Wednesday, September 30, 2009

nitish kumar ka susashan

جہان آباد،29ستمبر، سماج نیوز سروس: ان دنوں عوامی نظام تقسیم کے ذریعہ بیس کیلو گیہوں مہیا کرانے کا وعدہ وزیراعلیٰ نتیش کمار کے ذریعہ کیا گیا ہے کہ جو بھی ضلع خشک سالی کا شکار ہے اسے دیا جائے گا لیکن حیرت کی بات ہے کہ اس ضلع کو صرف ویسی جگہوں کے لئے گیہوں کا الاٹمنٹ کیا گیا ہے جو شہری علاقہ کہلاتا ہے خصوصی طور پر فی الحال یہ سہولیات بی پی ایل کوپن والے کو ہی دستیاب ہے جب کہ دیہی علاقوں میں اس سلسلے کا کئی بھی الاٹمنٹ نہیں کیا گیا ہے۔ دیہی علاقے کے لوگ کافی حیرت میں ہیں کہ خشک سالی دیہی علاقوں میں ہے اور سب سے زیادہ دیہی علاقہ ہی اس سے متاثر ہیں جب کہ بی پی ایل صارفین کو 20کیلو گیہوں کا نظم حکومت کی جانب سے نہیں کیا گیا ہے اس سلسلے میں سول ایس ڈی او رمیش کمار شرما سے بات ہوئی تو انہوں نے یہی بتایا کہ ابھی صرف شہری علاقے کے لئے ہی الاٹمنٹ ہوا ہے۔ دیہی علاقوں کے لئے کوئی بھی اس طرح کا الاٹمنٹ نہیں ہوا ہے۔ مزید جب ان سے پوچھا گیا کہ دیہی علاقوں کے لئے آپ لوگوں کی جانب سے حکومت کو لکھا گیا ہے کہ نہیں تو انہوں نے بتایا کہ ہم لوگ اس میں کیا کرسکتے ہیں یہ تو حکومت کی پالیسی کی بات ہے۔ فی الوقت اے پی ایل کوپن والوں کو صرف تین لیٹر کراسن تیل ہی ضلع انتظامیہ کی جانب سے مہیا کرایا جارہا ہے جب کہ دیہی علاقوں میں بجلی کی غیر فراہمی کے مدنظر کتنے دنوں تک گھر میں جلایا جاتا ہوگا۔ اس کا اندازہ بخوبی ضلع انتظامیہ اور حکومت دونوں کو ہے۔ ایسی صورت میں اے پی ایل کوپن والے کافی ناراض ہیں اور انہیں افسوس ہورہا ہے کہ جس ملک کی 80ف صد آبادی دیہی علاقوں میں ہی بستی ہے پھر بھی حکومت کا رویہ اس جانب کوئی توجہ نہیں ہوتا ہے۔

جھنجھارپور،29ستمبر،2009: ایک بار پھر حکومت کی طرف سے مدرسہ بورڈ کی اسناد رکھنے والے امیدواروں کو تعلیمی مراکز کے تحت ٹولہ سیوک اساتذہ کی تقرری سے الگ کرنے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ یہ باتیں اکھل بھارتیہ سائیں شاہ کمیٹی کے صدر واولڈ بوائز مدرسہ ایسوسی ایشن بورڈ کے ضلع مدھوبنی کے صدر محمد عیسیٰ نے کہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایک سال قبل ریاستی حکومت نے ہندو مہادلت اور مسلم پسماندہ برادری کے 6سے 14سال کی عمر کے طلباءکی ابتدائی تعلیم کو یقینی بنانے کے لئے ایک لائحہ عمل تیار کر عملی جامہ پہنانے کی کارروائی شروع کردی اور ہر ہندو مہادلت و اقلیتوں کی پسماندہ برادری کے محلہ میں اتھان کیندر اور تعلیمی مرکز کھولا گیا۔ اتھان کیندر کو عملی شکل دے کر مستفیض کیا جارہا ہے جب کہ تعلیمی مرکز کا معاملہ سال بھر سے التوا میں ہے۔ 11مارچ 2008ءکے ریاستی پروجیکٹ ڈائرکٹر کے مکتوب نمبر DNC/ AIE/ 92/ 2008-09- NO.1087 سے واضح ہوتاہے کہ انتہائی پسماندہ ذات برادری کے ٹولہ، محلہ میں تعلیمی مرکز کھولنے کی قواعد شروع کی گئی۔ اور اسی برادری سے رضاکار کی شکل میں تقرری کی گئی۔ جس کی علمی لیاقت میٹرک یا مساوی ہوگی اور خواتین کو ترجیح بھی دی گئی اور اس پر عملی جامہ پہنانے کی کارروائی بھی ہوئی ابھیحال میں ایک مکتوب 14-08-2009 کو ہر ضلع کے DALکو ارسال کیا گیا جس کا مکتوب نمبر M/ ALE/ 92/ 2008-09/ 3982 ہے۔جس میں واضح کردیا گیا ہے کہ رضاکار ٹولہ سیوک تقرری میں صرف میٹرک سند رکھنے والوں کو ترجیح دی جائے گی۔ اور مساوی لفظ کو ختم کردیا گیا ہے جس سے مدرسہ سے اسناد یافتہ ہزاروںنوجوان کی تقرری نہیں ہوسکے گی۔ جب کہ اتھان کیندر میں مہادلت کی تقرری میں مدھما کے سند یافتہ کو اہمیت دی گئی ہے اب یہ معاملہ محکمہ کے افسران کے تعصبانہ داﺅ پیچ میں پھنس گیا ہے۔ اس سلسلے میں ایک میٹنگ بھی جھنجھار پور بلاک کے کنہولی گاﺅں میں داﺅد انصاری کی رہائش گاہ پر ہوئی جس میںا ولڈ بوائز مدرسہ ایسوسی ایشن کے ضلع شاخ کے صدر مولانا محمد عیسیٰ کے علاوہ محمد شہاب الدین برہرا، محمد کلیم اللہ کھٹونا، موسیٰ برہرا، محمد ہاشم مدھے پور، محمد عیسیٰ راج نگر، اندھرا ٹھاری مولانا معین اللہ کے علاوہ درجنوں بلاک کے سینکڑوں لوگوں نے شرکت کی ۔

Sunday, September 27, 2009

ان شریفوںسے شرافت کوحیا آتی ہے

دہلی جےسے بڑے شہروں مےں خوش قسمتی سے جسے عالمی شہروں کی صف مےں عنقرےب جگہ ملنے والی ہے عموماً اےک بات کا رونا روےا جاتاہے کہ ہمارا شہر تمام کوششوں کے باوجود غلاظت سے پاک ہونے مےں ہمےشہ ناکام رہتا ہے۔آخر اس کی وجہ کےا ہے؟اےک اندازے کے مطابق ےومےہ سو ملےن ٹن کچڑے ےا فضلے انسانی آبادی مےں جمع ہو جاتے ہےں،ےہ جائزہ 2005ءکا ہے۔ممکن ہے کہ مذکورہ تخمےنہ مےں مبالغہ بھی ہو مگر اس سے انکار ممکن نہےں ہے کہ شہر کی بےشتر آبادےاں تمام کوششوں اور اہتمام کے باوجود کوڑا کرکٹ کا ڈھےربنی رہتی ہےں۔
قابل غور ےہ ہے کہ شہر کو غلاظتوں کے انبار مےں ڈھکےلنے کا ذمہ دار کون ہے؟اور کس کی وجہ سے حکومت کی صفائی کی تمام کوششےں ناکام ثابت ہو جاتی ہےں۔ عام طور سے ذرائع ابلاغ اور ملک کے امرا و شرفا شہروں کی غلاظت اور گندگی کی تمام تر ذمہ دارےاں ملک کے غریب ومزدور طبقہ پر براہ راست ڈال دےتے ہےں۔حالانکہ حقےقت ےہ ہے کہ ان غرےبوں کی جےبوں مےں دن بھر کی مشقت کے بعد بمشکل ہی اتنے پےسے آپاتے ہےں جس سے ان کی دو وقت کی روٹی کا مسئلہ حل ہوتا ہے۔اےک مزدور کی ےومےہ آمدنی کمر توڑ گرانی کے اس دور مےں بھی ڈےڑھ سو دو سو روپے سے زےادہ نہےں ہوتی۔سوچئے جس شخص کی آمدنی پےٹ بھرنے کے لئے بھی ناکافی ہو وہ اپنے بچوں کو دن بھر مےں لےزواسنیکس جےسی دےگر خوردنی اشےا کی درجنوں پیکٹیںکہاں سے دے سکتا ہے۔ گندگی پھےلنے کی اہم وجہ شہروں مےں پلاسٹک پےکنگ مےں بکنے والی اشےا قرار دی جاتی ہےں۔ دہلی مےں کم از کم لےز اور دےگر پےکنگ مےں بکنے والی چےزوں کی روزانہ دس لاکھ پےکٹےں فروخت ہوتی ہےں۔شرفاءاور امراءکے بچے عموماً دن مےں دس سے بارہ پےکٹ ہڑپ جاتے ہےں۔ صبح و سوےرے آنکھ کھلتے ہی پاش کالونےوں مےں دودھ کی ہزاروں پےکٹےں پہنچتی ہےں۔ےہاں غرےبوں کی ےہ حالت ہے کہ ان کے ماﺅں کی چھاتےوں مےں بھی دودھ نہےں ہے، مہنگائی نے ان کے سےنے کا دودھ بھی چھےن لےا ہے۔جن ابھاگنو ںکو پےٹ بھرنے کےلئے خشک روٹی بھی بمشکل نصےب ہوتی ہو وہ اپنے بچو ںکا گلا دودھ سے تر کرنے کی سوچ بھی سکتے ہیں؟یقینانہیں۔ البتہ ان غرےبوں کا کام ےہ ہے کہ ان کے بچے صبح سوےرے اسکولوں کا رخ کرنے کی بجائے اپنی پشت پر پلاسٹک کی اےک بوری ڈال کر ان روساءکے محلوں کے آس پاس کا چکر لگاتے ہےں اور ان کی کھڑکےوں سے پھےنکی ہوئی پےکٹوں کو جمع کر کے شرفاءکی ذلالت کو اپنی بورےو ںمےں چھپالےتے ہےں۔ان کھڑکےوں کے نےچے انہےں پلاسٹک کی پالےتھن، پانی کی بوتلےں اور بچو ںکی مرغوب بازاری اشےائے خوردونوش کے پھےنکے ہوئے دونے و ڈبے مل جاتے ہیں،جنہیںوہ ےکجا کر کے واپس آجاتے ہےں۔ان جمع شدہ وےسٹےج کو بڑے کباڑی اونے پونے بھاﺅ مےں ان سے خرےد لےتے ہےں۔ کبھی پلاسٹک کی بوتلےں اےک روپے کلو تو پلاسٹک کی تھےلےاں دو روپے کلو اور دےگر کاغذ کے ڈبے و دونے اسی طرح روپے دو روپے کلو بےچ کر چند روپے اپنی جےب مےں پڑتے ہی ےہ غرےب آسمان کی جانب تشکرانہ نگاہ اٹھائے اپنے گھروں کو واپس لوٹ آتے ہےں۔انہےں ےقےن ہو جاتا ہے کہ آج ان چند روپوں سے اس کے گھر کے سرد چولہے گرم ہو جائےں گے اور خشک روٹی ان کی بھوک کی ضرورت بھی پوری کردے گی۔قابل ذکر ہے کہ اگر معاشرے مےں کوڑے اٹھانے والے غرےبوں کے ےہ بچے نہ ہوتے تو ان پاش کالونےوں کے مکےنوں کا کےا ہوتا؟ چمکتی دمکتی ان کی بستےاں غلاظت اور تعفن کی وجہ سے جہنم کا روپ دھار چکی ہوتی۔ےاد آتا ہے گزشتہ سال 15اگست کے موقع پر قم الحروف کناٹ پےلس کے اےک چوراہے پر کھڑا ہوا تھا،اسی اثنا مےں اےک سرخ رنگ کی انووا ENOVA))سنسناتی ہوئی سامنے آئی اور لال بتی کی وجہ سے وہےں ٹھہر گئی۔نصف سے زےادہ برہنہ دوشےزہ نے جو خود گاڑی چلا رہی تھی اپنے بےگ سے چند کےلے نکالے اور کھانے لگی، جےسے ہی لا ل بتی ہوئی اس نے چھلکے کو اسی جگہ ڈال دےا اور گاڑی اسٹارٹ کر کے آگے بڑھ گئی۔سگنل بند ہونے کے بعد پےدل آنے والا اےک مسافر سڑک پار کرتے ہوئے اس چھلکے کی زد مےں آگےا اور پےر پھسلتے ہی اسی جگہ ڈھےر ہو گےا۔ اس کی ناک مےں چوٹ آئی اور خون کے فوارے ابلنے لگے۔راہگےروں نے اسے اٹھا کر کنارے رکھ دےا۔ جب تک اسے اسپتال لے جانے کا انتظام ہوتا وہ بے ہوش ہو چکا تھا۔حالانکہ اس جگہ ٹرےفک پولس والے بھی کھڑے تھے مگر ان کی ذمہ دارےاں راہ گےروں کی مدد سے زےادہ جائز ناجائز چالان کاٹ کر پےسے بٹورنے کی ہوتی ہےں۔لہذا اس نے غرےب مسافر کی طرف کوئی توجہ نہےں دی۔ قصہ¿ مختصر ےہ کہ اےک وی آئی پی کی مذموم حرکت کی وجہ سے اےک آدمی کی جان کے لالے پڑگئے۔آپ بھی اس طرح کے منظر عموماً دےکھ سکتے ہےں، آپ دارالحکومت کی کسی اےسی شاہراہ پر کھڑے ہو جائےں جہاں سے شہر کے شرفاءلےڈران اور امراءکا گزر ہوتا ہے۔ آپ دےکھےں گے کہ فراٹے بھرتی ہوئی گاڑےوں سے پانی کی خالی بوتلےں کُرکُرے اور اسنےکس کی پےکٹےں سرعام پھےنک دی جاتی ہےں اور گاڑی اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہتی ہےں۔ذرا سوچئے ان کاروں اور عالی شان گاڑےوں کے مسافر کون ہےں؟کےا شہر کے مزدور، غرےب اور مفلوک الحال طبقے ےا وہ لوگ جوپوری دنےا مےں اپنی شرافت اور برتری کا ڈنکا پےٹتے ہےں۔حالانکہ سڑک پر جابجا پھےنکے ہوئے کےلوں کے چھلکے اور دےگر پھسلن والی چےزوں سے سرعام ہونے والے حادثات کا کوئی جائزہ حکومت کے پاس نہےں ہوگا اور نہ کوئی اےن جی او اس جانب توجہ دےتی ہے۔اگر سروے کےا جائے تو دہلی مےں سڑک حادثات کی اکثر وجوہات ےہی چےزےں ہےں جو شرفاءاپنی گاڑےوں سے گزرتے ہوئے سڑک پر ڈال دےتے ہےں۔ان دنوں شہر مےں بھنڈارے کا دور دورہ ہے، خود جہاں پہ ہم قےام پذےر ہےں اس کے قرب و جوار مےں تقرےباً دسےوں مقامات پر شری رام چندر کی توقےر اور حصول برکت کے لئے بھنڈارے ہو رہے ہےں۔ مگر بھنڈارے مےں کھانے کے لئے دئےے جانے والے دونے اور کاغذ کی پلےٹےں بےچ سڑک پر ڈالی جارہی ہےں، جس سے ماحول پراگندہ ہوتا ہے اور علاقہ تعفن کی وجہ سے بےمارےوں کا گڑھ بننے لگتا ہے۔اب ان سے کون پوچھے کہ اےک طرف تو آپ پنّےہ کمانے اور شری رام چندر جےسے اوتار کو خوش کرنے کے لئے غرےبوں مےں کھانے تقسےم کررہے ہےں اور دوسری طرف غلاظت پھےلا کر معاشرے کو بےمار کرنے کا انتظام کررہے ہےں، ےہ دنےا کے کس اوتار کی تعلےم ہے؟کےا شری رام چندر جی نے اپنے ماننے والوں کو اسی طرح گلےو ںاور سڑکوں پر کوڑے پھےلانے کی تعلےم دی ہے؟ ہرگز نہےں!انہو ںنے تو ہمےشہ اس بات کی تلقےن کی کہ ”سوچھےہ“رہو بےمارےوں سے دور رہو گے بلکہ ہندو دھرم کی کتابےں تو ےہاںتک کہتی ہےں کہ ”سوچھّتہ مےں بھگوان کا نواس ہے۔“مذہب اسلام نے بھی اپنے ماننے والوں کو طہارت کی تعلےم دی ہے بلکہ پےغمبر اسلام نے تو طہارت کے تعلق سے ےہاں تک فرمایا ہے کہ ”پاکی نصف اےمان ہے“(مسلم شرےف،برواےت ابو موسیٰ اشعری)قرآن پاک مےں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ” اللہ توبہ کرنے والوں اور پاکےزگی اختےار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔“ (البقرہ:آےت نمبر،222)
اب آپ ہی انصاف کےجئے کہ شہر مےں کوڑا کرکٹ پھےلانے کا اصل ذمہ دار کون ہے؟آپ نے مندرجہ بالا تفصےل سے ےقےنا ےہ سمجھ لےا ہوگا کہ ےہ پاش کالونےوں کے مکےن اور ملک مےں روزانہ صفائی کے تعلق سے بڑے بڑے جلسے جلوس مےں چےخنے چلانے والے ےہ خوبصورت لوگ اگر قول سے زےادہ عمل پر ےقےن رکھتے تو شاےد آج ہمارے شہر کی ےہ حالت نہ ہوتی اور ہمارے گھربےمارےوں کی آماجگاہ بھی نہ ہوتے۔اس مقام پر ےہ بات بھی افسوسناک ہے کہ کوڑے کرکٹ غرےبوں کے محلوں مےں عام طور سے زےادہ اس وجہ سے ہوتے ہےں کہ بلدےہ کی صفائی کا محکمہ خصوصاً ان علاقوں پر زےادہ توجہ دےتا ہے جہاں شہر کے امراءاور روساءسکونت پذےر ہےں، ان محلوں اور علاقوں مےں دن مےں کئی کئی بار صفائی کا اہتمام کےا جاتاہے، مگر غرےبوں کے محلے مےں اگر اےک گٹر کا ڈھکن کھل جائے ےا سےور لائن کہےں سے ٹوٹ جائے تو اس کی مرمت مےں کئی کئی مہےنے صرف ہو تے ہےں۔ بلکہ ےوں کہا جائے تو زےادہ مناسب ہے کہ کھلے ہوئے گٹر کے ڈھکنوں کو مہےنوں ےوں ہی چھوڑ دےا جاتا ہے اور اسے بند کرنے ےا اس کی مرمت کرنے کی طرف حکومت ےا متعلقہ شعبہ کے افسران کی توجہ نہےں ہوتی۔اگر روساءکی کالونےوں کی طرح حکومت ان غرےبوں کے محلوں کی صفائی اور دےکھ رےکھ کا وہی اہتمام کرے تو پورے اعتماد کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ یہ محلے بھی روساءکی کالونےوں سے زےادہ صاف شفاف اور پرسکون نظر آئےں گے، جہاں بےمارےاں بھی بمشکل اپنے ڈےرے جما سکےں گی۔
9312017945

