے سامنے آچکے ہیںمالے دھماکہ کی ملزمہ سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر اوراس کاماسٹرمائنڈرام جی سمیت آرایس ایس کی تربیت میںجوان ہونے والے متعدد فوجی اہلکاروںکی کالی کرتوت کاکچاچٹھابے نقاب ہوچکاہے۔ ابھی تفتیشی ایجنسیاں چند گردنوں تک ہی پہنچی تھیں کہ سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی کے مزار پر خون کی ہولی کھیلنے والوں کی گردنیں بھی ہاتھوں میں آگئیں اور ایسا محسوس کیا جانے لگا کہ اِن کی زبانوں سے کچھ ایسے چونکادینے والے حقائق سامنے آجائیں گے جس سے دنیا والوں پر اِندور میں بیٹھ کر پورے ملک کو تباہ کرنے والوں کے حیوانیت کوشرمسارکردینے والے ناپاک منصوبوںکاپردہ فاش ہو جائے گا۔ شاید سدرشن کو اپنی گردن کے اِرد گرد بھی قانون کی رسی کستی ہوئی محسوس ہوئی ہوگی۔ اِ سی خوف کو دُور کرنے اور تفتیشی ایجنسیوں کا ذہن منتشر کرنے کے لیے انہوں نے ایسا بیان دیا ہے جسے گمراہ کن کہنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔

Saturday, November 27, 2010

اقلیتوں کے ساتھ پھرمرکز نے کیا دھوکا

آزادی کے بعد ملک میں مسلمانوںکوسب سے زیادہ استحصال کا شکار بنایا گیا اور اُن کی ترقی و فروغ کی راہوں میں جوناقابل تسخیر رُکاوٹیں کھڑی کی گئیں اُسے ساری دنیا جانتی ہے۔ملک میں آزادی کے بعد جس جماعت کو سب سے زیادہ اقتدار سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا وہ کانگریس پارٹی ہے جس کے بانیوں میں مسلمانوں کی کئی قدآور ہستیاں شامل ہیں۔مسلمانوںنے جدو جہد آزادی میں وطن عزیز کو کامیاب وکامران کرنے کے لیے کانگریس پارٹی کا نہایت اتحاد وقوت سے ساتھ دیا تھا۔ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اگر کانگریس کی بنیاد میںمسلمانوں کا خونِ جگر شامل نہیں ہوتا تو شاید جواہر لال نہرو کے سرپر آزادی کے بعد وزارت عظمیٰ کا تاج ایک خواب ہی بن کر رہ جاتا۔بلکہ جدو جہد آزادی کے لیے قربانیاں دینے والے بابائے قوم مہاتما گاندھی کی عدم تشدد تحریک بھی اپنے اُس مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیںہوپاتی جس کے لیے موہن داس کرم چند گاندھی نے یورپ کی شاہانہ زندگی ترک کردی تھی ۔یہ کہنے میںکوئی خوف نہیںہونا چاہیے کہ موہن داس کرم چند گاندھی کو بابائے قوم کا منصب بھی مسلمانوں کی قربانیوں کے طفیل میںملا ہے۔ شہید اشفاق اللہ خان ،علی برادران، مولانا ابوالکلام آزاد ، مولانا حسرت موہانی اور اُن سرفروشوں کے آخری منصب بردار مولانا حسین احمد مدنی یہ ہمارے بزرگوں کی وہ طویل فہرست ہے جن کی قربانیوں کو فراموش کرکے کانگریس اپنا وجودبھی باقی نہیں رکھ سکتی۔یہ ہماری مختصر تاریخ ہے کہ ہم نے کانگریس پارٹی کی بقا اور ترقی کے لیے ہر محاذ پر آگے بڑھ کر قربانیاںدی ہیں مگر جب بھی ہماری طرف سے کوئی مناسب اور لازمی مطالبہ کانگریس کے سامنے رکھا گیا اُس نے نہ صرف یہ کہ نہایت بے دردی سے دھتکار دیا بلکہ حقارت کے ساتھ ہمارے مطالبوں کو پیروں تلے روندنے کی سازش کی گئی۔
یہ کہناغیر مناسب نہیںہوگا کہ کانگریس نے صرف وعدوں اور خوف کی نفسیات میںمبتلا کرکے کسی لومٹری کی طرح ہمارے مستقبل کو تباہ کیا۔اس کے برعکس اشراف کو ہر قسم کی آزادی اور سہولتیں فراہم کی گئیں۔ اگر اعلیٰ طبقات کو ہم ایک پلڑے میں رکھ کر اقلیتوں سے موازنہ کریں تو یہ اندازہ باآسانی لگاسکتے ہیں کہ ہمارے ووٹوں کے مقابلے میں اعلیٰ طبقات کی حیثیت آٹے میں نمک برابر بھی نہیں ہے، اِس کے باوجود کانگریس کے کشکول میں اُنہیں دینے کے لیے سب کچھ موجود ہے۔جبکہ مسلمانوں کے جائز حقوق بھی پورے کرنے کے لیے اِس جماعت نے کبھی سخاوت کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔المیہ تو یہ ہے کہ ہم سے ہماری وہ چیزیں بھی چھین لی گئیں جسے خود ہم نے اپنے ہاتھوں سے تعمیر کیا تھا۔نہ تو اُس کی ایک اینٹ میں کانگریس کا کوئی حصہ شامل ہے اور نہ کبھی اُس نے ان اداروںکی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لیے دیانتداری کا مظاہرہ کیا ہے۔
