Friday, May 29, 2009

ढूंढ़ते रह जाओगे राहुल की रणनीति!

ढूंढ़ते रह जाओगे राहुल की रणनीति!
ठहत्तर-सदस्यीय मनमोहन सिंह मंत्रिमंडल के सदस्यों के बीच किए गए विभागों के बंटवारे की इस खूबी की दाद दी जानी चाहिए कि इसमें जहां पुरानों को उनकी पिछले पांच सालों के दौरान की गई सेवा के लिए इज्जत के साथ पुरस्कृत किया गया है, नौजवानों को विभाग केवल आंखों में सुरमा लगाकर घूमने की नीयत से ही नहीं बांटे गए हैं। बंटवारे में की गई मेहनत इस बात से नजर आती है कि यूपीए के सहयोगी दलों - तृणमूल कांग्रेस, राष्ट्रवादी कांग्रेस पार्टी और द्रमुक - को उनकी देश को जरूरत और गठबंधन में उनकी हैसियत के हिसाब से ही तोहफे थमाए गए हैं।सरकार को आने वाले पांच सालों में कुछ काम करके दिखाना है और पिछले कार्यकाल में मजबूरीवश हुई गलतियों पर रंग-रौगन भी करना है, इसी लिहाज से अधिकतर महत्वपूर्ण विभाग अनुभवी कांग्रेसी मंत्रियों के हवाले किए गए हैं।
आने वाले जमाने में भूतल परिवहन और राष्ट्रीय राजमार्ग पर जिस तरह का काम किया जाना है इसका इशारा भी कर दिया गया है। द्रमुक के चर्चित मंत्री टी.आर. बालू के नेतृत्व में पिछले कार्यकाल में हुई दुर्घटनाओं को दुरुस्त करने के लिए यह विभाग इस बार कमलनाथ को सौंप दिया गया है।ए. राजा (द्रमुक) को दबावों के चलते संचार और आई.टी. फिर से दे तो दिया गया है पर उनके साथ सचिन पायलट को नत्थी कर दिया गया है। इसी प्रकार करुणानिधि के साहबजादे एम. के अड़गिरि को रसायन और उर्वरक के साथ काबीना मंत्री बनाया गया है पर उनके पीछे श्रीकांत जेना को लगा दिया गया है। अति महत्वपूर्ण विभागों के बंटवारे में भी टीमें इस प्रकार बनाई गई है कि काबीना मंत्री अपने युवा साथी के साथ मिल-जुलकर काम कर सकें।
मसलन वाणिज्य एवं उद्योग मंत्रालय के साथ पदोन्नत होने वाले आनंद शर्मा के साथ ज्योतिरादित्य सिंधिया, मुरली देवड़ा (पेट्रोलियम और प्राकृतिक गैस) के साथ जितिन प्रसाद, विलासराव देशमुख (भारी उद्योग और सार्वजनिक उपक्रम) के साथ प्रतीक पाटिल और एस.एम. कृष्णा (विदेश मंत्रालय) के साथ शशि थरूर और परणीत कौर को जोड़ा गया है। कपिल सिब्बल (मानव संसाधन), गुलाम नबी आजाद (स्वास्थ्य एवं परिवार कल्याण), अंबिका सोनी (सूचना एवं प्रसारण) को महत्वपूर्ण विभाग देकर सरकार में उनके महत्व को बढ़ाया गया है। पिछली सरकार के कई काबीना मंत्रियों के विभागों में कोई परिवर्तन नहीं करना भी सरकार के इरादों को ही जाहिर करता है। बंटवारों की विशेषता यह भी है कि वफादारी को पुरस्कृत करने के साथ-साथ युवा चेहरों पर भी मुस्कान लाने की पूरी कोशिश की गई है। नए मंत्रिमंडल को ठीक से समझने के लिए उन नामों का स्मरण किया जा सकता है जिनकी फिल्में पीछे के पांच सालों में घटी दरों पर चलती भी रहीं और दर्शक मजबूरी में देखते भी रहे। मंत्रिमंडल के गठन में हुई देरी और फिर विभागों के बंटवारे में हुए विलंब के लिए डॉ. मनमोहन सिंह को केवल इसलिए माफ कर देना चाहिए कि पंद्रहवीं लोकसभा के नेतृत्व के लिए बनी सरकार का लक्ष्य केवल अगले पांच साल का कामकाज ही ठीक से निपटाना नहीं है। निशाने पर वे कार्यकाल हैं जिनका शुरू होना भविष्य के गर्भ में छुपा हुआ है। विपक्षी दलों के लिए भी संकेत यही है कि वे भी अपनी नीतियों को उसी हिसाब से अंजाम दें।

کانگریس آگئ اپنی پرانی ڈگرپر

Wednesday, May 27, 2009

ہم کب تک اپنی قبر آپ کھودیں گے؟

ہم کب تک اپنی قبر آپ کھودیں گے؟
میم ضاد فضلی
آزادی کو تقریباً62سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس درمیان وطن عزیز نے فرقہ وارانہ فسادات اور ایک دوسرے کو زیر کردینے کے اس قدر تاسف ناک واقعات دیکھے ہیں جسے کسی بھی جمہوری نظامِ حکومت کے لیے مناسب اور جائز قرار نہیں دیا جا سکتا ۔زمام حکومت نے کارفرما عناصر کی جانب داری اور عصبیت سے معمور طرزعمل نے متعدد مقامات پر ملک کو رسوا کرنے کا کارنامہ انجام دیا ہے۔ کہیں سوچی سمجھی سازش کے تحت مسلم اقلیت کو ذلت وپستی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈال دینے کی کوشش کی گئی تو کہیں انہیں غربت ویاس میں زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا۔جمہوری منظرنامہ کا قابل غور سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوا اور ملک کی ایک بڑی اقلیت کو اس قدر پستی میں ڈال دینے کی کوششیں بار آور کیسے ہوئیں۔ اسی کے ساتھ ان عواقب و احوال کو بھی جاننا بے حد ضروری ہے۔ جس سے ایک زندہ قوم کی آنکھیں کھولتی ہے اور مستقبل میں سبک گام ترقی کی جانب دوڑ پڑنے میں مدد ملتی ہے۔ اس سلسلہ کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوںکا سب سے پہلے اس جانب توجہ کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ جہاں پہنچنے کے بعد اس کے لیے اپنی منزل آپ تلاش لینے کی راہیں آسان ہوتی ہےں۔مختصر یہ کہ مسلمانوں کو مختلف تمام پارٹیوں نے تقسیم کرکے بے وزن کردینے کی مذموم کوشش کی گئی ۔ مسلم دشمن عناصر کو اپنے اس مقصد کی تکمیل کے لیے ایسے افراد دستیاب ہو گئے جنہیں عہدہ ومنصب کے بدلے پوری ملت کو برباد کر دینا گوارہ تھا۔ منافقین کا یہ طبقہ جو پوری طرح اسلام دشمن طاقتوں کا تربیت یافتہ تھا۔ اس نے مسلمانوں کو بآسانی یرغمال بنانے لینے میں اپنی پوری توانائی صرف کر دی اوراس طرح اسے وہ کامیابی ہو گئی جو ان کے آقاﺅں کی ہدایات پر ضروری تھی۔ نتیجہ کار مسلمان اتنے خانوں میں تقسیم ہو گئے کہ ان کی بہتر تعداد کے باوجود سیاسی جماعتوں کے لیے ان کی حیثیت کسی توجہ کے قابل نہیں رہ سکی۔ پارلیمنٹ میں مسلم نمائندگی کے فقدان نے اسلام دشمن عناصر کو ہر وہ کام کرنے اور ہمارے کے خلاف سازشیں تیار کرنے کا پورا موقع فراہم کیا جو پارلیمنٹ میں ہمارے وجود ساتھ ان کے لیے کبھی بھی ممکن نہیں ہو سکتا تھا۔ دنیا جانتی ہے کہ تمام قوم کے ترقیاتی منصوبے اور پروگرام پارلیمنٹ یا ایوان میں ہی ترتیب دیے جاتے ہیں۔ اگر اسی خاص مقام پر ہمارا وجود نہیں رہا تو پھر ہمیں مٹا دینے میں سرگرم طاقتیں کیا کیا گل کھلائیں گی اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ اسلام دشمن طاقتوں کی سازش نہایت پرانی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ وہ اس قدر مضبوط ہو چکی ہے کہ اب اس سے بچ پانا آسان نہیں ہے۔ ہمارا آپسی اختلافات اور خاندان وطبقاتی جنگ ان کی آنکھوں میںآچکا ہے، انہوں نے محسوس کر لیا کہ مسلمانوں کو آپس میں دست وگریباں رکھنا اتنا ہی آسان ہے جتنا کسی جیب کترے کے لیے غافل کی جیب خالی کرنا، انہیں آپس میںٹکرا دو، یہ آپسی جنگوں میں اتنے ماہر ہےں کہ ایک بار محاذ آرا ہونے کے بعد انہیں اس وقت تک ہوش نہیں ہوتا جب تک کہ ان کی کئی کئی نسلیں تباہ نہ ہو جائیں۔پارلیمنٹ میںہماری نمائندگی میں آج تک ہزار کوششوں کے باجوود اضافہ نہ ہونے کی اہم وجہ یہی ہے ۔حقیقت یہی ہے کہ آج ہم ملک کی تقریباً 100سیٹوں پر اتنی تعداد میں ہیں کہ اگر ہم نے اتحاد سے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کر لیا تو کم از کم 80سے 90ممبران پارلیمنٹ کو ایوان میں بھیجنا ہمارے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل ہو سکتا ہے۔مگر برا ہو ناعاقبت اندیشی کا اور حرص وہوس میں غرق کالے لوگوں کا جنہوں نے کسی فلم کے ویلن کی طرح یہ طے کر لیا کہ اپنی دنیا آباد ہوتی رہے چاہیں اس کے بدلے میں اسے پوری ملت کو تباہ کر دینا پڑے۔وہ اس کے لیے ہمیشہ مستعد اور سرگرم رہتے ہیں کہ کسی طرح ان کا بھلا ہو اور ملت تباہی کے اس دہانے تک پہنچ جائے جہاں سے نجات کی ساری راہیں اس کے لیے ختم ہو جاتی ہوں۔ جائزہ کے طور پر صرف اتر پردیش کو ذہن میں رکھیں اور غور کریں کہ ملک کی اس بڑی ریاست میں میں لگ بھگ 20 پارلیمانی حلقے ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کی تعداد 25سے 50فیصد کے درمیان ہے۔ مگر افسوس ہے کہ ہماری قوم عام انتخابات کے زمانہ میں فرقہ پرست طاقتوں کی سازشوں کا شکار ہو کر اپنے ووٹوں کو برباد کر لیتی ہے اور اس طرح دشمنوں کو بآسانی کامیابی مل جاتی ہیں۔گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں ریاست کی 12سیٹوں پر مسلم امیدوار دوسرے نمبر تھے اور ان کے بالمقابل وہ لوگ کامیاب ہو ئے جنہیں پارلیمنٹ میں پہنچ کر مسلمانوں کی تباہی کے منصوبے ترتیب دینے ہیں۔ مذکورہ حلقوں میں دوسرے نمبر پر رہنے والے مسلم امیدوار کی ہزیمت کا فاصلہ کہیں کہیں محض 5ہزار کے اندر ہے۔کچھ ایسے امیدوار بھی ہماری کج فہمیوں کی وجہ سے دوسرے نمبر پ رہے جنہیں 20ہزار ووٹ مزید مل گئے ہو تے تو پارلیمنٹ میں ان کے لیے کرسی مخصوص کر دی گئی ہوتی۔ پوری ریاست میں صرف گیارہ مسلم امیدواروں کو کامیابی مل سکی۔اگر اسی پیمانے پر ملک کا جائزہ لیا جائے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیںہوگا کہ ہماری مردہ قوم اگر آپسی مفاد کو بھلا کر اس سلسلہ میں متحد ہو جائے تو پارلیمنٹ میں ہماری نمائندگی میں خاطر خواہ اضافہ کو دنیا کی کوئی بھی طاقت نہیں روک سکتی۔ اگر ہم نے اپنے ووٹوں کا متحدہ استعمال کرکے اپنے نمائندوں کو پارلیمنٹ تک پہنچانے میں کامیابی حاصل کر لی تو پھر کسی سچر کمیٹی یا مشرا کمیشن کی رپورٹوں والی شرمندگی کا سامنا کرنے کی کوئی ضرورت نہیںرہے گی۔یہ اسی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے جب ہم ملک کے دیگر طبقات کی طرح اس پہلو پر سنجیدگی سے غور کرکے اپنے ووٹوں کا صحیح استعمال کر لیا تو یقین جانئے کہ پھر آنے والے دنوں میں ہمیں اپنی ترقی اور فلاح کے لیے کسی جماعت کے پاس کشکول گدائی لے کرذلت پر مجبور ہونے سے بچ سکیں گے۔