Saturday, September 19, 2009

झारखंड विधानसभा चनावों को लेकर लालू मिले सोनिया से

नई दिल्‍ली, 19 सितम्बर 2009
बिहार विधानसभा उप चुनाव के नतीजों से उत्साहित राजद प्रमुख लालू प्रसाद ने शनिवार को कांग्रेस अध्यक्ष सोनिया गांधी से भेंट करके आग्रह किया कि झारखंड में शीघ्र होने जा रहे विधानसभा चुनाव के लिए धर्मनिरपेक्ष गठबंधन बनाया जाना चाहिए.सोनिया के साथ हुई इस 30 मिनट की मुलाकात में लालू के साथ उनके करीबी सहयोगी और पूर्व केन्द्रीय मंत्री प्रेमचंद गुप्ता भी थे.कांग्रेस और राजद के शीर्ष नेताओं के बीच हुई इस महत्वपूर्ण भेंट के बाद गुप्ता ने संवादाताओं से कहा कि झारखंड विधानसभा के अगले साल होने वाले चुनाव का कांग्रेस और राजद को मिलकर मुकाबला करना चाहिए.बिहार विधानसभा की 18 सीटों के लिए हाल में हुए उप चुनाव में राजद-लोजपा को 11 पर सफलता मिली जबकि सत्तारूढ़ राजग दलों जद यू तथा भाजपा को केवल पांच सीट मिलने से बड़ा झटका लगा. गुप्ता ने इस बात को एकदम गलत बताया कि रेल मंत्री ममता बनर्जी द्वारा लालू के इसी मंत्रालय के कार्यकाल के दौरान हुए कथित घोटालों की जांच कराने की घोषणा किए जाने के सिलसिल में राजद प्रमुख सोनिया के दरवाज़े पर गए थे.इस साल हुए लोकसभा चुनाव में झारखंड में कांग्रेस ने राजद से पल्ला झाड़ते हुए जेएमएम के साथ चुनावी गठंबधन किया था. लालू, सोनिया से ऐसे समय मिलने गए हैं जब कांग्रेस ने अपना एक दल झारखंड यह अध्ययन करने भेजा है कि वहां आगामी विधानसभा चुनाव में किन दलों के साथ ताल मेल किया जा सकता है.

चीनी घुसपैठ में बढ़ोत्तरी नहीं हुई: सेना प्रमुख

भाषा
चेन्‍नई, 19 सितम्बर 2009
भारतीय क्षेत्र में चीन की घुसपैठ की खबरों को ज्यादा गम्भीर नहीं बताते हुए सेना प्रमुख जनरल दीपक कपूर ने शनिवार को कहा कि पिछले वर्ष के मुकाबले इस साल ऐसी घटनाओं में कतई इजाफा नहीं हुआ है.जनरल कपूर ने चीन की घुसपैठ को लेकर प्रधानमंत्री मनमोहन सिंह के बयान का जिक्र करते हुए कहा ‘‘चिंता की कोई बात नहीं है.’’ उन्होंने मीडिया से इस मामले को तूल नहीं देने का आग्रह करते हुए कहा ‘‘प्रधानमंत्री ने शुक्रवार को बयान में कहा था कि घुसपैठ और अतिक्रमण की घटनाओं में पिछले साल के मुकाबले इस साल इजाफा नहीं हुआ है. ऐसी घटनाओं की संख्या लगभग बराबर ही है.’’मनमोहन ने भारतीय सीमा में चीन की घुसपैठ की खबरों को ज्यादा तवज्जो देने वाली बात नहीं मानने का संकेत देते हुए कहा था कि वह चीन के शीर्ष नेतृत्व के सम्पर्क में हैं. कपूर ने यह भी कहा कि सेना पाकिस्तान द्वारा युद्धविराम के उल्लंघन का ‘माकूल’ जवाब दे रही है. जम्मू-कश्मीर में आतंकवादियों की घुसपैठ की कोशिशों के बारे में उन्होंने कहा कि जाड़ों से पहले ऐसे प्रयास किये जाएंगे. कपूर ने कहा कि ऐसे खतरों से निपटने के लिये सेना की समुचित तैनाती की गई है

Friday, September 18, 2009

कांग्रेसी मंत्रियों की ये कैसी सादगी?

एनडीटीवी इंडिया
नई दिल्ली, बुधवार, सितंबर 16, 2009
सोनिया गांधी और राहुल गांधी भले ही सादगी की वकालत करते हों, लेकिन कांग्रेस में कई ऐसे नेता भी हैं, जिन्हें सादगी से कोई लेनादेना नहीं है। ये मंत्री लाखों के खर्च पर अपने दफ्तरों और यहां तक की टॉयलेटों के लिए स्पैनिश और इटालियन टाइलों की मांग कर रहे हैं।भारी उद्योग मंत्री विलासराव देशमुख ने उद्योग भवन के लिए वुड फ्लोर, वॉल पैनल, जिप्सम बोर्ड की मांग की है। इस पर कुल खर्च 18 लाख रुपये आएगा।वाणिज्य मंत्री आनंद शर्मा ने उद्योग भवन में वुड फ्लोर, वॉल पेपर, ग्रेनाइट स्टोन की मांग की है, जिस पर अनुमानित खर्च 15 लाख रुपये है।पेट्रोलियम राज्य मंत्री जितिन प्रसाद ने शास्त्री भवन के लिए कोहलर की टॉयलेट फिटिंग और बाथरूम में इटालियन मार्बल लगवाने की मांग की है।डाइरेक्टर जनरल ऑफ वर्क्स के पास कई मंत्रियों की अर्जियां आ रही हैं, जिनमें उन्होंने दफ्तर को डिजाइन करने के लिए निजी आर्किटेक्ट रखने की बात कही है। एक मंत्री ने तो वास्तु के हिसाब से अपनी कुर्सी के पीछे टॉयलेट बनवाने की अर्जी दी है।

Thursday, September 17, 2009

1300 सीआरपीएफ जवान एड्स पीड़ित

17 Sep 2009, 2208 hrs IST,नवभारत टाइम्स नई दिल्ली ।। देश के सबसे बड़े अर्धसैनिक बल सीआरपीएफ के करीब 1300 जवान एड्स से पीड़ित हैं। जवानों को इस
बीमारी से आगाह करने और पर्याप्त जानकारी देने के लिए कई कदम उठाए गए हैं लेकिन पीड़ित जवानों की संख्या लगातार बढ़ रही है।

जवानों को सेफ सेक्स के बारे में बताने के लिए सीआरपीएफ मुख्यालय में हेल्पलाइन भी शुरू की गई है। मुख्यालय सूत्रों के मुताबिक, हेल्पलाइन पर रोजाना 150 से 200 कॉल आती हैं। सीआरपीएफ के 39 ग्रुप सेंटरों पर 112 कॉन्डम वेडिंग मशीनें भी लगाई गई हैं। 73 बटालियन मुख्यालयों पर भी ऐसी मशीनें लगी हैं। फोर्स के विस्तार के लिए जवानों के स्वास्थ्य एवं अन्य सुविधाओं पर विशेष ध्यान दिया जा रहा है। बटालियन स्तर पर जागरुकता अभियान भी चलाए गए हैं।

Monday, September 14, 2009

ٹینکر حملے : شہری بھی ہلاک

ٹینکر حملے : شہری بھی ہلاک
ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں چار ستمبر کو نیٹو کے چوری ہونے والے ٹینکروں پر نیٹو بمباری میں ہلاک ہونے والوں میں تیس شہری شامل تھے۔

یہ بات افعان حکومت کی اس واقعہ میں تفتیش کی رپورٹ میں کہی گئی ہے۔ نیٹو نے اعتراف کیا تھا کہ اس بمباری میں کئی شہری مارے گئے تھے تاہم اس نے اپنی تفتیش کی رپورٹ ابھی تک عام نہیں کی ہے۔

افغانستان کے ایک تفتیش کار محمد اللہ بکتاش نے افغان حکومت کی تفتیش کے بارے میں بتایا ’ہم نے مقامی اہلکاروں، گاؤں کے لوگوں اور ضلعی گورنر سے بات کرنے کے بعد یہ اندازہ لگایا ہے کہ اس حملے میں 119 افراد ہلاک یا زخمی ہوئے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ حملے میں تیس سویلین ہلاک اور نو زخمی ہوئے جبکہ 69 طالبان مارے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان طالبان میں سے بیس غیر مسلحہ تھے۔

تفتیشکار کا کہنا تھا کہ مکمل رپورٹ چند روز بعد عام کر دی جائے گی۔

بمبری کا یہ واقعہ چار ستمبر کو صوبہ کندوز میں بغلان کی مرکزی شاہراہ پر پیش آیا تھا۔ نیٹو کے یہ تیل کے ٹینکر طالبان لے کر جا رہے تھے۔ اس بمباری کا فیصلہ نیٹو کے جرمنی کے کمانڈروں نے کیا تھا اور اس واقعے کے بعد صدر کرزئی نے اس کو ایک ’غلط فیصلہ‘ قرار دیتے ہوئے ایک تفتیشی کمیشن کو علاقے میں بھیجا تاکہ اس کی تفتیش کی جا سکے۔

پچھلے ہفتے انسانی حقوق کی تنظیم ’افعان رائٹس مونیٹر‘ نے کہا تھا کہ اس کی معلومات کے مطابق اس حملے میں ساٹھ سے زیادہ شہری مارے گئے تھے۔

अब उत्तराखंड में चीनी घुसपैठ!

अब उत्तराखंड में चीनी घुसपैठ!
14 Sep 2009, 0900 hrs IST,एजेंसियां नई दिल्ली ।। भारत की सीमा में चीन की घुसपैठ का एक और मामला सामने आया है। हमारे सहयोगी चैनल टाइम्स नाऊ के मुताबिक इस बार उत्तराखंड में घुसपैठ हुई है। लोकल लोगों के मुताबिक 5 सितंबर को हुई इस घुसपैठ में चीनी चमोली जिले के रिमखिम तक आ गए थे। वे यहां बिस्किट के रैपर और सिगरेट के खाली पैकेट छोड़ गए। उधर चीनी सेना ने दोनों देशों के बीच 1962 में गतिरोध पैदा होने के बाद से पहली बार लद्दाख सेक्टर की काराकोरम रेंज से सटे इंटरनैशनल बॉर्डर पर कंस्ट्रक्शन किया है। जम्मू कश्मीर सरकार की एक रिपोर्ट कहती है कि वे एकमुश्त नहीं, बल्कि धीरे-धीरे जमीन हथिया रहे हैं। उत्तराखंड के चीफ मिनिस्टर रमेश पोखरियाल ने घुसपैठ की शिकायत केंद्र से कर दी है। उन्होंने पीएम और होम मिनिस्ट्री से कहा है कि चीन की ओर से लगातार होने वाली इस घुसपैठ पर रोकथाम के लिए उत्तराखंड की मदद की जाए। पोखरियाल चाहते हैं कि भारत-चीन बॉर्डर पर गश्त करने वाली सेना में बढ़ोतरी की जाए। हालांकि इंडो तिब्बतन बॉर्डर पुलिस (आईटीबीपी) ने मीडिया की इस रिपोर्ट का खंडन करते हुए कहा है कि सिक्युरिटी फोर्सेज हाई अलर्ट पर हैं और बॉर्डर पार की हर हरकत पर नजर रखे हुए हैं। आईटीबीपी के डीआईजी संजय सिंघल ने देहरादून में कहा कि मॉनसून के सीजन में कुछ गडरिए भेड़-बकरी चराते हुए इस ओर निकल आते हैं, जो 'असामान्य' नहीं है। काराकोरम रेंज में कंस्ट्रक्शन भारत के लिए चिंता की बात है। भारत और चीन के बॉर्डर के बीच वाले शिनजियांग स्वायत्त क्षेत्र में आता है। यह भारत चीन बॉर्डर का उत्तरी छोर है, जिसे वास्तविक नियंत्रण रेखा (एलएसी) के तौर पर जाना जाता है। इस दर्रे के पश्चिम में स्थित सियाचिन ग्लेशियर एरिया के नियंत्रण को लेकर पाकिस्तान और भारत के बीच विवाद में यह क्षेत्र बड़ी भौगोलिक भूमिका भी अदा करता है।

Saturday, September 12, 2009

संस्कृति के नाम पर

संस्कृति के नाम पर
Font size: 03/07/09 09:08:00

राष्ट्रीय स्वयंसेवक संघ की सोशल इंजीनियरिंग परियोजना के तहत बच्चों को मेघालय से कर्नाटक लाया जा रहा है और उन्हें उनकी मूल संस्कृति से काटकर हिंदुत्व की घुट्टी पिलाई जा रही है. संजना की तहकीकात. सभी फोटो: एस राधाकृष्णा

कर्नाटक के 35 स्कूलों और मेघालय के चार जिलों में की गई तीन महीने की गहन पड़ताल के दौरान तहलका ने पाया कि साल 2001 से ही राष्ट्रीय स्वयंसेवक संघ सोशल इंजीनियरिंग की एक ऐसी परियोजना पर काम कर रहा है जिसके तहत अब तक मेघालय के कम से कम 1600 बच्चों को कर्नाटक में लाकर उन्हें कन्नड़ और तथाकथित भारतीय संस्कृति का पाठ पढ़ाया जा रहा है. मेघालय से लाए जाने वाले इन बच्चों के नवीनतम बैच में कुल 160 बच्चे थे जिन्हें संघ के करीब 30 कार्यकर्ताओं द्वारा सात जून को 50 घंटे का सफर तय करके बंगलुरु लाया गया था.