محسن قوم سرسید احمد خان کے خون سے تعمیر علی گڈھ مسلم یونیورسیٹی وطن کی آزادی کے ساتھ ہی ہم سے چھین لی گئی۔سابق وزیر اعظم آنجہانی اندرا گاندھی نے اقلیتی کردار عطا کرنے کا سبز باغ دکھا کر ہمارے ووٹوں پر کامیابی کا سہرا گلے میں ڈالتی رہیں۔مگر ہمیں کیا ملا؟ ہماری وفا داری کے صلہ میں اپنے ہاتھوں سے تعمیر کیے گئے تعلیمی ادارے کواقلیتی کردارکے حق سے ہمیشہ کے لیے محرومی۔گذشتہ چند برسوں سے کانگریس کی کالی نظر جامعہ ملیہ اسلامیہ پرلگی ہوئی ہے۔اوبی سی کوٹا نافذ کرنے کے لیے جامعہ انتظامیہ پر مسلسل دباو ¿ ڈالا جاتا رہا ہے۔جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے ہاتھوں سے قائم کیا گیا یہ عظیم الشان تعلیمی ادارہ ہاں نا کی کشمکش میں اپنا وجود باقی رکھنے کی جنگ لڑ رہا ہے۔ ایک مرتبہ پھر کانگریس نے ہمارے اُسی زخم کو کھرچنے کی کوشش کی ہے، جس کی ٹیسیں شاید ہماری کئی نسلیں یاد رکھیں گی۔اطلاعات یہ ہیں کہ مرکزی وزیر برائے فروغ انسانی وسائل کپل سبل نے اعلان کیا ہے کہ جامعہ میں آئندہ تین برسوں کے لیے اوبی سی کوٹا کے نفاذ کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے۔ اِس بیان پر کوئی تبصرہ کرنے سے پہلے کپل سبل سے یہ سوال پوچھنے کا حق ہر مسلمان رکھتا ہے کہ جب آپ نے او بی سی کوٹا کے عدم نفاذ کاحکم دے دیا ہے تو کیا آپ نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ جامعہ کی وہ گرانٹ اُسے واپس لوٹا دی جائے گی،جو مسلسل کئی برس سے مذکورہ وزارت کے پاس اس شرط کے ساتھ روک رکھی گئی ہے کہ جامعہ پہلے اوبی سی کوٹا نافذ کرے پھر گرانٹ کے حصول کا مطالبہ رکھے۔اب سوال یہ ہے کہ کوٹا کے عدم نفاذ کا حکم تو آپ نے خود دیا ہے، لہٰذا گرانٹ کی ادائیگی کااعلان بھی ساتھ ہی ہونا چاہیے۔حق تو یہ تھا کہ تعلیمی میدان میںمنصوبہ بند طریقے سے پچھاڑ دی گئی اقلیت کے ساتھ انصاف کیا جاتا اور ان کا اپنا تعمیرکیا ہوا ادارہ بلا چون وچرا حوالے کردیا جاتا۔یعنی جامعہ کو اقلیتی کردار دے کر کانگریس یہ ثابت کرسکتی تھی کہ اُس کا سیکولرزم مساوات کے اُسی اصول پر قائم ہے جس کے زبانی دعوے کرکے پارٹی نے ہمیشہ مسلمانوں کے ووٹ حاصل کیے ہیں۔مگر اس کے برخلاف اقلیتی کردار کی بحالی کا تذکرہ نہ کرکے اوبی سی کوٹا کے نفاذ کو چند برس کیلئے ٹال دینا کیا اُسی منافقانہ پالیسی کا حصہ نہیں ہے ، جس کے تحت آزادی کے بعد سے مسلسل کانگریس پارٹی مسلمانوں کو انگوٹھا دکھارہی ہے۔
Editorial 27-11-2010

Friday, November 26, 2010

مسلسل پسپاہورہاہے نکسلی تشدد

سرخ دہشت گردی یا انسانیت کو مساوی حقوق دلانے کےلئے کی جانے والی جدوجہد میںمصروف تنظیم جسے عرف عام میں ماﺅنواز یا نکسلی کے نام سے جانا جاتا ہے،حالیہ دنوںمیںاس تنظیم کے ذریعہ انجام دئے جانے والے دہشت گردانہ واقعات چیخ چیخ کریہ بتارہے ہیںکہ اس تنظیم میںشامل بندوق برداروںکامشن وہ نہیں ہے جس کایہ لوگ برملا نعرہ لگارہے ہیں۔ اس تنظیم کے ذریعہ اٹھائے جانے والے تشدد آمیز حملے کسی بھی طور پر انسانیت کے لئے مفید قرار نہیں دئے جا سکتے۔ اگر تشدد کے راستے سے ملک کے ان حصوں میںترقی کاسورج نمودارہوجاتاجہاں سب سے زیادہ پسماندہ اور مفلوک الحال ہندوستانی رہتے بستے ہیں اور جن کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ سیاسی قائدین اور ہماری حکومتیں براہ راست ان کا استحصال کرتی ہیںتویقینا یہ کہاجاسکتاتھاکہ ماﺅنوازتوپ گولے مفیدمقاصدمیںکام آرہے ہیں۔ ان دوردرازکے جنگلوںاوروادیوںمیںآبادہندوستانیوںکی خوشحالی یا فلاح کے لئے مرکزی یا ریاستی سطح پرمنظور کئے جانے والے منصوبوں کوان تک پہنچنے نہیں دیا جاتا اور اوپر ہی اوپر سفید پوش بھیڑئے انہیں اپنی ہوس کا شکار بنا لیتے ہیںلہذاان کی حق تلفیوںکے خلاف ہرقسم کی جدوجہدجائزہے اورجب تک ان غریبوں اور دبے کچلے ہندوستانیوں کے حقوق کی بازیابی کے لئے جارحانہ اور پرتشدد راستے اختیار نہیں کئے جاتے اس وقت تک کسی بھی غریب کو ان کا وہ حصہ نہیں ملے گا جو حکومت نے اپنے منصوبوںمیں مقرر کر رکھا ہے مگرنکسلی شدت پسندوںکی بے رحم واداتیںکچھ اور ہی داستان سناتی ہیں۔