Tuesday, May 26, 2009

وعدوں سے فقط بات نہیں بننے والی

وعدوں سے فقط بات نہیں بننے والی
میم ضاد فضلی
عام انتخابات کے نتائج نے جہاں بی جے پی کے فلک بوس دعوﺅں اور قوم کی آنکھ مےں دھول جھونکنے والے بےانات کی حقےقت روشن کردی ہے وہےں چچا اڈوانی کے وزےر اعظم بننے کے خواب کو نہ صرف ےہ کہ چکنا چو رکردےا ہے بلکہ مستقبل مےں بھی ان کے لئے دہلی کی گدی نشےنی کے تمام دروازے بند کردئےے ہےں۔جب کہ کانگرےس کو اس کی امےدو ںاور دعوﺅں سے بڑھ کر قوم کی حماےت ملی ہے۔اتنی بڑی تعداد مےں ووٹروں کا تعاون اور ےوپی اے کے بےشتر لےڈران کو دہلی تک پہنچانااس بات کا واضح ثبوت ہے کہ لٹی پٹی ہندوستانی قوم کو اب ترقی چاہئے۔انہوں نے ےقےن کرلےا ہے کہ ترقی کے لئے ہمارے سنہرے بھارت کا پرامن اور فتنہ فسادات سے پاک ہونا ضروری ہے۔امن کے وجود کے بغےر ترقی کی کوئی بھی کرن وطن عزےز کی پشت پر اپنی روشنی نہےں ڈال سکتی۔موجودہ نتائج کے سلسلے میں سےاسی گلےارو ںمےں جتنی بھی ہلچل مچ رہی ہے اور انتخابات مےں ےوپی اے کی کامےابی پر سےاسی ماہرےن جتنے بھی تجزےے اور تبصرے پےش کررہے ہےں ان تمام کا لب لباب تقرےباً ےہی ہے کہ بی جے پی کو اس کے لےڈران کی آگ برسانے والی زبانو ںنے جلا یاہے۔ملک کے تقرےباً بےشتر حصوں مےں اس کی ناکامی کا اصل سبب نرےندر مودی، ورون گاندھی، آدتےہ ناتھ ےوگی، بی اےل شرما جےسے ننگ اسلاف کردارہیں۔بار بار ان نےتاﺅں کے زہرےلے بےانوں نے ملک کی بقا اور ترقی پر ڈنک مارنے کی جگہ خود اپنی پارٹی کے لئے ہی قبر کھودنے کا سامان فرہم کر دےاہے۔قصہ¿ مختصر ےہ کہ بی جے پی کو اس کی امن مخالف پالےسےاں، قوم کو تقسےم کرنے والی اسکےمےں اور ملک کو فرقہ وارانہ تشدد کی آگ مےں جھونک دےنے والی سوچوں نے پسپائی اور ہزےمت کا منہ دکھاےاہے۔بی جے پی کے پالےسی سازوں کی بدقسمتی ےہ ہے کہ انہوں نے بزعم خود ےہ ےقےن کرلےا ہے کہ وہ اگر مسلمانو ںکو گالےاں دےں گے،دےگر اقلےتوں پر فقرے کسےں گے اور اسی طرح ملک مےں نفرت کے تےر چلاتے رہےں گے تو اس سے ان کے من کی مراد پوری ہو جائے گی۔ممکن ہے ےہ ان کی مجبوری بھی ہو کہ ان کے ےہاں تےار کی جانے والی ہر پالےسی پر ناگپور کی مہر لگنی ضروری ہے۔جہاں سے قےامت کی صبح تک انہےں نفرت انگےز خےالات اور پےغامات کے علاوہ کوئی مثبت لائحہ عمل نہےں مل سکتا۔اب ےہ بی جے پی کو سوچنا ہے کہ اسے ترقی کے اس دور مےں بھی آر اےس اےس کی غلامی کا قلادہ اپنی گردن مےں ڈالے رکھنا ہے ےا سےاسی منظر نامے پر باقی رہنے کے لئے ملک کی ترقی اور خےر خواہی کے لئے منصوبے اور خاکے ترتےب دےنے ہےں۔واضح رہے کہ حالےہ انتخابات کے نتائج نے ان تمام سےاسی جماعتوں پرجوتشدد کے راستے سے اقتدارپر قابض ہونے کی تمنارکھتی ہیںےہ ظاہر کردےا ہے کہ ملک مےں آپ کی نفرت اور متعصبانہ سوچو ںکو قبول کرنے والوں کی تعداد آٹے مےں نمک برابر ہے۔ملک کا بےشتر شہری ترقی کا خواہش مند ہے اور امن اس کی زندگی کا سب سے اہم خواب۔اگر آپ قوم کے سپنو ںکا ماحول اور اس کی آرزوﺅں کا ہندوستان فراہم کرسکتے ہےں تو اقتدار پر آپ کا حق ہے ورنہ تقسےم درتقسےم کی سوچوں سے عبارت سےاست کے ساتھ دہلی کے تخت کی جانب دےکھنا اس لومڑی کاتماشا قراردیاجائے گا جس نے انگور تک رسائی نہ ہونے کے بعد مجبوراً کہہ دےا تھا کہ انگور کھٹے ہےں۔حالانکہ بھارتےہ جنتا پارٹی کے سےنئر مسلم رہنما سےد شاہنواز نے اس بات کا اعتراف کےا ہے اور مےڈےا کے ذرےعہ انہو ںنے اپنے اعلیٰ کمان پر ےہ واضح کردےا ہے کہ اگر انہےں اپنے سےاسی مستقبل کو باقی اور پائےدار رکھنا ہے تو اقلےتو ںکو ساتھ لے کر چلنا پڑے گا، نفرت انگےز بےانات اور مذہبی تشدد سے اپنے آپ کو علےحدہ کرنا ہوگا۔مگر اپنی پارٹی کے مذکورہ لےڈر کی بات بی جے پی پالےسی سازوں کے ذہن و دماغ کو اپےل کرسکے گی ےہ کہنا مشکل امر ہے۔بہرحال مذہبی بغض و عناد کے ذریعہ اقتدار کا شےش محل تےار کرنے والی بی جے پی کا جنازہ اس کے شدت پسند لےڈرو ںکے کندھے پر آچکا ہے۔ اب کانگرےس کے لئے اپنے کھوئے ہوئے وقار اور عوام کے پامال شدہ اعتماد کو بحال کرنے کے لئے ان تمام منصوبوں اور لائحہ عمل کو وجود مےں لانا ناگزےر ہو گےا ہے جس کی بنےاد پر رائے دہندگان کا معتد بہ حصہ بھےڑ کے رےوڑ کی طرح اس کے تنبومےں جمع ہو گےا ہے۔کانگرےس کو اپنے منتشر ماضی سے سبق لےتے ہوئے حال کو سدھار کر مستقبل کے لئے اپنے قدم کو بارآور اور تابناک کرنے کی فکر کرنی ہوگی۔اب نہ ماضی کا ہندوستان رہا اور نہ ےہاں کے شہرےوں مےں دور جاہلےت کا وہ بھولا پن جس کی بنےاد پر سےاسی جماعتےں انہےں اپنی سازش کا شکار کرلےا کرتی تھےں۔رائے دہندگان جاگ چکے ہےں اور تعلےم نے ان کی آنکھےں بھی کھول دی ہےں۔اب وہ ہر فےصلے اور اقدامات سے پہلے اپنے راست و چپ کا بارےکی سے جائزہ لےتے ہےں ، گفتار کو کردار کی کسوٹی پر تولتے ہےں ،عملی طو رپر مستحکم، زندہ اورپابندعہدجماعتو ںکو اپنے ووٹوںاور حماےتوںکا مستحق گردانتے ہےں۔ اب شخصےت بھی رائے دہندگان کے لئے کسی توجہ اور عناےات کا مرکز نہےں رہ سکی ہےں۔لالو پرساد ےادو، رام ولاس پاسوان،ڈاکٹر شکےل احمد،شنکر سنگھ واگھےلا، رےتا بہوگنا جوشی اور مختار عباس نقوی جےسے سےاست کے تخت و تاج کی پسپائی اور بے بسی نے ےہ ثابت کردےا ہے کہ عملی طور پر ناکام لےڈرو ںکا قد چاہے جتنا بھی بلند ہو وہ عوام کی نگاہوں مےں خاک سے بھی زےادہ اہمےت نہےں رکھتے۔ماضی مےں سےاسی جماعتو ںنے اپنے انتخابی منشور کے ذرےعہ قوم کو ےرغمال بنانے اور ان کے جذبات و اعتماد کا خون کرنے کی جو رواےت عام کی تھی اب اسے بھول جانا چاہئے۔اب قومےں زندہ ہےں اور تمام سےاسی جماعتوں کے انتخابی منشور کی اےک اےک سطروں پر ان کی نگاہےں رہتی ہےں۔اگر کسی جماعت نے اپنے منشور کو انتخابی وعدوں کے کتابچہ کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی تو اسے اس کا اتنا سنگےن خمےازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے جس کے بعد کبھی بھی معرکہ¿ سےاست مےں دو دو ہاتھ کرنے کی طاقت و ہمت ان کے اندر نہےں رہ سکے گی۔کانگرےس نے اپنے انتخابی منشور مےں ملک و قوم کی ترقی اور فلاح کے حوالے سے جتنے بھی وعدے کئے ہےں بالخصوص سچر کمےٹی کی سفارشات کانفاذ،اقلےتو ںکی معاشی و تعلےمی بہتری کے لئے اقدامات وغیرہ۔ ےاد رکھناچاہئے کہ انتخابی منشور کی ان شقوں کو اےک اےک رائے دہندگان نے رٹ لےاہے اور دور اقتدار کے پانچ برسوں مےں وہ بار بار سےاسی جماعتوں کے وعدوں کوعمل کی کسوٹی پرپرکھتے بھی رہیںگے اور عملی طو رپر لاپرواہ اور فریبی پائے جانے کی صورت مےں ان کا انتقامی جذبہ مشتعل ہو جائے گا ۔ پھر رائے دہندگان ےہ نہےں دےکھیں گے، کہ گزشتہ بار جس جماعت پر انہو ںنے اپنی توانائےاں اور حماےتےں نچھاور کی تھےں اس کا امےدوار اس بار ناکام ہو کر اسے دوہری مصےبت مےں ڈال دے گا۔جذبہ¿ انتقام سے سرشار رائے دہندگان نقصان کا سودا تو کرلےتے ہےں مگر اپنے ووٹ دھوکے بازوں کی جھولی مےں کبھی نہےں ڈالتے۔اتفاق سے 60سالہ شدائد و آلام نے ہندوستانی مسلمانو ںکو بھی خوف کی اس نفسےات سے باہر لاکھڑا کےا ہے جس کے تحت اسے فرقہ پرست طاقتوں کا خوف دلا کر سےکولر جماعتےں رام کرتی تھےں۔ مسلسل احساس کمتری کا شکار بنا کر انہےں اپنا اسےر بنا لےنے والی پالےسےو ںکو مسلمانو ںنے اب دھتکارنا شروع کردےا ہے۔اب مسلمانوں کے مطالبات امےدےں اور ان اقدامات اور منصوبوں پر ٹکی ہےں ،جہاں سے ترقےات کے درےچے کھلتے ہےں،غربت زےر ہوتی ہے اور چہرے پر خوشحالی کے آثارنمایاں ہوتے ہےں۔لہذا کانگرےس کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئندہ کے لئے اپنی زمےن ہمواراور ثمر آور بنانے کی فکر ابھی سے شروع کردے۔اس کی عدل اور انصاف پر مبنی کوششےں اور اقدامات اقلےتو ںکی بھرپور حماےتوں کو ناگزےر کردےں گی۔ ورنہ بےس سالہ دورانتظارکے بعد جواعتماد بنا ہے وہ اگر اےک بار پھر انتخابی منشور کو بالائے طاق رکھ دےنے کی وجہ سے اگر سوالات کے گھےرے مےں آگیا تو شاےد پھر سےکولر جماعتو ںکا دوبارہ اقتدار مےں آنا محض اےک خواب رہ جائے گا۔