संघ के कार्यकर्ता तुकाराम शेट्टी ने तीन महीनों के दौरान तहलका के सामने बेबाकी से स्वीकार किया कि यह संघ और इसकी सहयोगी संस्थाओं द्वारा चलाए जा रहे एक बड़े अभियान का हिस्सा है
इस परियोजना के मुख्य संचालक संघ के कार्यकर्ता तुकाराम शेट्टी ने तीन महीनों के दौरान तहलका के सामने बेबाकी से स्वीकार किया कि यह संघ और इसकी सहयोगी संस्थाओं द्वारा चलाए जा रहे एक बड़े अभियान का हिस्सा है. उनका कहना था, ‘संघ ने इलाके में अपने विस्तार और ईसाई मिशनरी समूहों से निपटने के मकसद से एक दीर्घकालिक योजना बनाई है. ये बच्चे इसी का एक हिस्सा हैं. आने वाले समय में ये बच्चे हमारे मूल्यों का अपने परिवार के सदस्यों में प्रसार करेंगे.’ बचपन से ही संघ से जुड़े रहे शेट्टी कर्नाटक के दक्षिण कन्नडा जिले से ताल्लुक रखते हैं और उन्होंने अपने जीवन के तकरीबन आठ वर्ष मेघालय में, वहां की भौगौलिक स्थिति और संस्कृति का अध्ययन करने में बिताए हैं.

अगर मेघालय की बात की जाए तो ये देश के उन गिने-चुने राज्यों में है जहां ईसाई समुदाय कुल जनसंख्या का करीब 70 फीसदी होकर बहुसंख्यक समुदाय की भूमिका में है. बाकी 30 फीसदी में करीब 13 फीसदी हिंदू हैं और 11.5 फीसदी यहां के मूल आदिवासी हैं. सबसे पहली बार ईसाई मिशनरी यहां उन्नीसवीं सदी के मध्य में आए थे. व्यापक स्तर पर धर्मातरण के बावजूद आदिवासियों की एक बड़ी आबादी अभी भी अपने मूल धर्मों से जुड़ी हुई है और इसमें कहीं न कहीं धर्म परिवर्तन करने वालों के प्रति नाराजगी भी है. संघ, आदिवासियों की इसी नाराजगी का फायदा उठाना चाहता है और जैसा कि शेट्टी मानते हैं कि बच्चे और उनकी शिक्षा इसकी शुरुआत है.

बंगलुरु से करीब 500 किलोमीटर दूर उप्पूर में स्थित थिंकबेट्टू हायर प्राइमरी एंड सेकंडरी स्कूल उन 35 स्कूलों में से है जहां इन बच्चों को पढ़ाया जा रहा है. 2008 में छह से सात साल की उम्र के 17 बच्चों को मेघालय से यहां लाया गया था. स्कूल के प्रधानाध्यापक के कहने पर ये बच्चे एक-एक कर खड़े होते हैं और अपना परिचय स्थानीय कन्नड भाषा में देते हैं. मगर अध्यापक महोदय खुद अपना परिचय देने से ये कह कर इनकार कर देते हैं कि ‘आप बच्चों को देखने आए हैं, वे आपके सामने हैं. अगर मैं आपको अपना नाम बताऊंगा तो आप उसे मेरे खिलाफ इस्तेमाल करेंगीं.’ बस इतना पता चल पाता है कि वो एक पूर्व बैंक कर्मचारी हैं और कोने में खड़ी निर्मला नाम की महिला उनकी पत्नी है.

इसके बाद बच्चों से हाल ही में याद किया गया एक श्लोक सुनाने को कहा जाता है. घुटे सिर वाले ये बच्चे अध्यापक के सम्मान में गुरुर्बृह्मा, गुरुर्विष्णु, गुरुर्देवो महेश्वर:.. का पाठ करने लगते हैं. जिस हॉल में ये सब हो रहा है दरअसल वही इनके शयन, अध्ययन और भोजन, तीनों कक्षों का काम करता है. मेघालय के चार जिलों - रिभोई, वेस्ट खासी हिल्स, ईस्ट खासी हिल्स और जंतिया हिल्स से कर्नाटक में संघ से जुड़े विभिन्न स्कूलों में लाए गए ये बच्चे मूलत: खासी और जंतिया आदिवासी समुदायों से संबंध रखते हैं. परंपरागत रूप से खासी आदिवासी सेंग खासी और जंतिया आदिवासी नियाम्त्रे धर्म को मानते हैं.

जबरन थोपी जा रही दूसरी संस्कृति के तहत इन बच्चों जो किताबें दी जाती हैं वे बंगलुरू स्थित संघ के प्रकाशन गृहों में छपती हैंमंद्य जिले के बीजी नगर में स्थित श्री आदिचुंचनगिरी हायर प्राइमरी स्कूल के प्रधानाचार्य मंजे गौड़ा कहते हैं, ‘अगर ये बच्चे मेघालय में ही रहते तो ये अब तक तो ईसाई बन चुके होते. संघ इन्हें बचाने का प्रयास कर रहा है. जो शिक्षा बच्चे यहां प्राप्त करते हैं उसमें मजबूत सांस्कृतिक मूल्य स्थापित करना शामिल होता है. जब ये यहां से वापस अपने घर जाएंगे तो इन संस्कारों का अपने परिवारों में प्रसार करेंगे.’ जिन सांस्कृतिक मूल्यों की बात गौड़ा कर रहे हैं उनमें धार्मिक मंत्रोच्चार, हिंदू तीज त्यौहारों का ज्ञान और मांसाहारी भोजन, जो कि मेघालय में अत्यधिक प्रचलित है, से इन बच्चों को दूर रखना शामिल है.

मगर इससे होगा क्या? शेट्टी तहलका को बताते हैं कि छोटी उम्र में भारत के सांस्कृतिक मूल्यों से जुड़ाव और अनुशासन तो दरअसल पहला कदम है. ‘यह महत्वपूर्ण है कि ये बच्चे इन मूल्यों को कच्ची उम्र में आत्मसात करें. ये इन्हें हमारे और नजदीक और ईसाइयों की जीवन पद्धति से और दूर ले जाएगा. हम उन्हें श्लोक सिखाते हैं जिससे कि वे ईसाई धर्मगीतों को न गाएं. हम उन्हें मांस से दूर कर देते हैं ताकि वे अपने धर्म में रची-बसी जीव-बलि की परंपरा से घृणा करने लगें’ वे कहते हैं, ‘अंतत: जब संघ उनसे कहेगा कि गाय एक पवित्र जीव है और जो इसे मारकर खाते हैं उनका समाज में कोई स्थान नहीं है तो तो ये बो उसे मानेंगे.’ क्या इन बच्चों को आरएसएस के भावी झंडाबरदारों की भूमिका के लिए तैयार किया जा रहा है, इस सवाल पर शेट्टी केवल इतना कहते हैं कि वे किसी न किसी रूप में ‘परिवार’ का हिस्सा रहेंगे और इस बारे में समय ही बताएगा.

तहलका ने कई स्कूलों का दौरा किया और पाया कि विभिन्न स्कूलों में सिखाये जा रहे सांस्कृतिक मूल्यों में तो कोई खास फर्क नहीं है मगर आरएसएस की विचारधारा में कोई कितनी गहरी डुबकी लगाएगा ये इस बात पर निर्भर करता है कि वह बच्चा पढ़ता कौन से स्कूल में है. जो बच्चे मजबूत आर्थिक स्थिति वाले परिवारों से संबंध रखते हैं वे ऐसे स्कूलों में रहते हैं जहां पढ़ने और रहने की समुचित व्यवस्था होती है क्योंकि उनके परिवार इसका खर्च उठाने की स्थिति में होते है. इन अपेक्षाकृत सुविधासंपन्न स्कूलों में अनुशासन उतना कड़ा नहीं होता. मगर उत्तर-पूर्वी राज्य से आए इन बच्चों में से जितनों से हमने मुलाकात की उनमें से करीब 60 फीसदी कमजोर आर्थिक पृष्ठभूमि से संबंध रखने वाले थे जो उप्पूर के थिंकबेट्टू जैसे नाम-मात्र की सुविधाओं और कड़े अनुशासन वाली व्यवस्था में रहते हैं.

खास बात ये है कि ज्यादातर स्कूल जिनमें इन बाहरी बच्चों को रखा गया है कर्नाटक के उस तटीय इलाके में स्थित हैं जो हाल के कुछ वर्षों में सांप्रदायिक हिंसा के केंद्र में रहा है. इनमें से कुछ स्थान हैं पुत्तूर, कल्लाड्का, कॉप, कोल्लुर, उप्पूर, डेरालाकट्टे, दक्षिण कन्नडा में मूदबिद्री और उडुपी और चिकमंगलूर जिले. इनके अलावा बच्चों को प्रभावशाली आश्रमों द्वारा चलाए जा रहे सुत्तूर के जेएसएस मठ, मांड्या के आदिचुंचनगिरी और चित्रगुड़ा के मुरुगराजेंद्र जसे स्कूलों में भी रखा गया है.

खास बात ये है कि ज्यादातर स्कूल जिनमें इन बाहरी बच्चों को रखा गया है कर्नाटक के उस तटीय इलाके में स्थित हैं जो हाल के कुछ वर्षों में सांप्रदायिक हिंसा के केंद्र में रहा है
मगर मेघालय के ये नन्हे-मुन्ने हजारों किलोमीटर दूर कर्नाटक में कैसे आ जाते हैं? इन्हें वहां से लाने का तरीका क्या है? तहलका ने जिस भी बच्चे या उसके माता-पिता से बात की सबका कहना था कि ये सब किये जाने के पीछे सबसे बड़ा हाथ तुकाराम शेट्टी का है.

आरएसएस से संबद्ध संस्था सेवा भारती के पूर्व कार्यकर्ता शेट्टी जंतिया हिल्स के जोवाई में स्थित ले सिन्शर कल्चरल सोसाइटी के सर्वेसर्वा हैं. हालांकि इस संगठन को तो कोई इसके मुख्यालय से बाहर ही नहीं जानता है किंतु तुकाराम या बह राम - मेघालय में शेट्टी इस नाम से भी जाने जाते हैं - का नाम यहां बच्चा-बच्चा जानता है. साफ है कि संगठन तो आरएसएस से जरूरी दूरी प्रदर्शित करने का जरिया भर है. राजधानी शिलॉंग से लेकर दूरदराज के गांव तक सभी जानते हैं कि बच्चों को कर्नाटक ले जाने वाला असल संगठन संघ ही है. इस संस्था के जंतिया हिल्स जिले में तीन दफ्तर हैं - जोवाई, नरतियांग और शॉंगपॉंग. इसके अलावा सेवा भारती और कल्याण आश्रम जैसे संगठन भी हैं जो बच्चों की पहचान करने और उन्हें कर्नाटक भेजने में महत्वपूर्ण भूमिका निभाते हैं.

स्थानीय सेंग खासी स्कूल में अध्यापक और कल्याण आश्रम में रहने वाले योलिन खरूमिनी कहते हैं, ‘हमसे उन परिवारों की पहचान करने के लिए कहा जाता है जो ईसाई नहीं बने हैं और जिनका अपने मूल धर्म से काफी जुड़ाव है. साधारणत: ये परिवार ईसाइयों के बारे में अच्छा नहीं सोचते. इनके सामने बच्चों को कर्नाटक में पढ़ाने का प्रस्ताव रखा जाता है. हम उन्हें हमेशा ये भी बताते हैं कि उनके बच्चों को सेंग खासी या नियाम्त्रे की परंपराओं के मुताबिक ही शिक्षा दी जाएगी.’ खरूमिनी की खुद की भतीजी कर्डमोन खरूमिनी भी कर्नाटक के मंगला नर्सिंग स्कूल में पढ़ती है.

कॉप (जिला उडुपी) के विद्यानिकेतन स्कूल की दसवीं कक्षा में पढ़ रही खतबियांग रिम्बाई विस्तार से बताती है कि कैसे 200 बच्चों को विभिन्न गांवों से बंगलुरु लेकर आया गया था. ‘हमें कई समूहों में बांटकर बड़े बच्चों को उनका इंचार्ज बना दिया गया. फिर शिलॉंग से हमें टाटा सूमो में बिठाकर ट्रेन पकड़ने के लिए गुवाहाटी ले जाया गया’ वो कहती है. बंगलुरु में उन्हें विभिन्न स्कूलों में भेजने से पहले आरएसएस के कार्यालय ले जाया गया था.

एक चौंकाने वाली बात तहलका को शिलॉंग के एक संघ कार्यकर्ता प्रफुल्ल कोच और थिकबेट्टू स्कूल के प्रमुख ने ये बतायी कि इस बात का हमेशा ध्यान रखा जाता है कि एक ही परिवार के दो बच्चों को हमेशा अलग-अलग स्कूलों में भर्ती किया जाए. ‘अगर वे साथ नहीं हैं तो उन्हें अनुशासित करना आसान होता है. अगर हमें उन्हें बदलना है तो उन पर नियंत्रण रखना ही होगा. उनका घर से जितना कम संपर्क रहे उतना ही बढ़िया.’

बाल न्याय कानून-2000 कहता है कि बच्चों के कानूनी स्थानांतरण के लिए इस तरह के सहमति पत्र अनिवार्य है. मगर इस कानून का खुलेआम उल्लंघन हो रहा है
तहलका को एक ही परिवार के ऐसे कई बच्चे अलग-अलग स्कूलों में मिले - खतबियांग का भाई सप्लीबियांग रिंबाई केरल के कासरगॉड में स्थित प्रशांति विद्या निकेतन में पढ़ता है जबकि वो कर्नाटक में विद्या निकेतन स्कूल में पढ़ रही है. विद्यानिकेतन के ही एक और छात्र रीन्बॉर्न तेरियांग की बहन मैसूर के जेएसएस मठ स्कूल में पढ़ रही है. मंद्य के अभिनव भारती बॉइज हॉस्टल के बेद सिंपली की बहन विद्यानिकेतन में पढ़ती है. मंद्य जिले के आदिचुंचनगिरी स्कूल में पढ़ने वाले इवानरोई लांगबांग की भी बहन डायमोन्लांकी शिमोगा के वनश्री स्कूल में पढ़ती है. यहां ऐसा एक भी उदाहरण नहीं मिलता जिसमें एक ही परिवार के दो या ज्यादा बच्चों को एक साथ पढ़ने दिया जा रहा हो. ऐसा क्यों किया जा रहा है पूछने पर ये बच्चे कुछ बोल ही नहीं पाते.

जब तहलका ने बच्चों के परिवारवालों से पूछा कि वे अपने बच्चों को अलग-अलग क्यों रख रहे हैं तो उनका जवाब था कि इस बारे में उन्हें काफी बाद में जाकर पता लगा. खतबियांग और सप्लीबियांग की बड़ी बहन क्लिस रिंबाई बताती हैं, ‘जब वे गए थे तो हमें बस इतना पता था कि वे बंगलुरु जा रहे हैं. हमें स्कूल के बारे में कुछ पता ही नहीं था. ये तो काफी बाद में हमें पता लगा कि वे अलग कर दिये गए हैं और बंगलुरू में नहीं है. खतबियांग ने हमें ये भी बताया कि वो फिर से कक्षा सात में ही पढ़ रही है.’ जंतिया हिल्स में रहने वाला रिंबाई परिवार काफी समृद्ध है और बच्चों के पिता कोरेन चिरमांग आरएसएस से सहानुभूति रखने वालों में से हैं जिन्होंने अपने बच्चों के अलावा और भी कई बच्चों को कर्नाटक भेजने में अहम भूमिका निभाई है. ‘वे पहले काफी सक्रिय रहा करते थे मगर हाल ही में काफी बीमार होने की वजह से आरएसएस के साथ दूसरे गांवों में नहीं जा पा रहे हैं.’ क्लिस कहती हैं.

अपने भाषा, संस्कृति, रहन-सहन, खान-पान और वातावरण से दूर रहने का इन छोटे-छोटे बच्चों पर अलग-अलग तरीके से असर पड़ रहा है. जिन स्कूलों में भी तहलका गया वहां के हॉस्टल वॉर्डन, अध्यापकों और स्वयं बच्चों ने ये स्वीकारा कि मेघालय के उनके गांव और कर्नाटक के उनके स्कूलों की हवा-पानी में काफी अंतर होने की वजह से बच्चों को तरह-तरह की शारीरिक समस्याओं का सामना करना पड़ रहा है. चमराजनगर के दीनबंधु चिल्ड्रंस होम के सचिव जीएस जयदेव के मुताबिक मेघालय से आए छ: साल के तीन बच्चों - शाइनिंग लामो, सिबिनरिंगखेल्म और स्पिड खोंगसेइ - के शरीर पर कर्नाटक की भीषण गर्मी की वजह से लंबे समय तक जबर्दस्त चकत्ते रहे. थिंकबेट्टू स्कूल में भी कई बच्चे हमें ऐसे मिले जिनकी त्वचा पर कई महीनों से वहां रहने के बावजूद जलने के निशान साफ देखे जा सकते थे. नागमंगला में आदिचुंचनगिरी मठ द्वारा चलाए जाने वाले संस्कृत कॉलेज में पढ़ने वाले मेघालय के 11 बच्चों में से सबसे बड़े आयोहिदाहुन रैबोन ने तहलका को बताया कि मेघालय से आने वाले तीन छोटे बच्चे पिछले काफी समय से बीमार चल रहे हैं क्योंकि उन्हें स्कूल में दिया जाने वाला खाना रास नहीं आ रहा है.