اگرچہ اپنی خونریز سرگرمیوں اور دہشت گردانہ حملوں کو جواز بخشنے کے لئے سرخ تشدد پسندوں کی بندوق بردار فوج برملا یہ دعویٰ کرتی رہتی ہے کہ ان کا جھگڑا براہ راست حکومت سے ہے اور پولس انتظامیہ چونکہ انہیں کسی بھی قسم کی تخریبی کارروائیوں اور خوں آسام وارداتوں کو انجام دینے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والے ملک کی سلامتی پر تعینات ان تمام سپاہیوں سے ہے جنہیں وطن عزیز کو پرامن اور قانون و انتظام کی بالادستی قائم رکھنے کے فرض پر مقرر کیا گیا ہے۔ حالانکہ نکسلی شدد پسندوں کا یہ دعویٰ گذشتہ چند برسوں میں انجام دی جانے والی کارروائیوں کے بعد جن کا نشانہ براہ راست ملک کے نہتے عوام بنے ہیں بالکل بے بنیاد اور نامعقول سا لگتا ہے۔جب ہم نکسل شددپسندوں کے ذریعہ انجام دی جانے والی ان تمام وارداتوں پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ اندازہ ہوتاہے کہ سفاکیت اور خونریزی کا بازار گرم کرنے والے یہ انتہا پسند بزعم خویش چاہے ہزار دعوی کرےں کہ انہوں نے غریبوں کی فلاح اور دبے کچلوں کی حمایت میں مجبوراً اسلحہ اٹھایا ہے۔مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کے ہر حملے اور پرتشدد سرگرمیوں سے نقصان براہ راست غریبوں بدحالوں اور ان قابل رحم ہند و ستا نیوں کا ہی ہوتا ہے جن کی زندگی میں ترقی کی چمک دیکھنا اور خوشحال انسان کی طرح جینے کاحق فرہم کرنا شاید پل بھر کےلئے انسان نما ان تمام بھیڑیوں کو گوارہ نہیں ہے جو غریبوں کے نام پر معرکہ آرائی کرتے ہیں اور غریبوں کی فلاح کا راگ الاپ کر اپنی سیاسی دکانیں کھولے بیٹھے ہیں۔ ساری دنیا کھلی آنکھوں سے اس منظر کو دیکھ رہی ہے کہ کس طرح غریبوں اور پسماندہ طبقات کی بھلائی کی باتیں کرنے والے تمام لیڈران اور اسلحہ بردار فوجیں دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہیں۔ جب کہ جن غریبوں کی بدحالی پر یہ مظاہرے ،احتجاج بازاراورخوںریزیوں کے بازار لگائے جاتے ہیں۔ ان کی حالت زار میں کوئی تبدیلی کہیں بھی محسوس نہیں ہوتی۔ البتہ ان کی اذیت ناک حالت پر بندوق اٹھانے اور اسی طرح سیاسی چوپال لگانے والے ترقی کی معراج پا لیتے ہیں جو ان کا اپنی سرگرمیوں کے پس پردہ اصل مقصد ہوتا ہے۔ قابل غور ہے کہ اگر ہمارے نکسلی شدت پسند غریبوں کی بھلائی کے لئے خود کو ہلاکت و تباہی کی راہ پر ڈالے ہوئے ہیں تو ان سے یہ سوال کرنا یقینا حق بجا نب ہوگا کہ پھر آپ کی بندوقوں کا نشانہ سول پولس یا سرکاری اسکولوں کے وہ بچے کیوں بن رہے ہیں جن کے بارے میں آپ سبھی جانتے ہیں کہ یہ ان غریب خاندانوں کے چشم و چراغ ہیں جن کے ماں باپ کی مالی حالت اس قابل نہیں ہے کہ وہ اپنے نونہالوں کو بڑے شہروں کے مہنگے اور انتہائی جدید سہولیات سے آراستہ اسکولوں تک پہنچا سکےں۔ آپ کی گولیوںسے نکلنے والی آگ تو ان غریب گھروں میں ہی صف ماتم بچھاتی ہے جہاں کمانے والے کم جبکہ کھانے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ سول پولس اہلکار عموماً انہیں مجبور اور غریب طبقات سے آتے ہیں جن کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ وہ اپنے نوجوان بچوں کو صنعتی و تکنیکی تعلیم سے آراستہ کر کے بے تحاشہ سرمایہ حاصل کرنے کے قابل بنا سکیں۔ مجبوراً غریب خاندانوں کے یہ چشم و چراغ سول پولس میں ہی ملازمت حاصل کر کے اپنی اور اپنے کنبہ کی روزی روٹی کا انتظام کرتے ہیں۔ اگر ان کے آبا و اجداد اس قابل ہوتے کہ انہیں مہنگے اور مقابلہ جاتی تعلیم سے آراستہ کر پاتے تو یقینا وہ اپنے بچوں کو سول پولس کی ملازمت اختیار کرنے پر قطعی رضا مند نہیں ہوتے۔بعینہ یہی حالت ان تمام سرکاری اسکولوں کی بھی ہے جن کی عمارتیں عموماً سرخ دہشت گردی کی نذر ہوتی ہیں اور ان میں غریب خاندانوں کے ان گنت بچے تڑپ تڑپ کر جان دے دیتے ہیں۔ اگریہ تشددبندکرکے ان تمام دیہی باشندوںروزگارکیلئے بازار تک آنے کا راستہ دےدیاجائے توعین ممکن ہے کہ نکسلی ڈنڈابرداروںکایہ قدم غریبوںاورآدی باسی برادری کیلئے کامیابی اور ترقی کی ضمانت بن جائے۔نکسیوں کی مخالفت کرکے ووٹ ڈال کرنکسل متاثرہ علاقوںکے غریبوںنے اپنی اس سوچ کااظہاربھی کیاہے۔