Friday, May 22, 2009

ALLAM IQBAL AUR QADIAYNI

علامہ اقبال کے بارے میں قادیانیوں کی طرف سے %100 جھوٹ پر مبنی پراپیگنڈا کیا جاتا رہا ہے کہ وہ قادیانی تھے

جہاں تک میری ذاتی تحقیق ہے

میں مندرجہ ذیل ثبوتوں کی بنا پر اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ےہ سرا سر عوام کو گمراہ کرنے کی اےک گھناوءنی سازش ہے۔

ثبوت نمبر 1
علاقمہ اقبال فرماتے ہیں "قادیانیت ےہودیت کا چربہ ہے"

2
"قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دےتے ہوئے مسلمانوں کو ان کے ساتھ ویسا ہی برتاو کرنا چاہئے جیسا وہ دوسری اقلیتوں کے ساتھ روا رکھتے ہیں۔"

(1935)

علامہ اقبال کی وہ تحریر یا تقریر مجھے آجتک با وجود کوشش کہ میسر نہیں ہو سکی جس میں انھوں نے کہا ہو کہ

"علم اگر ذندہ ہے تو صرف قادیان میں"

اس عبارت کا نہ سن نہ کوئی اور حوالہ آجتک مجھے ملا

لہٰذا کم از کم میرے نزدیک ےہ عبارت بھی علامہ صاحب کی نہ ہونے کی وجہ سے علامہ کو قادیانیوں کے ساتھ نتھی کرنے والا سخت غلطی کا مرتکب ہو رہا ہے۔

نیز

کشمےر چلو کمیٹی کا مسئلہ قریبا” تمام دوستوں کو معلوم ہو گا

یہ قادیانیوں کی ذاتی تحریک تھی جس کا سربراہ انھوں نے علامہ مرحوم کو بنایا لیکن اس بات کا علم ہوتے ہی کہ یہ خالصتا” قادیانی تحریک ہے علامہ نے اس تحریک سے علیحدگی اختیار کر لی

باقی انشاءاللہ تعالٰی اگلی تحریر میں مرزا غلام احمد قادیانی کے صدق و کذب پر بات ہو گی نیز اس حدیث پر بھی جو "دارقطنی" میں روایت ہے اور جسکو قادیانی مذہب نے مرزا کی سچائی ثابت کرنے کے لئے ثبوت کے طور پر پیش کیا ہے
اجمالی طور پر بیان کیا جاتا ہے کہ اس حدےث کے الفاظ میں شدےد تحریف کی گئی کیونکہ مرزا صاحب جانتے تھے کہ دار قطنی تو دور کی بات اکثر مسلمانوں کے گھروں میں تو بخاری و مسل بھی موجود نہیں اور اسی چیز کا فئدہ اٹھاتے ہوئے انھوں نے
ترجمہ حدیث
"مہدی علیہ السلام کی نشانی یہ ہو گی کہ رمضان کی یکمٴ
تاریخ کو چاند گرہن ہوگا اور اسی رمضان کی پندرہ تاریخ کو سورج
گرہن اور جب سے یہ کائنات بنی ہے ایسا نہ ہوا ہوگا"

اب قارئین وقت کی کمی کی وجہ سے ایک / دو سوال پوچھوں گا اس کے بعد اجازت چاہوں گا کہ

کیا مرزا کے بتائے ہوئے گرن فلکیات کے عام اصولوں سے ہٹ ہر تھے?
کیا مرزا کے بتائے ہوئے گرہن بے نظیر تھے جیسا کہ حدیث کے الفاظ تقاضا کرتے
ہیں?
کیا مرزا کے بتائے ہوئے گرہن رمضان کی 1 اور 15 تاریخ کو وقع پذیر ہوئے?

میں جانتا ہوں کہ ان کا جواب آپ میں سے بیشتر دوست "نہیں" میں ہی چاہیں گے اور ایسا ہی ہے لیکن پھر بھی تمام قادیانیوں کو دعوت ہے کہ وہ ثابت کر دیں کہ مرزا نے اس ثبوت مہدیت کو تاریخوں کی قید سے اآزاد اس لئے نہیں کیا تا کہ یہ اس کے دعویٰ پر فٹ بیٹھ سکے بلکہ یہ روایت "دار قطنی" میں ایسے ہی ہے جیسے مرزا نے بیان کی تو "میری کل جمع پونجی اس کی" لیکن

الحمد للہ

کہ قیامت تک زور لگا لو اے منکران ختم نبوت

تم کبھی ثابت نہ کر پاوو گے کہ مرزا سچا تھا

Wednesday, May 20, 2009

jalwa

गो जाम मेरा ज़हर से लबरेज़ बोहत है
क्या जानिए क्यूँ पीने से परहेज़ बोहत है

शोकेस में रखा हुआ औरत का जो बुत है
गूंगा ही सही फिर भी दिल-आवेज़ बोहत है

अशआर के फूलों से लदी शाख-ए-तमन्ना
मिट्टी मेरे अहसास की ज़रखेज़ बोहत है

खुल जाता है तनहाई में मलबूस के मानिंद
वोह रश्क-ए-गुल-ए-तर कि कम-आमेज़ बोहत है

मौसम का तकाजा है कि लज्जत का बदन चूम
ख्वाहिश के दरख्तों में हवा तेज़ बोहत है

आंखों में लिए फिरता है ख़्वाबों के जज़ीरे
वोह शाइर-ए-आशुफ्ता जो शब्-खेज़ बोहत है

Tuesday, May 19, 2009

अहले-ए-दिल और भी हैं अहल-ए-वफ़ा और भी हैं
एक हम ही नहीं दुनिया से खफा और भी हैं

हम पे ही ख़त्म नहीं मस्लक-ए-शोरीदासरी
चाक दिल और भी हैं चाक कबा और भी हैं

क्या हुआ अगर मेरे यारों की ज़ुबानें चुप हैं
मेरे शाहिद मेरे यारों के सिवा और भी हैं

सर सलामत है तो क्या संग-ए-मलामत की कमी
जान बाकी है तो पैकान-ए-कज़ा और भी हैं

मुंसिफ-ए-शहर की वहदत पे ना हरफ आ जाये
लोग कहते हैं की अरबाब-ए-जफ़ा और भी हैं
खुली आंखों में सपना झांकता है
वो सोया है कि कुछ कुछ जागता है!

तेरी चाहत के भीगे जंगलों में
मेरा तन, मोर बन कर नाचता है

मुझे हर कैफियत में क्यूँ न समझे
वो मेरे सब हवाले जानता है

मैं उसकी दस्तरस में हूँ, मगर वोह
मुझे मेरी रज़ा से माँगता है

किसी के ध्यान में डूबा हुआ दिल
बहाने से मुझे भी टालता है

सड़क को छोड़ कर चलना पडेगा
कि मेरे घर का कच्चा रास्ता है
बेअमल को दुन्या में राहतें नहीं मिलतीं
दोस्तों दुआओं से जन्नतें नहीं मिलतीं