इन बच्चों के ऊपर उन्हें अपने घरों से यहां लाए जाने का जबर्दस्त मानसिक प्रभाव भी पड़ रहा है. जिन भी स्कूलों में तहलका जा सका उनमें स्कूल के अधिकारियों ने बच्चों को बुलाकर उन्हें कन्नड में अपना परिचय देने का आदेश दिया. स्कूल के संचालकों के लिए तो ये बड़े गर्व की बात थी कि बाहर से आए ये बच्चे उनकी भाषा को इतने अच्छे तरीके से बोल पा रहे हैं. किंतु बच्चों पर अब तक सीखा सब कुछ भूलने का क्या असर हो रहा है इसकी शायद किसी को कोई परवाह नहीं. विभिन्न स्कूलों के अधिकारियों का दावा है कि मेघालय से आए बच्चे दूसरे बच्चों के साथ अच्छे से घुल-मिल गए हैं मगर सच तो ये है कि ऐसा हो नहीं रहा है. बच्चों से कुछ मिनटों की बातचीत में ही हमें पता लगता है कि कैसे स्थानीय बच्चे उनके अलग तरह के नाम और शक्लों को लेकर उनका मजाक बनाते हैं और इसलिए वे अपने जैसे बच्चों के साथ ही रहना पसंद करते हैं.

हमने एक कक्षा में पाया कि जहां स्थानीय बच्चे एक बेंच पर चार के अनुपात में बैठे हुए थे वहीं मेघालय से आए छ-सात बच्चे एक-दूसरे के साथ बैठने की कोशिश में बस किसी तरह बेंच पर अटके हुए थे. जहां इन बच्चों की संख्या काफी कम है वहां ये अपने में ही गुम रहने लगे हैं. बड़े बच्चों के लिए स्कूल की भौगोलिक स्थिति भी काफी निराश करने वाली है. बंगलुरु से करीब 150 किमी दूर नागमंगला में नवीं कक्षा में पड़ रहा इवानरोई लांगबांग अपनी निराशा कुछ इस तरह व्यक्त करता है, ‘हमें बताया गया था कि में बंगलुरु में पढ़ूंगा. ये तो यहां आने के बाद मुझे पता चला कि ये बंगलुरु से काफी दूर है. यहां हम चाहरदीवारी से बाहर नहीं जा सकते और अगर कभी चले भी जाएं तो उसका कोई फायदा नहीं क्योंकि बाहर वैसे भी कुछ है ही नहीं.’

इन बच्चों को मेघालय से लाकर पूरी तरह से कन्नड़ भाषी माहौल में डुबो देने का नतीजा छमराजनगर में स्थित दीनबंधु चिल्ड्रन होम में देखा जा सकता है. यहां की केयरटेकर छह साल के एक बच्चे की प्रगति को बयान करते हुए कहती है, ‘सिबिन को यहां रहते हुए अभी दो ही महीने हुए हैं पर उसने काफी कन्नड़ सीख ली है. एक बार उसके घर से फोन आया तो उसने सवालों के जवाब कन्नड़ में देने शुरू कर दिए जो कि जाहिर है कि घरवालों की समझ में बिल्कुल नहीं आई.’ असंवेदनहीना देखिए कि इसके बाद केयरटेकर इतनी जोर से हंसती है जैसे कि यह कोई मजाक की बात हो.

फिर वह कहती है, ‘45 मिनट तक वह महिला जो कि शायद उसकी मां होगी, कोशिश करती रही. सिबिन के पास कोई जवाब नहीं था क्योंकि वह अपनी भाषा भूल गया था.’ इसके बाद वह सिबिन को बताने लगती है कि रात के भोजन को कन्नड़ में क्या कहते हैं.

इस तरह से देखा जाए तो ये बच्चे जो शारीरिक और मानसिक नुकसान झेल रहे हैं वह सामान्य बोर्डिंग स्कूलों के बच्चों से अलग है. इन बच्चों को यहां लाने के पीछे का उद्देश्य कहीं बड़ा है यह कोच जैसे संघ कार्यकर्ता भी मानते हैं. सवाल उठता है कि इतनी छोटी उम्र के बच्चों को इनके मां-बाप आखिर क्यों इतनी दूर भेज रहे हैं? मेघालय के आठ गांवों की अपनी यात्रा के दौरान तहलका ने पाया कि ऐसे लोगों में से ज्यादातर गरीब हैं जो इस उम्मीद में अपने बच्चों को संघ को सौंप देते हैं कि उनकी देखभाल अच्छी तरह से हो सकेगी. इसका उनसे वादा भी किया जाता है. अक्सर ऐसे बच्चों का कोई बड़ा भाई या बहन पहले ही इस तरह के स्कूलों में पढ़ रहा होता है.

बारीकी से पड़ताल करने पर पता चलता है कि इस समूची प्रक्रिया में झूठ के कई ताने-बाने हैं. इनमें से कुछ निम्नलिखित हैं:

मां-बाप ने लिखित रूप में अपनी सहमति दे दी है

जब तहलका ने कर्नाटक के इन स्कूलों का दौरा कर उनसे वे कागजात मांगे जो ये साबित कर सकें कि इन बच्चों का एक राज्य से दूसरे राज्य में स्थानांतरण कानूनी है तो हमें गांव के मुखिया रैंगबा शनांग द्वारा हस्ताक्षरित पत्र दिखाए गए जिसमें लिखा गया था कि इनके परिवारों की माली हालत बहुत खराब है. इसके साथ ही हमें बच्चों के जन्म और जाति प्रमाणपत्र भी दिखाए गए. मगर किसी भी स्कूल ने कोई ऐसा पत्र नहीं दिखाया जिस पर बच्चे के मां-बाप के दस्तखत हों और जिसमें साफ तौर पर जिक्र हो कि बच्चे को किस स्कूल के सुपुर्द किया जा रहा है. मेघालय में भी तहलका जिन लोगों से मिला उनमें से भी किसी के पास इस तरह के हस्ताक्षरित सहमति पत्र की कॉपी नहीं थी. बाल न्याय कानून-2000 कहता है कि बच्चों के कानूनी स्थानांतरण के लिए इस तरह के सहमति पत्र अनिवार्य है. मगर इस कानून का खुलेआम उल्लंघन हो रहा है. इस तरह से देखा जाए तो ये बच्चों की तस्करी जैसा है.

स्कूलों में सेंग खासी और नियाम्त्रे धर्मों की शिक्षा दी जाती है

खासी और जंतिया जनजाति में ईसाई धर्म अपना चुके लोगों और बाकियों के बीच तनातनी रहती है. संघ द्वारा ध्यान से ऐसे बच्चों को चुना जाता है जो गरीब घरों से हैं और अब तक ईसाई नहीं बने हैं. स्वेर गांव की बिए नांगरूम कहती हैं, ‘मुझसे कहा गया कि अपनी बेटी को धर्म परिवर्तन से बचाने का एक ही रास्ता है कि उसे बाहर भेज दो. अगर मैंने ऐसा नहीं किया तो चर्च मेरे बच्चों को ले जाएगा और उन्हें पादरी और नन बना देगा. मैं बहुत डरी हुई थी इसलिए मैं अपनी बेटी को वहां भेजने के लिए राजी हो गई.’ छह साल बीत चुके हैं मगर बिए को अब भी उस स्कूल के बारे में ज्यादा जानकारी नहीं है जहां उसकी बेटी पढ़ रही है. उसके पास कुछ है तो बस बेटी की कक्षा का एक फोटो. वह कहती है, ‘अगर मुझे पता चल भी जाए कि वह कहां है तो मेरे पास उस तक पहुंचने और उसे वापस लाने लायक पैसा नहीं है. पर मैं दूसरे बच्चे को कभी भी वहां नहीं भेजूंगी.’

बिए का टूटा-फूटा घर, जिसमें वह अपनी मां और तीन दूसरे बच्चों के साथ रहती है, उसकी गरीबी की कहानी कह देता है. इससे ये भी संकेत मिलता है कि आखिर क्यों लोग चाहकर भी अपने बच्चों को वापस नहीं ला पाते. दरअसल उनके पास इतना भी पैसा नहीं होता. कई लोगों का तहलका से कहना था कि उनके बच्चे संघ के जिन स्कूलों में पढ़ रहे हैं वहां उनके धर्म की शिक्षाएं दी जाती हैं. मोखेप गांव के जेल चिरमांग के घर में तहलका को फ्रेम में लगी एक फोटो दिखी. इसमें जेल की बेटी रानी चिरमांग को उसके स्कूल के संरक्षक संत श्री बालगंगाधरनाथ सम्मानित करते हुए नजर आ रहे थे. हमने जेल से पूछा कि भगवा चोले में नजर आ रहे ये संत कौन हैं तो उसका जवाब था कि वे एक सेंग खासी संत हैं जो उस स्कूल को चलाते हैं. उसकी आवाज में जरा भी शंका नहीं थी. बाद में पता चला कि उसका पति डेनिस सिहांगशे संघ का कार्यकर्ता है जिसने माना कि अपनी बेटी का उदाहरण देकर उसने कई दूसरे लोगों को अपने बच्चों को इन स्कूलों में भेजने के लिए राजी किया है. डेनिस के शब्दों में ‘लोगों की संघ के बारे में गलत धारणा है. मैं हमेशा उन्हें यही कहता हूं कि संघ उन्हें अच्छी शिक्षा और संस्कृति देगा.’

ज्यादातर मां-बाप इससे अनजान होते हैं कि इन स्कूलों में उनकी संस्कृति के बजाय किसी और ही चीज की घुट्टी पिलाई जा रही है. जबरन थोपी जा रही दूसरी संस्कृति के तहत इन बच्चों जो किताबें दी जाती हैं वे बंगलुरू स्थित संघ के प्रकाशन गृहों में छपती हैं. जेएसएस स्कूल की लाइब्रेरी भारतीय संस्कृति प्रकाशन से छपकर आईं उन किताबों से भरी पड़ी है जो संघ की विचारधारा पर आधारित हैं. इनमें सेंग खासी या नियाम्त्रे धर्म की शिक्षाओं का कोई अंश नजर नहीं आता.

बच्चे निराश्रित और असहाय हैं

गैरआदिवासी समाज में पिता के परिवार को छोड़ देने से परिवार को निराश्रित माना जाता है. मगर मेघालय के आदिवासी समाज में ऐसा अक्सर देखने को मिलता है कि पुरुष किसी दूसरी स्त्री के साथ रहने लगते हैं और बच्चों की जिम्मेदारी मां संभालती है. अगर मां की मौत हो जाती है तो बच्चे को रिश्तेदार पालते हैं.

बच्चों को खुद को अच्छी तरह से नए माहौल के मुताबिक ढाल लिया है

जब बच्चे मेघालय छोड़ रहे होते हैं तो न तो उन्हें और न ही उनके मां-बाप को ये पता होता है कि उन्हें आखिरकार कहां ले जाया जाएगा. कमजोर आर्थिक हालत और स्कूलों में सुविधाओं के अभाव के चलते मां-बाप का बच्चों से सीधा संपर्क नहीं हो पाता. संघ मां-बाप को बताता है कि उनके बच्चे खुश हैं और नए माहौल में काफी अच्छी तरह से ढल गए हैं. मगर हकीकत कुछ और ही होती है. विद्या निकेतन में छठवीं का छात्र रापलांग्की ढकार इंतजार कर रहा है कि उसके चाचा आएंगे और उसे घर ले जाएंगे. वह कहता है, ‘हम तभी वापस जा सकते हैं जब हमारे घर से लोग यहां आएं और हमें अपने साथ ले जाएं. हर साल जब पढ़ाई खत्म होती है तो हम सुनते हैं कि हमें वापस ले जाया जाएगा. मगर दो साल हो गए हैं.’

तहलका जिन बच्चों से मिला उनमें से सिर्फ दो ही ऐसे थे जिन्हें घर लौटने का मौका मिला था. रापलांग्की के कस्बे रालिआंग में जब तहलका ने उसके चाचा से पूछा कि वे अपने भतीजे को लेने क्यों नहीं गए तो वे हैरान हो गए. उनका कहना था, ‘मुझे तो इसमें जरा भी शंका नहीं थी कि मेरा भतीजा अच्छी तरह से वहां रम गया है. जोवाई में संघ की हर बैठक में हमें आश्वस्त किया जाता है कि बच्चे खुश और स्वस्थ हैं.’

बच्चों और उनके अभिभावकों के बीच सीधा संपर्क यानी फोन कॉल अभिभावकों की आर्थिक स्थिति पर निर्भर करता है. अगर मां-बाप बच्चे की पढ़ाई का खर्चा उठाने में असमर्थ हों तो बच्चों को मठों द्वारा चलाए जा रहे ऐसे स्कूलों में रखा जाता है जिनकी तुलना किसी अनाथाश्रम से की जा सकती है. यहां फोन की कोई सुविधा नहीं होती जैसा कि श्री आदिचुंचनगिरी मठ द्वारा संचालित हॉस्टल में देखने को मिलता है.

मगर संघ को इससे कोई मतलब नहीं. उसके लिए यह सब एक बड़े उद्देश्य के लिए चलाई जा रही प्रक्रिया का हिस्सा है. एक ऐसी प्रक्रिया जो न सिर्फ बच्चों के लिए शारीरिक और मानसिक यातना पैदा कर रही है बल्कि मेघालय की एक पीढ़ी को उसकी मूल संस्कृति से दूर भी ले जा रही है.

आतंक के मोहरे या बलि के बकरे ?