Editorial 22-11-2010

عوام کے خوابوں کو تعبیر دینا اب نا گزیر

بہار ریاستی اسمبلی انتخابات میں ناقابل تسخیر کامیابی حاصل کر لینے کے بعد وزیراعلیٰ نتیش کمار کو ان کی پارٹی جنتا دل متحدہ نے لیجس لیٹیو کمیٹی کا لیڈر منتخب کر لیا ہے۔ ادھر بھارتیہ جنتا پارٹی کے اعلیٰ کمان نے مرکز سے پارٹی لیڈر کے انتخاب کے لئے تین سینئر لیڈروں کو آبزرور بنا کر دارالحکومت پٹنہ روانہ کیا تھا جہاں آج پارٹی کے ریاستی دفتر میں میٹنگ کے دوران اتفاق رائے سے نائب وزیراعلیٰ سشیل کمار مودی کو پارٹی لیجس لیٹیو اسمبلی کا لیڈر منتخب کر لیا گیا۔ اسی کے ساتھ وزیراعلیٰ نتیش کمار کل جمعہ کے روز ریاست کے تاریخی گاندھی میدان میں حلف اٹھا کر اپنی نئی کابینہ کے ساتھ ریاست کے فروغ اور ترقی کا نیا سفر شروع کریں گے۔ وزیراعلیٰ نتیش کمار کی قوم پسند سرگرمیوں اور ریاست کی ترقی کے لئے ان کے ذریعہ انجام دئے گئے منصوبوں کو دیکھ کر ہی عوام نے حاشیہ پر ڈالی جا چکی اس انتہائی پسماندہ ریاست کی باگڈور انہیں تھمایا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اکثریت سے کامیاب ہونے والے وزیراعلیٰ نتیش کمار کی ذمہ داریاں اب ریاست کی ترقی اور فلاح کے تئیں پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ جہاں انہیں اپنے سابقہ روایات کے مطابق قانون و انتظام کی صورتحال کو مزید فعال اور بہتر بنانے کے چیلنجز ،ہیں وہیں سرکاری اداروں میں بے رحم بھیڑیئے کی طرح رشوت کی ناجائز کمائی کے لئے منہ کھولے ہوئے افسروں پر لگام ڈالنے اور بدعنوانیوں میں گردنوں تک ڈوبے ہوئے حکومتی اہلکاروں سے دو دو ہاتھ کرنے ، ان کی نشاندہی کر کے انہیں قرار واقعی سزا دینے اور عوام کی گاڑھی کمائی کو رشوت کے طور پر اپنے خزانوںمیں جمع کر لینے والے انسانیت کے ناسوروں سے پوری قوم کو نجات دلانے کا تقاضہ بھی کچھ کم نہیں ہے۔ غور طلب ہے کہ کسی بھی ملک یا ریاست کی ترقی کا خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا جب تک وہاں امن اور تحفظ کو یقینی بنانے کی سمت میں قدم نہ اٹھاےے جائیں۔لاریب 2005 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد نتیش کمار نے ریاست کی فلاح اور ترقی کے لئے جتنے بھی کارنامے انجام دئے ہیں انہیں کم از کم بہار جیسے انتہائی پسماندہ صوبے کے لئے ایک نئی تاریخ کا آغاز ضرور کہا جائے گا۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ابھی ریاست کی صورتحال اس منزل کو نہیں پا سکی ہے جہاں آدمی یہ دعوے سے کہہ سکے کہ اب ہماری ریاست کی راتیں بھی پرامن ہےں اور دن میں بھی خوف و ہراس کی نفسیات سے ہمیں آزادی مل چکی ہے۔ ابھی ریاست میں قتل اور اغوا کی وارداتیں بالکل ختم نہیں ہوگئی ہیں اس میں کمی یقینا آئی ہے۔ مگر اس سے بھی زیادہ دور اندیشی لگن اور سرگرمی سے ریاست کے امن و تحفظ کے لئے وزیراعلیٰ کو اقدامات کرنے ہوں گے۔ تمام تر احتیاطی تدابیر بروئے کار لانے کے باوجود ماﺅنواز انتہا پسندوں اور نکسلی جنگجوﺅں سے ریاست کو نجات نہیں مل سکی ہے۔ عوامی حمایت نہ ملنے کے باوجود ان کے حوصلے ذرا بھی کمزور نہیں پڑے ہیں۔ آج ہی اورنگ آباد ضلع کے نبی نگر تھانہ علاقہ میں (این ٹی پی سی) نیشنل تھرمل پاور کارپوریشن کے ذریعہ زیر تعمیر پاور اسٹیشن بنانے کے استعمال میں شامل کئی جے سی بی اور دیگر گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا ہے۔ حالانکہ نبی نگر میں زیر تعمیر پاور اسٹیشن اپنی نوعیت کا منفرد اور انتہائی کارگر اسٹیشن کے طور پر تیار کئے جانے کا منصوبہ ہے۔ جس سے ریاست کو اتنی توانائی حاصل ہو سکتی ہے۔ جو اس ضرورت سے زیادہ ہوگی۔ مگر مذکورہ کام میں مشغول اہلکاروں کو تحفظ بخشے بغیر یہ تاریخی منصوبہ پایہ ¿ تکمیل کو قطعاً نہیں پہنچ سکتا۔ اطلاعات ہیں کہ ماﺅنوازوں نے نہ صرف یہ کہ تعمیر میں شامل گاڑیوں کو شدید نقصان پہنچایا بلکہ وہاں موجود ڈرائیوروں اور دیگر ورکروں کی نہایت بے رحمی سے پٹائی کی۔ ایسی صورت میں تحفظ کو یقینی بنائے بغیر کیسے کوئی مزدور سرکاری منصوبوں کی تکمیل میں اپنا ہاتھ بٹائے گا ۔ یہ ایسے چیلنجز ہیں جس کا مقابلہ کئے بغیر ریاست میں کسی بھی قسم کے ترقیاتی پروگراموں کو تعبیر بخشا جانا ناممکن ہے۔ ریاست کے عوام نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی ہے۔ اب نتیش کمار سمیت این ڈی اے میں شامل ان تمام لیڈروں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوام کے خوابوں اور آرزووں کی تکمیل کر کے یہ ثابت کریں کہ وہ قول و عمل کے تضاد کی سیاست نہیں کرتے۔ وہ وہی کہتے ہیں جتنا پورا کرنا ان کے بس کا روگ ہے۔ ترقی کے تمام امور پر قدم اٹھا دیا گیا ہے اور اب عوام نے اسے اپنی منزل تک پہنچا دینے کے لئے این ڈی اے کو خصوصاً وزیراعلیٰ نتیش کمار کو اپنی حمایت دی ہے۔انہیں ثابت کرنا ہوگا کہ عوام نے ان سے جو توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔انہیں پورا کرنے کا بھرپور جذبہ اور حوصلہ ان کے اند کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔
ؑEditorial 26-11-2010

Thursday, November 25, 2010

گھوٹالوں میں الجھی کانگریس کی جمہوریت

سابق وزیراعظم راجیو گاندھی نے کہا تھا کہ عام ہندوستانیوں کی فلاح اور ترقی کے لئے مرکز سے چلنے والی رقم متعلقہ ہدف تک پہنچتے پہنچتے 15 فیصد رہ جاتی ہے۔ یعنی سرکاری محکموں میں تعینات افسران ، سیاسی نمائندے اور ان کی چمچہ گیری میں سرگرم چھٹ بھیئے لیڈران کی جیبوں میں کسی بھی منصوبے کا کم از کم 85 فیصد حصہ نہایت چالاکی اور خاموشی سے چلا جاتا ہے۔ اپنے آنجہانی والد کی طرح تھوڑی ترمیم کے ساتھ گذشتہ پارلیمانی انتخاب کی ایک مہم کے دوران کانگریس کے جنرل سکریٹری راہل گاندھی نے ایک خطاب میں کہا تھا کہ مرکز سے منظور شدہ کسی بھی فنڈ کا 10 فیصد حصہ ہی استعمال ہوپاتا ہے۔ باقی تمام رقم ان منصوبوں کو زیر عمل لانے میں مصروف سرکاری اہلکار اور لیڈروں کے جہنم کی نذرہوجاتی ہے۔ ہم دونوں لیڈران کی اس بات سے یہ نتیجہ نکالنے میں بجا طور پر حق بجانب ہیں کہ ملک میں روز افزوںبدعنوانی اور رشوت خوروں کی بالادستی کا اعتراف خود ان قومی جماعتوں کے لیڈروں کو بھی ہے،لہذاملک میںجاری بدعنوانی سے انکار ناممکن ہے۔ اتفاق سے جن کے ہاتھوں میں اس وقت سو ا سو کروڑ آبادی پر مشتمل اس عظیم ملک کی باگ ڈور ہے اسی جماعت کے لوگ اس وقت بدعنوانیوںمیںپیش پیش ہیں۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ روزانہ مرکز سے ریاستوں تک اقتدار کی کرسیوں پر براجمان ناپاک ہستیوں کے گھنونے کارنامے بدعنوانیوں کی شکل میں منظر عام پر آرہے ہیں۔2جی انسپکٹرم میں مچائی جانے والی لوٹ کھسوٹ نے ملک کو جو اقتصادی نقصان پہنچایا ہے اس کا تدارک ہم تمام ہندوستانی مل کر بھی کئی برس تک پسینہ بہائےں تو نہیں کیاجا سکتا۔ تقریباً پونے دو لاکھ روپے کا یہ خسارہ اس ملک کو اٹھانا پڑرہا ہے جہاں کے تقریباً 14 فیصد باشندے نہایت تیزی سے آگے بڑھ رہی اقتصادی صورتحال کے اس دور میں بھی بھوکے سونے پر مجبور ہیں۔ کنیا کماری سے کشمیر تک اور بحر عرب سے آسام کی سنگلاخ پہاڑیوں کے درمیان شاید ہی کوئی ریاست ایسی ہو جہاں اقتدار میں موجود سیاسی جماعتوں کے رہنما اور دیگر ذمہ داران عوام کی فلاح و بہبود کے لئے مختص کی جانے والی رقوم کو اپنے باپ کی کمائی سمجھ کر دیار غیر کے بینکوںمیں محفوظ کرنے میں سرگرم نہ ہوں۔ ملک میں جاری بدعنوانی کی تاریخ کوئی نئی نہیں ہے بلکہ اس کی بنیاد اسی زمانے میںپڑ چکی تھی، جب ایمرجنسی کے فوراً بعد آنجہانی اندرا گاندھی بھرپور اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آئی تھیں اور کمزور اپوزیشن کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اس وقت کے متعدد وزراءنے اس قسم کی خرد برد کا چلن عام کیا تھا۔ اگر ہم ان ناموں کو معرض تحریر میں لائیں تو شائد ان سینکڑوں ہندوستانیوں کا جگر پھٹ جائے گا جو اپنے ان آنجہانی لیڈروں کو عقیدت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ ہم کسی کا نام نہ لیتے ہوئے محض سابق وزیراعظم کے اس بیان پر صحافتی تبصرہ کرنا زیادہ مناسب سمجھتے ہیں جس سے یہ بات بہ آسانی سمجھی جا سکتی ہے کہ بدعنوانی کی ابتدا آزاد ہندوستان میں کب ہوئی اور اس کے مو ¿سسین میں کن کن لوگوں کے ہاتھ شامل رہے ہوں گے۔ راجیو گاندھی کا یہ کہنا کہ عوام کی ترقیات اور ملک کی فلاح و بہبود کےلئے پاس کئے جانے والے منصوبوں کا محض 15 فیصد ہی اصل مقاصد میں استعمال ہوتا ہے، واضح طور پر اس حقیقت کی غمازی کر رہا ہے کہ بدعنوانی کی ابتدا آنجہانی وزیر اعظم کے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی ہو چکی تھی۔ 72 کے بعد ایمرجنسی کے ختم ہوتے ہی آنجہانی اندرا گاندھی کامیاب ہو کر اقتدار میں لوٹی تھیں اور اس کے بعد سن 1984 یعنی ان کی شہادت تک ملک کا اقتدار خود کانگریس کے ہاتھ میں ہی رہا۔ ظاہر سی بات ہے کہ کسی بھی منصوبوں کی منظوری اور اس کے نفاذ کی ذمہ داریاں برسراقتدار جماعتوں پر ہوتی ہے، ملک کا خزانہ بھی انہیں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے اور رقوم کا استعمال کرنے کا اختیار بھی برسراقتدار جماعت کے علاوہ کسی کو نہیں ہوتا۔پھر کیا وجہ ہے کہ اس زمانے میں ہونے والی بدعنوانیوں اور عوامی مفادات کےلئے زیر عمل لائی جانے والی رقم ناجائز طریقے سے غلط ہاتھوں میں جاتی رہی مگر اس پرکسی نے زبان کھولنے کی ہمت نہیںکی۔ اگر کوئی انگشت نمائی یاتنقید کی جرا ¿ت نہیں کر سکاتو اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ اس زمانے میں کانگریس پارٹی مکمل اکثریت کے ساتھ اقتدار پر قابض ہوتی تھی اور اس کے مقابلے میں حزب اختلاف نہایت لاغر اور کمزور ہوا کرتا تھا۔ آج ایک بار پھر اربوں روپے کے2 جی اسپکٹر م گھوٹالے ، محکمہ دفاع میں تعینات سینئر فوجی افسران کے ذریعہ حساس منصوبوں میں جاری لوٹ کھسوٹ، آدرش ہاﺅسنگ سوسائٹی میں سامنے آنے والی بدعنوانی دولت مشترکہ کھیلوں میں استعمال کی جانے والی رقوم کو دونوں ہاتھوں سے اپنی جیبوں میں ٹھونسنے والے واقعات اس بات کی شہادت دے رہے ہیں کہ کانگریس اب وہ جماعت نہیں رہی جس کی شفافیت اور وطن دوستی کی قسمیں سرعام کھائی جاتی تھیں۔ نا یہ جماعت اب آنجہانی جواہر لال نہرو اور بابائے قوم کے ان اصولوں پر قائم ہے جن کی آنکھوںمیں ایک ایسے ہندوستان کا خواب گردش کرتا تھا جہاں بدعنوانی، رشوت خوری اور گھوٹالوں کو دنیا کا سب سے بڑا گناہ تصور کیا جاتا تھا۔ پارلیمنٹ کی کارروائی کئی روز سے بند ہے اپوزیشن یہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ گنہ گار لوگوں سے صرف کرسیاں چھین کر معافی کا پروانہ نہ دیا جائے ،بلکہ انہیں ان کئے کئے کی سزا دی جائے۔اس راہ میں چاہے جو بھی ہو اپنا یا پرایا وہ ملک کا غدار ہے اور سوا سو کروڑ ہندوستانیوں کے مستقبل کا ازلی دشمن ،ایسے لوگوں کو بخشا نہیں جانا چاہئے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ مدھو کوڑا کو بدعنوانی کی سزا میں پابند سلاسل کیا جاتا ہے، چارہ گھوٹالے میں لالو جیل جاتے ہیں، مگر شہید فوجیوں کی بےواﺅں کا حق لوٹ لینے والا کانگریسی وزیراعلیٰ راج پاٹ سے علیٰحدہ کر کے آزاد کر دیا جاتا ہے۔اراضی گھپلوں میں ملوث یدورپا کو جیل بھیجنے کی وکالت کی جاتی ہے مگر اسپکٹرم گھوٹالے کے مجرم کا نہایت بے غیرتی سے دفاع کیا جاتا ہے۔ کیاکانگریس اپنے اس عمل سے سیکولرزم کی اس توضیح کو صحیح ثابت نہیں کر رہی ہے جس میں یہ کہا گیا ہے جمہوریت کا مطلب ہے ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘۔
Editorial Sangam On 23-11-2010

ترقی پسند بہاریوںکوسلام!