इस नए ज़माने के आदमी अधूरे हैं
सूरतें तो मिलती हैं, सीरतें नहीं मिलतीं

अपने बल पे लड़ती है अपनी जंग हर पीढ़ी
नाम से बुजुर्गों के अज्मतें नहीं मिलतीं

जो परिंदे आंधी का सामना नहीं करते
उनको आसमानों की रफतें नहीं मिलतीं

इस चमन में गुल बूटे खून से नहाते हैं
सब को ही गुलाबों की किस्मतें नहीं मिलतीं

शोहरतों पे इतरा कर खुद को जो खुदा समझे
मंज़र ऐसे लोगों की तुर्बतें नहीं मिलतीं

yaqeen

मेरे जुनूँ का नतीजा ज़रूर निकलेगा
इसी सियाह समंदर से नूर निकलेगा

गिरा दिया है तो साहिल पे इंतज़ार न कर
अगर वोह डूब गया है तो दूर निकलेगा

उसी का शहर, वही मुद्दई, वही मुंसिफ
हमीं यकीन था, हमारा कुसूर निकलेगा

यकीन न आये तो एक बार पूछ कर देखो
जो हंस रहा है वोह ज़ख्मों से चूर निकलेगा
आर्थिक सुधारों को गति दी जाएः मनमोहन
कांग्रेस संसदीय दल द्वारा प्रधानमंत्री पद के लिए लगातार दूसरी बार अ©पचारिक रूप से नामित होने वाले मनमोहन सिंह ने आर्थिक सुधारों को गति देने की अपील करते हुए आज कहा कि भारत पूरब की विकास कर रही अर्थव्यवस्थाअ¨ं से पीछे रहने का जोखिम नहीं उठा सकता। डाॅ. सिंह ने कहा कि हम अब बस छोड़ने का जोखिम नहीं उठा सकते। उन्होंने संकेत किया कि एशिया के कई देश आगे बढ़ रहे हैं और विकास की गति का रुख पश्चिम से पूर्व की अ¨र मुड़ने का मंजर दुनिया देख रही है। संसद के केन्द्रीय कक्ष में आज सुबह कांग्रेस संसदीय दल के सदस्यों को संबोधित करते हुए उन्होंने कहा कि भारत एक बार फिर महान लोकतंत्र के रूप में सिर उठाकर खड़ा है। लेकिन हमारे समक्ष कड़ी चुनौतियां हैं। उन्होंने कहा कि कांग्रेस के प्रति जबरदस्त जनादेश जनता की बढ़ी हुई आकांक्षाअ¨ं के रूप में चुनौती साथ लेकर आया है। जनता अब चालू काम को बरदाश्त नहीं करेगी। सिंह ने कहा कि जनता हमसे नई ऊर्जा शक्ति की उम्मीद कर रही है। वह उम्मीद करती है कि सरकार उसकी आकांक्षाअ¨ं पर खरी उतरे। वह अधिक जिम्मेदार और कुशल सरकार चाहती है। उन्होंने कहा कि सतत विकास दर बनाए रखने के लिए नए निवेश की आवश्यकता है। इसके लिए ऐसा राजनीतिक एवं सामाजिक माहौल तैयार करना होगा जिसमें नया निवेश हो सके, इसके लिए अर्थव्यवस्था में सुधारों की आवश्यकता है।प्रधानमंत्री ने कहा कि कृषि क्षेत्र को पुनर्जीवित करने की आवश्यकता है अ©र विकास की गति बनाए रखने के लिए अ©द्योगिक विकास की गति को भी तेज करने की जरूरत है। उन्होंने कहा कि बचत अ©र निवेश दरों को ऊंचा रखना जरूरी है और वैश्विक आर्थिक चुनौतियों के आलोक में अधिक वैश्विक प्रतिस्पर्धी बनना भी आवश्यक है। सिंह ने कहा कि यदि देश विकास की सतत गति बनाए रखता है तो गरीबी कम हो सकती है, रोजगार के नए अवसर सृजित हो सकते हैं, ग्रामीण विकास की गति तेज हो सकती है और औद्योगीकरण से जनता का जीवन बदला जा सकता है। उन्होंने कहा कि आने वाला समय निर्णायक है। हम मजबूती से आगे बढ़ना है। उन्होंने राजनीतिक विचारधारा से ऊपर उठकर सभी राजनीतिक दलों के सदस्यों की अ¨र दोस्ती का हाथ बढ़ाते हुए उन्हें रचनात्मक विपक्ष की भूमिका निभाने के लिए आमंत्रित किया। प्रधानमंत्री ने कहा कि भारत की जनता ने हमें शानदार जनादेश दिया है। उसने सत्ता विरोधी फैशनेबल सिद्धांत को कूड़ेदान में डाल दिया है। लेकिन हमें संपूर्ण जनादेश अपने पक्ष में करने के लिए अ©र कड़ी मेहनत और बेहतर प्रदर्शन करना होगा। यह हमारी पार्टी अ©र सरकार के लिए एक चुनौती है। उन्होंने सोनिया गांधी की नेतृत्व क्षमता और युवा नेता राहुल गांधी की कड़ी मेहनत को कांग्रेस की प्रभावशाली जीत की वजह बताते हुए दोनों के प्रति आभार व्यक्त किया।
बसपा संप्रग सरकार को बाहर से समर्थन देगी
उत्तर प्रदेश की मुख्यमंत्री मायावती ने आज यहां कहा कि बसपा ने कांग्रेसनीत संप्रग सरकार को बिना शर्त बाहर से समर्थन देने का निर्णय किया है। मायावती ने आज यहां एक संवाददाता सम्मेलन में कहा कि आज सुबह हुई राष्ट्रीय कार्यकारिणी की बैठक में यह तय किया गया है कि जनता के फैसले का सम्मान करते हुए बहुजन समाज पार्टी कांग्रेसनीत संप्रग सरकार को बाहर से बिना शर्त समर्थन देगी। मायावती ने कहा कि पार्टी के राष्ट्रीय महासचिव सतीश चन्द्र मिश्र को अधिकृत किया गया है कि वह समर्थन की चिट्टी ले जाकर राष्ट्रपति अ©र संप्रग अध्यक्ष को सौंपें।
मायावती ने बताया कि उन्होंने लोकसभा चुनाव में संप्रग सरकार की जीत पर प्रधानमंत्री मनमोहन सिंह को बधाई देने के लिए फोन किया था। मायावती के अनुसार फोन पर प्रधानमंत्री ने उनसे कहा- आप मेरी बहन जैसी हैं अ©र हम चाहते हैं कि धर्मनिरपेक्ष ताकतों को मजबूत करने के लिए आप संप्रग सरकार के प्रति सकारात्मक सहयोग दें। उन्होंने बताया कि प्रधानमंत्री की इस बात को आज हुई कार्यकारिणी की बैठक में रखा गया अ©र संप्रग सरकार को बाहर से बिना शर्त समर्थन देने का निर्णय किया गया। मायावती ने कहा कि हमारा समर्थन संप्रग सरकार को इसलिए भी है क्योंकि केन्द्र की सत्ता से साम्प्रदायिक शक्तियों को बाहर रखना चाहते हैं। बसपा प्रमुख ने कहा कि हमने तय किया है कि हमारी पार्टी के 21 सांसद संप्रग सरकार को बाहर से समर्थन देंगे।
اسلام اور شرک دو ایسی چیزیں ہیں جن میں کبھی اتحاد اور بقائے باہم کی فضا نہیں بن سکتی ۔دونوں فطرتاایک دوسرے کی ضد ہیں جن میں کشمکش ناگزیر ہے۔6/دسمبر 1992کی تاریخ اسی کشمکش کے تسلسل کی ایک کڑی ہے۔یہ وہ دن ہے کہ جب ہندو انتہا پسندوں نے حکومت اور سرکاری مشینری کی سرپرستی اور نگرانی میں دن کی روشنی میں پانچ سو سالہ قدیم بابری مسجد کوشہید کرڈالا تھا۔آزادی کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں کیلئے یہ سب سے بدنما داغ ہے جسے اہل اسلام کبھی فراموش نہیں کرسکتے۔ہندوستان کے طول وعرض میںیہ سازشیں ایک مکمل منصوبہ اور حکمت عملی کا نتیجہ ہیںجن کو اسلام دشمن طاقتوں نے بڑی باریک بینی سے بنایا ہے اور اب اس پر پورے عزم وجزم کے ساتھ عمل پیرا ہیں ۔ہندوستان کے مسلمان اس نام نہاد آزادی کے ان 61سالوں میں تقریباََ30ہزار سے زائد مسلم کش فسادات کی آگ جھیل چکے ہیں۔ان کو سماجی ،اقتصادی،اور سیاسی ہر طرح سے ختم کرنے کی کوشش کی جا چکی ہے ۔ایک طرف سے یہ کوششیںتو دوسری طرف سے بے بنیاد پروپیگنڈہ اہل باطل مسلمانوں کی صفوں میں دراڑ ڈالنے کیلئے ہمیشہ کرتے آرہے ہیں ۔عام مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ بابری مسجد کا ایشو صرف ایک مسجد کا معاملہ ہے اس کیلئے پریشان ہونے کی چنداںضرورت نہیںاور اب تو اس پر خواص میں سے بھی بعض لوگ ایمان لاتے نظر آنے لگے ہیں ۔جب کہ اسلام میں مساجد کافی اہمیت کی حامل ہیں انہیں بیت اللہ (اللہ کا گھر)کہا گیا ہے ۔بابری مسجد ہندوستان میں دراصل اسلام اور شرک کی کشمکش کا ایک عنوان ہے اور ہندو احیاء پرست تحریکیں رام مندرکی تعمیر کو بھارت کے ہندوراشٹر بنانے کے عمل میں سنگ میل قرار دیتی ہیں۔اس پورے معاملے کو سمجھنے کیلئے ہمیں ان باتوں کو سامنے رکھنا ہوگا۔

وہ مذاہب جو دنیا کو ایک مکمل نظام حیات دینے کے دعویدار ہیں ،تین ہیں۔١۔یہودیت،٢۔عیسائی،٣۔اسلام
کوئی مذہب اس وقت تک نہ تو دنیا کو مکمل نظام حیات دے سکتا ہے اور نہ ہی اس کا دعویدار ہو سکتا ہے جب تک کہ اس کے پاس یہ تین چیزیںنہ ہوں
(١)ایک ایسی شخصیت جو پوری قوم کے نزدیک مذہبی شخصیت ہو اور اس کی پیروی فرض قرار پائے ۔
(٢)ایک ایسی کتاب جو جملہ امور میں رہنمائی کرسکے اور اس کی حیثیت بنیادی مأخذ کی ہو ۔
(٣)ایک ایسا مرکز جس سے وہ قوم اپنے روحانی اور مذہبی جذبات وابستہ رکھ سکے۔

یہود کے پاس یہ تینوں چیزیں ،حضرت موسیٰ ،توریت اور ھیکل سلیمانی کی شکل میں موجود ہیں۔عیسائیت کے پاس بھی حضرت عیسی ،انجیل اور ویٹکن سٹی کی شکل میں یہ تینوں چیزیں موجود ہیں۔اسلام میں بھی حضرت محمد ۖ ،قرآن اور خانہ کعبہ کی شکل میں موجود ہے ۔ہندو ازم ایک ایسا مذہب ہے جس کی تاریخ بھی ڈھنگ سے مدون نہیں ہے لیکن اب یہ بھی دنیا کو ایک نظام حیات دینے کا دعویدار ہوگیا ہے جب کہ مذکورہ تینوں چیزوں میں سے ایک بھی اس کے پاس متفق علیہ نہیں ہے۔دیومالائی کہانیوں پر مشتمل مذہبی کتابیں دن بہ دن خود ہندو اسکالر کے نزدیک اپنا مقام کھوتی جارہی ہیںاور وہ تعداد میں کئی ایک ہونے کے سبب نزاعی شکل اختیار کرتی جارہی ہیں۔مذہبی کتابوںمیں ''ویداز،رامائن ،بھگوت گیتا،مہابھارت اور پران بطور خاص قابل ذکر ہیں ۔ہر ایک کتاب کو ماننے والا دوسری کتاب پر اس کو فوقیت دیتا ہے ۔کوئی صرف ویداز کو مذہبی کتاب مانتا ہے تو کوئی رامائن کے تقدس کا دم بھرتا ہے ،کوئی گیتا ہی میں اپنے نجات کی راہ ڈونڈھتا ہے ،اسی طرح خداؤں کا معاملہ بھی ہے۔کوئی رام سے آس لگائے بیٹھا ہے ،کوئی کنکر کنکر میں شنکر کا رآگ الاپ رہا ہے ،کوئی لچھمن کی برتری کا قائل ہے ،یہاں تک کہ ہندوستان کے ایک کونے میں راون کی پوجا ہوتی ہے تو دوسرے کونے میںاسے راکشش بتا کر جلا دیا جاتاہے ۔تیسری چیز جو ضروری ہے وہ ایک مرکز یا سینٹرہے،اور وہ بھی یہاں مفقود ہے جو کچھ مذہبی مقامات کے نام پر جگہیں ہیں وہ شدید اختلافات کی نظر ہیں ۔رام کی جس بستی کا ذکر رامائن کے اشلوکوں میں ہے اس کی تفصیل موجودہ اجودھیا سے کسی طرح میل نہیں کھاتی ہے۔مذہبی مقامات میں کاشی ،متھرا،ایودھیا،کانچی پورم وغیرہ کا نام لیا جاتا ہے لیکن ان میں اختلاف کے سبب پوری قوم کسی بھی ایک مقام کو متفقہ طور پر تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔

مذہبی کتاب ،شخصیت اور مرکز پر اتفاق کیلئے ہندوستان کے برہمنوں نے ایک طویل جدوجہد کی اور پوری قوم کوا یک پلیٹ فارم پر لانے کی بھر پور کوشش کی اور یہ کوشش ہنوز جاری ہے۔اسّی کی دہائی میں ''رامائن کا ایک سین ''کے نام سے ایک ٹی وی سیریل شروع کیا گیا اور اس کے لئے بے پناہ پرو پیگنڈہ کیا گیا ۔اس وقت ٹی وی اتنا عام نہیں تھا ۔بڑے بڑے شہروں میں سیریل کا وقت ہونے پر لوگ کام کاج چھوڑ کرسیریل دیکھنے کیلئے جمع ہوجاتے اور یہ سلسلہ ایک لمبے عرصے تک چلاجس سے ہندو قوم کے جذبات کو دوسری مذہبی کتابوں سے ہٹاکر رامائن سے جوڑ دیا گیا اور رامائن سے جذبات وابستہ کرنے کا نتیجہ رام کی بے پناہ مقبولیت کی شکل میں ظاہر ہوا ۔بظاہر یہ منصوبہ بہت کامیاب رہا لیکن معاملہ صرف اتنا ہی نہیں ہے ۔رام کی شخصیت اور رامائن خود اتنے مختلف فیہ ہیں کہ ان کا ازالہ کافی مشکل ہے ۔ہندوستانی زبانوں میں سنسکرت سے لیکر ہندی ،تیلگو ،ملیالم،کنڑا،تمل بنگالی اورمراٹھی وغیرہ زبانوں میں رامائن لکھی گئی ہے ۔اس میںنہ صرف یہ کہ زمان ومکان کا بعد ہے بلکہ ایک ہی کردار کے بارے میں اتنے شکوک وشبہات ہیں کہ سب ایک دوسرے سے جدا نظر آتے ہیں ۔مثلا رام کو کہیں دشرتھ کا بیٹا کہیں پوتا ،کہیں وشنو کے فوجی کمانڈر کابیٹا بتایا گیا ہے ۔دشرتھ کی بیویوں کی تعداد میں عجیب مضحکہ خیزی نظر آتی ہے ۔مختلف رامائنوں میں دشرتھ کی بیویوں کی تعداد ایک سے شروع ہوکر 750 ،اور1600 تک بتائی گئی ہے ۔راجہ دشرتھ کو کہیں بنارس ،کہیں اجودھیا تو کہیں جمبودیپ کا راجہ بتایا گیا ہے ۔رام کی شخصیت اور تعلیمات کے بارے میں کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملتا ۔رامائن کے مختلف مصنفین کے پاس رام کو جاننے کا کیا ذریعہ رہا ہے تاریخ اس بات میں بھی خاموش ہے ۔لیکن پھر بھی آج ہندوستان میں ہندوؤ ں کا ایک بڑا طبقہ رام راج کے نعرے کی گونج میں مست ہوکر رام کی مکمل پیروی کا عہد کر چکا ہے ۔لیکن مطلع ابھی بھی صاف نہیں ہے مذہبی مقدس سرزمین کے بارے میں ابھی بھی بہت کچھ رد وکد باقی ہے ۔سنگھ پریوار اور اس کی حامی تنظیموں نے پورے پچاس سال پوری ہندو قوم کے جذبات کو اجودھیا سے وابستہ کرنے کیلئے لگادئے ۔لاکھوں مسلمان اس مہم کی بھینٹ چڑھ گئے ۔اس مہم کو رفتہ رفتہ ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت مختلف مراحل سے گزارا گیا تا کہ ایک طرف مسلمانوں کی غیرت وحمیت اتنی نہ بڑھے کہ یہ منصوبے ناکام ہوتے نظر آئیں تو دوسری طرف پوری ہندو قوم دھیمے دھیمے اس شہر اور اس جگہ کو اپنا مقدس مرکز رتسلیم کرلے اور اس کیلئے سر دھڑ کی بازی لگا دینے کیلئے تیار ہو جائے ۔اس کیلئے بی جے پی ایک طرف سیاسی طور سے فضا کو ہموار کررہی ہے تودوسری طرف آر ایس ایس نے فکری در اندازی کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے ۔/6 دسمبر1992کو بابری مسجد کی شہادت کے بعد رام مندر کی تعمیر میں تأخیر پر اب بعض ہندو دانشور بھی انگلیاں اٹھا رہے ہیں ۔

بعض تجزیوں کے مطابق رام مندر کی تعمیر کو صرف اس لئے مؤخر کیی گیا کہ ذہن سازی کے کام میں جو کمی اور کوتاہی رہ گئی ہے وہ پوری ہو اور اس ایشو کے ذریعے بی جے پی کوہندواکثریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بار بار اقتدار میں آنے کا موقع ملتا رہے ۔اس پورے ہنگامے میں نام نہاد غیر جانبدارقومی میڈیا نے بھی بہت گل کھلائے ہیں۔مسلسل ایسے مضامین اور تجزیوں کو شائع کرناجن سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوں اور بھگواوادی لوگ سکون کی ٹھنڈی سانس لے سکیں ،اس کا خاص مشغلہ رہا ہے ۔اس کے علاوہ عدالت کے فیصلے میں غیر معمولی تأخیر میں چاہے کسی کو کتنا فائدہ نظر آئے لیکن یہ بات ضرور اہم ہے اس مسئلہ کو مکمل ایشو بنانے میںاس عدالتی تأخیر کے رول سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ہندوستان کے مسلمانوں کو اپنے سامنے یہ بات اچھی طرح رکھنی ہوگی کہ یہ معاملہ صرف ایک مسجد کا معاملہ نہیں ہے ،گو کہ وہ بھی قابل توجہ ہے،بلکہ ہندوستان کے طول وعرض میں اسلام اور شرک کے وجودو بقا کی جدوجہد اورکشمکش کا ایک عنوان ہے۔

آر ایس ایس کے افرادوقتا فوقتا یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ رام مندر کی تعمیر ہندو راشٹر کے قیام کی پہلی منزل ہے اگر رام مندر بن گیا تو ہندو راشٹر کو قائم کرنے میں کوئی قوت مزاحم نہیں ہوسکتی ۔نیز یہی مذکورہ چیزیں کسی قوم وملت کی عزت وآبرو ہوا کرتی ہیںاگر گر وہ محفوظ نہین ہیں تو اس قوم اور ملت کا وجود خطرے میں ہے ۔اور اس کے تحفظ کی جدوجہد سے اپنے آپ کو پیچھے کر لینا اس ملت کیلئے اپنی موت کا سامان آپ کرنے کے مترادف ہے ۔مساجد کی شہادت یا ان پر پابندی ،قرآن سوزی کے واقعات اور رسول اللہ ۖ کی شان میں گستاخی ،کسی بھی چیز سے ہندوستانی مسلمان بچے نہیں ہیں ۔آزادی کے ان 61سالوں میں مسلمانوں کے اندر ایک عدم تحفظ کا احساس جاگزیں رہا ہے۔اور یہ احساس دن بہ دن بڑھتاہی جارہا ہے ۔آنے والے ایام میں عدم تحفظ کے اس احساس سے مسلمانوں کو تو نقصان پہنچے گا لیکن ملک کی سالمیت کیلئے یہ کہیں زیادہ نقصاندہ ثابت ہوگا۔کیا اہل سیاست ہوش کے ناخن لیں گے؟

Monday, May 18, 2009

सपल news

गरीब देश की संसद में हर दूसरा सांसद करोड़पति
नई दिल्ली. 15वीं लोकसभा में जहां हर दूसरा सांसद करोड़पति है, वहीं हर चौथे सांसद के खिलाफ आपराधिक मामला दर्ज है। नवनिर्वाचित सांसदों में से 300 की संपत्ति करोड़ों में हैं। वहीं 150 सांसद ऐसे हैं, जिनके एक या एक से ज्यादा आपराधिक मामले दर्ज हैं। यह विश्लेषण नेशनल इलेक्शन वॉच नामक संस्था ने प्रत्याशियों द्वारा दाखिल शपथ पत्र के आधार तैयार किया है। विश्लेषण के मुताबिक, नवनिर्वाचित सांसदों में से 73 के खिलाफ संगीन मामले दर्ज हैं, यह आंकड़ा पिछली लोकसभा के ऐसे सांसदों से 30.9 फीसदी ज्यादा है। पिछली लोकसभा में 128 सांसदों के खिलाफ आपराधिक मामले और 55 के खिलाफ संगीन मामले विचाराधीन थे।
यूपी से सबसे ज्यादा दागी सांसद आए राज्यों के आधार पर 15 वीं लोकसभा में सबसे ज्यादा उत्तरप्रदेश से निर्वाचित 30 सांसदों के खिलाफ आपराधिक मामले में हैं। इसके बाद महाराष्ट्र (23) व बिहार (17) का स्थान है। मध्यप्रदेश के 4, पंजाब, हरियाणा, राजस्थान व छत्तीसगढ़ के दो-दो व दिल्ली के एक सांसद के खिलाफ आपराधिक मामला है।
करोड़पति सांसदों में भी यूपी आगे
करोड़पति सांसदों में भी उत्तरप्रदेश (52) यूपी सबसे आगे है। इसके बाद महाराष्ट्र (37) व आंध्र प्रदेश (31) का स्थान है। मध्यप्रदेश के 15, राजस्थान के 14, पंजाब के 13, गुजरात के 12, हरियाणा के 9, दिल्ली के 7, हिमाचल प्रदेश के 3 और छत्तीसगढ़ के 2 व चंडीगढ़ का एक सांसद करोड़पति है। सबसे धनवान सांसद खम्मम से टीडीपी के नामा नागेश्वर राव (173 करोड़ रुपए) हैं। दूसरा स्थान हरियाणा के कुरुक्षेत्र से नवीन जिंदल (131 करोड़ रुपए) का है।

करोड़पति सांसद

कांग्रेस : 138

भाजपा : 58

सपा : 14

बसपा : 13

डीएमके : 11

शिवसेना : 9

जेडीयू : 8

बीजेडी : 7

एआईटीसी : 6

शिरोमणि अकाली दल : 6

‘राजनीति में आपराधिक तत्वों के आने का सबसे बड़ा कारण प्रत्याशियों के चयन में पार्टियों की मनमानी है। सभी पार्टियां ईमानदारी की बजाय धन व बाहुबल को जीत का बड़ा पैमाना मानती हैं।’ - अनिल बैरवाल, समन्वयक, इलेक्शन वॉच

‘राजनीतिक दलों की बाहुबलियों को टिकट देने की प्रवृत्ति देश की लोकतांत्रिक व्यवस्था के लिए बड़ा खतरा है। नई सरकार को बाहुबलियों को राजनीति में आने से रोकने का काम अपनी कार्यसूची में शामिल करना चाहिए।’

सच boldoon

Wednesday, May 13, 2009

Usko chaha bhi to izhaar na kerna aya
kat gayi umer humain pyar na kerna aya

samney aiya to Aadab-e-nazar bhool gaye
deed ke shouq main deedar na kerna aya

jab bhi dobey teri yadon k bhanwar main doobey
yeh woh derya hai jo humain paar na kerna aya

wafa kertey kertey humain saari umer beet gayi
mager tumhain ab bhi khud per aitebar na kerna aya

tum ney mangi bhi to sirf judaai mangi
aur hum thay ke inkaar na kerna aya.