01/08/08 04:32:00
हर शुक्रवार की तरह 25 जुलाई को भी मौलाना अब्दुल हलीम ने अपना गला साफ करते हुए मस्जिद में जमा लोगों को संबोधित करना शुरू किया. करीब दो बजे का वक्त था और इस मृदुभाषी आलिम (इस्लामिक विद्वान) ने अभी-अभी अहमदाबाद की एक मस्जिद में सैकड़ों लोगों को जुमे की नमाज पढ़वाई थी. अब वो खुतबा (धर्मोपदेश) पढ़ रहे थे जो पड़ोसियों के प्रति सच्चे मुसलमान की जिम्मेदारी के बारे में था. गंभीर स्वर में हलीम कहते हैं, “अगर तुम्हारा पड़ोसी भूखा हो तो तुम भी अपना पेट नहीं भर सकते. तुम अपने पड़ोसी के साथ हिंदू-मुसलमान के आधार पर भेदभाव नहीं कर सकते.”
तीस घंटे बाद, शनिवार को 53 लोगों की मौत का कारण बने अहमदाबाद बम धमाकों के कुछ मिनटों के भीतर ही पुलिस मस्जिद से सटे हलीम के घर में घुस गई और भौचक्के पड़ोसियों के बीच उन्हें घसीटते हुए बाहर ले आई. पुलिस का दावा था कि हलीम धमाकों की एक अहम कड़ी हैं और उनसे पूछताछ के जरिये पता चल सकता है कि आतंक की इस कार्रवाई को किस तरह अंजाम दिया गया. पुलिस के इस दावे के आधार पर एक स्थानीय मजिस्ट्रेट ने उन्हें दो हफ्ते के लिए अपराध शाखा की हिरासत में भेज दिया.
त्रासदी और आतंक के समय हर कोई जवाब चाहता है. हर कोई चाहता है कि गुनाहगार पकड़े जाएं और उन्हें सजा मिले. ऐसे में चुनौती ये होती है कि दबाव में आकर बलि के बकरे न ढूंढे जाएं. मगर दुर्भाग्य से सरकार इस चुनौती पर हर बार असफल साबित होती रही है. उदाहरण के लिए जब भी धमाके होते हैं सरकारी प्रतिक्रिया में सिमी यानी स्टूडेंट इस्लामिक मूवमेंट ऑफ इंडिया का नाम अक्सर सुनने को मिलता है. ज्यादातर लोगों के लिए सिमी एक डरावना संगठन है जो घातक आतंकी कार्रवाइयों के जरिये देश को बर्बाद करना चाहता है.
मगर सवाल उठता है कि ये आरोप कितने सही हैं?
एक न्यायसंगत और सुरक्षित समाज बनाने के संघर्ष में ये अहम है कि असल दोषियों और सही जवाबों तक पहुंचा जाए और ईमानदारी से कानून का पालन किया जाए. इसके लिए ये भी जरूरी है कि झूठे पूर्वाग्रहों और बनी-बनाई धारणाओं के परे जाकर पड़ताल की जाए. इसीलिए तहलका ने पिछले तीन महीने के दौरान भारत के 12 शहरों में अपनी तहकीकात की. तहकीकात की इस श्रंखला की ये पहली कड़ी है.
हमने पाया कि आतंकवाद से संबंधित मामलों में, और खासकर जो प्रतिबंधित सिमी से संबंधित हैं, ज्यादातर बेबुनियाद या फिर फर्जी सबूतों पर आधारित हैं. हमने पाया कि ये मामले कानून और सामान्य बुद्धि दोनों का मजाक उड़ाते हैं. इस तहकीकात में हमने पाया कि कार्यपालिका और न्यायपालिका के पूर्वाग्रह, राजनीतिक इच्छाशक्ति का अभाव और सनसनी का भूखा व आतंकवाद के मामले पर पुलिस की हर कहानी को आंख मूंद कर आगे बढ़ा देने वाला मीडिया, ये सारे मिलकर एक ऐसा तंत्र बनाते हैं जो सैकड़ों निर्दोष लोगों पर आतंकी होने का लेबल चस्पा कर देता है. इनमें से लगभग सारे मुसलमान हैं और सारे ही गरीब भी.
हलीम का परिवार
अहमदाबाद के सिविल अस्पताल, जहां हुए दो धमाकों ने सबसे ज्यादा जानें लीं, का दौरा करने के बाद प्रधानमंत्री मनमोहन सिंह का कहना था, “हम इस चुनौती का मुकाबला करेंगे और मुझे पूरा भरोसा है कि हम इन ताकतों को हराने में कामयाब होंगे.” उन्होंने राजनीतिक पार्टियों, पुलिस और खुफिया एजेंसियों का आह्वान किया कि वे सामाजिक ताने-बाने और सांप्रदायिक सद्भावना को तहस-नहस करने के लिए की गई इस कार्रवाई के खिलाफ मिलकर काम करें. मगर निर्दोषों के खिलाफ झूठे मामलों के चौंकाने वाले रिकॉर्ड को देखते हुए लगता है कि अक्षम पुलिस और खुफिया एजेंसियां कर बिल्कुल इसका उल्टा रही हैं. मौलाना अब्दुल हलीम की कहानी इसका सुलगता हुआ उदाहरण है.
पिछले रविवार से ही मीडिया में जो खबरें आ रही हैं उनमें पुलिस के हवाले से हलीम को सिमी का सदस्य बताया जा रहा है जिसके संबंध पाकिस्तान और बांग्लादेश स्थित आतंकवादियों से हैं. गुजरात सरकार के वकील ने मजिस्ट्रेट को बताया कि आतंकवादी बनने का प्रशिक्षण देने के लिए हलीम मुसलमान नौजवानों को अहमदाबाद से उत्तर प्रदेश भेजा करते थे और इस कवायद का मकसद 2002 के नरसंहार का बदला लेना था. वकील के मुताबिक इन तथाकथित आतंकवादियों ने बीजेपी नेता लालकृष्ण आडवाणी और गुजरात के मुख्यमंत्री नरेंद्र मोदी सहित कई दूसरे नेताओं को मारने की योजना बनाई थी. पुलिस का कहना था कि इस मामले में आरोपी नामित होने के बाद हलीम 2002 से ही फरार चल रहे थे.
इस मौलाना की गिरफ्तारी के बाद तहलका ने अहमदाबाद में जो तहकीकात की उसमें कई अकाट्य साक्ष्य निकलकर सामने आए हैं. ये बताते हैं कि फरार होने के बजाय हलीम कई सालों से अपने घर में ही रह रहे थे. उस घर में जो स्थानीय पुलिस थाने से एक किलोमीटर दूर भी नहीं था. वे एक सार्वजनिक जीवन जी रहे थे. मुसलमानों को आतंकवाद का प्रशिक्षण देने के लिए भेजने का जो संदिग्ध आरोप उन पर लगाया गया है उसका आधार उनके द्वारा लिखी गई एक चिट्ठी है. एक ऐसी चिट्ठी जिसकी विषयवस्तु का दूर-दूर तक आतंकवाद से कोई लेना-देना नजर नहीं आता.
दिलचस्प ये भी है कि शनिवार को हुए बम धमाकों से पहले अहमदाबाद पुलिस ने कभी भी हलीम को सिमी का सदस्य नहीं कहा था. ये बात जरूर है कि वह कई सालों से 2002 के मुस्लिम विरोधी दंगों के पीड़ितों की मदद में उनकी भूमिका के लिए उन्हें परेशान करती रही है. हलीम के परिजन और अनुयायी ये बात बताते हैं. इस साल 27 मई को पुलिस थाने से एक इंस्पेक्टर ने हलीम को गुजराती में एक पेज का हस्तलिखित नोटिस भेजा. इसके शब्द थे, “मरकज-अहले-हदीस (इस्लामी पंथ जिसे हलीम और उनके अनुयायी मानते हैं) ट्रस्ट का एक दफ्तर आलीशान शॉपिंग सेंटर की दुकान नंबर चार में खोला गया है. आप इसके अध्यक्ष हैं...इसमें कई सदस्यों की नियुक्ति की गई है. आपको निर्देश दिया जाता है कि उनके नाम, पते और फोन नंबरों की सूची जमा करें.”
कानूनी नियमों के हिसाब से बनाए गए एक ट्रस्ट, जिसके खिलाफ कोई आपराधिक आरोप न हों, से की गई ऐसी मांग अवैध तो है ही, साथ ही इस चिट्ठी से ये भी साबित होता है कि पुलिस को दो महीने पहले तक भी सलीम के ठिकाने का पता था और वह उनसे संपर्क में थी. नोटिस में हलीम के घर—2, देवी पार्क सोसायटी का पता भी दर्ज है. तो फिर उनके फरार होने का सवाल कहां से आया. हलीम के परिवार के पास इस बात का सबूत है कि पुलिस को अगले ही दिन हलीम का जवाब मिल गया था.
एक महीने बाद 29 जून को हलीम ने गुजरात के पुलिस महानिदेशक और अहमदाबाद के पुलिस आयुक्त को एक टेलीग्राम भेजा. उनका कहना था कि उसी दिन पुलिस जबर्दस्ती उनके घर में घुस गई थी और उनकी गैरमौजूदगी में उनकी पत्नी और बच्चों को तंग किया गया. हिंदी में लिखे गए इस टेलीग्राम के शब्द थे,“हम शांतिप्रिय और कानून का पालन करने वाले नागरिक हैं और किसी अवैध गतिविधि में शामिल नहीं रहे हैं. पुलिस गैरकानूनी तरीके से बेवजह मुझे और मेरे बीवी-बच्चों को तंग कर रही है. ये हमारे नागरिक अधिकारों का उल्लंघन है.”जैसा कि संभावित था, उन्हें इसका कोई जवाब नहीं मिला. अप्रैल में जब सोशल यूनिटी एंड पीस फोरम नाम के एक संगठन, जिसके सदस्य हिंदू और मुसलमान दोनों हैं, ने एक बैठक का आयोजन किया तो लाउडस्पीकर के इस्तेमाल की इजाजत के लिए संगठन ने पुलिस को चिट्ठी लिखी. इस चिट्ठी में भी साफ जिक्र किया गया था कि बैठक में हलीम मुख्य वक्ता होंगे. ये साबित करने के लिए कि हलीम इस दौरान एक सामान्य जीवन जीते रहे हैं, उनका परिवार उनका वो ड्राइविंग लाइसेंस भी दिखाता है जिसका अहमदाबाद ट्रांसपोर्ट ऑफिस द्वारा 28 दिसंबर, 2006 को नवीनीकरण किया गया था. तीन साल पहले पांच जुलाई 2005 को दिव्य भास्कर नाम के एक गुजराती अखबार ने उत्तर प्रदेश के एक गांव की महिला इमराना के साथ उसके ससुर द्वारा किए गए बलात्कार के बारे में हलीम का बयान उनकी फोटो के साथ छापा था. हलीम की रिहाई के लिए गुजरात के राज्यपाल से अपील करने वाले उनके मित्र हनीफ शेख कहते हैं, “ये आश्चर्य की बात है कि हमें मौलाना हलीम की बेगुनाही साबित करनी है.” नाजिर, जिनके मकान में हलीम अपने परिवार के साथ किराये पर रहा करते थे, कहते हैं, “मैं मौलाना को सबसे करीब से जानता हूं. वे धार्मिक व्यक्ति हैं और उनका आतंकवाद से कोई लेना-देना नहीं रहा है.” हलीम की पत्नी भी कहती हैं कि उनके पति आतंकवादी नहीं हैं और उन्हें फंसाया जा रहा है.
हलीम को जानने वालों में उनकी गिरफ्तारी को लेकर हैरत और क्षोभ है. 27 वर्षीय अहसान-उल-हक कहते हैं, “मौलाना हलीम ने सैकड़ों लोगों को सब्र करना और हौसला रखना सिखाया है.” ये साबित करने के लिए कि हलीम फरार नहीं थे, हक अपना निकाहनामा दिखाते हैं जो हलीम की मौजूदगी में बना था और जिस पर उनके हस्ताक्षर भी हैं.
यासिर की पत्नी सोफिया
उत्तर प्रदेश से ताल्लुक रखने वाले 43 वर्षीय अब्दुल हलीम 1988 से अहमदाबाद में रह रहे हैं. वे अहले हदीस नामक एक इस्लामी संप्रदाय के प्रचारक हैं जो इस उपमहाद्वीप में 180 साल पहले अस्तित्व में आया था. ये संप्रदाय कुरान के अलावा पैगंबर मोहम्मद द्वारा दी गई शिक्षाओं यानी हदीस को भी मुसलमानों के लिए मार्गदर्शक मानता है. सुन्नी कट्टरपंथियों से इसका टकराव होता रहा है. मीडिया में लंबे समय से खबरें फैलाई जाती रही हैं कि अहले-हदीस एक आंतकी संगठन है जिसके लश्कर-ए-तैयबा से संबंध हैं. पुलिस दावा करती है कि इसके सदस्य 2006 में मुंबई में हुए ट्रेन धमाकों सहित कई आतंकी घटनाओं में आरोपी हैं. करीब तीन करोड़ अनुयायियों वाला ये संप्रदाय इन आरोपों से इनकार करता है और बताता है कि दो साल पहले जब इसने दिल्ली में अपनी राष्ट्रीय संगोष्ठी आयोजित की थी तो गृह मंत्री शिवराज पाटिल इसमें बतौर मुख्य अतिथि शामिल हुए थे. 14 साल तक अहमदाबाद में अहले हदीस के 5000 अनुयायियों का नेतृत्व करने के बाद हलीम तीन साल पहले इस्तीफा देकर एक छोटी सी मस्जिद के इमाम हो गए. अपनी पत्नी और सात बच्चों के परिवार को पालने के लिए उन्हें नियमित आय की दरकार थी और इसलिए उन्होंने कबाड़ का व्यवसाय शुरू किया. हलीम की मुश्किलें 2002 की मुस्लिम विरोधी हिंसा के बाद तब शुरू हुईं जब वे हजारों मुस्लिम शरणार्थियों के लिए चलाए जा रहे राहत कार्यों में शामिल हुए. उस दौरान शाहिद बख्शी नाम का एक शख्स दो दूसरे मुस्लिम व्यक्तियों के साथ उनसे मिलने आया था. कुवैत में रह रहा शाहिद अहमदाबाद का ही निवासी था. उसके साथ आए दोनों व्यक्ति उत्तर प्रदेश के थे जिनमें से एक फरहान अली अहमद कुवैत में रह रहा था. दूसरा व्यक्ति हाफिज़ मुहम्मद ताहिर मुरादाबाद का एक छोटा सा व्यापारी था. ये तीनों लोग 2002 की हिंसा में अनाथ हुए बच्चों के लिए मुफ्त शिक्षा और देखभाल का इंतजाम कर उनकी मदद करना चाहते थे. इसलिए हलीम उन्हें चार शरणार्थी कैंपों में ले गए. एक हफ्ते बाद एक कैंप से जवाब आया कि उसने ऐसे 34 बच्चों को खोज निकाला है जिन्हें इस तरह की देखभाल की जरूरत है. हलीम ने फरहान अली अहमद को फोन किया जो उस समय मुरादाबाद में ही था और उसे इस संबंध में एक चिट्ठी भी लिखी. मगर लंबे समय तक कोई जवाब नहीं आया और योजना शुरू ही नहीं हो पाई. महत्वपूर्ण ये भी है कि किसी भी बच्चे को कभी भी मुरादाबाद नहीं भेजा गया.तीन महीने बाद अगस्त 2002 में दिल्ली पुलिस ने शाहिद और उसके दूसरे साथी को कथित तौर पर साढ़े चार किलो आरडीएक्स के साथ गिरफ्तार किया. मुरादाबाद के व्यापारी को भी वहीं से गिरफ्तार किया गया और तीनों पर आतंकी कार्रवाई की साजिश के लिए पोटा के तहत आरोप लगाए गए. दिल्ली पुलिस को इनसे हलीम की चिट्ठी मिली. चूंकि बख्शी और हलीम दोनों ही अहमदाबाद से थे इसलिए वहां की पुलिस को इस बारे में सूचित किया गया. तत्काल ही अहमदाबाद पुलिस के अधिकारी डी जी वंजारा(जो अब सोहराबुद्दीन फर्जी मुठभेड़ मामले में जेल में हैं) ने हलीम को बुलाया और उन्हें अवैध रूप से हिरासत में ले लिया. घबराये परिवार ने उनकी रिहाई के लिए गुजरात हाईकोर्ट में एक याचिका दायर की. उनके परिवार के वकील हाशिम कुरैशी याद करते हैं, “जज ने पुलिस को आदेश दिया कि वह दो घंटे के भीतर हलीम को कोर्ट में लाए.” पुलिस ने फौरन हलीम को रिहा कर दिया. वे सीधा कोर्ट गए और अवैध हिरासत पर उनका बयान दर्ज किया गया जो अब आधिकारिक दस्तावेजों का हिस्सा है.जहां दिल्ली पुलिस ने उत्तर प्रदेश के दोनों व्यक्तियों और शाहिद बख्शी के खिलाफ आरडीएक्स रखने का मामला दर्ज किया वहीं अहमदाबाद पुलिस ने इन तीनों के खिलाफ मुस्लिम युवाओं को मुरादाबाद में आतंकी प्रशिक्षण देने के लिए फुसलाने का मामला बनाया. अहमदाबाद के धमाकों के बाद पुलिस और मीडिया इसी मामले का हवाला देकर हलीम पर मुस्लिम नौजवानों को आतंकी प्रशिक्षण देने का आरोप लगा रहे हैं. हलीम द्वारा तीस नौजवानों को प्रशिक्षण के लिए मुरादाबाद भेजने की बात कहते वक्त गुजरात सरकार के वकील सफेद झूठ बोल रहे थे. जबकि मामले में दाखिल आरोपपत्र भी किसी को अहमदाबाद से मुरादाबाद भेजने की बात नहीं करता.