جمہوری نظام حکومت میں اقتدار کا فیصلہ عوام الناس کے ہاتھوں میں ہوتا ہے ۔کسی بھی سیاسی جماعت کے ہاتھ میں ملک یاریاست کی باگ ڈور تھما دینے کے بعد ایسا نہیں ہے کے عوام خواب خرگوش میں مبتلا ہو جاتے ہیں بلکہ انہوں نے اپنی آراءکے ذریعہ جس کے ہاتھ میںاقتدار سونپا ہے اس کی کاکردگی اور روز مرہ کی سرگرمیوں کا جائزہ بھی لیتے رہتے ہےں ۔ عوام حکومتوں کے قیام کے بعد مسلسل اس کے عمل کا محاسبہ بھی کرتے ہیں اور اس کےلئے کھلی آنکھو سے اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیا جاتا ہے۔لوگ برسر اقتدار رہنما کے ترقیاتی عمل اور منصوبوں کو دیکھ کر اندازہ لگاتے ہیں کہ کون ان کے کام ہے اور کس کا وجود ان کی ترقی کےلئے منفی اور نقصاندہ ہے۔ 1990میں کانگریس کی مدتوں سے آرہی اشراف نواز بے سمت طرز حکومت نے بہارکے باشندوں کو تلملا کر رکھ دیا تھا۔ کانگریس کے دور اقتدار میں اعلیٰ ذات کےلئے ہر طرف اور ہر محاذ پر مکمل آزادی تھی۔ ملازمت کے دروازے ان پر کھلے ہی نہیں تھے بلکہ انہیں کے لئے کھولے گئے تھے۔ اگر چہ برائے نام دیگر طبقات کو بھی ملازمتوںمیں شامل کر لیا جاتا تھا،مگر ان کی حیثیت چوتھے درجے کے ملازم سے زیادہ بمشکل ہی ہوتی تھی۔ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ریاست کے ان دبے کچلے پسماندہ اور انتہائی اذیت کی زندگی جی رہے دلتوں کی حالت زار بھی کانگریسی دور حکومت کی وہ تلخ سچائی ہے جس کا تصور کر تے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ بھاگلپور اور دربھنگہ کے (راجو) جیسے فرقہ وارانہ فسادات کے بعد دل برداشتہ بہاری مسلمانوں نے یقین کر لیاتھا کہ اب ان کے تحفظ اور بقا کےلئے ریاست میں کسی متبادل سیاسی جماعت کا قیام ناگزیر ہوگیا ہے۔ لالو یادو کی سیکولر شبیہ اور جے پرکاش نارائن کے اصولوں پر کاربند ان کی زندگی کو مسلمانوں کے علاوہ ان تمام ذات برادری کے لوگوں نے جو کسی نہ کسی سطح پر ریاست میں حاشیہ پر ڈالے جا چکے تھے، اقتدار کے لئے سب سے زیادہ مناسب اور موزوں خیال کیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ 90کی دہائی میں مکمل اکثریت سے اقتدار میں آنے والے لالو یادو نے پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ لالو یادو کو مسلمانوں کی حمایت کیا ملی گویا ان کے مقدر کا ستارہ اس بلندی کو چھو گیا جہاں تک پہنچنے کے لئے دنیا کی بڑی بری قد آور ہستیاں آرزو اور تمنائیں کرتی ہیں۔ شاید لالو یادو کو یہ غلط فہمی دامن گیر ہوگئی تھی کہ صرف مسلمانوں کے تحفظ کو یقینی بنا کر اور ریاست میں امن و امان کی بالادستی قائم کر کے وہ طویل مدت تک اقتدار پر قابض رہنے میں بلا کسی خوف کے کامیاب رہیں گے۔ مگر یہ پہلے ہی عرض کیا جا چکا ہے کہ جمہوری نظام عمل میں رائے دہندگان کسی لیڈر یا جماعت کے ہاتھ میں قیادت سونپنے کے بعد خاموش نہیں بیٹھ جاتے ،وہ مسلسل احتساب کی پوزیشن میں رہتے ہیں۔ ایم وائی کا نعرہ یقینا بہت دنوں تک کامیاب نہیں ہوسکتا تھا۔ اب پرسکون ریاست کو بے روزگاری سے نجات کی ضرورت تھی۔ سڑکوں کی خستہ حالی ہر راہ گیر کو موت کا خوف دلاتی رہتی تھی۔ اسی کے ساتھ بجلی اور روزگار کے مواقع جیسی دوسری چیزیں جو رفتہ رفتہ بہار سے اپنا بوریا بستر سمیٹ رہی تھیںاس نے یہاں کے عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا کہ آخر اس پسماندہ ریاست کے باشندے کب تک ملک کی دیگر ریاستوں کے مرہون منت رہیںگے۔ بے روزگار بہاری باشندے کب تک مہاراشٹر اور آسام میں گاجر مولی کی طرح کاٹے اور تراشے جاتے رہیں گے۔ طویل مدت تک دیگر ریاستوں میں اذیتوں اور ذلت کا نشانہ بننے والی بہاری قوم نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اب ضرورت ہے ایک ایسے سیاسی قائد کی جس کے دل کی ہر دھڑکن میںریاست کے ایک ایک باشندوں کا درد رچا بسا ہو۔ جو دنیا میں جنگل راج کے نام سے بدنام ریاست کی اس آن بان اور شان کو واپس لانے میں کامیاب ہو سکے جسے حکمرانوں کی غفلت اور مجرمانہ خاموشی نے گم کر دیاہے۔بہارکے باشندے اس پرامن اورترقی یافتہ ریاست کے قیام کےلئے بے چین اور بے قرار تھے جس کے تذکرے تاریخ کی کتابوںمیں مہاراجہ اشوک کے دور حکومت کے حوالے سے پڑھائے اور یاد کرائے جاتے ہیں۔ یقینا سمراٹ اشوک کا دارالسلطنت ہر اعتبار سے خوشحال اور تمام قسم کی ترقیات سے ہم آغوش رہا ہوگا جس کے تذکروں سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ عوام الناس نے یقین کر لیا تھا کہ لالو یادو باتوں کے دھنی ہیں انہیں قطعی اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے کہ ریاست کے 80 فیصد باشندے کن حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے شیر خوار وں کےلئے ماﺅں کے سینے میں دودھ اور نانخوار بچوں کےلئے روٹی کا کوئی نظم ہے یا نہیں۔انہیں تو یقین ہو گیا تھا کہ محض فرقہ وارانہ تشدد سے نجات دلا کر انہوں نے ریاست کے عوام کا ہر ووٹ پا لینے کا حق حاصل کر لیا ہے۔
تقریباً 20 برسوں تک ترقی سے محروم کئے جاچکے ریاست کے باشندوں نے بالآخر یہ فیصلہ کر لیا کہ ترقی کے لئے تبدیلی لازمی ہوگئی ہے اور لالو یادو کے متبادل کو اقتدار بخشے بغیر ہماری ریاست میں ترقی کا سورج طلوع نہیں ہوسکتا۔ بس اسی فکر کے تحت بی جے پی جیسی فرقہ پرست جماعت کا حلیف ہونے کے باوجود نتیش کمار پر ریاست کے باشندوں نے اعتماد کیا اور انہیں حکومت کا موقع فراہم کر دیا۔ آج جس طرح سے انہیں کامیابی نصیب ہوئی ہے۔ اس سے یہی سبق ملتا ہے کہ اب ریاست کے باشندوں کو ترقی چاہئے۔ روزگار کے مواقع چاہئےں، تاکہ دیگر ریاستوں کے مقابل فخریہ طور پر وہ کھڑے ہو کر یہ کہنے کے قابل ہو جائیں کہ وہ ایک ایسی ریاست کے باشندے ہیں جہاں کے عوام ترقیات اور فروغ کو انگوٹھا دکھانے والے کسی بھی لیڈر کو معاف نہیں کرتے۔اگر نتیش کمار ریاست کو ترقی کی لذت سے آشنا کرنے میں دلچسپی نہ لیتے تو آج کا نتیجہ یقینا ان کے حق میں دوبار اقتدار کی نوید لے کر نہیں آتا، بلکہ ذلت و پسپائی ہاتھ لگتی۔مسلمانوںکااین ڈی اے کی جانب میلان یہ صاف صاف بتارہاہے کہ اب ان کی حماےت بھی انہیںکے حق میں ہوگی جوان کی فلاح اورترقی کے متعلق سوچے۔ مگر اس کے لئے ملازمت اور مواقع کے دروازے وا کرنے کی ضرورت ہے۔ کانگریس کے بخشے ہوئے زخموں نے مسلمانوں کو اس کے قریب ہونے کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کر رکھی ہے یہی وجہ ہے کہ ہزار کوششوں کے باوجود اقتدار کا دروازہ بہار میں کانگریس پر بند ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ نتیش کمار پر مسلمانوں نے اعتماد کیا ہے اور آج کا نتیجہ یہ بتا رہا ہے کہ یہ قوم فیصلہ کن پوزیشن میں ہے۔ یہ جس طرف رخ موڑ لے اقتدار کی کرسی خود بخود ادھر کا رخ کر لیتی ہے۔