درد کااظہار

حال دل

Tuesday, May 12, 2009

राजग को समर्थन देने का सवाल ही नहीं : अमर

समाजवादी पार्टी ने नई सरकार के गठन में भाजपा नेतृत्व वाले गठबंधन राजग को समर्थन देने की किसी भी संभावना से इंकार करते हुए आज कहा कि चुनाव के बाद उसके राजग के साथ जाने का कोई सवाल ही नहीं उठता है। सपा महासचिव अमर सिंह ने यहां संवाददाताओं से कहा कि चुनाव के बाद राजग को समर्थन देने का कोई सवाल ही नहीं उठता है। सपा महासचिव ने कहा कि यह कहा जा रहा है कि सपा ने भाजपा अध्यक्ष राजनाथ सिंह के खिलाफ गाजियाबाद लोकसभा सीट में अपना उम्मीदवार नहीं खड़ा कर उन पर अहसान किया है। यह बात सही नहीं है।
सिंह ने कहा कि सच्चाई यह है कि सपा ने गाजियाबाद लोकसभा सीट में कांग्रेस के उम्मीदवार सुरेंद्र प्रकाश गोयल के खिलाफ अपना उम्मीदवार खड़ा नहीं करके उन पर अहसान किया है जो हमारे पास यह आग्रह करने आए थे कि चूंकि वह राजनाथ सिंह से मुकाबला कर रहे हैं हमें उनका ख्याल रखना चाहिए। यह कांग्रेस पर एक एहसान है। सपा नेता ने कहा कि भाजपा चुनाव में अयोध्या में राममंदिर के निर्माण अ©र जम्मू-कश्मीर में धारा 370 हटाने की बात कहती है अ©र हमारी पार्टी कभी उसके साथ गठबंधन नहीं करेगी।
मोदी से मुलाकात पर घिरे नीतीश May 11, 10:41 pm

नई दिल्ली [जागरण न्यूज नेटवर्क]। बिहार के मुख्यमंत्री नीतीश कुमार की गुजरात के मुख्यमंत्री नरेंद्र मोदी से हंस-हंसकर बात और मुलाकात ने विपक्ष को एक नया हथियार दे दिया है। प्रधानमंत्री मनमोहन सिंह, राजद सुप्रीमो लालू प्रसाद यादव और लोजपा प्रमुख रामविलास पासवान ने सोमवार को नीतीश पर जमकर निशाना साधा। उनकी धर्मनिरपेक्ष छवि पर भी सवाल उठाए। लालू और पासवान ने तो राहुल गांधी पर भी ताने कसे।

प्रधानमंत्री मनमोहन सिंह ने कहा-'इसमें दो राय नहीं कि नीतीश कुमार की छवि धर्मनिरपेक्ष नेता की रही है। लेकिन रविवार को लुधियाना में राजग की रैली में नीतीश को नरेंद्र मोदी से हाथ मिलाते देखा तो मुझे भी शंका हो गई।' बाढ़ राहत मामले में बिहार के साथ भेदभाव संबंधी नीतीश कुमार के आरोप को ठीक 24 घंटे बाद प्रधानमंत्री ने गलत करार दे दिया। मनमोहन सिंह ने कहा-'नीतीश कुमार झूठ बोल रहे हैं। बाढ़ राहत के लिए केंद्र द्वारा बिहार को तत्काल दिए गए 1000 करोड़ रुपये खर्च नहीं किए गए। इसलिए केंद्र ने वापस मांग लिया।'

लुधियाना में राजग की रैली के दौरान नीतीश कुमार ने केंद्र पर आरोप जड़ा था कि बिहार में लोकसभा चुनाव संपन्न हो जाने के दस मिनट बाद ही केंद्र ने फैक्स भेजकर 1000 करोड़ रुपये वापस मांग लिए। केंद्र की सरकार बनाने में नीतीश से सहयोग की संभावना पर मनमोहन ने कहा कि चुनाव परिणाम आ जाने के बाद इस दिशा में सोचा जाएगा।

रेल मंत्री और राजद सुप्रीमो लालू प्रसाद ने सोमवार को पटना में कहा कि नीतीश कुमार को धर्मनिरपेक्षता का प्रमाण पत्र देने वाले कांग्रेस महासचिव राहुल गांधी सहित अन्य नेताओं को अब पछतावा हो रहा होगा। वे अब जान गए होंगे कि नीतीश कुमार कितने धर्मनिरपेक्ष हैं। राजद सुप्रीमो ने कहा-'मैं तो पहले से ही कहता आ रहा हूं कि नीतीश कुमार के पेट में दांत है।' लालू ने कहा कि नीतीश कुमार ने दिल्ली में राजग की पिछली रैली में यह कहकर हिस्सा लेने से इन्कार कर दिया था कि नरेंद्र मोदी के साथ एक मंच पर नहीं आना चाहते। लेकिन बिहार में चुनाव समाप्त होते ही लुधियाना रैली में वह अपनी असलियत में लौट आए हैं।

चंडीगढ़ में चुनावी रैली को संबोधित करते हुए लालू ने गुजरात दंगों का जिक्र किया और नरेंद्र मोदी को 'हत्यारा' करार दिया। चंडीगढ़ की रैली में ही लोजपा प्रमुख रामविलास पासवान ने भी लालू के अंदाज में ही तंज कसे और कहा कि नीतीश कुमार को धर्मनिरपेक्ष के रूप में प्रचारित करने वालों को चाहिए कि दो बार सोचें। उन्होंने कहा-'नीतीश कुमार अवसरवादिता की सारी सीमाएं तोड़ चुके हैं।'

प्रधानमंत्री से सेक्यूलर होने की सर्टिफिकेट की जरूरत नहीं: नीतीश

पटना [जागरण ब्यूरो]। बिहार के मुख्यमंत्री नीतीश कुमार ने कहा है कि अपने सेक्यूलर होने का सर्टिफिकेट उन्हें प्रधानमंत्री मनमोहन सिंह से लेने की जरूरत नही है। डा.मनमोहन सिंह सेक्युलर युनिवर्सिटीज के वाइस चांसलर नहीं है जिनसे सर्टिफिकेट लेना जरूरी है। किसी से हाथ मिला लेने भर से कोई व्यक्ति सांप्रदायिक नहीं हो जाता।

उन्होंने कहा कि आज जो लोग धर्मनिरपेक्ष होने का दावा करते फिर रहे हैं 16 मई को चुनाव परिणाम आने तक इंतजार करें। पता चल जाएगा कौन कितना सेक्युलर है।

गौरतलब है कि लुधियाना की एनडीए रैली के मंच पर गुजरात के मुख्यमंत्री नरेन्द्र मोदी से हाथ मिलाये जाने पर प्रधानमंत्री मनमोहन सिंह ने नीतीश कुमार की धर्मनिरपेक्ष नेता होने की छवि पर संदेह व्यक्त किया था।

नीतीश कुमार ने प्रधानमंत्री मनमोहन सिंह के कोसी राहत कार्य की राशि खर्च नही करने के बयान पर भी घोर आश्चर्य व्यक्त किया। उन्होंने कहा कि कोसी आपदा के समय बाढ़ पीड़ितों की राहत सहायता के लिए मिली राशि खर्च कर दी गई है। इसलिए इसे केंद्र सरकार को लौटाने का प्रश्न नहीं उठता है।

मुख्यमंत्री ने कहा कि कोसी के प्रलय के समय खुद प्रधानमंत्री आए और इसे राष्ट्रीय आपदा माना। उन्होंने 1000 करोड़ रुपए दिए। राहत में खर्च की गई राशि को भी गलत आंकड़ों के आधार पर सरप्लस बताकर 1000 करोड़ की राशि वापस मांगी जा रही है। यह अन्याय है और हम केंद्र की इस कार्रवाई के खिलाफ हर उस माध्यम का इस्तेमाल करेंगे जो संभव है। मुख्यमंत्री का इशारा इस मामले को सुप्रीम कोर्ट ले जाने की ओर था।

मुख्यमंत्री ने कहा कि ग्यारहवें वित्त आयोग की अनुशंसा के मुताबिक 1 अप्रैल 2005 को सीआरएफ का बैलेंस 554.97 करोड़ था जो राज्य की समेकित निधि का हिस्सा हो गया। केन्द्र उस राशि को बैलेंस मानते हुए कह रहा है कि इस वर्ष कोसी में बाढ़ राहत खर्च पर नियमत: 497 करोड़ की सहायता राशि बनती है। इसलिए इसे बकाए राशि मे एडजस्ट कर केंद्र ने जो एक हजार करोड़ की राशि दी थी उसे बिहार सरकार लौटाए।

मुख्यमंत्री ने कहा केंद्र सरकार ने वित्त आयोग की अनुशंसा को लागू कर दिया। इसके आधार पर जो राशि बिहार सरकार के समेकित निधि का हिस्सा हो गई उसे बचत बताकर हमारे साथ अन्याय किया जा रहा है।

मुख्यमंत्री ने कहा कि केंद्र सरकार को इस संबंध में सोमवार को पत्र भी भेजा गया है। जरूरत पड़ी तो वह खुद प्रधानमंत्री को पत्र लिखेंगे। उन्होंने कहा कि आज भी कोसी क्षेत्र में हजारों लोग अपनी रोजी रोटी के लिए जद्दोजहद कर रहे हैं।

कोसी के लिए केंद्र से मिले 1000 करोड़ खर्च: नीतीश

पटना [जागरण ब्यूरो]। कोसी के प्रलय से निपटने के लिए केंद्र सरकार से मिली 1000 करोड़ की सहायता राशि को लेकर केन्द्र और बिहार सरकार में ठन गई है। मुख्यमंत्री नीतीश कुमार ने सोमवार को प्रधानमंत्री मनमोहन सिंह के राशि खर्च नही करने के बयान पर घोर आश्चर्य व्यक्त किया। उन्होंने कहा कि कोसी आपदा के समय बाढ़ पीड़ितों की राहत सहायता के लिए मिली राशि खर्च कर दी गई है। इसलिए इसे केंद्र सरकार को लौटाने का प्रश्न नहीं उठता है।

मुख्यमंत्री ने कहा कि कोसी के प्रलय के समय खुद प्रधानमंत्री आए और इसे राष्ट्रीय आपदा माना। उन्होंने 1000 करोड़ रुपए दिए। हमने सुनामी या भुज में आए भूकम्प की तर्ज पर पुर्नवास के लिए 14800 करोड़ की सहायता मांगी। पुर्नवास की हमारी मांग पर गौर नहीं किया गया। राहत में खर्च की गई राशि को भी गलत आंकड़ों के आधार पर सरप्लस बताकर 1000 करोड़ की राशि वापस मांगी जा रही है। यह अन्याय है और हम केंद्र की इस कार्रवाई के खिलाफ हर उस माध्यम का इस्तेमाल करेंगे जो संभव है। मुख्यमंत्री का इशारा इस मामले को सुप्रीम कोर्ट ले जाने की ओर था।

मुख्यमंत्री ने कहा कि ग्यारहवें वित्त आयोग की अनुशंसा के मुताबिक 1 अप्रैल 2005 को सीआरएफ का बैलेंस 554.97 करोड़ था जो राज्य की समेकित निधि का हिस्सा हो गया। केन्द्र उस राशि को बैलेंस मानते हुए कह रहा है कि इस वर्ष कोसी में बाढ़ राहत खर्च पर नियमत: 497 करोड़ की सहायता राशि बनती है। इसलिए इसे बकाए राशि मे एडजस्ट कर केंद्र ने जो एक हजार करोड़ की राशि दी थी उसे बिहार सरकार लौटाए। मुख्यमंत्री ने कहा केंद्र सरकार ने वित्त आयोग की अनुशंसा को लागू कर दिया। इसके आधार पर जो राशि बिहार सरकार के समेकित निधि का हिस्सा हो गई उसे बचत बताकर हमारे साथ अन्याय किया जा रहा है।