दिल्ली में दर्ज मामले में जहां हलीम को गवाह नामित किया गया तो वहीं अहमदाबाद के आतंकी प्रशिक्षण वाले मामले में उन्हें आरोपी बनाकर कहा गया कि वो भगोड़े हैं. कानून कहता है कि किसी को भगोड़ा साबित करने की एक निश्चित प्रक्रिया होती है. इसमें गवाहों के सामने घर और दफ्तर की तलाशी ली जाती है और पड़ोसियों के बयान दर्ज किए जाते हैं जो बताते हैं कि संबंधित व्यक्ति काफी समय से देखा नहीं गया है. मगर अहमदाबाद पुलिस ने ऐसा कुछ नहीं किया. हलीम के खिलाफ पूरा मामला उस पत्र पर आधारित है जो उन्होंने सात अगस्त 2002 को फरहान को लिखा था. इस पत्र में गैरकानूनी जैसा कुछ भी नहीं है. ये एक जगह कहता है, “आप यहां एक अहम मकसद से आए थे.” कल्पना की उड़ान भर पुलिस ने दावा कर डाला कि ये अहम मकसद आतंकी प्रशिक्षण देना था. हलीम ने ये भी लिखा था कि कुल बच्चों में से छह अनाथ हैं और बाकी गरीब हैं. पत्र ये कहते हुए समाप्त किया गया था, “मुझे यकीन है कि अल्लाह के फज़ल से आप यकीनन इस्लाम को फैलाने के इस शैक्षिक और रचनात्मक अभियान में मेरी मदद करेंगे.” आरडीएक्स मामले में दिल्ली की एक अदालत के सामने हलीम ने कहा था कि उनसे कहा गया था कि मुरादाबाद में बच्चों को अच्छी तालीम और जिंदगी दी जाएगी. उन्हें ये पता नहीं था कि बख्शी और दूसरे लोग बच्चों को आतंकी प्रशिक्षण देने की सोच रहे हैं.
पिछले साल दिल्ली की एक अदालत ने “आरडीएक्स मामले” में बख्शी और फ़रहान को दोषी करार दिया और उन्हें सात-सात साल कैद की सज़ा सुनाई. बावजूद इसके कि तथाकथित आरडीएक्स की बरामदगी के चश्मदीद सिर्फ पुलिस वाले ही थे, कोर्ट ने पुलिस के ही आरोपों को सही माना. फरहान का दावा था कि उसे हवाई अड्डे से तब गिरफ्तार किया गया था जब वो कुवैत की उड़ान पकड़ने जा रहा था और उसके पास इसके सबूत के तौर पर टिकट भी थे. लेकिन अदालत ने इसकी अनदेखी की.
यासिर
बख्शी और फरहान ने इस सज़ा के खिलाफ दिल्ली हाई कोर्ट में अपील की जिसने निचली अदालत द्वारा दोषी करार देने के बावजूद उन्हें ज़मानत दे दी. वहीं गुजरात हाई कोर्ट ने उन्हें “आतंकी प्रशिक्षण” मामले में ज़मानत देने से इनकार कर दिया जबकि उन पर आरोप सिद्ध भी नहीं हुआ था. गुजरात क्राइम ब्रांच भी ये मानती है कि इस मामले में उनका अपराध सिर्फ षडयंत्र रचने तक ही सीमित हो सकता है.
सिलसिला यहीं खत्म नहीं होता. मुरादाबाद के ताहिर को आरडीएक्स मामले में बरी कर दिया गया था. वो एक बार फिर तब भाग्यशाली रहा जब गुजरात हाई कोर्ट ने जून 2004 में उसे आतंकवाद प्रशिक्षण मामले में ज़मानत दे दी. अदालत का कहना था, “वर्तमान आरोपी के खिलाफ कुल मिलाकर सिर्फ इतना ही प्रमाण है कि वो अहमदाबाद आया था और कैंप का चक्कर भी लगाया था, ताकि उन बच्चों की पहचान कर सके और उनकी देख रेख अच्छे तरीके से हो सके और इसे किसी तरह का अपराध नहीं माना जा सकता.”
बख्शी और फरहान पर भी बिल्कुल यही आरोप थे, लिहाजा ये तर्क उन पर भी लागू होना चाहिए. लेकिन गुजरात हाई कोर्ट के एक अन्य जज ने उन्हें ज़मानत देने से इनकार कर दिया और दोनों को जेल में रहने के लिए मजबूर होना पड़ा. इस बीच ताहिर अहमदाबाद आकर रहने लगा क्योंकि गुजरात हाई कोर्ट ने उसकी ज़मानत के फैसले में ये आदेश दिया था कि उसे हर रविवार को अहमदाबाद क्राइम ब्रांच ऑफिस में हाजिरी देनी होगी. 26 जुलाई को हुए धमाकों के बाद अगली सुबह रविवार के दिन डरा सहमा ताहिर अहमदाबाद क्राइम ब्रांच के ऑफिस पहुंचा. ताहिर ने तहलका को बताया, “उन्होंने चार घंटे तक मुझसे धमाके के संबंध में सवाल जवाब किए. उस वक्त मुझे बहुत खुशी हुई जब उन्होंने मुझे जाने के लिए कहा.” आतंकी प्रशिक्षण मामले की सुनवाई लगभग खत्म हो चुकी है. अब जबकि हलीम भगोड़े नहीं रहे तो ये बात देखने वाली होगी कि उसके खिलाफ इस मामले में अलग से सुनवाई होती है या नहीं. इस बीच हलीम के परिवार को खाने और अगले महीने घर के 2500 रूपए किराए की चिंता सता रही है। हलीम की पत्नी बताती है है कि उनके पास कोई बचत नहीं है. हलीम की कबाड़ की दुकान उनका नौकर चला रहा है.
दुखद बात ये है कि मौलाना अब्दुल हलीम की कहानी कोई अकेली नहीं है. 15 जुलाई की रात हैदराबाद में अपने पिता के वर्कशॉप से काम करके वापस लौट रहे मोहम्मद मुकीमुद्दीन यासिर को सिपाहियों के एक दल ने गिरफ्तार कर लिया. दस दिन बाद 25 जुलाई को जब बंगलोर में सीरियल धमाके हुए, जिनमें दो लोगों की मौत हो गई, तो हैदराबाद के पुलिस आयुक्त प्रसन्ना राव ने हिंदुस्तान टाइम्स को एक नयी बात बताई. उनके मुताबिक पूछताछ के दौरान यासिर ने ये बात स्वीकारी थी कि गिरफ्तारी से पहले वो आतंकियों को कर्नाटक ले गया था और वहां पर उसने उनके लिए सुरक्षित ठिकाने की व्यवस्था की थी. मगर जेल में उससे मिलकर लौटीं उसकी मां यासिर के हवाले से तहलका को बताती हैं कि पुलिस झूठ बोल रही है, और पुलिस आयुक्त जिसे पूछताछ कह रहे हैं असल में उसके दौरान उनके बेटे को कठोर यातनाएं दी गईं. वो कहती हैं, “उसे उल्टा लटका कर पीटा जा रहा था.”
हालांकि पुलिस के सामने दिये गए बयान की कोई अहमियत नहीं फिर भी अगर इसे सच मान भी लें तो ये हैदराबाद पुलिस के मुंह पर एक ज़ोरदार तमाचा होगा. आखिर यासिर सिमी का पूर्व सदस्य था, उसके पिता और एक भाई आतंकवाद के आरोप में जेल में बंद हैं. उसके पिता की जमानत याचिका सुप्रीम कोर्ट तक से खारिज हो चुकी है. ये जानते हुए कि उसके भाई और बाप खतरनाक आतंकवादी हैं हैदराबाद पुलिस को हर वक्त उसकी निगरानी करनी चाहिए थी, और जैसे ही वो आतंकियों के संपर्क में आया उसे गिरफ्तार करना चाहिए था.
पुलिस ने न तो यासिर के बयान पर कोई ज़रूरी कार्रवाई की जिससे बैंगलुरु का हमला रोका जा सकता और न ही वो यासिर द्वारा कर्नाटक में आतंकियों को उपलब्ध करवाया गया सुरक्षित ठिकाना ही ढूंढ़ सकी. इसकी वजह शायद ये रही कि उसने ऐसा कुछ किया ही नहीं था. तहलका संवाददाता ने हैदराबाद में यासिर की गिरफ्तारी के एक महीने पहले 12 जून को उससे मुलाकात की थी. उस वक्त यासिर अपने पिता द्वारा स्थापित वर्कशॉप में काम कर रहा था. उसका कहना था, “मेरे पिता और भाई को फंसाया गया है.”
ऐसा लगता है कि अंतर्मुखी यासिर फर्जी मामलों का शिकार हुआ है. 27 सितंबर 2001 को सिमी पर प्रतिबंध लगाए जाने के वक्त वो सिमी का सदस्य था. (तमाम सरकारी प्रचार के बावजूद देश की किसी अदालत ने अभी तक एक संगठन के रूप में सिमी को आंतकवाद से जुड़ा घोषित नहीं किया है) यासिर ने देश भर में फैले उन कई लोगों की बातों को ही दोहराया जिनसे तहलका ने मुलाकात की थी. उसने कहा कि सिमी एक माध्यम था जो धर्म में गहरी आस्था और आत्मशुद्धि का प्रशिक्षण देता था और इसका आतंकवाद या फिर भारत विरोधी साजिशों से कोई नाता नहीं था। “सिमी चेचन्या से लेकर कश्मीर तक मुसलमानों पर हो रहे अत्याचारों की बात करता था”, यासिर ने बताया. “उसने कभी भी बाबरी मस्जिद का मुद्दा नही छेड़ा और इसी चीज़ ने हमें सिमी की तरफ आकर्षित किया”, वो आगे कहता है.
मौलाना नसीरुद्दीन
सिमी पर जिस दिन प्रतिबंध लगाया गया था उसी रात हैदराबाद में यासिर और सिमी के कई प्रतिनिधियों को ग़ैरक़ानूनी गतिविधि निरोधक क़ानून के तहत गिरफ्तार कर लिया गया. अगले दिन उन्हें ज़मानत मिल गई. एक दिन बाद ही पुलिस ने तीन लोगों को सरकार के खिलाफ भाषण देने के आरोप में गिरफ्तार कर लिया. दो लोगों को फरार घोषित कर दिया गया जिनमें यासिर भी शामिल था. उन्होंने कोर्ट में आत्मसमर्पण किया और उन्हें जेल भेज दिया गया. यहां यासिर को 29 दिनों बाद ज़मानत मिली. इस मामले में सात साल बीत चुके हैं, लेकिन सुनवाई शुरू होनी अभी बाकी है.
यासिर के पिता की किस्मत और भी खराब है. इस तेज़ तर्रार मौलाना की पहचान सरकार के खिलाफ ज़हर उगलने वाले के रूप में थी, विशेषकर बाबरी मस्जिद और 2002 के गुजरात दंगो के मुद्दे पर इनके भाषण काफी तीखे होते थे. तमाम फर्जी मामलों में फंसाए गए मौलाना को हैदराबाद पुलिस ने नियमित रूप से हाजिरी देने का आदेश दिया था.
इसी तरह अक्टूबर 2004 को जब मौलाना पुलिस में हाजिरी देने पहुंचे तो अहमदाबाद से आयी एक पुलिस टीम ने उन्हें गिरफ्तार कर लिया। उनके ऊपर गुजरात में आतंकवादी साजिश रचने और साथ ही 2003 में गुजरात के गृह मंत्री हरेन पांड्या की हत्या की साजिश रचने का आरोप था।
मौलाना के साथ पुलिस स्टेशन गए स्थानीय मुसलमानों ने वहीं पर इसका विरोध करना शुरू कर दिया। इस पर गुजरात पुलिस के अधिकारी नरेंद्र अमीन ने अपनी सर्विस रिवॉल्वर निकाल कर फायर कर दिया जिसमें एक प्रदर्शनकारी की मौत हो गई। इसके बाद तो जैसे पहाड़ टूट पड़ा। नसीरुद्दीन के समर्थकों ने अमीन के खिलाफ एफआईआर दर्ज करने की मांग को लेकर मृत शरीर को वहां से ले जाने से इनकार कर दिया। अंतत: हैदराबाद पुलिस ने दो एफआईआर दर्ज कीं। एक तो मौलाना की गिरफ्तारी का विरोध करने वालों के खिलाफ और दूसरी अमीन के खिलाफ।अमीन के खिलाफ दर्ज हुआ मामला चार साल में एक इंच भी आगे नहीं बढ़ा है। हैदराबाद पुलिस को उनकी रिवॉल्वर जब्त कर मृतक के शरीर से बरामद हुई गोली के साथ फॉरेंसिक जांच के लिए भेजना चाहिए था। उन्हें अमीन को गिरफ्तार करके मजिस्ट्रेट के सम्मुख पेश करना चाहिए था। अगर गोली का मिलान उनके रिवॉल्वर से हो जाता तो इतने गवाहों की गवाही के बाद ये मामला उसी समय खत्म हो जाता। पर ऐसा कुछ नहीं किया गया।
अमीन, मौलाना नसीरुद्दीन को साथ लेकर अहमदाबाद चले गए और उनके खिलाफ दर्ज एफआईआर फाइलों में दब कर रह गई। अमीन ही वो पुलिस अधिकारी हैं जिनके ऊपर कौसर बी की हत्या का आरोप है। कौसर बी गुजरात के व्यापारी सोहराबुद्दीन की बीवी थी जिसकी हत्या के आरोप में गुजरात पुलिस के अधिकारी वंजारा जेल में है। अमीन भी अब जेल में हैं।
इस बीच अमीन के खिलाफ हैदराबाद शूटआउट मामले में शिकायत दर्ज करने वाले नासिर के साथ हादसा हो गया। नासिर मौलाना नसीरुद्दीन का सबसे छोटा बेटा और यासिर का छोटा भाई है। इसी साल 11 जनवरी को कर्नाटक पुलिस ने नासिर को उसके एक साथी के साथ गिरफ्तार कर लिया। जिस मोटरसाइकिल पर वो सवार थे वो चोरी की थी। पुलिस के मुताबिक उनके पास से एक चाकू भी बरामद हुआ था। पुलिस ने उनके ऊपर ‘देशद्रोह’ का मामला दर्ज किया।
आश्चर्यजनक रूप से पुलिस ने अगले 18 दिनों में दोनों के 7 कबूलनामें अदालत में पेश किए। इनमें से एक में भी इस बात का जिक्र नहीं था कि वो सिमी के सदस्य थे। इसके बाद पुलिस ने आठवां कबूलनामा कोर्ट में पेश किया जिसमें कथित रूप से उन्होंने सिमी का सदस्य होना और आतंकवाद संबंधित आरोपों को स्वीकार किया था। 90 दिनों तक जब पुलिस उनके खिलाफ आरोप पत्र दाखिल करने में नाकाम रही तो नासिर का वकील मजिस्ट्रेट के घर पहुंच गया, इसके बाद क़ानून के मुताबिक उसे ज़मानत देने के अलावा और कोई चारा नहीं था। लेकिन तब तक पुलिस ने नासिर के खिलाफ षडयंत्र का एक और मामला दर्ज कर दिया और इस तरह से उसकी हिरासत जारी रही। इस दौरान यातनाएं देने का आरोप लगाते हुए उसने पुलिस द्वारा पेश किए गए कबूलनामों से इनकार कर दिया।
दोनों को पुलिस हिरासत में भेजने वाले मजिस्ट्रेट बी जिनाराल्कर ने तहलका को एक साक्षात्कार में बताया:
“जब मैं उन्हें न्यायिक हिरासत में भेजने के लिए जरूरी कागजात पर दस्तखत कर रहा था तभी अब्दुल्ला (दूसरा आरोपी) मेरे पास आकर मुझसे बात करने की विनती करने लगा।” उसने मुझे बताया कि पुलिस उसे खाना और पानी नहीं देती है और बार-बार पीटती है। वो नासिर के शरीर पर चोटों के निशान दिखाने के लिए बढ़ा। दोनों लगातार मानवाधिकारों की बात कर रहे थे और चिकित्सकीय सुविधा मांग रहे थे”।
“मुझे तीन बातों से बड़ी हैरानी हुई—वो अपने मूल अधिकारों की बात बहुत ज़ोर देकर कर रहे थे। वो अंग्रेज़ी बोल रहे थे और इस बात को मान रहे थे कि उन्होंने बाइक चुराई थी। मेरा अनुभव बताता है कि ज्यादातर चोर ऐसा नहीं करते हैं।”
जब एक पुलिस सब इंस्पेक्टर ने मजिस्ट्रेट को फोन करके उन्हें न्यायिक हिरासत में न भेजने की चेतावनी दी तब उन्होंने सबसे पहले सबूत अपने घर पर पेश करने को कहा। “उन्होंने मेरे सामने जो सबूत पेश किए उनमें फर्जी पहचान पत्र, एक डिजाइनर चाकू, दक्षिण भारत का नक्शा जिसमें उडुपी और गोवा को चिन्हित किया गया था, कुछ अमेरिकी डॉलर, कागज के दो टुकड़े थे जिनमें एक पर www.com और दूसरे पर ‘जंगल किंग बिहाइंड बैक मी’ लिखा हुआ था।
जब मैंने इतने सारे सामानों को एक साथ देखा तो मुझे लगा कि ये सिर्फ बाइक चोर नहीं हो सकते। बाइक चोर को फर्जी पहचान पत्र और दक्षिण भारत के नक्शे की क्या जरूरत? उनके पास मौजूद अमेरिकी डॉलर से संकेत मिल रहा था कि उनके अंतरराष्ट्रीय संपर्क हैं। कागज पर www.com से मुझे लगा कि वे तकनीकी रूप से दक्ष भी हैं। दूसरे कागज पर लिखा संदेश मुझे कोई कूट संकेत लगा जिसका अर्थ समझने में मैं नाकाम रहा। इसके अलावा जब मैंने दक्षिण भारत के नक्शे का मुआयना शुरू किया तो उडुपी को लाल रंग से चिन्हित किया गया था। शायद उनकी योजना एक धार्मिक कार्यक्रम के दौरान उडुपी में हमले की रही हो।”
“मुझे लगा कि इतने सारे प्रमाण नासिर और अब्दुल्ला को पुलिस हिरासत जांच को आगे बढ़ाने के वास्ते हिरासत में भेजने के लिए पर्याप्त हैं।”
तो क्या मौलाना हलीम, मुकीमुद्दीन यासिर, मौलाना नसीरुद्दीन, और रियासुद्दीन नासिर के लिए कोई उम्मीद है? यासिर और नासिर की मां को कोई उम्मीद नहीं है। वे गुस्से में कहती हैं, “क्यों नहीं पुलिस हम सबको एक साथ जेल में डाल देती है।” फिर गुस्से से ही कंपकपाती आवाज़ कहती है, “और फिर वो हम सबको गोली मार कर मौत के घाट उतार दें।”

Friday, September 11, 2009

कृष्णा हमारे मंत्री हैं या चीन के प्रवक्ता

कृष्णा हमारे मंत्री हैं या चीन के प्रवक्ता: तरुण विजय
8 Sep 2009, 1139 hrs IST,नवभारतटाइम्स.कॉम अभिषेक मेहरोत्रा
नई दिल्ली ।। चीन की बढ़ती घुसपैठ पर विदेश मंत्री एम.एस.कृष्णा के बयान को आड़
े हाथों लेते हुए चीन ऐक्स्पर्ट माने जाने वाले तरुण विजय ने कहा कि लगता है कि कृष्णा हमारे मंत्री न होकर चीन के प्रवक्ता बन गए हैं। उन्होंने कहा कि इस समय डिफेन्सिव होने के बजाए, चीन के साथ कड़क लहजे में बात करने की जरुरत है, ताकि चीन इस तरह की हरकत करने से पहले सौ बार सोचे। तरुण विजय ने यूपीए सरकार पर सवाल दागते हुए कहा कि सरकार जवाब दे कि चीन की इस तरह की हिमाकत के हिम्मत कैसे हुई और अब सरकार चीन पर कैसे नकेल कसेगी। भारत-चीन विशिष्ट जनसमिति (विदेश मंत्रालय) के पूर्व सदस्य और भारत-चीन संबधों पर शियाचुंग यूनिवर्सिटी के फेलो रह चुके तरुण विजय ने नवभारतटाइम्स डॉट कॉम से बात करते हुए कहा कि जहां तक मैं समझता हूं चीन हमेशा से ही ऐसा करता आया है, जब भी भारत से कोई प्रतिनिधि चीन यात्रा पर होता है, तो चीन इस तरह की कोई न कोई कार्यवाही कर अपना पक्ष रखता है।पूर्व राष्ट्रपति के.आर.नारायण के साथ अपनी चीन यात्रा का संस्मरण करते हुए तरुण विजय बताते हैं कि ऐसा उस समय भी हुआ था, तब पैंगॉन्ग (जो कि दुनिया की खारे पानी की सबसे ऊंची झील है और जिसका दो-तिहाई हिस्सा चीन में और एक तिहाई हिस्सा भारत में हैं) में तीन चीनी पेट्रॉल बोट्स ने घुसपैठ की थी। ऐसा ही तब हुआ जब अभी कुछ माह पहले राष्ट्रपति प्रतिभा पाटिल ने अरुणाचल प्रदेश की यात्रा पर की, तब भी चीन से अरुणाचल पर अपना हक जताया था। ऐसै कमोवेश चीन हमेशा से करता आया है, वह आपकी बात सुनने से पहले अपना दावे ठोकने की कोशिश करता है।

सेना झूठ बोल रही है या फिर विदेश मंत्री?

सेना झूठ बोल रही है या फिर विदेश मंत्री?
8 Sep 2009, 1549 hrs IST,टाइम्स न्यूज नेटवर्क नई दिल्ली ।। लेह इलाके में बढ़ती चीनी घुसपैठ की खबरों के बीच सेना और विदेश मंत्रालय में मतभेद साफ नजर
आ रहा है। दरअसल, सेना के अधिकारियों ने यह माना था कि चीनी सैनिक भारतीय सीमा में घुसे थे और यह उनके लिए एक मुद्दा है जिसपर वे चीनी अधिकारियों के साथ बातचीत करेंगे। लेकिन, विदेश मंत्रालय ने इसके उलट यह कहा कि यह कोई मुद्दा नहीं है और भारत और चीन के बीच की सीमा 'सबसे शांतिपूर्ण' है। विदेश मंत्री एस. एम. कृष्णा ने कहा कि इस मसले पर (घुसपैठ) भारत और चीन के बीच एक मानक प्रक्रिया है। कृष्णा ने कहा, 'मैं यह ऑन द रेकॉर्ड कह सकता हूं कि दूसरे पड़ोसी देशों के बनिस्बत भारत और चीन की सीमा सबसे शांतिपूर्ण है। इस मुद्दे पर कोई समस्या नहीं है'। यह उन्होंने तब कहा जब पत्रकारों ने उनसे चीन की तथाकथित घुसपैठ (हेलीकॉप्टर और लेह में अंतरराष्ट्रीय सीमा का उल्लंघन) के बारे में पूछा। जबकि, जम्मू-कश्मीर से आ रही खबरों के मुताबिक चीनी सैनिकों ने लेह में अंतरराष्ट्रीय सीमा का उल्लंघन किया और भारतीय सीमा में कुछ चरवाहों को भी धमकाया। इस मसले पर भारत का रुख अभी तक बेहद संतुलित रहा है और भारत का यह मानना है कि चीन के साथ वास्तवित नियंत्रण रेखा (Line of Actual Control - LAC) ठीक से परिभाषित नहीं है और सीमा को लेकर चीन, भारत की समझ से इत्तफाक नहीं रखता। विदेश मंत्रालय के एक वरिष्ठ अधिकारी ने बताया कि भारत ने पेइचिंग से LAC के विवादित हिस्सों पर सफाई मांगी है लेकिन चीन ने अबतक इसका जवाब नहीं दिया है। विदेश मंत्री का यह बयान उस वक्त आया है जब भारतीय सेना ने चीनी घुसपैठ के पुख्ता सबूत जुटाए हैं। चीनी सैनिकों ने भारतीय सीमा में घुसकर लाल रंग के स्प्रे पेंट से चीनी भाषा में चट्टानों पर चीन लिख दिया। सेना के सूत्र कहते हैं कि इस मामले पर चीनी अधिकारियों के साथ चर्चा की जाएगी। एक अधिकारी के मुताबिक, भारतीय सीमा में चीनी घुसपैठ कोई नई बात नहीं है लेकिन ऐसा पहली बार है कि उन्होंने चट्टानों पर चीन लिख दिया।
भारत के तीस टुकड़े करने का एक चीनी सपना

भारत के तीस टुकड़े करने का एक चीनी सपना

भारत के तीस टुकड़े करने का एक चीनी सपना
1 Sep 2009, 0812 hrs IST,नवभारत टाइम्स अवधेश कुमार
हाल के अरसे
में भारत के खिलाफ चीन की आक्रामकता में बढ़ोतरी होती दिखाई दी है। जहां जम्मू - कश्मीर के लेह इलाके में चीनी हेलिकॉप्टरों की घुसपैठ की घटनाएं हुई हैं , वहीं सिक्किम में नाथु - ला पर दोनों देशों की सेनाओं के बीच हल्के संघर्ष की खबरें भी मिलीं। कुछ ही दिनों पहले एक चीनी थिंक टैंक ने यह सलाह अपनी सरकार को दी है कि चीन को भारत के 20-30 टुकड़े कर देने चाहिए। हालांकि इसी दौरान भारत - चीन के बीच सीमा विवाद सुलझाने के लिए वार्ताएं भी हुई हैं , पर इस बीच चीन की तरफ से घुसपैठ आदि की जो घटनाएं हुई हैं , उनसे चीन के व्यवहार और उद्देश्य को लेकर भ्रम पैदा होता है। चीनी थिंक टैंक - चाइना इंटरनैशनल इंस्टिट्यूट फॉर स्ट्रेटेजिक स्टडीज की वेबसाइट पर झान लू नामक लेखक ने लिखा है कि चीन अपने मित्र देशों - पाकिस्तान , बांग्लादेश , नेपाल और भूटान की मदद से तथाकथित भारतीय महासंघ को तोड़ सकता है। झान लू तमिल और कश्मीरियों को आजाद कराने और अल्फा जैसे संगठनों का समर्थन करने की बात भी कहते हैं। झान कहते हैं कि चीन बांग्लादेश को प . बंगाल की आजादी को समर्थन देने के लिए प्रोत्साहित करे , ताकि एक बांग्ला राष्ट्र का उदय हो सके। वह अरुणाचल प्रदेश में 90 हजार वर्ग किलोमीटर जमीन को मुक्त कराने की सलाह भी देते हैं। चीनी सरकार को सलाह देने वाले थिंक टैंक की यह वेबसाइट अधिकृत हो या नहीं , पर यह इस बात का प्रमाण तो है ही कि वहां के बुद्धिजीवी अभी भी भारत के बारे में क्या सोचते हैं। ऐसी व्याख्याएं करते वक्त वे यह भूल जाते हैं कि आजादी के बाद भारत के टूट जाने संबंधी उतने सिद्धांत सामने नहीं आए हैं जितने चीन के। चीन की टूट की भविष्यवाणी करने वालों में चीनी सरकार से असंतुष्ट , ताइवानी पृष्ठभूमि से लेकर अन्य श्रेणी के लोग भी शामिल हैं। ये चीन का विखंडन निश्चित मानते हैं। जापान में केनिची ओहमेइ ने लिखा है कि चीन के टूटने के बाद 11 गणराज्य पैदा हो सकते हैं , जो एक ढीलाढाला संघीय गणराज्य कायम कर लेंगे। 1993 में दो विद्वानों ने युगोस्लाविया से तुलना करते हुए चीन की संभावित टूट के प्रति आगाह किया था। उन्होंने केंद्रीय सरकार के वित्तीय केंद्रीकरण की नीति को युगोस्लाविया के समान मानते हुए कहा कि इस वजह से इस देश को एक रख पाना संभव नहीं होगा। सोवियत संघ एवं पूर्वी यूरोप में कम्युनिस्ट शासन के ध्वंस काल में अमेरिकी रक्षा विभाग ने चीन के भविष्य के आकलन के लिए एक 13 सदस्यीय पैनल का गठन किया , जिसमें बहुमत से चीन के बिखर जाने की बात कही गई थी। 1995 में यूनिवसिर्टी ऑफ कैलिफोनिर्या के प्रो . जैक गोल्डस्टोन ने फारेन अफेयर्स में लिखे अपने लेख ' द कमिंग चाइनीज कोलैप्स ' में कहा कि अगले 10 से 15 वर्षों में चीन के शासक वर्ग के सामने बड़ा संकट पैदा होगा। इसके संदर्भ में उन्होंने बुजुर्गों की बढ़ती आबादी , कर्मचारियों व किसानों का असंतोष और नेतृत्व के बीच मतभेद का संकट तथा वित्तीय कमजोरियों के कारण नेतृत्व की प्रभावकारी शासन करने की क्षमता में तेज गिरावट आदि का उल्लेख किया था। यूनिवर्सिटी ऑफ कैलिफोर्निया के ही गॉर्डन सी . चांग ने अपनी पुस्तक - कमिंग कोलैप्स ऑफ चाइना में चीन की आर्थिक संस्थाओं की कमजोरियों का विस्तृत विश्लेषण करते हुए कहा है कि विश्व व्यापार संगठन में उसका प्रवेश उसके विघटन का कारण बन जाएगा। ऐसे और भी उदाहरण हो सकते हैं। इसके पक्ष - विपक्ष में मत हो सकते हैं , किंतु कम से कम भारत के बारे में तो ऐसी भविष्यवाणियां नहीं की गई हैं। 1962 में चीन से धोखा खाने और अरुणाचल पर उसके लगातार दावे के बावजूद भारत का कोई नागरिक उसके विखंडित होने की कामना नहीं करता है। लेकिन जब 1991 में सोवियत संघ का विघटन हुआ और उसके फलस्वरूप जब दूसरे कम्युनिस्ट देश बिखरने लगे तभी से यह सवाल उठाया जाने लगा था कि क्या अब चीन के टूटने की बारी है ? ताइवान पहले ही उसके नियंत्रण से मुक्त हो चुका है। उसके समर्थकों को चीनी नेता विखंडनवादी ( स्प्लिटिस्ट ) कहते हैं। चीन तो तिब्बती धर्मगुरु दलाई लामा से भी खौफ खाता है। इसी तरह शिनच्यांग के उइगुरों के विद्रोह को विदेशी शक्तियों का दुष्टतापूर्ण षडयंत्र कहा गया। चीन इस बात को लेकर आशंकित रहता है कि कहीं शिनच्यांग के मुसलमान मध्य एशिया के साथ न मिल जाएं। चीन दावा करता है कि तिब्बत और शिनच्यांग दोनों सदियों से उसके भाग रहे हैं। किंतु 20 वीं सदी में ही शिनच्यांग में पूवीर् तुकिर्स्तान गणराज्य का प्रभुत्व था , जो 1949 में चाइनीज पीपल्स लिबरेशन आर्मी के दबाव में समाप्त हो गया। स्वतंत्र तिब्बत का इतिहास तो काफी पुराना है। 1912 से 1949 के बीच एक आजाद देश के रूप में तिब्बत के वजूद से तो कोई इनकार नहीं कर सकता। और फिर 1959 में तिब्बतियों के विद्रोह को कौन भूल सकता है ? हालांकि इस समय माना जा रहा है कि तिब्बत या शिनच्यांग के विदोहियों को सफलता मिलना संभव नहीं। दलाई लामा तो अब आजादी की मांग भी नहीं कर रहे हैं। लेकिन तिब्बत की आजादी के समर्थकों की संख्या चाहे जितनी हो और चीन चाहे जितनी निष्ठुरता से भूभागीय अखंडता के विरुद्ध आवाज उठाने वालों को कुचलने की स्थिति में हो , यह लौ बुझ नहीं सकती। चीन के शासन के खिलाफ पूरा पश्चिमी जगत भी है। पश्चिमी देश तो चाहते हैं कि भारत चीन के खिलाफ खड़ा हो। अगर भारत उनके साथ खड़ा हो गया और तिब्बतियों से लेकर अन्य विक्षुब्ध लोगों अथवा गुटों की , अलगाववादी संघर्ष के लिए ठीक वैसी ही मदद करने लगा जैसे अपने लेख में झान लू ने चीन सरकार को भारत के खिलाफ सुझाव दिए हैं , तो चीन के न जाने कितने टुकड़े हो जाएंगे। इसलिए चीनियों को भारत की ओर उंगली उठाने की जगह अपने बारे में विचार करना चाहिए।