मुख्यमंत्री ने कहा कि बिहार की जनता का हक किसी भी कीमत पर लिया जाएगा। केन्द्र सरकार को इस संबंध में सोमवार को पत्र भी भेजा गया है। जरूरत पड़ी तो वह खुद प्रधानमंत्री को पत्र लिखेंगे। उन्होंने कहा कि आज भी कोसी क्षेत्र में हजारों लोग अपनी रोजी रोटी के लिए जद्दोजहद कर रहे हैं।
नई दिल्ली, 11 अप्रीलः कहते हैं कि चोर करे चोरी उपर से सीना जोरी। इस समय दिल्ली के वातावरण में राजनितीज्ञों और पुलिस प्रशासन के दोमुहे कार्य क्रम से यही सबकुछ होरहा है। यही कारण है कि दोषी और असमाजिक तत्वों को आसानी से शरण मिल जाती है और निर्दाेष कानुन की चक्की में पिसने पर मजबूर होता है। पुलिस स्टेशनों में असमाजिक तत्वों की सांठगांठ होने के कारण आम जन्ता इनके द्वारा दी गई पिराओं को विवष होकर सहती है और अनदर ही अनदर घुटती रहती है। कुछ इसी प्रकार की समस्याओं से दोचार हैं त्रिलोकपुरी निवासी फैयाज (अल्ला रख्खा)। उनका कहना है कि गत 19 अप्रील को उनका साला मुरतजा निवासी 597 गली कुम्हारन दिल्ली-6 अपनी पत्नी मिन्हाज निशात एक अन्य व्यक्ती के साथ अपने मकान मालिक बाबु हाजी खान के घर से नकद एवं बहूमूल्य आभुषण लेकर फरार होगए और मुरतजा को मिनहाज ने कहीं छुपा कर रख दिया। उसके पश्चात उक्त महिला ने पहाड़गंज थाने में यह रिपोर्ट कराई कि उसके पति का उसी के जिजा अल्ला रख्खा ने अपहरण कर लिया है। यह महिला की अल्ला रख्खा को ब्लैकमेल करने की एक चाल है। जब संवाददाता ने महिला के विषय में छानबीन की तो पता चला कि यह औरत मुल्य रूप से पुणे की रहने वाली है और दिल्ली में कई स्थानों पर किराएदार के रूप में रहते हुए बहुत सारे व्यक्तियों को चुना लगा चुकी है। पटेलनगर स्थित प्रीती ज्वेलर के मालिक सरदार जी ने बताया कि उक्त महीला निशा नाम बताकर उनके पास किराए पर रहती थी और वह वहां से बहुत से लागों को अपनी ठगी का शिकार बनाकर फरार होगई। जबकि करोलबाग में ज्वेलरी की दुकान चला रही मंजुराम ने संवाददाता को बताया कि मिनहाज हमारे पास अपना हिन्दु नाम निशा बता कर काफी समय किराएदार के रूप में रही और 15000रु. नकद व 6 महीने का किराया लेकर फरार होगई। और लोगों से बात करने पर महिला के कई और रूप सामने आए। पता चला कि मिनहाज कई लड़कियों को फंसाकर देह व्यपार में भी लुप्त रही है। आश्चर्य की बात यह है कि जिस समय अल्लारख्खा उक्त महिला के खिलाफ शिकायत करने के लिए पहाड़गंज पुलिस स्टेशन पहुचे तो उस समय मिनहाज एस. एच. ओ. के पास ही बैठी थी। मगर उन लोगों को एस. एच. ओ. ने अपने आफिस से बाहर कर दिया और मिनहाज से बात करते रहे। जब इस तरह की हरकतें हमारे थानों में होने लगेंगी तो आम नागरिक किस की शरण में पनाह लेगा कहना मुश्किल है।

Sunday, May 10, 2009

Tuesday, May 5, 2009

sach


مجوزہ قانون سے شےر خواروں کا بھلا ہوگا ےا پولس کا ؟

مےم ضاد فضلی

اپنے ملک مےں عدلےہ قوم ووطن کی فلاح اور تحفظ کے حوالے سے کوئی حکم نافذ کرے اور اس سے پولس کو بھرپور فائدہ حاصل نہ ہو ممکن ہی نہےں ہے ۔ چونکہ عدالت کے ذرےعہ صادر کئے جانے والے احکامات کے نفاذ ےا اس پر عمل درآمد کرانے کی ذمہ داری مکمل طور پر پولس اور انتظامےہ کی ہوتی ہے۔ لہذا اس سے براہ راست پولس وانتظامےہ کا تعلق وابستہ ہوجاتا ہے ۔ ابھی دوروز قبل ہی، کمےشن برائے تحفظ حقوق اطفال نے تحفظ حقوق اطفال کے سلسلے مےں اےک نےا قانون پاس کےا ہے جس کے تحت بچوں کی پرورش و پرداخت ، اس کی ٹےکہ کاری اور تعلےمی امور کو ےقےنی بناےا جائے گا ۔ اپنے وطن عزےز کی بدقسمتی ےہ ہے کہ آزادی کے بعد سے اب تک ےہاں صرف نت نئے قوانےن اےجاد ہوتے رہے ہےں ، مگر جن فوائد کے حصول کے لئے نئے قانون وضع کئے گئے ےا سابقہ قوانےن مےں ترمےم عمل مےں آئی اس سے مذکورہ مقاصد حاصل ہوئے ےا نہےں ؟اس وقت ےہ سوال ہر شہری دماغ مےں اٹھ رہا ہے ، لےکن کہےں سے بھی اس کا جواب ملتا نظر نہےں آتا ۔ اےک سوال ےہ بھی ہے کہ اس قسم کے قانون وضع کرنے کی ضرورت آج ہی کےوں محسوس کی گئی ۔ کےا اس سے قبل وطن مےں پےدا ہونے والے بچوں کے حقوق نہےں بخشے گئے ےاان کی تعلےم ، صحت ، پرورش وپرداخت کے حقوق پہلے والدےن پر لازم نہےں تھے ؟ اس مجوزہ قانون سے چائلڈ کمےشن کون سا تاثر پےدا کرنا چاہ رہی ہے ےہ بھی اس وقت کا نہاےت ہی اہم سوال ہے ۔ اور ےہ کہ کےا اس قسم کے قوانےن پاس کرکے محکمہ تحفظ حقوق اطفال بچوں کے مستقبل کے سےچنا و سنوارنے مےں کامےاب ہو پائے گا ؟ ان سوالات کا مناسب حل ڈھونڈنے سے قبل ضروری ہے اس پوری خبر کو پڑھاجائے جس سے مذکورہ قانون سے متعلق معلومات فراہم کی گئےں ہے ۔ ہندی روزنامہ ہندوستان نے لکھا ہے کہ مرکزی کمےشن برائے تحفظ حقوق اطفال وخواتےن بچوں کی پرورش وپرداخت ،ٹےکہ کاری اور تعلےم سے متعلق قانون پاس کررہا ہے۔ جس کے تحت بچوں کے حقوق کی پامالی کی صورت مےںوالدےن پر ان کا قہر وغضب نازل ہوگا اور ان کی شدےد بز پرس ہوگی ۔ مجوزہ قانون مےں ماں کو درپےش مسائل کا بھی جائزہ لےا جائے گا ۔البتہ خبروں مےںاس قسم کا کوئی بھی تذکرہ نہےں ہے کہ اگر مالی پرےشانےوں کی وجہ سے ماں بچوں کو اس کی لازمی سہولےات فراہم نہےں کراپارہی ہوتو اس صورت مےں محکمہ اس کا کوئی تعاون کرے گا ےا نہےں ۔ اس مسئلہ پر سنجےدہ غور کرنے کے لئے ماہرےن کی اےک نشست گذشتہ پےر کے روز سے شروع کی گئی ہے، جس مےں ان تمام منصوبوں پر تبادلہ خےال کےا جائے گا ۔وزےر برائے ترقی خواتےن واطفال رےنوکا چودھری نے مندرجہ بالا نشست کا آغاز کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کے لئے اپنی پالےسےوں کو قانون بنالےنا تو آسان ہے مگر اس پر عمل کرانا مشکل ہے ۔ اس موقع پر رےنوکا چودھری نے پلاننگ کمےشن سے گےارہوےں منصوبہ کے تحت ترقی اطفال (آئی سی ڈ ی اےس ) کے تعلق سے بچوں کی پرورش وپرداخت پر خصوصی توجہ دےنے کی سفارش کی ہے ۔ اس مرحلے پر اتنا تو کہا ہی جاسکتا ہے کہ مذکورہ نکتوں پر توجہ دےنے اور والدےن کی باز پرس کرنے جےسے قوانےن ےا سفارشات سے اپنی سےاسی دکان کی چمک تو بڑ ھ سکتی ہے۔ مگر وطن عزےز کے ان 35فےصدی نونہالوں کا کچھ فائدہ ہونے والا نہےں جو اپنی ماﺅں کی غربت کی وجہ سے مناسب خوراک نہےں پاتے اور بھوک وفاقہ کشی سے نڈھال ہو کر بالاخر اےک دن دم توڑ دےتے ہےں ۔ غربت افلاس سے ٹوئے ہوئے ان شےرخواروں کے والدےن کی حالت کا اندازہ وہ کےا لگاسکتے ہےں ،جن کے بچے سونے کا چمچمہ منہ مےں دبائے دنےا مےں آتے ہےں ۔ رےنوکا جی بچوں کی فلاح وبہبود کا انحصاران کے والدےن کی اقتصادی صلاحےتوں پر ہوتا ہے ۔ آپ خود غور کرےں صرف2006مےں 18,90,000نوزائےدہ بچوں کی اموات ان کی ماﺅں کی گودوں کو سونی کرگئی تھےں۔ ےقےنا اس کی مکمل رپورٹ ملک کے تمام سفےد پوش قاتلوں کے پاس ہوگی، جو اس وقت پورے دےش کے سےاہ وسپےد کے مالک بنے ہوئے ہےں ۔ واضح کردوں کہ رپورٹ مےں ےہ بھی بتاےا گےا تھا کہ ہر 36وےں سکےنڈ مےں کم از کم اےک بچہ پےدا ہوتے ہی دم توڑ دےتا ہے ۔ اور ان مےں اکثرےت ان غرےب ماﺅں کی ہے جنہےں اپنے جگر گوشوں کی زندگی بچانے کے لئے چند کوڑی بھی دستےاب نہےں ہوتی ۔ اےسی صورت مےں بچوں کی تعلےم ، خوردونوش اور ٹےکہ کاری سے متعلق ان کے والدےن سے باز پرس کرنا اور اس پر سختی برتنے کے لئے کوئی قانون وضع کرنا محض پولس کی جےبےں گرم کرنے کا انتظام کرنا کہاجا سکتا ہے اور کچھ بھی نہےں تقرےبا ڈےر ھ سال قبل حکومت نے بچہ مزدوری کے خلاف قانون بناےا تھا اور اس پر سختی سے عمل کرانے کے لئے پولس کو متنبہ بھی کےا گےا تھا ۔ مگر اس سے کےا فائدہ ہوا جگ ظاہر ہے ۔ غرےب و بے بس ماﺅں کے جگر گوشوں کو مزدوری واستحصال اور ٹھےکےدارو مالکوں کی اذےتوں سے آزاد تو نہےں کےا جاسکا البتہ پولس و انتظامےہ کی ناجائز آمدنی کا اےک اور دروازہ کھل گےا ۔نتےجہ ےہ ہوا کہ ان تمام علاقوں مےں جہاں بچوں سے مزدوری کرائی جاتی ہے پولےس نے گلی گلی گھوم کر کارخانداروںاور ٹھےکےداروں کے ذرےعہ اپنا ہفتہ متعےن کرا لےا ،جہاں سے پچاسوں ہزار روپے ماہوار بآسانی ان کی جےبوں مےں پہنچ جاتا ہے ۔ اور ہماری نکمی انتظامےہ رشوت خوری کی بےماری مےں مبتلا ہو کر مزےد موتی ہوتی جارہی ہے ۔ اس وقت اگر بچوں کے حقوق کے تعلق سے والدےن کے خلاف کوئی قانون وضع کےا جارہا ہے تو انصاف کا تقاضہ ےہ ہے کہ ان امور پر خصوصی توجہ دی جائے کہ والدےن جن مجبورےوں کی وجہ سے اپنے لاڈلوں کو ان کے حقوق فراہم نہےں کراپارہے ہےں اس کی اصل وجہ کےا ہے ۔ اسی کے ساتھ ےہ نکتہ بھی محل نظر رہنا چاہئے کہ اس قانون سے غرےب والدےن پولس کے استحصال اور ان کی غےر قانونی زےادتےوں کا شکار نہ ہوں اور ان کے لئے ناجائز کمائی کی اےک اور راہ نہ کھلنے پائے ۔