रखे-रखे सड़ गया 5,300 टन गेहूं

रखे-रखे सड़ गया 5,300 टन गेहूं
11 Sep 2009, 0812 hrs IST,टाइम्स न्यूज नेटवर्क नई दिल्ली ।। यह एक ऐसी बर्बादी है जो देश को काफी महंगी साबित हो सकती है। ऐसे साल जब देश के एक बड़े हिस
्से में सूखे की स्थिति से खरीफ की फसल पर बुरा असर पड़ सकता है, देश के कई हिस्सों में खाद्यान्नों की बर्बादी की खबरें हैं। ऐसा स्टोरेज की कमी और एक जगह से दूसरी जगह लाने-ले जाने की लचर व्यवस्था के कारण है। पंजाब के तरन तारन में करीब 5,300 टन गेहूं, जिसकी कीमत करीब 5 करोड़ रुपये होगी, अधिकारियों की उपेक्षा से सड़ चुका है। यह जानवरों के खाने लायक भी नहीं रह गया है इसलिए अब इसे फर्टिलाइजर बनाने के लिए नीलाम किया जाएगा। यह गेहूं करीब 30,000 लोगों के लिए एक साल की रोटी के काम आ सकता था। रिपोर्टों के मुताबिक, राज्य सरकार ने यह गेहूं 2006-07 में खरीदा था और इसे एस. के. राइस मिल के कॉम्प्लेक्स में स्टोर किया गया था। गेहूं के बोरे जिस लकड़ी के बेस पर रखे थे, उसने बारिश के मौसम में कीड़ों के पनपने के लिए रास्ता खोल दिया। इससे पानी से सुरक्षा के लिए लगाया गया तरपाल कवर भी बेकार हो गया और गेहूं पूरी तरह कीड़ों के हवाले हो गया। जिले के फूड ऐंड सिविल सप्लाई कंट्रोलर राकेश कुमार सिंगला ने बताया कि गेहूं सड़ चुका है और अब जल्दी ही इसकी नीलामी की तारीख का ऐलान कर दिया जाएगा। अन्न की बर्बादी का यह अकेला मामला नहीं है। 21 अगस्त को टाइम्स ऑफ इंडिया ने खबर दी थी कि चंडीगढ़ से 50 किलोमीटर दूर खमानू में गेहूं के लाखों बैग, जो 50-50 किलो के थे, खुले में रखे जाने से खराब हो चुका है। एक किसान गुरमीत सिंह (72) ने बताया कि पिछले दो साल में मैंने किसी को भी इस गेहूं को ढकते हुए नहीं देखा है। एक सवाल के जवाब में बीती 4 अगस्त को संसद में केंद्रीय कृषि मंत्री शरद पवार ने कुछ आंकड़े जारी किए थे। इसके मुताबिक, इस वित्त वर्ष के पहले दो महीनों में ही देश में गेहूं और चावल का करीब 0.62 पर्सेंट स्टॉक लाने-ले जाने और खराब स्टोरेज के कारण बर्बाद हो चुका है।हालांकि फूड कॉरपोरेशन ऑफ इंडिया की स्टोरेज सुविधाएं आमतौर पर अच्छी हैं, पर एग्रीकल्चर एक्सपर्ट्स के मुताबिक राज्यों की वेयरहाउसिंग कॉरपोरेशनें अक्सर न्यूनतम सुरक्षा उपाय भी नहीं अपनातीं। अन्न की बर्बादी का एक बड़ा कारण गोदामों की कमी का होना है। उड़ीसा में यह समस्या ज्यादा गहरी है। वहां स्टोरेज सुविधाएं ना होने से ना तो राज्य सरकार ज्यादा खरीद कर पाती है और ना ही किसान माल सही मात्रा में बेच पाते हैं। बिहार में चावल का सरप्लस है पर गोदामों की कमी वहां बड़ा संकट है।

बीरबल की खिचड़ी बन गई शीला की दाल

बीरबल की खिचड़ी बन गई शीला की दाल
30 Jul 2009, 0831 hrs IST,नवभारत टाइम्स प्रिन्ट ईमेल Discuss शेयर सेव कमेन्ट टेक्स्ट:
नई दिल्ली ।। दालों की बढ़ती कीमत से दिल्लीवासियों को राहत दिलाने का दिल्ली सरकार का फॉर्म्युला पहले ही दिन फ्लॉप शो साबित हुआ। काफी जगहों पर दालों का स्टॉक नहीं पहुंचा और जहां पहुंचा भी तो बेहद देरी से। कई जगह तो सस्ती दाल बिकने के बारे में बैनर भी नहीं लगे थे। पूरी दिल्ली में लोग सुबह 9 बजे से ही सस्ते दाम पर दाल खरीदने पहुंचने लगे थे , लेकिन तीन से चार घंटे तक इंतजार करने के बाद आखिरकार लोगों को मायूस होकर लौटना पड़ा। साउथ दिल्ली के पुष्प विहार में तो लोगों का सब्र जवाब दे गया और उन्होंने सर्कल ऑफिस के बाहर खूब हंगामा किया। उधर , दिल्ली के फूड और सप्लाई मंत्री हारून यूसुफ ने ट्रैफिक जाम को दालों के देर से पहुंचने की वजह बताया है। दाल के दामों में पिछले कुछ दिनों में बेतहाशा बढ़ोतरी हुई है। ऐसे में लोगों को सस्ती दामों पर दालें उपलब्ध कराने के लिए दिल्ली सरकार ने अपने फूड डिपार्टमंट के सभी सर्किल ऑफिसों के अलावा दिल्ली सचिवालय में बुधवार से दालों की बिक्री शुरू करने की घोषणा की थी। आधिकारिक सूत्रों का कहना है कि दिल्ली के 80 सेंटरों में से लगभग 40 पर ही दाल पहुंची। हालांकि इनमें से भी कई सेंटरों पर शाम तक ही स्टॉक पहुंच सका। हालांकि हारून यूसुफ का दावा है कि 65 सर्किलों पर दाल पहुंचा दी गई। उनका कहना है कि सरकार के पास दाल की कमी नहीं है और राजधानी में जब तक दालों की कीमतें सामान्य स्तर पर नहीं आ जातीं , तब तक सरकार लोगों को सस्ते दाम पर दाल उपलब्ध कराती रहेगी। उन्होंने बताया कि बुधवार को ट्रैफिक जाम की वजह से दालों से लदे ट्रक सही समय तक सर्किल ऑफिसों तक नहीं पहुंच पाए। गुरुवार से दाल की सप्लाई सुनिश्चित करने के लिए विभाग के एक अधिकारी को एक ट्रक के साथ तैनात किया जाएगा। शालीमार बाग में रहने वाले एक बुजुर्ग बी . एन . कृष्णन सुबह 9 बजे ही सस्ती दाल लेने फूड डिपार्टमेंट के सर्किल ऑफिस पहुंच गए थे। धीरे - धीरे वहां और लोग भी जुटने लगे। अधिकारियों को भी दाल के देरी से आने के बारे में कोई जानकारी नहीं थी। आखिरकार करीब साढ़े तीन घंटे की देरी से एक टेम्पो दाल लेकर पहुंचा।

पड़ोसियों से विवाद

पड़ोसियों से विवाद
भारत-चीन सीमा विवादःइतिहास से सबक की जरूरत (9th Sep 09)
भास्कर डॉट कॉम
चीनी सेना ने लद्दाख में कई जगहों पर घुसकर चट्टानों को लाल रंग से रंग दिया है, कई स्थानों पर अपने झंडे लगा दिए हैं। हमारी सेना इनकार कर रही है। रक्षामंत्री कह रहे हैं कि कोई विवादित मुद्दा नहीं है। लद्दाख की सीमाओं पर एकदम शांति है। वे पूरे मामले को मीडिया की देन बता रहे हैं। उधर चीनी विदेश मंत्रालय ने भी इसे पूरी तरह से आधारहीन बताया है। वहां के विदेश मंत्रालय ने कहा है कि दोनों देशों की सेनाएं सीमाओं का सम्मान कर रही हैं। दोनों ही तरफ से लॉ एंड आर्डर को बनाए रखा जा रहा है। अरूणांचल प्रदेश में भी चीनी सेना की घुसपैठ चलती रहती है। दोनों ही क्षेत्रों की ऐसी गतिविधियों के बारे में रक्षा विश्लेषकों का मानना है कि कहीं तो आग होगी तभी धुआं दिखाई दे रहा है। चीनी सरकार भले ही इस मामले को दबने का प्रयास कर रही हों, लेकिन चीन की सेना लगातार घुसपैठ कर रही है, इसमें शक नहीं है। बहरहाल कुछ भी हो। पूरे मुद्दे पर अतीत से सबक सीखे जाने की जरूरत है। नेहरू युग में भी इसी तरह की परिस्थितियों में हमें ना सिर्फ एक बेहद खर्चीला युद्ध लड़ना पड़ा था बल्कि चीन ने भारत का लाखों वर्ग किमी भू-भाग हथिया लिया था बल्कि आज तक उसे कब्जे में रखे हैं। हम न तो चीन से इस मुद्दे पर कभी खुलकर बात कर पाए ना ही उसे साफ शब्दों में अपने सीमांत हितों पर चेतावनी दे पाए थे। समस्या हमारी विदेश नीति में छुपी है। हमें कभी भी राष्ट्रीय हितों को लेकर उग्र नीति अपनाने वाले देशों मे नहीं गिना गया है। अन्य राष्ट्रों के बीच हमारी छवि कुछ कमजोर और दब्बू देश की है, जो अपने हितों पर ढुलमुल सा रवैया अपनाता है। आजतक अपने हितों की पैरवी के लिए आक्रमक रूख अपनाते नहीं देखा गया। कश्मीर का प्रश्न हो या आतंकवाद का मुद्दा या इसी तरह का कोई अन्य मसला हमारी इसी कमजोरी के चलते हम अकसर अंतरराष्ट्रीय मंचों पर गच्चा खाते रहे हैं। ऐसे में हमें अतीत से सबक लेकर इसी बात को सुनिश्चित करना चाहिए कि फिर हमारी कमजोरी हमारे भविष्य को कलंकित ना कर दे...

Wednesday, September 9, 2009

इशरत जहां का इनकाउंटर फर्जी नहीं थाः गुजरात सरकार

8 Sep 2009, 1716 hrs IST,एजेंसियां अहमदाबाद ।। गुजरात सरकार ने इशरत जहां केस की न्यायिक जांच रिपोर्ट को खारिज करते हुए इसे ऊंची अदालत में
चुनौती देने का फैसला किया है। उसने मेट्रोपॉलिटन मैजिस्ट्रेट एस. पी. तमांग पर न्यायाधिकार की हद से बाहर कदम उठाने का भी आरोप लगाया है। रिपोर्ट में गुजरात पुलिस पर आरोप लगा है कि उसने जून 2004 में कॉलेज स्टूडेंट इशरत जहां और उसके तीन दोस्तों जावेद गुलाम उर्फ प्रनेश कुमार पिल्लई, अमजद अली उर्फ राजकुमार अकबर अली राणा और जीशान जौहर अब्दुल गनी को फर्जी मुठभेड़ में मार गिराया था। पुलिस का कहना है कि ये लोग लश्कर-ए-तैबा से जुड़े थे और सीएम नरेंद्र मोदी को मारना चाहते थे। गुजरात सरकार ने कहा है कि केंद्र को भी पता था कि इन लोगों का टेरर लिंक है। चारों के बारे में भारत सरकार ने सुप्रीम कोर्ट में हलफनामा दाखिल किया था, जिसमें कहा गया था कि ये लोग लश्कर से जुड़े हैं। यह हलफनामा इशरत की मां शमीना की याचिका पर सुनवाई के दौरान दाखिल किया गया था। राज्य सरकार के प्रवक्ता और कैबिनेट मंत्री जयनारायण व्यास ने कहा कि जांच रिपोर्ट कानूनसम्मत नहीं है और इसलिए राज्य सरकार इसे चुनौती देगी। उन्होंने कहा कि जांच में इस मामले में जो धाराएं लगाई गई हैं वह तर्कसंगत नहीं हैं। व्यास अचंभित हैं कि मेट्रोपॉलिटन मैजिस्ट्रेट कैसे मामले की जांच को आगे बढ़ा सकते हैं जबकि 13 अगस्त 2009 को गुजरात हाई कोर्ट ने इसके लिए एक उच्च स्तरीय पुलिस जांच का आदेश दे दिया था। इसके लिए 30 नवंबर तक का समय निर्धारित किया गया था।

'फर्जी मुठभेड़ में हुई थी इशरत की मौत'

Sep8, 2009, 1030 hrs IST,नवभारत टाइम्स शेयर सेव कमेन्ट टेक्स्ट:
अहमदाबाद ।। गुजरात सरकार को करारा झटका देते हुए एक न्यायिक जांच में कहा गया है कि इशरत जहां की हत्या फर्जी एंकाउंटर मे हुई है। जांच के अनुसार कॉलेज में पढ़ने वाली लड़की इशरत जहां और तीन अन्य को संदिग्ध रूप से मुख्यमंत्री नरेंद्र मोदी की हत्या के मिशन पर बताकर 2004 में की गई उनकी हत्या दरअसल पुलिस की फर्जी मुठभेड़ का मामला था। मेट्रोपॉलिटन मैजिस्ट्रेट एस.पी. तमांग की जांच रिपोर्ट सोमवार को यहां मेट्रोपॉलिटन अदालत में जमा कराई गई। इसमें कहा गया है कि पाकिस्तान स्थित आतंकवादी संगठन लश्कर ए तैबा से भी संबंधित बताकर पुलिस ने इन चारों की नृशंस तरीके से हत्या की। मैजिस्ट्रेट तमांग ने अपनी रिपोर्ट में दावा किया कि चारों का आतंकवादी संगठन लश्कर ए तैबा से कोई संबंध नहीं था। उल्लेखनीय है कि मुंबई की रहने वाली 19 वषीर्य इशरत जहां और तीन अन्य व्यक्ति जावेद गुलाम शेख उर्फ प्रणेश कुमार पिल्लई, अमजद अली उर्फ राजकुमार, अकबर अली राना और जीशान जौहर अब्दुल गनी को 15 जून, 2004 को पुलिस मुठभेड़ में मार गिराया गया था। क्राइम ब्रांच के तत्कालीन चीफ डी.जी. वंजारा ने तब दावा किया था कि इन चारों का लश्कर-ए-तैबा से संबंध था और ये मोदी की हत्या के मिशन पर आए थे। सोहराबुद्दीन फर्जी मुठभेड़ मामले में मुख्य अभियुक्त वंजारा फिलहाल सलाखों के पीछे है।गुजरात हाई कोर्ट ने इशरत जहां मुठभेड़ मामले में आगे की जांच-पड़ताल के लिए बीते माह अतिरिक्त पुलिस महानिदेशक स्तर के अधिकारी की अध्यक्षता में तीन सदस्यीय समिति का गठन किया था। इशरत की मां शमीना की याचिका पर यह समिति गठित की गई थी। शमीना ने आरोप लगाया था कि गुजरात पुलिस ने फर्जी मुठभेड़ में उनकी बेटी को मार गिराया। मुख्यमंत्री नरेंद्र मोदी के शासनकाल में सोहराबुद्दीन फर्जी मुठभेड़ मामले के बाद इस तरह का यह दूसरा मामला है जिसकी जांच दोबारा कराई जा रही है। न्यायिक जांच रिपोर्ट में कहा गया है कि पुलिस अधिकारियों और उनके मातहतों ने अपने सर्विस रिवॉल्वर्स का इस्तेमाल करते हुए चारों की नृशंस तरीके से हत्या कर दी। मेट्रोपॉलिटन मैजिस्ट्रेट एस.पी.तमांग की जांच रिपोर्ट में कहा गया है कि मुठभेड़ फर्जी थी। चारों को पॉइंट ब्लैंक रेंज से गोली मारी गई। यहां तक कि पोस्टमॉटर्म रिपोर्ट के मुताबिक चारों की मौत गोलियां लगने से हुई।
'इशरत के टेरर लिंक थे, पर एन्काउंटर जायज नहीं'
ep 2009, 1838 hrs IST,पीटीआई नई दिल्ली।। केंद्र सरकार ने कहा है कि वह इस बात पर कायम है कि इशरत जहां और उसके दोस्तों के टेरर लिंक थे लेकिन आतंकवादियों की निर्मम हत्या को वह जायज नहीं मानती। इशरत जहां और उसके तीन दोस्तों के गुजरात पुलिस द्वारा किए गए एनकाउंटर पर उठे सवाल के बीच होम सेक्रटरी ने कहा है कि चारों को संदिग्ध आतंकावादी बताने वाले अपने ऐफिडेविट पर केंद्र कायम है।होम सेक्रटरी जी.के. पिल्लई ने कहा,'जो तथ्य हमारे पास थे उसका जिक्र ऐफिडेविट में किया गया है। हम इससे पीछे नहीं हट रहे हैं।' इतना कहने के साथ ही उन्होंने यह भी जोड़ा कि आतंकवादियों की सीधे हत्या नहीं की जा सकती । जाहिर है वह संकेत देने की कोशिश कर रहे थे कि कानूनी प्रक्रिया का पालन किया जाना चाहिए। पिल्लई ने यह साफ किया कि इशरत और उसके साथियों के एन्काउंटर में कोई भी केंद्रीय एजेंसी शामिल नहीं थी। उन्होंने कहा कि एन्काउंटर फर्जी था या नहीं, यह तय करना होम मिनिस्टरी का काम नहीं है। इसका फैसला कोर्ट को करना था।गौरतलब है कि एक जूडिशल रिपोर्ट में इशरत जहां और उसके दोस्तों के एन्काउंटर को फर्जी करार दिया गया था। इसके बाद गुजरात सरकार ने मंगलवार को रिपोर्ट पर सवाल उठाते हुए इसे ऊपरी अदालत में चुनौती देने की बात कही थी। साथ ही यह भी कहा था कि केंद्र को भी पता था कि इन लोगों का टेरर लिंक है। चारों के बारे में भारत सरकार ने सुप्रीम कोर्ट में ऐफिडेविट दाखिल किया था, जिसमें कहा गया था कि ये लोग लश्कर से जुड़े हैं। यह ऐफिडेविट इशरत की मां शमीना की याचिका पर सुनवाई के दौरान दाखिल किया गया था।