سچ بول دوں

پہلے آئینہ میں منہ دیکھ لیجئے

میم ضادفضلی

جنگیں بھی عام طور پر معنوی جنگوں کی طرح تیغ و سنان کے ساتھ ساتھ اخلاقیات، وعدہ خلافی اور جھوٹ کی ملمع سازیوں سے عبارت ہوتی ہیں۔ اگر اس اصول کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کی حرکات و سکنات کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ یقین کرنا پڑتا ہے کہ اخلاقیات، سچائی اور وعدہ وفائی جیسی خوبےوں کا تقریبا یہاں وجودنہیں ہے۔ ایک سیاسی رہنما دوسرے پر کیچڑ اچھالتے ہوئے اس تصور سے بھی بے فکر ہوجاتا ہے کہ وہ دوسروں کے پھٹے میں ٹانگ اڑانے سے پہلے لمحہ بھر کے لئے اپنے گریبان میں بھی جھانک لے، تاکہ کچھ بھی کہنے سے قبل ان کے پاس اپنے بچاو¿ کا سامان دستیاب ہو۔ مگر اس کا کیا کیجئے گا کہ سیاسی رقابت میں آدمی ظاہری طور پر ہی اندھا نہیں ہوتا ،بلکہ انسانیت کی حدود کو پامال کرتے ہوئے عقل سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غیر مناسب نہیں ہوگا کہ سیاسی جنگ میں پنجہ آزمائی سے قبل ایک لیڈر کو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے انسانیت کا چولا اتاردینا ضروری ہے۔ حتی کہ اسے اخلاقیات سے دشمنی کرنی پڑتی ہے، مروت و مودت کو ذہن و فکر سے کھرچ کھرچ کر ہمیشہ کے لئے مٹادینا ہوتا ہے ورنہ وہ ایک کامیاب نیتا یا قومی رہنما کی صف میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔ موجودہ انتخابی دنگل میں بی جے پی کے سینئر لیڈران اپنے حریف پر جس قسم کی بہتان بازیاں اور بے ہودہ الزامات کے ڈونگرے برسار ہے ہیں، اس سے کم از کم یہی محسوس ہوتا ہے کہ مذکورہ جماعت کے سیاسی شعبدہ بازوں نے ہر جھوٹ کو خم ٹھونک کر برسرعام ہانکنے کی قسم کھارکھی ہے۔ کسی کا دعوی ہے کہ یوپی اے سرکار دہشت گردی پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے اور پورا ملک دہشت کی زد پر ہے۔ لہٰذا عوام یوپی اے بالخصوص کانگریس کو سیاسی نقشہ سے حرف غلط کی طرح مٹا ڈالےں اور شتر بے مہار کی طرح اپنے ووٹ بی جے پی کی جھولی میں ڈال دیں۔حالانکہ ملک میں ناانصافی اورمنصوبہ بندطریقے سے دہشت گردی کا جو سلسلہ این ڈی اے کے دور حکومت میں شروع ہوا تھا وہ یوپی اے کے زمانہ میں آنجہانی ہیمنت کرکرے کی تحقیقات کے بعد ہی رکنے میں آیا۔جبکہ انہیں حقائق کوسامنے لانے کی پاداش میںفرقہ پرست گلیاروں سے ان پرکیچڑ بھی اچھالے گئے تھے۔ اگر اس وقت ماہرین اس امر پر انگشت نمائی کر رہے ہیں اور کہیں نہ کہیں ان کا قلم فرقہ پرست طاقتوں کو مشکوک قرار دینے میں اپنی سیاہی خرچ کر رہا ہے توغلط نہیں ہے، واقعات بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ مالیگاو¿ں دھماکوں میں شامل چہروں کے بے نقاب ہوتے ہی دہشت گردانہ حملوں کا سلسلہ تقریباً خاموش ہوگیا۔ اب اگر ان حقائق کے بعد بھی بی جے پی دوسروں پر کیچڑ اچھالتی ہے تو اسے ڈھٹائی کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے۔ بھگوابریگیڈ اس وقت ملک میں جس طرح سے سیکولر جماعتوں پر الزام تراشیوں اور بہتانوں کا سلسلہ دراز کئے ہوئے ہے اسے دیکھ کر کہنا پڑتا ہے کہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔ اس مرحلہ پر بی جے پی سے یہ سوال بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ دہشت گردانہ حملوں کے مقابلے بھوک اور فاقہ کشی کی وجہ سے ملک میں زیادہ موتیں ہورہی ہیں۔ پریشان حال کسان زندگی سے مایوس ہوکر موت کو گلے لگا رہے ہیں۔ آخر وہ ان کی بھلائی کے لئے کوئی مثبت پروگرام سامنے کیوں نہیں لاتی۔ دوسری جانب مشرقی ہند کی ریاست مغربی بنگال میں برسراقتدار سی پی ایم کے لیڈران کی زبانوں سے اس وقت کانگریس کے تعلق سے جس قسم کی باتیں سنائی دے رہی ہیں۔ اس سے یقین ہوتا ہے کہ شاید سی پی ایم نے بھی عوام کو بے وقوف بنا کر منصب و اقتدار تک پہنچنے کے لئے اپنی اخلاقیات اور انسانیت کو طاق پر رکھ دیا ہے اوراپنی بقاکیلئے فرقہ پرستوں کی ڈگرکواپناناان کی مجبوری بن چکی ہے۔ گزشتہ 25اپریل کو نئی دہلی میں سی پی ایم پولت بیورو کے اہم رکن سیتارام یچوری نے راہل گاندھی کے ایک بیان پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ راہل گاندھی اب اسی زبان کا استعمال کرنے لگے ہیں جو زبان آج سے تقریباً 23-22 برس قبل ان کے والد آنجہانی راجیو گاندھی نے استعمال کی تھی۔ واضح رہے کہ راہل گاندھی نے کولکاتہ میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ مغربی بنگال کا یہ تاریخی شہر ریاستی حکومت کی کج فہمیوں اور ترقی مخالف سوچوں کی وجہ سے عہد پارینہ کا ایک حصہ بنتا جارہا ہے۔ انہوں نے بنگال کی قابل رحم صورت حال پر روشنی ڈالتے ہوئے عوام کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی تھی ،جو سی پی ایم لیڈروں کے لئے ناگوار خاطر ثابت ہوئی اور انہوں نے اس کے جواب میں اس ناکام بلی کی طرح بہکناشروع کردیا جس کے بارے میں مشہور ہے کہ ”کھسیانی بلی کھمبا نوچے“۔ حقیقت یہ ہے کہ بنگال کی تباہ حالی پر انگشت نمائی کرکے راہل گاندھی نے کوئی برا بھی نہیں کیا تھا۔ بلکہ وہ عین ان سچائیوں کا پردہ فاش کر رہے تھے جو ساری دنیا کی نگاہوں میں روز روشن سے زیادہ واضح ہوچکی ہیں۔ مغربی بنگال میں تقریباً 35برسوں سے سی پی ایم برسراقتدار ہے اور اس دوران اس نے ریاست کے باشندوں کو طبقاتی حدود میں بانٹنے کی جو شرم ناک کوشش کی ہے اسے دنیا جان چکی ہے۔ راجیندر سچر کمیٹی رپورٹ کے ذریعہ یہ بات اب گھر گھر تک پہنچ چکی ہے کہ کس طرح بنگال کی مارکسوادی کمیونسٹ نے ریاست کو طبقاتی حدود میں بانٹ کر کمزور کرنے کی حماقت کی ہے۔ انگریزی سامراج کے ہندوستان سے رخصت ہوتے وقت ملک کی سب سے مضبوط اور خوشحال ریاست آج تباہی کے اس دہانے پر پہنچ چکی ہے ،جہاں آدمی کی فی کس یومیہ آمدنی محض 40روپے پر سمٹ کر رہ گئی ہے۔ یہ کیسی غریبوں کی ہمدرد اور مسیحا سرکار ہے جس نے ریاست کے تقریباً 80فیصد کارخانوں کی چمنیاں سرد کر دی، جس سے ہزاروں مزدوروں کے گھر کے چولہے روشن ہوتے تھے۔ آج آپ مغربی بنگال کی سرحد میں قدم رکھیں تو آسنسول سے دارالحکومت کلکتہ تک ریلوے شاہراہ کے دونوں جانب سینکڑوں کارخانے دیکھ سکتے ہیں جن کی چمنیاں زمانے سے خاموش ہیں اور ان کے کل پرزے زنگ آلود ہوکر بے نام ونشان ہورہے ہیں۔ جب کہ ان میں کام کر رہے ہزاروں مزدور کشکول گدائی اٹھائے دردر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ بیشتر نے پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے نقل مکانی کرکے ملک کی دیگر ریاستوں میں اپنے آپ کو آباد کر لیا ہے۔ اسی کے ساتھ مذہب بیزار اور خود کو انسانیت نواز باور کرانے والی سی پی ایم کے انصاف اور عدل کا کچا چٹھا حالیہ سچر رپورٹ نے کھول کر رکھ دیا ہے۔ جس جماعت پر مغربی بنگال کے 30فیصد مسلمانوں نے بھرپور اعتماد کرتے ہوئے پوری حمایت اور قوت نچھاور کر دی تھی، اس کے ساتھ اس نے کیا سلوک کیا وہ اب کسی کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں ہے۔ رپورٹ میں درج مغربی بنگال کے مسلمانوں کی دردناک صورت حال کا مطالعہ کیجئے اور سی پی ایم کی انسانیت دشمن سوچوں کا ماتم کیجئے۔ آج بھی دیگر ریاستوں کے مقابلے یہاں کامسلمان سب سے پیچھے کر دیا گیا ہے۔ حالات یہ ہےں کہ مسلمانوں کو منصوبہ بند سازش کے تحت قومی دھارے سے الگ تھلگ کردینے کی ناپاک کوشش جاری ہے۔ جسے انسانیت کے نام پر بدنما داغ کے علاوہ کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ غور کیجئے جس ریاست میں مسلمانوں کی آبادی30فیصد ہے وہاں سرکاری ملازمتوںمیں ان کا حصہ 4فیصد سے بھی کم ہے۔ دیگر شعبہ حیات میں بھی ان کے ساتھ حکومت کے ذریعہ ایسا ہی سلوک روا رکھا گیا ہے۔ نندی گرام کے مسلمانوں کو مغربی بنگال کی سفاک پولس کے ذریعہ تہہ تیغ کرنے اور ماو¿ں بہنوں کی آبرو کو سی پی ایم کیڈروں کے ذریعہ سر عام نوچنے اور بھنبھوڑنے کی خونچکا داستان کو دنیا کیسے بھول سکتی ہے۔ اس کے باوجود اگر سی پی ایم یہ توقع رکھتی ہے کہ اس کے تمام فیصلے انصاف پر مبنی اور عوام کے مفاد میں ہیں تو اسے سچائی کی عصمت دری کے علاوہ کچھ بھی نہیں کہا

09868093558